حضرت ادریس

 

 حضرت ادریس علیہ السلام

حضرت ادریس علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار سال کا فاصلہ ہے یہ حضرت نوح علیہ السلام کے باپ کے دادا ہیں۔

حضرت ادریس علیہ السلام کا نسب:

اخنوخ بن یرد بن مھلابیل بن انوش بن قیتان بن شیث بن آدم علیہ السلام۔

حضرت نوح علیہ السلام کا نسب:

نوح ابن لمک بن متو شلخ بن اخنوخ (ادریس علیہ السلام)

حضرت ادریس علیہ السلام کی ایجادات:

سب سے پہلے ستاروں میں نظر کرنا اور حساب کرنا آپ سے ہی ثابت ہے لیکن یہ خیال رہے کہ آپ کا ستاروں میں نطر کرنا اللہ کی مرضی کے مطابق تھا آپ کے حساب میں تخمینے کی کوئی بات نہیں ہوتی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ آپ کے دل میں جو القاء کرتا آپ وہی بیان کرتے یعنی ستاروں کا حساب آپ کو بطور معجزہ عطا کیا گیا تھا آج کے دور میں ستاروں کا حساب اور آنے والے واقعات کی خبر دینا حرام ہے ان پر یقینی اعتبار کرنا کفر ہے۔

قلم کے ذریعے لکھنے کو سب سے پہلے آپ نے رواج دیا، سب سے پہلے کپڑے آپ نے ہی پہنے اس سے پہلے لوگ چمڑے کا لباس استعمال کرتے تھے۔ سب سے پہلے چیزوں کے وزن کرنے اور کپڑے وغیرہ کو ناپنے کو آپ نے ہی رواج دیا۔ سب سے پہلے اسلحہ کی ایجاد بھی آپ نے ہی فرمائی۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد پہلے رسول آپ ہی ہیں اور آپ پر تیس صحیفے نازل ہوئے۔ (روح المعانی ج۹، ص۱۰۵، تفسیر کبیر ج۲۱ ص۲۳۳، مدارک ص۴۲۰)

ادریس علیہ السلام کا آسمانوں پر اٹھایا جانا:

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ اِدْرِیْسَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا وَّرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا (مریم ۵۶، ۵۷)

اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا اور ہم نے اسے بلند مقام کی طرف اٹھایا۔

اس آیت کریمہ میں بلند مقام کی طرف اٹھانے کا ایک مطلب یہ ہے:

ھو شرف النبوۃ والزلفی عبداللہ تعالی (روح المعانی ج۹ ص۱۰۵)

آپ کو نبوت کے منصب سے مشرف فرماکر اور اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص قرب عطا فرماکر آپ کو رفعت و بلندی عطا فرمائی۔

دوسرا معنی:

ان المراد بہ الرفعۃ فی المکان الی موضع عال و ھذا اولی لان الرفعۃ المقرونۃ بالمکان تکون رفعۃ فی المکان لا فی الدرجۃ (تفسیر کبیر ج۲۱ ص۲۳۳)

یعنی دوسرا معنی بلندی کا یہ ہے کہ آپ کو بلند مکان کی طرف اٹھایا گیا یہ معنی لینا زیادہ مناسب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ورفعناہ مکان علیا ذکر فرمایا جہاں مکان کا ذکر ہو اس سے مراد مکان کی بلندی ہی ہوتی ہے درجات کی بلندی مراد نہیں ہوتی۔

بلندیٔ مکان کی تفصیل یہ ہے کہ آپ کو آسمان پر اٹھالیا اور یہی صحیح تر ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمانِ چہارم پر دیکھا۔

حضرت کعب احبار وغیرہ سے مروی ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام نے ملک الموت یعنی حضرت عزرائیل سے فرمایا کہ میں موت کا مزہ چکھنا چاہتا ہوں کیسا ہوتا ہے؟ تم میری روح قبض کرکے دکھاؤ انہوں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی، روح قبض کرکے پھر اسی وقت لوٹادی آپ زندہ ہوگئے۔

پھر آپ نے فرمایا اب مجھے جہنم دکھادو تاکہ خوف الٰہی زیادہ ہو آپ کے ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے آپ کو جہنم کے دروازے پر لے جایا گیا۔ آپ نے مالک نامی فرشتہ..... جو جہنم کا داروغہ ہے .....سے فرمایا کہ دروازہ کھولو میں اس سے گزرنا چاہتا ہوں، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ اس پر سے گذرے، پھر آپ نے ملک الموت سے فرمایا کہ مجھے جنت دکھاؤ وہ آپ کے حکم کے مطابق آپ کو جنت کے پاس لے گئےآپ نے جنت کے دروازے کھولنے کا ارشاد فرمایا تو آپ کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے گئے آپ جنت میں تشریف لے گئے۔

ملک الموت نے کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد فرمایا کہ اب آپ چلیں زمین میں اپنے مقام پر تشریف لے چلیں آپ  نے فرمایا کہ میں تو یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ ہر نفس نے موت کا مزا چکھنا ہے میں موت کا ذائعہ چکھ چکا ہوں، پھر اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل ہونے کی یہ شرط لگائی ہے وَاِنْ مِنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھَا کہ ہر شخص کو جہنم پر گزرنا ہے میں جہنم سے بھی گزر  کر آچکا ہوں، اب میں جنت میں داخل ہوچکا ہوں جو لوگ جنت میں داخل ہوجاتے ہیں انہیں وہاں سے نکالا نہیں جاسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اپنا ارشاد گرامی ہے: وَمَاھُمْ مِنْھَا بِمُخْرَجِیْن جنت والوں کو جنت سے نہیں نکالا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے اپنے ارشادات کے مطابق میں نے یہیں رہنا ہے یہاں سے مجھے نہیں نکالا جاسکتا۔

حضرت ادریس علیہ السلام کے اس کلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو فرمایا: اے عزرائیل میرے بندے ادریس نے سب کام میری مرضی سے کیے انہیں یہاں ہی رہنے دو! آپ علیہ السلام ابھی تک آسمانوں میں زندہ ہیں۔ (از خزائن العرفان)

تنبیہ: حضرت ادریس علیہ السلام کے دلائل میں قرآن پاک کے الفاظ مبارکہ ذکر ہیں جو اس وقت نازل اگرچہ نہیں ہوا تھا لیکن اللہ کا کلام قدیم ہے، لوح محفوظ پر اس وقت بھی تحریر تھا، نبی چونکہ غیب کا علم اللہ تعالیٰ کی عطا سے رکھتے ہیں اس لیے  حضرت ادریس علیہ السلام کی نظر لوح محفوظ پر تھی لہٰذا قرآن پاک سے آپ کا استدلال درست ہے۔

(تذکرۃ الانبیاء)

 

تجویزوآراء