حضرت سیدنا خواجہ حسن بصری
حضرت خواجہ امام حسن بصری
آں پرور دۂ گہوارۃ نبوت، ماہتاب آسمانِ حقیقت و صفوت، مصدر جمع سلاسل، مصفیٰ از قیود آب وگل، مستوردرقبائے صفات بشری، امام الموحدّین ابو سعید خواجہ حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا اسم گرامی ابو علی الحسین بن الحسن بصری تھا اور کنیت ابو محمدﷺ اور ابو سعید تھی، نیز آپ اکابر تابعین اور امام الحرمین تھے۔ آپ علوم ظاہری وباطنی میں بے نظیر تھے۔ سلوک کی اکثر کتابوں میں لکھا ہے کہ آپ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلفاء میں سے تھے۔ اور امام حسن بن علی اور حضرت خواجہ کمیل بن زیاد کے تربیت یافتی بھی تھے۔ ‘‘مراۃ الاسرار’’ میں لکھا ہے کہ حق تعالیٰ نے تمام ظاہری وباطنی علوم حضرت محمد مصطفیٰﷺکو تعلیم فرمائے، آنحضرتﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمائے۔ آپ نے ان تمام اسرار وحقائق کو اپنی بیاض میں لکھ لیا اور امانت کے طور پر اپنے اہل بیت کے سپرد کیے۔ وہ بیاض اہل بیت کے سوا کسی نے نہیں دیکھی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کبھی کبھی وہ اسرار ورموز اپنے خاص محرم راز اصحاب مثل حضرت محمدﷺ بن ابو بکر، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس خواجہ کمیل ابن زیاد، اور حضرت خواجہ حسن بصری کے سامنے بیان فرماتے تھے۔ چنانچہ چار خانوادہ بائے اصل اور اکتالیس خانوادہ ہائے فرع میں سے پہلے بزرگ جو علوم واسرار صفر اور جامع سے فیض یاب ہوئے حضرت خواجہ حسن بصری تھے۔ یہ فیوض آپ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے براہِ راست حاصل ہوئے اور آپ سے حضرت خواجہ عبدالواحد بن زید وغیرہ تک پہنچے۔ جیسا کہ معلوم ہے۔
اس کے بعد حضرت خواجہ ابراہیم ادہم کمالِ صدق واخلاص کے ساتھ حضرت امام محمدﷺ باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں پہنچ کر ان اسرار رموز سے فیض یاب ہوئے اسی طرح حضرت خواجہ با یزید بسطامی نے حضرت امام جعفر صادق سے سالہا کی ریاضت ومجاہدات کے بعد وہ حقائق و معارف حاصل کیے۔ نیز حضرت خواجہ معروف کرخی نے امام علی رضا کی خدمت سے بہرہ مند ہوئے اور ان کے اسرار ور موز کو حاصل کیا پس ان چار بنیادی سلاسل کے سردار یہی چار بزرگ ہیں جنہوں نے ائمہ اہل بیت سے براہِ راست یہ علوم واسرار اخذ کیے، خلق خدا میں ممتاز ہوئے۔ اور ائمہ اہل بیت کی نیابت میں مسند ولایت وامانت طفیقت پر متمکن ہوئے بعد میں ان حضرات کے ذریعے یہ تمام علوم دیگر مشائخ کو حاصل ہوئے۔
اس بیان سےظہار ہے کہ حضرت خواجہ حسن بصری براہِ راست حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مرید وخلیفہ تھے۔ لیکن لطائف اشرفی[1] میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ حسن بصری کی بیعت میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ حضرت امام حسن کے مرید تھے۔ بعض کا قول یہ ہے کہ آپ حضرت کمیل ابن زیاد کے مرید تھے۔ لیکن صحیح ترین روایت یہ ہے کہ آپ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مرید تھے۔ چنانچہ ‘‘سیر الاولیاء میں بھی یہی لکھا ہے کہ آپ حضرت علی کے مرید تھے اور تربیت بھی اُن سے حاسل کی تھی۔ کتاب ‘‘حبیب السیر’’ میں لکھا ہے کہ خواجہ حسن بصری اٹھارہ سال کے تھے کہ حضرت علی مرتضیٰ نے شربت شہادت نوش فرمایا۔ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی مسند امامت پر متمکن ہوئے۔ اور خواجہ حسن بصری نے آپ کی صحبت اختیار کی اور اکثر فیوض و برکاتِ سلوک آپ نے امام روم (یعنی حضرت امام حسن سے اخذ کیے۔ اور حق تعالیٰ نے اسداللہ الفالب کا منظور نظر ہونے کی وجہ سے ان کو مقتدائے مشائخ بنایا۔ اور بیشتر سلاسل طریقت آپ کے ذریعے سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک پہنچتے ہیں۔ غرضیکہ آپ نے خرقۂ خ خلافت و فقر حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ سے پہنا۔ اور وہ خرقہ کیا تھا، گلیم تھا جو شب معراج سرور کائناتﷺ کو عنایت ہوا۔ اور آنحضرتﷺ نے حق تعالیٰ عزوجل کے حکم سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو عطا فرمایا۔ امیر المومنین نے وہ خرقۂ حضرت امام حسن بصری کو عنایت فرمایا۔
خرقۂ معراج
حضرت بندہ نواز سید محمد گیسو دراز اپنی کتاب ‘‘جوامع الکم’’ میں جو آپ کے ملفوظات کا مجموعہ ہے فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ ن ے شب معراج میں بہشت کے اندر ایک حجرہ دیکھا جس کا دروازہ سونے کا تھا اور قفل زمروکا۔ آپ نے چاہا کہ اندر جائیں۔ چنانچہ آپ نے حضرت جبرائیل سے کہا کہ ح جرہ کا دروازہ کھولیں تاکہ اندر جاکر دیکھوں۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اگر حق تعالی ٰ سے اجازت ہوئی تو ضرور کھولوں گا۔ چنانچہ آنحضرتﷺ نے حق تعالیٰ سے درخواست کی کہ اجازت عطا ہو۔ ارشاد ہوا کہ کھولدیا جائے۔ جب دروازہ کھولا گیا تو اس کے اندر ایک بڑی سنہری صدنوق تھی جس پر سونے کا تالہ لگا ہوا تھا آپ نے جبرائیل علیہ السلام سے کہا کہ اس کو بھی کھولو۔ اس صندوق کے اندر ایک اور صندوق تھی، اس پر بھی سونے کا تالہ لگا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا اس کو بھی کھولو۔ اس کے اندر سے ایک اور صندوق برآمد ہوئی جس پر سونے کا تالہ تھا۔ جب اجاز ت کے بعد اُسے کھولا گیا تو اس کے اندر خرقۂ مشائخ دیکھا۔ آنحضرتﷺ کے دل میں آرزو ہوئی اور فرمایا کہ بھائی جرائیل میں چاہتا ہوں کہ یہ خرقہ مجھے ملے۔ فرمان ہوا کہ کئی ہزار پیغمبر ہوگزرے ہیں یہ خرقہ کسی کو نہیں ملا لیکن آپ کو دیا جاتا ہے اس لیے آپ ہی کے لیے مخصوص تھا۔ اس کے بعد وہ آں حضرتﷺ کو وہ خرقہ پہننے کا حکم ہوا۔ آنحضرتﷺ نے خرقہ پہن کر عرض کیا کہ خدا وند یہ خرقہ میرے لیے مخصوص ہے یا میری امت میں سے کسی اور کو بھی مل سکتا ہے۔ فرمان ہوا کہ مل سکتا ہے۔ چنانچہ حق تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو ایک بات بتائی اور فرمایا کہ آپ کے چاروں اصحاب میں سے جو شخص یہ جواب دے خرقہ خلافت اس کو عطا کرنا۔ جب آپﷺ معراج سے واپس آئے تو اصحاب کو طلب کر کے فرمایا وہ بات دریافت کی لیکن سوائے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے کسی نے وہ جواب نہ دیا جو حضرت حق تعالیٰ نے فرمایا تھا[2]۔ چنانچہ آنحضرتﷺ نے وہ خرقہ حضرت علی کو عنایت فرمایا۔ اور فرمایا کہ مجھے حق تعالیٰ کا ارشاد ہوا تھا کہ جو شخص یہ جواب دے خرقہ اس کو عطا کرنا۔ خرقۂ مشائخ یہی ہے لیکن میری نظروں سے نہیں گزری حالانکہ صحاح ستہ کی حدیث ہے۔
حسب ونسب
‘‘روضۃ الاحباب’’ میں لکھا ہے کہ حضرت امام حسن بصری کے والد ہجرت کے بارھویں سال حضرت ابو بکر صدیق کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے۔ ‘‘طبقات حسامیہ’’ کی روایت کے مطابق۔، حضرت ثابت انصاری کے غلام تھے۔ ان کا نام ‘‘یسار ’’ تھا۔ اور ‘‘سیر الاقطاب’’ کی روایت کے مطابق وہ موسیٰ راعی کے بیٹے تھے جو حضرت خواجہ اویس قرنی کے بیٹے تھے۔
ولادت
حضرت امام حسن بصری کی ولادت با سعادت مدینہ منورہ میں ہوئی جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کو حضرت عمر کی خدمت میں لے جایا گیا۔ آپ نے فرمایا اس کا نام حسن رکھو کیونکہ خوبروہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ ام المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھیں۔ ایک دن آپ کی والدہ کسی کام میں مشغلو تھیں اور خواجہ حسن دودھ کے لیے رورہے تھے۔ حضرت اُم سلمہ نے ازروئے شفقت اپنا پستان مبارک ان کے منہ میں دے دیا۔ اور دودھ کے چند قطرات آپ کی حلق میں گئے۔ اور یہ جو ہزار ہا برکات وکرامات وانوار جو حضرت خواجہ حسن بصری سے رونما ہوئے اس کی وجہ وہی حضرت اُم سلمہ کے دودھ کے چند قطرے تھے جو آپ کی جان کے اندر باعث برکت ہوئے۔ حضرت اُم سلمہ ہمیشہ دعا کیا کرتی تھیں کہ خداوند اس بچے کو مقتدائے خلق بنا۔ چنانچہ یہی ہوا۔
صحابہ کرام سے ملاقات
چنانچہ کتب تواریخ میں لکھا ہے کہ آپ کو ایک سو تیس ۱۳۰ ، اور بروایت دیگر ایک سو تنتیس ۱۳۳، صحابہ کرام اور ستر اصحاب بدر کی صحبت نصیب ہوئی۔ اُن سے فیوض وبرکات حاصل کیے اور پیشوائے خلق ہوئے۔
آپ کی توبہ کا واقعہ
کتاب ‘‘رونق المجالس’’ میں آپ کی توبہ کا سبب یہ لکھاے ہے کہ ایام جوانی میں آپ لباس فاخرہ زیبن تن کیا کرتے تھے اور بصرہ کے بازاروں میں خود نمائی اور سیر کیا کرتے تھے۔ ایک دن محلے میں جارہے تھے کہ ایک نہایت ہی صاحب جمال عورت پر نظر پڑی وہ آگے جارہی تھی اور آپ پیچھے جارہے تھے۔ اس عورت کو یہ بات ناگوار گذری اور پیچھے کی طرف مڑک کر کہا تجھے شرم نہیں آتی۔ حسن بصری نے کہا کس سے شرم آئے۔ عورت نے کہا:۔
فمن یعلم خائشہ الا عین وما تخفی الصدور۔
اسبات سے حسن بصری بہت متأثر ہوئے ۔ اس کے بعد اس عورت نے پوچھا ک ہ میری کس خوبی کی وجہ سے تم میرے پیچھے پڑ گے ہو انہوں نے جواب دیا کہ تمہاری آنکھوں کا شیفۃ ہوں۔ عورت نے کہا میرے ساتھ آو۔ جب وہ اپنے گھر پہنچی تو اس نے اندر جاکر اپنی دونوں آنکھیں نکال کر رکابی میں رکھیں اور اوپر رومال ڈال کر حسن بصری کے پاس بھیج دیں۔ اور یہ پیغام بھیجا کہ میں نہیں چاہتی تھی کہ میری ان آنکھوں کے سبب کوئی شخص فتنہ میں مبتلا ہو۔ یہ بات سن کر حسن بصری اپنے فعل قبیح پر نادم ہوئے اور خاک وخون میں غلطیدہ ہوکر اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے، روتے ہوئے اپنے گھر گئے اپنے نفس سے مخاطب ہوکر کہا کہ افسوس ہے تم پر اور تمہاری ڈاڑھی پر کہ اس عورت سے بھی تو کم نکلا۔ چنانچہ آپ تائب ہوئے اور ساری رات گریہ وزاری میں مبتلا رہے۔ جب صبح ہوئی تو اس عورت کی خبر گیری کے لیے دوبارہ اس کے گھر پر گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ اس کے گھر کا دروازہ بند ہے اور اندر سے رونے کی آواز آرہی ہے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ فوت ہو چکی ہے یہ حالت دیکھ کر وہ روتے اور تڑپتے ہوئے گھر آئے اور تین دن رات تک اس حالت میں گریہ وزاری کرتے رہے۔ چوتھی رات خوب میں دیکھا کہ وہ وعورت بہشت میں ایک خوبصورت پلنگ پر بیٹھی ہے۔ یہ دیکھ کر انہوں نےکہا اے حور بہشت میرا گناہمعاف کردے اور مجھے بخش دے۔ اس خاتون نے کہا تمہاری وجہ سے تو مجھے یہ درجہ ملا ہے میں نے تجھے معاف کیا ہے۔ اس کے بعد خواجہ حسن بصری نے کہا مجھے کوئی نصیحت کرو تاکہ اس پر کار بند رہوں۔ اس نے کہا میری نصیحت یہ ہے کہ ہمیشہ یاد خدا میں رہو خصوصاً خلوت میں۔ جب آپ نیند سے بیدار ہوئے متنبہ ہوئے اور جو کچھ اثاثہ گھر میں تھا سب غرباء وفقراء میں تقسیم کردیا۔ حتیٰ کہ ایک دن کا کھانا بھی اپنے پاس نہ چھوڑا۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کی خدمت اختیار کی اور ریاضات و مجاہدات شاقہ میں مشغول ہوگئے۔ چنانچہ تین دن کے بعد اور بعض اوقات پانچ دن کے بعد افطار کرتے تھے اور یہب ات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ آپ ستر سال باوضو رہے،
ذوق سماع
آپ کو سماع سے بہت محبت تھی۔ اور وجد کیا کرتےتھے آپ فرمایا کرتے تھے کہ وجد دل کا ایک راز ہے جب حرکت میں آتا ہے تو بندہ پر وجد طاری ہوجاتا ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ سماع میں ایک وحدت ہے کہ جو شخص اُسے حق کی خاطر سنتا ہے تو واصل بحق ہوجاتا ہے۔ او رنفس کے لیے سنتا ہے تو زن دیق ہوجاتا ہے۔
حضرت علی کا بصرہ میں تمام منبر توڑ دینا
کتاب ‘‘مراۃ الاسرار’’ میں لکھا ہے کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ بصرہ میں تشریف لائے تو تمام واعظین کو وعظ کرنے سے م نع کردیا اور تمام منبر توڑ ڈالے۔ اس کے بعد آپ امام حسن بصری کی محفل میں خفیہ طور پر تشریف لے گئے اور اُن سے دریافت کیا کہ تم عالم ہو متعلم۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں جو کچھ پیغمبر اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مجھ تک پہنچا ہے اُسے خلق تک پہنچاتا ہوں۔ یہ سنکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کو وعظ سے منع نہ فرمایا۔ اور فرمای اکہ جوان شائشتہ سخن ہے۔ یہ کہہ کر آپ چلے گئے حضرت امام حسن بصری نے فراست سے پہنچان لیا کہ یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ منبر سے اتر کر اُن کے پیچھے ہوئے اور قریب جاکر عرض کیا کہ امیر المومنین آپ خدا کے لیے مجھے وضو کرنا سکھائیں۔ چنانچہ انہوں ن ے بیٹھ کر آپ کو ظاہری وباطنی طہارت تعلیم کی۔ اس مقام کو اب ‘‘باب الطشت’’ کہتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے امیر المومنین سے باطنی تربیت حاصل کی۔ جس کی وجہ سے وہ مقبول جہاں بنے۔
مسلمانی کیا ہے اور مسلمان کون ہے
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ کسی نے حضرت خواجہ حسن بصری سے سوال کیا کہ مسلمانی کیا ہے اور مسلمان کون ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مسلمانی کتاب میں ہے اور مسلمانان زمین کے اندر سوئے ہوئے ۔ ایک دن آپ سے سوال کیا گیا کہ اصل دین کی اہے آپ نے فرمایا ورع ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ ورع کو کیا چیز تباہ کرتی ہے فرمایا طمع حضرت مالک دینار نے آپ سے پوچھا عقوبیت عالم کیا ہے فرمایا دل کا مردہ ہونا۔ انہوں نے پوچھا کہ دل کے مردہ ہونے سے کیا مراد ہے فرمایا دنیا کی محبت۔ کتاب ‘‘سیر الاقطاب’’ میں لکھا ہے کہ ایک دن امام حسن بصری نے اپنے خادم سے کہا کہ بازار جاؤ۔ اور افطار کے لیے تلی ہوئی مچھلی اور روٹی لاؤ۔ خادم نے حکم کی تکمیل کی۔ جب آپنے دیکھا تو فرمایا کہ درویش کو لذیذ طعام سے کی انسبت خادم نے عرض کیا کہ آپ ہی نے تو لانے کا حکم دیا تھا حضرت خواجہ نے نعرہ لگایا اور ہائے ہائے کر کے رونے لگے حتیٰ کہ روتے روتے بے ہوش ہوگئے۔ جب ہوش میں آئے تو کہا کہ الٰہی حسن نے سہو کی وجہ سے گناہ کا کام کیا ہے اُسے معاف کدے اور درویشوں کی فہرست سے اس کا نام خارج نہ کر۔ اس کے بعدآپ نے چالیس دن تک کچھ نہ کھایا اور روتے رہے حتیٰ کہ اوپر سے آواز آئی کہ اے حسن ہم نے تم کو معاف کیا۔ اور تجھے درویشوں کا سرادر بنایا ہے۔ لیکن شکستگی کو نہ چھوڑنا کیونکہ ہماری جناب میں شکستگی کی بہت قدر و منزلت ہے۔ اور ہمیں وہ بہت محبوب ہے۔
کنوئیں میں پانی کا جوش مارنا
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام حسن بصری ایک جماعت کے ساتھ حج کو جارہے تھے۔ راستے م یں ایک شخص کو بہت پیاس لگی۔ آخر ایک کنوئیں پر پہنچے لیکن وہاں نہ کوئی رسی تھی نہ ڈول۔ آپ نے فرمایا میں نماز پڑھتا ہوں تم لوگ پانی پی لینا۔ جب آپ نے نماز شروع کی تو پانی کو جوش آگیا اور کنوئیں کے کنارہ تک آگیا۔ چنانچہ ساری جماعت نے خوب سیر ہوکر پانی پیا اور وضو کیا ایک آدمی نے چھپاکر ایک برتن بھی پانی سے بھرلیا۔ جس کی وجہ سے پانی فوراً کونیں کی تہ میں چلا گیا آپ نے نماز سے فارغ ہوکر فرمایا کہ تم نے خدا تعالیٰ پر توکل نہ کیا اس لیے پانی تہ میں چلا گیا۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دفعہ کعبہ شریف جاتے ہوئے راستے میں کھجور کا درخت دیکھا تو بالکل خشک تھا۔ جس سے سب نے پھل کھایا اور صدقہ بھی دیا چند روز سے بعد مکہ سے مدینہ چلے گئے۔
ہر روز بصرہ سے مکہ آنا
جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ابو عمر امام القراء(قاریوں کے امام) قرآن پڑھا رہے ہیں۔ ان کے پاس اس قت ایک صاحب جمال لڑکا قرآن پڑھنے کی خاطر آیا۔ انہوں نے اُسے خیانت کی ن ظر سے دیکھا تو الحمد سے والناس تک پورا قرآن بھول گئے۔ بہت بیقرار ہوکر وہ امام حسن بصری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا حال سنایا۔ آپ نے فرمایا اب حج کا زمانہ ہے جاؤ حج پڑھو اور جب حج سے فراغت ہوتو مسجد حنیف میں جانا وہاں ایک بزرگ محراب میں بیٹھے ہوں گے ان کا وقت بربادنہ کرنا اور جب تک وہ فارغ نہ ہوں خاموش بیٹھے رہنا۔ اس کے بعد اپنی درخواست پیش کرنا۔ وہ تمہارے حق میں دعا کریں گے۔ ابو عمر نے اس پر عمل کیا اور حج سے فارغ ہوکر جب مسجد حنیف میں گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک پر بیت بزرگ وہاں بیٹھے ہیں اور خلقت ان کے گرد بیٹھی ہے۔ وہ جاکر مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ ھوڑی دیر کے بعد ایک نورانی شکل کے بزرگ سفید پوشاک زیب تن کیے ہوئے تشریف لائے۔ ان کو دیکھ کر وہ بزرگ جو پہلے بیٹھے تھے اورساری خلقت ان کے پاس گئے اور ادب سے سلام کر کے اُن کے گرد بیٹھ گئے۔ اور باتیں کرنے لگے جب نماز کا وقت آیا تو وہ نورانی شکل والے بزرگ اٹھ کر چلے گئے اورتمام لوگ بھی ان کے ساتھ چلے گئے اور وہ بزرگ اب پھر تنہا رہ گئے۔ ابو عمر نے اُن کے سامنے آکر سلام کیا اور عرض کیا اللہ اللہ میری فریاد سنو۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنا ماجرا بیان کیا۔ حال سنکر وہ بزرگ غمنا ہوئے اور خاموش ہوکر بیٹھے رہے۔ تھوڑی دیر بعد گوشۂ نظر سے آسمان کی طرف دیکھا۔ ابھی سر ن یچے نہیں کیا تھا۔ کہ اُن کو پورا قرآن پھر یاد ہوگیا۔ ابو عمر کمالِ مسرت میں اُن کے قدموں میں گر گئے۔ انہوں نے دریافت تمہیں میرے پاس کس نے بھیجا ہے ابو عمر نے عرض کیا کہ حضرت خواجہ حسن بصری نے۔ انہوں نے فرمایا کہ جس کے پاس حسن جیسا شخص ہے اُسے کسی اور کی کیا ضرورت ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ حسن نے مجھے رسوا کردیا ہے اب میں بھی اُسے رسوا کرونگا۔ اس کےبعد فرمایا کہ وہ نورانی شکل کے سفید لباس زیب تن کیے جو بزرگ یہاں ائے معلوم ہے وہ کون تھے وہ حسن بصری تھے وہ ہر روز نماز ظہر بصرہ میں ادا کرتے ہیں اور یہاں آکر میرے ساتھ گفتگو کرتے ہیں اور پھر عصر کی نماز بصرہ میں جاکر ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے دوبارہ فرمایا کہ جو شخص حسن رکھتا ہے اُسے کسی اور سے دع اکرانے کی کیا ضرورت ہے۔
آپ کے خلفاء
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حجرت خواجہ حسن بصری کے پانچ خلفاء تھے۔ حضرت خواجہ عبدالواحد بن زید، ابن زرّین، خواجہ حبیب عجمی، شیخ عضبہ ابن علام اور شیخ محمد واسع۔ ان کے علاوہ حضرت رابعہ بصری کو بھی آپ کے خلفاء میں شما رکیا جاتا ہے۔ لیکن تحقیق یہ ہے کہ عورت خواہ کتنے کمالات ولایت حاصل کرے خلاف وراشاد کے قابل نہیں ہوتی۔
کرامات
‘‘مراۃ الاسرار’’ میں لکھا ہے کہ جب آپ کی وفات قریب آگئی تو آپ ہنسے حالانکہ اس سے پہلے آپ کو کسی نے ہنستا ہوا نہیں دیکھا تھا۔ آخری وقت میں آپ کے منہ سے یہ کلمات نکلے کہ ‘‘کون سا گناہ باقی ہے’’ اور جاں بحق ہوگئے۔ ایک بزرگ نے آپ کو خواب میں دیکھا اور پوچھ اکہ ساری عمر تو آپ نہیں ہنسے تھے موت کے وقت کیوں ہنسے۔ آپ نے جواب دیا کہ موت کے وقت میں نے آواز سنی کہ ملک الموت اسے سخت پکڑوابھی اس کا ایک گناہ باقی ہے۔ یہ بات سن کر مجھے خوشی ہوئی اور ہنسی آگئی۔ اور میں نے پوچھا کہ ‘‘کون سا گناہ باقی ہے’’۔ اور جان نکل گئی۔ ایک اور بزرگ نے اُسی رات خواب میں دیکھا کہ آسمان کے دروزے کھل گئے ہیں اور منادی ہورہی ہے کہ حسن بصری خدا تک پہنچ گیا ہے اور خدا اس سے راضی ہے۔
نقل ہے کہ جب آپ کا وصال ہوا تو عالم غیب سے آواز آئی کہ اِنَّ اللہ اَصطفیٰ اٰدَمَ وَ نوحاً واٰل ابراھیم(اللہ تعالیٰ نے برگزیدہ کیا آدم کو نوح کو اور آل ابراہیم کو) غرضیکہ آپ کے کمالات اس قدر ہیں کہ اس مختصر کتاب میں نہیں سما سکتے۔ آپ کئی سلاسل کے پیشوا ہیں اور آپ کی رش وہدایت کا سلسلہ قیام قیامت تک باقی رہے گا۔
وصال
حضرت کواجہ امام حسن بصری کا وصال ۴؍محرم الحرام ۱۱۱ھ کو ہوا آپ کا روضہ مبارک بصرہ سے تین کوس کے فاصلہ پر ہے صاحب مراۃ الاسرار کے منتخب التواریخ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ آپ نے ہشام بن عبدالملک مروان کے زمانہ بتاریخ یکم رجب ۱۱۰ھ بصرہ میں وفات پائی۔ آپ کی عمر ۸۹برس تھی۔
اللّٰھمّ صلّ علیٰ محمد والہٖ واصحابہٖ اجمعین۔
بیت
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد |
[1] ۔ملفوظات حضرت خواجہ اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہٗ جن کا سلسلہ دو واسطوں سے حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین بد ایونی قدس سرہٗ کے ساتھ جا ملتا ہے۔ یعنی حضرت خواجہ اشرف جہانگیر مرید وخلیفہ تھے حضرت شیخ علاء الدین کے اور آپ مرید وخلیفہ تھے حضرت اخی سراجدین کے اور آپ حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی کے۔
[2] ۔پوری روایت یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو حکم دیا کہ اصحاب میں سے ہر ایک سے پوچھو کہ اگر تم خرقہ مل جائے تو کیا کروگے۔ جب حضرت ابو بکس صدیق سے پوچھا گیا تو آپ نے عرض کیا کہ میں اسلام کی اشاعت بڑھ چڑھ کر کرونگا۔ جب حضرت عمرسے پوچھا گیا تو انہوں نے عرض کیا کہ میں عدل وانصاف سے کام لونگا۔ جب حضرت عثمانسے پوچھا گیا تو آپ نے عرض کیا کہ میں لوگوں سے شرموحیا سے برتاؤ کرونگا۔ جب حضرت علیکی باری آئی تو آپ نے عض کیا کہ میں خلق خدا کی عیب پوشی کرونگا اور حق تعالیٰ نے بھی یہی فرمایا تھا کہ جو شخص یہ جواب دے خرقہ اسکو عطا کرنا چنانچہ یہ خرقۂ خلافت مشائخ عظام کو عطا ہوتا رہا۔ حتیٰ کہ حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی اُسے اپنے ساتھ قبر میں لے گئے اس سے کہ اب اسکا حق کوئی نہیں ادا کرسکیگا۔ (ماخوذ از مراۃ الاسرار مصنفہ حضرت شیخ عبدالرحمٰن)
(اقتباس الانوار)