حضرت مالک بن دینار
حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ خواجہ حسن بصری کے ہم مجلس اور محب تھے۔ صوفیاء میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ اگرچہ غلام زادے تھے۔ مگر دو جہان کی خواہشات سے آزاد تھے۔
ایک بار حضرت مالک کی کشتی میں سفر سمندر کر رہے تھے۔ سمندر کے درمیان پہنچ کر ملاحوں نے مسافروں سے کرایہ وصول کرنا شروع کیا۔ حضرت مالک کے پاس کرایہ نہیں تھا۔ ملاحوں نے لڑنا جھگڑنا شروع کیا۔ اور حضرت مالک کو اتنا مارا کہ آپ بے ہوش ہوگئے۔ ہوش میں آئے تو پھر کرایہ کا مطالبہ کرنے لگے اور دھمکی دی کہ اگر تم کرایہ ادا نہ کرو گے تو تمہیں سمندر میں پھینک دیا جائے گا۔ آپ نے سمندر پر ایک نگاہ ڈالی تو پانی میں ایک ارتعاش پیدا ہوا ہزاروں مچھلیاں اپنے مونہہ میں سونے کے دینار پکڑے ظاہر ہوئیں۔ حضرت مالک نے ہاتھ بڑھا کر ایک مچھلی کے منہ سے سونے کا دینار پکڑ کر ملاحوں کو دیا۔ ملاح اس صورت حال کو دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے اور آپ کے قدموں میں آ گرے آپ چپ رہے اور کشتی سے باہر نکل کر پانی پر چلنے لگے۔ اسی دن سے آپ کا نام مالک دینار پڑ گیا۔
آپ کی توبہ کا واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت معاویہ نے دمشق میں ایک مسجد تعمیر کروائی۔ اور بہت سی املاک مسجد کے لیے وقف کردیں۔ اور امام مسجد کے لیے خاص وظیفہ مقرر کیا۔ حضرت مالک دینا رکو لالچ نے آگھیرا۔ دل میں خیال آیا کہ اس مسجد کا متولی بنا جائے تو بہت سا مال و دولت ہاتھ آجائے گا۔ چنانچہ ریاکاری کے طور پر مسجد کے ایک کونے میں معتکف ہوگئے اس طرح آپ کی پارسائی اور عبادت گزاری کی شہرت سارے شہر میں پھیل گئی۔ لوگوں نے حضرت مالک کو ہی مسجد کی امامت و تولیت کے لیے مقرر کرنے پر زور دیا۔ اس طرح ایک سال تک عبادت میں مشغول رہے۔ صبح و شام عبادت کرتے رہتے مگر اُن کے دل سے آواز آئی کہ تم منافق ہو۔ ایک سال بعد اپنے حجرے سے باہر نکلے تو غیب سے ایک آواز آئی۔ یا مالک! یا مَالک۔ اَنْتَ لا تَتوب! (اے مالک وہ کب وقت آئے گا کہ تو توبہ کرے گا؟) یہ آواز سنتے ہی عالم حیرت میں حجرہ میں واپس آگئے۔ اور پھر خلوص دل کے ساتھ عبادت کرنے لگے، دوسرے دن شہر کے لوگ مسجد میں جمع ہوگئے اور سابقہ امام مسجد کے خلاف ایک تہمت لگاتے ہوئے شور و غل کرنے لگے۔ اور اسے نہایت بے عزت کرکے مسجد سے نکال دیا۔ حضرت امام مالک سے التجا کی کہ وہ مسجد کی امامت قبول فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ، پورا ایک سال منافقانہ عبادت کرتا رہا ہوں، کسی نے بات تک نہیں کی۔ ایک دن خلوص دل سے سر بہ سجدہ ہوا ہوں تو لوگ مجھے امامت اور تولیّت کے لیے منتخب کر رہے ہیں۔ لوگوں کو کہا بخدا۔ میں یہ کام نہیں کروں گا۔ مسجد کے حجرے سے نکلے اور صحراء و بیابان میں جاکر اللہ کی عبادت میں مشغول ہوگئے۔
ایک دفعہ حضرت مالک دینار ایک دہریے سے مناظرہ کرنے لگے۔ یہ مناظرہ طویل ہوا تو حکام وقت نے فیصلہ کیا کہ دونوں کا ہاتھ ایک دوسرے کے ہاتھ کے ساتھ باندھ دیا جائے اور دونوں کو آگ میں پھینک دیا جائے جو جل جائے وہ جھوٹ اہے ایسا ہی کیا گیا دونوں میں سے کسی ایک کو کوئی تکلیف نہ پہنچی۔ حتی کہ آگ ٹھنڈی ہوگئی۔ حضرت مالک بڑے افسردہ ہوئے۔ گھر گئے سجدہ میں سر رکھ کر روئے کہ اللہ میں اس دہریے بے دین کے برابر ہوگیا۔ آواز آئی کہ اس بات سے افسردہ خاطر نہ ہونا۔ دراصل دہریے کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں تھا۔ جس کی وجہ سے آگ ٹھنڈی ہوگئی اگر وہ اکیلا آگ میں آتا تو جل کر خاک ہوجاتا۔
ایک دن حضرت مالک دینار بیماری کے عالم میں بازار سے گزر رہے تھے۔ آپ سے چلا نہیں جاتا تھا۔ ناگاہ امیر شہر کا وہاں سے گزر ہوا۔ اس کے ملازموں نے سب لوگوں کو ڈنڈے مار مار کر راستہ صاف کیا۔ ایک ملازم نے حضرت مالک کو بھی ایک ڈنڈا دے مارا۔ آپ نے فرمایا: قطع اللہ یدیک (اللہ تمہارے ہاتھ توڑ دے) دوسرے روز ہی اسے چوری کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ اور اس کے ہاتھ کاٹ دیے گئے۔ آپ کی وفات ۱۲۸ھ میں ہوئی بعض تذکرہ نگاروں نے سالِ وفات ۱۳۷ھ لکھا ہے۔
جنابِ مالک دینار مالک دو جہاں |
کہ میر مملکت و شاہ ملک دین آمد |
(خزینۃ الاصفیاء)