حضرت ہود علیہ السلام
حضرت ہود علیہ السلام
حضرت ہود علیہ السلام ’’عاد‘‘ قبیلہ سے ہیں۔ اس قبیلہ کو ’’عاد اولیٰ‘‘ کہا گیا ہے اور ’’عاد ثانیہ‘‘ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کو کہا جاتا ہے جو ’’قوم ثمود‘‘ کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص کا نام ’’عاد‘‘ تھا اس کی طرف منسوب ہونے والی قوم کو ’’عاد‘‘ کہا گیا ہے۔
عاد کا نسب یہ ہے: عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح۔
حضرت ہود علیہ السلام کا نسب: ہود بن عبداللہ بن رباح بن خلود بن عاد ہے،
اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا (پ۸ سورۃ اعراف ۶۵)
ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کو بھیجا۔ (صاوی علی الجلالین ص۱۸۴، جمل حاشیہ جلالین ص ۱۳۵)
یہاں کئی مترجین نے ’’اخاھم‘‘ کا ترجمہ ’’ان کا بھائی‘‘ کیا ہے، جو سراسر غلط ہے۔ پوری قوم کے افراد آپ کے حقیقی بھائی بھی نہیں تھے اور اللہ تعالیٰ کا نبی کفار کا دینی بھائی بھی نہیں ہوسکتا۔ آپ علیہ السلام صرف ان کی قوم کے ایک فرد تھے، اسی وجہ سے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ترجمہ ’’ہم قوم‘‘ کیا ہے۔ اور یہی علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق ہے۔
حضرت ہود علیہ السلام کو عاد کا ’’ہم قوم‘‘ اور صالح علیہ السلام کو ’’ثمود‘‘ کا ہم قوم کہہ کر کفار مکہ کا رد کیا، جو یہ کہتے تھے کہ ’’محمد‘‘ ہماری قوم سے ہوکر نبی کیسے بن گئے؟ رب تعالیٰ نے فرمایا: قوم عاد سے ہود علیہ السلام تھے لیکن ان کے نبی تھے، ثمود کی قوم سے صالح علیہ السلام تھے لیکن ان کے نبی تھے۔(ماخوذ از تفسیر کبیر)
حضرت ہود علیہ السلام کی آمد و رفت:
حضرت ہود علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام سے آٹھ سو سال بعد تشریف لائے اور چار سو چونسٹھ (۴۶۴) سال اس دنیا میں ظاہری حیات میں رہے اور پھر اس دنیا فانی سے رحلت فرمائی اور حیات جاودانی حاصل کی۔
حضرت ہود علیہ السلام نے قوم کو کیا تبلیغ فرمائی؟
قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ (پ۸ سوۃ اعراف ۶۵)
کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا: کیا تمہیں ڈر نہیں؟ یعنی آپ نے ان کے ڈرنے کو بعید سمجھا اور گویا یہ کہا کہ تم ڈرتے ہی نہیں ہو۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کو عذاب دیا جاچکا ہے، جس کا تمہیں علم ہے اگر تمہیں کچھ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ڈر اور خوف ہوتا تو ضرور تم اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آتے، بت پرستی کی حماقت نہ کرتے۔
قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوااللہ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ، یٰقَوْمِ لَآاَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی الَّذِیْ فَطَرَنِیْ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ، وَیٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّةً اِلٰی قُوَّتِکُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ (پ۱۲ سورۃ ھود ۵۰، ۵۲)
کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کریں اس کے سوا کوئی معبود نہیں تم صرف افتراء باندھنے والے ہو اے قوم میں اس پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے تو کیا تمہیں عقل نہیں اور میری قوم اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع کرو تم پر زور کی بارش برسائے گا اس سے زیادہ دے گا اور جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ کرو۔
حضرت ہود علیہ السلام کی قوم بت پرست تھی خصوصاً ان کے تین بڑے بت تھے جن کو وہ اپنے بڑے معبود سمجھتے تھے ان بتوں کے نام صداء صمود اور ھباء تھے حضرت ہود علیہ السلام کی قوم عمان اور ’’حضر موت‘‘ کے درمیان پھیلی ہوئی تھی یہ ایک ریگستانی وادی تھی جس کا ذکر قرآن پاک میں اس طرح بیان کیا گیا ہے
وَاذْکُرْ اَخَا عَادٍ اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَہٗ بِالْاَحْقَافِ(پ۲۶ سورۃ احقاف ۲۱)
اور یاد کرو عاد کے ہم قوم کو جب اس نے ان کو سر زمین احقاف میں ڈرایا۔
ہود علیہ السلام نے جب ان کو شرک سے باز رہنے بت پرستی کو چھوڑنے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے کی دعوت دی تو قوم نے آپ کی تکذیب کی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے تین سال تک بارش روک لی، قحط سالی پڑ گئی، ان کی عورتوں کو بھی تین سال تک بانجھ کردیا ان کے بچوں کی پیدائش معطل ہوگئی۔
ہود علیہ السلام نے تین شخصوں کو اپنی قوم کے پاس بھیجا کہ تم انہیں سمجھاؤ وہ تین شخص یہ تھے: قیل بن عشر، نعیم بن ھزال اور مرثد بن سعد یہ درحقیقت آپ پر ایمان لائے ہوئے تھے لیکن اپنی قوم سے ایمان کو چھپایا ہوا تھا، ان تینوں کو بھیجنے کا مقصد یہی تھا کہ قوم انہیں اپنا سمجھ کر ان کی بات کو مانے گی اور سوچیں گے کہ یہ ہمارے اپنے ہی لوگ ہمیں نصیحت کر رہے ہیں تو یقیناً اس میں بھلائی ہوگی لیکن قوم سوچنے اور ماننے سے عاری ہی رہی۔
آپ نے قوم کو ان تینوں کے ذریعے کہلایا: کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ، رب تعالیٰ سے مغفرت طلب کرو اور اللہ تعالیٰ کی طرف خشوع و خضوع سے رجوع کرو، تو اللہ تعالیٰ تمہیں زور کی بارش عطا کردے گا اور تمہیں کثیر مال عطا کرے گا اور تمہیں بیٹے عطا کرے گا اور تمہارے لیے بارش سے نہریں اور باغات بنائے گا اور تمہیں پہلے سے زیادہ طاقتور بنائے گا۔
اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو دینی اور دیناوی نعمتیں عطا فرماتا ہے، اگرچہ دیناوی نعمتوں کی کوئی حیثیت نہیں لیکن انسانی فطرت ہے کہ وہ دنیا میں رہنے اور دیناوی نعمتوں کو دیکھنے کی وجہ سے ان کی طرف زیادہ رغبت کرتا ہے اور چونکہ وہ لوگ کھیتی باڑی اور باغبانی کے کام کرتے تھے اس لیے ان کے لیے اسی قسم کی نعمتوں کا ذکر کرنا ہی مناسب تھا۔ ہود علیہ السلام نے قوم کو ان الفاظ میں راہ راست پر لانے کی کوشش کی۔
فَاتَّقُوا اللہ وَ اَطِیْعُوْنِ وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍاِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ،اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْعٍ اٰیَةً تَعْبَثُوْنَ، وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوْنَ، وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ، فَاتَّقُوا اللہ وَ اَطِیْعُوْنِ، وَاتَّقُوا الَّذِیْٓ اَمَدَّکُمْ بِمَا تَعْلَمُوْنَ، اَمَدَّکُمْ بِاَنْعَامٍ وَّ بَنِیْنَ وَجَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ (پ۱۹ سورۃ شعراء ۱۲۶، ۱۳۴)
اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو اور اس سے ڈرو جس نے تمہاری مدد کی ان چیزوں سے کہ تمہیں معلوم ہیں، تمہاری مدد کی چوپاؤں اور بیٹوں اور باغوں اور چشموں سے، میں تمہیں اللہ کے راستہ کی دعوت دیتا ہوں اور یہ کہتا ہوں: بے ہودہ کاموں کو چھوڑ دو، دنیا سے دل نہ لگاؤ، تم نے یہاں ہمیشہ زندہ نہیں رہنا، ایسے کام کرو جن سے تمہیں نفع ہو۔
قوم عاد کی طاقت اور ان کے کام:
قوم عاد کو اپنی طاقت پر بڑا ناز تھا وہ یہ کہتے تھے کہ ہم سے بڑھ کر کوئی طاقتور نہیں ہوسکتا
فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللہ الَّذِیْ خَلَقَھُمْ ھُوَ اَشَدُّ مِنْھُمْ قُوَّةً وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ
وہ جو عاد تھے انہوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور بولے ہم سے زیادہ کس کا زور ہے اور کیا انہوں نے نہ جانا کہ اللہ جس نے انہیں بنایا ان سے زیادہ قوی ہے اور ہماری آیتوں کا ا نکار کرتے تھے۔
قوم عاد کے چھوٹے قد ساٹھ ذراع (نوے فٹ) اور بڑے قد ایک سو ذراع (ایک سو پچاس فٹ) تھے، اسی وجہ سے اپنے جسموں اور طاقت کے گھمنڈ میں یہ کہتے تھے کہ ہم سے کوئی طاقتور نہیں، ہم پہاڑ سے بڑے بڑے پتھر، چٹانیں اٹھاکر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں، اگر عذاب ہمارے سامنے آگیا تو ہم اسے اپنے ہاتھوں سے روک لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم اپنی طاقت پر ناز کرتے ہو کبھی میری طاقت کو بھی تصور میں لایا کرو، میری طاقت کے مقابل کسی کو کوئی مجال نہیں۔ (جلالین ص۳۹۸، وتفسیر صاوی علی الجلالین)
لوگوں کے ساتھ تمسخر کے لیے بلند نشان بناتے:
اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْعٍ اٰیَۃً تَعْبَثُوْنَ
کیا ہر بلندی پر ایک نشان بناتے ہو راہ گیروں سے ہنسنے کو
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں:
ایک یہ ہے کہ وہ بلندی پر بلند محل بناتے تاکہ گزرنے والے لوگ ان کی شان سے واقف ہوں، یہ کام چونکہ بے فائدہ تھا اس لیے تعبثون کہا گیا ہے اور ہماری شریعت میں بھی بغیر غرض شرعی کے بلند تعمیرات کی مذمت بیان کی گئی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ وہ بلند عمارتیں اس لیے تعمیر کرتے تھے تاکہ گزرنے والے ان سے راہنمائی حاصل کریں، حالانکہ ان کا یہ کام بھی بے مقصد اور بے فائدہ تھا، کیونکہ ستاروں سورج وغیرہ سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ بادل وغیرہ کا چھاجانا کبھی کبھی ہوتا ہے اور خصوصاً عرب کے شہروں میں تو بہت ہی کم واقع ہوتا ہے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ وہ بلند برج بناتے تاکہ کبوتروں کے ساتھ کھیل میں مشغول ہوسکیں، یعنی وہ کبوتر بازی کے لیے عبث طور پر بلند برج تعمیر کرتے۔
چوتھا قول یہ ہے کہ وہ ہر پہاڑ میں راستہ پر مکان تعمیر کرتے تھے تاکہ چونگی حاصل کرسکیں۔
پانچواں قول یہ ہے کہ وہ بلند مقامات پر بلند عمارتیں تعمیر کرتے تھے تاکہ وہ راستہ سے گزرنےو الوں سے مزاح کرسکیں، ان کا تمسخر اڑاسکیں اور انہیں تنگ کرسکیں۔ اسی آخری قول کے مطابق اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان نے ترجمہ کیا ہے۔
رہنے کے لیے مضبوط محل بناتے:
حضرت ہود علیہ السلام نے قوم کو سمجھایا کہ تمہارے طور طریقے ایسے ہیں کہ تم یہ سمجھتے ہو تم نے ہمیشہ دنیا میں رہنا ہے حالانکہ دنیا فانی ہے اس میں ہمیشہ کے لیے دل نہ لگاؤ۔
وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلدُوْنَ
اور مضبوط محل چنتے ہو اس امید پر کہ تم ہمیشہ رہو گے۔
ایک معنی اس کا یہ بھی ہے اور تم زمین میں جمع کرنے کے لیے حوض بناتے ہو یہ سارے کام اسی خیال سے کرتے تھے کہ ہم نے د نیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔
دوسرے لوگوں پر ظلم کرتے تھے:
وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ
اور جب کسی پر گرفت کرتے ہو تو بڑی بے دردی سے گرفت کرتے ہو۔
وہ جب کسی پر گرفت کرتے تو اسے کوڑے مارتے اور تلوار سے ضرب لگاتے یا ظالموں کو ان پر مسلط کرتے، جنہیں کچھ رحم نہ آتا اور ادب سکھانے کا اردہ بھی نہیں ہوتا تھا اور اچھے انجام کی طرف بھی نظر نہیں ہوتی تھی۔ ان افعال قبیحہ پر حضرت ہود علیہ السلام نے قوم کی مذمت کی۔
فائدہ: ادب سکھانے کے لیے، اچھے انجام کے لیے استاد کا شاگرد کو معمولی مارنا، سرزنش کرنا جائز ہے، شیخ سعدی فرماتے ہیں: ’’ضربِ استاذ بہ از مہرِ مادر و پدر‘‘ استاد کی مار ماں باپ کے پیار سے بہتر ہے۔ لیکن قوم کے بچوں کو اپنے بچوں جیسا سمجھے۔ یہ خیال کرے کہ میں اپنے بچوں کو کتنی سرزنش کرتا ہوں۔ کئی کئی گھنٹے طلباء کو کان پکڑا کر مرغ بنادینا، اتنا شدید مارنا کہ زخمی کردینا، سوٹیوں سے شدید ضربیں لگانا کہ کئی کئی گھنٹے کلاس میں کھڑا کردینا، بیہودہ گالی نکالنا استاد کی شان کے لائق نہیں۔ ایسے افعال صرف طلباء کو مدارس سے بھگانے اور دین سے متنفر کرنے اور اساتذہ کے ادب و احترام سے دور کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ ایسے اساتذہ کو طلباء قصاب، کمینہ جیسے القاب دیتے ہیں، جن کو راقم نے اپنے کانوں سے سنا۔ ایسا بے ہودہ استاد ہزار میں سے ایک ہوتا ہے، لیکن وہ تمام اساتذہ کی بدنامی کا سبب بنتا ہے اور دین کے باغی اس ایک شخص کی وجہ سے دینی مدارس کو خرکار کیمپ کہتے ہیں حالانکہ اس قسم کا استاد سکولوں میں بھی کوئی نہ کوئی پایا جاتا ہے بلکہ بنسبت دینی مدارس کے سکولوں میں اس قسم کے ظالم زیادہ ہوتے ہیں۔
ڈنڈے سے مارنا ناجائز ہے:
’’وان وجب ضرب ابن عشر بید لا بخشبۃ ای عصا او سوط او غیرہ لحدیث مرو اولادکم بالصلوۃ وھم ابناء سبع واضربوھم وھم ابناء عشر ولا یجاوز الثلاث وکذا المعلم لیس لہ ان یجاوزھا قال علیہ الصلوۃ والسلام لمرداس المعلم ایاک ان تضرب فوق الثلاث فانک ان ضربت فوق الثلاث اقتص اللہ منک‘‘(درمختار وشامی ج۱ ص۲۵۸)
بچے جب دس سال کےہوجائیں تو نماز نہ پڑھنے کی صورت میں ان کو ہاتھ سے مارنا ضروری ہے لیکن ڈنڈے یا کوڑے سے مارنا ناجائز ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے بچے سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہوجائیں تو انہیں مارو، (یعنی اگر وہ نماز نہ پڑھیں)
حضرت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ مارنا بھی ہاتھ سے مراد ہے اور وہ بھی دو تین تھپڑ سے زیادہ نہ ہوں استاد کے لیے بھی یہی حکم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو پڑھانے والےا یک استاذ مرداس کو کہا کہ تم تین ضربوں (تھپڑ) سے زیادہ مارنے سے اپنے آپ کو دور رکھو اگر تم نے تین مرتبہ سے زیادہ مارا تو اللہ تعالیٰ تم سے بدلہ لے گا۔
شیخ سعدی فرماتے ہیں ؎
درشتی و نرمی بہم در بہ است |
|
چو فاصد کہ جراح و مرہم نہ است |
یعنی سختی اور نرمی دونوں کو ساتھ ساتھ رکھنا ہی بہتر ہے پچھوا لگانے والا زخم بھی کرتا ہے اورمرہم بھی لگاتا ہے عقلمند بہت زیادہ سختی بھی نہیں کرتا اور ا تنی نرمی بھی نہیں کرتا کہ اس کی قدر و منزلت ہی کم ہو جائے۔ اپنے آپ کو بہت زیادہ آدم خور بھی نہیں بنانا چاہیے اور بہت زیادہ نرم ہوکر اپنے آپ کو ذلیل بھی نہ کرو۔ استاذ کے لیے یہی ایک اعلیٰ سبق ہے کہ ڈرائے دھمکائے، سرزنش کرے، احساس دلائے اور شفقت بھی کرے۔ اپنا رعب جمانے کے زعم باطل میں طلباء کی نظروں سے نہ گر جائے اور ان کی در پردہ گالیوں کا مستحق نہ بن جائے۔
ہود علیہ السلام کی قوم کے جوابات:
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٓ اِنَّا لَنَرٰکَ فِیْ سَفَاھَةٍ وَّاِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ
ان کی قوم کے کافر سردار بولے بے شک ہم تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں اور بے شک ہم تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتےہیں۔
نکتہ: نوح علیہ السلام کی قوم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِہٓ اِنَّا لَنَرٰکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (پ۸ سورۃ اعراف ۶۰)
اس کی قوم کے سردار بولے بے شک ہم تمہیں کھلی گمراہی میں دیکھتے ہیں۔
نوح علیہ السلام کی قوم کے تمام سردار ہی کافر تھے، اس لیے یہاں لفظ ’’کفروا‘‘ استعمال نہیں ہوا لیکن ہود علیہ السلام کی قوم میں بعض سردار در پردہ ایمان بھی لائے ہوئے تھے، اس لیے ’’کفروا‘‘ استعمال ہوا ہے۔ یعنی آپ کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا: اسی طرح نوح علیہ السلام کی قوم نے جب دیکھا کہ یہ کشتی بنا رہے ہیں تو قوم نے آپ کو ’’ضلال مبین‘‘سے تعبیر کیا کہ کوئی پانی نہیں کوئی کیچڑ نہیں، یہاں کشتی بنانا کھلی گمراہی ہے۔ لیکن ہود علیہ السلام نے ان کی بت پرستی کو سفاہت و حماقت سے تعبیر کیا تھا تو قوم نے بھی کہا:
(اِنَّا لَنَرَاکَ فِیْ سَفَاھَۃٍ) ہم تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر و صاوی علی الجلالین)
ہود علیہ السلام نے قوم کا رد کرتے ہوئے فرمایا:
یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاھَةٌ وَّ لٰکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ (پ۸ سورۃ اعراف ۶۷)
اے میری قوم مجھے بے وقوفی سے کیا علاقہ میں تو پروردگار عالم کا رسول ہوں۔
اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَاَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ (پ۸ سورۃ اعراف ۶۸)
میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہارا معتمد خیر خواہ ہوں۔
انبیائے کرام کو ان کی قوموں نے (معاذ اللہ) گمراہ اور بے وقوف کہا لیکن انہوں نے ان کا جواب اس طرح نہیں دیا بلکہ تحمل مزاجی سے اور حسن اخلاق سے انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کی کیونکہ انبیائے کرام کی شان کے لائق ہی یہ ہے کہ وہ بیہودہ باتوں کا جواب اسی طرح نہ دیں، حالانکہ جتنی گالی کسی شخص کو دی جائے اتنا جواب دینا جائز ہوتا ہے، لیکن انبیاء کرام کی شان بہت بلند ہوتی ہے۔ ان کا ہر کلام ان کی شان کے لائق ہوتا ہے۔ حضرت ہود علیہ السلام نے قوم کو سیدھی راہ پر لانے کی ہر طرح کوشش کی لیکن قوم نے ہمیشہ کج روی کی۔
قَالُوْا یٰھُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ وَّمَا نَحْنُ بِتَارِکِیْٓ اٰلِھَتِنَا عَنْ قَوْلِکَ وَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیْنَ، اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰکَ بَعْضُ اٰلِھَتِنَا بِسُوْٓئٍ (پ۱۲ سورۃ ھود ۵۳، ۵۴)
قوم نے کہا اے ہود علیہ السلام تم کوئی دلیل لے کر ہمارے پاس نہ آئے اور ہم خالی تمہارے کہنے سے اپنے خداؤں کو چھوڑنے والے نہیں نہ تمہاری بات پر یقین لانے والے ہیں ہم تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارے کسی خدا کی تمہیں بری جھپٹ پہنچی ہے۔
قوم نے کذب بیانی کرتے ہوئے کہا تم ہمارے پاس معجزات اور دلائل نہیں لائے ہو جس سے حق و باطل میں تمیز ہوسکے۔
’’ومن المعلوم انہ علیہ السلام کان قد اظھر المعجزات الا ان القوم بجھلھم انکروھا‘‘
یہ بات یقیناً معلوم ہے کہ ہود علیہ السلام نے معجزات عطا فرمائے مگر قوم نے اپنی جہالت کے پیش نظر ان کا انکار کیا اور گمان کیا کہ آپ کوئی معجزات نہیں لائے۔
قوم نے کہا کہ ہم تمہارے کہنے پر اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں، یہ ان کا کہنا اس لیے باطل تھا کہ وہ اس کا اقرار بھی کرتے تھے کہ نفع و نقصان صرف اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ یہ بت نفع و نقصان کے مالک نہیں، اس پر تو عقل کا تقاضا یہ تھا کہ وہ بت پرستی کو چھوڑ دیتے، ان کا بت پرستی کو نہ چھوڑنا عقل کے خلاف تھا، جو کود ہی ان کی حماقت کو واضح کر رہا تھا، ان کا یہ کہنا کہ ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں، یہ صرف ضد اور حسد و عناد تھا۔ ورنہ بظاہر انکار کی کوئی وجہ نہ تھی۔ قوم کا یہ کہنا کہ ہمارے معبودوں کی برائی تم بیان کرتے ہو ، انہوں نے تمہیں (معاذاللہ) دیوانہ بنادیا ہے، تمہاری عقل کو ضائع کردیا ہے ۔ یہ بھی ان کی حماقت کو واضح کر رہا تھا کہ ادھر یہ کہتے کہ بت نفع و نقصان کے مالک نہیں اور ادھر کہتے ہمارے بتوں نے تمہیں مصیبت پہنچادی ہے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر)
ہود علیہ السلام کا قوم کو چیلنج:
قَالَ اِنِّیْٓ اُشْھِدُاللہ وَاشْھَدُوْٓا اَنِّیْ بَرِیْٓ ءٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ، مِنْ دُوْنِہ فَکِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ، اِنِّیْ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہ رَبِّیْ وَرَبِّکُمْ مَا مِنْ دَآبَّةٍ اِلَّا ھُوَاٰخِذٌ بِنَاصِیَتِھَا اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ.
آپ نے کہا میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم سب گواہ ہوجاؤ کہ میں بیزار ہوں ان سب سے جنہیں تم اللہ کے سوا شریک ٹھہراتے ہو تم سب مل کر میرا برا چاہو پھرر م جھے مہلت نہ دو میں نے اللہ پر بھروسہ کیا جو میرا رب ہے اور تمہارا رب، کوئی چلنے والا نہیں جس کی چوٹی اس کے قبضہ قدرت میں نہ ہو، بے شک میرا رب سیدھے راستہ پر ملتا ہے۔
حضرت ہود علیہ السلام کا یہ بہت بڑا معجزہ ہے کہ ایک شخص بہت بڑی قوم کا مقابلہ کر رہا ہے، انہیں کہہ رہا ہے کہ تم تمام مل کر میری عداوت میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑو، مجھے نقصان پہنچانے میں اپنی پوشش کرلو، مجھے کوئی مہلت نہ دو، مجھے تمہارا کوئی خوف و خطرہ نہیں، مجھے تو اپنے رب پر پورا بھروسہ ہے، وہی میرا محافظ ہے، وہی مجھے بچانے والا ہے۔ ساری مخلوق اسی کے قبضہ قدرت میں ہے، کسی کو ذاتِ باری سے مقابلہ کرنے کی کوئی طاقت نہیں۔
ہود علیہ السلام نے قوم کو عذاب سے ڈرایا:
جب ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو سیدھی راہ پر لانے کی پوری کوشش صرف کردی لیکن قوم نے بت پرستی کو نہ چھوڑا تو آپ نے کہا اے میری قوم اب اللہ تعالیٰ کے عذاب کا انتظار کرو۔
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ مَّآ اُرْسِلْتُ بِہٓ اِلَیْکُمْ وَیَسْتَخْلِفُ رَبِّیْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَلَا تَضُرُّوْنَہٗ شَیْئًا اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ حَفِیْظٌ
پھر اگر تم منہ پھیرو تو میں تمہیں پہنچا چکا جو تمہاری طرف دے کر بھیجا گیا اور میرا رب تمہاری جگہ اوروں کو لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے، بے شک میرا رب ہر شے پر نگہبان ہے۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا میں نے اللہ تعالیٰ کے پیغامات تم تک پہنچا دیے ہیں تمہیں کامیابی کا راستہ بتادیا ہے لیکن تم نے اپنی ضد نہ چھوڑی بت پرستی پر قائم رہے اب رب کا عذاب آنے والا ہے جو تمہیں تباہ و برباد کردے گا اگر تم چاہو کہ اس کے عذاب کا مقابلہ کرو تو تم ایسا کبھی نہیں کرسکو گے وہ تو تمہیں برباد کردے گا لیکن تم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے اور تمہیں برباد کرنے سے اس کی بادشاہت میں کوئی فرق بھی نہیں آئے گا اس لیے کہ وہ قدرت کا ملک ہے تمہاری جگہ وہ نئی مخلوق پیدا فرمادے گا جو اس کی اطاعت کریں گے اس کے حکم کی بجا آوری میں کوئی کمی نہیں ہونے دیں گے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر)
اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ (پ۸ سورۃ اعراف ۵۹)
بے شک مجھے تم پر ڈر ہے ایک بڑے دن کے عذاب کا۔
یعنی دنیا میں بھی تم پر شدید عذاب آئے گااور آخرت میں تم شدید عذاب میں گرفتار ہوگے، اس لیے کہ جس طرح رب کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا نعمتوں کی زیادتی کا سبب بنتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفران شدید عذاب کا ذریعہ ہے۔ رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (پ۱۳ سورۃ ابراہیم ۷)
اگر تم نے شکریہ ادا کیا تو میں تمہیں اور (نعمتیں) دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے۔ (ماخوذ از روح المعانی)
عذاب کا خوف دلانے پر قوم کا جواب:
قَالُوْا سَوَآءٌ عَلَیْنَآ اَوَعَظْتَ اَمْ لَمْ تَکُنْ مِّنَ الْوٰعِظِیْنَ، اِنْ ھٰذَآ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِیْنَ، وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ (پ۱۹ سورۃ شعراء ۱۳۶، ۱۳۸)
انہوں نے کہا ہمیں برابر چاہے تم نصیحت کرو یا نصیحت کرنے والوں میں نہ ہو، یہ تو نہیں مگر وہ اگلوں کی ریت (طور طریقہ) اور ہمیں عذاب ہونا ہی نہیں۔
قوم نے کہا ہمیں تمہارے عذاب کے خوف دلانے کی کوئی فکر نہیں ہم تمہارے وعظ سے نصیحت حاصل کرنے والے نہیں تم بھی پہلے نبیوں کی طرح ہی ہمیں عذاب سے ڈرا رہے ہو یہ تو سابقہ رسم آ رہی ہے، ہم بڑی طاقت کے مالک ہیں، ہمیں عذاب کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتا۔
قوم نے عذاب کو رحمت سمجھا:
فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِھِمْ قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا بَلْ ھُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِہٖ رِیْحٌ فِیْھَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ، تُدَمِّرُ کُلَّ شَیْءٍ بِاِذْنِ رَبِّھَا فَاَصْبَحُوْا لَایُرٰٓی اِلَّا مَسٰکِنُھُمْ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ (پ۲۶ سورۃ الاحقاف ۲۴، ۲۵)
پھر جب انہوں نے عذاب کو دیکھا بادل کی طرح آسمان کے کنارے پھیلا ہوا ان کی وادیوں کی طرف آتا بولے یہ بادل ہے کہ ہم پر برسے گا بلکہ یہ وہ ہے جس کی تم جلدی کرتے تھے ایک آندھی ہے جس میں دردناک عذاب ہر چیز کو تباہ کر ڈالتی ہے اپنے رب کے حکم سے تو صبح رہ گئے کہ نظر نہ آتے تھے مگر ان کے سونے کے مکان ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں مجرموں کو۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ قوم عاد پر ہود علیہ السلام کی تکذیب کی وجہ سے تین سال تک بارش کو روک دیا گیا تھا اس لیے جب قوم پر عذاب آنے کا وقت آگیا تو اللہ تعالیٰ نے سیاہ بادلوں کو چلایا جو ان کی ووادیوں سے ظاہر ہوئے عام طور پر ایسے بادلوں کو ’’مغیث‘‘ (بارش برسانے والے) کہا جاتا ہے۔ وہ لوگ وادیوں سے اٹھتے ہوئے بادلوں کو دیکھ کر بڑے خوش ہوئے کہ بارش برسانے والے بادل آگئے ہیں، اب تین سالہ قحط کا دور ختم ہونے والا ہے۔
حضرت ہود علیہ السلام نے انہیں بتایا یہ تو وہی ہے جس کی تمہیں جلدی پڑی ہوئی تھی کیونکہ وہ قوم کہتی تھی بے شک عذاب لے آؤ، اس سے پہلی آیات مبارکہ میں اسی مضمون کا ذکر ہے۔
وَاذْکُرْ اَخَا عَادٍ اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَہٗ بِالْاَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٓ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللہ اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ، قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِتَاْفِکَنَا عَنْ اٰلِھَتِنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ
اور یاد کرو عاد کے ہم قوم (ہود) کو جب اس نے ان کو سرزمین احقاف میں ڈرایا اور بے شک اس سے پہلے ڈر سنانے والے (انبیائے کرام اور بھی) گزر چکے تھے اور اس کے بعد آئے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، بے شک مجھے تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔ انہوں نے کہا: کیا تم اس لیے آئے کہ ہمیں ہماری معبودوں سے پھیردو؟ تو ہم پر لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو، اگر تم سچے ہو۔
یعنی جب قوم نے مطالبہ کیا کہ تم جس عذاب کے متعلق ہمیں ڈراتے ہو وہ بے شک لے آؤ اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو۔ وہ تو کہتے تھے عذاب آئے گا ہی نہیں، اگر آہی گیا تو ہم اپنی طاقت سے روک لیں گے۔
قوم عاد پر عذاب آیا:
وَفِیْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَ مَا تَذَرُ مِنْ شَیْ ءٍ اَتَتْ عَلَیْہِ اِلَّا جَعَلَتْہُ کَالرَّمِیْمِ (۲۷ سورۃ زاریات ۴۱، ۴۲)
اور عاد میں جب ہم نے ان پر خشک آندھی بھیجی جس چیز پر گزرتی اسے گلی ہوئی چیز کی طرح کر چھوڑتی۔
وَاَمَّاعَادٌ فَاُھْلِکُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍعَاتِیَةٍ، سَخَّرَھَا عَلَیْھِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍ حُسُوْمًالا فَتَرَی الْقَوْمَ فِیْھَا صَرْعٰی کَاَنَّھُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ، فَھَلْ تَرٰی لَھُمْ مِّنْ بَاقِیَةٍ (پ۲۹ سورۃ الحاقۃ، ۶، ۸)
لیکن عاد وہ ہلاک کیے گئے نہایت سخت گرجتی آندھی سے وہ ان پرقوت سے لگادی سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار، تو ان لوگوں کو ان میں گرے ہوئے دیکھو گویا وہ کھجور کے ڈھنڈ ہیں گرے ہوئے، تو تم ان میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے ہو۔
یعنی اس قوم پر سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار شدید آندھی چلی صرف اس میں گرج تھی، بارش نہیں تھی وہی لوگ جو بادلوں کو دیکھ کر خوش ہو رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ عذاب تو ہم اپنی طاقت سے ٹال دیں گے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ شدید گرجنے والی آندھی فضا میں حیوانوں اور پرندوں کو اڑارہی ہے تو یہ اپنے مکانوں میں داخل ہوگئے تاکہ اس آندھی کی شدت سے بچ سکیں، لیکن سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرشتہ کو حکم دیا جو ہوائیں چلانے پر مقرر ہے کہ عاد کی قوم پر اپنے ہواؤں کے خزانے سے اتنی مقدار میں ہوا کو کھول دے جتنی مقدار ایک انگوٹھی کی ہوتی ہے۔ رب تعالیٰ کے خزانوں میں سے یہ ہوا بظاہر معمولی تھی لیکن دنیا میں ہولناک طوفان تھی۔ تباہ کن آندھی تھی۔ سب سے پہلے ایک عورت نے دیکھا کہ ہوا میں مجھے آگ کے شعلے نظر آ رہے ہیں۔ اس ہوا نے ان کے مکانوں کے دروازے گرادیے۔
’’تدخل فی مناخرھم وتخرج من ادبارھم وتصرعھم علی الارض علی وجوھم‘‘
وہ ان کے نتھوں میں داخل ہوتی اور ان کی دبر سے نکل جاتی، وہ ہوا انہیں گرا رہی تھی ان کی گردنیں ٹوٹ رہی تھیں۔ کبھی انہیں زمین سے اٹھایا اور پھر نیچے پھینک دیا۔
ریت کے ٹیلوں میں دب جاتے، یہ سلسلہ سات راتیں آٹھ دن مسلسل رہا، کسی وقت بھی آندھی نہ رکی وہ سب تباہ و برباد ہوگئے، بڑے بڑے قدوں والے اپنی طاقت پر ناز کرنے والے رب تعالیٰ کی گرفت میں جب آئے تو ایسے برباد ہوئے کہ مرے ہوئے یوں نظر آرہے تھے کہ یہ کھجوروں کے تنے گرے ہوئے ہیں۔
رب کی عظیم قدرت کا اندازہ کیجیے! جہاں کفار کو تباہ برباد کردیا وہاں ہود علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی۔ ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کے ارد گرد خط کھینچ دیا وہ شدید آندھی انہیں خوشگوار موسم بہار کی ہلکی ہلکی ٹھنڈی ٹھنڈی سہانی ہوا محسوس ہو رہی تھی۔ کفار گر گر کر تباہ ہو رہے تھے۔ ان کی گردنیں ٹوٹ رہی تھیں۔ ریت کے ٹیلوں میں دب رہے تھے، لیکن اللہ والے، نبی پر ایمان لانے والے، اسی آندھی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ سبحان اللہ مولائے کائنات کی قدرت کا انسان کیسے اندازہ کرسکتا تھا؟ اس کی حکمتوں سے وہ خود ہی واقف ہے۔ رب نے ارشاد فرمایا:
وَلَمَّاجَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا ھُوْدًا وَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَنَجَّیْنٰھُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ
اور جب ہمارا حکم آیا ہم نے ہود (علیہ السلام) اور اس کے ساتھ کے مسلمانوں کو اپنی رحمت فرماکر بچالیا اور انہیں سخت عذاب سے نجات دی۔
یعنی کفار کو دنیا میں بھی سخت عذاب میں مبتلا کیا اور قیامت میں وہ شدید عذاب میں مبتلا ہوں گے مومنوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی محفوظ رکھا اور قیامت میں بھی محفوظ رکھے گا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر ج۱۸، ص۱۷، ج ۲۴ ص۲۸)
نبی کی تکذیب نبی کی گستاخی تباہ کن عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
اللہ تعالیٰ ایمان پر قائم و دائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور انبیائے کرام کی شان میں گستاخی سے بچائے۔
(تذکرۃ الانبیاء)