حضرت سیدنا شیخ عبدالواحد تمیمی
حضرت سیدنا شیخ عبدالواحد تمیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
۲۶ جمادی الثانی ۴۲۵ھ / ۱۰۳۳ھ
اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ وَعَلَی الْمَولی الشیخ اَبِی الْفَضْلِ عَبْدِ الوَاحِدِ التَّمِیْمِیْ رضِی اَللہ تعالیٰ عنہ
بہر شبلی شیر حق دنیا کے کتوں سے بچا
ایک کا رکھ عبدِ واحد بے ریا کے واسطے
ولادت شریف:
ولادت کی کوئی صراحت افسوس کہ نہ مل سکی،
اسم شریف و کنیت:
آپ کا نام نامی و اسم گرامی عبدالواحد تمیمی اور کنیت ابوالفضل ہے[1]۔
والد ماجد:
آپ فرزند دلبند حضرت شیخ عبدالعزیز تمیمی بن حارث بن اسد رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ہیں[2]۔
تمیمی کی وجہ تسمیہ:
آپ کے تمیمی ہونے کہ وجہ یہ ہے کہ عرب میں بنی تمیم ایک قبیلہ ہے اور آپ اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اسی سبب سے آپ کو تمیمی کہا جانے لگا اور اسی نام سے آپ مشہور بھی ہوئی۔
آپ کے شیخ طریقت:
آپ کے شیخ طریقت حضرت ابوبکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جس کے فیض صحبت میں آپ نے راہ سلوک کی منزلیں طے فرمائیں اور خلافت سے سرفراز ہوئے اور قلائد الجواہر و فتح المبین وغیرہ کتابوں میں یہی وجہ ہے کہ آپ نے حضرت شیخ ابوبکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خرزہ زیب تن فرمایا مگر ایک قول یہ ہے کہ آپ نے بیعت و خلافت اپنے والد ماجد ہی سے حاصل فرمایا چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ۱۱۷۶ھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوالفضل عبدالواحد نے خرقہ پہنا اور اپنے والد ماجد حضرت شیخ عبدالعزیز بن حارث تمیمی سے انہوں نے خرقہ پہنا شیخ ابوبکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے اور یہی ترتیب اکثر شجرات عالیہ قادریہ میں پائی جاتی ہے[3]۔ کہ آپ مرید و خلیفہ اپنے والد بزرگوار کے تھے اور بعد وفات اپنے پدر بزرگوار کے حضرت ابوبکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف (جو آپ کے والد ماجد کے شیخ طریقت تھے) رجوع فرمایا اور ان کی مسند خلافت پر رونق بخشی اور آپ کے والد ماجد کا وصال ۳۳۲ھ میں اپنے شیخ طریقت کی حیات ہی میں ہوگیا[4]۔
فضائل:
خادم شریعت، سالک طریقت، واقف حقیقت امام اہلسنت حضرت شیخ ابوالفضل عبدالواحد تمیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ سلسلہ عالیہ قادریہ ، رضویہ کے تیرہویں امام و شیخ طریقت ہیں۔ آپ اپنے زمانے کے ممتازترین مشائخ سے تھے آپ کو بیعت طریقت حضرت شیخ ابوبکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حاصل ہے اور آپ کے والد ماجد شیخ عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی انہیں سے حاصل ہے۔ اور آپ کے مرشد طریقت و آقائے نعمت حضرت ابوالقاسم نصیر آبادی کو بھی بیعت طریقت حضرت شیخ ابو بکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے حاصل تھی۔ آپ ائمہ اربعہ میں سےحضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقلد تھے آپ سے بے شمار خلقت نے راہ ہدایت پائی حرمین شریفین کے کئی دورے کئے اور بلاعرب وعجم کی اکثر سیاحت کی۔
عادات و صفات:
آپ کے عادات و صفات حضرت شیخ ابوبکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عادات و صفات کے مطابق تھے، عبادت و ریاضت و تقویٰ و طہارت میں یگاہ روزگار تھے۔ شریعت مطہرہ کی سعی بلیغ فرمائی ارو سنت نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محافظت ہر آن و ہر لمحہ فرماتے تھے[5]۔
مسند رشد وہدایت:
آپ اپنے مرشد کامل و پیر طریقت کے وصال کے بعد تقریباً نوے سال تک مسند رشد و ہدایت پر فائز رہے ، اور اس درمیان میں اپنے پیر طریقت کے سلسلے کوکافی فروغ بخشا اور خلق کثیر کو ہدایت ظاہری و باطنی سے مرصع فرما کر علم الٰہی کا مستحق بنایا اور مجاہدین اسلام کی ایک عظیم فوج کو تیار کرکے ان کو رشد وہدایت کا مبلغ و محافظ بنایا[6]۔ آپ نے شریعت و طریقت کی ترویج میں نمایاں کردار پیش کیا۔
تاریخ وصال:
آپ کا وصال ۲۶ جمادی الآخر بروز جمعہ ۴۲۵ھ میں ہوا۔ اس وقت القائم بامراللہ خلیفہ عباسی کا دور خلافت تھا[7]۔
آپ کا خلفاء
حضرت عبدالواحد تمیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلفاء کی تفصیل از حد تلاش کے بعد بھی نہ مل سکی البتہ صرف ایک خلیفہ کے تذکرے اکثر کتب میں ملتے ہیں اور وہ حضرت شیخ محمد بن عبداللہ طرطوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
تاریخ وصال
جناب عبدالواحد شیخ اکبر |
کہ روشن بودہم چوں ماں انور |
مزار مبارک:
آپ کا مزار مبارک شہر بغداد میں حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقبرہ شریف میں ہے۔
[1] مسالک الساکین ج۱ ص ۳۲۷، وانوار صوفیہ ۱۱۸
[2] مسالک السالکین ج۱ ، ص ۳۲۷
[3] مسالک السالکین ج۱ ص ۳۲۷ و انوار صوفیہ ۱۱۸
[4] الانتباہ فی سلاسل اولیاء
[5] خزینۃ الاصفیاء ج۱ ص ۸۹
[6] خزینۃ الاصفیاء ج۱، ص ۸۹ ومسالک السالکین ج ۱ ص ۳۲۷
[7] خزینۃ الاصفیاء ج۱ ، ص ۸۹ و شجرۃ الکاملین ص ۲۰۶
[8] مسالک السالکین ج ۱ ص، ۳۲۷