حضرت سید شاہ مصطفےٰ حیدر حسن میاں قادری برکاتی
حضرت سید شاہ مصطفےٰ حیدر حسن میاں قادری برکاتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کا نام حضرت سید شاہ مصطفےٰ حیدر حسن میاں، آپ کا لقب احسن العلماء، سراج العقبیٰ۔ آپ کی ولادت، ۱۰ شعبان المعظم ۱۳۴۵ھ مطابق ۱۳ فروری ۱۹۳۷ء کو ہوئی۔
ولادت کی کیفیت:
سر سے پیر تک ایک قدرتی غلاف میں لپٹے ہوئے تھے۔ جس کے اوپری حصے پر تاج کی شکل بنی ہوئی تھی۔
آپ کی تعلیم:
قرآن پاک والدہ محترمہ اور حافظہ عند الرحمن صاحب سے حفظ کیا اور اردو کی ابتدائی مشق منشی سعید الرحمن مار ہروی سے کی اور اعلیٰ تعلیم حضرت تاج العلماء، شیخ العلمائی مولانا غلام جیلانی گھوسی، مفتی خلیل خاں مارہروی، مولانا حشمت علی خاں صاحب پیلی بھیت۔
آپ کی تصانیف:
۱۔ |
اہل اللہ فی تفسیر اہل الغیر اللہ |
۲۔ |
دوائے دل |
۳۔ |
مدائخ مرشد |
۴۔ |
اہل سنت کی آواز کا احیا |
۵۔ |
۱۳۷۳ھ کے تبلیغی دورے |
۶۔ |
مختلف مضامین |
آپ کے چند مشہور خلفا کے اسما چاروں صاحبزادگان کے علاوہ۔
۱۔ |
حضرت ضیاء الدین ترمزی کلاپی شریف |
۲۔ |
حضرت مفتی خلیل صاحب پاکستان |
۳۔ |
حضرت علامہ مفتی شریف الحق صاحب امجدی گھسی |
۴۔ |
تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی اختر رضا خاں ازہری صاحب بریلی شریف |
۵۔ |
حضرت مولانا سبحان رضا خاں صاحب بریلی شریف |
۶۔ |
حضرت صوفی نظام الدین صاحب امر ڈوبھا |
۷۔ |
بحرالعلوم حضرت علامہ مفتی عبد المنان اعظمی صاحب مبارک پور |
۸۔ |
حضرت علامہ مفتی جلال الدین صاحب امجدی |
۹۔ |
حضرت علامہ مفتی مظفر احمد صاحب داتا گنجوی |
۱۰۔ |
حضرت قادری امنت رسول صاحب پیلی بھیتی |
۱۱۔ |
حضرت مولانا جمال رضا صاحب بریلی شریف |
|
آپ کا وصال:
۱۵ ربیع الثانی ۱۴۱۶ھ مطابق ۱۱ ستمبر ۱۹۹۵ء میں ہوا۔
حضور حسن العلماء کا احسن خلق:
خانقاہ برکاتیہ کے مشائخ عظام اور خدام میں ایک خاص صفت پائی جاتی ہے اور وہ ہے اخلاق حسنہ۔ دیار برکات میں بھی حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ مہمان نوازی کے ساتھ روحانی جام بھی پینے کو ملا۔ ہم نے دیگر خانقاہوں کا محاسبہ کیا ہے۔ مگر خانقاہ برکاتیہ کے افراد جس طرح اپنے مریدین، محبین کی اصلاح فرماتے ہیں اس کا جواب ہی نہیں۔ گلشن برکات کے مہکتے پھول حضور احسن العلماء سید حیدر حسن میاں علیہ الرحمہ کی ذات مقدسہ ایک عالمگیر شخصیت تھی۔ آپ سیرت و کردار میں اپنے نا نا جان رسول کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کے عکس جمیل تھے۔ عبادت دریافت، تقویٰ و پرہیز گاری، احقاق حق ابطال اور تصوف میں آپ کی ذات پاک ایک نمایاں حیثیت کی مالک تھی۔ مہمان نوازی میں آپ کی مثال نہیں ملتی۔ سرکار احسن العلماء علیہ الرحمہ کی وہ ذات گرامی ہے جو بے شمار فضائل و مناقب کی حامل اور اوصاف حمیدہ کی جامع ہے۔ آپ اپنے آباؤ اجداد کے سچے جانشین ہونے کے ساتھ ساتھ گلشن برکات کے با عمل مبلغ ناشر تھے۔ آپ کی یہ خاص عادت طیبہ تھی کہ آپ کی مجلس میں جتنے لوگ بھی ہوتے سب سے ملاقات کرتے اور اپنے اسلاف کے واقعات بیان فرماتے اور ان پر سختی کے ساتھ عمل کرنے کی تلقین فرماتے۔ جیسا کہ آپ کے جدا اعلیٰ شمس مارہرہ حضور اچھے میاں علیہ الرحمہ اپنے مریدین محبین کی روحانی تربیت فرمایا کرتے تھے۔
آپ کے چند ملفوظات:
- جناب رسالت مآب ﷺ پیروی ہر چھوٹے بڑے کام میں بہت کوشش سے اپنے اوپر لازم جانے کہ محبوبی کا درجہ اسی سے ملتا ہے۔
- اپنے پیر و مرشد کو اپنے حق میں کل جہاں سے شیوخ سے افضل جانیں کہ اس کا حکم اس کے حق میں بحیثیت تبلیغ حکم نبوی ﷺ ہے اور اس کے قول و فعل کو ہر گز ضعیف و حقیر نہ سمجھے۔
- مرید اپنا اختیار اپنے مرشد ہی کے ہاتھ میں رکھے اور خود اس کے سامنے ایسا ہو جائے جیسے میت نہلانے والے کے ہاتھوں میں۔ اور کوئی کام ظاہر کا ہو یا باطن کا بغیر مرشد نہ کرے۔
سبحان اللہ! مذکورہ بالا اقوال مریدین کے حق میں توشۂ آخرت ہیں۔ صحیح معنوں میں مرید وہی ہے جو اپنے شیخ کی باتوں پر عمل کرے۔
ایک اہم واقعہ:
ضلع پیلی بھیت میں ایک قصبہ پورن پور ہے۔ اس قصبہ سے چار کلو میٹر پر ایک بستی شیر پور ہے۔ الحمد اللہ! اس بستی میں سب سنی صحیح العقیدہ ہی رہتے ہیں۔ اسی شیر پور میں ایک برکاتی دیوانہ جناب رفیق قریشی صاحب بھی رہتے ہیں۔ ان کا کچھ اس طرح بیان ہے۔ تقریباً پچیس سال کا عرصہ ہو گیا۔ رفیق بھائی مرید ہونے کی نیت سے پہلی با رخانقاہ برکاتیہ میں حاضر ہوئے۔ عرس کا موقع تھا۔ خانقاہ برکاتیہ کی روحانیت دیکھ کر دیوانگی میں اور اضافہ ہو گیا۔ پہلی بار سجادہ حضور سید حیدر حسن میاں علیہ الرحمہ کو دیکھا کہ اپنے مریدین اور محبین سے محبت کے ساتھ مصافحہ و معانقہ اور خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات فرما رہے ہیں۔ یہ ادا ان کے دل کو بھا گئی۔ خانقاہ کی رسم کے مطابق خرقہ پوشی کی رسم کا وقت آگیا۔ لوگ اچھل اچھل کر برکاتی دولھا اور تبرّکات کی زیارت کر رہے ہیں۔ کہ اچانک لوگوں میں شور مچ گیا کہ کوئی کنویں میں گر گیا ہے۔ رفیق بھائی برکاتی کنویں میں گر گئے تھے۔ جب یہ خبر سرکار احسن العلماء کو ہوئی تو آپ نے فوراً جلوس کو روکنے کا حکم دیا اور فوراً دعا فرمانے لگے۔ اور فرمایا کہ جب تک ہمارے مہمان کو راحت و سکون نہ حاصل ہوجائے، جلوس کو آگے نہ بڑھایا جائے۔ جب رفیق صاحب کو کنویں سے باہر نکالا گیا تو لوگوں نے دیکھا وہ بخیر و عافیت ہیں اور ان کے بدن پر کہیں بھی چوٹ کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔
بلائیں ٹال دیتی ہے دُعا روشن ضمیروں کی
سبحان اللہ! یہ حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کی دعا کا اثر تھا کہ کنویں میں گرنے کے باوجود بھی محفوظ رہے۔ اس واقعہ کو جناب رفیق بھائی نے فقیر قادری سے خود بیان فرمایا۔ جس کے گواہ حضرت مولانا یعقوب حسین صاحب برکاتی اور حافظ محمد ندیم خاں صاحب برکاتی ہیں۔
مولائے کریم ہم سب کو سرکار احسن العلماء علیہ الرحمہ کے ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق بخشنے اور آپ کے شہزادگان کو مسلک و مذہب کی خوب خوب قیادت کرنے توفیقِ رفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔
فقط احقر (مفتی) نور محمد حسنی قادری
خادم جامعہ خدیجہ، پون پور
پیش کردہ:
جناب لیاقت حسین برکاتی عرف بھورا بھائی بَس والے، پورن پور ضلع پیلی بھیت
|