حضرت سیدنا امام حسن عسکری

حضرت سیدنا امام حسن عسکری رحمۃ اللہ علیہ

آں رافع اعلام ہدایت ناصب رایات ولایت، کاشف اسرار خفی وجلی امام ابو محمد حسن بن علی رضی اللہ عنہٗ ائمہ اہل بیت کے گیارہویں امام ہیں۔

آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی سوسن تھا۔ آپ کی ولادت بروز دو شنبہ بتاریخ دس ماہ ربیع الاوّل یا ربیع الآخر ۲۳۱ھ اور دوسری روایت کے مطابق ۱۳۲ھ مدینہ میںواقعہ ہوئی۔ آپ کا اسم مبارک اور کنیت حضرت امامحسن بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرح ہے۔ آپ کے القاب ذکی، عسکری، خالص، اور سراج ہیں۔ آپ کی عمر  اپنےوالد ماجدحضرت امام نقی کے وصال کے وقت ۲۳سال تھی اور دوسری روایت کے مطابق ۲۲سالت ھیکہ مسند امامت پر بیٹھے۔ آپ کے کرامات اور کمالات بے شمار ہیں۔

شواہد النبوت میں لکھا ہے کہ محمد بن ابراہیم بن موسیٰ بن جعفر روایت کرتے ہیں کہ ہماری روزی بہت تنگ تھی۔ میرے والد نے کہا آؤ امام ابو محمد عسکری کی خدمت میں چلتے ہیں۔ اگر انہوں نے ہمیں پانچ سو درہم دے دیئے تو خورد نوش کا سامان خرید کر کوہستان میں چلے جائیں گے اور میرے دل میں خیال آیا ک ہ اگر انہوں نے مجھے  تین ہزار درہم دے دیئے تو میری ضروریات پوری ہوجائیں گی۔ چنانچہ ہم آپ کے گھر کے دروزہ پر پہنچ گئے۔ ہم وہاں پہنچے ہی تھے کہ اندر سے ایک خادم نے آکر کہا کہ علی بن ابراہیم اور اس کا بیٹا محمد اندر آجائیں ہم نے جاکر سلام عرض کیا۔ آپ نے رمایا اے علی اتنی دیر تم کس وجہ سے ہمارے پاس نہیں آئے۔ میرے والد نے عرض کیا کہ یا سیدی! مجھے شرم آتی تھی کہ آپ کی خدمت میں آکر یہ عرض کرتا۔ اس کے بعد جب ہم رخصت ہونے لگے تو خادم نے میرے والد کوپانچ سو درہم کا تھیلہ اور مجھے تین ہزار درہم کا تھیلہ ہاتھ میں دےدیا۔ اس کے بعد خادم نے کہا کہ اس سے اپنا سامان خریدو لیکن کوہستان کی طرف نہ جانا۔ اس کی بجائے فلاں جگہ پر جاؤ اور کام کرو تمہیں کافی فائدہ ہوگا۔ چنانچہ آپ کےحکم  کےمطابق میں اسی مقام پر گیا۔ شادی کی اور اسی روز مجھے دو ہزاردینار مل گئے۔

شواہد النبوت میں یہ بھی لکھا  ہے  کہ ایک آدمی کا بیان ہے کہ میںنے امام صاحب کی خدمت میں عریضہ لکھ کر چند مسائل دریافت کیے۔ اس وقت میرے دل میں یہ خیلا بھی آیا کہ سر کے چوتھائی حصے میں درد کا  علاج بھی طلب کروں لیکن لکھنا بھول گیا۔ آپ نے میرے خط کا جواب دیا اور تمام مسائل کا جواب لکھنے کے بعد یہ بھ ی تحریری فرمایا تم سر کے درد کا علاج پوچھنا  بھول گئے اس کا علاج  یہ ہے کہ قُلْ یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وسلامًا علیٰ ابراہیم کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر بیمار کے گلے میں ڈال دو۔ چنانچہ میں نے  یہ کیا اور بیمار کو شفا ہوگئی۔

اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک شخص کا بیان ہے کہ میں آپ کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ ایک خوبصورت جوان اندر آیا۔ میں نے دل میں کہا  یہ کون ہے امام ذکی نے فرمایا یہ ام خانم کا لڑکا ہے ام خانم ایک عورت ہے جو سنگ پارہ پر مہرلگاتی ہے ہمارے آباواجداد کی مہریں بھی اس نے تیار کی تھیں یہ اب میری مہر لگوانے  کیلئے آیا ہےہ یہ کہہ کر آپ اس وجوان سے سے مخاطب ہوئے اور فرمایا کہ سنگ پارہ نکالو۔ اس نے حکم کی تعمیل کی اور آپ نے اس پر اپنی مہر رکھدی جس سے آپ کا اسم گرامی ابو الحسن بن علی  نمودار ہوگیا اس کے بعد جب وہ جوان باہر آیا تو میں  نے اس سے دریافت کیا کہ تم نے پہلے بھی کبھی آپ سے ملاقات کی تھی اس نے کہا واللہ! مجھے عرصہ سے آپ کی زیارت کی آرزو تھی کہ اچانک ایک آدمی آیا جسے میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا اس نے کہا اٹھو اور میرے ساتھ چلو۔ میں اس کے ساتھ چل کر یہاں آیا۔

اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہےکہ ایک آدمی خلیفہ کی قید میں تھا۔ اس نے قیدی کی مشقت سے تنگ آکر امام عسکری کی خدمت میں عریضہ لکھا لیکن شرم کے مارے اپنے دل کی بات ظاہر نہ  کرسکا۔ جب وہ خط امام موصو کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے جوب میں لکھا کہ آج شام کی نماز کے وقت  اپنے گھر پہنچ جاؤ گے۔ وہ کسی اور گاؤں میں چلا گیا ہے۔ آپ کے پیچھے گئے اور ملنے پر دریافت فرمایا کہ کیا کام ہے اس نے عرض کیا کہ میں نے بہت بڑا قرض ادا کرنا ہے کہ جس کی ادائیگی سے عاجز آگیا ہوں۔ مجھے  یقین ہے کہ آپ کے سوا کوئی شخص اس بار گراں سے نجات نہیں  دلاسکتا آپ نے فرمایا فکر مت کرو دوسری صبح آپ نے اعرابی سےفرمایا کہ میں تم  کو ایک  بات کہوں گا۔ اس کا انکار ہر گز نہ کرنا۔ اس  نے کہا بہت اچھا۔ آپ نے اسے ایک رقہ دیا جس میں لکھا تھا کہ میں نے اس قدر قرض فلاں اعرابی کو ادا کرنا ہے۔ رقعہ لکھ کر اعرابی سے کہا کہ میں گھر جاتا ہوں تم یہ رقعہ لے آنا اور مجھ سے رقم طلب کرنا اور مجھ سے سخت کلامی بھی کرنا۔ قرار دادا کےمطابق اعرابی نے دوسرے دن آپ کی خدمت یں آکر رقم طلب کی امام صاحب نے  فرمایا کچھ دیر ٹھہر و رقم ادا کردوں گا لیکن اس نے سخت کلامی شروع کردی اس بات کی خبر رفتہ رفتہ خلیفہ متوکل تک پہنچ گئی۔ اس نے حکم دیا کہ امام صاحب کے پاس تیس ہزار درم بھیج دیئے جائٰن۔ جب یہ رقم آپ کے  پاس پہنچی تو آپ  نے اعرابی کو بلاکر اس کے حوالہ کردی اور فرمایا کہ لو اپنا قرض قدا کرو اور جو کچھ بچ جائے اسے اپنے بال بچوں پر خرچ کرنا۔

کتاب مذکور میں یہ بھی لکھا ہے کہ خلیفہ متوکل نے ایک مکان میں مرغی خانہ بنایا ہوا تھا جو شخص وہاں جاتا مرغیاں اس قدر شور مچاتی تھیں کہ اور کوئی آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔ لیکن جب امام صاحب وہاں جاتے تھے تو وہ خاموش ہوجاتی تھیں جب آپ باہر چلے جاتے تو پھر شور مچانے لگتی تھی۔

اس کتاب میں ایک اور روایت یہ ہے کہ ایک شخص نے امام صاحب کی خدمت میں حاضرہوکر کوفہ کے قاضی کی شکایت کی کہ مجھے تنگ کرتا ہے۔ آپ نےفرمایا کہ تین دن اور صبر کرلو۔ چنانچہ تین دن کے بعد قاضی کی معزولی کا حکم آگیا۔

کتاب مذکور میں یہ بھی درج ہے کہ ایک شخص نے آپکی خدمت میں آکر عرض کیا کہ میری بیوی حاملہ ہے۔ آپ دعا کریںکہ لڑکا پیدا ہو۔ آپ نے فرمایا لڑکا ہوگا اور اس کا نام محمد رکھنا۔ چند روز کے بعد اس کے گھر لڑکا پیدا ہوا اور اس کا  نام محمد رکھا گیا آپ کے کرامات اس قدر  ہیں کہ بیان سے باہر ہیں۔

وصال

صاحب مراۃ الاسرار  لکھتے ہیں کہ بروز شنبہ آخر ماہ جمادی الثانی اور دوسری روایت کے مطابق ۲؍ماہ رجب ۲۵۴ھ کو خلیفہ مستفر بن متوکل کے عہد میں آپ کا وال ہوا بعض مورخین کا خیال ہے کہ خلیفہ مستفر نے آپ کو زہردے کر شہید کیا آپ کا مدفن علاقہ سرمن رائے کے گاؤں سامرہ میں واقعہ ہے آپ کی عمر چالیس سال اور مدت امامت ۳۳سال اور چند ماہ تھی۔ آپ کے چار بیٹے اور ایک بیٹی تھیں۔ رحمۃ اللہ علیہ۔

اللّٰھمّ صلّ علیٰ محمد والہٖ واصحابہٖ اجمعین۔

ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود

 

ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد

(اقتباس الانوار)

امامِ ہمام سیّدنا امامِ حسن علیہ السّلام:

        ۱۵ / رمضان المبارک ۳ھ بروز پنج شنبہ مدینہ طیّبہ میں ولادتِ با سعادت ہوئی۔ جنابہ فاطمۃ الکبریٰ بنتِ رسول اللہ ﷺ آپ کی والد محترمہ ہیں۔

ربیع الاوّل ۳۲ھ میں اپنے والدِ ماجد سیّدنا حضرت علی کرما للہ وجہٗ سے خلافت و امامت کے شرف سے سرفرازے گئے۔

(شریفُ التواریخ)

تجویزوآراء