حضرت سیدنا امام حسن عسکری

حضرت سیدنا امام حسن عسکری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

 نام حسن، کنیت ابو محمد، لقب خالص، سراج، زکی، عسکری، بروز دو شنبہ ۸؍ ربیع الآخر ۲۳۲ھ کو امّ ولد حضرت سوسن رضی اللہ عنہ کے بطن سے بمقام مدینہ منوّرہ پیدا ہوئے۔

جملہ حالات میں مثل اپنے آبائے کرام رضی اللہ عنہ کے تھے، اللہ تعالیٰ نے طفولیت میں ہی اِن کو ولایت و کرامت و کمال علم و عقل و فہم و فراست عطا فرمایا۔

صواعقِ محرقہ میں ہے کہ زمانہ لڑکپن میں بہلول دانا رحمۃ اللہ عنہ نے دیکھا کہ اور لڑکے کھیل رہے ہیں، اور یہ پاس کھڑے رو رہے ہیں، بہلول رحمۃ اللہ علیہ نے کہا میاں صاحبزادے! میں تمہیں کھیلنے کی چیز مول لے دیتا ہوں، انہوں نے فرمایا، اے دیوانہ! ہم کھیلنے کے لیے نہیں بلکہ علم و عبادت کے لیے پیدا ہوئے ہیں، بہلول رحمۃ اللہ علیہ نے کہا یہ آپ  کو کیسے معلوم ہوا؟ فرمایا افحسبتم انما خلقنٰکم عبثًا وّانّکم الینا لا ترجعون (المؤمنون۔ ع۔ ۶) بہلول رحمۃ اللہ علیہ نے نصیحت چاہی، انہوں نے چند اشعار پڑھے، اور بیہوش ہوکر گِر پڑے، جب افاقہ ہوا، بہلول رحمۃاللہ علیہ نے کہا ابھی تو آپ بچہ ہیں، کوئی خطا نہیں کی، اِس قدر غم کیوں کرتے ہیں؟ فرمایا میں نے اپنی ماں کو آگ سُلگاتے دیکھا ہے، جب تک چھوٹی لکڑیاں نہیں جلائیں بڑی لکڑیوں کو آگ نہیں لگی، اِسی طرح مجھے بھی خوف ہے کہ کہیں جہنم کی چھوٹی لکڑی نہ بنوں۔

سخاوت کا یہ حال تھا کہ سیّد علی بن ابراہیم بن موسیٰ کاظمِ رضی اللہ عنہ اور اُن کے بیٹے محمد رضی اللہ عنہ دونوں تنگی معیشت سے گھبرا کر اِن کی خدمت میں آئے، قبل اطلاع دینے  کے خود ہی انہوں نے پانچ سو درہم کی تھیلی سیّد علی رضی اللہ عنہ کو، اور تین سو درہم کی تھیلی محمد رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائی۔

جس روز ان کا انتقال ہوا تمام سامرہ میں ہل چل پڑگئی، غوغا برپا ہوا، دکانیں بند ہوگئیں، اور سب خاص و عام جنازے پر حاضر ہوئے۔ بروز جمعہ ۸؍ ربیع الاول ۲۶۰ھ کو انتقال فرمایا اورسرمن رائے المعروف سامرہ میں اپنے والد بزر گوار حضرت امام علی نقی رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن ہوئے۔

(شریف التواریخ)

 کنیت ابو محمد، لقب زکی، خالص، سراج اور عسکری تھا۔ آپ کی والدہ کا نام سوسن تھا۔ وہ ائمہ عشرہ کے گیارھویں امام تھے۔ ولادت مدینہ منورہ میں ۲۳۰ھ اور بقولِ دیگر ۲۳۳ھ میں ہوئی۔ آپ صرف ۲۹؍سال زندہ رہے۔

محمد بن علی ابراہیم بن موسیٰ جعفر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ معیشت بڑی مشکل ہوگئی۔ میرے باپ نے مجھے کہا کہ آؤ حضرت حسن بن علی﷜ کے پاس چلیں۔ وہ کرم و سخا میں بڑے مشہور ہیں۔ وُہ گھر سے نکل کر حضرت کے انتظار میں راستے میں کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: اگر امام مجھے پانچ سو درہم دے دیں تو دو سو روپے کے کپڑے بنالوں گا۔ ایک سو کا آٹا خرید لُوں گا۔ ایک سو روپیہ سے متفرق اشیاء خرید لوں گا۔ ایک سو روپیہ سے خچر خرید کر کوہستان کے علاقہ میں چلا جاؤں گا۔ امام صاحب کے آنے میں کُچھ دیر ہُوئی تو خود ہی امام کے دروازے پر جاپہنچے اور کسی سے گفتگو کیے بغیر دروازے کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ اسی اثنا میں آپ کا ایک خادم باہر آیا اور کہنے لگا علی ابن ابراہیم اور ان کے صاحبزادے اگر باہر ہوں تو اندر آجائیں۔ ہم اندر گئے اور سلام کیا۔ آپ نے بوچھا: علی! بتاؤ تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے اور  اتنی مدت ہوئی تمہیں ہمارے پاس آنے کو کون سی چیز مانع تھی۔ میں نے بتایا کہ سیّد سے شرم آتی تھی کہ اس تنگ دستی میں آپ کے پاس آتا۔ ملاقات کے بعد ہم اٹھے اور باہر نکلے ہی تھے کہ آپ کا ایک خادم پیچھے سے آیا اور پانچ سو روپیہ کی تھیلی ہمیں دے کر کہا۔ دوسو کے کپڑے بنا لینا۔ ایک سو کا آٹا، ایک سو کے مختلف اخراجات اور ایک سو کا خچر خرید لینا تاکہ کوہستان جانے میں آسانی ہو۔ لیکن حضرت امام نے فرمایا  کہ کوہستان نہ جانا بلکہ فلاں جگہ جانا تاکہ وہاں زیادہ فائدہ ہو۔ میں حضرت کے حکم کے مطابق وہاں ہی گیا۔

ایک اور شخص نے بیان کیا ہے کہ ایک بار میں بڑی تنگ دستی میں مبتلا ہوگیا۔ میں حضرت حسن عسکری کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے فقر و فاقہ کی شکایت کی۔ آپ کے ہاتھ میں تازیانہ تھا۔ میری داستان سنتے ہی زمین کو کوٹنے لگے اور پانصد کی ایک تھیلی نکال لی اور مجھے عنایت کردی۔

ایک اور شخص نے بتایا کہ میں خلفائے عباسیہ کے زمانے میں ناحق قید میں پڑا تھا۔ میں قیدوبند کی صعوبتوں سے تنگ آگیا۔ میں نے ناچار ہوکر حضرت امام کے پاس شکایت لکھی۔ میں نے چاہا کہ اپنی تنگ دستی کی داستان بھی لکھوں لیکن مجھے شرم آئی اور میں نے نہ لکھا۔ آپ نے میرے جواب میں تحریر کیا آج تم ظہر کی نماز اپنے گھر پڑھو گے۔ چنانچہ ظہر سے پہلے ہی مجھے قید خانے سے رہا کردیا گیا۔ میں گھر گیا، نماز پڑھی ہی تھی کہ مجھے حضرت امام کا ایک خادم آتا دکھائی دیا۔ میں استقبال کو آگے بڑھا۔ اس نے مجھے ایک تھیلی اور رقعہ دیا۔ اس میں لکھا تھا کہ تم نے شرماتے ہوئے مجھے کچھ نہ لکھا۔ یہ روپے لے لو، خرچ کرو اور پھر ضرورت ہو تو لکھنا۔

ایک اور آدمی نے بیان کیا کہ میرا والد حضرت امام عسکری کے گھوڑوں کا علاج کیا کرتا تھا اسی زمانے میں خلیفہ کے اصطبل کے گھوڑوں میں ایک ایسا گھوڑا تھا جو کسی کے تابع نہ ہوتا تھا۔ اس کے منہ میں لگام نہیں ڈالی جاسکتی تھی چہ جائیکہ اس پر کوئی سوار ہو۔ چند سواروں نے اس پر سواری کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ آخر ایک شخص جو دلی طور پر اہلبیت سے بغض رکھتا تھا، کہنے لگا: امام حسن عسکری کو کہو کہ اس پر سواری کرے اور اس  کو اپنا تابع کرے۔ اس کام میں دو فائدے ہوں گے۔ اگر گھوڑا مطیع ہوگیا تو بہتر ورنہ حسن عسکری کو ہلاکت کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ پھر بھی ہمارا مقصد پورا ہوجائے گا اور آپ اہلبیت کے خطرے سے بچ جائیں گے۔ چنانچہ حضرت امام کو طلب کیا گیا۔ جب آپ محل میں پہنچے تو  وہ بد فطرت دشمن اہلبیت منافقانہ استقبال کو بڑھا اور اپنے پاس لے آیا اور گھوڑے کو صحن خانہ میں منگوا کر حضرت امام کو کہا: اس کے منہ میں لگام دیجیے۔ آپ اٹھے اور  اس سرکش گھوڑے کے پاس جاکر اس کی پشت پر تھپکی دی۔ گھوڑے کے جسم سے پسینہ ٹپکنے لگا۔ آپ نے اس کے منہ میں لگام دی اور اپنی جگہ واپس آ بیٹھے۔ اگرچہ وہ شرارت پسند درباری آپ کے کمال سے واقف ہوگیا تھا تاہم کہنے لگا۔ آپ اس پر  زین رکھ کر دکھائیں۔ آپ اٹھے، زین گھوڑے پر رکھی اور واپس آگئے۔ اس کے باوجود وہ دشمنِ اہلبیت راضی نہ ہوا۔ اب آپ کو سواری کرنے کی فرمائش کردی اور چند قدم چلانے کا بھی کہا۔ حضرت امام نے میرے والد کو حکم دیا کہ اس پر سوار ہوکر صحن میں چند قدم چلاؤ مگر اس شخص نے کہا کہ حضور آپ خود تکلیف فرمائیں۔ حضرت امام اٹھے اور گھوڑے پر سوار ہوگئے اور صحن میں چلانے لگے۔ اور پھر اپنی جگہ پر آبیٹھے۔ گھوڑے نے کوئی سرکشی نہ کی۔ لوگوں نے پوچھا: گھوڑا کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا: بڑا اھیل اور خوش رفتار ہے۔ اس سے اچھا گھوڑا میرے دیکھنے میں نہیں آیا اور پھر وہ شخص کہنے لگا: یہ گھوڑا تو آپ کے لائق ہے۔ حضرت امام نے میرے والد کو فرمایا: گھوڑا میرے گھر لے چلو۔ میرا باپ سوار ہوکر آیا اور گھوڑا  گھر باندھ لیا۔ اس دن کے بعد گھوڑے نے کبھی سرکشی نہ کی۔

ایک دفعہ ایک شخص نے بتایا کہ میں نے چند مسائل کے حل کرنے کے لیے حضرت امام کو رقعہ لکھا اور دل میں کہا کہ سرکے چوتھے حصّے کا سردرد بھی ہے لیکن اسے میں رقعہ میں لکھنا بُھول گیا۔ حضرت نے میرے خط کے تمام مسائل کا حل لکھا اور ساتھ ہی لکھا کہ تم سرکے چوتھے حسے کے درد کا علاج پوچھنا بُھول گئے ہو۔ اس کا علاج یہ ہے کہ یٰنارُ کُوْنی بَرداً وسَلامًا عَلٰی اِبرْاھیْمَ لکھ کر صاحبِ درد کے گلے میں ڈال دینا، اِنْ شاء اللہ درد دفع ہوجائے گا۔ میں نے ایسا ہی کیا اور بیمار شفایاب ہوگیا۔

ایک شخص نے اپنا واقعہ بیان کیا ہے کہ میں نے حضرت امام کی خدمت میں ایک خط لکھا اور پوچھا: ’’مشکٰوۃ‘‘ کے معنی کیا ہیں؟ میری بیوی حاملہ تھی۔ میں نے التجائے دُعا کی اور ہونے والے بچّے کا نام بھی دریافت کیا۔ آپ نے میرے خط کے جواب میں تحریر کیا کہ مشکٰوۃ قلبِ رسول پاکﷺ ہے لیکن میرے بیٹے یا بیوی کے متعلق کُچھ نہ لکھا سوائے اس عبارت کے جو رقعہ کے آخر میں لکھی تھی اعظم اللہ اجرک واخلف علیک۔ چنانچہ میری بیوی کے ہاں مُردہ بچّہ پیدا ہُوا۔ اس کے بعد دوسری بار حاملہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے بچّہ دیا۔

حضرت امام کی وفات بمقام سرمن رائے بروز جمعہ ششم یا ہفتم ربیع الاول ۲۶۰ھ کو ہوئی۔ آپ کو حاکم بغداد کے اشارے سے معاندین اہلبیت نے کھانے میں زہر دے دیا اور آپ نے شہادت پائی۔

سالِ ترحیلِ آں شہِ مظلوم
باد بر جانش تا بروز قیام
 

 

کشت پیدا ز سید مسموم
صد درود و سلام الکرام
۲۶۰ھ

 

تجویزوآراء