حضرت سیدنا خواجہ حسن بصری
اوصافِ جمیلہ
آپ غوث الاسلام و المسلمین، سلطان الاولیاء والمتقین، قطب العالمین بدر السّالکین، سراج العارفین، شمس المحبوبین، امیر المتورعین، امام الواصلین، مستجاب الدّعوات صاحبِ کرامات، عالی مقامات، اہلِ برکات، رفیع المنزلت، امام الوقت تھے۔ حضرت اسد اللہ الغالب امیر المؤمنین امام ابو الحسن علی بن ابی طالب کرّم اللہ وجہہٗ کے اجلہ خلفا و اعاظم اصحاب سے تھے۔
نام و نسب
آپ کا نام مبارک حسن، کنیت ابو محمد، ابو علی، ابو سعید، ابو نصر۔ آپ کے والد بزرگوار کا نام حسبِ روایت طبقات حسامیہ یسار تھا، اور وہ موالی حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے تھے۔
اور بقولِ صاحب سیر الاقطاب والد ماجد کا نام موسیٰ راعی بن خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ تھا، اور نام والدہ ماجدہ کا بی بی خیرہ رضی اللہ عنہا تھا، اور وہ خامہ حضرت امّ المومنین امّ سلمہ رضی اللہ عنہ کی تھیں،
ولادت
آپ کی ولادت با سعادت مدینہ طیبہ میں بعہدِ خلافت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ۲۱ھ میں ہوئی۔
آپ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے حضور میں لائے گئے، انہوں نے آپ کو خرما چبا کر تخیک لگائی، اور آپ کو نہایت خوش رو و خوبصورت دیکھ کر فرمایا سمّوہ حسنًا فانّہٗ حسن الوجہ یعنی یہ خوبصورت ہے اس کا نام حسن رکھو، پس آپ کا نام حسن رکھا گیا۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اوٓل۔ تحفۃ الابرار ۱۲ شرافت]
دعائے فاروقی
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ کے حق میں دعا فرمائی کہ اے خداوند! اِس کو دین کے علم کا ماہر بنا، اور لوگوں میں محبوب کر۔ [۱] [۱۔ ازالہ الخفا ۱۲]
تربیت
چونکہ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت امّ المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھیں، اِس لیے آپ نے بھی ان کو آغوشِ عاطفت میں پرورش پائی، حالتِ شیر خوارگی میں اگر کبھی آپ کی والدہ صاحبہ کسی کام میں ہوتیں تو حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا اپنے پستانِ مبارک آپ کے منہ میں دے دیتیں، بقدرتِ خدا ان سے چند قطرات دودھ کے آپ کے حلق مبارک میں گرتے اور آپ کی تسلّی و تسکین ہوجاتی۔ [۱][۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۲۷۱ شرافت]
دعائے امّ المومنین
حضرت ام المؤمنین آپ کے حق میں دعا فرماتی تھیں کہ یا آلہ العالمین اسے مقتدائے خلق کیجیو، پس اللہ تعالیٰ نے بتاثیر دودھ مبارک حضرت امّ المؤمنین رضی اللہ عنہ کے آپ کے بیشمار برکتیں ظاہر فرمائیں، اور ان کی دعائے خیر کی برکت سے آپ کو مقتدائے خلق اور سر دفتر جمیع اولیائے نامدار و مشائخ کبار کیا، اور آپ کے کلام میں وہ تاثیر اور قبولیت عنایت کی کہ جو کوئی آپ کی مجلس وعظ میں آتا اگر فاسق فاجر ہوتا تائب ہوجاتا اور دنیا دار تارک دنیا، اور کافر مسلمان ہوجاتا، آپ کے وعظ و نصائح سے خلقِ خدا ہدایت پاتی اور گمراہی چھوڑ کر راہ راست پر آتی۔ [۱][۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۲۷۱ شرافت]
تحصیلِ علوم
آپ تفسیر و حدیث میں امام تسلیم کیے جاتے ہیں، اگر کتب تفسیر میں مطلق حسن بولا جائے تو اُس سے آپ یعنی امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ مراد ہوتے ہیں، اور علم حدیث میں آپ کا یہ رتبہ ہے کہ آپ کی مراسیل بھی حجت ہیں، اور محدثین کے نزدیک حکم مسند مثصل مرفوع کا رکھتی ہیں، چنانچہ ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ موضوعات میں لکھتے ہیں کہ قال ابن المدینی مرسلات الحسن اذا روا ما الثقات صحاح۔ انتحیٰ۔
مرتبۂ بعیّت
آپ نے ایک سو تیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی زیارت کی ہے، جن میں ستر (۷۰) اصحاب بدری تھے، علم ظاہر آپ کو صحابہ رضی اللہ عنہ کی صحبت سے حاصل ہوا، آپ اکابر تابعین سے تھے۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۲۷۱]
خدمتِ قرآن
صحابہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جو قرآن مجید لکھا گیا تھا اُس میں صورتوں کے نام پاروں کے نشانات، اور نقطے وغیرہ کچھ نہ تھے، حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اس میں نقطے بنائے، اعراب دئیے، خمس و عشر وغیرہ بنائے، پاروں اور سورتوں کے نام لکھے۔ [۱] [۱۔ کتاب الاسلام ص ۲۸۳ شرافت]
واقعۂ توبہ
آپ زمانہ سابق میں پیشہ گوہر فروشی کرتے تھے، اِس وجہ سے حسن لولوی کہے جاتے تھے، آپ نے اِس پیشہ سے بہت دولت حاصل کی تھی، ایک مرتبہ بغرض تجارت ملک روم میں گئے، وہاں کے وزیر سے محبت ہوگئی، ایک دن دونو دوست گھوڑوں پر سوار ہوکر صحرا کی طرف گئے، وہاں دیکھا کہ ایک بہت نفیس خیمہ دیبائے رومی کا نصب ہے، اور اس کے چاروں طرف مسلح فوج کھڑی ہے، انہوں نے کچھ الفاظ کہے اور چلے گئے، اس کے بعد کچھ ضعیف العمر اور پُر شوکت لوگ خیمہ کے پاس آئے، اور کچھ کہ کر چلے گئے، پھر حکما اور دبیر و منشی چار سو کی تعداد میں آئے، اور اسی طرح کچھ کہ کر چلتے ہوئے، پھر نہایت حَسین کنیزیں دو سو (۲۰۰) کے قریب آئیں اور کچھ کہ کر چلی گئیں، پھر قیصر اور اُس کا وزیر آئے اور خیمے میں گئے تھوڑی دیر اندر رہ کر باہر نکلے اور چلے گئے، حسن لولوی کو یہ احوال دیکھ کر تعجب ہوا، آگے بڑھ کر اس وزیر سے پوچھا کہ یہ کیا واقعہ ہے؟ اس نے کہا کہ قیصر کا ایک بہادر اور حسین نوجوان بیٹا کچھ عرصہ ہوا مر گیا ہے، اُس کی قبر اِس خیمہ کے اندر ہے، ہر سال لوگ اس کی زیارت کو آتے ہیں، بدیں طور کہ پہلے مسلح فوج خیمہ کے پاس آکر کہتی ہے کہ اے شہزادہ! اگر تیری موت لڑائی سے ٹل سکتی تو ہم لڑتے اور تجھے بچالیتے، مگر خدا سے لڑنا محالہے، اور موت بھی اسی کا حکم ہے، اس کے بعد بزرگ معمر آکر کہتے ہیں کہ اے شہزادہ! اگر تیری موت دعا سے ٹل سکتی تو ہم دفع کر دیتے، اس کے بعد حکماء وغیرہ کا گروہ آکر کہتے ہیں کہ اے شہزادہ! اگر حکمت و دانش سے تیری موت ٹل سکتی تو ہم ٹال دیتے، اس کے بعد خوبصورت کنزیں آکر کہتی ہیں کہ اے شہزادہ! اگر حسن و جمال سے تیری موت ٹل سکتی تو ہم ٹال دیتیں، پھر خود بادشاہ معہ وزیر کے خیمے میں آکر کہتا ہے کہ اے بیٹا میں نے اپنی کوشش فوج اور حکما و اطبّا سے کی، مگر کار خانہ خدا وندی میں کچھ پیش نہ گئی، سال آئندہ تک میرا تجھ پر سلام ہو، اور پھر لَوٹ جاتے ہیں، اس واقعہ کو سن کر آپ دنیا سے بیزار ہوگئے، آپ نے کل مال و اسباب اپنا راہِ خدا میں لُٹا دیا، یہاں تک کہ قوتِ یکروزہ بھی باقی نہ چھوڑا اور خلق سے بالکل کنارہ کش ہوکر گوشۂ تنہائی اختیار کر لیا، اور عہد کیا کہ تا زیست نہ ہنسوں گا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲]
بیعت و خلافت
آپ حضرت امام المشارق و المغارب ابو الحسن علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر بیعت سے مشرف ہوئے، اور خرقہ فقر پایا۔
حضرت شاہِ ولایت رضی اللہ عنہ نے آپ کو وہ خرقہ خاص جو ان کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عطا ہوا تھا معہ کلاہِ چہار تَرکی کے مرحمت فرمایا، اور نعمت ظاہری و باطنی و اسرار مخفیہ الٰہیہ سے مشرف فرما کر خلافت کبرٰے سے نوازا۔ [۱] [۱۔ سیر الاولیا۔ سیر الاقطاب ص ۱۱]
تلقین ذکر
اور ذکر کلمہ طیبہ بطریق نفی اثبات جیسا کہ حضرت شاہِ ولایت رضی اللہ عنہ کو حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل ہوا تھا وہ آپ کو سکھایا، اور آپ کے ذریعہ سے وہ طریقہ تمام دنیا میں رائج ہوا۔ [۱] [۱۔ قول الجمیل ۱۲]
بیعت روحی
آپ کو روحی بیعت حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصحاب سبعہ رضی اللہ عنہ سے تھی۔ [۱] [۱۔ آئینہ تصوّف ۱۲ شرافت]
مشائخ صحبت
اگرچہ آپ نے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی صحبتوں سے فیض اٹھایا ہے، لیکن خصوصًا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا نام نامی آپ کے مفیضوں میں اشہر ہے، اس کے علاوہ حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت محمد حنفیہ رضی اللہ عنہ سے بھی فیضِ کامل پایا۔
سماع حسن بصری عن علی
بعض محدثین نے کہا ہے کہ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کی ملاقات حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، اور نہ ہی اُن سے سماعتِ حدیث کی ہے، تو جب ملاقات ہی ثابت نہیں تو خرقہ خلافت حاصل کرنا بے اصل اور بے سند بات ہے۔
چنانچہ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع میں لکھا ہے کہ ’’اور ہم نہیں پہنچانتے واسطے حسن رضی اللہ عنہ کے سماع علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے‘‘
اور ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے منہاج السنۃ میں لکھا ہے ’’کہتے ہیں کہ تحقیق حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے صحبت رکھی حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے، اور یہ باطل ہے اہلِ معرفت کے اتفاق سے، پس تحقیق وہ متفق ہیں اس بات پر کہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نہیں اکٹھے ہوئے حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ، بلکہ انہوں نے اخذ کیا ہے اصحاب حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے مثل احنف بن قیس بن عباد رضی اللہ عنہ وغیرہ کے، اور انہوں نے حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے۔‘‘
اس کے جواب میں کئی اکابر محدثین نے قلم فرسائی کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ہے چنانچہ
حضرت حافظ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ میں جو انہوں نے اثبات سماع حسن بصری عن علےّ کے متعلق لکھا ہے لکھتے ہیں کہ ’’ایک جماعت نے حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی سماعت حدیث کی نسبت انکار کیا ہے، اور بعض متاخرین نے اسی کے ساتھ تمسک کر کے خرقہ پوشی کے طریق میں خدشہ نکالا ہے، اور ایک جماعت نے اس کو ثابت کیا ہے اور میرے نزدیک بھی یہی راجح ہے۔
اور حافظ ضیاء الدین مقدسی رحمۃ اللہ علیہ نے مختارت میں اسی کا رجحان بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ حسن ابی الحسن البصری نے حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے حدیث کو سنا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ نہیں سنا ہے، اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے مختارت کے حاشیہ میں اُسی کا اتباع کیا ہے۔
وجہ اوّل یہ ہے کہ علمائے فن اصول نے جس جگہ ترجیح کی وجوہات کا ذکر کیا ہے وہاں لکھا ہے کہ مثبت کو نافی کی بات پر تقدّم ہوتا ہے کیونکہ مثبت کا علم بہ نسبت نافی کے زیادہ ہوتا ہے،
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ ابھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں دو برس باقی تھے کہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا تولد ہوا، ان کی والدہ بی بی خیرہ رضی اللہ عنہا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت گار تھیں، اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا حسن رحمۃ اللہ علیہ کو باہر صحابہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کرتی تھیں، تاکہ ان کے حق میں صحابہ رضی اللہ عنہ برکت کی دعا کریں، جیسا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا تھا، اور انہوں نے ان کے حق میں دعا فرمائی تھی، کہ اے خدا! اس کو دین سکھا اور لوگوں میں محبوب کر۔
حافظ جمال الدین مزی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو تہذیب میں روایت کیا ہے، اور عسکری نے کتاب المواعظ میں اس کی سند کو بیان کیا ہے، حافظ مزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جس دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا لوگوں نے محاصرہ کیا تھا، حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ بھی وہاں موجود تھے، اس وقت ان کا سن چودہ برس کا تھا، اور یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ان اشخاص میں سے تھے جو سات برس کی عمر میں صاحب تمیز اور بالغ ہوگئے تھے، اور نماز کا حکم ان پر جاری ہوگیا تھا، اور وہ جماعت میں حاضر ہوا کرتے تھے، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت تک حضرت امیر رضی اللہ عنہ مدینہ طیبہ سے باہر تشریف نہیں لے گئے، اور ان کی شہادت کے بعد کوفہ کو چلے گئے، پس کِس طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے حدیث کو نہیں سنا ہے، حالانکہ وہ بالغ ہونے کے وقت تک ہر روز حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد میں حاضر ہوا کرتے تھے، بلکہ ان کا سن چودہ (۱۴) برس سے بھی تجاوز کر گیا تھا، نیز حضرت امیر رضی اللہ عنہ ہمیشہ امہات المومنین رضی اللہ عنہا کے پاس جایا کرتے تھے، اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بھی انہیں میں رہا کرتی تھیں، اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اپنی والدہ کے ساتھ حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے بیت الشرف میں رہا کرتے تھے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ جو حدیثیں حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہیں وہ دلالت کرتی ہیں ان کی سماعت پر، حافظ مزی رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب میں ابو نعیم رحمۃ اللہ علیہ کے طریق سے ان کو روایت کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ابو القاسم عبد الرحمٰن بن العباس بن عبد الرحمٰن بن زکریا کہتے ہیں کہ ہم سے ابو حنیفہ محمد بن الحنیفہ واسطی نے ذکر کیا ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ ہم سے محمد بن موسیٰ الجرشی نے بیان کیا ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ثمامہ بن عبیدہ نے کہا ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ ہم سے عطیہ بن محارب نے نقل کیا ہے، کہ یوسف عبیدہ کہتے تھے کہ میں نے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ اے ابا سعید! تم ہمیشہ یہی کہتے ہو کہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالانکہ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں دیکھا، حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا اے میرے بھتیجے تو نے مجھ سے ایسی بات پوچھی ہے جو اس سے پہلے مجھ سے کسی نے نہیں پوچھی، اگر تیری منزلت میرے پاس نہ ہوتی تو میں ہر گز تجھ سے بیان نہ کرتا، تو دیکھتا ہے کہ میں جس زمانہ میں ہوں (اور یہ وہ وقت تھا کہ سب باتوں پر حجاج بن یوسف ثقفی کا علمدرآمد تھا) تو نے جو مجھ سے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنا ہے اس سے میری مراد یہ ہے کہ اس حدیث کو میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا ہے، چونکہ میں ایسے وقت میں ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں کر سکتا، اس لیے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ دیتا ہوں۔
اور جو حدیث کہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، امام احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ذکر مسند میں کیا ہے، وہ یہ کہ ہشیم نے ہم سے بیان کیا کہ یوسف حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تین آدمیوں سے قلم اُٹھایا گیا ہے، لڑکے سے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو، سوتے ہوئے سے جب تک وہ نیند سے بیدار نہ ہو، دیوانہ سے جب تک کہ اس کا جنون جاتا نہ رہے۔
ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو روایت کیا ہے، اور نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے حسن ہونے کی بابت لکھا ہے، حاکم رحمۃ اللہ علیہ اور ضیاء الدین مقدسی رحمۃ اللہ علیہ نے مختارت میں اس کی تصحیح کی ہے، اور حافظ زین الدین عراقی رحمۃ اللہ علیہ شرح ترمذی میں اس حدیث کی شرح میں یہ بات لکھتے ہیں کہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ منوّرہ میں دیکھا تھا، اور اس وقت حسن رحمۃ اللہ علیہ لڑکے تھے اور ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جس دن حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے بیعت کی تھی اُس دن حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی عمر چودہ (۱۴) برس کی تھی، اور انہوں نے حضرت امیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں دیکھا تھا، بعد ازاں حضرت امیر رضی اللہ عنہ کوفہ اور بصرہ کی طرف تشریف لے گئے، اس وقت سے حسن رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں کی، اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے زبیر رضی اللہ عنہ کو حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے بیعت کرتے ہوئے دیکھا ہے، پس اسی قدر اس مقام میں کافی ہے۔ انتھٰی کلام السّیّوطی۔
اور حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ میں لکھتے ہیں کہ والحسن البصری ینسب الٰی سیّدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنھما عند اھل السّلوک قاطبۃً وان کان اھل الحدیث لا یثبتون ذالک وقد اتتصر الشیخ احمد القشاشی لا ھل السّلوک والکلام وافٍ و شافٍ فی الکتاب العقد الفرید فی سلاسل اھل التّوحید۔اور حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ تنبیہ اہل الفکر بر عایۃ آداب الذکر میں لکھتے ہیں۔
شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ در بعضے رسائلِ خود اثباتِ صحبت حسن رحمۃ اللہ علیہ با علی رضی اللہ عنہ بقیاسِ عقل و دلیل معقول نمودہ و ثابت کردہ کہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ در مدینہ بود پس چہ احتمال داردد کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ رادر نیافتہ باشد و حال آنکہ ہر روز بمسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنماز حاضر میشدہ باشد و در جامع الاصول گفتہ کہ ولادت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ بمدینہ بود در دو سال کہ باقی ماندہ بود از خلافت عمر بن الخطاب رحمۃ اللہ علیہ و دید عثمان را رضی اللہ عنہ و قدوم کرد ببصرہ بعد از قتل عثمان رضی اللہ عنہ و بعضے گوئند کہ ملاقات کرد بہ علی رضی اللہ عنہ بمدینہ، امارویت او علی رضی اللہ عنہ رادر بصرہ صحیح نشدہ زیرا کہ وے دروادی القرٰے بود و تا آمدن اور ببصرہ علی رضی اللہ عنہ باز آمدہ بود۔ انتہیٰ۔ و حکایتے دریا فتن او علی رضی اللہ عنہ را ببصرہ نیز نقل میکنند کہ وے کرم اللہ وجہہٗ ببصرہ آمد و قصاص و وعاظ راہمہ رابر خیزانید اِلّا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ راکہ جوان بود و حضرت امیر رضی اللہ عنہ چیزے ازوے پر سیدوے جواب داد پس مسلم داشت اورا۔ انتہیٰ۔
مولوی فقیر اللہ لاہوری حاشیہ المصنوع فی احادیث الموضوع الملّا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ پر لکھتے ہیں کہ
امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خرقہ حاصل کرنا ثابت کیا ہے اور اس مسئلہ میں ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس کا نام اتحاف الفرقہ بوصل الخرقہ ہے، نیز میں نے ایک ضخیم کتاب دیکھی ہے جس کا نام القول المستحسن فی فخر الحسن ہے، اُس میں صحبتِ خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے ثابت کی گئی ہے۔ انتہیٰ۔
اس کے علاوہ سلف سے لے کر خلف تک تمام مشائخ و اولیاء کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے بیعت و خلافت ہے۔
پس منصف اہل علم کے لیے اسی قدر کافی ہے، حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ کی ملاقات اگرچہ تھوڑی بھی ثابت ہو تو بھی تلقینِ ذکر و الباسِ خرقہ کے لیے کافی ہے۔
ریاضت و مجاہدہ
آپ ترک دنیا کرنے کے بعد ریاضاتِ شاقہ و مجاہداتِ سخت میں مشغول ہوئے، سات (۷) سات (۷) روز پر روزہ افطار کرتے، اور شب و روز یاد الٰہی میں مصروف رہتے۔
لکھتے ہیں کہ ستر (۷۰) برس تک سوائے عذرِ شرعی کے آپ کا وضو نہ ٹوٹا، اور آپ کبھی بیوضو نہ رہے یہاں تک کہ مرتبہ کمال کو پہنچے، اور سب سے بڑھ گئے۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۲۷۲]
کثرتِ بکا
آپ بڑے اہل درود و صاحبِ ذوق تھے، اور خوفِ خدا سے بہت رویا کرتے، کثرتِ گریہ سے آپ کی آنکھیں کبھی خشک نہ دیکھی گئیں، یہاں تک کہ روتے روتے آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے تھے، اور بصارت کم ہوگئی تھی، اور اِس درجہ ضعیف و الاغر ہو گئے تھے، کہ جسم مبارک میں خون اور ہڈیوں میں گودا نہیں رہا تھا۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۲۷۳]
خشیت الٰہی
ایک روز آپ نے ایک شخص کو روتا دیکھ کر پوچھا کہ اے بھائی! تو کیوں روتا ہے؟ اس نے کہا میں محمد بن کعب قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلسِ وعظ میں گیا تھا، انہوں نے بیان کیا کہ مومنوں میں سے ایک مرد ہوگا، جو شامتِ گناہ سے کئی سال دوزخ میں رہے گا، میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں وہ مرد نہوں؟ آپ نے فرمایا اے کاش وہ مرد میں ہوتا کہ بعد ہزار سال کے بھی دوزخ سے نجات ہوتی۔
ایک روز یہ حدیث پڑھی جارہی تھی کہ اٰخر من یخرج من النّار یقال لہٗ ھناد۔ یعنی جو شخص کہ سب سے پیچھے دوزخ سے نکلے گا اس کا نام ہناد ہوگا، آپ روئے اور کہا کیا اچھا ہوتا کہ حسن وہ مرد ہوتا۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۲۷۳]
کسر نفسی
ایک روز آپ اپنے عبادت خانہ کی چھت پر اس قدر روئے کہ پر نالہ سے آنسو بہہ نکلے، ایک شخص اُس طرف سے جا رہا تھا اُس پر گرے، اس نے کہا یہ پانی پاک ہے یا نا پاک؟ آپ نے فرمایا اے بھائی دھو ڈالو کہ یہ گنہگار کا آنسو ہے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۲۷۳ شرافت]
یادِ آخرت
ایک بار آپ ایک جنازہ کی نماز کو گئے، جب لوگ مرد کو دفن کر چکے اور قبر درست ہوگئی تو آپ قبر سے لگ کر بیٹھ گئے، اور اس قدر روئے کہ قبر تر ہوگئی، اور فرمایا کہ دنیا کے آخر اور آخرت کے اوّل منزل یہی گور ہے، جیسا کہ وارد ہے القبر منزل من منازل الاٰخرۃ یعنی قبر منزل ہے منازل آخرت سے، پس کیا ناز کرتے ہو ایسے عالم پر جس کا آخر یہ ہے، اور کیوں نہیں ڈرتے اس عالم سے جس کا اوّل یہ ہے، اور جب اوّل و آخر تمہارا یہی ہے تو اے غافلو! اپنے اول و آخر کا کام درست کرو، یہ سن کر سارے لوگ جو حاضر تھے اس قدر روئے کہ بیخود ہوگئے۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۲۷۳]
عید کا دن
ایک بار عید کے دن آپ ایک جماعت پر گذرے، دیکھا کہ وہ لوگ ہنسی خوشی کر رہے ہیں، فرمایا مجھے ایسے لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جن کو اپنا مآلِ کار معلوم نہیں اور ہنسی خوشی کرتے ہیں۔ [۱][۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۲۷۳]
کمالِ ایمان
ایک بار آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ گورستان میں بیٹھا ہوا روٹی کھا رہا ہے، فرمایا یہ منافق ہے، لوگوں نے پوچھا کیوں؟ فرمایا جس شخص کی خواہش نفسانی مردوں کے سامنے بھی اپنے حال پر قائم رہے، اس کو جاننا چاہیے کہ وہ موت و آخرت پر ایمان نہیں رکھتا، اور یہ علامت منافق کی ہے۔ [۱][۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۲۷۳]
انکسار
ایک بار آپ نے ایک کُتّے کو دیکھ کر فرمایا کہ الٰہی بطفیل اس کتے کے مجھے قبول کر، ایک شخص نے پوچھا اے حسن رحمۃ اللہ علیہ! آپ بہتر ہیں یا کُتّا، فرمایا اگر میں عذاب سے نجات پاگیا تو میں بہتر ہوں، ورنہ قسم ہے خدائے پاک کے عزّت و جلال کی کہ کُتّا مجھ سے سو (۱۰۰) درجہ بہتر ہے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۲۷۴ شرافت]
نماز استسقا
ایک بار بصرہ میں خشک سالی واقِع ہوئی، دو لاکھ آدمی نمازِ استسقا کے واسطے جمع ہوئے، اور ایک منبر رکھا گیا کہ آپ اس پر جا کر دعا کریں، آپ نے فرمایا اے لوگو اگر تم چاہتے ہو کہ مینہ برسے تو حسن رحمۃ اللہ علیہ کو بصرہ سے نکال دو۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۲۷۴ شرافت]
ستر عیوب
آپ حج کو جانے والے تھے، حضرت ثابت بنانی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو لکھا کہ میری بھی خواہش ہے کہ آپ کے ہمراہ چلوں، آپ نے جواب لکھا کہ مجھے اس سے معذور رکھو، کہ ہم دونو اللہ تعالیٰ کی ستاری کے پردے میں رہیں، ہمراہ چلنے میں ایک کو دوسرے کا عیب معلوم ہوگا، اور جو خلوص آپس میں قائم ہے جاتا رہے گا۔ [۱][۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۲۷۴]
سبقِ اخلاص
آپ کا ایک مرید تھا، جب قرآن مجید سنتا بیخود ہوکر زمین پر گر پڑتا، آپ نے اُس سے فرمایا کہ یہ کام جو تو کرتا ہے اس میں آواز کو ظاہر نہ کیا کرو، کیونکہ اس سے ریا کاری معلوم ہوتی ہے، اور ریا سے انسان ہلاکت میں پڑ جاتا ہے، اور جب انسان پر حالت طاری نہ ہو، اور وہ اردتًا ایسی حالت بنادے، اور پند و نصیحت سے کچھ فائدہ حاصل نہ کرے، اور اس کو غور سے نہ سنے تو گنہگار ہوگا، پھر فرمایا جو شخص قصدًا روتا ہے، دراصل وہ نہیں روتا مگر شیطان روتا ہے۔ [۱][۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۲۷۴]
تجرید کو پسند کرنا
ایک شخص کی نسبت آپ کو اطلاع دی گئی کہ بیس برس سے وہ نماز جماعت میں حاضر نہیں ہوا، اور کسی سے اختلاط نہیں کیا، آپ اُس کے پاس گئے اور فرمایا کیوں تو نماز میں نہیں آتا، اور لوگوں سے نہیں ملتا، اُس نے کہا مجھے معذور رکھیے، کیونکہ میں مشغول ہوں، آپ نے پوچھا کِس کام میں؟ اُس نے کہا میں کوئی سانس نہیں لیتا مگر یہ کہ وہ ایک نعمت ہے، لیکن میری کوئی سانس معصیت سے خالی نہیں، پس میں اُس نعمت کے شکر، اور اِس معصیت کے عذر میں مشغول ہوں، آپ نے فرمایا اے بھائی! تو اِسی طرح مشغول رہ کہ تو مجھ سے بہتر ہے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۲۷۵ شرافت]
اضطراب
کسی نے آپ سے پوچھا کہ آپ کس طرح ہیں؟ فرمایا اُس شخص کی حالت کیسی ہوگی کہ دریا میں ہو، اور کشتی تباہی میں پڑ کر ٹوٹ جائے، اور وہ تختے کے ٹکڑے پر رہ جائے، اُس نے کہا ایک ہولناک اور سخت حالت ہوگی، فرمایا میری حالت بھی ویسی ہے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ۲۷۵ شرافت]
ایثار
ایک شخص نے آپ کی غیبت کی، آپ نے ایک طبق تازے خُرمے اُس کے پاس تحفہ بھیجے، اور لکھا کہ میں نے سنا ہے کہ تو نے اپنے حسنات کو میرے جریدۂ اعمال میں نقل کیا ہے، پس میں نے چاہا کہ اس کا عوض کروں، پس تو معذور رکھ کہ بدلہ ایسی بھلائی کا یہ تحفہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ [۱][۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۲۷۶]
سماع و وجد
آپ صاحب سماع تھے، اور وجد کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ وجد ایک راز ہے جو دل میں رکھا گیا ہے، جب حرکت میں آتا ہے حالتِ وجد پیش آتی ہے، اور سماع ایک داروئے خدائی ہے، جس نے اس کو ساتھ حق کے نوش کیا، اُس نے راہِ حق پائی، اور جس نے اپنے نفس کے واسطے سنا وہ زندیق ہوا۔ [۱] [۱۔ سیر الاقطاب ص ۱۶]
مواعظِ حسنہ
آپ کا کلام زیادہ تر انبیاء علیہم السّلام کے مشابہ تھا، اور سیرت و طریق میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اقرب تھے، آپ نے سوائے پندو نصائح کے کوئی بات نہیں کی، آپ کا معمول تھا کہ ہفتہ میں ایک بار وعظ فرماتے، آپ کا وعظ اکثر دل کے خطروں اور اعمال کی خرابیوں اور نفس کے وسوسوں و خواہشات میں سے خفیہ اور دقیق کے باب میں ہوا کرتا تھا۔ [۱] [۱۔ احیاء العلوم جلد اوّل فصل ششم ۱۲ شرافت]
مجلسِ وعظ
ایک بار لوگوں نے کہا کہ آپ کی مجلسِ وعظ میں لوگوں کی کثرت ہوتی ہے، آپ اس سے خوش ہوتے ہیں؟ فرمایا میں کثرت سے تو خوش نہیں ہوتا ہاں اگر کوئی سوختہ محبت الٰہی ہوتا ہے تو میں اس سے خوش ہوتا ہوں۔
آپ جب حضرت رابعہ بصری رضی اللہ عنہ کو مجلس وعظ میں نہ دیکھتے تو خاموش ہوجاتے، ایک بار لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کی مجلس مبارک میں اتنے بزرگ و خواجہ آیا کرتے ہیں، اگر ایک ضعیفہ نہوئی تو کیا ہوا، فرمایا جو شربت کہ بحوصلہ ہاتھیوں کے تیار کیا گیا ہو وہ چیونٹیوں کے سینہ میں کیونکر آسکتا ہے، جب آپ وعظ میں گرم کلام ہوتے اور جوش میں آتے تو اپنا منہ حضرت رابعہ رضی اللہ عنہا کی طرف کرتے اور فرماتے ھٰذا من جمرات قلبک یا سیّدۃ یعنی اے سیّدہ یہ گرمی اور جوش تیرے جوش تیرے ہی قلب کی گرمی سے ہے۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۲۷۱]
وعظ میں استقامت
ایک بار آپ وعظ فرما رہے تھے، ناگاہ حجاج بن یوسف ثقفی معہ اپنے خدم و حشم کے باشمشیر ہائے برہنہ داخِل مجلس ہوا، ایک بزرگ وہاں حاضر تھے اُنہوں نے دل میں کہا کہ آج حسن رحمۃ اللہ علیہ کا امتحان ہے، یہاں تک کہ حجاج بیٹھ گیا، مگر آپ نے ذرا بھی اُس کی پروا نہ کی، اور اُس کی طرف نظر بھی اٹھا کے نہ دیکھا، اور بدستور وعظ میں مشغول رہے، بزرگ نے کہا البتہ حسن رحمۃ اللہ علیہ حسن رحمۃ اللہ علیہ ہی ہے، جب آپ وعظ سے فارغ ہوئے تو حجاج آپ کے پاس آیا، اور آپ کے دست مبارک کو بوسہ دے کر لوگوں سے کہنے لگا، اگر تم چاہتے ہو کہ مرد کو دیکھو تو حسن رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھو۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۲۷۲]
وعظ لوجہ اللہ
ایک بار آپ مجلس وعظ سے اٹھے تو خراسان کے ایک شخص نے پانچ ہزار درم اور دس تھان باریک کپڑے کے آپ کی نذر کیے، اور عرض کیا کہ درم تو خرچ کے لیے ہیں اور کپڑا پہننے کو، آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ تم کو عافیت سے رکھے یہ اٹھالو اور اپنے ہی پاس رہنے دو، ہم کو اس کی حاجت نہیں، جو شخص میری سی مجلس میں بیٹھے، اور اِس جیسی نذر قبول کرے وہ جس روز اللہ تعالیٰ کے سامنے جاوے گا تو دین سے بے بہرہ جاوے گا۔ [۱] [۱۔ احیاء العلوم جلد اوّل فصل ششم ۱۲]
مقاماتِ فقر
محبّتِ فقر
آپ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور متابعتِ مرتضوی رضی اللہ عنہ کے سخت پابند تھے، اور جان و دل سے اُس کی پیروری کرتے، اور فرماتے کہ میں نے خرقہ مبارک آپ لوگوں کا پہنا ہے، مجھ پر فرض ہے کہ آپ لوگوں کی متابعت دل سے بجا لاؤں، تاکہ اہلِ خرقہ میں شمار ہوں اور فردائے قیامت میں درمیان درویشوں کے نادم و شرمندہ نہوں۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۲۷۲ شرافت]
مقامِ خوف
ایک بار لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ آپ اتنا کیوں روتے ہیں کہ اِس حالت کو پہنچے فرمایا میں گنہگار ہوں، اپنے گناہوں کو یاد کر کے خوفِ خدا سے روتا ہوں کہتے ہیں کہ آپ پر خوفِ خدا اس قدر غالب تھا، اگر کوئی آپ کو بیٹھا ہوا دیکھتا تو یہی معلوم ہوتا کہ گویا مقتل میں جلّاد کے سامنے بیٹھے ہیں۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۲۷۳]
مقامِ ہیبت
آپ کو کبھی کسی نے ہنستا نہیں دیکھا، آپ ہمیشہ مغموم و درد مند رہتے تھے، جب ذکر خدا کہتے یا سنتے بیہوش ہوجاتے، چہرہ پر پانی چھڑکا جاتا تو ہوش میں آتے، روتے اور کہتے یا آلہ العالمین! حسن گنہگار ہے اور تو ارحم الراحمین ہے حسن پر رحم کر، اور خرقۂ درویشی جو تو نے اس کو پہنایا ہے اس کی شرم رکھ لے، اور درویشوں کے رو برو اس کو خجل و شرمسار نہ کر۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۲۷۳]
مقامِ محبت
ایک بزرگ نے آپ سے پوچھا کہ آپ کتنے عرصہ میں مقام محبت پر پہنچے، فرمایا تین دن میں، پہلے روز دنیا کو ترک کیا، دوسرے روز آخرت کو، تیسرے روز مقامِ محبت پر پہنچ گیا۔ [۱] [۱۔ مفتاح العاشقین بحوالہ مونس الارواح ۱۲]
فنا و نیستی
ایک بار آپ نے خادِم سے فرمایاکہ میرے افطار کے واسطے روٹی اور کباب ماہی بازار سے لے آ، خادِم لے آیا، اور افطار کے وقت آپ کے سامنے رکھا، آپ نے دیکھ کر فرمایا کہ فقیر کو طعام لذیذ سے کیا نسبت؟ خادِم نے عرض کیا کہ آپ ہی نے تو حکم دیا تھا یہ سن کر آپ اس قدر روئے کہ بیہوش ہوگئے جب ہوش آیا تو کہنے لگے یا آلہ العالمین حسن رحمۃ اللہ علیہ سے بڑی خطا ہوئی، تو اس کی خطا سے درگذر، اور اس کانام دفتر درویشاں سے محو مت کر، بعد اس کے چالیس روز تک کچھ نہ کھایا، اور برابر گریہ و زاری میں رہے، ندا آئی کہ اے حسن رحمۃ اللہ علیہ میں نے تیری خطا بخش دی، لیکن شکستگی مت چھوڑ کہ میں شکستگی کو دوست رکھتا ہوں، اور میری درگاہِ عالی شکستگی کی بڑی قدر ہے۔ [۱][۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۲۷۳شرافت]
کرامات
انفجارِ آب
ایک بار آپ ایک جماعت کے ساتھ حج کو تشریف لے جا رہے تھے، راستہ میں سب کو پیاس نے بیقرار کیا، جنگل میں پانی کا نام و نشان نہ تھا، آخر بہزار جستجو ایک کنواں ملا جس پر ڈول و رسی کوئی نہیں تھی، سب پریشان ہوگئے، آپ نے فرمایا ذرا توقف کرو، ابھی پانی اوپر آجاتا ہے، آپ وہیں نماز پڑھنے میں مشغول ہوگئے، اسی وقت پانی کناروں تک اُبل آیا، سب نے سیر ہوکر پیا، ایک طماع نے مشکیزہ بھر لیا، اُسی وقت پانی نیچے چلا گیا، آپ نے فرمایا کہ اگر تم طمع نہ کرتے تو پانی کناروں تک ہی رہتا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
تصرّف فی الاشیاء
ایک بار سفرِ حج میں آپ کو ایک جگہ سے کھجوریں دستیاب ہوئیں، آپ نے اپنے ساتھیوں میں بانٹ دیں، جب انہوں نے کھائیں تو ان کی گٹھلیاں سونے کی تھیں، سب نے ان کو فروخت کر کے سامانِ سفر خریدا، اور بقیہ زر مدینہ منورہ میں جا کر خیرات کیا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
طے ارض
شیخ ابو عمرو رحمۃ اللہ علیہ قاری قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے کسی گناہ کے باعث قرآن کو بھول گئے، یہی ماجرا حضور کے آگے عرض کیا، آپ نے فرمایا تم مکہ مکرمہ جاؤ، وہاں حج کر کے مسجد خیف میں جانا، وہاں ایک بزرگ گوشہ نشین ہوں گے، ان سے دعا کروانا، چنانچہ وہ وہاں گئے، اکثر لوگ وہاں جمع تھے، پھر ایک بزرگ اجنبی آئے، سب نے ان کی تعظیم کی، تھوڑی دیر کے بعد سب لوگ چلے گئے، صرف وہی بزرگ رہ گئے جو گوشہ نشین تھے، ابو عمرو رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا حال بیان کیا، انہوں نے دعا کی تو پھر قرآن مجید ان کو یاد ہوگیا، پھر پوچھا کہ ہمارا پتہ تم کو کس نے دیا، کہا خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے، اس بزرگ نے فرمایا کہ اُس نے میرا پردہ فاش کیا، میں اُس کا راز ظاہر کرتا ہوں، وہ وہی شخص تھا جو سب سے پہلے یہاں آیا، اور سب نے ان کی تعظیم کی، وہ روزانہ نماز ظہر کے بعد یہاں آتے ہیں، اور ہم سے گفتگو کر کے عصر کو بصرہ پہنچ جاتے ہیں، پھر فرمایا جس کا امام خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ہواس کو دوسرے کی کیا ضرورت ہے۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
تاثیر زبان
آپ کے پڑوس میں شمعون نام آتش پرست رہتا تھا، جب اُس کا وقتِ وفات قریب آیا تو آپ عیادت کو گئے، اور فرمایا اے شمعون! تو نے ستر سال آگ کی پرستش کی ہے لیکن اب بھی اگر تو آگ میں گرے تو وہ تجھ کو جلا دیوے، اور تیرا کچھ لحاظ نہ کرے، اور میں نے ایک اللہ کی پرستش کی ہے دیکھ آگ مجھے کچھ گزند نہیں پہنچا سکتی، یہ کہ کر آپ نے آگ میں ہاتھ ڈال دیا، اس کو ذرا بھی کچھ آسیب نہ پہنچا، پھر فرمایا اے شمعون تو اسلام قبول کر لے، اُس کے سینہ میں نورِ اسلام چمکا، اور کہنے لگا کہ اگر آپ مجھے سندِ نجات اپنے دستخط سے لکھ دیویں تو میں اسلام قبول کرتا ہوں، چنانچہ آپ نے اس کو مغفرت کی سند تحریر کردی، اور بصرہ کے اکابر عادلین کی مہریں بھی اس پر ثبت کروائیں، آخر وہ اسلام قبول کرکے فوت ہوگیا مرتے وقت وصیت کی کہ یہ سند میرے کفن میں رکھ دینا، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، چنانچہ بعد وفات آپ نے اس کو خواب میں دیکھا کہ نہایت قیمتی لباس اور تاج مرضع پہنے ہوئے بہشت میں سیر کر رہا ہے، پوچھا کیا گذری؟ اس نے کہا کہ آپ کی سند تحریری کے طفیل اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا، اب آپ اپنا اقرار نامہ لیجیے، جس وقت آپ بیدار ہوئے تو وہ اقرار نامہ اپنے ہاتھ میں پایا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
جنّات کا مستفیض ہونا
شیخ عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں ایک روز جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی غرض سے علی الصباح اٹھا، جب آپ کی مسجد کے دروازے پر گیا تو دروازہ اندر سے بند پایا، آپ دعا مانگ رہے تھے، اور لوگ آمین کہہ رہے تھے، میں نے خیال کیا کہ آپ کے احباب یہاں موجود ہیں، پس میں نے تھوڑا توقف کیا یہاں تک کہ صبح ہوگئی، میں نے دروازہ پر ہاتھ رکھا، دروازہ کھل گیا، دیکھا کہ آپ تن تنہا ہیں، اور ان لوگوں میں سے جو موجود تھے کوئی بھی نہیں ہے، اس سے مجھے سخت حیرت ہوئی، جب میں نماز سے فارغ ہوا تو آپ سے عرض کیا کہ خدا کے واسطے مجھے اِس حال سے آگاہ کیجیے، آپ نے فرمایا کہ کسی سے مت کہنا، ہر شب جمعہ کو میرے پاس جنّ و پَریاں آتی ہیں، میں ان کو وعظ سناتا اور دین کی باتیں بتاتا ہوں، پھر دعا کرتا ہوں وہ آمین کہتی ہیں۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیاء ۱۲ شرافت]
کشفِ قبور
ایک روز آپ ایک جماعت کے ساتھ ایک قبرستان سے گذرے، فرمایا اس قبرستان میں ایسے لوگ مدفون ہیں کہ ان کا سر ہمت آٹھوں بہشتوں کے نازو نعمت پر نہیں جھُکا، اور انہوں نے کچھ توجہ نہیں کی، لیکن ان کی خاک کے ساتھ ایسی حسرت ملی ہوئی ہے کہ اگر اس کا ایک ذرّہ آسمانوں کے سامنے پیش کیا جائے تو سب مارے خوف کے گر پڑیں۔ [۱][۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۲۷۴]
امدادِ غیبی
منقول ہے کہ جب آپ حجاج بن یوسف ثقفی کے سامنے جاتے تو آیت شریف وافوّض امری الی اللہ انّ اللہ بصیر بالعباد (المؤمن۔ ع ۵) پڑھ کر تشریف لے جاتے، حجاج قسمیہ بیان کرتا تھا کہ میں کبھی کسی شخص سے ایسا نہیں درا جیسا کہ حضور سے درتا تھا، جب آپ کی شکل مجھے نظر آتی تھی تو میرے اندام پر لرزدہ پڑجاتا تھا، میں دیکھتا تھا کہ دو (۲) شیر آپ کے ساتھ آتے تھے، اور مجھ پر حملہ کرنا چاہتے تھے، آپ ان کو روکتے تھے۔ [۱] [۱۔ راحت القلوب ۱۲]
قبولیّتِ دعا
منقول ہے کہ ایک خارجی آپ کی مجلس میں آکر بہت اذیت دیا کرتا ایک دن تمام اہل مجلس اُس سے تنگ آگئے اور اُس کے حق میں سزا کے خواستگار ہوئے، آپ نے دعا فرمائی اے پروردگار! اس شخص کے شرّ سے ہم کو بچا، جب لوگوں نے خبر لی تو وہ مرچکا تھا۔ [۱] [۱۔ تاریخ الاولیا ۱۲ شرافت]
عملیات
برائے چشم زخم
آپ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اوپر یا اپنے مال پر نظر لگنے کا وہم کرے تو وہ اس آیت شریف کو پڑھ کر تین بار دم کردیوے، آیت یہ ہے وان یکاد الّذین کفرو الیز لقونک بابصارھم لمّا سمعوا الذّکر ویقولون انّہ لمجنون وما ھوا الّا ذکرٌ للعٰلمین (نٓ) اور اگر کسی کو کوئی چیز پسند آوے اور وہ مال ہو یا اولاد یا زوجہ یا مکان یا باغ ہو یا اس کے سوا اور چیز ہو تو اسی وقت یہ کہے ماشاء اللہ لا قوّۃ الّا باللہ اس کے کہنے سے حق تعالیٰ نظر کی تاثیر سے محفوظ رکھتا ہے۔
اور اگر کوئی جانے کہ میری نظر بڑی سخت ہے تو ہ کسی چیز کو دیکھا نہ کرے، اور اگر کسی چیز پر نظر پڑجائے تو کہے اللّٰھمّ بارک علیہ اس کی برکت سے نظر اثر نہ کرے گی۔ [۱] [۱۔ طِبّ نبوی ۱۲]
برائے حصول تقوٰی
آپ نے فرمایا کہ جو شخص نماز عشا کے بعد یہ آیت شریف پانچ مرتبہ پڑھا کرے، اللہ تعالیٰ اس کو متقیوں کے زمرہ سے کر دے گا، اور وہ ہمیشہ بہشت میں رہے گا ان شاء اللہ تعالیٰ، آیت یہ ہے فادخلی فی عبادی وادخلی جنّتی (الفجر) [۱] [۱۔ جواہر الاولیا جو ہر اوّل ۱۲]
برائے دفِع بلیّات
آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس دعا کو ہر نماز عشا کے بعد سات مرتبہ پڑھا کرے گا، اللہ تعالیٰ اُس کو تمام بلیّات سے محفوظ رکھے گا، اور حق تعالیٰ کے عجائب غراب بہت دیکھے گا، اور اس کو کوئی غم و اندوہ نہ ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ دعا یہ ہے نادعلیًّا مظہر العجائب والغرائب تجدہ عونًا لک فی النوائب کلّ ھمّ وغمّ سینجلی بنبّوتک یا محمد یا محمد یا محمد وبو لا یتک یا علی یاعلی یا علی۔ [۱] [۱۔ ایضًا جوہر پنجم ۱۲ شرافت]
برائے کشفِ ارواح و جمیع مقاصد
آپ نے فرمایا ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ کوئی دعا اس سے بہتر نہیں جو شخص میری امت سے ہمیشہ اس دعا کو پڑھا کرے گا ان شاء اللہ تعالیٰ اس سے ستر بیماریاں ظاہری و باطنی دفع کرے گا، اور جو شخص دن رات میں پڑھے گا اپنے نفس کافر پر فتح پاوے گا، اور جو شخص اکیس (۲۱) دن تک روزانہ اکیس مرتبہ پڑھے گا عالم ارواح اس پر مکشوف ہوگا، اور اس کے باطن میں کوئی چیز پوشیدہ نہ رہے گی ان شاء اللہ تعالیٰ دعا یہ ہے۔ بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیمط اللھم انی اسئلک باسمائک الحسنیٰ یا اللہ یا اللہ فاعلم انہ لا الٰہ الّا ھو الرحمٰن الرّحیم الرّحمٰن علی العرش استوٰی یا رحیم وکان اللہ غفورًا رحیمًا یا مالک لمن الملک الیوم للہ الواحد القہّار یا قدّوس یا متعال فتعالی اللہ الملک الحق یا سلام سلام قولاً من رب رحیم یا مؤمن المؤمن المھیمن یا عزیز وھو العزیز الحکیم یا جبّار الجبّار المتکبّر یا خالق فتبارک اللہ احسن الخالقین یا باریٔ الخالق الباریٔ یا مصوّر ھوالّذی یصوّرکم فی الارحام کیف یشاء یا اوّل یا اٰخر ھوالاوّل والاٰخر والظّاھر والباطن وھو بکل شئی علیم یا شکور انّا ربّنا لغفور شکور یا غفور واللہ غفور رحمیم یا ودود انّ اللہ لغفور ودود وصلی اللہ علٰی خیر خلقہٖ محمد واٰلہٖ اجمعین برحمتک یا ارحم الرّاحمین۔ [۱] [۱۔ جواہر الاولیاء جوہر پنجم ۱۲ شرافت]
برائے زیارت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص صلوٰۃ والعتمہ کے بعد چار رکعت نفل پڑھے، ہر رکعت میں بعد فاتحہ کے سورۂ الضحیٰ۔ انشراح۔ القدر۔ الزلزال ایک ایک بار پڑھے، پھر سلام کے بعد استغفار سو (۱۰۰) مرتبہ پڑھے، پھر درود شریف سو (۱۰۰) مرتبہ پڑھے، پھر لا حول ولا قوّۃ الّا باللہ العلّی العظیم سو (۱۰۰) مرتبہ پڑھے، ایسا کرنے سے خواب میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ [۱] [۱۔ جواہر الاولیاء جوہر پنجم ۱۲ شرافت]
مکتوبات
آپ کے کئی مکتوب مملواز نصائح کتابوں میں تحریر ہیں اُن میں سے تین خط نقل کیے جاتے ہیں۔
مکتوب اوّل
یہ خط آپ نے دنیا کی مذمت میں حضرت عمر بن عبد العزیز خلیفۂ وقت کو لکھا تھا۔ بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم۔ بعد حمد و صلوٰۃ کے واضح ہو کہ دنیا جائے سفر ہے نہ اقامت کا گھر، حضرت آدم علیہ السلام جو جنّت سے اس میں اتارے گئے تو صرف عقوبت و سزا کے لیے اتارے گئے، اے امیر المؤمنین اس سے ڈرتے ہو، اس کو ترک کر دینا ہی زادِ آخرت ہے اور اس میں محتاج رہنا غنا و ثروت ہے، ہر وقت ایک نہ ایک کو فنا کرتی رہتی ہے، جو اس کو عزیز جانتا ہے اس کو ذلیل کرتی ہے، جو اس کو جمع کرتا ہے اس کو فقیر کرتی ہے، اس کا حال زہر کا سا ہے کہ جو نہیں جانتا وہ کھاتا ہے اور ہلاک ہوجاتا ہے، اس میں ایسی طرح رہنا چاہیے جیسے کوئی اپنے زخموں کا علاج کرے کہ تھوڑے دنوں پرہیز کیا کرتا ہے اِس خوف سے کہ کہیں مدت تک کلیف نہ اٹھانی پڑے، اور چند روز دوا کی تلخی پر صبر کرتا ہے کہ کہیں درد مدت تک نہ رہے، پس اس دارِ نا پائدار فریبی مکار جفا شعار سے بچتے رہو، اس کی ظاہر کی زینت صرف دھوکا ہے، اور لوگوں کے پھنسانے کو بڑا مغالطہ ہے، جو اس کی آرزؤں میں مبتلا ہوا اس کو بے تباہ کیے نہیں چھوڑتی، اور سب کو توقع دلاتی رہتی ہے، اس کی صورت دلہن کی سی ہے کہ آنکھوں کی تاک اور دلوں کا اشتیاق اور نفسوں کا عشق اسی پر ہے، اِلّا اس نے اپنے سب شوہروں کو مار ڈالا۔ ؎
عروسِ دہر نکو روئے دخترے ست ولے
وفا تمیکندایں سست مہر بادا ماد
مگر افسوس کہ پسماندوں کو گذشتوں سے عبرت نہیں ہوتی، اور جو لوگ خدائے عزّوجل کو پہچانتے ہیں باوجود یکہ اس نے اس کا حال فر ما دیا ہے، ان کو نصیحت کچھ اثر نہیں کرتی، بہت سے اس کے عاشق ایسے ہیں کہ جہاں ان کی حاجت پوری ہوئی، اور دنیا حسب دلخواہ ملی جبھی مغرور و سرکش ہوکر معاد کو بھول جاتے ہیں، اور اپنی عقل کو اتنا اس میں لگاتے ہیں کہ ان کے قدم جادۂ مستقیم سے لغزش کھاجاتے ہیں، پھر جان کنی کے وقت بڑی مذامت اور نہایت حسرت سکراتِ موت کے ساتھ اٹھاتے ہیں، اور جو شخص اس کی رغبت کرتا ہے اپنا مطلوب نہیں پاتا، نہ اس کا نفس مشقت سے آرام پاتا ہے، اسی حال میں بے توشہ چل دیتا ہے، اے امیر المؤمنین! تم اس سے ڈرتے رہو، اور جس وقت کہ تم کو اس میں زیادہ خوشی ہو، اسی کا زیادہ خوف کیجیو، اس واسطے کہ دنیا دار اگر کسی خوشی میں اطمینان کرتا ہے تو وہ اس کو رنج میں ڈالتی ہے، جو دنیا میں خوش ہوتا ہے وہ اس کے باشندوں کو مغالطہ دیتا ہے، اور جو آح اس میں نفع پاتا ہے گل کو ضرور اٹھاتا ہے، اس میں وسعتِ عیش بلا ہے، اور بقا کا مآل فنا ہے، ہر خوشی غم آگین ہے، اور ہر ایک راحت زحمت سے قرین ہے جو اس میں سے گذرجاتا ہے پھر واپس نہیں آتا، اور آئیندہ چیز کا حال معلوم نہیں کہ اس کا انتظار ہو، اس کی سب آرزوئیں در وغ ہیں اور تمام امیدیں بے فروغ ہیں، صفائی ہمہ تن کدورت ہے، اور زندگی بہمہ وجوہ حسرت، آدمی اگر غور و تامل کرے تو معلوم ہو کہ اس کی نعمتوں کے جدا ہونے کا خوف جدا ہے اور مصیبت کا خوف جدا، اگر بالفرض خدا تعالیٰ نے دنیا کی خبر نہ ارشاد فرمائی ہوتی، اور نہ اس کی مثل بیان کی ہوتی تب بھی دنیا سوتے کو جگادیتی، اور غافل کو ہوشیار کر دیتی، پھر جبکہ خدا تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہو تب تو بطریق اولےٰ اس سے ہوشیاری ضرور ہے، اس فانی کی قدر قادرِ مطلق کے نزدیک کچھ نہیں، اور جب سے اس کو پیدا کیا اس کی طرف نگاہ نہیں کی، اس بات کو سوچو کہ یہ وہی پلید چیز ہے کہ تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر مع خزائن و کلید پیش کی گئی تھی، اگر آپ اس کو قبول فرما لیتے تو خدا تعالیٰ کے نزدیک آپ کے رتبہ میں سے مچھر کے پَر کے برابر بھی کم نہ ہوتا، مگر آپ نے قبول نہ فرمایا اس لیے کہ خدا تعالیٰ کے امر کی مخالفت بُری معلوم ہوئی، اور جس چیز سے اس کو بغض ہے اس کے ساتھ محبت اچھی نہ جانی، اور جو اس کے نزدیک بے قدر تھی اس کو قدر دینا ادب نہ سمجھا، پس خدا تعالیٰ نے جو دنیا کو نیک بختوں سے علیحدہ رکھا ہے صرف امتحان کے لیے ہے، اور اپنے دشمنوں کے لیے جو پھیلاوا کیا ہے ان کے مغالطہ و دھوکھا کے لیے ہے، یہی وجہ ہے کہ جس کو دنیا پر قدرت ہوجاتی ہے اُس کو یہ گمان ہوتا ہے کہ خدا نے میری بڑی عزّت کی، اس شخص کو وہ معاملہ یاد نہیں جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ کیا تھا کہ بھوک کے مارے اپنے شکم مبارک پر پتھر باندھا تھا۔ ؎
فقر فخری نداز گزاف ست و مجاز
بل ہزاراں عزّ پنہان ست و ناز
اور ایک روایت حدیث قدسی کی آپ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ارشاد فرمایا کہ جب تم تونگری کو آتا دیکھو تو کہیو کہ کسی گناہ کی عقوبت جلد ہوئی ہے، اور اگر مفلسی کو آتا دیکھو تو کہیو کہ خوب ہوا کہ یہ نیک بختوں کا شعار آیا، اور اگر چاہو روح اللہ اور کلمۃ اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی اقتدا کرو وہ یہ فرماتے تھے کہ میرا سالن بھوک ہے، اور شِعار خوف، اور پوشاک جاڑے کی اون، اور حرارت آفتاب کی دھوپ، اور چراغ چاند، اور سواری دونو پاؤں، اور کھانا و میوہ نباتات، رات کو سوتا ہوں جب کچھ نہیں ہوتا، صبح کو اٹھتا ہوں تب کچھ نہیں ہوتا، اور روئے زمین پر مجھ سے زیادہ تونگر اور کوئی نہیں۔ والسّلام۔ [۱] [۱۔ مذاق العارفین ترجمہ احیاء علوم الدین جلد سوم (۳) باب ششم بیانِ دوم ۱۲]
مکتوبِ دوم
ایک بار حضرت خلیفہ عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو لکھا کہ آپ مجھ کو کچھ وعظ و نصیحت کیجیے، آپ نے ان کو جواب میں لکھا۔
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم۔ بعد حمد و صلوٰۃ کے واضح ہو کہ سب سے بڑے ہَول اور امور دہشتناک تمہارے آگے ہیں، اور تم کو ان کا دیکھنا ضرور پڑے گا، یا نجات سے یا تباہی کے ساتھ، اور یہ بھی جان لو کہ جو شخص اپنے نفس کو جانچتا رہتا ہے وہ نفع میں رہتا ہے، اور جو اس سے غافل رہتا ہے وہ نقصان اٹھاتا ہے، اور جو شخص انجام کار پر نظر رکھتا ہے وہ نجات پاتا ہے، اور جو ہوائے نفس کی اطاعت کرتا ہے وہ گمراہ ہوتا ہے، اور جو شخص حِلم کرتا ہے اس کو غنیمت ملتی ہے، اور جو ڈرتا رہتا ہے وہ بچ جاتا ہے، اور جو مامون رہتا ہے وہ عبرت پکڑتا ہے، اور عبرت والا صاحبِ بصیرت ہوتا ہے، اور اہلِ بصیرت فہیم ہوتا ہے اور فہیم آدمی واقف کار ہوتا ہے، پس جب تم سے کوئی لغزش ہوجائے تو اس سے باز آنا چاہیے اور جب ندامت کرو تو خطا کو جڑ سے اُکھاڑ دو، اور اگر کوئی بات نہ آتی ہو تو پوچھ لو اور جس وقت تم کو غصہ آوے اس کو روکو۔ والسّلام۔ [۱] [۱۔ ایضًا جلد چہارم ۱۲ شرافت]
مکتوب سوم
یہ خط بھی آپ نے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃاللہ علیہ کو لکھا۔
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
بعد حمد و صلوٰۃ کے معلوم کرنا چاہیے کہ جس چیز سے اللہ تعالیٰ خوف دلاتا ہے اور ڈراتا ہے اس سے ڈرنا اور خوف کرنا چاہیے، اور جو تمہارے پاس اب موجود ہے اس میں سے آگے کے واسطے لےلو، اور موت پر یہ حال ٹھیک ٹھیک معلوم ہوگا۔ والسّلام [۱] [۱۔ ایضًا جلد چہارم ۱۲ شرافت]
کلماتِ طیّبات
مناجات
آپ مناجات فرمایا کرتے تھے کہ ’’الٰہی تو نے مجھے نعمت دی میں اس کا شکر بجا نہ لایا، اور تو نے بَلا بھیجی میں نے اُس پر صبر نہ کیا، پس تو نے اِس سبب سے کہ میں نے شکر نہ کیا، اپنی دی ہوئی نعمت مجھ سے واپس نہ لی، اور اس سبب سے کہ میں نے صبر نہ کیا تو نے بَلا کو ہمیشہ کے لیے مجھ پر مسلط نہیں رکھا، الٰہی تجھ سے سوائے فضل و کرم کے اور کچھ ظاہر نہیں ہوتا۔‘‘
قرآن
فرمایا۔ کُل صحیفے ایک سو چار (۱۰۴) کی تعداد میں مختلف انبیاء علیہم السّلام پر نازل ہوئے ان کا خلاصہ تورٰت، زبور، انجیل میں ہے، اور ان تینوں کا خلاصہ قرآن مجید میں ہے، اور اس کا خلاصہ سورۂ فاتحہ میں ہے، اور اس کا خلاصہ بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم میں ہے۔ فرمایا۔ جو لوگ تم سے پہلے تھے انہوں نے اس کتاب کی قدر جانی جو اللہ تعالیٰ سے ان کو پہنچی تھی، رات کو اُس پر غور کرتے، اور دن کو اُسے عمل میں لاتے، تم نے اس کو درست کیا مگر اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا، اور باوجود یکہ اس کے اعراب اور حروف درست کر چکے ہو پھر دنیا کی کتاب کی درستگی میں مشغول ہو۔
نماز
فرمایا جو نماز کے حضور دل سے نہ ہو وہ نزدیک تر عقوبت کے ہے۔
خشوع
لوگوں نے پوچھا کہ خشوع کیا ہے؟ فرمایا خوفِ خدا جو ہر دم دل سے لگا رہے۔
تہجد
ایک شخص نے پوچھا کہ تہجد گذار شخصوں کے چہرے اچھے کیوں ہوتےہیں؟ فرمایا وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تنہائی میں ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو اپنے نور سے نور پہناتا ہے۔
عِلم
فرمایا حلم علم کا وزیر ہے اور نرمی اس کا باپ ہے اور تواضع اس کا لباس۔
علم و عمل و قناعت
فرمایا مرد کو چاہیے علم نافع، اور عمل کامل ساتھ اخلاص کے، اور قناعت پوری ساتھ صبر کے، جب یہ تینوں باتیں حاصل ہوجائیں پھر میں نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کریں۔
فقیہ
فرمایا فقیہ وہ ہے جو دنیا میں زاہد اور آخرت کا راغب اور اپنے دین میں عقل رکھنے والا، اور اپنے رب کو عبادت پر مداومت کرنے والا، اور اپنے نفس کو مسلمانوں کی اغراض سے بچانے والا، اور اُن کے مالوں کی طرف رُخ نہ کرنے والا، اور اہلِ اسلام کی جماعتوں کا خیر خواہ ہو۔
مسلمان
لوگوں نے پوچھا کہ مسلمان کون ہے اور مسلمانی کیا ہے؟ فرمایا۔ مسلماناں درگور و مسلمانی در کتاب۔
مومن
فرمایا کوئی مومن ایسا نہیں ہوا ہے اور نہ ہوگا جو اس خوف سے کانپتا نہ ہو کہ مبادا منافق ہو۔
فرمایا جو شخص کہے کہ میں مومن ہوں حقا وہ بیقین مومن ہے۔
فرمایا مومن وہ ہے کہ ہر حال میں یکسان ہو، ایسا نہیں کہ جب کوئی نہ ہوجو چاہے کرے اور جو زبان پر آوے بکے۔
مومن کے خصائل
فرمایا۔ کُتّے میں دس خصلتیں ایسی ہیں جو ہر مومن کے بیچ ہوئی چاہئیں پہلی یہ کہ وہ بھوکھا رہتا ہے، یہ آداب صالحین سے ہے، دوسری یہ کہ اُس کا کوئی مکان ذاتی نہیں ہوتا، یہ علامت متوکلین کی ہے، تیسری یہ کہ وہ رات کو کم سوتا ہے، یہ صفت محبین کی ہے، چوتھی یہ کہ وہ مرجاتا ہے اور کوئی میراث نہیں چھوڑتا، یہ صفت زاہدین کی ہے، پانچویں یہ کہ وہ اپنے مالک کو نہیں چھوڑتا گو وہ خفا ہو یا اس کو مارے، یہ علامت مریدین صادقین کی ہے، چھٹی یہ کہ وہ ادنے جگہ بیٹھتا ہے، یہ نشانی متواضعین کی ہے، ساتویں یہ کہ جب کوئی اس کی جگہ چھین لیتا ہے تو وہ دوسری جگہ جا بیٹھتا ہے یہ علامت راضئین کی ہے، آٹھویں یہ کہ اس کو ماریں یا دُھتکاریں پھر ٹکڑا ڈال دیں اور بلائیں تو دوڑا ہوا چلا آتا ہے، پہلی مار وغیرہ کا کچھ خیال نہیں کرتا، یہ علامت خاشعین کی ہے، نویں یہ کہ جب کھانا رکھا جاتا ہے تو وہ دور بیٹھا ہوا دیکھا کرتا ہے، یہ علامت مساکین کی ہے، دسویں یہ کہ جب کسی جگہ سے چلا جاتا ہے تو پھر اس کی طرف التفات نہیں کرتا، یہ علامت مجردین کی ہے۔
لوگوں کے اقسام
دنیا میں پانچ قسم کے لوگ ہیں۔ ۱۔ علما۔ یہ انبیاء علیہ السّلام کے وارث ہیں، ۲۔ زُھّاد۔ یہ خدا کی راہ بتانے والے ہیں، ۳۔ غازی۔ یہ خدا کی تلوار ہیں، ۴۔ تجار۔ یہ خدا کے امین ہیں، ۵۔ بادشاہ۔ یہ خلق کے چرواہے ہیں جب علما طمع کر کے مالِ دنیا جمع کریں تو اقتدا کس کی کی جائے، جب زہاد راغبِ دنیا ہوں تو راہ کون بتائے اور کس سے راستہ پوچھا جائے، جب غازی ریا کار ہو تو ریا کار کے واسطے کوئی عمل نہیں دشمنوں پر فتح کیسے ہو، جب تاجر خائن ہو تو امین کون کہا جائے، جب بادشاہ گرگ خونخوار ہوجائے تو خلق کی حفاظت کون کرے، قسم ہے خدائے پاک کی ہلاک کیا لوگوں کو طامِع عالموں، راغب زاہدوں، ریا کار غازیوں، خائن تاجروں، ظالم بادشاہوں نے۔
دنیا
فرمایا غریب آدم زاد ایسی سرا پر راضی ہوئے جس کے حلال کا حساب اور حرام کا عذاب ہے، آدمی کسی حال میں ہو دنیا سے مفارقت نہیں کرتا مگر تین حسرتوں کے ساتھ، ایک یہ کہ جمع کرنے سے سیر نہیں ہوا، دوسرے یہ کہ ساری امیدیں پوری نہ ہوئیں، تیسرے یہ کہ پورا سامان سفر آخرت کا مہیّا نہیں کیا۔
کسی نے کہا فلان شخص جان کنی کی حالت میں ہے، فرمایا ایسا نہ کہو بلکہ وہ ستر برس سے جان کنی کی حالت میں تھا، اب جان کنی سے چھوٹتا ہے۔
فرمایا۔ نجات پائی سبکباروں نے اور ہلاک ہوئے گراں بار۔
فرمایا خدا اس قوم کو بخشے جس کے نزدیک دنیا بطور امانت کے تھی اور سبکبار چلے گئے۔
فرمایا۔ میرے نزدیک عقلمند وہ ہے جو دنیا کو خراب کرلے، اور اُس کی خرابی میں آخرت کو بناوے نہ یہ کہ آخرت کو خراب کرے، اور اس کی خرابی میں دنیا کو بناوے، جس نے خدا کو پہچانا وہ اُس کو دوست رکھتا ہے، اور جس نے دنیا کو پہچانا وہ اس کو دشمن رکھتا ہے۔
فرمایا۔ دنیا میں کوئی سرکش گھوڑا تیرے نفس سے زیادہ سخت لگام دینے کے لائق نہیں۔
فرمایا۔ اگر تو دیکھنا چاہتا ہے کہ بعد تیرے دنیا کس طرح ہوگی، تو دیکھ لے کہ بعد موت دوسروں کے کِس طرح ہے۔
فرمایا۔ قسم ہے خدائے پاک کی نہیں پوجا لوگوں نے بتوں کو مگر دنیا کی دوستی میں
محبت دنیا
حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ لوگوں کی خرابی کِس بات میں ہے؟
فرمایا۔ دل کے مرنے میں، کہا دل کا مرنا کیا ہے؟ فرمایا دنیا کی محبت۔
فرمایا۔ بخدائے پاک سونے چاندی کو کوئی شخص عزیز نہیں رکھتا کہ اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل و خوار نہیں کرتا۔
طلبِ دنیا
فرمایا ہم نشینی بدوں کی بدگمان کرتی ہے مرد کو نیکیوں سے، شراب پینے کو جانا میں زیادہ بہتر سمجھتا ہوں دنیا کی طلب سے۔
فِکر
فرمایا فِکر ایک آئینہ ہے کہ حسنات و سیئات تیرے تجھ کو دکھلاوے، جو بات کہ سر حکمت سے نہیں وہ عین آفت ہے، اور جو خاموشی کہ سرِ فکرت سے نہیں وہ تمام تر شہوت و غفلت ہے، اور جو نظر کہ سر عبرت سے نہیں وہ بالکل لہو و ذلّت ہے۔
وررع
کسی نے پوچھا اصل دین کیا ہے؟ فرمایا ورع و پرہیز گاری، پوچھا وہ کون چیز ہے جو ورع کو تباہ کر دیتی ہے فرمایا طمع، پوچھا بہشت عدن کیا ہے؟ فرمایا ایک قصرِ زرّیں ہے، اس میں سوائے پیغمبر و صدّیق و شہید و سلطان عادل کے کوئی نہ جائے گا۔
فرمایا۔ ورع کے تین درجے ہیں، ایک یہ کہ جب بولے حق بولے خواہ غصہ میں ہو خواہ خوشی میں، دوسرے یہ کہ جس چیز میں خدا کا غصہ ہو اس سے اپنے تمام اعضا کو نگاہ رکھے، تیسرے یہ کہ قصد اس کا ایسی چیز کی طرف ہو جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا و خوشنودی ظاہر فرمائی ہو۔
فرمایا۔ ذرہ بھر ورع و پرہیز گاری ہزار سال کی نماز اور روزے سے بہتر ہے۔
فرمایا۔ افضل ترین اعمال فکر و ورع ہے۔
دعوت الی اللہ
لوگوں نے کہا بعضے کہتے ہیں کہ دعوت الی اللہ اُس وقت کرنی چاہیے جب خود عیبوں سے پاک ہو، فرمایا شیطان اسی آرزو میں ہے کہ دروازہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ایسے ہی حیلہ سے بند کرے۔
کسی نے پوچھا جو طبیب بیمار ہو وہ دوسروں کا معالجہ کس طرح کرے، فرمایا پہلے وہ اپنا علاج کرے پھر دوسروں کا۔
فرمایا۔ میرا کلام سنو کیونکہ میرا علم تم کو فائدہ دے گا، اور میری بے عملی تم کو نقصان نہ پہنچا سکے گی۔ لوگوں نے کہا ہمارے دل سوئے ہوئے ہیں کہ نصیحت آپ کی اثر نہیں کرتی فرمایا تمہارے دل مردے ہیں سویا ہوا ہلانے سے بیدار ہوتا ہے، مردہ ہوشیار نہیں ہوسکتا، لوگوں نے کہا کہ بعض بزرگ اپنی باتوں سے ایسا ڈراتے ہیں کہ دل مارے خوف کے پارہ پارہ ہوجاتا ہے، فرمایا بہتر ہے کہ تم آج ڈرانے والوں کی باتیں سنو اور ان کے ہم صحبت رہو تاکہ کل رحمت کی امید ہو۔
معرفت
فرمایا معرفت یہ ہے کہ تو ذرّہ بھر اپنے خصومت اور نفسانیت نہ پاوے۔
نصائح
ایک بار آپ نے حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ کو نصیحت کی کہ کہ تین کام ہر گز مت کرنا ایک تو یہ کہ بادشاہوں کی بساط پر قدم نہ دھرنا، اگرچہ وہ تمام تر شفقت ہو، دوسرے یہ کہ کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھنا اگرچہ وہ رابعۂ وقت ہو، اور تو اسے کتاب اللہ کی تعلیم دیتا ہو، تیسرے یہ کہ مزامیر پر کان نہ دھرنا، اگرچہ تو درجہ مردان مرد کار رکھتا ہو کیونکہ یہ آفت سے خالی نہیں، آخر الامر اپنا زخم لگادیں گے۔
ایک بار آپ نے اپنے یاروں سے فرمایا کہ تم حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ کی مانند ہو، وہ لوگ خوش ہوگئے، فرمایا صرف صورت شکل میں نہ کسی دوسری بات میں، اگر تم ان کو دیکھتے تو وہ تمہاری نظر میں دیوانے معلوم ہوتے، اور اگر وہ تمہارے حال پر اطلاع پاتے تو تم میں سے کسی ایک کو بھی مسلمان نہ کہتے، وہ پشیروان اسپان راہوار پر مثل مرغ و ہوا کے تیز چلے گئے، اور ہم خرانِ پشت ریش پر درماندہ پڑے ہوئے ہیں۔
فرمایا۔ تورٰت میں ہے کہ جس نےقناعت اختیار کی وہ خلق سے بے نیاز ہوا، جس نے خلق سے عزلت اختیار کی وہ سلامت رہا، جس نے شہوت ترک کی وہ آزاد ہوا، جو حسد سے دور رہا وہ موت کو پہنچا، جس نے چند روزہ صبر اختیار کیا اُس نے برخورداری جاوید کی پائی۔
نیّتِ نیک
فرمایا بہشت جاودانی بے پایان اس عمل چند روزہ سے نہیں بلکہ نیک نیّت سے ہے، جس اہل بہشت بہشت کو دیکھیں گے سات لاکھ سال بے خود ہوں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن پر تجلّٰی کرے گا، اور اگر اس کے جلال کو دیکھیں گے تو مست ہیبت ہوں گے، اور اگر اس کے جمال کو دیکھیں گے تو غرقِ وحدت ہوں گے۔
سکوت
فرمایا اہلِ عقل کو خاموشی اختیار کرنی چاہیے، اس وقت تک کہ دل ان کے گویا ہوجائیں، اور اس کا اثر زبان پر سرایت کرے۔
خوف و رجا
ایک بار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کولکھا کہ مجھے کوئی ایسی نصیحت کیجیے جس کو میں یاد رکھوں، اور اپنا دستور العمل بناؤں، آپ نے جواب میں لکھا، جب اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ ہےتو تو خوف کس سے رکھتا ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ نہیں تو تو امید کس سے رکھتا ہے۔
صبر
ایک اعرابی نے پوچھا صبر کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا صبر دو طرح پر ہے، ایک بلا و مصیبت پر، دوسرے اُس چیز پر جس سے اللہ تعالیٰ نے نہی فرمائی ہے، اور جیسا کہ حق صبر کا تھا بیان کیا، اعرابی نے کہا میں نے زاہد تر آپ سے کسی کو نہیں دیکھا، اور صابر تر آپ سے کسی کو نہیں سنا، آپ نے فرمایا اے اعرابی! زہد میرا بوجہ رغبت کے، اور صبر میرا بوجہ بے صبری کے ہے، اعرابی نے کہا میں نے نہیں سمجھا، آپ اس کو صاف فرما دیں، فرمایا زہد میرا دنیا میں بوجہ رغبت آخرت کے ہے اور یہ عین حصّہ طلبی ہے، اور صبر میرا بلا یا طاعت میں بوجہ خوف آتش دوزخ کے ہے اور یہ عین بے صبری ہے، زہد و صبر اس شخص کا قوی ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کے واسطے ہو، اور خیال اپنے نفع و ضرر کا نہ ہو، اور یہ علامت اخلاص کی ہے۔
پیشوا
فرمایا جس احمق نے لوگوں کو اپنا پیرو دیکھا اور خیال کیا کہ میں پیشوائے قوم ہوں، اُس کا دل بجا نہ رہا۔
فرمایا جو بات تو کسی کو کہنا چاہے چاہیے کہ پہلے خود اس پر عمل کرے۔
فرمایا جو شخص دوسروں کی بات تیرے پاس لاوے وہ تیری بات بھی دوسروں کو پہنچاویگا۔
تکبر
فرمایا حیرت و تعجب ہے آدمی پر کہ تکبر کرتا ہے، حالانکہ دن میں کئی بار اپنے ہاتھ سے پاخانہ دھوتا ہے۔
نِفاق
فرمایا ظاہر و باطن کا ایک دوسرے کے خلاف ہونا از جملہ نفاق ہے۔
غیبت
فرمایا تین (۳) شخصوں کی غیبت روا ہے اہل ہوا، فاسق، ظالم، غیبت کا کفارہ استغفار ہے اگر تو چھٹکارا چاہتا ہے۔
تنبیہ
فرمایا۔ بھیڑ آدمی سے زیادہ آگاہی رکھتی ہے، اس لیے کہ چرواہے کی آواز اس کو چرنے سے باز رکھتی ہے، اور آدمی کو حکمِ خدا اس کی مراد سے باز نہیں رکھتا۔
اہل ہوا
فرمایا۔ اہل ہوا سے نہ جدل کرو، اور نہ ان کے پاس بیٹھو، اور نہ ان کا قول سنو۔
اخوّت
فرمایا میرے نزدیک برادران دینی بیوی اور بچوں سے زیادہ عزیز ہیں، اس لیے کہ وہ دین کے یار ہیں، اور بیوی بچے دنیا کے یار اور دین کے دشمن، آدمی جو کچھ کہ اپنی ذات اور اپنے ماں باپ کے کھانے کپڑے میں خرچ کرتا ہے اُس کا حساب دینا ہوگا، مگر مہمان اور دوستوں کے کھانے کا حساب نہ ہوگا۔ [۱] [۱۔ کلمات طیبات کا سارا مضمون تذکرۃ الاولیاء اور احیاء العلوم جلد اوّل اور مسالک السالکین جلد اوّل سے انتخاب کر کے لکھا ہے ۱۲ شرافت]
معرفینِ کمال
۱۔ حضرت عایشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ کا کلام سنا تو فرمایا کہ حسن بصری رحمۃا للہ علیہ کا کلام انبیاء علیہم السلام کا سا معلوم ہوتا ہے۔
۲۔ بلال بن ابی بردہ رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے کہ میں حسن رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ کسی کو صحابہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ مشابہ نہیں پایا۔
۳۔ حمیدہ بن ہلال رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ ہم سے ابو قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس شیخ یعنی حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی تعظیم کیا کرو، میں نے ان کی رائے سے زیادہ کسی کی رائے کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے زیادہ مشابہ نہیں پایا۔
۴۔ مطر رحمۃ اللہ علیہ اپنے چشمدید حالات بیان کرتے ہیں کہ بصرہ میں ابو شعشا رحمۃ اللہ علیہ بڑے واعظ تھے، لیکن جب حسن رحمۃ اللہ علیہ ظاہر ہوئے ان کا بیان ایسا تھا کہ گویا وہ آخرت میں تھے۔
۵۔ اصبغ بن زید رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں عوام بن حوشب رحمۃ اللہ علیہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ حسن رحمۃ اللہ علیہ مثل اُس نبی کے ہیں جو اپنی قوم میں ساٹھ (۶۰) برس تک خدا کی طرف دعوت کرتا رہا۔
۶۔ جعفر بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابراہیم بن عیسیٰ یشکری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ میں نے حسن رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ کسی کو غمگین نہیں پایا، جب میں نے ان کو دیکھا یہی گمان ہوا کہ ان کو کوئی تازہ غم پہنچا ہے۔
۷۔ حفص بن غیاث رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے اعمش رحمۃ اللہ علیہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ حسن رحمۃ اللہ علیہ حکمت کی باتوں کو یاد کرتے رہے یہاں تک کہ ان کو بیان کرنے لگے۔
۸۔ جب آپ کا ذکر حضرت امام محمد باقِر علیہ السّلام کے نزدیک ہوتا تو وہ فرماتے کہ حسن رحمۃ اللہ علیہ کا کلام انبیاء علیہم السّلام کے کلام کے مشابہ ہے۔ [۱] [۱۔ یہ سب اقوالِ اکابر ازالۃ الخفا جلد سوم (۳) میں مذکور ہیں ۱۲]
۹۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کو ہم لوگوں پر کس وجہ سے بزرگی اور سرداری ہے، ایک بزرگ نے جواب دیا کہ تمام خلائق اس کے علم کی حاجتمند ہے، اور اس کو سوائے خالق کے کسی کی حاجت نہیں، اور دین میں سب اس کے محتاج ہیں، اس سبب سے وہ سب کا سردار ہے۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۲۷۲ شرافت]
۱۰۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ وعظ و تذکیر میں حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ مقتدائے قوم ہیں۔
اولادِ کرام
آپ کی اولاد و فرزندان کے نام بتصریح کسی تاب سے نہیں مل سکے، آپ کی کنیت سے معلوم ہوتا ہے کہ غالبًا آپ کے چار صاحبزادے تھے۔ ۱۔ شیخ محمد رحمۃا للہ علیہ۔ ۲۔ شیخ علی رحمۃاللہ علیہ۔ ۳۔ شیخ سعید رحمۃ اللہ علیہ۔ ۴۔ شیخ نصر رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ کی اولاد میں کئی اکابر اولیاء اللہ ہوتے چلے آئے، چنانچہ ایک بزرگ اصفہانی کا تذکرہ کتاب راحت القلوب میں بدیں طور منقول ہے۔
حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک بزرگ نے شیخ جلال الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کے آگے حکایت بیان کی کہ میں سفر کرتا ہوا اصفہان میں ایک بزرگ سے ملاقی ہوا، وہ بڑے صاحب کمال تھے، عمران کی ایک سو پچاس (۱۵۰) سال سے تجاوز کر گئی تھی، فرماتے تھے کہ میں حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا پڑوتا ہوں، اہلِ شہر کو ان سے بہت اعتقاد تھا، جب کسی کو کوئی حاجت پیش آتی ان کی خدمت میں رجوع کرتا، آپ کے دعا فرمانے سے اس کی حاجت فورًا پوری ہوجاتی، کبھی ایسا اتفاق نہ ہوتا کہ ان کی دعا رد ہوگئی ہو۔
خلفائے عظام
صاحب ارشاد الطالبین نے لکھا ہے کہ حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے تین سو ساٹھ مرید تھے جو کہ علوم ظاہر و باطن میں آپ کے برابر تھے، اگر وہ آگ میں بیٹھتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آئینہ میں آگ چمک رہی ہے۔ [۱] [۱۔ تاریخ الاولیا ۱۲ شرافت]
صاحب آئینہ تصوف نے لکھا ہے کہ خلیفہ اکبر آپ کے دو، اور صاحب مجاز پچیس (۲۵)، اور خلیفہ اصغر بہت تھے۔
۱۔ حضرت شیخ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ
ان کا ذکر آگے آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
۲۔ حضرت شیخ مالک دینار رحمۃ اللہ علیہ
توکل و تجرید میں یگانہ وقت تھے، ایک روز کشتی پر سوار ہوئے پاس کچھ نہ تھا، ملاحوں نے مار پیٹ کر دریا میں پھینکنا چاہا، اسی وقت مچھلیاں منہ میں دینار لیے ہوئے پانی کے اوپر تیر آئیں، کشتیبان قدم بوس ہوئے، اُسی وقت یہ کشتی سے اتر کر پانی کے اوپر چلنے لگے، اور نظر سے غائب ہوگئے، اسی دن سے اِن کا نام مالک دینار رحمۃ اللہ علیہ پڑگیا۔ ۱۳۷ھ میں انتقال کیا۔
۳۔ حضرت شیخ عتبہ بن ابان بن صمعہ المعروف عتبہ بن الغلام رحمۃ اللہ علیہ
صاحب احوال و مقاماتِ عالیہ تارک الدنیا اہل خوارق و کرامات تھے، ایک مرتبہ حضرت خواجہ حسن رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ جا رہے تھے، راستہ میں دریا آیا، یہ پانی کے اوپر چلنے لگے، حضور نے پوچھا یہ مرتبہ کیسے پایا؟ کہا تسلیم و رضا سے، ۱۶۷ھ میں انتقال کیا۔
۴۔ حضرت خواجہ عبد الواحد بن زَید رحمۃ اللہ علیہ
اکابر اولیائے وقت سے تھے، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ و حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ صحابی اور خواجہ کمیل بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی فیض پایا، اِن کے وجود سے بیشمار خلایق نے فیض باطنی پایا، یہ گروہ زیدیہ کے امام و پیشوا تھے، انہیں کی ذاتِ بابرکات سے تمام دنیا میں سلسلہ چشتیہ نے فروغ پایا، صایم الدہر قائم اللیل تھے، بتاریخ ستائیسویں صفر ۱۷۷ھ میں انتقال فرمایا۔
آج کل ہمارے زمانہ میں اس سلسلہ علیہ میں سے تین بزرگ مشائخ کبار میں سے ہیں۔
اوّل: حضرت حاجی خواجہ سید مہر علی شاہ صاحب چشتی نظامی گولڑہ شریف ضلع راولپنڈی میں سکونت رکھتے ہیں، علمیّت ظاہری و فضیلتِ باطنی میں یگانہ آفاق ہیں، ضعیف العمر متبرک عزیز الوجود ہیں، زمانہ حاضرہ میں ان کے ارادتمندوں کا سلسلہ لاکھوں تک ہے، فیضِ مجسّم ہیں ان کی تصانیف سے کتاب اصلاح الفصیح لا عجاز المسیح الملقب بہ سیف چشتیائی رَدِّ مرزا غلام احمد قادیادنی مدعی نبوّت و مسیحیت، اور کتاب شمس الہدایۃ، اور رسالہ تحقیق الحق فی کلمۃ الحق، اور رسالہ اعلاء کلمۃ اللہ فی بیان وما اہل بہ لغیر اللہ، مقبول عام ہوئی ہیں، ان کے فیض روحانی سے راقم الحروف فقیر شرافت عافاہ اللہ بھی بہرہ ور ہے، اگرچہ ظاہری ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوسکا لیکن عالم رؤیا میں زیارت سے مشرف ہوا ہے، فقیر کو اپنے پاس برابر بٹھایا اور اسمائے ثلاثہ یَا مُعِزُّ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ کے وظیفہ سے شاداب فرمایا۔ سلمہ اللہ تعالٰی۔ اِن کو بیعت و خلافت حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی جمعہ ۲۴؍ صفر ۱۳۰۰ھ) سے ہے۔
دوم: حضرت مولانا حاجی سیّد ابو البرکات محمد فضل شاہ صاحب چشتی نظامی جلالپور شریف ضِلع جہلم میں سجادہ نشین ہیں،سلسلہ چشتیہ کے فیضان کا ظہور ان کے وجودِ مسعود سے دن بدن ترقی پر ہے، اوصاف و اخلاقِ بزرگاں سے موصوف ہیں، علم ظاہر و باطن میں اپنے اقران میں امتیازی حیثیت رکھتے ہیں، راقم الحروف فقیر شریف احمد شرافت عفی عنہ کو بعض وظائف چشتیہ کی اجازت مرحمت فرمائی ہے سلّمہ اللہ تعالٰی۔ اِن کو بیعت اپنے جد امجد حضرت سید حیدر شاہ جلالپوری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی دوشنبہ ۶؍ جمادی الاخرٰے ۱۳۲۶ھ)سے ہے وہ مرید حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کے۔
سوم: عامِل قرآنی طبیبِ روحانی حضرت سید محمد حسین شاہ صاحب چشتی نظامی الملقب بہ ’’شیخ صحرائی‘‘ المعروف ’’روہی والے پیر صاحب‘‘ نواحِ بہاولپور میں صحرا کے اندر بعالمِ تجرید قیام رکھتے ہیں، معمّر متیمن بزرگ ہیں، بلادِ عرب و عجم کا بہت سیر کیا ہے، اور متعدٓد سلسلوں کی اجازت سے بہرہ ور ہوئے ہیں، سال کا اکثر حصہ مقابر اولیائ اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت میں صرف فرماتے ہیں، اور روحانیت بزرگاں سے افاضہ حاصل ہے، چنانچہ درگاِ عالیہ نوشاہیہ میں بھی تشریف لائے، اور فقیر شرافت اصلح اللہ حالہ و مآلہ کو شغلِ اسم اعظم اور دعائے خاص و دیگر و ظائف خاندان چشتیہ سے مفتخر فرمایا، اور اپنے کمال مراحمِ درویشانہ سے نوازا۔ سلمہ اللہ تعالٰی۔اِن کو بیعت حضرت سید علی احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے ہے وہ مرید حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید خواجہ محمد سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی پنجشنبہ ۷؍ صفر ۱۲۶۷ھ) کے، وہ مرید خواجہ نور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۳؍ ذیحجہ ۱۲۰۵ھ) کے، وہ مرید مولانا فخر الدین فخر جہان دہلوی (متوفی شب شنبہ ۲۷؍ جماوی آلاخر ۱۱۹۹ھ) کے، وہ مرید اپنے والد شیخ نظام الدین اورنگ آبادی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی شب سہ شنبہ ۱۲؍ ذیقعدہ ۱۱۴۲ھ) کے، وہ مرید خواجہ کلیم اللہ بن نور اللہ صدیقی جہان آبادی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی سہ شنبہ ۲۴؍ ربیع الاوّل ۱۱۴۲ھ) کے، وہ مرید شیخ ابو یوسف محی الدین یحییٰ بن محمود مدنی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی شنبہ ۲۸؍ صفر ۱۱۰۱ھ) کے، وہ مرید اپنے جد امجد شیخ ابو الحسن شمس الدین محمد اعظم احمد آبادی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی یکشنبہ ۹؍ ربیع الاول ۱۰۴۰ھ) کے، وہ مرید اپنے والد شیخ ابو صالح حسن محمد بن میانجیو احمد احمد آبادی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی سہ شنبہ ۲۸؍ ذیقعدہ ۹۸۲ھ) کے، وہ مرید شیخ جمال الدین جمّن احمد آبادی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۲۰؍ ذیحجہ ۹۴۰ھ) کے، وہ مرید اپنے والد شیخ محمود راجن پیراں پٹنی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی جمعہ ۲۲ ؍ صفر ۹۰۰ھ) کے، وہ مرید اپنے والد شیخ علم الدین پیراں پٹنی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی چہار شنبہ ۲۶؍ صفر ۹۰۱ھ) کے، وہ مرید اپنے والد شیخ سراج الدین پیراں پٹنی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی شب پنجشنبہ ۲۱؍ جمادی الاوّل ۸۱۷ھ) کے، وہ مرید اپنے والد شیخ کمال الدین بن عبد الرحمٰن علّامہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۲۷؍ ذیقعدہ ۷۵۶ھ) کے، وہ مرید خواجہ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی شب جمعہ ۱۳؍ رمضان ۷۵۷ھ) کے، وہ مرید سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین محمد اولیا محبوب الٰہی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی چہار شنبہ ۱۸؍ ربیع الآخر ۷۲۵ھ) کے، وہ مرید خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر اجودہنی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی شنبہ ۵؍ محرم ۶۶۴ھ) کے، وہ مرید خواجہ قطب الدین بختیار اوشی کاکی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۴؍ ربیع الاول ۶۳۴ھ) کے، وہ مرید خواجۂ خواجگان غریب نواز سیّد خواجہ معین الدین حسن سنجری اجمیری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی دوشنبہ ۶؍ رجب ۶۳۳ھ) کے، وہ مرید خواجہ ابو النور عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۵؍ شوال ۶۱۷ھ) کے، وہ مرید خواجہ نیر الدین حاجی شریف زندنی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۰؍ رجب ۶۱۶ھ) کے، وہ مرید مخزن الانوار خواجہ قطب الدین مودود چشتی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی غرہ رجب ۵۲۷ھ) کے، وہ مرید اپنے والد خواجہ ناصر الدین ابو یوسف بن محمد سمعان شاقلانی چشتی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۳؍ رجب ۴۵۹ھ) کے، وہ مرید خواجہ ناصِح الدین ابو محمد چشتی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۴؍ ربیع الاول ۴۱۱ھ) کے، وہ مرید اپنے والد خواجہ قدوۃ الدین ابو احمد ابدال بن فرسنافہ چشتی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی غرہ جمادی الآخر ۳۵۵ھ) کے، وہ مرید خواجہ شرف الدین ابو اسحاق شامی چشتی رحمۃا للہ علیہ (متوفی ۱۴؍ ربیع الآخر ۳۲۹ھ) کے، وہ مرید خواجہ کریم الدین علو دینوری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۴؍ محرم ۲۹۸ھ) کے، وہ مرید خواجہ امین الدین ہبیرۃ البصری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۷؍ شوال ۲۸۷ھ) کے، وہ مرید خواجہ سدید الدین حذیفۃ المرعشی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۲۴؍ شوال ۲۷۶ھ) کے، وہ مرید سلطان ابو اسحاق ابراہیم بن ادہم بلخی رحمۃاللہ علیہ (متوفی ۲۸؍ جمادی الاوّل ۲۶۱ھ) کے وہ مرید سلطان ابو اسحاق ابراہیم بن ادہم بلخی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۲۸؍ جمادی الاوّل ۲۶۱ھ) کے وہ مرید خواجہ ابو الفضل فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۳؍ ربیع الاوّل ۱۸۷ھ) کے، وہ مرید حضرت خواجہ عبد الواحد بن زید کے، رضوان اللہ علیہم۔ [۱] [۱۔ سلسلہ مشائخ چشتیہ کی تاریخ ہائے وفات کتاب خزنیۃ الاصفیا جلد اوّل اور تاریخ اولیاء گجرات اور مجالس الحسنہ اور مرأۃ السّالکین سے اخذ کی گئی ہیں ۱۲]
۵۔ حضرت شیخ عمرو بن داوٗد القرشی المکی رحمۃ اللہ علیہ
بزرگ پارسامتقی تھے، بروز چہار شنبہ بوقت ظہر ہفدہم (۱۷) رجب ۱۸۷ھ میں وفات پائی، اور مدینہ منورہ جنت البقیعہ میں مدفون ہوئے۔
ان کے ایک مرید شیخ شیران المانی بن قیام رحمۃ اللہ علیہ تھے انہوں نے بروز دوشنبہ نویں صفر ۲۰۷ھ میں انتقال کیا۔ [۱] [۱۔ آئینہ تصوف۔ شرافت]
۶۔ حضرت شیخ ابو الحسین علی بن رزین الہروی رحمۃ اللہ علیہ
ایک سو بیس سال کی عمر پائی، کوہ طور سینا پر مدفون ہوئے۔ اِن کے خلیفہ شیخ ابو عبد اللہ محمد بن اسمٰعیل مغربی رحمۃ اللہ علیہ بڑے مشہور بزرگ تھے، انہوں نے بعمر ایک سو بائیس (۱۲۲) سال ۲۹۹ھ میں انتقال کیا۔
آگے اُن کے ایک درویش ابو اسحاق ابراہیم بن شیبان کرمان شاہی (متوفی ۳۳۸ھ) اکابر مشائخ سے تھے۔
۷۔ حضرت شیخ محمد بن واسِع رحمۃاللہ علیہ
اکابر اولیاء اللہ سے تھے، ایک مرتبہ ان کے پاؤں میں ایک زخم تھا، کسی شخص نے عرض کیا یا حضرت! آپ کا یہ زخم دیکھ کر مجھے بڑی ہمدردی پیدا ہوتی ہے تو فرمانے لگے کہ یہ زخم جب سے ہوا ہے میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ زخم آنکھ میں نہیں۔
اور فرمایا میں دنیا سے صرف تین چیز چاہتا ہوں، اوّل بھائی کے جب میں ٹیڑھا ہوں تو مجھے درست کردے، دوسری غذائے حلال جو غیر حق سے خالی ہو، تیسری نماز باجماعت کہ اس کی خطا مجھ سے معاف کردی جائے اور اس کی بزرگی میرے لیے لکھی جائے
۸۔ مستورات میں سے حضرت رابعہ عدویّہ بصری رحمۃاللہ علیہ
نہایت پاکباز عارفہ کاملہ زاہدہ عابدہ مستجاب الدعوات تھیں، جب تک یہ مجلس میں حاضر نہ ہوتیں حضرت خواجہ حسن رحمۃ اللہ علیہ وعظ نہ فرمایا کرتے، ۱۸۵ھ میں انتقال کیا۔
واقعۂ وفات
منقول ہے کہ آپ اپنی وفات کے وقت ہنسے، حالانکہ تمام عمر آپ کو کسی نے ہنستے نہیں دیکھا، اور فرمایا کونسا گناہ؟ کونسا گناہ؟ اور جان بحق تسلیم ہوئے، ایک بزرگ نے آپ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ آپ زندگی کی حالت میں تو کبھی نہ ہنسے، جان کنی کے وقت ہنسنے کا کیا سبب تھا؟ فرمایا میں نے ایک آواز سنی تھی کہ اے ملک الموت! سختی کر کہ ابھی اس کا ایک گناہ باقی ہے، مجھے اس خوشی میں ہنسی آگئی، میں نے پوچھا کونسا گناہ؟ اور جان دے دی۔
ندائے غیبی
جس روز آپ نے وفات پائی، غیب سے ایک آواز آئی جو سب نے سنی اِنَّ اللہَ الصطفٰی اٰدم ونوحًا واٰل ابراھیم واٰل حسن اور اسی شب کو ایک بزرگ نے خواب دیکھا کہ دروازے آسمان کے کھلے ہیں، اور منادی ندا کرتا ہے کہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ خدا سے ملا، اور خدا اس سے راضی و خوش ہوا،
تاریخ وفات
حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی وفات بقولِ صاحبِ سیر الاقطاب و سفینۃ الاولیا بتاریخ چہارم محرم الحرام ۱۱۱ھ ایک سو گیارہ ہجری جمعہ مطابق ۷۲۹ء ۸؍ اپریل سات سو انتیس عیسوی میں بعہدِ خلافت ہشام بن عبد الملک بن مروان خلیفہ دہم اموی کے ہوئی۔
مدفن پاک
آپ کا مزار پُر انوار بصرہ سے نومیل بطرفِ مغرب بمقامِ زبیر واقع ہے، گنبد بنا ہوا ہے، روضہ شریف کا دروازہ ہر جمعرات کو کھُلتا ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
قطعہ تاریخ
از حضرت مولانا شاہ غلام مصطفٰے صاحب نوشاہی دام فیوضہ
سرورِ اولیا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ
سالِ وے اُنس (۱۱۱) گفت نوشاہی
درجناں رفت اُنس بامردم
رحمۃ اللہ علیہ گوہر دم
منہ
عمدۂ اصفیا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ
بود اعلیٰ فقیہ نو شاہی
شدبدار السّلام آں مالک
رحلتِ شیخ گفتمت سالک (۱۱۱)
منہ
شاہ حسن درجہاں ببرد سبق
انتقالِ جناب خواں باحق (۱۱۱)
منہ
حسن شد بجنت حبیب امین
وصالش بگفتم اَحب اہل دین (۱۱۱)
منہ
چوں ولی اللہ قدم درعدن زد
سالِ وصلش گشت محمودِ احد (۱۱۱)
دیگر
از اسماء الحسنیٰ
مالک ودود (۱۱۱) اعلٰے (۱۱۱) مالک ھادی (۱۱۱)
مالک بدوح (۱۱۱) دیّان ولی (۱۱۱) مبدی مجیب (۱۱۱)
(شریف التواریخ)