حضرت سیدنا خواجہ حسن بصری
چشتی سلسلے کے سرخیل اور امام حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ قطب الاقطاب قدوۃ المحققین سراج الطالبین مقتدائے اہل ولایت اور قبلۂ اربابِ ہدایت تھے۔ آپ کی کنیت ابو محمد تھی، بعض کتابوں میں ابوسعید بھی لکھی پائی گئی، آپ شہنشاہ مرسلین جناب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہم تابعین میں سے تھے آپ ظاہری اور باطنی علوم کے ماہر تھے۔ آپ کو امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ سے خلافت ملی تھی، یہ وہی خرقۂ خلافت تھا جو معراج کی رات اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا فرمایا تھا، حضور نے یہ خرقہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کو دیا اور آپ نے خواجہ حسن بصری کو عطا فرمایا۔
خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ بڑے کرامات اور مقامات کے مالک تھے آپ کے فضائل بے شمار کتابوں میں ملتے ہیں۔ آپ نصیحت اور وعظ کے علاوہ کوئی بات نہ کرتے تھے اور حضور کی سنت پر شب و روز عمل کرتے، آپ کا جذبۂ قلب اتنا زیادہ تھا کہ اگرکوئی گنہگار یا کوئی فاجر محفل میں حاضر ہوتا تو توجہ کیے بغیر نہ رہتا، آپ کی والدہ ماجدہ حضرت اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھی، اور آپ کے والد موسیٰ راعی ابن خواجہ اویس قرنی تھے۔
آپ مدینۂ منورہ میں پیدا ہوئے، ظاہری حسن و جمال کی وجہ سے آپ کو حسن لولوی (موتی) کہتے ہیں آپ نے تجارت میں بڑی دولت حاصل کی اور آپ موتیوں اور مروارید کا کاروبار کیا کرتے تھے، جن دنوں آپ اللہ کی طرف راغب ہوئے تو اپنی ساری دولت مسکینوں غریبوں اور فقیروں میں تقسیم کردی، حتی کہ آپ کے پاس ایک کی روٹی کا خرچ نہ رہا۔ آپ حضرت امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کا دامن پکڑ کر کاملانِ وقت میں شامل ہوگئے آپ زہد و ریاضت میں اس قدر مشغول رہتے تھے کہ سات سات دن تک کھانا نہ کھاتے اس گطرح آپ نے ستر سال با وضو رہ کر اللہ کی عبادت کی۔
جس دن خواجہ حسن بصری پیدا ہوئے تو آپ کی والدہ جھولی میں لیے حضرت امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں بچے کو دیکھتے ہی حضرت عمر نے فرمایا تسمواہ حسن انہ احسن ابو جہہ (اس کا نام حسن رکھو یہ تو بہت ہی خوبصورت بچہ ہے) آپ شیرخوارگی کی حالت میں اپنی والدہ سے جو گھر کے کام میں مشغول ہوتیں علیحدہ ہوتے تو بعض اوقات بھوک کی وجہ سے روتے۔ حضرت اُم سلمہ اپنے پستان مبارک کو بچے کے منہ سے لگا لیتیں تو غیب سے دودھ کے چند قطرے کے بچے کے منہ میں ٹپکتے اور اس طرح حسن بصری خاموش ہوجاتے۔ حضرت اُمّ سلمہ ہمیشہ آپ کے حق میں دعائے خیر کرتیں اور فرماتیں الٰہی اس بچے کو مسلمانوں کا رہنما بنانا چنانچہ آپ کی دعا سے ایسا ہی ہوا، حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سو تیس صحابۂ کرام کی زیارت کی تھی، جن میں سات وہ صحابی تھے جو میدانِ بدر میں جہاد کرتے رہے۔
حضرت خواجہ حسن بصری ابھی بچے تھے کہ بی بی اُم سلمہ کے گھر میں اُس کوزے سے پانی پی لیتے جو حضور علیہ الصلوٰۃ کے لیے خاص تھا، ایک دن حضور گھر تشریف لائے پوچھا کہ ہمارے کوزے سے کس نے پانی پیا ہے، حضرت اُم سلمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اس بچے حسن بصری نے پانی پیا ہے آپ نے فرمایا کہ اس نے جتنا پانی پیا اسی قدر میرا علم اس کے وجود میں سرایت کرگیا ہے، حضور خواجہ حسن بصری کو نہایت محبت کے ساتھ اپنی گود میں اٹھا کر پیار کرتے۔
ایک رات خواجہ حسن بصری اپنے مکان کی چھت پر اللہ کی عبادت میں مشغول تھے آپ اس قدر روئے کہ آنکھوں کا پانی پرنالے سے نیچے بہنے لگا، گلی سے کوئی شخص گزر رہا تھا اُس کے کپڑوں پر قطرے پڑے تو بلند آواز سے کہنے لگا، اے اللہ کے بندو یہ پانی پاک ہے یا پلید، خواجہ حسن بصری نے بلند آواز سے کہا کہ اپنے کپڑے دھولینا یہ ایک نہایت ہی گنہگار کی آنکھوں کے آنسوؤں کا پانی ہے۔
ایک دن خواجہ حسن بصری نے اپنے ملازم کو کہا کہ میرے لیے بازار سے نان اور مچھلی لاؤ، جب وہ نوکر لایا اور سامنے رکھی تو آپ نے فرمایا معاذ اللہ گنہگار بندے کو ایسا لذیذ کھانے سے کیا سروکار ہے نوکر نے کہا حضور میں تو آپ کے ارشاد پر نان اور مچھلی لایاتھا، آپ نے نعرہ مارا اور رونے لگ گئے، چالیس دن تک کوئی چیز نہ کھائی اور فرمایا کہ میں اپنے آپ کو سزا دوں گا کہ میں نے لذیذ طعام کی خواش کی تھی۔
ایک دفعہ خواجہ حسن بصری ایک قافلے کے ساتھ حج کو جا رہے تھے یہ قافلہ ایسے بیابان سے گزرا جہاں دور دور تک پانی کا نام و نشان نہ تھا لوگ تلاش کرتے کرتے ایک جگہ پہنچے جہاں کنواں تو تھا مگر رسی اور ڈول نہ تھا۔ بڑی پریشانی ہوئی، سوچنے لگے اب کیا کیا جائے، خواجہ حسن بصری نے کہا تھوڑا سا صبر کرو، میں نماز پڑھ لوں تم پھر پانی پی لینا آپ اُٹھے نماز میں کھڑے ہوگئے اُدھر کنواں کے پانی میں جوش آیا اور وہ کناروں تک اچھلنے لگا، تمام لوگوں نے پانی پی لیا، ایک شخص نے لالچ کرتے ہوئے پانی سے ایک مشکیزہ بھرلیا تو پانی پھر کنویں کی تہہ میں چلا گیا، خواجہ حسن نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا اگر یہ دوست مشکیزہ نہ بھرتا تو کنویں کا پانی کبھی نیچے نہ جاتا۔
حضرت خواجہ حسن بصری کا ایک ہمسایہ تھا جو آتش پرستی کرتا تھا اس کا نام شمعون تھا۔ ایک دفعہ وہ ایسا بیمار ہوا کہ موت کے قریب پہنچ گیا، حضرت خواجہ کو اُس کی خبر ہوئی تو بیمار پرسی کے لیے اُس کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا اے شمعون تم نے ساری عمر آتش پرستی میں گزار دی ہے اب چند لمحے زندگی باقی رہ گئی ہے اگر تم اللہ کی توحید اور حضور کی رسالت کا اقرار کرلو تو میں یقین دلاتا ہوں کہ دوزخ کی آگ سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاؤ گے۔ اس نے کہا بات تو سچی ہے مگر میں چاہتا ہوں دوزخ سے آزادی کا ایک خط لکھ دیں اور اُس پر اپنے دستخط کردیں پھر میں کلمہ پڑھ لوں گا، حضرت خواجہ حسن بصری نے اُسی وقت ایک تحریر لکھ دی کہ آج سے تم دوزخ کی آگ سے آزاد ہو اور بہشت کی نعمت سے مالا مال ہو۔ شمعون اسلام لے آیا اور وصیت کی کہ یہ رقعہ میرے کفن میں رکھ کر دفنایا جائے، مرنے کے بعد حضرت خواجہ نے اُسے خواب میں دیکھا کہ وہ شاہی تاج سر پر رکھے ہیوئے اور بہشتی لباس پہنے ہوئے ٹہل رہا ہے، خواجہ نے اس سے حال پوچھا تو کہنے لگا آپ کے خط کی وجہ سے اللہ نے مجھے بخش دیا اور اپنے انعامات سے مجھے نوازا ہے۔
سیّد الاقطاب کے مصنف نے لکھا ہے کہ حضرت خواجہ کی خدمت میں جنوں کی ایک جماعت حاضر ہوا کرتی تھی۔ آپ انہیں دین کی تعلیم دیتے تھے، حضرت خواجہ کے دوستوں میں سے ایک نے بیان کیا ایک دن سحری کے وقت میں خواجہ حسن بصری کی مسجد میں گیا تو دیکھا کہ مسجد کا دروازہ اندر سے بند ہے میں نے دروازے کی سوراخ سے اندر دیکھا تو ساری مسجد لوگوں سے بھری ہوئی ہے اور حضرت خواجہ دعا مانگ رہے ہیں سب لوگ آمین کہہ رہے ہیں، میں نے دروازہ کھٹکھٹایا، حضرت خواجہ محراب سے اُٹھے اور آکر دروازہ کھولا، میں نے دیکھا مسجد میں صرف حضرت خواجہ تنہا موجود ہیں اور دوسرے سب آدمی غائب ہیں، میں نے صورت حال دریافت کی تو حضرت خواجہ نے فرمایا یہ تمام جن تھے جو دینی علم کے لیے میرے پاس آتے ہیں، یاد رکھو یہ ایک راز ہے میری زندگی میں کسی کو نہ بتانا۔
حضرت خواجہ حسن کے پانچ کامل خلفاء ہوئے ہیں پہلے خواجہ عبدالواحد بن زید دوسرے ابن زرین تیسرے حبیب عجمی چوتھے شیخ عتبہ بن غلام پانچویں شیخ محمد واسع رحمۃ اللہ علیہم تھے۔ یہ لوگ حضرت خواجہ کی وفات کے بعد مَسندِ ارشاد پر بیٹھے اور مختلف سلسلوں میں طریقت کو جاری کرتے رہے بی بی رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا بھی خواجہ حسن بصری کے خلفاء میں سے تھیں۔
خواجہ حسن بصری چہارم ماہ محرم الحرام ایک سو گیارہ ہجری کو فوت ہوئے۔
مخبرالواصلین کے مصنف نے لکھا ہے کہ آپ بروز جمعہ پانچ رجب المرجب ایک سو بارہ ہجری میں فوت ہوئے تھے۔ لیکن ہمارے نزدیک پہلا قول درست ہے یہ تاریخ وفات سیرالاقطاب اور سفینۃ الولیاء اور تذکرۃ العاشقین کے معتبر مصنفین نے بھی لکھی ہے۔
تاریخ وفات:
خواجہ دور زمن آن محسنِ اَحسن حَسن
زیب بصرہ زینت دین مقتدا و متقی
سال وصلش قطب گوا علی بداں سالک نجواں
ہم ولی امجد ہمایوں ہادی ملک علی