حضرت ابراہیم خلیل اللہ

حضرت ابراہیم علیہ السلام

حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام دونوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے ہیں حضرت اسحاق علیہ السلام کی والدہ کا نام حضرت سارہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماعیل کی والدہ کا نام حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نسب:

آپ تارخ ابن ناخور کے فرزند ہیں آپ کا نام ابراہیم اور آپ کا لقب ابو الضیفان (بہت بڑے مہمان نواز) ہے۔ آپ کا نسب یہ ہے: ابراہیم ابن تارخ ابن ناخور ابن سازوع ابن رعو ابن تاتع ابن عابر ابن شالح ابن ارفحشذ ابن سام بن نوح۔ (تفسیر حقانی)

آپ کی پیدائش طوفان کی سترہ سو نو سال بعد اور عیسیٰ علیہ السلام سے تقریباً دو ہزار تین سو سال پہلے شہر بابل کے قریب قصبہ ’’کونی‘‘ میں ہوئی۔ (تفسیر عزیزی)

تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ آپ کی پیدائش امواز کے علاقہ میں سوس کے مقام پر ہوئی۔ (تفسیر نعیمی ج۱ ص۶۳۰)

تنبیہ: ’’آزر‘‘ ابراہیم علیہ السلام کے چچا کا نام ہے آپ کے باپ کا نام ’’تارخ‘‘ ہے۔

علامہ محمود احمد آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’والذی عول علیہ الجم الغفیر من اھل السنۃ ان آزر لم یکن والد ابراھیم علیہ السلام وادعوا انہ لیس فی آباء النبی صلی اللہ علیہ وسلم کافر اصلا لقولہ علیہ الصلوۃ والسلام’’لم ازل انقل من اصلاب الطاھر الی ارحام الطاھرات‘‘

اہل سنت کے کثیر اہل علم کا اسی پر اعتماد ہے کہ بے شک آزر ابراہیم علیہ السلام کا باپ نہیں تھا اہل سنت کے جم غفیر کی دلیل یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء واجداد میں کوئی بھی کافر نہیں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میں ہمیشہ پاک پشتوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل ہوتا رہا۔

اور یہ بھی واضح ہے کہ کفار و مشرکین تو پاک کبھی نہیں ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمای:

اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ (پ۱۰ سورۃ توبہ ۲۸)

بے شک مشرک تو ناپاک لوگ ہیں۔

بعض لوگوں نے کہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشاد میں ’’طاہر‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے آباء و اجداد بدکاری سے پاک تھے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ اس کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’وتخصیص الطھارۃ بالطھارۃ من السفاح لا دلیل علیہ یعول علیہ والعبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوص السبب‘‘

طہارت کو زنا سے پاک ہونے کے ساتھ خاص کرنا دعوی بغیر دلیل کے ہے، اس پر کوئی ایسی دلیل نہیں جو قابل اعتماد ہو، لحاظ عموم الفاظ کا ہوتا ہے نہ کہ اسباب کی خصوصیات کا۔

الفاظ کی عمومیت اس پر دلالت کر رہی ہے کہ مراد مطلق ہر طرح کی پاکیزگی ہے کفر اور بدکاری ہر طرح سے پاک پشتوں اور پاک رحموں میں ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم منتقل ہوتے رہے۔

امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر کبیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے ایمان کے قول کو شیعہ کی طر ف منسوب کیا تھا اس کا بھی رد پیش کرتے ہوئے علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

والقول بان ذالک قول الشیعۃ کما ادعاہ الامام الرازی نا شیئ من قلۃ التتبع

اس قول کو شیعہ کی طرف منسوب کرنا جیسے امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی منسوب کردیا ہے یہ حقیقت میں غور و فکر کم کرنے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے اگر توجہ کی جاتی تو ایسا نہ ہوتا۔

خیال رہے کہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف الحاوی للفتاویٰ میں ایک رسالہ ’’مسالک الحنفاء فی ایمان والدی مصطفی‘‘ میں اسرار التنزیل کے حوالہ سے علامہ فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ کا قول بھی جمہور کے ساتھ ایمان کے متعلق ہی مذکور ہے۔

استاذی المکرم حضرت علامہ مولانا محمد اشرف سیالوی مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ تفسیر کبیر کے بعد کی تصنیف علامہ رازی کی اسرار التنزیل ہے اس لیے علامہ کا پہلے قول سے رجوع ثابت ہوتا ہے۔

واکثر ھٰؤلاء علی ان آزر اسم لعم ابراھیم علیہ السلام

اکثر اہل علم کا یہی قول ہے کہ آزر ابراہیم علیہ السلام کے چچا کا نام ہے۔

قرآن پاک میں دادا چچا اور باپ سب پر لفظ ’’اب‘‘ (باپ) بولا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَمْ کُنْتُمْ شُھَدَآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَاِلٰہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰھمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ (پ۱ سورہ بقرہ ۱۳۳)

کیا تم موجود تھے جب یعقوب پر موت کا وقت حاضر ہوا اس وقت انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ بولے ہم عبادت کریں گے تمہارے معبود اور تمہارے آباء ابراہیم اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی۔

اس آیت کریمہ میں یعقوب علیہ السلام کے والد اسحاق علیہ السلام اور چچا (تایا) اسماعیل علیہ السلام اور دادا ابراہیم علیہ السلام سب پر آباء کا اطلاق ہے جو ’’اب‘‘ کی جمع ہے۔

محمد بن کعب قرظی نے اس آیت کو بطور دلیل پیش کیا اور کہا:

’’الخال والد والعم والد‘‘ ماموں باپ ہے اور چچا بھی باپ ہے۔

حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مبارک موجود ہے جس میں آپ نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ’’ابی‘‘ میرا باپ کہا ہے۔

’’ردوا علی ابی العباس‘‘ میرے باپ عباس کو مجھ پر پیش کرو!

جن محققین نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا حقیقی والد کافر نہیں تھا بلکہ آپ کا چچا آزر کافر تھا انہوں نے بطور دلیل ابن منذر کا قول بھی پیش کیا ہے جو اس نے اپنی تفسیر میں سند صحیح سے سلیمان بن صرد کا قول پیش کیا ہے کہ جب نمرود اور اس کی قوم نے ابراہیم علیہ السلام  کو آگ میں ڈالنے کا ارادہ کیا اور انہوں نے لکڑیاں جمع کرنی شروع کیں تو ایک بوڑھی عورت بھی لکڑیاں جمع کر رہی تھی ابراہیم علیہ السلام نے جب ساری قوم کو مخالف پایا تو کہا:

حَسْبِیَ اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ

جب آپ کو ان لوگوں نے آگ میں ڈال دیا تو اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا:

یَا نَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ (پ۱۷ سورۃ انبیاء ۶۹)

اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا جب آپ پر آگ گلزار بن گئی۔

’’فقال عمہ من اجلی دفع عنہ‘‘ تو آپ کا چچا کہنے لگا کہ یہ آگ میری وجہ سے ہی ابراہیم سے مندفع ہوئی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے آگ کے ایک چنگارے کو اس کی طرف بھیجا جو اس کے قدموں پر گرا اور اسے جلاکر رکھ دیا۔

اس روایت میں واضح طور پر ’’عمہ‘‘ کے الفاظ موجود ہیں جن سے واضح ہو رہا ہے کہ ’’آزر‘‘ آپ کا چچا تھا۔

ابراہیم علیہ السلام کا مختصر واقعہ اور آزر کے چچا ہونے پر شاندار دلیل:

محمد بن کعب، قتادہ، مجاہدہ اور حسن وغیرہ سے مروی ہے کہ بے شک ابراہیم علیہ السلام ہمیشہ اپنے چچا آزر کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہے یہاں تک کہ وہ مرگیا اس کے مرجانے کے بد آپ پر واضح ہوگیا کہ وہ تو حالت کفر میں مرگیا ہے کافر تو اللہ کا دشمن ہے اس کے لیے تو دعا کرنے کا کوئی مقصد نہیں تو آپ نے اس کے لیے دعائے مغفرت چھوڑ دی اور اس سے بیزاری اختیار کی۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَمَاکَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُج فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہ اَنَّہ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ

اور ابراہیم کا اپنے باپ (چچا آزر) کی بخشش چاہنا وہ تو نہ تھا مگر ایک وعدہ کے سبب جو اس سے کچکا تھا پھر جب ابراہیم پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے تعلق توڑ دیا۔

اس آیت میں ’’ابیہ‘‘ سےمراد آزر ہے، ابراہیم علیہ السلام نے ایک وعدہ کے پیش نظر اس کے لیے دعائے مغفرت کی کیونکہ آپ نے ایک مرتبہ آزر کو کہا تھا کہ میں اپنے رب سے تیری مغفرت کی دعا کروں گا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ایک مرتبہ آزر نے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ایمان لانے کا وعدہ کیا تھا۔

آیت کریمہ کا شان نزول یہ ہے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ساستغفرلک  ربی میں تمہارے لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا تو میں نے سنا کہ ایک شخص اپنے والدین کے لیے دعائے مغفرت کر رہا ہے باوجودیکہ وہ دونوں مشرک تھے تو میں نے کہا تو مشرکوں کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہے؟ تو اس نے کہا: کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آزر کے لیے دعا نہ کی تھی وہ بھی تو مشرک تھا۔ یہ واقعہ میں نے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام   کا استغفار کرنا اس کے اسلام لانے کی امید پر تھا جس کا آزر نے آپ سے وعدہ کیا تھا اور آپ نے آزر سے استغفار کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ جب وہ امید ختم ہوگئی تو آپ نے اس سے تعلق توڑ لیا اور اس کے لیے دعائے مغفرت کرنا بھی چھوڑ دیا۔

’’آزر‘‘ آگ کے چنگارے سے مرگیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے بعد اس کے لیے کوئی دعا نہیں کی آگ کے واقعہ کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے شام کی طرف ہجرت کی پھر مصر میں داخل ہوئے اور ایک جابر بادشاہ کا واقعہ درپیش آیا اور حضرت ہاجرہ آپ کو ملیں پھر آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ہاجرہ اور اس کے بیے اسماعیل کو کعبہ کے پاس چھوڑ دو آپ نے جب اپنے بیے اور زوجہ کو وہاں چھوڑا جہاں آج مکہ مکرمہ آباد ہے تو وہاں آپ نے کچھ دعائیں فرمائیں جن میں سے ایک دعا میں یہ الفاظ مبارکہ بھی ہیں۔

ربنا اغفرلی ولوالدی

اے ہمارے رب میری اور میرے والدین کی مغفرت فرما۔

اب اس سے بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ آپ نے اللہ کے جس دشمن کے لیے دعا کرنا چھوڑ دیا تھا وہ آپ کا چچا آزر ہے جسے باپ سے تعبیر کیا گیا، اور اس دعا کے چھوڑنے کے کتنے عرصہ بعد بھی آپ اپنے باپ اور ماں کے لیے مغفرت کی دعا کر رہے ہیں وہ آپ کا حقیقی باپ ہے۔ اگر آزر جو کافر اور اللہ کا دشمن ہے وہی آپ کا حقیقی باپ ہے تو اس سے بیزاری کے بعد پھر اس کے لیے دعا کرنے کا کیا مطلب ہے؟ (روح المعانی ج۴ ص۱۹۵ حصہ دوئم زیر آیت واذ قال ابراھیم لابیہ)

ابراہیم علیہ السلام کو زمین و آسمان کی ملکوت کا مشاہدہ کرایا گیا:

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَکَذَالِکَ نُرِیْ اِبْرَاھِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ (پ۷ سورۃ انعام ۷۵)

اور اسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں ساری بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور اس لیے کہ وہ عین الیقین والوں میں سے ہوجائے۔

ملکوت کا معنی عظیم بادشاہی اور سلطنت قاہرہ یعنی آپ کو زمین و آسمان کی تمام اشیاء کا مشاہدہ کرادیا گیا یہاں تک کہ چاند، سورج، پہاڑ، درخت اور دریا تمام چیزوں کے حقائق کو آپ نے دیکھا اور تمام روئے زمین اور آسمانوں کا مشاہدہ کیا۔

’’فانہ علیہ السلام فرجت لہ السموات السبع فنظر الی ما فیھم حتی انتھی بصرہ الی العرش وفرجت لہ الا رضون السبع فنظر الی ما فیھن‘‘

یعنی آپ علیہ السلام کو تمام نشانیاں اور تمام عجائبات دکھائے گئے، بے شک آپ پر سات آسمان منکشف کردیے گئے، تو آپ علیہ السلام نے آسمانوں کی جمیع اشیاء کو دیکھا یہاں تک کہ آپ کی نظر عرش الٰہی تک پہنچی، اسی طرح آپ پر سات زمینیں منکشف کردی گئیں تو آپ نے زمینوں کی ہر چیز کو دیکھا۔

ابن مردویہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زمین و آسمان کی بادشاہیوں کا مشاہدہ کرلیا تو آپ نے ایک شخص کو گناہ کرتے ہوئے دیکھا یعنی جو کہیں دور دراز چھپ کر معصیت میں مبتلا تھا لیکن آپ نے اس کا مشاہدہ کرلیا تو آپ نے اس کے خلاف دعا فرمائی۔ رب تعالیٰ  نے اسے ہلاک کردیا۔ پھر آپ دوسرے آدمی کی معصیت پر مطلع ہوئے تو اس کے خلاف بھی دعا کردی اللہ تعالیٰ نے اسے بھی ہلاک کردیا۔ پھر آپ ایک اور شخص کے گناہ پر مطلع ہوئے تو آپ نے اس کے خلاف دعا کرنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منع فرمادیا کہ اے ابراہیم! آپ مستجاب الدعوات ہیں میرے بندوں کی ہلاکت کی دعا نہ کریں کیوں  کہ میرے بندے تین قسم کے ہیں یا تو گناہگار ہوں گے لیکن توبہ کرلیں گے اور میں ان کی توبہ قبول کروں گا یا وہ خود تو گناہگار ہی رہیں گے لیکن ان کی اولاد میں ایسے نیک لوگ ہوں گے جو زمین کو تسبیحات سے بھردیں گے یعنی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء تسبیح و تہلیل اتنی زیادہ کرین گے کہ ان کے فیضان سے اور لوگ بھی اللہ کے ذکر میں مشغول ہوجائیں گے یا وہ لوگ گناہوں کے حال میں ہی مرجائیں گے اور میرے قبضہ قدرت میں ہوں گے اس کے بعد میری مرضی کی بات ہے کہ میں ان کو معاف کردوں یا سزا دوں۔ (روح المعانی ج۴ حصہ دوم ص۱۹۷)

سبحان اللہ! جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے علم کا یہ مقام ہے تو سید الانبیاء حبیب کبریا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کا کیا عالم ہوگا جبکہ جمیع انبیائے کرام کا مجموعی علم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے مقابل ایک قطرہ کی مثال ہے اور آپ کا علم سمندر کی مثال۔

ابراہیم علیہ السلام نے بت پرستوں کا رد فرمایا:

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ لِاَبِیْہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِھَةً اِنِّیْٓ اَرٰکَ وَقَوْمَکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (پ۷ سورۃ انعام ۷۴)

اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تم بتوں کو خدا بناتے ہو؟ بے شک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں۔

اس آیت کریمہ سے عرب کے مشرکین پر حجت قائم کی گئی کیونکہ ان میں سے کئی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معظم جانتے تھے اور ان کی فضیلت کے معترف تھے انہیں بتایا جا رہا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بت پرستی سے منع فرماتے تھے اور بت پرستی کو بہت بڑا عیب اور گمراہی سمجھتے تھے اگر تم ان کی عظمت کو مانتے ہو تو بت پرستی چھوڑ دو۔

اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَالَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیئًا یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآئَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِکَ فَا تَّبِعْنِیْٓ اَھْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا یٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِالشَّیْطٰنَ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا، یٰٓاَبَتِ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّکَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّ حْمٰنِ فَتَکُوْ نَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا (پ۱۶ سورۃ مریم ۴۲، ۴۶)

ابراہیم نے جب اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ کیوں ایسے کو پوجتا ہے جو نہ سنے نہ دیکھے اور کچھ تیرے کام نہ آئے اے میرے باپ بے شک میرے پاس وہ حکم آیا جو تیرے پاس نہیں آیا تو میری تابعداری کر میں تجھے سیدھی راہ دکھاؤں اے میرے باپ شیطان کا بندہ نہ بن بے شک شیطان رحمان کا نافرمان ہے۔

ان تمام آیات میں باپ سے مراد آپ کا چچا ’’آزر‘‘ ہی ہے آپ نے اسے  نصیحت کرے ہوئے کہا کہ جن بتوں  کی تو پوجا  کر رہا ہے وہ تیری عبادت کو نہیں دیکھ سکتے تیری ثناء کو نہیں سن سکے اور بھی کسی چیز کو دیکھنا اور کسی قسم کا کلام سننا ان کی طاقت میں نہیں اور تمہاری یا کسی اور کی امداد کرنا اور کسی قسم کی مصیبت سے نجات دینا اور تمہیں بے پرواہ کرنا جب انہیں حاصل نہیں تو وہ عبادت کے لائق کبھی نہیں ہوسکے بلکہ ان کی عبادت کرنا  در حقیقت شیطان کی عبادت ہے کیونکہ اس سے وہ خوش ہوتا ہے اور بتوں کی عبادت کرنا اسی کے دھوکے اور فریب کا نتیجہ ہے اس لیے تم شیطان کی عبادت چھوڑ دو کیونکہ شیطان اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے وہ خود تو مردود ہوچکا ہے اور دوسروں کو بھی بھٹکانے میں ہر وقت کوشش میں لگا رہتا ہے وہ تو چاہتا ہے کہ کوئی نہ کوئی میرے دام فریب میں پھنس کر رب تعالیٰ سے دور ہوجائے اور اس کے عذاب کا مستحق بن سکے۔

وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ اِبْرٰھِیْمَ اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہ مَا تَعْبُدُوْنَ، قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَھَا عٰکِفِیْنَ، قَالَ ھَلْ یَسْمَعُوْنَکُمْ اِذْ تَدْعُوْنَ، اَوْیَنْفَعُوْنَکُمْ اَوْ یَضُرُّوْنَ، قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَآ اٰبَآءَ نَا کَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ، قَالَ اَفَرَءَ یْتُمْ مَّاکُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُ کُمُ الْاَقْدَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ عَدُوٌّ لِّیْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَھُوَ یَھْدِیْنِ، وَالَّذِیْ ھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ وَالَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِ (۱۹ سورۃ شعراء ۷۰، ۸۱)

اور ان پر ابراہیم کی خبر پڑھو جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا تم کیا پوجتے ہو؟ بولے ہم بتوں کو پوجتے ہیں پھر ان کی پوجا میں منہمک رہتے ہیں پھر فرمایا کیا وہ تمہاری سنتے ہیں جب تم پکارو یا تمہارا کچھ بھلا برا کرتے ہیں بولے بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا فرمایا تو کیا تم دیکھتے ہو جنہیں پوج رہے ہو تم اور تمہارے اگلے باپ دادا بے شک وہ سب میرے دشمن ہیں مگر پروردگار عالم وہ جس نے مجھے پیدا کیاتو وہی مجھے ہدایت دے گا اور وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے اور وہی مجھے وفات دے گا پھر مجھے زندہ کرے گا۔

ان آیات کریمہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر خیر کیا جا رہا ہے  کیونکہ آپ قریش کے جد اعلیٰ اور کعبہ کی بانی تھے قریش کو ان  کی نسل ہونے پر بڑا ناز تھا اس لیے ان کے سامنے آپ کے عقائد بیان فرمائے جا رہے ہیں تاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا جدِّ اعلیٰ کہنے والے اور اس نسبت پر فخر کرنے والے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے رب اکبر پر بھی ایمان لائیں، جس طرح آپ کا دامن کفر و شرک کی آلائشوں سے بالکل پاک  تھا اسی طرح یہ بھی اپنے داغوں کو دور کرکے توحید خالص اختیار کریں۔

علامہ قاضی ثناء اللہ تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں: ’’لابیہ‘‘ سے مراد ’’آزر‘‘ ہے جو آپ کا چچا تھا کیونکہ اسی نے آپ کی پرورش کی تھی اس لیے باپ کہا گیا: ’’ای آزر سماہ اللہ ابا لکونہ عما ومرتبیا لہ‘‘ (مظھری)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سمجھانے کا کتنا پیارا انداز ہے؟ا ن سے ہی ان کے معبودوں کی بے بسی کا اعتراف کرایا جا رہا ہے جب وہ ان باتوں کا انکار نہ کرسکے کیوں کہ ان کے بت سننے نفع و نقصان پہنچانے سے قاصر تھے تو یہ کہہ کر اپنا دفاع کرنے لگے کہ ہمارے باپ دادا ایسا ہی کرتے تھے اس لیے ہم تو ان کے طریقے سے ہٹنے کے لیے کسی وقت بھی تیار نہیں۔

آپ علیہ السلام نے محبت بھرے طریقہ سے انہیں سمجھاتے ہیں کہ نادان نہ بنو، بے جا ضد اچھی نہیں، اندھی تقلید کے نتائج بڑے خطرناک ہوتے ہیں، تم دنیاوی معاملات میں جب عقل و فہم کو استعمال کرتے رہتے ہو تو زندگی کے اس بنیادی مسئلہ پر سوچنے   کا وقت آئے تو تم اپنی سوچ کا چراغ گم کردو، یہ تو اچھی بات نہیں۔

پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا: ان اندھے بہرے بتوں کے متعلق تم جو چاہو کہتے رہو، میں انہیں اپنا دشمن اور بدخواہ سمجھ رہا ہوں، میری بندگی کا تعلق صرف اس معبود برحق کے ساتھ ہے جو کائنات کی ہر چیز کو اس کے مرتبہ کمال تک پہنچاتا ہے، اس کی ساری ضروریات بھی مہیا کرتا ہے ن کی نشوونما  کے لیے جو وسائل ضروری ہوتے ہیں ان کو بہم پہنچاتا ہے۔

ان  اندھے بہرے معبودوں کے مقابلہ میں رب العالمین (ہر چیز کو مرتبہ کمال تک پہنچانے والا) کی صفت سے اللہ تعالیٰ کا تعارف، کتنا معنی خیز ہے؟ آیت میں مکرر غور فرمائیے۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ بت تمہارے دشمن ہیں بلکہ فرمایا یہ میرے دشمن ہیں۔ ناصح کریم کا انداز نصیحت ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ براہ راست دوسروں پر حملہ نہیں کرتا بلکہ اپنی ذات سے آغاز کرتا ہے۔ اسی طرح اشارۃً کلام کرنا ظاہر کلام کرنے سے بدرجہا موثر ہے۔ (ماخوذ از ضیاء القرآن)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بتوں کو توڑنا:

جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے چچا آزر اور اپنی قوم کو کہا تم کس کی پوجا کرتے ہو۔ کیا بہتان سے اللہ کے بغیر اور خدا چاہتے ہو۔ تو تمہارا کیا گمان ہے رب العالمین پر یعنی جب تم اس کے سوا دوسرے کو پوجو گے تو کیا وہ تمہیں بے عذاب چھوڑ دے گا۔ باوجود یکہ تم جانتے ہو کہ وہی منعم حقیقی مستحق عبادت ہے۔

اس قوم کا سالانہ ایک میلہ لگتا تھا۔ جنگل میں جاتے تھے اور شام تک وہاں لہو و لعب میں مشغول رہتے تھے واپسی کے وقت بت خانہ میں آتے تھے اور بتوں کی پوجا کرتے تھے اس کے بعد ا پنے مکانوں کو واپس جاتے تھے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے بتوں کی مذمت بیان کی تو انہوں نے کہا کل ہماری عید ہے۔ جنگل میں میلہ لگے گا۔ ہم نفیس کھانے پکاکر بتوں کے پاس رکھ جائیں گے اور میلہ سے واپس ہوکر تبرک کے طور پر کھائیں گے۔ آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں دیکھیں کہ ہمارے دین اور طریقے  میں کیا بہار ہے اور کیسے لطف اٹھاتے ہیں۔ جب وہ میلے کا دن آیاتو آپ کو چلنے کے لیے کہا گیا تو آپ کے جواب کو قرآن مجید میں بایں الفاظ فرمایا گیا:

 فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوْمِ فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ (پ۲۳ سورۃ صافات ۸۸، ۸۹)

اس نے ایک نگاہ ستاروں کو دیکھا  پھر کہا میں بیمار ہونے والا ہوں۔

آپ نے ستاروں کو ایسے دیکھا جیسے ستاروں کا حساب لگانے والے دیکھتے ہیں۔ قوم چونکہ ستاروں کے حساب کی بہت  معتقد تھی انہوں نے یہ سمجھا کہ شاید آپ نے ستاروں سے حساب لگاکر  یہ سمجھا ہے کہ آپ بیمار ہونے والے ہیں۔ اس طرح قوم آپ کو چھوڑ کر اپنے میلہ پر چلی گئی۔

آپ علیہ السلام نے کئی لوگوں کے سامنے یہ واضح طور پر کہہ دیا تھا۔

وَتَاللہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ (پ۱۷ سورۃ انبیاء ۵۷)

اور مجھے اللہ کی قسم ہے! میں تمہارے بتوں کا برا چاہوں گا اس کے بعد جب تم پیٹھ پھیر جاؤ گے۔

جب قوم اپنے میلہ پر چلی گئی تو آپ نے موقع  کو غنیمت سمجھا کہ اب اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہنانے کا سنہری وقت آگیا ہے آپ نے چپکے سے بت خانہ کا رخ کیا۔ وہاں جاکر دیکھا کہ قوم ان کے پاس طرح طرح کے کھانے رکھ کر گئی ہے کہ واپس آکر کھائیں گے اور بتوں کی پوجا کریں گے۔ تو آپ نے بتوں کے قریب جاکر کہا: اَلا تَاکلُوْنَ؟ تم کھاتے کیوں نہیں؟ آپ علیہ السلام کے اس ارشاد پر جب بتوں کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو پھر آپ نے انہیں کہا: مَالَکُمْ لَا تَنْطِقُوْنَ تمہیں کیا ہوا تم بولتے کیوں نہیں ہو؟

وہ بے جان پتھر کی مورتیاں تھیں ان کی طرف سے کیا جواب آنا تھا۔ جب آپ نے دیکھا کہ یہ بت کھانے کے قابل نہیں، بولنے کی ان میں طاقت نہیں، اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھروں سے بے جان بت ہیں۔ تو آپ نے ان کو مارنا شروع کردیا۔ (پ۲۳ ع۷)

فَجَعَلَھُمْ جُذَاذًا اِلّا کَبِیْرًا لَّھُمْ لَعَلَّھُمْ اِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ (پ۱۷ سورۃ انبیاء ۵۸)

آپ نے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے چورا کردیا۔ سوائے ایک کے جوان سب سے بڑا تھا کہ شائد وہ اس سے کچھ پوچھیں۔

قوم کو وہاں ہی پتہ چل گیا تھا کہ ہمارے بتوں کو توڑ دیا گیا ہے۔ فَاَقْبَلُوْا اِلَیْہِ یَزِفُّوْنَ تو وہ جلدی سے اس کی طرف متوجہ ہوئے۔

قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ھٰذَا بِاٰلِھَتِنَآ اِنَّہ لَمِنَ الظّٰلِمِیْنَ، قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَّذْکُرُھُمْ یُقَالُ لَہٓ اِبْرٰھِیْمُ، قَالُوْا فَاْتُوْا بِہ عَلٰٓی اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَشْھَدُوْنَ، قَالُوْٓا ءَ اَنْتَ فَعَلْتَ ھٰذَا بِاٰلِھَتِنَا یٰٓاِبْرٰھِیْمُ قَالَ بَلْ فَعَلَہ کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا فَسْئَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ فَرَجَعُوْٓا اِلٰٓی اَنْفُسِھِمْ فَقَالُوْٓا اِنَّکُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ، ثُمَّ نُکِسُوْا عَلٰی رُءُوْسِھِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَاھٰٓؤُلَآءِ یَنْطِقُوْنَ، قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہ مَالَا یَنْفَعُکُمْ شَیْئًا وَّلَا یَضُرُّکُمْ، اُفٍّ لَّکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (پ۱۷، سورۃ انبیاء ۵۹، ۶۷)

انہوں نے کہا کس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا بے شک وہ ظالم ہے ان میں سے کچھ بولے ہم نے ایک جوان کو انہیں برا کہتے سنا ہے جسے ابراہیم کہتے ہیں وہ کہنے لگے۔ تو اسے لوگوں کے سامنے لاؤ شاید وہ گواہی دیں، انہوں نے کہا: کیا تم نے ہمارے خداؤں کی ساتھ یہ کام کیا اے ابراہیم؟ آپ نے فرمایا: بلکہ ان کے اس بڑے نے کیا ہوگا؟ تو ان سے پوچھو اگر وہ بولتے ہیں؟ تو انہوں نے اپنے نفسوں کی طرف رجوع کیا اور بولے بے شک تم ہی ظالم ہو پھر اپنے سروں کے بل اوندھے گرے کہ تمہیں خوب معلوم ہے یہ بولتے  نہیں تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کے سوا ایسے کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں نفع دے اور نہ نقصان پہنچائے تف ہے تم پر اور ان بتوں پر، جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہو، تو کیا تمہیں عقل نہیں؟

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تمام بتوں کو توڑ پھوڑ کر چکنا چور کردیا سوائے بڑے بت کے آپ نے بسولا اس کے کندھے پر رکھ دیا جب قوم کے لوگ واپس آئے تو کہنے لگے ہمارے خداؤں کو کسی نے توڑ دیا ہے کیسے بے عقل لوگ تھے جن کو ابھی تک یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ جو بت اپنے آپ کو نہیں بچاسکے وہ ہماری کیا امداد کریں گے؟

ان کے اس سوال پر کہ ہمارے خداؤں سے یہ سلوک کس نے کیا ان لوگوں نے بتایا جن کے سامنے ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا کہ میں تمہارے خداؤں سے کچھ نہ کچھ برا سلوک ضرور کروں گا ’’کہ یہ کام ابراہیم نے ہی کیا ہوگا کیونکہ وہ ہمارے خداؤں کی برائیاں بیان کرتا تھا۔

اب وہ کہنے لگے کہ ابراہیم کو سامنے لاؤ تاکہ اس پر گواہیاں قائم کرکے مقدمہ قائم کیا جاسکے جب ابراہیم علیہ السلام کو لایا گیا آپ سے پوچھا گیا کہ یہ کام تم نے کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ بسولا تمہارے بڑے بت کے کندھے پر ہے اسی نے یہ کیا ہوگا اپنے ان خداں سے ہی پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں تو بتائیں گے۔

آپ کے اس حکیمانہ جواب پر کچھ دیر کے لیے تو وہ سوچنے لگے کہ ابراہیم حق پر ہیں اور ہم ہی بے وقوف ہیں کہ ایسے خداؤں کی پوجا کر رہے ہیں جو اپنے آپ کو بھی نہیں بچاسکے یہ حقیقت ہے کہ ہم اس معاملہ میں اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں لیکن کچھ دیر بعد ان پر پھر بدبختی سوار ہوگئی کہنے لگے ہم ان سے پوچھیں یہ تو بولتے ہی نہیں اس طرح وہ اپنی گمراہی پر قائم رہے۔

اعتراض:

قوم جب میلہ پر جانے لگی تو انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کو بھی دعوت دی تو آپ نے فرمایا: انی سقیم میں بیمار ہوں۔ حالانکہ آپ بیمار نہیں تھے۔ یہ تو (معاذاللہ) جھوٹ ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے بت توڑدیے، قوم نے پوچھا تو آپ نے فرمایا: بل فعلہ کبھیرھم یہ کام تو ان کے بڑے نے کیا ہے حالانکہ بڑے بت نے چھوٹے بتوں کو نہیں توڑا تھا تو آپ نے یہ کیسے کہہ دیا؟ یہ بھی معاذاللہ جھوٹ نظر آتا ہے اور حدیث شریف میں بھی آپ کے تین جھوٹوں کا ذکر ملتا ہے ان تین میں سے دو یہی ہیں جن کا ذکر کیا گیا۔

جواب:

جھوٹ بولنے والا نبی نہیں ہوسکتا جھوٹ گناہ کبیرہ ہے انبیائے کرام قبل از نبوت اور بعد از نبوت صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہیں۔

وہ حدیث جس سے بعض غیر اسلامی لوگوں نے سمجھا کہ  حضرت ابراہیم علیہ السلام نے معاذاللہ تین جھوٹ بولے اس کی وضاحت کی جاتی ہے تاکہ یہ سمجھ آسکے کہ حدیث پاک کا اصل مطلب کیا ہے اگر حدیث پاک کا ترجمہ ہی صحیح کردیا جائے تو سمجھ آسکتا ہے کہ مطلب کیا ہے وہ حدیث پاک یہ ہے:

’’عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ لم یکذب ابراھیم (علیہ السلام) الا ثلاث کذبات ثنتین منھن فی ذات اللہ عزوجل قولہ (انی سقیم) وقولہ (بل فعلہ کبیرھم ھذا) وقال بینا ھو ذات یوم وسارۃ اذا اتی علی جبار من الجبابرۃ فقیل لہ ان ھھنا رجلا معہ امرأۃ من احسن الناس فأرسل الیہ فسألہ عنھا من ھذاہ؟ قال اختی، فاتی سارۃ فقال لھا ان ھذا الجباران یعلم انک امراتی یغلبنی علیک فان سألک فاخبریہ انک اختی فی الاسلام لیس علی وجہ الارض مؤمن غیری وغیرک فارسل الیھا فأتی بھا قام ابراھیم یصلی فلما دخلت علیہ ذھب یتناولھا بیدہ فاخذ ویردی فغظ حتی رکض برجلہ فقال ادعی اللہ لی ولا اضرک فدعت اللہ فأطلق ثم تناولھا الثانیۃ فاخذ مثلھا او اشد  فقال ادعی اللہ لی ولا اضرک فدعت اللہ فأطلق فدعا بعض حجبتہ فقال انک لم تأتنی بانسان انما اتیتنی بشیطان فاخدمھا ھاجر فاتتہ وھو قائم یصلی فاوما بیدہ میھم، قالت رد اللہ کید الکافر فی نحرہ واخدم ھاجر قال ابوھریرۃ تلک امکم یا بنی ماء السماء‘‘ (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ باب بدء الخلق  وذکر الانبیاء علیھم السلام)

حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے آپ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سوائے تین باتوں کے کوئی ایسی بات نہیں کی جس کو لوگوں نے جھوٹ سمجھا ہو ان تین میں سے دو کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے۔

ایک آپ کا قول (انی سقیم) میں بیمار ہونے والا ہوں۔

دوسرا آپ کا قول (بل فعلہ کبیرھم) ان کے اس بڑے نے کیا ہوگا۔

اور ان میں سے تیسرا قول (جب آپ فلسطین کی طرف ہجرت کرکے جا رہے تھے تو اس دوران) ایک دن آپ اور آپ کی زوجہ کا ایسی جگہ سے گزر ہوا جہاں ایک جابر ظالم شخص مسلط تھا اس کو لووگں نے بتایا یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے  جس کے ساتھ ایک عورت ہے جو تمام لوگوں سے زیادہ حسین ہے۔ اس ظالم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف اپنا قاصد بھیجا کہ وہ ان سے پوچھے یہ تمہارے ساتھ عورت کون ہے؟ اس کے سوال پر آپ نے فرمایا: یہ میری بہن ہے۔ پھر آپ حضرت سارہ کے پاس آئے ان کو کہا  اگر اس ظالم کو پتہ چل گیا کہ تم میری زوجہ ہو تو وہ جبراً تمہیں مجھ سے چھین لے گا۔ اگر وہ تم سے سوال کرے تم اس کو خبر دینا  کہ تم میری بہن ہو؛ اس لیے کہ اسلام میں تم میری بہن ہو کیونکہ روئے زمین پر میرے اور تمہارے بغیر کوئی مومن نہیں۔ اس ظالم نے حضرت سارہ کے پاس قاصد بھیج کر ان کو ا پنے پاس بلالیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کھڑے ہوکر نماز ادا کرنی شروع فرمادی حضرت سارہ جب اس ظالم کے پاس پہنچیں اس نے آپ کی طرف اپنا ہاتھ بڑھانا چاہا لیکن وہ اللہ کی گرفت میں آگیا۔ پاگلوں کی طرح ہوگیا اس کا گلا گھونٹ گیا، منہ سے جھاگ بہنے لگی ، ایڑیاں رگڑنے لگا۔ اس نے حضرت سارہ کو کہا تم میرے لیے دعا کرو میں تمہیں تکلیف نہ پہنچاؤں گا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی وہ ٹھیک ہوگیا اس نے دوبارہ ہاتھ بڑھانے  کی کوشش کی لیکن وہ پہلے کی طرح رب تعالیٰ کی گرفت میں آگیا بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اس نے پھر حضرت سارہ سے دعا کرنے کی درخواست کی، آپ نے پھر دعا کی جب وہ ٹھیک ہوگیا پھر اس نے اپنے دربان کو بلایا اور کہا: تم میرے پاس کسی انسان کو نہیں لائے بلکہ کسی جن کو لے آئے ہو، اس ظالم نے آپ کو حضرت ہاجرہ بطور خادمہ دے کر واپس لوٹادیا۔

[مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر نعیمی میں تحریر کیا ہے حضرت ہاجرہ روم کے بادشاہ کی بیٹی تھیں ان سے بھی اس ظالم کا انجام ایسا ہی ہوا تھا اس لیے اس نے کہا ان دونوں کو یہاں سے نکال دو یہ دونوں انسان نہیں بلکہ جن ہیں۔]

حضرت سارہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس واپس آئیں آپ نماز ادا فرما رہے تھے آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کیسا حال ہے؟ آپ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے کافر کے مکر کو اسی کے سینہ پر لوٹادیا یعنی وہ ذلیل ہوا اس نے مجھے ہاجرہ بطور خادمہ دی۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے  کہا: اے اہل عرب یہ (ہاجرہ) تمہاری ماں ہے۔

تشریح حدیث:

’’قال عیاض الصحیح ان الکذب لا یقع منھم مطلقا واما الکذبات المذکورۃ فانما ھی بالنسبۃ الی فھم السامع لکونھا فی صورۃ الکذب واما فی نفس الامر فلیست کذبات‘‘ (مرقاۃ المفاتیح)

قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: انبیائے کرام سے مطلقاً جھوٹ ثابت نہیں ہوسکتا لیکن یہ جھوٹ جن کا ذکر کیا گیا ہے یہ سننے والے کی طرف منسوب ہیں جن کو سننے والے نے جھوٹ سمجھا اس لیے کہ بظاہر جھوٹ نظر آتے ہیں حالانکہ حقیقت میں جھوٹ نہیں تھے، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہوگا کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ اس طرح کلام فرمایا کہ لوگوں نے اسے جھوٹ سمجھا ان  تین مرتبہ کے علاوہ آپ نے کوئی ایسا کلام نہیں فرمایا جس کو لوگوں نے بھی جھوٹ سمجھا ہو۔

پہلا ارشاد گرامی: اِنِّیْ سَقِیْمٌ

آپ کے اس ارشاد گرامی کا مطلب پہلے تفصیلاً بیان ہو گیا کہ قوم نے آپ کو میلہ میں شرکت کی دعوت دی تو آپ نے ستاروں کو دیکھ کر فرمایا (انی سقیم) یعنی میں بیمار ہونے والا ہوں۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں کل ہی بیمار ہونے والا ہوں بلکہ آپ نے صرف یہ فرمایا کہ میں بیمار ہونے والا ہوں انسان زندگی میں کبھی نہ کبھی  تو ضرور بیمار ہوتا ہے آپ نے معنی دور والا لیا اور لوگوں نے قریب والا سمجھا یہ ’’توریہ‘‘ کہلاتا ہے، جو جائز ہے۔

دوسری وجہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں:

’’فقال انی سقیم القلب لما فیہ من الغیظ باتخاذکم النجوم الھۃ وبعبادتکم الاصنام‘‘ (مرقاۃ المفاتیح)

آپ نے فرمایا میرا دل بیمار ہے اس لیے کہ مجھے بہت غصہ ہے کہ تم نے ستاروں کو خدا بنا رکھا ہے یا اس لیے مجھے غصہ ہے کہ تم نے بتوں کو اپنا معبود بنایا ہوا ہے اس غصہ کی وجہ سے ذہنی پریشانی میرے دل کے بیمار ہونے کا سبب ہے۔ یعنی آپ کی بات صداقت پر مبنی تھی کہ میں قلبی طور پر بیمار ہوں لیکن لوگ اس کو نہ سمجھ سکے۔

دوسرا ارشاد: بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ

قوم  جب میلے پر چلی گئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تمام بتوں کو توڑ دیا اور کلہاڑا یا بسولا ان کے بڑے بت..... یعنی جس کو وہ بڑا خدا سمجھتے تھے اس ..... کے کندھے پر رکھ دیا۔ جب وہ قوم واپس آئی تو ایک دوسرے کو دیکھ کر کہنے لگے ہمارے خداؤں سے یہ زیادتی کس نے کی ہے؟ جب بعض لوگوں نے کہا یہ ابراہیم نے کیا ہوگاَ آپ کو بلاکر پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: بل فعلہ کبیرھم جس کا عام معنی ذہنوں  میں یہ آتا ہے کہ آپ نے کہا یہ اس بڑے بت نے کیا ہے یعنی اس نے توڑا ہے اور لوگوں نے اپنی سمجھ کے مطابق  جھوٹ سمجھا حالانکہ اس کا مطلب ہی یہ نہیں۔ علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے مختلف مطالب بیان کیے ہیں کہ اس کا اصل مطلب کیا ہے؟

پہلی وجہ:

پہلی وجہ یہ ہے کہ آپ نے یہ نہیں فرمایا یہ کام اس بت نے کیا ہے بلکہ آپ نے اس سے مراد اپنی ذات لی آپ کا یہ کلام تعریض پر مبنی تھا یعنی کلام کرنے والا اور مراد لے رہا ہو سننے والا اور سمجھے۔ یہ کلام اس طرح ہے جس طرح ایک شخص لکھنے کا ماہر ہو وہ ایک نفیس خط لکھے دوسرا شخص جو لکھنا نہیں جانتا وہ ماہر خط سے پوچھے کیا یہ تم نے لکھا ہے؟ اور وہ اس کے جواب میں کہے: بل کتبتہ انت، بلکہ تم نے لکھا ہے یہ الزاماً اس کو خاموش کرنا ہے۔ یعنی اس جملہ سے اس شخص کی نفی کی جا رہی ہے جو قادر نہیں اور جو شخص قادر ہے اس کے لیے ثابت کرنا ہے اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت کی طرف منسوب کرکے یہ واضح کیا کہ یہ کام اسی نے کیا ہے جو یہ کام کرنے پر قادر ہے، وہ کیسے کرسکتا ہے جو یہ کام کرنے پر قادر ہی نہیں؟

دوسری وجہ:

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ بتوں کو مزین کیا ہوا ہے اور ان کو قوم نے بڑا برگزیدہ سمجھا ہوا ہے تو آپ کو غصہ آیا اور یہ دیکھ کر غصہ اور زیادہ شدید ہوگیا کہ لوگوں نے بڑے بت کو زیادہ مزین کیا ہوا ہے او راس کی زیادہ تعظیم کرتے ہیں جب اس بڑے بت کو دیکھ کر غصہ زیادہ ہوا تو سب بتوں کو توڑ دیا۔

’’فاسند الفعل الیہ لانہ ھو السبب فی استھانتہ بھا وحطمہ لھا والفعل کما یسند الی مباشرہ یسند الی حاملہ‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فعل کو بت کی طرف اس لیے منسوب کیا کہ وہ ان کو توڑنے اور ذلت کا سبب بنا، کیونکہ اس کو دیکھ کر آپ کو زیادہ غصہ آیا تھا جس طرح کام کرنے والے کی طرف فعل منسوب ہوتا ہے اسی طرح کام پر ابھارنے والے کی طرف بھی منسوب ہوتا ہے۔

تیسری وجہ:

آپ نے ان کے مذہب کے مطابق کلام کیا کہ تم جب اس کو خدا سمجھتے ہو تو پھر یہ کام اس نے کیا ہوگا۔

’’فان من حق من یعبد ویدعی الھا ان یقدر علی ھذا او اشد منہ‘‘

یعنی جس کو تم عبادت کا مستحق سمجھتے ہو کہ یہ ہمارا معبود ہے وہ یہ کام کرنے پر قادر ہونا چاہیے بلکہ اس سے بھی زیادہ قدرت اسے ہونی چاہیے۔ مقصد ان کو سمجھا جاتا ہے کہ جب تم یہ نہیں مانتے کہ اس نے بتوں کو توڑا ہے کیونکہ یہ توڑنے کی طاقت نہیں رکھتا تو یہ معبود کیسے بن سکتا ہے۔

چوتھی وجہ:

یہاں کچھ عبارت غیر مذکور ہے اصل عبارت اس طرح ہے

’’فعلہ من فعلہ وکبیرھم ھذا‘‘

جس نے کرنا تھا اس نے کردیا یہ ان کا بڑا ہے اس سے پوچھ لو۔

گویا اس بیان کا مقصد ہی یہ تھا کہ میں نے یہ کام کردیا ہے اپنے بڑے خدا سے پوچھو اگر یہ بولنے کی طاقت رکھتا ہے اس میں بھی ان کو تبلیغ تھی کہ یہ تمہارا خدا تو یہ بھی نہیں بتاسکتا یہ کام کس نے کیا ہے۔

پانچویں وجہ:

’’کبیرھم‘‘ پر وقف ہے اور ’’ھذا‘‘ سے پھر کلام کی ابتدا ہے، معنی یہ ہے کہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے یہ تمہارا خدا ہے اس سے پوچھ لو اگر بولتا ہے۔

’’ادعی نفسہ لان الانسان اکبر من کل صنم‘‘

اس سے مراد  آپ نے اپنی ذات لی ہے کیونکہ انسان تمام بتوں سے بڑا ہے مقصد یہ  تھا کہ یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے وہ بڑا  میں ہی ہوں کیونکہ میں انسان ہوں اور تمہارے خداؤں سے بڑا ہوں انسان کے مقابل ان بتوں کی کیا حیثیت ہے۔

چھٹی وجہ:

کلام میں تقدیم و تاخیر ہے گویا کہ اصل معنوی لحاظ پر اس طرح ہے۔

قَالَ بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ فَاسْئَلُوْھُمْ

آپ نے فرمایا ان کے اس بڑے نے کیا ہے اگر یہ بولتے ہیں تو ان سے پوچھ لو۔

’’فتکون اضافۃ الفعل الی کبیرھم مشروطا بکونھم ناطقین فلما لم یکونوا ناطقین امتنع ان یکونوا فاعلین‘‘

فعل کی اضافت ان کے بڑے بت کی طرف مشروط طور پر ہے اگر یہ بولتے ہیں تو ان کے بڑے نے کیا ہے جب وہ بولتے ہی نہیں تو یہ کام ان کے بڑے بت نے نہیں کیا۔

ساتویں وجہ:

ایک قرات میں ہے ’’فعلہ کبیرھم‘‘ آیا ہے اس کے مطابق معنی یہ ہوگا فلعل الفاعل کبیرھم شاید یہ کام کرنے والا ان کا بڑا ہوگا۔

ان بیان کردہ وجو ہ سے واضح ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کلام صداقت پر مبنی تھا اگرچہ سننے والے نہ سمجھ سکے اور انہوں نے اپنے باطل گمان میں جھوٹ سمجھا۔

انبیاء کرام کو جھوٹا کہنے سے راویوں کو جھوٹا کہنا بہتر ہے:

علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ اسی مقام پر تحریر فرماتے ہیں:

’’اضافۃ الکذب الی رواتہ اولی من ان یضاف الی الانبیاء الکرام‘‘

اگر ایسی کوئی روایت ہو جس سے انبیائے کرام کا جھوٹا ہونا ثابت ہو رہا ہو اور اس روایت کی کوئی تاویل نہ ہوسکے جس سے انبیائے کرام کی صداقت ثابت ہوسکے تو اس صورت میں راویوں کو جھوٹا کہا جاسکتا ہے لیکن انبیائے کرام کو جھوٹا کہنا محال ہوگا۔ ایسی صورت میں روایت کو رد کردیا جائے گا لیکن انبیائے کرام کی شان میں کوئی فرق نہیں آنے دیا جائے گا۔ (از تفسیر کبیر)

آ پ کا تیسرا ارشاد:

حضرت سارہ کے متعلق آپ نے فرمایا: ’’ھذہ اختی‘‘ یہ میری بہن ہے۔ اس کی وجہ حدیث پاک میں خود ہی واضح ہے کہ آپ نے یہ مراد نہیں لیا کہ یہ میری نسبی بہن ہے بلکہ آپ نے حضرت سارہ کو کہا انت اختی فی الاسلام تم اسلام میں میری بہن ہو اس لیے کہ اخوۃ اسلامی کے لحاظ پر باپ بیٹا بھی بھائی بھائی ہیں۔ ماں بیٹا بھی بھائی بہن ہیں؛ اسی طرح خاوند بیوی بھی ایک دوسرے کے بھائی بہن ہیں۔

بتوں کو توڑنے پر ابراہیم علیہ السلام کو سزا:

ابراہیم  علیہ السلام نے جب کفار کے بناؤٹی خداؤں کو تباہ کردیا اور دلائل میں بھی ان پر غلبہ حاصل کرلیا تو انہوں نے آپ سے انتقام لینے کا فیصلہ کرلیا اور سب سزاؤں سے سخت سزا تجویز کی یعنی یہ کہ آپ کو آگ میں جلادیا جائے حالانکہ آگ کا عذاب صرف اللہ تعالیٰ دے سکتا ہے بندے کے لیے جائز نہیں کہ کسی کو آگ کا عذاب دے لیکن نمرود اور اس کی قوم نے آپ کو جلانے کی سزا دی اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا

قَالُوا ابْنُوْا لَہٗ بُنْیَانًا فَاَلْقُوْہُ فِی الْجَحِیْمِ (پ۲۳ سورۃ صافات ۹۷)

وہ کہنے لگے اس کے لیے ایک عمارت بناؤ پھر اسے بھڑکتی آگ میں ڈال دو۔

یعنی اردگرد بہت بڑی دیوار بناکر اس کے درمیان آگ جلاکر ابراہیم کو اس میں ڈال دو۔

قَالُوْ ا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْا آلِھَتَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ فَاعِلِیْنَ (پ۱۷ سورۃ انبیاء ۶۸)

بولے اس کو جلادو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کرنا ہے۔

ذرا غور کریں کتنے بے وقوف لوگ تھے کہ یہ بھی نہیں سمجھ رہے تھے کہ جن بتوں کی ہم امداد کر رہے ہیں اور وہ خود اپنی امداد کچھ نہ کرسکے وہ خدا بننے کے قابل کیسے؟

ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں ڈالے جانے کا واقعہ:

آپ علیہ السلام کو آگ میں جلانے کے لیے جو چار دیواری بنائی  گئی اس کی مقدار حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمائی کہ  اس کی بلندی تیس ذراع (پینتالیس فٹ) اور چوڑائی بیس ذراع (تیس فٹ) اور طول تیس ذراع (پینتالیس فٹ)۔ (تفسیر کبیر زیر آیت فقالو ابنوا لہ بنیانا ج۲۶ ص۱۵۰)

آگ میں ڈالنے کا مشورہ دینے والا:

حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے مجاہد کیاتمہیں معلوم ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کا سب سے پہلے مشورہ دینے والا کون تھا؟ میں نے کہا: مجھے تو علم نہیں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ فارس کے دیہات میں رہنے والا شخص تھا جس کا نام ’’اکراد‘‘ تھا بعض جگہ اس کا نام اکراد بن عطیۃ مکمل طور پر ذکر ہے نام کے متعلق دو قول اور بھی ہیں ایک قول کے مطابق نام ھیون ہے اور دوسرے کے مطابق ھدیر ہے۔ اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں دھنسا دیا ہے اور قیامت تک دھنستا چلا جائے گا۔

آپ کو جلانے سے پہلے قید کردیا گیا۔ انہوں نے پھر آگ جلانے کے لیے چار دیواری باڑہ کی طرح بنانی شروع کردی جب باڑہ تیار ہوگیا تو پھر لکڑیاں جمع کرنی شروع کردیں ہر قسم کی لکڑیاں چالیس دن تک وہ سب لوگ جمع کرتے رہے یہاں تک کہ اگر کوئی بوڑھی عورت بیمار ہوجاتی تو وہ بھی کہتی اگر مجھے اس بیماری سے شفا حاصل ہوگئی تو میں بھی ابراہیم کو جلانے کے لیے لکڑیاں لاؤں گی۔

وہ کیسی آگ تھی؟

جب تمام لوگوں نے مل کر چالیس دن تک محنت کرکے کثیر مقدار میں لکڑیاں جمع کرلیں تو آگ جلا دی گئی آگ کے شعلے آسمانوں سے باتیں کرنے لگے اتنی عظیم اور شدید آگ تھی کہ اس کے اوپر سے فضا میں بھی کوئی پرندہ نہیں اڑ سکتا تھا۔

آگ میں ڈالنے کے لیے شیطان کی راہنمائی:

جب آگ بہت زیادہ شعلہ زن ہوگئی اس کی حرارت اتنے دور دور تک پھیل گئی کہ آگ کے قریب جانا کسی انسان کی طاقت میں نہ رہا تو وہ کفار حیران و پریشان ہوگئے کہ سب محنت ضائع جاتی ہے کیونکہ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ابراہیم علیہ السلام ک آگ میں کیسے ڈالا جائے تو شیطان نے آکر ان کی راہنمائی کی کہ ایک منجنیق تیار کی جائے اور ابراہیم کو رسیوں سے جکڑ کر منجنیق میں رکھ کر آگ میں پھینک دیا جائے خیال رہے سب سے پہلے دنیا مین یہی منجنیق تیا رہوئی بعد میں اسی کو جنگوں میں استعمال کیا جاتا رہا اور منجنیق کے ذریعے پتھروں کو گولوں کی طرح پھینکا جاتا تھا۔

زمین و آسمان کی مخلوق کی فریاد:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب رسیوں سے باندھ کر منجنیق میں رکھا گیا تو سوائے جنوں اور انسانوں کے اللہ تعالیٰ کی زمین و آسمان کی ساری مخلوق چلا اٹھی اور اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کرنے لگی اے مولائے کائنات زمین میں سوائے ابراہیم علیہ السلام کے کوئی اور نہیں جو تیری عبادت کرے اے اللہ آج وہ تیرا نام لینے کی وجہ سے جلایا جا رہا ہے۔

زمین و آسمان کے فرشتے، جانور، وحوش و طیور سبھی یہ ماجرا دیکھ کر حیران و پریشان ہیں۔ رب تعالیٰ کی حکمت سے بے خبر تھے، سوچ رہے تھے اب کیا ہوگا؟ اللہ کا نام لینے والا تو آج جل جائے گا اب زمین میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا کون ہوگا؟

فرشتوں نے آپ کی امداد کرنے کی اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کی:

زمین و آسمان کے فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی: اے اللہ ہمیں اجازت فرما کہ ہم ابراہیم علیہ السلام کی امداد کریں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اجازت عطا فرمادی کہ اگر وہ تم سے امداد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو تم ان کی امداد کرو اور اگر وہ میرے بغیر کسی اور سے امداد نہیں حاصل کرتے تو میں انہیں زیادہ جانتا ہوں میں ہی ان کا ولی ہوں، ان کا معاملہ مجھ پر ہی چھوڑ دو بے شک وہ میرے خلیل ہیں۔ اس وقت تمام روئے زمین پر ان کے بغیر اور میرا کوئی خلیل نہیں اور میں ہی ان کا معبود ہوں میرے بغیر ان کو کوئی معبود نہیں۔

ابراہیم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ پر توکل:

ابراہیم علیہ السلام کے پاس ہواؤں پر مقرر فرشتہ آیا اور وہ فرشتہ بھی حاضر ہوا جو پانیوں پر مقرر تھا ان دونوں نے عرض کیا آپ ہمیں اجازت فرمائیں کہ ہم آگ کو ختم کردیں آپ نے فرمایا مجھے تمہاری امداد کی کوئی ضرورت نہیں:

حَسْبِیَ اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ

میرا اللہ مجھے کافی اور وہی بہتر کارساز ہے۔

آپ کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور عرض کیا کہ آپ کو میری امداد کی ضرورت ہو تو میں آپ کی امداد کروں آپ نے فرمایا: مجھے تمہاری امداد کی کوئی ضرورت نہیں۔ جبرائیل نے کہا اچھا تو پھر اپنے رب تعالیٰ سے ہی سوال کرلو تو آپ نے فرمایا:

’’حسبی من سوالی علمہ بحالی‘‘

وہ میرے حال کو جانتا ہے سوال کے بغیر ہی مجھے کافی ہے۔

سبحان اللہ! حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ پر کتنا بھروسہ ہے؟ یہ تو کہہ دیا جاتا ہے  کہ غیراللہ سے امداد طلب  کرنا جائز نہیں، اگر جائز ہوتا تو ابراہیم علیہ السلام فرشتوں سے امداد طلب کرتے۔ کاش! ان لوگوں کو یہ سمجھ آجائے کہ انبیائے کرام کا مقام ملائکہ سے بلند ہے انہیں کیا ضرورت ہے کہ وہ اپنے سے کم مراتب والوں سے امداد طلب کریں۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کی طرح عام انسان توکل کیسے کرسکتا ہے؟ وہ تو اللہ تعالیٰ سے بھی سوال نہیں کرتے کہ وہ خود ہی جانتا ہے مجھے سوال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

چھپکلی کا آگ کو پھونکیں دینا:

’’ویروی ان الوزغ کان ینفخ فی النار وقد جاء ذالک فی روایۃ البخاری‘‘

بخاری کی روایت میں آیا ہوا ہے کہ چھپکلی آگ میں پھونکیں دیتی تھی۔

مسلم شریف میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپکلی کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اس کو فویسق (بری چیز) کے نام سے تعبیر فرمایا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ چھپکلی  کو پہلی ہی ضرب سے قتل کرنے میں زیادہ ثواب ہے اور دوسری ضرب میں قتل کرنے میں اس سے کم ثواب ہے اور تیسری ضرب میں قتل کرنے کا اس سے کم ثواب ہے۔ (از مسلم ج۲ ص۲۴۴)

ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں عجیب منظر:

ابراہیم علیہ السلام نے فرشتوں  سےامداد لینے کا انکار کردیا اللہ تعالیٰ سے بھی سوال نہ کیا کہ آگ میں جانے سے پہلے ہی مجھے بچالے بس صرف ایک بات مدنظر تھی کہ رب تعالیٰ جس پر راضی ہے میں بھی اسی پر راضی ہوں۔

کافروں نے جب آپ کو باندھ کر منجنیق میں رکھ کر آگ میں ڈالنا  چاہا تو آپ نے یہ الفاظ مبارکہ پڑھے:

’’لا الہ الا انت سبحانک لک الحمد ولک الملک لا شریک لک‘‘

تیرے بغیر کوئی معبود نہیں تیری ذات پاک ہے سب تعریفیں تیرے لیے ہی ہیں سب  چیزیں تیری ہی ملک میں ہیں تیرا کوئی شریک نہیں۔

کافروں نے آپ کو آگ میں پھینک دیا، اللہ تعالیٰ نے آگ کو فرمایا:

یَانَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ

اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامت ہوجا۔

اللہ تعالیٰ نے آگ کو ٹھڈنی ہوجانے کے ساتھ ساتھ سلامتی کا حکم بھی دیا تاکہ ابراہیم علیہ السلام کو کسی قسم کا بھی نقصان نہ ہو۔

مسند احمد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد مذکور ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ آگ کو سلاما کا حکم نہ دیتا تو آگ اتنی ٹھنڈی ہوجاتی کہ آپ سردی سے وفات پاجاتے۔

روایات میں آتا ہے جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو آگ باہر باہر جلتی رہی لیکن اس کی حرارت ابراہیم علیہ السلام تک نہ پہنچ سکی بلکہ آگ کے اندر ایک باغ بنادیا گیا۔

یعنی جب آپ کو آگ میں ڈالا گیا تو فرشتوں نے آپ کو پہلوؤں سے پکڑ کر ایک جگہ زمین میں بٹھادیا جہاں ایک میٹھے پانی کا چشمہ تھا اور اردگرد گلاب نرگس اور چنبیلی کے پودے اور پھول اپنا حسین و جمیل منظر پیش کر رہے تھے۔ آگ نے صرف ان رسیوں کو جلایا جن سے آپ کو باندھا گیا اور ان کے جلنے سے بھی آپ کو کسی قسم کا کوئی ضرر نہ ہوا۔

خیال رہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام کی آگ کو ٹھنڈا ہونے کا حکم دیا گیا اس وقت دنیا میں کوئی ایسی آگ نہیں تھی جو بجھ نہ گئی ہو یعنی دنیا کی تمام آگیں ایک مرتبہ بجھ گئی تھیں۔

ابراہیم علیہ السلام آگ میں کتنےد ن رہے؟

منہال بن عمرو سے مروی ہے وہ کہتے ہیں مجھے یہ خبر دی گئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں چالیس یا پچاس دن رہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں آگ میں رہنے  کے دنوں میں جتنا خوش رہا اور میں نے عیش و عشرت کی اتنی پوری زندگی میں مجھے عیش حاصل نہ ہوسکی۔

اللہ تعالیٰ نے سایہ پر مقرر فرشتے کو ابراہیم علیہ السلام کی ہی شکل میں ان پر بھیجا کہ وہ آپ کے پاس بیٹھے تاکہ وہ اس سے انس حاصل کریں اکیلے ہونے کی وجہ سے آپ کو کوئی پریشانی نہ ہو آپ کے پاس جبرائیل جنت میں سے ایک ریشمی قمیص لائے اور کہا اے ابراہیم بے شک آپ کو رب کہتا ہے کیا آپ کو معلوم نہیں کہ میرے محبوبوں کو آگ نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

نمرود کا ابراہیم علیہ السلام کو باغ میں دیکھنا:

نمرود نے اپنے محل کی بلندی سے دیکھا تو ابراہیم کو ایک باغ میں بیٹھے ہوئے پایا اور ایک شخص (فرشتے) کو بھی آپ کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا اور آپ کے اردگرد لکڑیوں کو جلتے ہوئے آگ کے شعلے بھڑکتے ہوئے دیکھ کر آپ کو پکارنے لگا اے ابراہیم کیا تم اس آگ سے نکل سکتے ہو؟ آپ نے فرمایا: ہاں نکل سکتا ہوں اس نے کہا: اٹھو اور نکل آؤ۔ (ممکن ہے اس نے یہ سمجھا ہو کہ جب نکلیں گے تو باہر جلتی ہوئی آگ سے گزریں گے تو جل جائیں گے) ابراہیم علیہ السلام اٹھے اور چلتے چلتے آگ سے نکل آئے۔ آپ علیہ السلام سے نمرود نے پوچھا کہ تمہارے پاس تمہاری ہی شکل کا دوسرا آدمی کون تھا؟ آپ نے فرمایا کہ وہ سایہ پر مقرر فرشتہ تھا جسے اللہ تعالیٰ نے میرے پاس اس لیے  بھیجا تھا کہ مجھے اکیلے ہونے سے کسی قسم کی کوئی گھبراہٹ نہ ہو بلکہ میں اس سے انس حاصل کرسکوں۔

نمرود رب کی قدرت کا اقرار کرنے کے باوجود گمراہ رہا:

نمرود نے کہا جب میں نے تمہارے رب کی عزت و قدرت کو دیکھا تو میں نے نذر مانی کہ میں تمہارے رب کا قرب حاصل کرنے کے لیے قربانی کروں گا اس لیے میں تمہارے رب کے حضور چار ہزار گائے کی قربانی پیش کر رہا ہوں ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا جب تک تم اپنے دین پر قائم ہو اس وقت تک اللہ تعالیٰ تمہاری قربانی کو قبول نہیں کرے گا۔

اس نے کہا میں اپنی بادشاہی کو تو نہیں چھوڑ سکتا البتہ قربانی ضرور کروں گا اس نے اپنی نذر کے مطابق چار ہزار گائے ذبح کردیں اور آئندہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سزا نہ دینے کا ارادہ کرلیا البتہ وہ اپنے کفر پر ہی قائم رہا ایمان اس کو نصیب نہ ہوسکا۔

بعض روایات میں ہے کہ جب کفار نے دیکھا کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیں جلایا تو انہوں نے کہا کہ ابراہیم نے آگ پر جادو کردیا ہے انہوں نے تجربہ کرنے کے لیے ایک بوڑھے کو آگ میں ڈالا تو آگ نے اسے جھلس کر رکھ دیا۔ (تفسیر کبیر و روح المعانی زیر آیت یانارکونی بردا)

ابراہیم علیہ السلام نے تمام باطل معبودوں کا رد کیا:

ابراہیم علیہ السلام جس قوم میں تشریف لائے اس میں کچھ لوگ بت پرست تھے اور کچھ ستارہ پرست اور کچھ چاند پرست اور کچھ سورج پرست بلکہ نمرود کی پرستش بھی ہوتی تھی۔ آپ نے بتوں کے معبود ہونے کو دلائل سے باطل کیا قوم نے جب دلائل سے کوئی فائدہ نہ حاصل کیا تو آپ نے بتوں کو توڑ کر اپنی پریشانی کو دور کرکے اپنے دل کو تسلی دی۔

ستارہ پرست آپ کو بھی ستاروں کو پوجا کی دعوت دینے لگے آپ نے ان کا بھی رد فرمایا کہ یہ ستارے معبود بننے کے قابل نہیں۔

فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ اللَّیْلُ رَاٰی کَوْکَبًا قَالَ ھٰذَا رَبِّیْ فَلَمَّا اَفَلَ قَالَ لَا اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ (پ۷ سورۃ انعام ۷۶)

پھر جب ان پر رات کا اندھیرا آیا ایک تارا دیکھا بولے اسے میرا رب ٹھہراتے ہو پھر جب وہ ڈوب  گیا بولے مجھے خوش نہیں آتے ڈوبنے والے۔

یعنی یہ تو خود کسی نظام قدرت کے پابند ہیں ان میں معبود بننے کی صلاحیت نہیں میری توجہ اور محبت کا مرکز تو صرف مالک الملک خالق کائنات وحدہ لا شریک لہ ہے میں تو ان ستاروں سے محبت نہیں کرتا اور نہ ہی ان کو کسی معاملہ میں موثر حقیقی مانتا ہوں جب ان سے محبت ہی نہیں تو ان کی عبادت کو کیسے میں اچھا سمجھ سکتا ہوں۔

چاند پرستوں نے آپ کو چاند کی عبادت کی دعوت دی آپ نے ان کا بھی رد کردیا کہ تم تو گمراہ ہو  حق تو یہ ہے کہ تم خود سیدھی راہ پر آجاؤ کیا تم مجھے راہ راست سے بھٹکانا چاہتے ہو یہ ناممکن ہے۔

فَلَمَّا رَاَی الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ھٰذَا رَبِّیْ فَلَمَّا اَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَّمْ یَھْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَکُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّیْنَ (پ۷ سورۃ انعام ۷۷)

پھر جب چاند چمکتا دیکھا بولے: اسے میرا رب بتاتے ہو؟ جب وہ بھی ڈوب گیا کہا اگر میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں انہی گمراہوں میں ہوتا۔

یعنی یہ چاند بھی کسی کے حکم کا تابع ہے اس کی چمک دمک بھی کبھی ایک علاقہ پر کبھی دوسرے پر یعنی ایک وقت  میں ایک علاوہ کو چمکا رہا ہے تو دوسرا اس کی روشنی سے محروم ہے تو ایسی چیز جو خود ہی ایک حال پر نہ رہ سکے وہ کیسے معبود بن سکتی ہے۔

یہ تو مجھ پر اللہ کا فیضان ہے جس نے مجھے سیدھی راہ پر چلا کر اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمادی ورنہ جس قوم میں ہر طرف باطل راہ پر چلنے والے ہی نظر آتے ہوں وہاں ایک فرد کا حق پر قائم رہنا کیسے ممکن تھا؟

سورج پرستوں نے آپ کو سورج کی عبادت کی دعوت دی کہ یہ تو بہت ہی روشن ہے یہ تو یقیناً بڑا خدا بننے کے قابل ہے آپ نے ان کا بھی رد کردیا کہ میں شرک پر قائم رہنے کی کسی کو جب اجازت نہیں دیتا تو مجھ سے شرک کی امید رکھنا تمہاری حماقت ہے۔

فَلَمَّا رَاَی الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ھٰذَا رَبِّیْ ھٰذَا اَکْبَرُ فَلَمَّا اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْءٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ (پ۷ سورۃ انعام ۷۸)

پھر جب سورج جگمگاتا دیکھا بولے اسے میرا رب کہتے ہو؟ یہ تو ان سب سے بڑا ہے پھر جب وہ ڈوب گیا کہا اے قوم میں بیزار ہوں ان چیزوں سے جنہیں تم شریک ٹھہراتے ہو۔

آپ نے جب سورج کو جگمگاتے ہوئے دیکھا تو قوم کو کہا کہ اسے میرا رب کہتے ہو سب سے بڑا سمجھ کر اسے بڑا خدا مانتے ہو یہ بھی تو کبھی ایک علاقہ کو جگمگا رہا ہے اور دوسرے کو اندھیرے میں رکھتا ہے جب دوسرے علاقہ کو روشن کرتا ہے تو پہلے علاقہ کو تاریکی میں ڈبا دیتا ہے۔ بھلا وہ چیز جو خود اپنے محور میں گھومنے کے لیے کسی کے حکم کی پابند ہو خدا بن سکتی ہے؟ نہیں نہیں، یہ خدا کبھی بھی نہیں بن سکتی۔ اے میری قوم اللہ تعالیٰ سے شریک ٹھہرانا چھوڑ دو، میں تو پہلے ہی بیزار ہوں مجھ سے تمہاری یہ توقع کہ ’’میں بھی تمہارے ساتھ معبودانِ باطلہ کو ماننے میں شریک ہوجاؤں گا‘‘ بے سود ہے۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میری توجہ کا مرکز تو صرف زمین و آسمان کا خالق ہے میں اس کے ساتھ اور کوئی شریک ٹھہراؤں یہ کیسے ہوسکتا ہے میں کوئی مشرک تو نہیں۔

قوم نے آپ کو باطل معبودوں کی مخالفت سے ڈرانے کی کوشش کی کہ یہ تمہیں نقصان پہنچائیں گے ان کی مخالفت سے باز آجاؤ آپ نے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا۔

وَلَا اَخَافُ مَاتُشْرِکُوْنَ بِہٖ (پ۷ سورۃ انعام ۸۰)

جن کو تم (اللہ کے ساتھ) شریک ٹھہراتے ہو مجھے ان سے کوئی ڈر نہیں۔

ابراہیم علیہ السلام کا نمرود سے مناظرہ:

اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرَاھِیْمُ فِیْ رَبِّہٖ اَنْ اٰتَاہُ اللہُ الْمُلْک (پ۳ سورۃ بقرۃ ۲۵۸)

اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا اسے  جو ابراہیم سے جھگڑا اس کے رب کے بارے میں اس پر کہ اللہ نے اسے بادشاہی دی۔

اس سے مراد اس وقت کا بادشاہ ہے جس کا نام نمرود ابن کنعان ابن سنجاریب ہے یہ ہی پہلا بادشاہ ہے جس نے تاج پہنا اور رعایا پر ظلم و ستم کیا خدائی کا دعویٰ کیا سارے جہان کی بادشاہت اس کو ملی اس کی کل عمر آٹھ سو برس تھی چار سو سال اپنی بادشاہی کے رعب و دبدبہ میں گذارے اور چار سو برس مچھرنے اسے کاٹا جو ناک کے راستے اس کے دماغ میں گھس گیا تھا وہ اپ نے سر پر جوتے لگواتا رہا اس نے اللہ تعالیٰ کو مقابلہ کرنے کے لیے بلند قلعہ بنوایا تھا اس کا دارالخلافہ بابل میں تھا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر، روح المعانی، خازن، روح البیان)

تمام روئے زمین کے چار بادشاہ:

جن کو کل دنیا کی بادشاہت حاصل رہی ہو وہ صرف چار شخص ہیں، دو مسلمان اور دو کافر:

ایک حضرت سلیمان علیہ السلام

دوسرے حضرت سکندرذوالقرنین علیہ السلام

تیسرا نمرود اور چوتھا شداد بن عاد جس کا نام بخت نصر  تھا۔

’’شداد‘‘ نے ہی رب تعالیٰ کے مقابل اپنی خدائی کا دعوی کرتے ہوئے عدن کے جنگلات میں اپنی جنت بنوائی تھی۔ جنت جب تیار ہوئی تو دیکھنے کے لیے گیا، ابھی اس کے گھوڑے نے اپنے دونوں پاؤں کو اس کی مصنوعی جنت میں رکھا ہی تھا کہ عزرائیل کو حکم ہوا کہ اس کی روح قبض کرلو۔ (از تفسیر عزیزی، و روح البیان)

ابراہیم علیہ السلام کا نمرود سے مناظرہ کب ہوا؟

کبیر اور روح المعانی میں دو قول نقل کیے گئے ہیں ایک یہ کہ بتوں کے توڑنے کے بعد اور آگ میں ڈالنے سے پہلے اور دوسرا قول یہ ہے کہ آپ جب آگ سے باہر تشریف لائے تو اس وقت یہ مناظرہ  ہوا مناظرہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ نمرود نے ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا تھا کہ تمہارا رب کون سا ہے جس کی میں عبادت کروں۔

ابراہیم علیہ السلام کی رب کے متعلق دلیل:

اِذْ قَالَ اِبْرَاھِیْمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ (پ۳ سورۃ بقرۃ ۲۵۸)

جبکہ ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے کہ زندہ کرتا اور مارتا ہے۔

یعنی اجسام میں موت و حیات کو پیدا کرتا ہے۔ ایک خدا کو نہ پہچاننے والے کے لیے یہ بہترین ہدایت تھی اور اس میں بتایا گیا تھا کہ خود تیری زندگی رب کے وجود کی شہادت دے رہی ہے کہ تو ایک بے جان نطفہ تھا  جس نے اس نطفہ کو انسانی صورت دی اور حیات عطا فرمائی وہ رب ہے اور زندگی کے بعد پھر اجسام کو جو موت دیتا ہے وہ پروردگار ہے اس کی قدرت کی شہادت خود تیری اپنی موت و حیات میں موجود ہے اس کے وجود سے بے خبر رہنا کمال جہالت و سفاہت اور انتہائی بدنصیبی ہے۔

یہ دلیل ایسی زبردست تھی کہ اس کا جواب نمرود سے نہ بن پڑا اور اس خیال سے کہ مجمع کے سامنے اس کو لاجواب اور شرمندہ ہونا پڑ رہا ہے تو اس نے کج بحثی (ٹیڑھی بحث) اختیار کی۔

قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْتُ (پ۳ سورۃ بقرۃ ۲۵۸)

بولا میں زندہ کرتا اور مارتا ہوں۔

نمرود نے دو شخصوں کو بلایا ان میں سے ایک کو قتل کیا اور ایک کو چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں یعنی کسی کو گفتار کرکے چھوڑ دیتا ہوں اسے زندہ کرتا ہوں اور کسی کو قتل کرکے ماردیتا ہوں۔ یہ اس کی نہایت احمقانہ بات تھی، کہاں قتل کرنا اور چھوڑنا؟ اور کہاں موت و حیات پیدا کرنا؟ قتل کیے ہوئے شخص کو ز ندہ کرنے سے عاجز رہنا اور بجائے اس کے زندہ کے چھوڑنے کو یہ کہنا کہ میں زندہ کرتا ہوں اس کی ذلت کے لیے کافی تھا۔ عقلمندوں پر تو ظاہر  ہوگیا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دلیل قوی اور قطعی ہے۔ اس کا جواب ممکن نہیں۔

نمرود نے جو دلیل قائم کی تھی اس میں دعویٰ بھی پایا گیا تھا تو ابراہیم علیہ السلام نے اس پر مناظرانہ گرفت فرمائی کہ اے جھوٹے مدعی الوہیت موت و حیات پیدا کرنا تیری قدرت میں کہاں بلکہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا اس سے آسان کام کرکے دکھا۔

قَالَ اِبْرَاھِیْمُ فَاِنَّ اللہَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ وَاللہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (پ۳/ سوۃ بقرۃ ۲۵۸)

ابراہیم نے فرمایا بے شک اللہ سورج کو مشرق سے لاتا ہے تو اس کو مغرب سے لے آتو ہوش اڑ گئے کافر کے۔ اور اللہ راہ نہیں دکھاتا ظالموں کو۔

وہ کافر رب کی طرف سے حیران کردیا گیا ورنہ اس میں بھی وہ کج بحثی (ٹیڑھی بحث) اس طرح کرسکتا تھا کہ سورج کو مشرق سے تو میں لاتا ہوں تم اپنے خدا سے کہو کہ وہ مغرب سے لائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے مبھوت کرکے لاجواب کردیا، وہ اس طرح ذلیل ہوا۔

جب اس سے کوئی جواب نہ بن سکا تو کہنے لگا میرے پاس تمہارے لیے کوئی غلہ نہیں تم اپنے رب سے مانگو وہی تمہیں غلہ دے جس کی تم عبادت کرتے ہو۔

ریت غلہ بن گئی:

ابراہیم علیہ السلام اس سے واپس لوٹتے ہوئے راستہ میں ریت کے ٹیلے پر گزرے وہاں سے ایک تھیلے میں ریت بھر کر مکان پر پہنچے تھیلا رکھ کر سوگئے آپ کی زوجہ حضرت سارہ نے اسے کھولا تو اس میں نہایت نفیس گندم تھی آپ نے اسے پیس کر روٹیاں تیار کیں جب حضرت ابراہیم جاگے تو آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا تو آپ نے پوچھا کہ یہ گندم کہاں سے آئی ہے تو آپ کی زوجہ نے عرض کیا وہی جو آپ تھیلا بھر کر لائے ہیں تو آپ سمجھ گئے کہ رب تعالیٰ نے مجھے رزق دیا ہے۔

نمرود ایک مرتبہ پھر ایمان لانے سے محروم:

اللہ تعالیٰ نے ظالم نمرود کے پاس انسانی شکل میں ایک فرشتہ بھیجا جس نے آکر کہا: تیرا رب کہتا ہے تو مجھ پر ایمان لا، ہم تیری سلطنت برقرار رکھیں گے۔ وہ بولا رب تو میں ہی ہوں میرا رب کون ہے؟ تین دفعہ یہ واقعہ در پیش آیا لیکن وہ ایمان لانےسے محروم رہا۔

نمرود اور اس کی قوم کا انجام:

نمرود کی قوم پر مچھروں کا عذاب بھیجا گیا، مچھروں کی زیادتی کا یہ حال تھا کہ ان سے سورج چھپ گیا تھا، زمین پر دھوپ نہ آتی تھی، مچھروں نے ان کے خون چوس لیے، گوشت چاٹ لیے، سوائے نمرود کے باقی سب کی ہڈیاں ہی باقی رہ گئیں۔ نمرود دیکھتا تھا مگر کچھ نہ کرسکتا تھا، پھر ایک مچھر اس کی ناک کے ذریعے دماغ میں گھس  گیا اور چار سو سال تک مغز کاٹتا رہا، جب اوپر سے دھمک پہنچتی تو کاٹنا چھوڑ دیتا ورنہ کاٹتا؛ چنانچہ دن رات اس کے سر پر جوتے اور تھپڑ پڑتے رہتے تھے۔ اب اس کے دربار کا ادب یہ تھا کہ جو آئے اس کے سر پر جوتا رسید کرے۔اس سے پہلے چار سو سال بہت آرام سے سلطنت کی اور چار سو برس پٹتا رہا پھر بہزار ذلت مرا، اس کی عمر آٹھ سو سال سے کچھ ہی زیادہ ہوئی۔ (ماخوذ از خزائن العرفان، خازن، نعیمی)

ابراہیم علیہ السلام نے مردوں کو زندہ ہوتے دیکھنا چاہا:

وَاِذْ قَالَ اِبْرَاھِیْمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰی وَلٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ (سورۃ بقرۃ ۲۶۰، پ۳)

اور جب عرض کی ابراہیم نے اے میرے رب مجھے دکھادے تو کیونکر مردے زندہ کرے گا فرمایا کیا تجھے یقین نہیں عرض کیا یقین کیوں نہیں مگرمیں یہ چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرار آجائے۔

ابراہیم علیہ السلام نے مردوں کو زندہ کرنےکا سوال کیوں کیا؟

امام ر ازی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کی سترہ وجوہ بیان فرمائی ہیں، لیکن علاوہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے چار کے متعلق بیان فرمایا کہ یہ ظاہر اور واضح ہیں اور باقی وجوہ غیر ظاہر ہیں۔

پہلی وجہ:

آپ کو پہلے علم استدلالی حاصل تھا اب آپ مردوں کو زندہ کرنے کی کیفیت کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے تاکہ علم ضروری بدیہی بھی حاصل ہوجائے۔ اس لیے کہ امام ابومنصور ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ علم استدلالی میں کبھی شکوک واقع ہوتے ہیں لیکن علم ضروری شکوک سے پاک ہوتا ہے جو علم مشاہدہ سے عیاناً حاصل ہو وہ ضروری ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ خود نبی کے لیے علم ا ستدلالی  یا ضروری میں فرق نہیں ہوتا کیونکہ نبی کا علم شک سے پاک ہوتا ہے البتہ سوال کرنے کی وجہ یہ تھی کہ کسی کو بھی یہ کہنے کا حق حاصل نہ ہو کہ تم نے تو مردوں کو زندہ ہوتے دیکھا نہیں تمہارے علم پر کیسے یقین کیا جائے۔

دوسری وجہ:

آپ یہ جاننا چاہتے تھے کہ میرا مرتبہ اللہ کے نزدیک ک یا ہے اور میری دعا کی قبولیت کا کیا مقام ہے اس صورت میں اولم تؤمن کا مطلب یہ ہوگا کیا تمہیں یقین نہیں تمہارا مرتبہ میرے نزدیک عظیم ہے تم میرے پسندیدہ ہو اور تم میرے خلیل ہو۔

تیسری وجہ:

آپ کو پہلے بھی شک نہیں تھا آپ نے سوال اس لیے کیا تاکہ علم الیقین سے عین الیقین کی طرف ترقی ہوجائے کیونکہ ان دونوں میں بہت بڑا فرق ہے اس لیے کہ عین الیقین مشاہدہ کے بعد حاصل ہوتا ہے لیکن علم الیقین میں مشاہدہ ضرورت نہیں۔

چوتھی وجہ:

جب آپ نے مشرکین پر یہ دلیل قائم فرمائی (ربی الذی یحیی ویمیت) میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، پھر آپ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا: اے اللہ تو کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے؟ یعنی ان کو میرے سامنے زندہ کر میں دیکھوں تاکہ میری دلیل کافروں پر ظاہر ہوجائے۔ (شرح نووی علی المسلم، ج۱ کتاب الایمان باب زیادۃ طمانینۃ القلب)

اعتراض: حدیث شریف میں تو آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم ابراہیم علیہ  السلام سے شک کرنے میں زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اس سے تو پتہ چلتا ہے کہ آپ نے مردوں کو زندہ کرنے کا سوال شک کی وجہ سے کیا تھا یعنی آپ کو یقین نہیں تھا۔

جواب: حدیث پاک کے ترجمہ اور سمجھنے میں لوگ غلطی کرتے ہیں حدیث پاک کا یہ مطلب نہیں  جو معترضین پیش کرتے ہیں حدیث پاک کے ترجمہ اور وضاحت کی طرف توجہ کریں مطلب خود واضح ہوجائے گا۔

’’عن ابی ہریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال نحن احق بالشک من ابراھیم اذ قال رب ارنی کیف تحی الموتی قال اولم تومن قال بلی ولکن لیطمئن قلبی‘‘ (مسلم ج۱ کتاب الایمان باب زیادۃطمانینۃ القلب)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ابراہیم علیہ السلام نے شک کیا ہوتا تو ہم بنسبت ابراہیم علیہ السلام کے شک کرنے کا زیادہ حق رکھتے۔ جب عرض کی ابراہیم نے اے میرے رب مجھے دکھادے تو مردے کس طرح زندہ فرمائے گا اور فرمایا کیا تجھے یقین نہیں عرض کی کیوں نہیں مگر یہ چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرار آجائے۔

اس حدیث پاک کا یہ مطلب نہیں کہ (معاذاللہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے مردوں کو زندہ کرنے میں شک کیا تھا اور ہمیں ان کی نسبت زیادہ شک ہے بلکہ اس حدیث پاک کا ترجمہ جو بیان کیا ہےا سی سے مطلب واضح ہو رہا ہے تاہم زیادتی وضاحت کے لیے علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پاک کی شرح بیان کی ہے اس سے ایک قول بیان کیا جا رہا ہے، آپ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد:

نحن احق بالشک من ابراھیم کے معنی بیان کرنے میں علماء کے بہت اقوال ہیں لیکن سب سے حسین اور صحیح قول وہ ہے جو امام ابوابراہیم مزنی اور علماء کی کئی جماعتوں نے بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے۔

’’معناہ ان الشک مستحیل فی حق ابراھیم فان الشک فی احیاء الموتی لوکان متطرقا الی الانبیاء لکنت انا احق بہ من ابراھیم وقد علمتم انی لم اشک فاعلموا ان ابراھیم لم یشک‘‘

اس حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا شک کرنا محال ہے اگر اللہ تعالیٰ کے مردوں کو زندہ کرنے میں انبیائے کرام علیہم السلام سے شک واقع ہوسکتا تو بنسبت ابراہیم علیہ السلام کے شک کرنے میں میں زیادہ حق رکھتا اور تحقیق تمہیں یقیناً معلوم ہے کہ مجھے مردوں کو زندہ کرنے میں کوئی شک نہیں تمہیں یقیناً اس امر کا بھی علم ہونا چاہیے کہ بے شک ابراہیم علیہ السلام کو اس میں کوئی شک نہیں تھا۔

خیال رہے اس حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فضیلت بیان کی اور  عجز و انکساری سے اپنے آپ کو ان سے کم مرتبہ بیان کیا ورنہ دوسرے مقام پر حقیقت بیان کرتے ہوئے تمام کائنات پر اپنی فضیلت بھی بیان کی ہے۔

مردے زندہ ہوتے ہوئے ابراہیم علیہ السلام کو دکھادیے:

قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْاً ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا وَاعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (پ۳/ سورۃ بقرۃ ۲۶۰)

فرمایا: اچھا چار پرندے لے کر اپنے ساتھ مانوس کرلو پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس چلتے آئیں گے پاؤں سے دوڑے اور جان لو کہ اللہ غالب حکمت والا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چار پرندے یعنی مور، گدھ (ایک روایت میں گدھ کی جگہ کبوتر کا ذکر ہے) کو ا اور مرغ اپنے ساتھ پہلے مانوس کیے پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان کے ٹکڑے کیے اور ان کے گوشت اور ہڈیاں وغیرہ کو خلط ملط کرکے چار پہاڑوں پر ان کو رکھ دیا۔

پھر آپ نے انہیں پکارا:

اے جدا جدا ہڈیو! اے متفرق گوشت کے  ٹکڑو! اے کاٹی ہوئی رگو! ایک دوسے سے مل جاؤ! تاکہ اللہ تعالیٰ تمہاری روحوں کو تم میں لوٹادے۔

یہ سن کر ہڈیاں اپنی دوسری ہڈیوں کی طرف چلیں یعنی ہر پرندے کی اپنی اپنی ہڈیاں ایک دوسری سے مل گئیں۔ پر دوسرے پروں سے جاملے۔ گوشت کے ٹکڑے دوسرے گوشت کے ٹکڑوں سے ملنے لگے یہاں تک کہ خون خون سے مل گیا۔

اس طرح آپ دیکھ رہے تھے کہ آپ کے سامنے مردوں کو زندہ کرکے آپ کو عین الیقین  کا مرتبہ عطا کردیا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کی کہ اے ابراہیم تم نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے۔ بے شک میں نے زمین کو پیدا کیا گیا  اس میں چار قسم کی ہوائیں قائم کی ہیں۔

(۱)     شمالی جانب سے چلنے والی ہوا

(۲)    جنوبی جانب سے چلنے والی

(۳)    باد صبا

(۴)    باد دبور

یہاں تک کہ جب قیامت کا دن ہوگا تمام مردے اور مقتول صور پھونکنے پر جمع ہوجائیں گے، جیسے ان چار پرندوں کو تمہارے سامنے پہاڑوں سے جمع کردیا گیا ہے۔ میرے سامنے تم تمام کا پیدا کرنا اور پھر موت کے بعد زندہ کرنا ایسے ہی ہے جس طرح کسی ایک شخص کو پیدا کرنا یا زندہ کرنا ہے۔ (روح المعانی)

تنبیہ:

بعض اہل علم نے بیان کیا ہے کہ چار پرندوں کے جمیع اجزاء ملا کر پہاڑوں پر رکھے گئے تھے۔ آپ نے جب اللہ کے اذن سے ان کو بلایا تو وہ زندہ ہوکر آپ کے پاس دوڑتے ہوئے آگئے۔ مانوس کرنے میں حکمت بھی یہی تھی کہ آپ ان کے آنے پر پہچان لیں کہ یہ وہی پرندے ہیں، جو میں نے اپنے ساتھ ہلا ملا لیے تھے۔

اور بعض نے کہا کہ آپ نے ان کے سروں کو اپنے پاس رکھ لیا تھا آپ کے بلانے پر ان کے تمام اجزا اپنے اپنے اجزاء سے مل کر اپنے اپنے سروں سے آکر مل گئے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کوئی صورت بھی بعید نہیں جو صورت بھی ہو قدرت کی عجیب نشانی کا ظہور ہے۔

تمام جانداروں سے پرندوں کا انتخاب کیوں؟

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چار پرندے مانوس کرنے کا حکم دیا اور حیوانوں کا حکم نہیں دیا اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی دو وجہیں ہیں۔ ایک یہ کہ پرندوں کو اللہ تعالیٰ نے فضا میں اڑنے اور ہوا میں بلند ہونے کی طاقت عطا فرمائی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی علو مرتبت یعنی مراتب کی بلندی اور ملکوت تک پہنچنے کی ہمت عطا فرمائی ہے اس لیے پرندوں کو ذبح کرنے اور گوشت کو ملاجلا کر رکھنے کا حکم دیا تاکہ آپ کا معجزہ آپ کے مراتب کے مشابہ ہوجائے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب پرندوں کو ذبح کردیا اور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ملاجلاکر پہاڑوں کی چوٹیوں پر رکھ دیا۔ پھر ان کو بلایا تو تمام ٹکڑے ملے جلے گوشت سے جدا ہوکر اپنے اپنے ٹکڑوں سے مل گئے۔ قیامت کے دن بھی اسی طرح تمام  بکھرے ہوئے ذرات جمع ہوجائیں گے اور ان سے بدن معرض وجود میں آئیں  گے، ان کی روحیں ان سے مل جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی اس کی تا ئید کر رہا ہے۔

خُشَّعًا اَبْصَارُھُمْ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ کَاَنَّھُمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرْ (پ۲۷/ سورۃ قمر۷)

’’نیچی آنکھیں کیے ہوئے قبروں سے نکلیں گے گویا وہ ٹڈی ہیں پھیلی  ہوئی‘‘ (تفسیر کبیر)

چار کا حکم دینے کی وجہ:

ابراہیم علیہ السلام نے صرف مردہ کو زندہ ہوتے ہوئے دیکھنے کی درخواست کی لیکن مالک الملک نے کہا: اے میرے خلیل تم نے تو اپنی عبودیت کے پیش نظر ایک مردہ کو زندہ ہوتے دیکھنا چاہا لیکن میں اپنی ربوبیت کی وجہ سے تمہیں چار مردہ کو زندہ کرکے دکھاتا ہوں۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ ح یوانات وغیرہ عناصر اربعۃ یعنی آگ، مٹی، پانی، ہوا سے مرکب ہیں۔ اس لیے چار کو ذبح کرنے کا حکم دیا کہ میں جس طرح ان چار کو زندہ کر رہا ہوں ایسے ہی تمام عناصر اربعہ کے مرکبات کو زندہ کروں گا۔ (تفسیر کبیر)

سب پرندوں میں سے چار کو خاص کرنے کی وجہ:

تمام پرندوں میں سے مور، گدھ، مرغ اور کوے کو منتخب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو زینت، مرتبہ، بلند مراتب سے محبت ہے اور یہ اوصاف مور میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوَاتِ (پ۳/ سورۃ آل عمران ۱۴)

خواہشات کی محبت کو لوگوں کے لیے مزین کردیا گیا ہے۔

انسان جس طرح زیادہ کھانے سے شغف رکھتا ہے اسی طرح گدھ کو بھی کھانے سے ہی زیادہ کام ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان کو فرج کی خواہشات پوری کرنے سے جس طرح کام ہوتا ہے اسی طرح مرغ میں بھی یہ وصف پایا جاتا ہے۔ انسان مال طلب کرنے اور جمع کرنے کا زیادہ حریص ہوتا ہے اسی طرح کوا بھی مال کی طلب اور جمع کرنے کا حریص ہوتا ہے۔ کیونکہ سوائے کوے کے رات کو اڑنے والا کوئی پرندہ نہیں ہے اور سخت سردی میں دن کو صرف کوا ہی نکلتا ہے۔

ان چار کو منتخب کرنے میں اس حکمت کی طرف اشارہ ہے کہ انسان جب تک خواہشات نفسانیہ اور خواہشات فرج اور مال کی حرص اور زیب و زینت کو ختم نہیں کرے گا اس وقت تک اس کے دل پر روحانیت کا اثر نہیں ہوگا اور نہ ہی اسے اللہ تعالیٰ کے جلال کے نور سے راحت حاصل ہوگی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہجرت کرنا:

وَقَالَ اِنِّیْ ذَاھِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَھْدِیْنَ (پ۲۳/ سورۃ صافات ۹۹)

اور ابراہیم علیہ السلام نے کہا میں جا رہا ہوں جہاں میرے رب نے حکم دیا ہے وہی میری راہنمائی فرمائے گا۔

رب تعالیٰ کے ارشاد میں ’’الیٰ ربی‘‘ کا مطلب بیان کرتے ہوئے علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’الی حیث امرنی ربی او حیث اتجرد فیہ لعبادتہ‘‘

یعنی جہاں میرے رب نے حکم دیا ہے میں وہاں جا رہا ہوں کہ میں وہاں اپنی عبادت کو بہتر طریقہ سے ادا کرسکوں گا۔ کیونکہ جو قوم میری نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائی وہاں ٹھہرانا اب بے مقصد ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے بھی حکم دے دیا ہے تو اب یہاں سے ہجرت کرنا ضروری ہوچکا ہے۔

ابتدائی طور پر آپ نمرودی قوم سے ہجرت کرکے اپنے چچا ہاران کے پاس حران میں آگئے۔ ہاران نے ابراہیم علیہ السلام کی نیک بختی دیکھ کر اپنی بیٹی سارا کا نکاح آپ سے کردیا۔

حضرت سارہ بہت ہی خوبصورت عورت تھیں، مردوں میں حضرت یوسف اور عورتوں میں حضرت سارہ بہت حسین ہوئے، بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنی دادا حضرت سارہ کے حسن سے ہی حسن ملا تھا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وہاں بھی اپنا سلسلہ تبلیغ جاری رکھا اس لیے آپ کے چچا ہاران نے بھی آپ کو گھر سے نکال دیا۔ دوران ہجرت راستہ میں مصر کے ظالم بادشاہ کا واقعہ درپیش آیا اور حضرت سارہ کو حضرت ہاجرہ عطا کی گئی۔ یہ واقعہ ایک حدیث پاک کی وضاحت کے ضمن میں پہلے بیان کیا جاچکا ہے۔

ہجرت کرنے والا قافلہ جب حران سے چلا تھا صرف تین آدمیوں پر مشتمل تھا، حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت سارہ اور حضرت لوط علیہ السلام اس قافلہ کے افراد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے والے اس وقت صرف یہی تھے۔ چلتے وقت  حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت سارہ کا معاہدہ ہوا تھا کہ ایک دوسرے کی بات کو مانا جائے گا۔ راستہ میں جب حضرت ہاجرہ بھی مل گئیں تو اب قافلہ کے چار فرد ہوگئے جو تمام ہی اللہ کو ماننے والے تھے۔

فلسطین میں خوشحالی:

مصر سے جب یہ چار افراد روانہ ہوکر فلسطین پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے ان کی قدر و منزلت کو سمجھا، اور ان کے آنے کو باعث برکت سمجھا اور بہت سی زمین آپ کی خدمت میں بطور نذر پیش کی۔ اس زمین میں کھیتی باڑی سے اللہ تعالیٰ نے بہت برکت عطا فرمائی، آپ کے پاس غلہ اور جانور کافی مقدار میں ہوگئے، آپ نے مسافروں اور غربا کو رہنے اور کھانے کی سہولیات عطا کیں۔ اس طرح مہمان نوازی میں آپ کو ایک منفرد مقام حاصل ہوگیا۔

حضرت سارہ کے مشورہ سے حضرت ہاجرہ سے نکاح:

ایک دن حضرت سارہ نے عرض کیا کہ ہمارے پا س اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ضروریات دنیا میں یعنی کھانے پینے کی اشیاء اور رہنے کے مکانات کی تو کوئی کمی نہیں۔ البتہ اولاد کی کمی ہے، اس لیے آپ ہاجرہ سے نکاح کرلیں ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اولاد سے نواز دے یعنی ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہونے والا بچہ ہمارے لیے تسکین و راحت کا سبب بن جائے اس طرح حضرت سارہ کے کہنے پر حضرت ہاجرہ سے نکاح ہوگیا۔ (از عزیزی)

ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کے لیے دعا:

رَبِّ ھَبْ لِیْ منَ الصَّالِحِیْنَ (پ۲۳/ سورۃ صافات ۱۰۰)

’’الٰہی مجھے لائق اولاد دے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس دعا کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے ارشاد فرمایا:

فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی ایک بردبار لڑکے کی۔

اس بشارت سے مراد حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت کی بشارت ہے؛ کیونکہ علامہ آلوسی ’’حلیم‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’وانہ یکون حلیماوای حلم مثل حلمہ عرض علیہ ابوہ وھو مراھق الذبح فقال (ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین) فما ظنک بعد بلوغہ‘‘ (روح المعانی جلد۱۲ صف ۱۲۶)

یعنی آپ کو بشارت دی گئی کہ آپ کو ایک بیٹا عطا کیا جائے گا  جو حلیم ہوگا اس سے بڑھ کر حلم کی اور کیا مثال ملے گی جب آپ بلوغ کے قریب تھے تو آپ کے والد نے آپ کو کہا، کہ میں تمہیں خواب میں ذبح کرتے ہوئے اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں اس میں تمہاری کیا رائے ہے؟ تو آپ نے عرض کیا کہ آپ مجھے ان شاء اللہ صابروں سے پائیں گے۔

یہ حلم تو بالغ ہونے سے پہلے کا ہے بالغ ہونے کے بعد آپ کے حلم کا کیا مقام ہوگا؟ اس بحث سے واضح ہوا کہ یہ اسماعیل علیہ السلام کی بشارت ہے۔

اسماعیل علیہ السلام کے بعد اسحاق علیہ السلام کی بشارت:

فَبَشَّرْنَاھَا بِاِسْحَاقَ وَمِنْ وَّرَاءِ اِسْحَاقَ یَعْقُوْبَ (پ۱۲/ سورۃ ھود ۷۱)

تو ہم نے اسے (حضرت سارہ) کو اسحاق کی خوشخبری دی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی۔

حضرت سارہ کو بشارت دینے کی وجہ یہ تھی کہ اولاد کی خوشی عورتوں کو بنسبت مردوں کے زیادہ ہوتی ہے۔  اور دوسری وجہ یہ تھی۔

’’لم یکن لھا ولد وکان لابراھیم ولد وھو اسماعیل‘‘

کہ حضرت سارہ کی اولاد نہیں تھی اس لیے زیادہ خوشی ان کو ہی حاصل ہوئی تھی کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بیٹا اسماعیل پہلے پیدا ہوچکا تھا۔(ماخوذ از تفسیر مدارک)

حضرت یعقوب علیہ السلام کی بشارت دینے سے اس طرف اشارہ تھا کہ سارہ کی عمر اتنی بڑی ہوگی کہ یہ اپنے اسحاق  کے بیٹے یعقوب کو بھی دیکھیں گے۔ (ماخوذ از خزائن العرفان)

حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت نوے سال تھی، تفسیر جلالین میں ننانوے سال مذکور ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک سو بیس سال تھی، (مدارک) اسی لیے حضرت حضرت سارہ رضی اللہ عنہ نے تعجب کرتے ہوئے کہا تھا:

’’عجیب بات ہے کہ میرا بچہ پیدا ہوگا جبکہ میں بوڑھی ہوں اور میرے شوہر بوڑھے ہیں بے شک یہ تو بہت ہی تعجب ناک بات ہے۔‘‘

اسحاق علیہ السلام چھوٹے اور اسماعیل علیہ السلام بڑے:

اسحاق علیہ السلام کی بشارت دینے کے ایک سال بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا فرمادیا اور اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کے چودہ سال بعد اسحاق علیہ السلام کی پیدائش ہوئی یعنی ان کی پیدائش کے تیرہ سال بعد اسحاق علیہ السلام کی بشارت دی گئی۔ (جمل علی الجلالین)

حضرت اسماعیل، اسحاق، یعقوب علیہم السلام نبی ہوئے۔

وَوَھَبْنَا لَہٗ اِسْحَاقَ وَیَعْقُوْبَ وَکُلًّا جَعَلْنَا نَبِیًّا (پ۱۶ سورۃ مریم ۴۹)

اور ہم نے اسے (ابراہم علیہ السلام کو) اسحاق اور یعقوب عطا کیے اور ہر ایک کو غیب کی خبریں بتانے والا (نبی) کیا۔

وَوَھَبْنَا لَھُمْ مِنْ رَّحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَھُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا (پ۱۶ سورۃ مریم ۵۰)

اور ہم نے انہیں اپنی رحمت عطا کی اور ان کے لیے سچی بلند ناموری رکھی۔

اس میں اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر شریف اتنی لمبی ہوئی کہ آپ نے اپ نے پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام کو دیکھا اور اس آیت سے یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہجرت کرنے اور اپنے گھر بار کو چھوڑنے کی یہ جزا ملی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹے، پوتے اور مال و دولت سے نوازا۔

وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ اِنَّہ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا وَکَانَ یَاْمُرُ اَھْلَہ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّکٰوةِ وَکَانَ عِنْدَ رَبِّہ مَرْضِیًّا (پ۱۶/ سورۃ مریم ۵۴، ۵۵)

اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بے شک وہ وعدہ کا سچا تھا غیب کی خبریں بتاتا اور اپنے گھر والوں کونماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا اور اپنے رب کو پسند تھا۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جو وعدہ بھی کیا اسے ضرور پورا فرمایا ایک مرتبہ آپ اور آپ کا ایک ساتھی کہیں جا رہے تھے تو شہر کے قریب پہنچ کر آپ کے ساتھی نے کہا یہاں میں بیٹھتا ہوں اور تم شہر جاکر کھانا خرید کر لاؤ یا تم بیٹھو اور میں کھانا خرید کر لاتا ہوں آپ نے فرمایا میں تمہارا یہاں انتظار کروں گا اور تم ہی چلے جاؤ کھانا خرید لاؤ وہ گیا اور بھول گیا تین دنوں کے بعد اسے یاد آیا، یا بعض روایات میں ہے کہ ایک سال کے بعد وہاں لوٹا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام وہاں ہی موجود تھے، اس نے تعجب سے پوچھا: تم ابھی یہاں ہی ہو؟ آپ نے فرمایا: ہاں! وعدہ کے مطابق منتظر تو رہنا ہی تھا۔ (حاشیہ جلالین)

حضرت ہاجرہ اور اسماعیل علیہما السلام کو  حرم کی سر زمین میں چھوڑنا:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ نے امتحان لیا کہ آپ کو حکم دیا کہ آپ اپنی زوجہ ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو حرم کی سرزمین میں چھوڑ آؤ، اس وقت وہاں کوئی شہر اور آبادی نہیں تھی بلکہ بیابان جنگل تھا، آپ کو وہاں چھوڑنے کا حکم دینے میں ایک تو امتحان لینا مقصود تھا پھر کعبہ شریف کی تعمیر اور مکہ مکرمہ کو آباد کرنا مقصود تھا۔ اور حضرت سارہ سے ہجرت کے وقت جو وعدہ کیا تھا کہ تمہاری بات مانی جائے گی اس وعدہ کا پاس کرانا بھی مقصود تھا کیونکہ آپ نے پہلے تو ہاجرہ سے نکاح کرنے کا مشورہ دیا لیکن حضرت اسماعیل کی پیدائش کے بعد اپنی اولاد نہ ہونے پر غیرت بھی کھائی اور اللہ کے حضور درخواست کی کہ ابراہیم کو  حکم دو کہ وہ اپنے اس بیٹے اور اپنی زوجہ ہاجرہ کو مجھ سے دور چھوڑ دیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرتے ہوئے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان کو حرم کی سرزمین میں چھوڑ آو۔ (تفسیر جمل زیر آیت ربنا انی اسکنت من ذریتی، پ۱۳)

جہاں آج زمزم ہے وہاں ایک درخت  تھا اس وقت نہ مکہ تھا اور نہ ہی کوئی کسی انسان کا وہاں بسیرا تھا اور وہاں پانی بھی نہیں تھا آپ نے ایک تھیلے میں کچھ کھجوریں اور ایک مشکیزہ میں کچھ پانی ماں بیٹے کے حوالے کرتے ہوئے اور ان کو زمزم کہ جگہ ایک درخت کے نیچے چھوڑتے ہوئے واپس لوٹے تو حضرت ہاجرہ نے آپ کا پیچھا کرتے ہوئے پوچھا: اے ابراہیم! آپ ہمیں یہاں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ یہاں کوئی ہمارا غمخوار، مونس و ہمدم نہیں اور نہ ہی یہاں کوئی آبادی ہے کہ کھانے پینے کی چیز مل جائے، کئی مرتبہ ہاجرہ کے پوچھنے پر بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو پھر حضرت ہاجرہ نے پوچھا کیا اللہ تعالیٰ  نے آپ کو یہ حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! تو حضرت ہاجرہ نے کہا:

’’اذن لا یضیعنا ثم رجعت‘‘

اچھا ہمیں اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرے گا۔ یہ کہتے ہوئے واپس اپنی جگہ پر لوٹ آئیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک گھاٹی کے پاس پہنچے جہاں سے آپ کو اپنی زوجہ اور بیٹا نظر نہیں آ رہے تھے آپ نے بیت اللہ شریف کی طرف توجہ کی اس وقت صرف بیت اللہ کی بنیادیں ایک ٹیلہ کی مانند نظر آتی تھیں اور دعا کی:

رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْہِمْ وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ (پ۱۳/ ع۱۸ سورۃ ابراہیم آیت ۳۷)

اے ہمارے رب میں نے بسادیا ہے اپنی کچھ اولاد کو اس وادی میں جس میں کھ یتی باڑی نہیں تیرے حرمت والے گھر کے پڑوس میں اے ہمارے رب یہ اس لیے تاکہ وہ نماز قائم کریں پس کردے لوگوں کے دلوں کو کہ وہ شوق و محبت سے ان کی طرف مائل ہوں اور انہیں رزق دے پھلوں سے تاکہ وہ (تیرا) شکر ادا کردیں۔

حضرت ہاجرہ اپنے بچے حضرت اسماعیل کو دودھ پلاتی رہیں یہاں تک کہ مشکیزہ میں جو پانی تھا وہ ختم ہوگیا اور کھجوریں بھی ختم ہوگئیں حضرت ہاجرہ بھی بھوکی پیاسی ہوگئیں دودھ کا بننا بھی ختم ہوگیا بچہ بھی بھوک پیاس سے پریشان حال تھا ا پنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا بچہ کا یہ حال ماں سے برداشت نہ ہوسکاآپ قریب ایک پہاڑی ’’صفا‘‘ پر چڑھتی ہیں کہ کہیں سے پانی کا اتہ پتہ چل جائے یا کوئی انسان نظر نہ آئے، پھر اسی خیال سے ’’مروہ‘‘ پر آتی ہیں درمیان میں نشیبی جگہ جب پہنچتی ہیں..... جہاں سے بچہ نظر نہیں آتا..... وہاں دوڑتی ہیں، جب نشیبی جگہ کو عبور کرلیتی ہیں اور ایسی جگہ پہنچتی ہیں جہاں سے بچہ نظر آنے لگتا ہے تو وہاں آہستہ ہوجاتی ہیں۔ ’’مروہ‘‘ پر پہنچ کر بھی پانی یا کوئی انسان نظر نہیں آتا، آپ بے قراری کے عالم میں پھر صفا پر پھر مروہ پر سات چکر ایسے ہی لگادیتی ہیں، آخری مرتبہ مروہ پر آپ نے ایک آواز سنی، اپنے آپ کو کہنے لگیں: خاموش! خیال کیا شائد میرے اوسان خطا ہوگئے، یہاں کون ہے؟ یہ مجھے ویسے ہی آواز آ رہی ہے۔ پھر دوبارہ آواز سننے پر کہا کہ اگر یہاں کوئی فریاد کو سن کر پہنچنے والا ہوسکتا ہے تو فرشتہ ہی ہوسکتا ہے دیکھا تو بچہ کے قریب ایک فرشتہ کھڑا ہے، اسماعیل کی ایڑی کے پاس اس نے اپنی ایڑی یا پر مارا، یا حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایڑی رگڑنے سے پانی کا ایک چشمہ جاری ہوگیا، حضرت ہاجرہ نے پانی کے اردگرد بند باندھ کر ایک حوض کی شکل دے دی، وہ پانی جوش مار رہا تھا، آپ نے خود بھی پیا، بچہ کو بھی پلایا اور پانی کو کہا: ’’زم زم‘‘ رک جا رک جا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

یرحم اللہ ام اسماعیل لو ترکت زمزم او قال لو لم تغرف من الماء لکانت زمزم عینا معینا

اللہ تعالیٰ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ پر رحم کرے اگر آپ زمزم کو اسی طرح رہنے دیتیں یا آپ نے فرمایا اگر آپ اس سے جلدی سے چلو نہ بھرتیں تو زمزم جاری چشمہ ہوتا۔

اس طرح آپ رضی اللہ عنہا نے جب چشمہ سے پانی پیا تو آپ کا دودھ بھی جاری ہوگیا جو بچہ کو پلایا: فرشتہ نے آپ کو کہا۔

’’لا تخافی الضیعۃ فان ھھنا بیت اللہ یبنیہ ھذا الغلام وابوہ وانا اللہ سبحانہ لا یضیع اھلہ‘‘

تم کوئی خوف نہ کرو تم ضائع ہوجاؤ گی بے شک یہاں بیت اللہ ہے اس کی تعمیر یہ بچہ اور اس کا باپ کریں گے بے شک اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔

کچھ دیر کے بعد وہاں سے جرھم قبیلہ کا گذر ہوا جنہوں نے دیکھا کہ پرندے اڑ رہے ہیں انہوں نے خیال کیا کہ پرندے وہاں ہی ہوتے ہیں جہاں پانی ہو یقیناً یہاں کہیں پانی ہوگا، انہوں نے اپنے ایک شخص کو بھیجا جس نے دیکھا کہ ایک پانی کا چشمہ ہے اور اس کے قریب ایک عورت بیٹھی ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ تم ہمیں پانی میں شریک کرو تو ہم تمہیں اپنے جانوروں کے دودھ میں شریک کریں گے حضرت ہاجرہ نے ان سے اس شرط پر معاہرہ کرلیا۔ اسی جرھم قبیلہ نے ایک لڑکی کا نکاح اسماعیل علیہ السلام سے کردیا۔ (از روح المعانی ج۷ حصہ دوم ص۲۳۶، ۲۳۷)

فائدہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے اثرات آج بھی واضح طور پر نظر آ رہے ہیں کہ مکہ کی سرزمین پہاڑی اور ریتلی ہے لیکن پھر ہر قسم کے اعلیٰ سے اعلیٰ وہاں موجود رہتے ہیں، لوگ ہر  طرف سے اس مقام پر کھچے چلے آتے ہیں، ہر مسلمان کی دل میں ایک تڑپ پائی جاتی ہے کہ وہ بیت اللہ کی زیارت کرلے۔

حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا تو بچہ کی پیاس کو دیکھ کر بے قرار ہوکر ’’صفا و مروہ‘‘ کے چکر لگا رہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو ا پنے خلیل کی زوجہ اور اسماعیل کی والدہ کی ادا ایسی پسند آئی کہ تا قیامت حاجی اس یاد کو تازہ کرنے کے لیے وہاں چکر لگاتے رہیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ ’’حج‘‘ اللہ کے مقبول بندوں کی ادا کے بغیر کچھ نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے طواف میں پہلوانوں کی طرح اکڑ کر چلنا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے منیٰ میں جمرات کو کنکریاں مارنا اس قسم کے کام ہی حج ہیں، میں نے اپنی کتاب ’’شمع ہدایت‘‘ کے مقدمہ میں اسے تفصیلا بیان کیا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی:

حضرت ابراہیم نے ہجرت کی بعد بیٹے کے لیے دعا کی کہ اے اللہ مجھے نیک اولاد عطا فرما۔

رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ (۲۳/ سورۃ صافات آیت ۱۰۰، ۱۰۱)

الٰہی مجھے نیک لائق اولاد دے تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی ایک بردبار لڑکے کی۔

آپ کی دعا میں تین مطالبے تھے اے اللہ اولاد نرینہ  یعنی مذکر عطا فرما! اور وہ بردباری کی عمر تک  پہنچے اور بردبار ہی رہے۔ ابراہیم علیہ السلام بھی حلیم  ہیں آپ کی شان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ لَاوَّہٌ حَلِیْمٌ (پ۱۱ سورۃ توبہ ۱۱۴)

بے شک ابراہیم بہت آہیں کرنے والے متحمل (بردبار) ہیں۔

آپ کو بیٹا بھی حلیم عطا کیا تاکہ بیٹا بھی باپ کی طرف شرف و فضیلت والا ہو اور جلیل القدر نبی ہو ’’صلاح‘‘ یعنی نیکی اور اللہ تعالیٰ کا قرب بہت ہی اچھی صفت ہے اس لیے ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کے لیے بھی یہی دعا کی اور اپنی ذات کے لیے بھی دعا کرتے ہوئے عرض کیا:

رَبِّ ھَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْنَ (پ۱۹ سورۃ شعراء ۸۳)

اے میرے رب مجھے حکم عطا فرما اور میرے رب مجھے ان سے ملا جو تیرے قرب کے لائق ہیں۔

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْمَاذَا تَرٰی  قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اللہ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ

پھر جب وہ اس کی ساتھ کام کے قابل ہوگیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا، میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے؟ کہا: اے میرے باپ!کیجیے جس بات کا آپ کا حکم ہوتا ہے، خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔

قربانی کے وقت اسماعیل علیہ السلام کی عمر:

’’قال بعضھم کان فی ذالک الوقت ابن ثلاث عشرۃ سنۃ‘‘ (تفسیر کبیر)

بعض اہل علم کا قول یہ ہے کہ ذبح کا واقعہ درپیش آنے کے وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر تیرہ سال تھی۔

امتحان کی وجہ:

چونکہ پہلی آیت کریمہ میں یہ ذکر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حلیم بیٹے کی بشارت دی، اب امتحان لے کر اسے واضح کردیا کہ کتنا عظیم صابر اور بردبار بیٹا آپ کو رب تعالیٰ نے عطا کیا جس نے اتنے بڑے امتحان کو صبر اور خندہ پیشانی سے پاس کیا۔

تین دن ابراہیم علیہ السلام کا خواب دیکھنا:

ذی الحج کے سات دن گزر جانے پر رات کو خواب دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں بیٹا ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘ آپ نے صبح اس پر تفکر کیا اور کچھ تردد میں رہے کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ کا ہی حکم ہے؟ یا خوب فقط خیال تو نہیں۔ اسی وجہ سے آٹھ ذی الحج کا نام یوم التروبہ رکھا گیا (سوچ بچار کا دن) آٹھ تاریخ کا دن گذر جانے پر رات پھر خواب دیکھا، صبح یقین کرلیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی حکم ہے اسی نو ذی الحج کو یوم عرفہ (پہچاننے کا دن) کہا جاتا ہے ، اس کے بعد آنے والی رات کو پھر خواب دیکھنے پر صبح اس پر عمل کرنے کا مصمم ارادہ کرلینے پر ہی دس ذی الحج کو یوم النحر (ذبح کا دن) کہا جاتا ہے۔ (تفسیر کبیر)

صرف خواب دیکھنے سے ذبح پر عمل کیوں؟

’’ان اللہ تعالٰی جعل رؤیا الانبیاء علیھم السلام حقا‘‘

بے شک اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کے خوابوں کو حق بنایا یعنی ان کے خوابات سچے ہوتے ہیں ان کو اپنے خوابوں پر عمل کرنا لازم ہے۔

انبیائے کرام کے  خواب تین قسم:

۱۔      جو خواب دیکھا جائے وہی بعینہ واقع ہو جیسے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں خواب دیکھا کہ آپ بمع اپنے اصحاب کے مکہ مکرمہ  تشریف لے گئے اور اصحاب نے سر منڈوائے اور بعض نے بال کٹوائے آپ کا یہ خواب ایک سال بعد اسی طرح سچا ہوا جیسے دیکھا تھا:

لَقَدْ صَدَقَ اللہ رَسُوْلَہُ الرُّءْ یَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللہ اٰمِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُؤُ سَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ لَا تَخَافُوْنَ

بے شک اللہ نے سچ کر دکھایا اپنے رسول کا سچا خواب بے شک تم ضرور مسجد حرام میں داخل ہوگے اگر اللہ چاہے امن و امان سے اپنے سروں کے بال منڈواتے یا ترشواتے بے خوف۔

۲۔ خواب میں صرف امتحان ہو اس کا وقوع مقصود نہ ہو جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں بیٹے  کو ذبح کرتے ہوئے دیکھا، یہ صرف امتحان تھا آپ نے اپنے امتحان پر عمل  کرلیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسماعیل  علیہ السلام کو بچالیا اور فدیہ دے دیا۔

۳۔     خواب میں بعض چیزوں سے تشبیہ دی جائے جس چیز کو خواب میں دکھایا گیا ہو اسی کا وقوع نہ ہو بلکہ اس کی کوئی نہ کوئی تاویل ہو اور وقوع مشابہ ہو جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب:

اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَیْتُھُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ

یاد کرو جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ ستارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ کرتے دیکھا۔

خواب میں آپ نے چاند اور سورج اور گیارہ ستارے سجدہ کرتے دیکھے لیکن واقع میں ان چیزوں نے آپ کو سجدہ نہیں کیا بلکہ آپ کے خواب کو اس طرح سچا کرکے دکھایا:

وَخَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا وَقَالَ یٰٓاَبَتِ ھٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْ یَایَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا (پ۱۳ سوۃ یوسف ۱۰۰)

اس کے لیے سجدہ میں گرے اور یوسف نے کہا اے میرے باپ یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے بے شک اسے میرے رب نے سچا کیا۔

ماں باپ خواب میں چاند سورج کی شکل میں دکھائے گئے اور گیارہ بھائی گیارہ ستاروں کی صورت میں، خواب سچا ہوا کہ سب نے آپ کو سجدہ تعظیمی کیا، جو پچھلی شریعتوں میں جائز تھا۔ ہماری شریعت میں حرام ہے۔ یاد رہے کہ عبادت کا سجدہ ہر شریعت میں اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی اور کے لیے جائز نہیں۔ (تفسیر کبیر ج۲۶، ص۱۵۷)

بیٹے سے مشورہ کرنے کی وجہ:

اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹے سے مشورہ کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ آپ پر یہ ظاہر ہوجائے کہ آپ کا بیٹا اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری میں کتنا صابر ہے؟ اس طرح آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوگی۔ جب آپ دیکھیں گے کہ آپ کا بیٹا حلم (بردباری) کے اعلیٰ معیار پر فائز ہوچکا ہے، اور اس طرح بیٹے کو بھی سخت مشکلات میں عظیم صبر کرنے پر اعلیٰ درجہ حاصل ہوجائے، آخرت میں ثواب حاصل ہو اور دنیا میں بھی آپ کی تعریف ہو۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے صبر کرنے کے پختہ ارادہ کو ’’ان شاء اللہ‘‘ سے ملاکر برکت حاصل کی اور اس مسئلہ کی طرف اشارہ کیا کہ جو کام مستقبل میں کرنا ہو اس کے ساتھ ’’ان شاء اللہ‘‘ ذکر کیا جائے کیونکہ نیکی کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتا ہے اسی طرح گناہوں سے بچانا بھی اسی کے فضل سے نصیب ہوتا ہے۔

ابراہیم علیہ السلام سے شیطان کی ناکامی:

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے بیٹے پر کامیاب ہونے کا ارادہ کیا تو ایک دوست کی شکل میں آپ کو روکنے کے لیے آیا لیکن آپ پر کامیاب نہ ہوسکا پھر آپ کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اس راہ سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن ان پر بھی اس کا داؤ نہ چل سکا تو اس نے بہت بڑا موٹا تازہ بن کروادی کو بھردیا  تاکہ آپ اس سے آگے نہ جاسکیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ایک فرشتہ تھا جس نے آپ کو کہا: اسے ماریں آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں تو وہ راستے سے ہٹ گیا، دوبارہ پھر آگے آنے کی یہ کوشش کی آپ نے پھر کنکریاں مار کر راستہ سے ہٹا دیا، تیسری بار پھر اسی طرح آگے آکر راستہ بند کردیا تو آپ نے پھر اسی طرح سات کنکریاں مار کر  راستہ سے ہٹادیا۔

آج حاجیوں پر اس سنت ابراہیمی پر عمل کرنا واجب کردیا گیا، سبحان اللہ اپنے محبوبوں کی ادائیں رب تعالیٰ کو کیسی پسند آئیں؟ کہ ان کو عظیم عبادت کا حصہ بنادیا گیا۔ (تفسیر روح المعانی)

اسماعیل علیہ السلام کا ابراہیم علیہ السلام کو مشورہ دینا:

اسماعیل علیہ السلام نے اپنے باپ سے کہا: اے مرے ابا جان! ذبح سے پہلے مجھے باندھ دینا تاکہ  میں تڑپوں نہیں، اپنے کپڑوں کو مجھ سے بچاکر رکھنا تاکہ آپ کے کپڑے میرے خون سے آلودہ نہ ہوجائیں اور میری والدہ انہیں دیکھ کر پریشان نہ ہوں، میرے حلق پر چھری جلدی جلدی چلانا تاکہ مجھ پر موت آسانی سے واقع ہوجائے، جب میری والدہ کے پاس جانا تومیرا سلام ان کو دینا،

ان باتوں کے بعد باپ بیٹے نے ایک دوسرے کو دیکھا باپ نے بیٹے کا بوسہ  لیا محبت کے آنسو چھلک پڑے، لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجاآوری میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔

فَلَمَّا اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ

تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پر گردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا،

ماتھے کے بل لٹانے میں بھی اسماعیل علیہ السلام کامشورہ ہی تھا کہ کہیں آپ کی محبت پدری کی وجہ سے چھری چھلانے میں معمولی سی کوتاہی نہ کردیں۔

وَنَادَیْنٰہُ اَنْ یّٰٓاِبْرٰھِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْ یَا اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ وَّتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ

اور ہم نے اسے نداء فرمائی اے ابراہیم! بے شک تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو ، بے شک یہ واضح امتحان تھا اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ دے کر اسے بچالیا اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی۔ چھری چلانے سے پہلے ہی آپ کو کہہ دیا گیا کہ آپ نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا کہ آپ نے چھری چلادی تھی تو جبرائیل امین نے آکر اس کا رخ بدل دیا تھا۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک موٹا تازہ سینگوں والا سفید سیاہی مائل دنبہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا فدیہ دے دیا گیا اور آپ کو ذبح سے بچاکر بھی ذبح ہوجانے کا اجر و ثواب عطا کیا او رتا قیامت آپ کو ذبیح اللہ (اللہ کی رضا کے لیے ذبح ہونے والا) کے لقب سے متصف کردیا گیا۔ (روح المعانی)

جبرائیل امین علیہ السلام جب فدیہ لے کر آئے تو خیال کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کہیں جلدی نہ کردیں تو آپ نے پڑھا: ’’اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب آسمانوں کی طرف سر اٹھایا تو دیکھا کہ جبرائیل فدیہ لا رہے ہیں تو پڑھا: ’’لا الہ اللہ واللہ  اکبر‘‘ جب حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام نے سنا تو آپ نے پڑھا: ’’اللہ اکبر وللہ الحمد‘‘

ان تینوں حضرات کے مجموعی کلام کو ’’تکبیراتِ تشریق‘‘ کی صورت میں تا قیامت نمازیوں پر ذی الحج کی نو تاریخ کی نماز فجر سے لے کر تیرہ تاریخ کی نماز عصر تک واجب کردیا گیا تاکہ یہ یادگار قائم رہے۔ (قاضی خان، حاشیہ ہدایہ)

خیال رہے کہ مدارک میں دوسرا کلام حضرت اسماعیل علیہ السلام اور تیسرا کلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مذکور ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں سے قربانی کس کی؟

اگرچہ اختلاف ہے اس مسئلہ میں کہ قربانی حضرت اسحاق علیہ السلام کی ہوئی یا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ہوئی تاہم قوی دلائل سے یہ ہی واضح ہے کہ قربانی حضرت اسماعیل کی ہی کی گئی علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر مختلف دلائل ذکر کیے ہیں۔

۱۔      رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’انا ابن الذبیحین‘‘ میں دو ذبیحوں کا بیٹا ہوں۔اسی طرح ایک اعرابی نے آپ کو یا این الذبیحین کہہ کر پکارا تو آپ نے تبسم فرمایا: جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ دو ذبیحوں کے بیٹے کس طرح ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبدالمطلب نے جب زمزم کا کنواں کھودنا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ کے لیے نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میرے لیے یہ کام آسان کیا تو میں اپنے بیٹوں میں سے ایک بیٹے کی قربانی کروں گا قرعہ حضرت عبداللہ کے حق میں نکلا، آپ کے ننھیال اور کچھ اہل علم نے ایک سو اونٹ بطور فدیہ دینے کا فیصلہ کیا اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ کو ذبیح ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہیں۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے نہیں۔ تو یقیناً دوسرے ذبیح حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں۔

۲۔     حضرت اصمعی کہتے ہیں کہ میں نے ابو عمرو بن علاء سے سوال کیا کہ ذبیح کون تھے؟ انہوں نے فرمایا: اے اصمعی! تمہاری عقل کہاں گئی؟ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اسحاق علیہ السلام مکہ میں نہیں تھے بلکہ وہ تو شام میں تھے، مکہ میں تو حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی تھے، وہی اپنے باپ کے ساتھ مل کر کعبہ کی تعمیر میں مشغول تھے اور قربانی کا واقعہ بھی مکہ مکرمہ کے قریب منیٰ میں پیش آیا تو یقیناً ذبیح ہونے کا واقعہ بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ہی درپیش آیا۔

۳۔     اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کو صابر کہا اسحاق علیہ السلام کو نہیں، رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِدْرِیْسَ وَذَ الْکِفْلَ کُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِیْنَ

اسماعیل، ادریس اور ذوالکفل (علیہم السلام) (کو یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ۱۷ سورۃ انبیاء ۸۵)

اور اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کے متعلق فرمایا: اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ بے شک آپ وعدہ کے سچے تھے۔ ذبح ہونے والے نے ہی اپنے باپ سے وعدہ کیا:

سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَاءَ اللہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ (پ۲۳ سورۃ صافات ۱۰۲)

آپ عنقریب مجھے ان شاء اللہ صابرین سے پائیں گے۔

جب یہ واضح ہوگیا کہ ذبح ہونے والے نے اپنے باپ سے صبر کا وعدہ کیا اور وعدہ سچ کر دکھایا اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کو صبر کرنے والا اور وعدہ کا سچا، کہا ہے تو یقیناً ذبیح اسماعیل علیہ السلام ہیں۔

۴۔     اسحق علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے آپ کی والدہ کو بشارت رب تعالیٰ نے ان الفاظ میں دی:

فَبَشَّرْنَاھَا بِاِسْحَاقَ وَمِنْ وَّرَاءِ اِسْحَاقَ یَعْقُوْبَ (پ۱۲ سورۃ ھود ۷۱)

ہم نے اسے (سارہ کو) بشارت دی اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی۔

اگر یہ کہا جائے کہ ذبح کرنے کا حکم اسحاق علیہ السلام کے متعلق تھا تو اب یہ دیکھنا ہوگا کہ یعقوب علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے آپ کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہے یا بعد میں؟ اگر آپ کی پیدائش سے پہلے حکم دیا گیا ہے تو اس میں حضرت ابراہیم کا امتحان ہی نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ کو بتادیا گیا تھا کہ سارہ کا بیٹا اسحاق اور اسحاق کا بیٹا یعقوب ہوگا، جب ابراہیم علیہ السلام کو معلوم ہے کہ اسحاق کا بیٹا یعقوب تو ابھی پیدا ہونا ہےیہ تو ذبح ہو ہی نہیں سکتا، تو امتحان کیسے؟ اور رب تعالیٰ اپنے ہی حکم کے خلاف کیسے حکم دے سکتا ہے؟ اگر یعقوب علیہ السلام کی پیدائش کے بعد حکم ہو تو یہ بھی ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ (پ۲۳ سورہ صافات ۱۰۲)

جب وہ آپ کے ساتھ ہاتھ بٹانے کی قابل ہوگیا۔

ذبح کے وقت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے کی عمر تیرہ سال یا بعض روایات میں سات سال بھی ہے تو اس عمر میں یعقوب علیہ السلام کا پیدا ہوجانا اور اسحاق علیہ السلام کے ذبح کا حکم دینا بھی عقل کے خلاف ہے۔

۵۔     اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

اِنِّیْ ذَاھِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ (پ۲۳ سورۃ صافات ۹۹)

میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں جو مجھے ہدایت دے گا۔

یعنی جہاں میرے رب کا حکم ہے اس سرزمین میں جانے والا ہوں ہجرت کرنے کے بعد ابراہیم دعا کرتے ہیں: رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ الٰہی مجھے لائق اولاد دے اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس دعا کی قبولیت کو ذکر کیا:

فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ (پ۲۳ سورہ صافات ۱۰۱)

تو ہم نے اسے ایک حلیم بیٹے کی خوشخبری سنائی۔

پھر اسی بیٹے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْمَاذَا تَرٰی قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اللہ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (پ۲۳ سورۃ صافات ۱۰۲)

پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے؟ کہا اے میرے باپ کیجیے! جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔

اب اس سارے واقعہ کے بعد یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ اسماعیل علیہ السلام ہی ہیں؛ کیونکہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی بشارت حضرت سارہ کو دی ہی اس لیے گئی تھی کہ ابراہیم علیہ السلام کو تو ایک بیٹے کی بشارت دی جاچکی ہے اور بیٹا بھی عطا کردیا گیا تھا۔

اگر ذبح کے وقت اسماعیل علیہ السلام کی عمر تیرہ سال ہے تو اسی سال اسحاق علیہ السلام کی بشارت دی گئی اور ایک سال بعد آپ پیدا ہوئے اور اگر اس وقت اسماعیل علیہ السلام کی عمر سات سال تھی تو ذبح کے واقعہ کے سات سال بعد حضرت اسحاق کی پیدائش ہے۔

۶۔     کثیر اخبار میں یہ ذکر بھی موجود ہے کہ ذبح کے وقت جو دنبہ بطور فدیہ دیا گیا اس کے سینگ کعبہ شریف کی دیوار پر بہت عرصہ تک نصب رہے، اس سے بھی واضح ہوا کہ ذبح کا واقعہ مکہ مکرمہ میں پیش آیا اور مکہ مکرمہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے اگر ذبح  کا واقعہ اسحاق علیہ السلام سے متعلق ہوتا تو ملک شام میں درپیش آتا، نہ کہ مکہ مکرمہ میں۔ (از کبیر ج۲۶ ص۱۵۳، ۱۵۴)

سبحان اللہ! حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا فعل بھی رب تعالیٰ کو کیسا پسند آیا کہ تا قیامت اصحابِ نصاب، اہل ثروت اس پر عمل کرتے رہیں گے۔

تجویزوآراء