حضرت سید الانبیاء رحمۃ اللعالمین سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
حضرت سید الانبیاء رحمۃ اللعالمین سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
عنوانِ دیوانِ نبوّت، سلطانِ ایوانِ فتوت، قالبِ روج غیب الغیب، قلبِ فتوح بے عیب و ریب، شاہِ اسرارِ قدم، ماہِ انوارِ حکم، لطیفۂ علومِ عرفان، صحیفہ رقومِ احسان، دُرِّ دُرجِ اقرء باسم ربّک الّذی خلق، شرفۂ بُرجِ فلا اُقسم بالشّفق والّیل وما وسق، صاحبِ مسندِ کنتُ نبیًّا واٰدم بین الماء والطّین، نازنینِ چار بالشِ وما ارسلنٰک الّا رحمۃ لّلعٰلمین، شہنشاہِ بارگاہِ لی مع اللہ، برہانِ اشتباہِ فاعلم انّہٗ لٓا الٰہ الّہ اللہ، شہر یارِ اذیغشی السّدرۃ ما یغشےٰ، عالم آرائے ما زاغ البصرو ما طغٰے، مہبطِ اسرارِ سبحان الّذی اسرٰی، ہنبعِ انوارِ دنیٰ فتدلّیٰ، گوہرِ خزنیۂ بطحا لو لوئے گنجینہ طٰہٰ، مکرم مجتبےٰ، معظّمِ مہتدٰے،معلّمِ مقتدا، مقدّمِ مرتجٰے، حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم وعلیٰٓ اصحابہ البررۃ الاتقیاء۔ ؎
اے صبح صادقاں رُخِ زیبائے مصطفےٰ |
|
وے سروِ راستاں قدِ رعنائے مصطفے |
خواجہ گدائے درگہِ اوشد کہ جبرئیل
شد با کمالِ مرتبہ مولائے مصطفےٰ
صلوات اللہ وسلامہٗ علیہ بعدد اللّیل والنّھار وقطرات الا مطار وا وراق الا شجار وذرّات الغبار من سطح الارض القفار الیٰ مدار الفلکِ الدّوّار۔
نام و کُنیت
حضور کا اسم گرامی محمّد، احمد، کنیتِ سامی ابو القاسمِ ابو ابراہیم، لقبِ پاک مصطفےٰ، مجتبےٰ تھا۔
صاحبِ مواہب لدنیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمائے مبارک جو کتاب و سنّت اور کُتبِ قدیم میں مذکور ہیں تبرتیبِ حروفِ معجم چار سو (۴۰۰) سے زیادہ لکھے ہیں۔
آپ کے ننانوے (۹۹) نام جو سالک کے لیے روزانہ تلاوت کرنے ضروری ہیں وہ آگے لکھے جاویں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
نسب نامۂ پدری
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد المناف بن قُصیّ بن کِلاب بن مُرّہ بن کعْب بن لُوَیّ بن غالب بن فہر بن مالکِ بن نَضْر الملقب بہ قُرَیش بن کِنانہ بن خُزیمہ بن مُدْرکہ بن اِلْیاس بن مَضَر بن تِرار بن مَعدّ بن عَدنان۔
یہاں تک شجرۂ نسب اتفاقی ہے۔ حافظ ابو عمر و یوسف بن عبد اللہ المعروف بہ ابن عبد البرّ المزیّ القرطبی المالکی رحمۃ اللہ علیہ کتاب الاستیعاب میں لکھتے ہیں ھٰذا مالم یختلف فیہ احد من النّاس۔
اس سے آگے حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام تک سلسلہ نسب میں نہایٔت درجہ کا اختلاف ہے۔ لیکن ہم اِس جگہ تاریخ کبیر طبری جلد دوم (۲) سے تحریر کرتے ہیں۔
عَدْنان بن اُدَوْ بن ہَمَیْسَعْ بن سلامان بن عَوْص بن یُوْز بن قموال بن اُبَیّ بن عوّام بن ناشِد بن حزا بن بلْداس بن تدلاف بن طابخ بن جاحم بن ناحِش بن ماخےٰ بن عَیْفٰے بن عبقر بن عُبَیْد بن الدُّعا بن حمدان بن سَنْبر بن یثْرم بن نحزن بن یلحن بن اَرْعُوٰے بن عَیْفی بن دِیْشان بن عِیْصر بن اَقْناد بن ابہام بن مُقصِی بن ناحِث بن زارحِ شمِیّ بن مزی بن عوص بن عرّام بن قیدار بن حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بن حضرت ابراہیم علیہ السلام۔
اِس سے آگے شجرہ نسب اس طرح پر ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام بن تارخ بن ناخور بن سارغ بن ارغ بن فالغ بن عابرالملقب بہ حضرت ہود علیہ السلام بن شالخ بن از فخشد بن حضرت سام علیہ السلام بن حضرت نوح علیہ السلام بن لامک بن متوشلخ بن اخنُوح الملقب بہ حضرت ادریس علیہ السلام بن بارِ دبن مَہْلائیل بن قِیْنان بن انوش بن حضرت شیث علیہ السلام بن ابو البشر حضرت آدم علیٰ نبیّنا وعلیہم الصّلوٰۃ والسلام حضور کے تمام آباء کرام مسلم و مومن اہل توحید تھے۔ (ہدایۃ الغبی)
نسب نامۂ مادری
آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم پاک حضرت سیّدہ آمنہ تھا بِنت وہب بن عبد المناف بن زُہرہ بن کِلاب بن مُرّہ قریشی۔
تاریخ ولادت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت بروزِ دوشنبہ وقتِ صبح صادق بتاریخ نہم (۹) ربیع الاول ۱ یکم عام الفیل مطابق بست (۲۲) دوم اپریل ۵۷۱ء پانچسو اکہتر عیسوی موافق یکم جیٹھ ۶۲۸ چھ سو اٹھائیس بکرمی میں ہوئی (رحمۃ اللعالمین جلد (۲) دوم)
عام مؤرخین جو ولادت حضور کی بارہ (۱۲) ربیع الاوّل کو لکھتے ہیں وہ دلائلِ ریاضی سے صحیح ثابت نہیں ہوئی۔
جائے وِلادت
جس مکان میں حضور علیہ الصّلوۃ والسلام کی ولادت ہوئی وہ وراثت میں آپ کو پہنچا تھا۔ آپ نے وہ مکان حضرت عُقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ اُنہوں نے محمد بن یوسف کے ہاتھ فروخت کر دیا جو حجّاج ثقفی کا بھائی تھا۔ اُس نے وہ مکان اپنے محل میں داخل کر لیا۔ اور اُس جگہ کا نام بَیْضا رکھا۔ چنانچہ مدت دراز تک وہ جگہ بنام سرائے محمد بن یوسف مشہور رہی۔ جب بنو امیّہ کی سلطنت کا زمانہ گذرا تو ہارون الرشید عباسی کی والدہ حج کرنے آئی تو اُس نے مکان شریف کو محل محمد بن یوسف سے علیٰحدہ کر کے ایک مسجد تعمیر کی جس پر سونے کا کام کروایا۔ (معارج النبوۃ)
مؤلفِ کتاب ہذا فقیر شرافت عفیٰٰ عنہ کہتا ہے کہ زمانہ حاضرہ تک قُبہ مولد النبی مکہ معظمہ میں موجود تھا۔ اور زائرین زیارت سے مشرف ہوتے تھے۔ لیکن ۱۳۴۴ھ میں عبد العزیز ابن سعود نجدی حاکمِ مکہ نے جو وہابی المذہب ہے بوجہ تعصّب مذہبی کے وہ قبہ معہ دیگر قبابِ متبرکہ کے شہید کر وا دیا ہے۔ اب وہ جگہ خالی پڑی ہے۔
واقعاتِ ولادت
جس رات کو حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام پیدا ہوئے کِسرٰے کے محل میں زلزلہ پڑ گیا۔ اور اُس کے چودہ (۱۴) کنگرے گِر پڑے، سادہ کی نہر (واقعہ فارس) خشک ہوگئی، فارس کا آتشکدہ جو ہزاروں برس سے روشن تھا بجھ گیا۔ اور ایسے کئی واقعات عجیبہ ظہور میں آئے جو کتبِ سیرت میں مفصّل مذکور ہیں۔
رضاعت
آپ نے سات (۷) روز تک اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ پیا، اس کے بعد ثُویبہ (کنیزِ ابو لہب) نے دودھ پلایا، پھر یہ سعادت حلیمہ سَعدیّہ بنتِ ابی ذُویْب کو نصیب ہوئی جو حارث بن عبد العزّٰے کی اہلیہ تھیں، آپ قریباً پانچ برس اُن کے پاس علاقہ طایٔف میں رہے۔ (مسالک السّالکین)
شقّ صدر
اسی زمانہ میں ایک روز حضرت جبرائیل و میکائیل علیہما السّلام آپ کو اُٹھا کر پہاڑ پر لے گئے اور سینہ مبارک ناف تک چاک کیا، اور دِل کو نکال کر اُس میں سے ایک نقطۂ سیاہ خون آلود کو نکال کر باہر پھینکا، اور دِل کو معرفتِ حق اور یقینِ صادق اور نورِ ایمان سے بھر کر اور خاتمِ نور سے مُہر سے کر کے پھر اُس کے مقام میں رکھ دیا۔ کہتے ہیں کہ آپ کا شق صدر چار (۴) مرتبہ ہوا۔ ایک یہ جو واقعہ گذرا، دوسرا (۲) دس (۱۰) برس کی عمر میں، تیسرا (۳) بعثت کے وقت، چوتھا (۴) وقتِ معراج۔ (مسالک السّالکین)
تربیت
آپ بھی شکم والدہ میں ہی تھے کہ آپ کے والدِ بزرگوار حضرت عبد اللہ کا انتقال ہوگیا، جب آپ چھ (۶) برس کے ہوئے تو والدہ ماجدہ آپ کو ساتھ لے کر مدینہ منوّرہ میں زیارتِ اخوال کے واسطے تشریف لے گئیں، وہاں ایک مہینہ تک رہنے کا اتفاق ہوا، واپسی کے وقت جب مقامِ ابواء میں پہنچیں تو وہیں ۵۷۷ء میں انتقال فرمایا اور مدفون ہوئیں، اُمِّ ایمن برکہ خادمہ نے آپ کو مکہ معظمہ میں پہنچایا۔
کفالتِ جدِّ امجد
آپ کے دادا بزرگوار حضرت عبد المطلب آپ کی پرورش میں مصروف ہوئے، جب حضور کی عمر شریف آٹھ برس دو مہینے دس روز کی ہوئی تو حضرت عبد المطلب نے بھی بعمر بیاسی (۸۲) سال ۵۷۹ء میں رحلت فرمائی۔ (مسالک السّالکین)
کفالتِ ابو طالِب
اُس وقت سے آپ اپنے عمِّ مکرّم حضرت ابو طالِب کے پاس رہنے لگے، اور وہ دل و جاں سے آپ کے متکفّل ہوئے۔ (مسالک السّالکین)
سفرِ شام
جب آپ بارہ (۱۲) برس دو (۲) مہینے دس (۱۰) روز کے ہوئے تو ۵۸۳ء میں حضرت ابو طالب کے ہمراہ تجارت کے واسطے ملکِ شام کو تشریف لے گئے، جب شہر بصرٰے سے چھ (۶) میل اس طرف موضع کَفر میں پہنچے تو ابو عداس ملقّب بہ بحیرا راہب نے جس کو جرجیس بھی کہتے ہیں آپ میں علامات پیغمبر آخر الزّمان کے پاکر آپ کو پہچانا، اور آپ کے نزدیک آیا، اور ہاتھ مبارک پکڑ کر کہا یہ رسولِ ربّ العالمین ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اپنا پیغمبر کرے گا تاکہ اہلِ جہان کے واسطے رحمت ہو۔ (مسالک السّالکین)
تزویج خَدیجہ
جب آپ کی عمر پچیس (۲۵) برس کی ہوئی تو حضرت خدیجہ بنتِ خویلد نے آپ کے حسنِ معاملہ، راستبازی، صدق، دیانت و پاکیزہ اخلاقی کی عام شہرت سُن کر تجارت کے واسطے آپ کو بہت سا مال دیا، اور اپنا غلام مَیْسرہ بھی ساتھ دیا، آپ ملکِ شام کو تشریف لے گئے، اِس سفر میں چند خوارق عادات معجزات آپ سے صادِر ہوئے، اور نسطورا راہب نے آپ کو پہچانا اور آپ کی رسالت کی خبر دی، اور اِس تجارت میں آپ کو منافِع کثیر حاصل ہوا، جس وقت آپ واپس تشریف لائے، تو آپ کے فضائل و معجزات مَیْسرہ کی زبان سے سُن کر حضرت خدیجہ کو اشتیاق پیدا ہوا کہ آپ سے نِکاح کروں، چنانچہ نفیسہ بنتِ منبہ کے ہاتھ آپ کو شادی کا پیغام بھیجا،[۱] [۱۔مسالک السّالکین ۱۲ / سیرۃ النبی جلد اوّل ۱۲ شرافت] حضور نے قبول فرمایا اور تاریخ معیّن پر حضرت ابو طالب اور تمام رؤسائے قریش جن میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر آئے، حضرت ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھا، اور پانسو درہم (۵۰۰) طلائی مہر قرار پایا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی عمر اس وقت چالیس (۴۰) برس تھی، یہ نکاح ۵۹۶ء میں ہوا۔
تعمیرِ کعبہ
جب عمر شریف آپ کی پینتیس (۳۵) برس ہوئی تو ۶۰۶ء میں خانہ کعبہ کی تعمیر عمل میں آئی، باقوم نامی رومی معمار نے عمارت کا کام کیا، آپ نے حجر الاسود کو اپنے ہاتھ مبارک سے اُٹھا کر رُکنِ عراقی میں نصب فرمایا، یہ گویا اشارہ تھا کہ دین الٰہی کی عمارت کا آخری پتھر بھی اِنہیں ہاتھوں سے نصب ہوگا۔
توحید پر ستی
آپ آغازِ طفولیت سے ہی توحیدِ باری تعالیٰ کے قائل و معتقد تھے، مراسمِ شرک سے ہمیشہ مجتنب رہتے، ایک دفعہ قریش نے آپ کے سامنے کھانا لا کر رکھ دیا جو کہ بتوں کے چڑھاوے کا تھا، جانور جو ذبح کیا گیا تھا وہ کِسی بت کے نام پر ذبح کیا گیا تھا، آپ نے کھانے سے صاف انکار کر دیا۔ (سیرۃ النبی حصہ اوّل)
طلوع آفتاب رسالت
جب آفتاب نبوّت طلوع ہونے کو تھا تو علاماتِ رسالت ظاہر ہونے لگیں، آپ رَویاے صادقہ دیکھتے، اور اُن کا اثر بعینہٖ ظاہر ہوتا، جس شجر حجر کی طرف سے آپ گذرتے سب آپ کو بالفاظِ السّلام علیک یَا رسول اللہ سلام کرتے، آپ کو قبل از نبوّت خلوت و تنہائی مرغوبِ خاطر تھی، آپ غارِ حرا میں جا کر جو مکہ معظمہ سے تین (۳) میل کے فاصلہ پر ہے عبادتِ الٰہی میں مشغول رہتے، مراقبہ، تفکر، تدبّر کا شغل ہوتا تھا۔ (مسالک السّالکین)
عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے۔ قیل ما کان صفۃ تعبّدہ اجیب بان ذٰلک کان بالتّفکرّ والا عتبار۔
ایک دن بروز دو شنبہ بتاریخ نہم (۹) ربیع الاوّل ۴۱ میلادی مطابق دوازدہم (۱۲) فروری ۶۱۰ء جبکہ آپ کی عمر بحساب قمری پورے چالیس (۴۰) سال ہوچکی تھی، حسبِ معمول غارِ حرا میں مراقبہ میں مصروف تھے، فرشتہ غیب یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام خدمت میں آئے اور مژدۂ رسالت دے کر کہا۔ اقرأ باسم ربّک الّذی خلق خلق الانسان من علق اقرأ وربّک الاکرم الّذی علّم بالقلم علم الانسان مالم یعلم (العلق) یعنی پڑھ اُس خدا کا نام جس نے کائنات کو پیدا کیا، جس نے آدمی کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھ تیرا خدا کریم ہے، وہ جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا، وہ جس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اسے معلوم نہ تھیں۔ (سیرۃ النبی)
پھر حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے زمین پر پاؤں مارا ایک چشمہ پیدا ہوگیا، اُس سے آپ کو وضو کرایا، اور امام ہوکر دو (۲) رکعت نماز آپ کو پڑھائی اور غائب ہوگئے۔ (مسالک السّالکین)
ف صاحبِ تحفۃ الابرار نے لکھا ہے کہ یہی طریقہ سنّت اب تک مشایخِ طریقت میں جاری ہے کہ مرید کو تلقین کرنے کے وقت دوگانہ نفل ادا کرواتے ہیں۔
تبلیغ اِسلام
جب آپ نے دعوت شروع کی تو سب عورتوں سے پہلے حضرت خدیجۃ الکبرٰے رضی اللہ عنہا اور سب مردوں سے پہلے حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ اور سب لڑکوں سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام اور سب موالی سے پہلے حضرت زَید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور سب غلاموں سے پہلے حضرت بلالِ حبشی رضی اللہ عنہ آپ پر ایمان لائے، پھر حضرت صدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے اہتمام سے حضرت عُثمان بن عفّان رضی اللہ عنہ حضرت زُبیر بن العوام رضی اللہ عنہ حضرت عبد الرّحمٰن بن عوْف رضی اللہ عنہ حضرت طلحہ بن عُبَیْد اللہ رضی اللہ عنہ حضرت سَعْد بن ابی وقّاص رضی اللہ عنہم مسلمان ہوئے، اور یہی صاحبان سابق الاسلام کہے جاتے ہیں۔
تعذیبِ مسلمین
پہلے خفیہ آپ دعوتِ اسلام فرماتے تھے، لہذا کفّارِ قریش آپ سے معترض و مزاحم نہیں ہوئے، مگر جب آیۂ کریمہ فاصدع بما تؤمر واعرض عن المشرکین (الحجر ع ۶) نازل ہوئی تو آپ نے بتوں کی مذمّت شروع کی، اور دعوت با علان فرمانے لگے، کفّارِ قریش کی ایذا رسانی کی کوئی حد نہ رہی آپ کو اور سب مسلمانوں کو سخت تکلیف دینے اور طرح طرح کی ایذائیں پہنچانے لگے۔ (مسالک السّالکین)
ہجرتِ حبش
جب قریش کا ظلم و تعدّی بہت بڑھ گیا تو حضور نے جان نثارانِ اسلام کو فرمایا کہ حبش کو ہجرت کر جائیں، چنانچہ ماہِ رجب ۵ نبوی میں تراسی (۸۳) مسلمانوں نے ہجرت کی اور چند روز نجاشی (شاہِ حبش) کے پاس آرام سے گذارے، یہاں تک کے غلط افواہ پھیلی کہ کفّارِ مکّہ نے اسلام قبول کر لیا ہے، یہ سن کر اکثر صحابہ مکّہ میں واپس چلے آئے۔
شعبِ ابو طالب میں محصور ہونا
قریش نے جب دیکھا کہ اِسلام دن بدن وسیع ہوتا جاتا ہے اور ہم اپنی کوششوں میں نا کام ثابت ہو رہے ہیں، تو سب نے متّفق ہوکر ایک معاہدہ لکھا، کہ کوئی شخص بنی ہاشم کے ساتھ خرید و فروخت نہ کرے، اور نہ ہی ان سے میل جول رکھے، چنانچہ حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ مجبور ہوکر تمام خاندانِ ہاشم کے ساتھ شعبِ [۱] [۱۔ یہ پہاڑ کا ایک درہ تھا جو خاندانِ بنی ہاشم کا موروثی تھا۔ ۱۲ شرافت] ابو طالب میں پناہ گزین ہوئے، تین (۳) سال تک بنو ہاشم نے اِس حصار میں نہایت تنگی سے بسر کیے، آخر دشمنوں کو ہی رحم آیا اور انہوں نے اُس معاہدہ کو توڑا۔ (سیرۃ النبی)
عام الحُزن
۱۰؍ نبوی میں حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ نے دنیا سے انتقال کیا، اور اُن سے چند ہی روز بعد رمضان ۱۰؍ نبوی میں حضرت خدیجۃ الکبرٰے رضی اللہ عنہا نے بھی وفات پائی، اب آپ کے دونو مددگار و غمگسار اُٹھ گئے، یہی اسلام کا سخت ترین زمانہ تھا خود حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام اِس سال کو عام الحزن (غم کا سال) فرمایا کرتے تھے۔
معراج
مختصر کیفیت اِس کی یہ ہے کہ ستائیسویں (۲۷) رجب ۱۲؍ نبوی کو رات کے وقت بامرِ الٰہی حضرت جبرائیل علیہ السّلام آئے اور آپ کا شقِّ صدر کر کے آپ کے دِل کو آبِ زم زم سے دھو کر حِکمت و ایمان سے پُر کیا تاکہ مشاہدہ ملکوت اور لقائے الوہیت پر قوی ہوجائے اور کمال صفا و طہارت کے ساتھ عالمِ ملکوت کو تشریف لے جاویں، پھر آپ کو بُراق پر سوار کر کے مسجد اقصےٰ لے گئے، وہاں آپ نے امام ہوکر انبیاء علیہم السّلام اور ملائکہ مقربین کے ساتھ نماز ادا کی، پھر بُراق پر سوار ہوکر عالمِ بالا کو بجسدہ العنصری تشریف لے گئے، اور خدا وند تعالیٰ کے دیدار سے مشرّف ہوئے فاوحٰی الٰی عبدہٖ ما اوحٰی۔ (النجم۔ ع ۱۰)
فرضیتِ نماز
نمازِ پنجگانہ اسی شبِ معراج ۱۲ نبوی کو فرض ہوئی۔
ہجرت
قریش نے جب دیکھا کہ مسلمان طاقت پکڑتے جاتے ہیں تو دار النّدوہ میں بیٹھ کر آپ کے قتل کا مشورہ کیا، جب رائے پاس ہوئی تو آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بستر پر حضرت علی المرتضیٰ علیہ السّلام کو اپنی چادر اوڑھ کر سُلا دیا، اور فرمایا کہ آج رات مجھے ہجرت کا حکم ہوچکا ہے، میں مدینہ جاؤں گا، چنانچہ چندے رات گذر گئی تو محاصرین بے خبر ہوگئے، آپ وہاں سے نکلے، اور حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر جبلِ ثور کی غار میں جا کر پوشیدہ ہوئے۔ (سیرۃ النبی)
تاریخ ہجرت
اُس دن پنجشنبہ ستائیسویں (۲۷) صفر ۱۳؍ نبوی مطابق بارہ (۱۲) ستمبر ۶۲۲ء تھا، حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا کھانا پکا کر وہاں پہنچا آتیں، اسی طرح تین (۳) دن غار میں گذرے، چوتھے دن بروز دو شنبہ یکم ربیع الاوّل ۱۳ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مطابق سولہ (۱۶) ستمبر ۶۲۲ء کو غار سے روانہ ہوئے، اور منازلِ سفر خرّار، ثنیۃ المرۃ لقف، مدلجہ، مرحج، حدایٔد، اذاخر، رابغ، ذاسلم، عثانیہ، فاختہ، عرج جدوات، رکوبۃ، عقیق، جثجاثہ، طے کرتے ہوئے بروزِ دو شنبہ ہشتم (۸) ربیع الاوّل کو مقامِ قبا میں پہنچے۔ (سیرۃ النبی)
سنہ ہجری اسی سال کے غزوہ محرم روز جمعہ سے شروع ہوتا ہے جو مطابق ہے انیسویں (۱۹) جولائی ۶۲۲ء کے۔
آپ چودہ (۱۴) روز تک قباء میں رہ کر مدینہ طیبہ میں رونق افروز ہوئے۔ اہلِ مدینہ نے آپ کا شاندار استقبال کیا، پردہ نشین خاتونیں چھتوں پر چڑھ آئیں اور گانے لگیں۔
طلع البدر علینا |
|
من ثنیّات الوداعٖ |
معصوم لڑکیاں دَف بجا بجا کر گاتی تھیں۔
نحن جوار من بنی النّجّار |
|
یا حبّذا محمدًا من جار |
آپ نے مدینہ شریف وارد ہوکر حضرت ابو ایّوب خالد انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر مقام کیا۔ (سیرۃ النبی)
۱ھ
سال اوّل ہجری کے وقایٔع سے پہلا واقعہ تاسیسِ مسجد قبا رہے جو عین بعد از قدوم شریف عمل میں آئی، جس میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بدستِ خاص اینٹیں ڈھوئیں اور پتھر رکھے، یہ پہلی مسجد ہے جو اسلام میں بنا ہوئی، آپ تا مدّتِ اقامت ہر شنبہ کو وہاں جاتے، اور اس میں دوگانہ ادا فرماتے تھے۔
اِسی سال میں مسجد نبوی کی تعمیر، اور ازواج مطہرات کے حجروں کی تعمیر، اور اذان کی ابتدا، اور مہاجرین و انصار میں مواخاۃ مقرّر ہوئی۔ اب تک نمازوں میں صرف دو ۰۲) رکعتیں تھیں، اب ظہر و عصر و عشاء میں چار (۴) ہوگئیں، لیکن سفر کے لیے پھر بھی وہی دو (۲) رکعتیں قایم رہیں۔
۲ھ
اِس سال میں بروزِ دو شنبہ پندرھویں (۱۵) رجب آپ بنی سلمہ کی مسجد میں ظہر کی نماز بیت المقدّس کی طرف منہ کر کے پڑھ رہے تھے کہ حکم ہوا فولّ وجھک شطر المسجد الحرام نماز میں ہی آپ نے خانہ کعبہ کی طرف منہ پھیر لیا، وہ مسجد ذو القبلتین مشہور ہوئی۔ (تفسیر حسینی)
اِسی سال آپ ماذون بامرِ جہاد ہوئے، اِسی سال غزوۂ بدر، غزوہ بنی قینُقاع، غزوۂ سویق پیش آیا، اسی سال رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے، اسی سال صدقہ فطر کا حکم جاری ہوا، اور نمازِ عید جماعت سے پڑھی گئی۔
۳ھ
اِس سال میں غزوۂ اُحد پیش آیا جس میں حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے، وراثت کا قانون بھی اِسی سال جاری ہَوا۔
۴ھ
اِس سال میں یہود بنی نُضَیْر کو بسبب عہد شکنی کے مدینہ طیبہ سے جلا وطن کیا گیا۔ اسی سال میں سریہ ابن سلمہ، سریہ ابی انیس، سریہ بیر معونہ سریہ رجیع پیش آئے، اسی سال شراب کی حرمت نازل ہوئی۔ (سیرۃ النبی)
۵ھ
اِس سال ماہِ شعبان میں غزوہ مریسیع پیش آیا، اور ذی قعدہ میں غزوۂ احزاب (خندق) واقعہ ہوا، اسی سال یہودِ بنی قریظہ کا خاتمہ ہوا، اِسی سال واقعۂ افک وقوع میں آیا، اِسی سال عورتوں کے لیے پردہ کا حکم نازل ہوا، اِسی سال زنا اور قذف کی حد جاری ہوئی، طلاق ظِہار کا غیر مؤثر ہونا اور اس کے لیے کفّار بھی اِسی سال مقرّر ہوا، پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمّم کا حکم اور نمازِ خوف کا حکم بھی اِسی سال نازل ہوا۔ (سیرۃ النبی)
۶ھ
اِس سال ذیقعدہ کو واقعہ حُدیبیہ پیش آیا، کفّارِ مکہ نے آپ کے ساتھ صُلح کرلی، اِسی واقعہ میں بیعتِ رضوان بھی ہوئی، چودہ (۱۴) سو صحابۂ مخلصین نے آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت کی اور مصدوق رضائے الٰہی ہوئے اِسی سال میں حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ فاتحِ مصر اسلام لائے۔
۷ھ
اِس سال غزوۂ خبیر پیش آیا، اِسی سال میں پنجہ دار پرند، درندہ جانور گدھا، خچر، متعہ حرام ہوئے، اِسی سال صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے معہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کعبہ شریف کا عمرہ ادا کیا۔
۸ھ
اِس سال جمادی الاولٰے میں غزوۂ موتہ پیش آیا، جس میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور حضرت جعفر طیّار رضی اللہ عنہ شہید ہوئے، اِسی سال بیسویں (۲۰) رمضان کو مطابق جنوری ۶۳۰ء میں مکہ معظمہ فتح ہوا، رؤساے قریش ابو سفیان بن حرب اور عکرمہ بن ابی جہل وغیرہ اسلام لائے، کعبہ مکرمہ کو بتوں کے وجودسے پاک کیا گیا، فتح مکہ کے بعد ماہِ شوّال میں غزوۂ حنین و اوطاس و طایٔف پیش آئے۔
۹ھ
اِس سال میں واقعہ ایلاء و تخییر وقوع میں آیا، اِسی سال رجب کو مطابق نومبر ۶۳۰ء کو غزوۂ تبوک پیش آیا، اِسی سال زکوٰۃ کا حکم نازل ہوا، اِسی سال غیر مسلموں سے جریہ کا حکم صادر ہوا، اِسی سال سُود کی حرمت نازل ہوئی، اِسی سال نجاشی اصحمہ شاہِ حبش نے وفات پائی، اور آپ نے اُس پر غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی۔
۱۰ھ
آپ نے صرف تین (۳) حج اور چار (۴) عمرے ادا فرمائے ہیں، جس میں بعد فرض ہونے حج کے صرف ایک حج جس کو حجۃ الوداع کہتے ہیں معہ ایک عمرہ کے بہ نیّت قِران ادا فرمایا، جو اِسی سال ذی الحجہ میں وقوع ہَوا، حج سے فارغ ہوکر آپ اہلِ مکہ اور دیگر اطراف و جوانب کے مسلمانوں سے رخصت بھی ہوئے اسی روز آیٔت شریف نازل ہوئی۔ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتے ورضیت لکم الاسلام دینًا (المائدہ۔ ع ۱) اِس کے بعد آپ اِکاسی (۸۱) روز دنیا میں رہے۔
۱۱ھ
اِس سال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہوا۔ جس کا واقعہ آیٔندہ درج ہوگا۔
اخلاق و عادات
اخلاق سیرتِ باطن کو کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ حضور کو صورتِ ظاہر میں بے مثل و یکتا پیدا کیا تھا، ویسا ہی سیرت باطن میں بھی آپ بے مثل و لا جواب تھے۔ یہاں تک کہ خود خلّاقِ عالم آپ کے خُلقِ اعظم کو عظیم فرماتا ہے انّک لعلٰی خُلقٍ عظیم (ن۔ ع ۱) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا ہے انّما بعثت لا تمّم مکارم الا خلاق حضرت عایشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حضور کے خلق کی نسبت پوچھا گیا تو اُنہوں نے فرمایا کان خلقہ القراٰن یعنی جو کچھ قرآن مجید میں مکارم اخلاق اور محاسنِ افعال سے مذکور ہیں وہ سب حضور کی ذاتِ مجموعہ صفات میں جمع تھے، یا یہ کہ جیسے قرآنِ کریم کے معانی بیحد ہیں ویسے ہی حضور کے اخلاقِ حمیدہ اور اوصافِ پسندیدہ غیر متناہی تھے۔
جاننا چاہیے کہ اصل و منشاء اخلاق کا عقل ہے، پس اللہ تعالیٰ نے حضور کو اَیسی عقل دی تھی کہ سوا آپ کے اور کسی انسان میں پائی نہیں جاتی، لکھا ہے کہ ابتدائے آفرنیشِ عالم سے اُس کی انتہا تک تمام انسانوں کو جو عقل ملی ہے وہ حضور کی عقل کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک ذرّہ تمام دنیا کے ریگستان سے، اور بعضے علماء قایٔل ہیں کہ عقل کے سو (۱۰۰) جزووں سے ننانوے (۹۹) جزو آپ کو اور صرف ایک جزو سارے جہان کو ملا ہے۔
آپ اکثر متفکر رہتے، ہنستے بہت کم تھے، زیادہ ہنسنا آپ کا مُسکرانا تھا، رونا آپ کا آواز سے نہ تھا بلکہ صرف آنسو بہتے تھے، قرآن مجید کی بہت تعظیم کرتے، اس کے پڑھنے یا سننے سے رویا کرتے، ہمیشہ با وضو رہتے، مسواک کو دوست رکھتے، دوشنبہ اور پنجشنبہ کو برابر روزہ رکھتے، ہر مہینے میں تین روزے اور روزہ عاشورہ، اور روزہ جمعہ بھی رکھتے۔
حضور خوش خُلق، نیک خو، نرم طبیعت تھے، آپ کا غصہ اور خوشنودی بالکل وابستہ حُکم خدا تھی، جو شخص حاجت لاتا اُس کو پورا فرماتے، تالیفِ قلوب ایسی تھی کہ کسی کو حضور سے وحشت نہ ہوتی تھی، اپنے اصحاب کی نگرانی اور دلجوئی ہمیشہ ملحوظِ خاطر تھی، صحابہ کے ساتھ نہایت احترام سے پیش آتے، اور اُن کا اکرام فرماتے، اگر ان کی مجلسوں میں جاتے تو پاؤں نہ پھیلاتے، اگر جگہ تنگ ہوتی تو خود سمٹ کر جگہ فراخ کر دیتے، اور ہمنشین کے زانو سے اپنا زانو آگے نہ بڑھاتے، جب حضور کسی کے ساتھ بیٹھتے تو جب تک وہ نہ اُٹھتا حضور بھی نہ اُٹھتے، آپ کی مجلس حیا، علم، حلم، خیر، صبر، امانت کی مجلس تھی، آپ کی مجلس میں متقی اور بوڑھوں کی توقیر کی جاتی، چھوٹوں پر رحم ہوتا تھا، حاجت مندوں کی خاطر اور غریبوں و مسافروں کی حفاظت ہوتی تھی، سلام میں سبقت کرتے، فقیر، غنی، شریف، رذیل، بندہ آزاد، سب کی دعوت بلا عذر قبول کر لیتے، کسی کو حقیر نہیں سمجھتے تھے۔ مہمانوں اور ہمسایوں کو عزیز رکھتے۔ جو شخص حضور کو ہدیہ دیتا بلا تاتل لے لیتے، اور اُس کے مقابلہ میں مثل اُس کے یا اُس سے بہتر اُس کو دیتے صدقہ حضور نے کبھی نہیں لیا۔
خِرْقہَ فَقْر
کتاب راحۃ القلوب و سیر الاولیا و دیگر کتب اہلِ سلوک میں لکھا ہے کہ خرقہ درویشی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شبِ معراج میں حضرت ربّ العزت سے مرحمت ہوا تھا، اور وہ خرقہ گلیم سیاہ تھا۔ اسی واسطے حضور نے فقر کو اپنا افتخار قرار دیا ہے کیونکہ وہ عطیہ الٰہی تھا۔
عبادت و ریاضت
جب حضور نماز پڑھتے خصوصاً نمازِ شب میں کثرتِ خشوع و خضوع سے اس قدر روتے کہ داڑھی مبارک آنسوؤں سے تَر ہوجاتی، اور آوازِ بکامثل جوشِ دَیگ اور گا ہے مثل آوازِ آسیا کے شکم مبارک سے آتی تھی، اور اس کثرت سے نماز پڑھتے اور تہجد میں قیام فرماتے کہ اکثر پائے مبارک ورم کر جاتے تھے، لوگ کہتے کہ حضور کی اگلی پچھلی خطائیں تو اللہ تعالیٰ نے معاف کردی ہیں، حضور اس قدر محنتِ شاقہ کیوں فرماتے ہیں؟ فرمایا افلا اکون عبدًا شکوراً۔
حُلیہ اقدس
آپ میانہ قد اور موزون اندام تھے، رنگ سفید سُرخ تھا، پیشانی چوڑی اور ابر و پیوستہ تھے، بینی مبارک درازی مایٔل تھی، چہرہ ہلکا یعنی پُرگوشت نہ تھا، دہانہ کشادہ تھا، دندانِ مبارک بہت پیوستہ نہ تھے، گردن اونچی، سر بڑا اور سینہ کشادہ فراخ تھا، سر کے بال نہ بہت پیچدہ نہ بالکل سیدھے تھے، کبھی کانوں تک اور اکثر شانوں تک لٹکے رہتے تھے، فتح مکہ میں لوگوں نے دیکھا تو شانوں پر چار (۴) گیسو پڑے تھے، ریش مبارک گھنی اور بقدر ایک قبضہ کے تھی چہرہ کھڑ کھڑا تھا، آنکھیں سیاہ و سُرمگین اور پلکیں بڑی بڑی تھیں، شانے پر گوشت اور مونڈھوں کی ہڈیاں بڑی تھیں سینہ مبارک میں ناف تک بالوں کی ہلکی تحریر تھی ہتھیلیاں پُر گوشت اور چوڑی، کلائیاں لمبی، اور پاؤں کی ایڑیاں نازک و ہلکی تھیں، پاؤں کے تلوے بیچ سے ذرا خالی تھے، نیچے سے پانی نکل جاتا تھا، دو شانوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر خاتمِ نبوّت تھی جو بظاہر ابھرا ہَوا گوشت سرخ رنگ معلوم ہوتا تھا، آپ کے پسینہ میں خوشبو تھی، چہرہ مبارک پر پسینہ کے قطرے موتی کی طرح ڈھلکتے تھے، جسم مبارک کی جلد نہایت نرم تھی، بالوں میں اکثر زیتون کا تیل لگاتے اور بیچ میں مانگ نکالتے تھے، رفتار بہت تیز تھی، چلتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ ڈھلوان زمین پر اُتر رہے ہیں۔
لباس
آپ کا عام لباس چادر، قمیص، اور تہمد تھا، پاجامہ کبھی استعمال نہیں کیا، عمامہ اکثر سیاہ رنگ کا ہوتا تھا جس کے نیچے ٹوپی ہوتی، شملہ کبھی دوش مبارک پر کبھی دونو شانوں کے بیچ میں پڑا رہتا تھا، کبھی تحت الحنک کے طور پر لپیٹ لیتے تھے، یمن کی دھاری دار چادریں جن کو حبرہ کہتے ہیں آپ کو بہت پسند تھیں، شامی عباتنگ آستین والی اور نوشیروانی قبا جس کی جیب اور آستینوں پر دیبا کی سنجاف تھی استعمال کی ہے، حلۂ حمرا بھی زیبِ تن فرمایا، مختلف روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے سیاہ، سُرخ، سبز، زعفرانی، زرد، ہر رنگ کے کپڑے پہنے ہیں، لیکن سفید رنگ بہت مرغوب تھا پاؤں میں چرمی موزے سیاہ رنگ استعمال فرمائے ہیں، نعلین مبارک چَپل تسموں والی ہوتی تھی۔
آپ کے فضائل شریف
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب کا شمار کرنا طاقت انسانی سے بعید بلکہ ابعد ہے، آپ کی ذاتِ اقدس باعثِ ظہورِ عالم و عالمیان ہے، آپ کے چند فضائل جو اہلِ عبادت کے طریقہ پر صاحبِ معارج النبوّۃ نے تحریر کیے ہیں لکھے جاتے ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام پر فضیلت
صاحب معارج النبوۃ نے بیس (۲۰) وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام پر آپ کی فضیلت بیان کی ہے، جن میں سے پانچ وجوہ لکھے جاتے ہیں۔
۱۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بارہ میں حق تعالیٰ نے فرمایا ونفخت فیہ من روحی (الحجر ع ۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں فرمایا وکذالک اوحینا الیک روحًا مِّن امرنا (شورٰے۔ ع ۵)
۲۔ حضرت آدم علیہ السلام کو تعلیم اسماء دی گئی وعلّم اٰدم الا سماء کلّھا (البقرۃ ع ۴) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تعلیم حقائق و دقایٔق قرآن دی گئی الرّحمٰن علّم القراٰن (الرحمٰن۔ ع ۱)
۳۔ حضرت آدم علیہ السلام کو جنّت میں جگہ دی گئی یا اٰدم اسکن انت وزوجک الجنّۃ (البقرۃ۔ ع ۴) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو مقامِ قُرب میں جگہ دی گئی دنٰی فتدلّٰی فکان قاب قوسین او ادنٰی (النجم۔ ع ۱)
۴۔ حضرت آدم علیہ السّلام سے لغزش ہوئی تو اُس کا تذکرہ کیا گیا وعصیٰ اٰدم ربّہ فغوٰی (طٰہٰ۔ ع ۷) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بغیر کسی لغزش و قصور کے مغفرت کا آوازہ اقطارِ عالم میں دیا گیا لیغفر لک اللہ ما تقدّم من ذنبک وما تا خّر (الفتح۔ ع ۱)
۵۔ حضرت آدم علیہ السلام کو لغزش کے باعث عتاب پہلے آیا اور عفو پیچھے۔ وعصیٰ اٰدم ربّہ فغوٰی ثم اجتبٰہ ربّہ فتاب علیہ وھدٰی (طٰہٰ۔ ع ۷) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عفو پہلے آیا اور نصیحت پیچھے عفا اللہ عنک لم اَذِنت لھم (توبہ۔ ع ۷)
حضرت ادریس علیہ السلام پر فضیلت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو بوجوہِ ذیل حضرت ادریس علیہ السلام پر بھی فضیلت ہے۔
۱۔ حضرت ادریس علیہ السّلام کو چوتھے آسمان پر لے جا کر وہیں رہنے دیا، ورفعناہ مکانًا علیًّا (مریم۔ ع ۴) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آسمانوں سے اوپر لے گئے قاب قوسَین او ادنٰی (النجم۔ ع ۱)
۲۔ حضرت ادریس علیہ السّلام بہشت میں پہنچے تو وہیں ٹھیر گئے ورفعناہ مکانًا علیًّا (مریم ع ۴) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بہشت میں پہنچے تو گوش چشم سے بھی نظر نہ فرمائی مازاغ البصر وما طغٰی (النجم۔ ع ۱)
حضرت نوح علیہ السلام پر فضیلت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو حضرت نوح علیہ السّلام پر بھی فضیلت حاصل ہے۔
۱۔ حضرت نوح علیہ السّلام کو طوفانِ بلا میں کشتی حامل تھی بسم اللہ مجرٖھا ومرسٰھا (ہود۔ ع ۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سفرِ معراج میں لطفِ الٰہی وفضلِ نا متناہی حامل تھا سبحٰن الّذی اسرٰی بعبدہٖ (بنی اسرائیل۔ ع ۱)
حضرت ابراہیم علیہ السلام پر فضیلت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوجوہِ ذیل حضرت ابراہیم علیہ السّلام پر بھی فضیلت حاصل ہے۔
۱۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو خلّت عطا ہوئی۔ واتّخذ اللہ ابرٰھیم خلیلاً (النّسا۔ ع ۱۸) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو محبوبیّت عطا ہوئی قل ان کنتم تحبّون اللہ فاتّبعونی یحببکم اللہ (آلِ عمران۔ ع ۴)
نکتہ یہ راز قابلِ قدر ہے کہ وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات کو خُلّت عطا ہوئی، اور یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے امتیوں کو محبوبیت ملی جو آپ کے اتباع سے محبوب بنے۔
۲۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو کچھ کیا وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا یا ابرٰھیم قد صدّقت الرّءیا (الصّافات۔ ع ۳) اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے کیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی رضا کے لیے کیا۔ دنیا میں فلنولّینّک قبلۃً ترضٰھا (البقرۃ۔ ع ۱۷) اور عقبےٰ میں ولسوف یعطیک ربّک فترضٰی (الضّحٰے)
۳۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی نظر ستارہ، چاند، آفتاب پر تھی فلما جَنَّ علیہ الّیل راٰکَوکبًا (الانعام۔ ع ۹) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظرِ مبارک اُن سے بد رجہا ارفع و بلند تھی وھو بالافق الاعلٰے (النجم۔ ع ۱)
۴۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام واسطہ سے وست کو پہنچے وکذٰلک نری ابرٰھیم ملکوت السّمٰوٰت والارض (الانعام۔ ع ۹) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم بیواسطہ دوست کو ملے دنا فتدلّٰی فکان قاب قوسین او ادنٰی (النجم۔ ع ۱)
۵۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے دعا مانگی ولا تخزنی یومَ یبعثون (الشعرا۔ ع ۵) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا یوم لا یُخزی اللہ النّبیّ (التحریم۔ ع ۲)
۶۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام جب درماندہ ہوئے تو کہا حسبی اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب درماندہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا حَسْبُکَ اللہ (الانفال۔ ع ۸)
۷۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ کے پاس جا رہا ہوں اِنّیْ ذاھبٌ الٰی ربّی (الصّافات۔ ع ۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اِن کو لے جا رہا ہوں سبحٰن الّذی اسرٰی بعبدہٖ (بنی اسرائیل۔ ع ۱)
۸۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے لیے ہدایت طلب کی سیھدین (الصّافات۔ ع ۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بغیر طلب کے ہدایت دی گئی ویھدیک صراطًا مستقیمًا (الفتح۔ ع ۱)
۹۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے دعا مانگی کہ اے خداوند! لوگوں کو کہدے کہ مجھے نیکی سے یاد کریں واجعل لّی لسان صدقٍ فی الاٰخرین (الشعرا۔ ع ۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خود اللہ تعالیٰ نے نیکی سے یاد فرمایا ورفعنا لک ذکرک (الانشراح)
۱۰۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام منادی حجِ کعبہ و بیابان تھے واذّن فی النّاس بالحجّ (الحج۔ ع ۴) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منادی ایمان و احسان و عرفان تھے ربّنا انّنا سمعنا منادیًایّنادی للایمان (آل عمران۔ ع ۳۰)
۱۱۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایمان کے متعلق سوال کیا گیا اولم تؤمنً (البقرۃ۔ع ۳۵) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایمان کی خود شہادت دی گئی اٰمن الرّسول بما انزل الیہ من رّبّہ والمؤمنون (البقرۃ۔ ع۔ ۴)
حضرت یوسف علیہ السّلام پر فضیلت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوجوہِ ذیل حضرت یوسف علیہ السّلام پر بھی فضیلت حاصل ہے۔
۱۔ حضرت یوسف علیہ السّلام کو تاویل احادیث و تعبیر خواب کا علم دیا گیا وکذٰلک یجتبیک ربّک ویعلّمک من نأویل الاحادیث (یوسف۔ ع ۱) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کو تحصیلِ مواریث و تفسیر کتاب کا علم دیا گیا۔ ثمّ اورثنا الکتٰب الّذین اصطفینا من عبادنا (فاطر۔ ع ۴)
۲۔ حضرت یوسف علیہ السّلام کو تختِ مصر پر بٹھایا گیا وکذٰلک مکَنّا لیوسف فی الارض (یوسف۔ ع ۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کو تختِ جنّت پر بٹھایا جائے گا واذا رایت ثَمّ رایت نعیمًا وّ ملکًا کبیرًا (الدّھر ع ۱)
۳۔ حضرت یوسف علیہ السّلام کو ایسا جمال دیا گیا کہ مصر کی عورتوں نے غلبۂ شوق سے اپنے ہاتھ کاٹ لیے، وقطّعن ایدیھن وقلن حاش لِلہ ما ھٰذا بشرًا (یوسف۔ ع ۴) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا کمال دیا گیا کہ ہزاروں کفار نے غلبۂ اشتیاق سے اپنے زنّار کاٹ دے ورایت النّاس یدخلون فی دین اللہ افواجًا (النّصر)
۴۔ حضرت یوسف علیہ السّلام کو زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں اجعلنے علٰی خزائن الارض (یوسف۔ ع ۷) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت کے خزانوں کی چابیاں عنایت ہوئیں وما ارسلنٰک الّا رحمۃً لّلعٰلمین۔ (الانبیأ ع ۷)
۵۔ حضرت یوسف علیہ السّلام کے عہد مملکت میں ایک سنہری پیمانہ ابن یامین علیہ السلام کے متاع میں رکھا گیا قالو انفقد صواع الملک (یوسف۔ ع ۹) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانۂ رسالت میں نورِ یقین مومنوں کے سینوں میں رکھا گیا افمن شرح اللہ صدرہٗ للاسلام فھو علٰی نور من رّبّہٖ (الزّمر۔ ع ۳)
حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر فضیلت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوجوہِ ذیل حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر بھی فضیلت حاصل ہے۔
۱۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو کلیم بنایا گیا وکلّم اللہ موسیٰ تکلیماً (النساء ع ۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حرم راز میں ندیم بنایا گیا فاوحٰی الٰی عبدہٖ ما اوحٰی (النجم۔ ع ۱)
۲۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کا بقا حاصل کرنے کے لیے خود گئے ولمّا جاء موسیٰ لمیقاتنا (الاعراف۔ ع ۱۷) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خود حق تعالیٰ لے گیا سبحٰن الّذی اسرٰے بعبدہٖ لیلًا (بنی اسرائیل۔ ع ۱)
۳۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو کوہٖ طور پر لے گئے اور صرف کلام کی وکلّم اللہ موسیٰ تکلیمًا (النساء۔ ع ۲۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو کُرسی نور پر لے گئے اور دیدار سے مشرّف کیا دنا فتدلّٰی فکان قاب قوسین او ادنٰی (النجم۔ ع ۱)
۴۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے قُرب کا تذکرہ کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے اُن کی ستایش کی ہے وقرّبْنٰہ نجیّا (مریم۔ ع ۴) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے قُرب کا تذکرہ کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے اپنی ستایش کی ہے سبحٰن الّذی اسٰرے بعبدہٖ لیلًا (بنی اسرائیل۔ ع ۱)
اِس سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام اپنی صفات میں قائم تھے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ذاتِ احدیّت میں فناے تام حاصل تھا۔
۵۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو علامت کے نام سے یاد کیا گیا جاء موسیٰ (الاعراف۔ ع ۱۷) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کرامت کے نام سے یاد کیا گیا بعبدہٖ لیلًا (بنی اسرائیل۔ ع ۱)
۶۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے دیدار الٰہی طلب کیا تو حکم ہوا لن ترٰنی (الاعراف۔ ع ۱۷) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بغیر طلب کے دیدار دیا گیا الم ترالیٰ ربّک (الفرقان۔ ع ۵)
۷۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی قوم کے واسطے منّ اور سلوٰی اُتارا گیا وانزلنا علیکم المنّ والسّلوٰے (البقرۃ۔ ع ۶) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امّت کے واسطے ایمان و سکینہ اتارا گیا ھو الّذی انزل السّکینۃ فی قلوب المؤمنین (الفتح۔ ع ۱)
حضرت داؤد علیہ السلام پر فضیلت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت داؤد علیہ السّلام بھی فضیلت حاصل ہے۔
۱۔ حضرت داؤد علیہ السّلام کے ہاتھ میں لوہا نرم کیا گیا والنّالہ الحدید (السّبا۔ ع ۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ہاتھو میں دل نرم کیے گئے جن کی سختی پتھروں سے بڑھ کر ہے فھی کالحجارۃ اواشدّ قسوۃً (البقرۃ ع ۹)
حضرت سلیمان علیہ السلام پر فضیلت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوجوہٖ ذیل حضرت سلیمان علیہ السّلام پر بھی فضیلت ثابت ہے۔
۱۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا مسخر کی گئی ولسلیمٰن الرّیح غدوّھا شھروّر واحھا شھر (السّبا۔ ع ۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے واسطے ملائکہ مسخر کیے گئے یمدد کم ربٓکم بخمسۃ اٰلافٍ مّن الملٰئکۃ مسوّمین (آل عمران ع ۱۳)
۲۔ حضرت سلیمان علیہ السّلام کا تخت ہوا کے ذریعے ایک دن میں دو (۲) مہینے کا سفر طے کرتا تھا غدوّھا شھر وّر واحھا شھر (السّباع۔ ع ۲) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا تخت ملائکہ کے ذریعے لمحۃ البصر میں عرش پر چلا گیا فکان قاب قوسین او ادنٰی (النجم۔ ع ۱)
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر فضیلت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوجوہِ ذیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی فضیلت حاصل ہے۔
۱۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانِ چہارم (۴) پر لے گئے بل رّفعہ اللہ الیہ (النساء۔ ع ۲۲) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فوق العرش مقامِ قُرب پر پہنچایا گیا دنا فتدلٰی فکان قاب قوسین او ادنٰی (النجم۔ ع ۱)
۲۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کیا گیا ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل اٰدم (آلِ عمران۔ ع ۶) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا نور مبارک بلا واسطہ نورِ احدیّت سے ظاہر کیا گیا قد جاء کم مّن اللہ نور (المائدہ۔ ع ۳)
۳۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام مردہ تنوں کو زندہ کرتے تھے واحی الموتیٰ باذن اللہ (آل عمران۔ ع ۵) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم مردہ دلوں کو زندہ فرماتے تھے اومن کان میتًا فاحیینٰہ (الانعام۔ ع ۱۵)
۴۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے مائدہ نازل ہوا جس میں گونا گون طعام تھے ربّنا انزل علینا مائدۃ من السّماء (المائدہ۔ ع ۱۵) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مائدہ قرآن نازل کیا گیا جس میں بے شمار علوم ہیں ولا رطبٍ ولَا یابسٍ الّا فی کتٰبٍ مٓبین (الانعام۔ ع ۷)
۵۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا مائدہ آخر قوم کے لیے عذاب کا باعث ہوا فانّی اعذّبہ عذابًا لّا اعذّبہ احدًا من العٰلمین (المائدہ۔ ع ۱۵)اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا مائدہ قوم کے واسطے رحمت کا باعث ہَوا وننزّل من القراٰن ما ھو شفاء ورحمۃ للمؤمنین (بنی اسرائیل۔ ع ۹)
آپ کے خصائٔص شریف
حافظ ابو سعید نیشا پوری رحمۃ اللہ علیہ نے شرف المصطفٰے میں آپ کے خصائص کے تعداد ساٹھ (۶۰) لکھی ہے، اور حافظ جلال الدّین سیّوطی رحمۃ اللہ علیہ نے خصائص کبرٰے میں سینکڑوں کی تعداد میں خصائص بیان کیے ہیں۔ (سیرۃ النبی جلد سوم)
آپ کے چند خصائص کتاب معارج النبوۃ سے نقل کیے جاتے ہیں،
۱۔ آپ کی روح پر فتوح سب سے پہلے پیدا ہوئی، اور وجود مبارک سب پیغمبروں سے بعد مبعوث ہوا چنانچہ فرمایا ہے نحن الاٰخرون السّابقون۔
۲۔ حق تعالیٰ نے تمام انبیائے علیہم السّلام سے عہد و میثاق لیا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ پائیں تو ان کی متابعت اور اعانت کریں واذ اخذ اللہ میثاق النّبیّین لما اٰتیتکم مّن کتٰبِ وّحکمۃٍ ثُمّ جاء کم رسول مّصدّق لّما معکم لتؤمننّ بہٖ ولتنصرنّہ (آل عمران ع ۹) اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لوکان موسیٰ حیًّا لما وسعہٗ الّا اتّباعی۔
۳۔ حق تعالیٰ نے تمام پیغمبروں کو اُن کے ناموں سے یاد کیا ہے مثلاً یٰادم اسکن (البقرۃ۔ ع ۴) یٰنوح اھبط (ہود۔ ع ۴) یٰاِبرٰھیم اعرض (ہود۔ ع ۷) یٰموسیٰ انّی اصطفیتک (الاعراف۔ ع ۱۷) یٰداوٗد انّا جعلنٰک (ص۔ ع ۲) یٰزکریّا اِنَّا نبشّرک (مریم۔ ع ۱) یٰحیٰی خذ الکتٰب (مریم۔ ع ۱) یٰعیسی ابن مریم اذکر نعمتے (المائدہ۔ ع ۱۵) لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو لقب و تعریف سے یاد فرمایا یٰا یّھا النّبیّ جاھد الکفّار (التحریم۔ ع ۲) یٰایّھا الرّسول بلّغ ما انزل الیک (المائدہ۔ ع ۱۰) اور اگر کہیں حضور کو نام سے یاد کیا ہے تو ساتھ ہی صفتِ رسالت کو ضم کیا ہے۔ مثلاً محمّد رّسول اللہ (الفتح۔ ع ۴) وما محمدّ الّا رسولٌ (آل عمران۔ ع ۱۵)
منقول ہے کہ قیامت کے دن تمام امتوں کو ان کے پیغمبروں کے ناموں سے یاد کریں گے۔ مثلاً یا امّت نوح۔ یا امّت ابرٰھیم۔ لیکن امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یا اولیائی کے خطاب سے یاد فرما دیں گے۔
۴۔ پہلی امّتوں کو جائز تھا کہ اپنے پیغمبروں کو نام لے کر بُلاویں مثلاً یا موسیٰ یا نوح وغیرہ۔ لیکن اس اُمت کو جائز نہیں کہ آپ کو نام لے کر بُلاویں، کیونکہ اوائل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپ کو یا محمّد۔ یا ابو القاسم کہ کر بُلاتے تھے تو حُکم نازل ہوا لا تجعلوا دعاء الرّسول بینکم کدعاء بعضکم بعضًا (النّور۔ ع ۹)
۵۔ آپ کو جوامع الکلم عظا کیا گیا، فرماتے ہیں اوتیت جوامع الکلم یعنی کلام قلیل اللّفظ کثیر المعنےٰ۔
۶۔ آپ کو نصرت با رعب عطا کی گئی کہ ایک مہینے کے راستے سے دشمن آپ کے رعب سے ڈر کے مارے کانپتے تھے۔ فرمایا ہے نصرت بالرّعب مسیرۃ شھر اور حق تعالیٰ کا ارشاد ہے وقذف فی قلوبہم الرّعب (الحشر۔ ع ۱)
۷۔ مالِ غنیمت آپ پر حلال کیا گیا، فرمایا ہے احلّت لی الغنائم پہلے انبیاء علیہ السلام کے وقت مالِ غنیمت کو آسمان سے آگ آکر جلا جاتی تھی۔
۸۔ آپ کے لیے تمام زمین کو مسجد بنایا گیا جہاں چاہیں عبادت کریں فاینما تولّوا فثم وجہ اللہ (البقرۃ۔ ع ۱۴) فرمایا ہے جعلت لی الارض وترابھا طھورًا۔ اور آپ کو تیمّم کی رخصت دی گئی۔
۹۔ آپ کو تمام مخلوق جنّ و انس کی طرف مبعوث کیا گیا تبٰرک الّذی نزّل الفرقان علٰی عبدہٖ لیکون للعٰلمین نذیرًا۔ (الفرقان۔ ع ۱) آپ نے بصیغہٗ تعمیم فرمایا ہے بعثت الی الخلق کافّۃً۔
۱۰۔ آپ کے وجود مبارک پر سلسلۂ نبوّت و رسالت ختم کیا گیا ولکن رّسول اللہ وخاتم النّبیّین۔ (الاحزاب۔ ع ۵)
۱۱۔ آپ کو تمام عالمیان جنّ، انس، ملائکہ، شیاطین، داب وغیرہ کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا وما ار سلنٰک الّا رحمۃ لّلعٰلمین (الانبیاء۔ ع ۷)
معجزات
حضرت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ذاتِ پاک سراپا اعجاز تھی، آپ سے اِس قدر معجزات صادِر ہوئے ہیں جن کا احصار کسی طرح ممکن نہیں، چند ایک معجزوں کا بیان کیا جاتا ہے۔
معجزہ قرآن مجید
یہ قرآن مجید آپ کے اعظم و اعلٰے و اشہر و اظہر معجزات سے ہے جس پر اسلام کی بنیاد قائم ہے۔
قاضی عیاض رضی اللہ عنہ شفاء میں لکھتے ہیں کہ با عتبار بلاغت کے قرآن مجید میں سات ہزار سے اوپر معجزات ہیں، اور بڑا معجزہ اِس کا یہ ہے کہ مشتمل ہے اوپر اخبار آیندہ یعنی پیشینگویوں اور اوپر قصص انبیائے پیشیں، اور امم سابقین کے، اور لحوقِ خوف و رعب قلبِ سامعین، و حصولِ ذوق و شوقِ قاری وسامِع اور اجتماعِ حقائق و معارف و دلائل و براہین و احکام و شرائع و خیرات و حسنات کے، اور کُل باتیں جو ازل سے ابد تک ہوئیں یا ہوں گی سب اِس میں موجود ہیں فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ نے ولا رطبٍ ولا یا بسٍ الّا فی کتّبٍ مّبین (الانعام۔ ع ۷) قرآن مجید خود اپنے وجوہِ اعجاز بیان کرتا ہے۔ مثلاً فصاحت و بلاغت کے متعلّق فرماتا ہے قراٰنًا عربیًّا غیرذی عِوَجٍ (الزمر۔ ع ۳) یکسانی و عدم اختلاف کے بارہ میں فرماتا ہے افلا یتدبّرون القراٰن ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافًا کثیرًا (النّساء۔ ع ۱۱) قوّتِ تاثیر کے متعلق فرماتا ہے ولقد جاءھم من الانباء ما فیہ مزدجرٌ حکمۃ بالغۃ فما تغن النّذر (القمر۔ ع ۱) تعلیم و ہدایت کے متعلق فرماتا ہے انّ ھٰذا القراٰن یھدی للّتی ھی اقوم (بنی اسرائیل۔ ع ۱) لا جواب و بے مثل ہونے کے بارہ میں فرماتا ہے قل لّئن اجتمعت الانس والجنّ علٰی ان یّا توا بمثل ھٰذا القراٰن لا یأتون بمثلہ ولو کان بعضہم لبعضٍ ظہیراً (بنی اسرائیل۔ ع ۱۰) حفظ و بقا کے متعلق فرماتا ہے انّا نحن نزّلنا الذّکر وانّا لہٗ لحٰفظون (الحجر۔ ع ۱) قوّتِ دلائل کے متعلق فرماتا ہے قل فللہ الحجّۃ اٰلبالغۃ (الانعام۔ ع ۱۸)
حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن مجید کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، اور پھر اُس کے باطن کے بھی باطن ہیں یہاں تک کہ سات (۷) باطن ہیں یعنی معانی در معانی، پَس اُن میں تین (۳) معنی تک خلق کو رسائی ہے، اور چار (۴) معنی سوائے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کوئی جان نہیں سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ آج تک ہزاروں تفاسیر لکھی جا چکی ہیں مگر معانی و مطالب اُس کے ختم نہ ہوئے اور نہ ختم ہوں گے۔
عبا راتنا شتّےٰ وحسنک واحد |
|
وکلّ الٰی ذاک الجمال یشیر |
معجزہ معراج شریف
معراج کے مشاہدات میں شیون و صفات کی جلوہ انگیزی اور آیات اللہ کی نیرنگی جو کچھ آپ نے دیکھی وہ بیان سے باہر ہے، اور وہ کب تحریر میں سما سکتی ہے جبکہ دیدارِ الٰہی کا شرف بھی آپ کو حاصل ہوا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے علّمہ شدید القوٰی ذو مِرّۃ فاستوٰی وھو بالافق الا علٰے ثُمّ دنا فتدلّٰی فکان قاب قوسین او ادنٰی فاوحٰی الٰی عبدہٖ ما اوحٰی ما کذب الفؤاد ما راٰی افتمٰرونہ علٰی ما یرٰی ولقد راٰہ نزلۃً اخرٰی عند سدرۃ المنتھٰی عندھا جنّۃ المأوٰی اذیغشے السّدرۃ ما یغشٰے ما زاغ البصر و ما طغٰی لقد راٰی مِن اٰیٰت ربّہ الکبرٰی (النجم۔ ع ۱)
صحیح بخاری کتاب التوحید میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جو روایت ہے اُس کے آخر میں ہے حتی جاء سدرۃ المنتھی ودنا الجبّار ربّ العزّۃ فتدلّٰی حتّٰی کان منہ قاب قوسین او ادنٰی۔
معجزہ شقّ القمر
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اشارہ سے چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا قرآن مجید میں مذکور ہے اقتربت السّاعۃ وانشقّ القمر (القمر۔ ع ۱) شقِّ قمر کا واقعہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، مسند احمد حنبل، مسند طیالسی، مستدرک حاکم، دلائل بیہقی، دلائل ابو نعیم میں تبصریح تمام مذکور ہے صحابہ میں سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ، جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ، وغیرہ نے اس واقعہ کی روایت کی ہے۔ اِن میں سب سے صحیح اور مستند تر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو صحیح بخاری و مسلم و ترمذی وغیرہ میں مروی ہے، وہ اِس واقعہ کے وقت موقع پر موجود تھے، اور اس معجزہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں انشقّ القمر ونحن مع النّبیّ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بمنٰے فقال اشہدوا وذھبت فرقۃ نحو الجبل (بخاری و ترمذی تفسیر سورۂ القمر صحیح مسلم)
عام معجزات
آپ کا امّی ہونا یعنی ظاہری تعلیم اور نوشت و خواند کے داغ سے پاک ہونا،[۱] [۱۔ العنکبوت۔ ع ۵] اور آپ کا بغیر کسی پہرہ دار کے مکائدِ اعدا سے محفوظ رہنا،[۲] [۲۔ المائدہ۔ ع ۱۰] اور جنّات کا آپ کے پاس آکر اسلام قبول کرنا،[۳] [۳۔ الاحقاف۔ ع ۴] آپ کا شق صدر ہونا،[۴] [۴۔ صحیح مسلم باب الاسرار] آپ کا مبارک قدم ہونا،[۵] [۵۔ مستدرک جلد دوم] ستونِ حنانہ کا آپ کے فراق میں رونا،[۶] [۶۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام] تاثیر وعظ سے منبر کا ہلنا،[۷] [۷۔ صحیح مسلم باب ابتداء الخلق ۱۲ شرافت] چٹان کا پارہ پارہ ہوجانا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری (غزوۂ خندق)] درختوں اور پہاڑوں سے سلام کی آواز آنا،[۱] [۱۔ جامع ترمذی باب معجزات ۱۲] آپ کے جلال سے کوہ اُحد کا ہلنا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری مناقبِ ابی بکر ۱۲] آپ کے اشارہ سے بتوں کا گرجانا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب فتحِ مکہ ۱۲] کھانوں سے تسبیح کی آواز آنا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲] درختوں کا چلنا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم حدیث جابر الطویل ۱۲] آپ کے بلانے سے خوشہ خُرما کا چلا آنا،[۱] [۱۔ جامع ترمذی باب معجزات ۱۲] بے دودھ بکری کا شیر دار ہوجانا،[۱] [۱۔ مسند احمد جلد اوّل ۱۲] سست گھوڑے کا تیز رفتار ہوجانا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری کتاب الجہاد ۱۲] اندھیرے میں روشنی ہونا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲] جانوروں کا آپ کو سجدہ کرنا،[۱] [۱۔ مسند احمد ۱۲] بیماروں کا شفا پا جانا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری غزوۂ خیبر ۱۲] اندھے کا بینا ہوجانا،[۱] [۱۔ مسند احمد جلد چہارم ۱۲] گونگے کا بولنا،[۱] [۱۔ سنن ابن ماجہ باب النشرہ ۱۲] ایک جلے ہوئے بچے کا اچھا ہونا،[۱] [۱۔ خصائص کبرٰے جلد دوم بحوالہ تاریخ بخاری ۱۲] جنون کا دور ہونا،[۱] [۱۔ سنن ابن ماجہ باب الفزع والارق ۱۲] دعاوں کا قبول ہونا،[۱] [۱۔ مسند احمد ۱۲] تھوڑے طعام سے جماعتِ کثیر کا سیر ہوجانا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲] چھوہارے کے ڈھیر کا بڑھ جانا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲] انگلیوں سے پانی جاری ہونا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب معجزات ۱۲] اور غیبی خبروں پر اطلاع پانا،[۱] [۱۔ الجن۔ ع ۳ / التگویر ۱۲] اور ایسی پیشینگویاں کرنا جو بالکل سچی ہوئیں مثلاً آغازِ اسلام میں فتوحاتِ عظیمہ کی اطلاع دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲] قیصر و کسرٰے کی بربادی کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲] ابو صفوان کے قتل کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری کتاب المغازی ۱۲] مقتولین بدر کی نام بنام خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم غزوۂ بدر ۱۲] فاتح خیبر کی تعیین کرنا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری فتح خیبر ۱۲] حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی وفات کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم باب الفضائل ۱۲] اپنی وفات کے متعلق بہت پہلے اطلاع دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری مناقب ابی بکر ۱۲] فتحِ یمن کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم کتاب الحّج ۱۲] فتحِ شام کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم کتاب الحج ۱۲] فتحِ عراق کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم کتاب الحج ۱۲] خوز ستان اور کرمان کی فتوحات اور ترکوں سے جنگ کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲] فتحِ مصر کی بشارت دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم باب الوصیّۃباہل مصر ۱۲] غزوۂ ہند کی خبر دینا،[۱] [۱۔ سنن نسائی کتاب الجہاد ۱۲] بحر روم کی لڑایوں کی اطلاع دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب الرّؤیا فی الہنار ۱۲] فتحِ بیت المقدس کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب الجزیہ ۱۲] فتح قسطنطنیہ کی بشارت دینا،[۱] [۱۔ جامع ترمذی کتاب الفتن ۱۲] فتحِ روم کا اشارہ کرنا،[۱] [۱۔ مسند احمد ۱۲] فاتحِ عجم کا اشارہ کرنا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب الہجرۃ ۱۲] مرتدّین کی اطلاع کرنا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری حدیث حوض کوثر ۱۲] حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی وفات کی اطلاع دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم فضائل زینب ۱۲] اُمَ ورقہ کو شہادت کی خوشخبری دینا،[۱] [۱۔ سنن ابی داؤد باب الاماتہ ۱۲] بارہ (۱۲) خلیفوں کے ہونے کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم کتاب الامارۃ ۱۲] خلافتِ راشدہ کی مدت بیان کرنا،[۱] [۱۔ جامع ترمذی کتاب الفتن ۱۲] شیخین کی خلافت کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری کتاب المناقب ۱۲] مسلمانوں کو دولت کی کثرت اور فتنوں کے ظہور سے آگاہ کرنا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری کتاب الفتن ۱۲ شرافت] فتنے مشرق کی جانب سے اُٹھنے کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری کتاب الفتن ۱۲] حضرت عمر رضی اللہ عنہ و حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری مناقب ابی بکر رضی اللہ عنہ ۱۲] حضرت علی المرتضیٰ کی مشکلات اور شہادت کی خبر دینا،[۱] [۱۔ مستدرک ۱۲] جنگِ جمل کی خبر دینا،[۱] [۱۔ مسند احمد ۱۲] جنگِ صفین، کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم کتاب الفتن ۱۲] حضرت عمار کی شہادت کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم کتاب الفتن ۱۲] حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق خبر دینا کہ مسلمانوں کے دو (۲) گروہوں میں مصالحت کر وائے گا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲[۱۔ یزید کی تخت نشینی کی بلا کے اسلام پر وارد ہونے کی اطلاع دینا،[۱] [۱۔ خصائص کبرٰے جلد دوم بحوالہ مسند احمد و حاکم بیہقی ۱۲] حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دینا،[۱] [۱۔ مستدرک ۱۲] خوارج کے ہونے کی اطلاع دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲] حجاز میں ایک آگ کے ظاہر ہونے کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم کتاب الفتن ۱۲] چار (۴) دوروں کے بعد انقلاب آنے کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم باب فضل صحابہ ۱۲] جھوٹھے مدّعیانِ نبوّت کے متعلق خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم کتاب الفتن ۱۲] منکرین حدیث کے بارہ میں خبر دینا،[۱] [۱۔ سنن ابی داؤد باب لزدم السنۃ ۱۲] علاقہ نجد میں شیطان کا سینگ پیدا ہونے کی اطلاع دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری کتاب الفتن ۱۲ شرافت ۱۲] غرضیکہ آپ کے معجزات کا شار کرنا حیطۂ امکان سے باہر ہے۔
عملیّات
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عملیات کتبِ حدیث میں مذکور ہیں چند ایک لکھے جاتے ہیں۔
برائے دفعیہ کَرب
صحیح بخاری میں ہے کہ فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کہ جب کسی کو کوئی مصیبت یا کرب پیش آئے تو یہ دعا پڑھے لا الٰہ الآ اللہ الحلیم الکریم ربّ السّماوات السّبع وربّ العرش العظیم الحمد للہ ربّ العالمین اللّٰہمّ انّی اعوذبک من شرّ عبادک حسبنا اللہ ونعم الوکیل (الّداء والدواء)
برائے رفعِ ھم و غم
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی غم یا فکر یا رنج ہوتا تو یہ پڑھا کرتے یا حیّ یا قیّوم برحمتک استغیث (الداء والدّواء بحوالہ ترمذی و نسائی)
حضرت علی المرتضیٰ علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ بدر کے دن کچھ دیر قتال کر کے میں آیا کہ دیکھوں حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کیا کرتے ہیں؟ دیکھا تو آپ سجدہ میں پڑے ہوئے یا حیّ یا قیّوم کہہ رہے تھے، میں چلا گیا، پھر دوبارہ آیا تو یہی پڑھ رہے تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح دی۔ (سنن نسائی)
صاحبِ الدّاء والدّواء نے لکھا ہے کہ میں نے اِس کا تجربہ کیا ور صحیح پایا یہ کلمہ اسمِ اعظم ہے، بلکہ فقیر شرافت عفٰی عنہ خود بھی اس اسمِ اعظم کے کمالات سے مستفیض ہے۔
برائے دفعیّہ فزع
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو واسطے دفع کرنے گھبراہٹ کے یہ کلمات سکھاتے تھے اعوذ بکلمات اللہ التّامّات من غضبہٖ وعقابہٖ وشرّ عبادہٖ ومن ھمزات الشّیاطین وان یحضرون۔ (سنن ابی داؤو، جامع ترمذی)
برائے ادائیگی قرض
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ پر ایک یہودی کا ایک اوقیہ سونا قرض تھا، اس نے ان کو حبس کر رکھا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا میں تجھ کو ایسی دعا نہ سکھاؤں کہ اگر تجھ پر مثل کوہِ ثبیر کے قرض ہو تو اللہ تعالیٰ ادا کر دے، اے معاذ اللہ سے یہ دعا کر اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآ بِیَدِكَ الْخَیْرُ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ تُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ وَ تُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیّ وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ رحمٰن الدّنیا والاٰخرۃ ورحیمھما تعطی من تشاء منھما وتمنع من تشاء ارحمنی رحمۃ تغنینی بھا عن رحمۃ من سواک (الدّاء والدّواء بحوالہ طبرانی)
برائے نظربد
سہل بن ضیف رضی اللہ عنہ کو عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کی نظر غسل کی حالت میں لگ گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سہل رضی للہ علیہ وآلہ وسلم کے سینے پر ہاتھ مار کے پڑھا بسم اللہ اللّٰھم اذھب حرّھا وبرد ھا و وصبھا پھر فرمایا کہ قُم باذن اللہ چنانچہ وہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔
برائے محروق
محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیگ اٹھائی، میرا ہاتھ جل گیا، میری والدہ مجھ کو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے گئی آپ نے کچھ پڑھ کر دم کر دیا، جس کو میں نے نہ سمجھا، میں اپنی والدہ سے پوچھا کہ آپ کیا پڑھتے تھے؟ کہا اذھب الباس ربّ النّاس اشف انت الشّافی لا شافی الّا انت (الدّاء والدّواء بحوالہ نسائی و احمد)
برائے قضائے حاجات
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مچھلی کے پیٹ میں ذوالنّون علیہ السلام کی یہ دعا کی تھی لٓا الٰہ الّآ انت سبحٰنک انّی کنتُ من الظّٰلمین (الانبیاء ع ۶) کوئی مسلمان کسی شے میں کبھی یہ دعا نہیں کرتا مگر کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے۔ (ہذا لفظ الترمذی قال الحاکم صحیح الاسناد)
دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا یہ دعا حضرت یونس علیہ السّلام کے ساتھ خاص ہے یا مومنین کے واسطے عام ہے؟ تو فرمایا کہ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کی بات نہیں سنی ونجیّنٰہ من الغمّ وکذٰلک ننجی المؤمنین (الانبیاء۔ ع ۶) (الدّاء والدّواء بحوالہ مسند احمد و مسند ابو یعلٰے) حضرت شاہ اہل اللہ قدّس سرہ نے چار باب میں فرمایا ہے کہ جو عمل کہ حصولِ ھر مطلب میں جلالی ہو یا جمالی حکم میں کبریت احمر کے ہے اور اس کو اسم اعظم شمار کیا ہے وہ یہ آیت ہے لٓا الٰہ الّآ انت سبحٰنک انّی کنتُ من الظّٰلمین حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دعا ذوالنّون علیہ السلام کی ہے، کہ مچھلی کے پیٹ میں فرمائی جو مسلمان جس مطلب کے واسطے اِس آیت سے دعا کرے گا، قبول ہوگی، اور حق یہ ہے کہ یہ دعا نہایت مجرّب التّاثیر اور کمال سریع الاثر ہے، جس امر میں چاہے اِس آیت سے دعا کرے، اور مشائخ رضی اللہ عنہم اس کی سرعتِ تاثیر اور عدم تخلف پر اجماع اور اتفاق رکھتے ہیں، اور طریقہ دعار کا انہوں نے باقسامِ متعدّدہ ذکر کیا ہے، آسان تر دو (۲) طریقے ہیں، ایک یہ کہ بارہ (۱۲) دن تک بہ نیّتِ حصولِ مطلب بارہ ہزار (۱۲۰۰۰) بار پڑھے، اور اگر نہ ہوسکے تو بارہ سو (۱۲۰۰) بار پڑھے، اوّل و آخر چند بار درود شریف پڑھ لے، اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک لاکھ پچیس ہزار (۱۲۵۰۰۰) بار پڑھے، خلاصہ یہ کہ اس کی قوّتِ تاثیر میں کچھ شک نہیں، اِس واسطے کہ ایسا کوئی عمل نہیں کہ جس کی صحت قرآن مجید سے بھی ہو اور صحیح حدیث سے بھی، اور مشائخ رحمہم اللہ کے اقوال سے بھی سوائے اِس کے، قرآن کریم میں اس کی شان میں وارد ہے فاستجبنالہٗ (شفاء العلیل فصل ہشتم ۸)
مُکتوبات
آپ نے مختلف ملوک و سلاطین و مشاہیر رؤسائے وقت کو ۸ھ میں تبلیغی خطوط روانہ فرمائے، بعض نے اسلام قبول کیا اور بعض نے نہ کیا، یہاں آپ کے بعض مکتوب درج کیے جاتے ہیں۔
مکتوب شاہِ روم کے نام
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم من محمّد رّسول اللہ الٰی ھر قل عظیم الرّوم سلامٌ علٰی من اتّبع الھدٰی امّا بعد فانی اد عوک بدعایۃ الاسلام اسلم تسلم یؤتک اللہ اجرک مرّتین فان تولّیت فانّ علیک اثم الاریسین ویا اھل الکتٰب تعالوا الٰی کلمۃٍ سواءٍ بیننا وبینکم الّا نعبد الّا اللہ ولا نشرک بہٖ شیئًا وّ لا یتَّخذ بضنا بعضًا اربابًا من دون اللہ فان تولو افقولو اشھدوا بانّا مسلمون (صحیح بخاری) یعنی محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہر قل شاہِ روم کے نام، جو ہدایت کا پیر و ہو اُس پر سلام ہو، اس کے بعد میں تم کو اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں کہ مسلمان ہوجاؤ تاکہ تم سلامت رہو، تم کو اللہ تعالیٰ دو (۲) اجر دیوے گا، اور اگر تم نے نہ مانا تو تمام دیہاتی زمینداروں یعنی رعیّت کا گناہ تمہاری گردن پر ہوگا، اور اے اہل کتاب آؤ ہم تم ایک ایسی بات پر متفق ہوجائیں جو ہمارے تمہارے درمیان مشترک ہے کہ خدا تعالیٰ کے بغیر کسی دوسرے کو پرستش نہ کریں، اور اس کے ساتھ کسی دوسری طاقت کو شریک نہ بنائیں، اور اس کے علاوہ کسی دوسرے کو مربّی نہ ٹھیرائیں، اگر اِس بات کو بھی تم نہ مانو پس کہ دو کہ شاہد رہو کہ ہم تو مسلمان ہو چکے ہیں۔
مکتوب شاہِ حبش کے نام
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم من محمد رّسول اللہ الے النجاشی ملک الحبش امّا بعد فانّی احمد الیک اللہ الّذی لَآ الٰہ الا ھو الملک القدّوس السّلام المؤمن المھیمن واشھد انّ عیسے بن مریم روح اللہ وکلمۃ القاھا الٰی مریم البتول الطّیّبۃ الحصینۃ محملت بعیسٰی فخلقہٗ من رّوحہٖ ونفخہ کما خلق اٰدم بیدہٖ وانّی ادعوک الی اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ والموالات علٰی طاعتہٖ وان تتبعنی وتؤمن بالّذی جاء نی فانّی رسول اللہ وانّی ادعوک وجنودک الی اللہ تعالٰی وقد بلغت نصیحتے وقد بعثت الیکم ابن عمّی جعفر او معہ نفر من المسلمین والسّلام علٰی من اتّبع الھدٰے۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی طرف سے نجاشی شاہِ حبش کے نام، اس کے بعد میں تمہارے رو برو خدا کی تعریف کرتا ہوں جِس کے بغیر اور کوئی معبود نہیں، وہ مالک پاک بہتر امان دینے والا اور پناہ میں لینے والا ہے۔ اور میں شہادت دیتا ہوں کہ عیسیٰ بن مریم روح اللہ اور کلمہ اللہ ہے۔ جس کو خدا تعالیٰ نے مریم بتول پاکباز اور عفیفہ کی طرف ڈالا، پس اُس سے مریم حاملہ ہوئی، اور خدا تعالیٰ نے اس کو اپنی روح اور نفخ سے پیدا کیا، جس طرح کہ آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے، اور کہ میں تم کو خدائے واحد لا شریک کی طرف بلاتا ہوں اور اس کی طاعت کی محبّت کی طرف، اور یہ کہ تو میری تا بعداری کرے، اور جو کچھ میں لایا ہوں اُس پر ایمان لاوے، کیونکہ میں یقینًا خدا کا فرستادہ ہوں، اور میں میں تجھے اور تیرے تمام لشکر کو اسی خدا کی طرف بلاتا ہوں میں نے تم کو تمام پیغام حق پہنچادیا، اور حق نصیحت ادا کردیا، تو میری نصیحت قبول کر، میں نے تمہارے پاس اپنے چچیرے بھائی جعفر اور چند دوسرے مسلمانوں کو بھیجا ہے، جو ہدایت کا تابعدار ہو اُس پر سلام ہو۔
یہ خط عمرو بن امیۃ الضمری رضی اللہ عنہ کے حوالہ کیا گیا، اور وہ دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حبش کو روانہ ہوگئے اور نجاشی مسلمان ہوا۔
مکتوب شاہِ اسکندریہ و مصر کے نام
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم۔ من محمّد عبد اللہ ورسولہٖ الی الموقس عظیم القبط سلامٌ علٰی من اتّبع الھدٰی امّا بعد فانّی ادعوک بدعایۃ الاسلام اسلم تسنلم یؤتک اللہ اجرک مرّتین فان تولّیت فعلیک اثم القبط و یا اھل الکتٰب بعالوا الٰی کلمۃٍ سواءٍ بیننا وبینکم الّا نعبد الّا اللہ ولَا نشرک بہٖ شیئًا وّلا یتّخذ بعضنا بعضًا اربابًا من دون اللہ فان تولّوا فقولوا شھدو بانّا مسلمون
مہر (محمد رسول اللہِ)
یہ خط آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بھیجا۔
مقوقس نے اِس خط کو پڑھ کر ڈبہ میں ڈال کر اپنی لونڈی کے حوالہ کیا کہ محفوظ رکھو صاحبِ ناسخِ التّواریخ لکھتا ہے کہ یہ خط مصر سے بسبب اس مذہبی تعلق کے جو مصریوں کو بسبب فاطمی ہونے کے ایرانیوں سے تھا، ایران میں آیا، اور وہاں سے اہلِ ایران نے خلیفۃ المسلمین شاہِ روم کو تحفۃ بھیجا، اور وہ اب تک قسطنطنیہ کے شاہی خزانہ میں محفوظ ہے۔
اس کا عکس بھی شائع ہوچکا ہے اور دفتر بیت العلوم لاہور سے مل سکتا ہے (مکتوبات نبوی) آج کل جو اِس مکتوب شریف کا عکس شائع ہوا ہے اس پر اس کی سند اس طرح پر تحریر ہے کہ
’’یہ خط جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۷ھ میں حاطب بن ابی بلتعہ عمرو بن عُمیر بن سلمہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ مُہر لگا کر عظیم القبط (مصر کے بادشاہ) مقوقس کے پاس ارسال فرمایا تھا، یہ مبارک خط ایک فرانسیسی سیّاح نے سفرِ قبط کے سلسلے میں ۱۲۷۴ھ میں مصر کے شہروں میں سے احمیم کے گرجا میں ایک قبطی راہب کے پاس سے دو ہزار روپیہ کو ہدیہ لیا تھا، اور سلطان عبد الحمید خاں والی دولتِ عثمانیہ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا، اور ہدیہ پیش کیا، سلطان نے اُسے نہایت حفاظت سے دیگر تبرکاتِ نبویہ کے ساتھ قسطنطنیہ میں رہنے کا حکم صادر فرمایا اور بعد اس کے عربوں کی درخواست کرنے پر بڑی شان و شوکت کے ساتھ مدینہ شریف بھیج دیا، اور مدینہ شریف سے حاجی فضل کریم صاحب اس کا چربہ لے کر ہندوستان میں آئے۔ فقیر شرافت عفا اللہ عنہ کے پاس کتاب قطعات العربیّہ میں مکتوب شریف نبوی کا عکس موجود ہے۔
معاہدات
مواہب اللّدنیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ معاہدات بھی تحریر ہیں، جو آپ نے وقتًا فوقتًا لوگوں کو لکھ کر دے۔
امن نامہ
یوحنّا بن روبہ حاکمِ ایلہ تین سو (۳۰۰) آدمیوں کو ساتھ لیے تبوک میں حاضر ہوا اور جزیہ دینا قبول کر کے صلح کا پیغام پیش کیا، چنانچہ حضور علیہ الصّلوۃ والسّلام نے یہ امن نامہ لکھ کر اُس کو عنایت فرمایا۔
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم ھٰذہ امنۃ من اللہ ومحمد النّبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیوحنّا بن روبہ واھل ایلہ اساقفتھم سائرھم فی البرّو البحر لھم ذمّۃ اللہ و ذمّۃ النّبّی ومن کان معہٗ من اھل الشّام واھل الیمن واھل البحر فمن احدث منھم حدثا فانّہ لَا یحول مالہ دون نفسہ وانّہ طیب لمن اخذہ من النّاس وانّہ لا یحل ان یمنعوا ماء یریدونہ ولا طریقًا یریدونہ من برّاوجر۔ انتہیٰ۔ یعنی یہ امن نامہ ہے اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے یوحنّا بن روبہ اور ساکنانِ ایلہ کے پادریوں اور باقی لوگوں کے لیے جو خشکی اور تری میں ہوں وہ اللہ اور اُس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امان میں ہیں، اس عہد نامہ کے بعد اگر کوئی شخص نئی بات کا مرتکب ہوگا یعنی عہد کو توڑے گا، تو اس کے مال و جان خطرہ میں پڑ جائیں گے، کیونکہ انہوں نے عہد شکنی کی، اور ان کا مال مسلمانوں کےلیے حلال طیّب ہوگا، اور یہ کہ ان کو کسی پانی کے چشمے سے جس پر وہ وارد ہوں یا کسی راستہ خشکی و تری سے جس پر وہ چلنا چاہیں روک ٹوک نہ ہوگی،
یہ عہد نامہ جہیم بن الصلت رضی اللہ عنہ اور شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے تحریر کر کے روبہ والوں کے حوالے کیا۔
عہد نامہ
اہل جربا [۱] [۱۔ جربا و اذرح دو گاؤں تھے جو علاقہ شام فلسطین یا اس کے قرب و جوار میں واقع تھے۔ ۱۲ شرافت] اور اذرح وفد کی صورت میں بمقام تبوک حاضر خدمت ہوئے، اور صلح و مصالحت کا پیغام دیا، اور جزیہ کی رقم پیش کی، چنانچہ حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے یہ عہد نامہ ان کو لکھ دیا۔
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم ھٰذا کتاب من محمّد النّبیّ رسول اللہ لا ھل اذرح وج یا انّھم اٰمنون با مان اللہ وامان محمّد وانّ علیھم مائۃ دینار فی کلّ رجّب وافیۃ طیّبۃ واللہ کفیل علیھم بالنّصح والا حسان الی المسلمین ومن لجأ الیھم من المسلمین فی المخافۃ والتعذیر۔یعنی یہ تحریر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہے جو اللہ کے نبی اور رسول ہیں اہل اذرح و جربا کے نام کہ وُہ اللہ اور اس کے رسول کی پناہ میں آئے، اور سال کے بعد ہر ایک ماہِ رجّب میں وہ ایک سو (۱۰۰) اشرفی پوری جو مسلمانوں کے لیے حلال طیّب ہے ادا کیا کریں گے، اور انہوں نے عہد کیا ہے کہ وہ مسلمانوں سے احسان اور ہمدردی کا اظہار کریں گے، اور اگر کوئی مسلمان کسی خوف اور گھبراہٹ کے وقت ان کے پاس پناہ لے گا تو اس کی مدد کریں گے۔
ہدایات
اب دو (۲) مکتوب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایسے لکھے جاتے ہیں جن میں اسلامی ہدایات ہیں جن کو طبری اور ابن ہشام نے نقل کیا ہے۔
ہدایت نامہ
عبد اللہ بن ابو بکر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب بنی حارث کا وفد حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی خدمت سے واپس چلا گیا، تو آپ نے عمرو بن حزم الانصاری اور ایک شخص بنی نجّار میں سے ان کے پاس بغرض تعلیم دین اور سنن سیّد المرسلین اور وصولی صدقات مامور کیا، اور ان کو یہ ہدایت نامہ لکھوا کر دیا۔ بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم ھٰذا بیان من اللہ ورسولہٖ یا ایّھا الّذین اٰمنوا اوفوا بالعقود عقد من محمد النّبی لعمر وبن حزم حین بعثہ الی الیمن امرہٗ بتقوی اللہِ فی امرہ کلّہٖ فانّ اللہ مع الّذین اتّقوا والّذین ھم محسنون وأمرہ ان یا خذ بالحق کما امربہ اللہ وان یّبشر النّاس بالخیر ویأمر ھم بہٖ ویعلّم الناس القراٰن ویفقَھم فی الدّین وینھی النّاس ولَایمس احد القراٰن الّا وھو طاھر ویخبر الناس بالّذی لھم وبا لّذی علیھم ویلین النّاس فی الحقّ ولا یشتد علیھم فی الظّلم فانّ اللہ عزّوجلّ کرہ الظّلم ونھی عنہ وقال الا لعنۃ اللہ علی الظّالمین ولیبشّر النّاس بالجنّۃ وبعملھا وینذر النّار وبعملھا ویستألف النّاس حتّٰی یتفقّھوا فی الدّین ویعلّم النّاس معالم الحجّ وسنّۃ وفریضۃ وما امر اللہ بہٖ فی الحجّ الا کبر والحجّ الاصغر وھو العمرۃ وینھی النّاس ان یصلّے احد فی ثوبٍ واحدٍ صغیر الّا ان یکون ثوبًا واحدًا یثنٰی طرفہ علٰی عاتقہٖ وینھی ان یحتبے احدٌ فی ثوبٍ واحدٍ ویغضی بفرجہ الی السّماء وینھی ان لا یعقص احد شعر راسہ اذا عفا فی قفاہ وینھی اذا کان بین النّاس ھیّج عن الدّعاء الی القبائل والعشائر ولٰکن دعاؤھم الی اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ فمن لم یدع اِلی اللہ ودعا الی القبائل والعشائر فلیقطعوا بالسّیف حتّی یکون دعاؤھم الی اللہ وحدہ لا شریک لہٗ ویأمر النّاس باسباغ الوضوء وجوھہم وایدیہم الی المرافق وارجلھم الی الکعبین ویمسحون برءوسھم کما امر اللہ عزّوجلّ وامر للصّلوۃ لوقتھا واتمام الرّکوع والخشوع ویغلّس بالفجر ویھجر بالھاجرۃ حین یمیل الشّمس وصلوٰۃ العصر والشمّس فی الارض مدبرۃ والمغرب حین یقبل اللّیل لا تؤخر حتّٰی تبدؤ النّجوم فی السّماء والعشاء اُوّل اللّیل فیامر بالسٓعی الی الجمعۃ اذا نودی لھا والغسل عند الرّواح الیھا وأمرہٗ ان یأخذ من المغانم خمس اللہ وما کتب اللہ علی المؤمنین صدقۃ من العقار عشر ماسقی البعل وما سقت السّماء وما سقی الغرب نصف العشر وفی کلّ عشر من الا بل شاتان وفی کلّ عشرین من الا بل اربع شاۃ وفی کلّ اربعین من البقر بقرۃ وفی کل ثلاثین من البقر تبیع جذع اوجذعۃ وفی کلّ اربعین من الغنم سائمۃ شاۃ فانّھا فریضۃ اللہ الّتی افترض اللہ عزّوجلّ علی المؤمنین فی الصِّدقۃ فمن زاد خیرًا فھو خیر لہٗ وانّہ من اسلم من یھودے او نصرانی اسلامًا خالصًا من نفسہٖ ودان دین الاسلام فانّہ من المؤمنین لہٗ مثل ما لھم وعلیہ مثل ما علیھم ومن کان علٰی نصرانیّۃ ویھودیّۃ فانّہ لا یفتن عنہا وعلٰی کُلّ حالم ذکرا وانثٰی حرّا وعبد دینارٍ وافٍ او عرضہ ثیابًا فمن ادی ذٰلک فانّ لہ ذمّۃ اللہ وذمّۃ اللہ وذمّۃ رسولہ ومن منع ذالک فانّہٗ عدوّللہ ولرسولہٖ وللمؤمنین جمیعًا (تاریخ کبیر) یعنی یہ بیان اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے ہے، اے ایمان والو اپنے عہد کو پورا کرو، یہ عہد نامہ حضرت محمد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عمر و بن خرم کے نام سے جبکہ اس کو یمن کی طرف بھیجا گیا، میں اس کو ہر معاملہ میں خدا سے ڈرنے کا حکم دیتا ہوں، کیونکہ خدا تعالیٰ انہیں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقوٰی اختیار کریں، اور احسان کریں، اور میں اس کو حکم دیتا ہوں کہ وہ حق بات کو جس کا خدا تعالیٰ نے امر کیا ہے ہر حالت میں اختیار کرے، اور لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی خوشخبری سناے اور اسی کا ان کو حکم دے، لوگوں کو قرآن شریف پڑھائے اور دین میں واقفیّت بہم پہنچائے اور پاکیزگی میں لوگوں کو قرآن شریف چھونے کی اجازت دے اور لوگوں کو مفید چیزوں کو ترغیب دے، اور مضرّات سے بچائے، اور حق بتلانے میں نرمی اختیار کرے، اور لوگوں پر بیجا ظلم نہ کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ ظلم کو بُرا سمجھتا اور روکتا ہے، جیسا کہ اُس نے فرمایا ہے کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہو، اور لوگوں کو جنّت اور اس کے اعمال کی بشارت دے، اور دوزخ اور اس کے اعمال سے ڈرائے، اور لوگوں سے اُنس و محبت سے پیش آئے، تاکہ لوگ دین سے واقفیّت حاصل کرلیں، اور لوگوں کو حج کے احکام سکھائے، اور سنن و فرائض جو کچھ حج اور عمرہ کی نسبت ہیں کھول کر بیان کرے، اور لوگوں کو ایک کپڑے میں نماز سے روکے، ہاں اگر چادر دونو مونڈھوں پر ڈالی جائے اور شرمگاہ ننگی نہ ہونے پائے تو کوئی خوف نہیں، اور بالوں میں جو پیچھے چھوڑے ہوئے ہوں جُوڑا کرنے سے روک دے، اور جب لوگوں میں دنیاوی قبائل و عشائر کی طرف رغبت دیکھے تو ان کو اللہ واحد لا شریک کی طرف دعوت دے، اور جو لوگ خدا کو چھوڑ کر رسومِ بد کا پیچھا کریں، ان کو تلوار سے سیدھا کرے، تاکہ وہ دنیا پر دین کو مقدّم کرلیں، اور لوگوں کو وضو میں خاص کوشش سے چہروں اور ہاتھوں کو کہنیوں تک اور پاؤں کو ٹخنوں تک دھونے کی اور سر کے مسح کی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہدایت کرے، اور وقت پر نماز ادا کرنے اور رکوع اور خشوع میں تاکید رکھے، صبح کی نماز منہ اندھیرے اور دوپہر کی نماز اور دوپہر کی نماز جب سورج ڈھلے، اور عصر کی نماز جب سورج زمین کی طرف رخ کرے، اور مغرب کی نماز جب رات شروع ہوجائے، قبل اس کے کہ ستارے نمودار ہوں، اور عشا اول حصہ رات میں ادا کی جائے، اور جب جمعہ کی اذان ہوجائے لوگوں کو جلدی آنے کا، اور قبل از روانگی غسل کا حکم دے، اور میں اس کو حکم دیتا ہوں کہ غنیمت کے مال سے خُمس اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر فرض کیا ہے، زمین زرعی کا دسواں (۱۰) حصّہ جو نہری یا بارانی ہو وصول کرے، اور جو چاہی ہو اس سے بیسواں (۲۰) حصّہ لے، ہر دس (۱۰) اونٹ میں دو (۲) بکریاں، اور ہر بیس میں چار(۴)، اور ہر چالیس (۴۰) گائے میں سے ایک گائے، اور تیس (۳۰) گائے میں سے ایک بچھڑی یا بچھڑا دو (۲) سالہ، اور ہر چالیس چرنے والی بکریوں میں سے ایک بکری، یہ وہ فرض ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر مومن کےلیے مقرر کیا ہے، اور جو اس سے زیادہ کرے اس کے لیے بہتر ہے، اور جو نصرانی یا یہودی سچے دل سے مسلمان ہو، اور اسلامی ارکان بجالائے اُس کو مسلمان سمجھا جائے، اور اس کے تمام حقوق مسلمانوں کے سے ہوں گے، اور جو اپنے مذہب نصرانیّت یا یہودیّت پر قائم رہے، اس پر کسی طرح کی جبر و تعدّی نہ کی جائے کہ وہ اس کو چھوڑدے، اور ایسے لوگوں سے خواہ اصیل ہوں یا غلام، مرد ہوں یا عورت، ایک اشرفی سالانہ لی جائے، یا اس کی ہم قیمت اور کوئی سامان کپڑا وغیرہ قبول کر لیا جائے، پس جب یہ دے دیوے تب وہ خدا اور اس کے رسول کی پناہ میں ہے، اور جو نہ ادا کرے وہ اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ہے۔
ہدایت نامہ
یہ ہدایت نامہ قوم نصّارٰے کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تمام امت کو فرمایا ہے۔
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم ھٰذا کتاب کتبہٗ محمّد بن عبد اللہ الی النّاس اجمعین رسولہ مبشّرًا ونذیرًا ومؤتمنًا علٰی ودیعۃ اللہ فی خلقہٖ لئلّا یکون للنّاس حجّۃ بعد الرّسول وکان اللہ عزیزًا حکیمًا۔ کتبہ لا ھل ملّۃ النّصارے ولمن ینحل دین النّصرانیّۃ من مشارق الارض ومغاربھا قریبھا وبعیدھا فصیحہا واعجمھا معر وفھا ومجہولھا جعل لھم عہدًا فمن نّکث العہد الّذی فیہ وخالفہ الٰی غیرہٖ وتعدی ما أمرہ کان لعہد اللہ ناکثًا ولمیثاقہٖ نا قضًا وبدینہٖ مستھزیًا وللّعنۃ مستوجبًا سلطانًا کان ام غیرہ من المسلمین وان احتمی راھب اوسائح فی جبلٍ او وادٍ او مغارۃٍ اوعمرانٍ اوسھلٍ اورملٍ او بیعہ فانا اکون من ورائھم اذبّ عنھم من کلّ غیرۃ لھم بنفسی واعوانی واھلی وملّتی واتباعی لانّھم رعیّیّی واھل ذمّتی وانا اعزل عنھم الاذی فی المئون الّتی یحمل اھل العہد (کذا) من القیام بالخراج الّا ما طابت لہٗ نفوسھم ولیس علیھم جبر ولا اکراہ علٰی شئی من ذالک ولا یغیّرا سقف من اسقفینۃ ولا راھب من رھبا نیّۃ ولاجیس من صومعتہٖ ولا سائح من سیاحتہٖ ولا یھدم بیت من بیوت کنائسھم وبیعہم ولا یدخل شئی من مال کنائسھم فی بناء مساجد المسلمین ولا فی بناء منازلھم فمن فعل شیئا من ذالک فقد نکث عہد اللہ وعھد رسولہٖ ولا یحمل علی الرّھبان والا ساقفۃ ولا من یتعبد جزیۃ ولا غرامۃ وانا احفظ ذمّتہم اینما کانوا من برٍّا وبحرٍ فی المشرق والمغرب والجنوب والشّمال وھم فی ذمّیّ ومیثاقی وامانی من کلّ مکروہ وکذالک من یتفرد بالعبادۃ فی الجبال والمواضع المبارکۃ لا یلزمھم ممّا یزرعونہ لا خراج ولا عُشر ولا یشاطرون لکونہٖ برسم ولا یعاونون عند ادراک الغلّۃ ولَا یلزمون بخروج فی حرب وقیام بجبریۃ ولا من اصحاب الخروج وذوی الا موالہ والعقارات والتجارات ممّا ھوا کثر من اثنی عشرد رھمًا بالجملۃ فی کلّ عام ولا یکلّف احد منھم شططا ویجادلون الٓا بالّتی ھی احسن ویحفظونھم تحت جناح الرّحمۃ یکفّ عنھم اذیّۃ المکروہ حیث ما کانوا وحیث ما حلوا و ان صارت النّصرانیّۃ عند المسلمین فعلیہ برضاھا ویمکنہا من الصّلٰوۃ فی بیعہا ولا یحال بینھا وبین ھوی دینھا ومن خان عہد اللہ واعتمد بالضّدّ من ذالک فقد عصی میثاقہ ورسولہ ویعا ونوا علٰی مرمّۃ بیعھم ومواضعہم وتکون تلک مقبولۃ لھم علٰی دینھم وفعالھم بالعھد ولا یلزم احد منھم بنقل سلاح بل المسلمون یذبون عنھم ولا یخالف ھٰذا العہد ابدًا الٰی حین تقوم السّاعۃ وتنقضی الدّنیا۔ انتھٰے۔ یعنی یہ وہ عہد نامہ ہے جس کو حضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے رسول مبشر و نذیر اور اس کے امین نے تمام لوگوں کےلیے لکھا ہے تاکہ اس کے بعد لوگوں کا کوئی عذر بہانہ باقی نہ رہے اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے، اِس عہد نامہ کو میں نے مشرق و مغرب، نزدیک و دور، عرب اور غیر عرب، اور معروف و غیر معروف نصارٰے کے واسطے لکھا ہے، مسلمانوں سے جس نے اِس عہد کو توڑا، او اس سے تجاوز کیا، وہ خدا کا وعدہ شکن ٹھیرے گا، اور اس کے میثاق کا ناقضِ ہوگا، اور اس کے دین کے ساتھ ہنسی کرنے والا ہوگا، اور خدا کی لعنت کا سزاوار ہوگا، خواہ بادشاہ ہو یا رعیّت، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر کوئی راہب یا سیّاح پہاڑ یا جنگل یا صحرا یا آبادی یا ریگستان یا عبادت گاہ میں جمایت کا خواستگار ہوگا تو میں اپنی جان، اپنے اعوان و اہل بیت و امت و تابعداروں سے ان کی حمایت کے لیے ان کے دشمنوں کو ہٹاؤں گا، اور مدافعت کروں گا، کیونکہ وہ میری رعیّت اور اہل ذمّہ ہیں، یعنی میرے وعدہ پر ہیں، اور میں دشمنوں کی ایذا اور حذر اور تکلیف معاہدہ والوں سے اس مالیّت کے بدلے رفع کروں گا، جس کی ادائیگی کا انہوں نے وعدہ کیا ہے، اگر ان کی مرضی ہو کہ وہ اپنے وجود و اموال کی خود حفاظت و نگہبانی کریں تو ان پر اس امر میں کوئی جبر و اکراہ نہ کیا جاوے کسی بشپ کو اس کے عہدہ سے، اور کسی راہب کو رہبانیّت سے، اور کسی عابد کو اس کی عبادت گاہ سے، اور کسی سیّاح کو اس کی سیاحت سے روکا نہ جائے، ان کا کوئی گِرجا و عبادت گاہ ویران و منہدم نہ کیا جائے، اور ان کے گرجوں کے بال میں سے کوئی چیز مسلمانوں کی مسجدوں اور گھروں کے بنانے میں خرچ نہ کی جائے، جس نے ایسا کام کیا، اس نے خدا و رسول کی وعدہ شکنی کی، اور راہبوں و بشپوں و عابدوں پر کوئی جزیہ اور تاوان نہ رکھا جائے، اور وہ جنگل میں ہوں یا دریا میں، مشرق میں ہوں یا مغرب میں، جنوب میں ہوں یا شمال میں، میں ان کے لیے اس عہد کا ذمہ دار ہوں، اور وہ میرے ذمّہ و عہد پر ہیں، اور سارے مکروہات سے میری امان میں ہیں، اور جو انسان پہاڑوں اور امکنہ متبرکہ میں عبادت کے لیے گوشہ گزین ہوں جو کچھ بوتے ہیں اس کان سے خراج اور عُشر نہ لیا جائے اور غلہ کی کمی پر ان کی اعانت کا ذمّہ نہیں ہے، جنگ میں نکلنے کی تکلیف ان پر لازم نہ کی جائے، اور نہ ان سے جزیہ لیا جائے، خراجی اور دولت مند صاحب اموال اور زمیندار اور سودا گر سے بارہ (۱۲) درہم سالانہ سے زائد نہ لیا جائے، اور کسی کو جور و ستم سے حصولِ مال گذاری پر متکلّف نہ کیا جائے، کوئی مذہبی مباحثہ و مجادلہ پیش آئے تو اسے بحسن اخلاق و تہذیب کلام پیش آنا چاہیے، اور وہ جہاں ہوں ان پر رحمت کا بازو مبسوط رہے اور وہ جس جگہ ہوں تکالیف ان سے دور کی جائیں، اور ان کو عبادت خانوں میں نماز پڑھنے سے نہ منع کیا جائے اور ان کے دین میں کوئی دخل نہ دیا جائے، اور جس نے خدا کے وعدہ میں خیانت کی، اور اس کی ضدّ پر کھڑا ہوا، اس نے خدا اور رسول کی وعدہ شکنی کی، ان کے عبادت خانے اور مکانات کی مرمّت کرنے میں ان کی امداد کی جائے، اور یہ بات (یعنی مدد لینا دینا) ان کے دین میں جائز ہے، اور ان میں سے کسی پر آلاتِ حرب کا رکھنا لازمی نہوگا، بلکہ مسلمان ان کی حفاظت کریں گے اور اس عہد نامہ کے قیامت تک خلاف عملدر آمد نہ کیا جائے (مکتوبات نبوی)
نقشِ نگین
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چاندی کی انگشتری نبوائی ہوئی تھی جس پر محمد رسول اللہ کندہ تھا، جب کوئی تحریر کرواتے تو اُس پر مُہر لگاتے۔
خطبات
آپ کی تقریر نہایت درجہ کی فصیح و بلیغ ہوتی تھی، آپ نے فرمایا ہے انا افصح العرب بعثت بجوامع الکلم یعنی میں فصیح ترین عرب ہوں، میں کلماتِ جامعہ لے کر مبعوث ہوا ہوں۔ (سیرۃ النبی جلد دوم)
طرز بیان
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت سادہ طریقہ پر خطبہ دیتے تھے ہاتھ میں صرف ایک عصا یا کمان ہوتی جس پر ٹیک لگا کر خطبہ دیتے، [۱] [۱۔ سنن ابی داؤد جلد اوّل کتاب الصّلوٰۃ ابواب الجمعہ والخطبہ علی القَوس ۱۲ شرافت] اگرچہ ضرورت کے وقت کبھی کبھی آپ نے طویل خطبے بھی دیے ہیں، لیکن عموماً آپ کے خطبے مختصر ہوتے تھے۔ (سیرۃ النبی جلد دوم)
احادیث کی کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبات اور ان کے جستہ جستہ فقرے بغیر کسی خاص ترتیب کے جمع کر دئیے گئے ہیں، لیکن حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی مختلف حیثیتیں تھیں، اور ان کا اثر آپ کے طرز بیان پر پڑتا تھا، آپ داعی مذہب تھے، فاتح تھے، واعظ تھے، امیر ابحیش تھے، قاضی تھے، پیغمبر تھے، اِس اختلافِ حیثیت نے آپ کے خطابت اور زورِ بیان میں نہایت اختلاف پیدا کر دیا ہے، اور بلاغت کا اقتضا بھی یہی ہے۔ (سیرۃ النبی جلد دوم)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریر تاثیر اور رقّت انگیزی میں معجزہ الٰہی تھی، پتھر سے پتھر دل بھی سُن کر موم ہوجاتے تھے۔
خطبہ
ایک بار مدینہ طیّبہ میں حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے یہ خطبہ دیا۔
الحمد للہ احمدہٗ واستعینہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیّئات اعمالنا من یھد اللہ فلا مضلّ لہٗ ومن یّضلل فلا ھادی لہٗ واشھد ان لّا الٰہ الّا اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ انّ احسن الحدیث کتاب اللہ قد افلح من زیّنہ اللہ فی قلبہٖ وادخلہ فی الاسلام بعد الکفر فاختارہ علٰی ما سواہ من احادیث الناس انّہ احسن الحدیث وابلغہ احبّوا ما احبّ اللہ احبّو اللہ من کُلّ قلوبکم ولا تملّوا کلام اللہ وذکرہ ولا تقس عنہ قلوبکم فاعبدو اللہ ولا تشرکوا بہٖ شیئًا واتّقوہ حقّ تقاتہٖ وصدقوا اللہ صالح ما تقولون بافواھکم وتحابّوا بزوح اللہ بینکم انّ اللہ یغضب ان ینکث عہدہٗ والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
یعنی خدا کی حمد ہو، میں اس کی حمد کرتا ہوں، اور اس سے مدد مانگتا ہوں، اور اس کے دامن میں اپنے نفس کی برایوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں سے پناہ چاہتے ہیں، جس کو خدا ہدایت دے اُس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، اور جس کو وہ ہدایت نہ کرے، اُس کی کوئی رہنمائی کرنے والا نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں، وہی تنہا ہے کوئی اس کا شریک نہیں، بہترین کلام خدا کی کتاب ہے، کامیاب ہَوا وہ جس کے دل کو خدا نے اس سے آراستہ کیا اور اس کو کفر کے بعد اسلام میں داخل کیا، انسانوں کی باتوں کو چھوڑ کر خدا کے کلام کو پسند کیا، کیونکہ خدا کا کلام سب سے زیادہ بہتر اور سب سے زیادہ پُر اثر ہے جس کو خدا دوست رکھتا ہے تم بھی دوست رکھو، اور خدا کو دل سے پیار کرو، اور اس کے کلام اور ذکر سے کبھی نہ تھکو، اور تمہارے دل اس کی طرف سے سخت نہوں، پس خدا ہی کو پوجو، اور کسی کو اس کا ساجھی نہ بناؤ، اور اس سے ڈرؤ جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے، اور خدا سے سچی بات کہو، اور آپس میں ایک دوسرے کو ذاتِ الٰہی کے واسطے سے پیار کرو، خدا اس سے ناراض ہوتا ہے کہ کوئی اپنے عہد کو پورا نہ کرے، تم پر خدا کی سلامتی اور رحمت اور برکتیں نازل ہوں۔ (سیرۃ النبی جلد دوم)
کلماتِ طیّبات
آپ کے ارشادات و نصالح سے حدیث کے دفتر بھرے پڑے ہیں، یہاں تبرگًا چہل (۴۰) حدیث مرویہ عمدۃ المحدثین حکیم الامۃ حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی قدس سرہٗ نقل کی جاتی ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے من حفظ علٰی امّتی اربعین حدیثا فی امر دینھا بعثہ اللہ تعالٰی فقیھًا وکنتٰ لہٗ یوم القیامۃ شافعًا وشھیدًا۔
سند شریف
قال الشاہ ولی اللہ الدّھلویّ شافھنی ابو الطّاھر المدنیّ عزابیہ الشیخ ابراھیم الکُردی عن زین العابدین عن ابیہ عبد القادر عن جدّہٖ یحییٰ عن جدّہ المحبّ ع عمّ ابیہ ابی الیمن عن ابیہ شہاب احمد عن ابیہ رضی الدّین عن ابی القاسم عن السّیّد ابی محمّد عن والدہٖ ابی الحسن عن والدہٖ ابیطالب عن ابی علی عن والدہٖ محمد زاھد عن والدہٖ ابی علی عن ابی القاسم عن والدہٖ ابی محمّد عن والدہ الحسین عن والدہٖ جعفر عن ابیہ عبد اللہ عن ابیہ زین العابدین عن ابیہ الامام الحسین عن ابیہ علی ابن ابیطالب رضی اللہ عنہم قال قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم
چہل احادیث
۱۔ لیس الخبر کالمعاینۃ۔
ترجمہ: خبر دیکھنے کے برابر نہیں۔
۲۔ الحرب خُدعۃ۔
ترجمہ: لڑائی دھوکے کا نام ہے۔
۳۔ المسلم مرأۃ المسلم۔
ترجمہ: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے۔
۴۔ المستشار مؤتمن۔
ترجمہ: جس سے مشورہ لیا جائے اُسے امانتداری لازم ہے۔
۵۔ الدّال علی الخیر کفاعلہٖ۔
ترجمہ: نیک کام بتانے والا کرنے والے کے برابر ہے۔
۶۔ استعینوا علٰی الحوائج بالکتمان۔
ترجمہ: مدد چاہو کاموں میں چھپا کر۔
۷۔ اتّقوا النٓار ولو بشق تمرۃٍ۔
ترجمہ: دوزخ سے بچو خواہ آدھا چھوہارا دے کر۔
۸۔ الدّنیا سجن لّلمؤمن وجنّۃ لّکافر۔
ترجمہ: دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے بہشت ہے۔
۹۔ الحیاء خیر کلہٗ۔
ترجمہ: حیا سرا سر بہتر ہے۔
۱۰۔ عدّۃ المؤمن کاخذ الکفّ۔
ترجمہ: ایماندار کا وعدہ کرنا ہاتھ پکڑنے کی طرح ہے۔
۱۱۔ لا یحل لمؤمن ان یھجر اخاہ فوق ثلٰثۃ ایٓامٍ۔
ترجمہ: مومن کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کو تین روز سے اوپر چھوڑے ۔
۱۲۔ لیس منّا مَن غشّنا۔
ترجمہ: جو خیانت کرے وہ ہم سے نہیں۔
۱۳۔ مافلّ وکفٰی خیر ممّا کثر واَلْھٰی۔
ترجمہ: جو تھوڑی چیز کفایت کرے وہ بہتر ہےاُس سے جو بہت ہو، اور غافل کرّے۔
۱۴۔ الرّاجع فی ھِبَتہٖ کالرّاجع فی قَیثہٖ۔
ترجمہ: ہبہ کو واپس لینے والا ایسا ہے جیسا قَے کھانے والا۔
۱۵۔ البلاء مؤکل بالمنطق۔
ترجمہ: بلا بولنے پر مقررّ ہے۔
۱۶۔ النّاس کاسنان المشط۔
ترجمہ: آدمی ایسے ہیں جیسے کنگھی کے داندنے۔
۱۷۔ الغنٰی غنی النّفس۔
ترجمہ: دولت مندی وہ ہے جو دل کی ہو۔
۱۸۔ السّعید من وعِظ بغیرہٖ۔
ترجمہ: نیک بخت وہ ہے جو دوسرے کا حال دیکھ کر نصیحت پکڑے۔
۱۹۔ انّ من الشعّر لحکمۃ وانّ من البیان لسحرًا۔
ترجمہ: البتہ بعضے شعر حکمت اور بعضی تقریر جادو ہوتی ہے۔
۲۰۔ عفو الملوک ابقاء للملک۔
ترجمہ: بادشاہوں کا معاف کرنا ملک کے باقی رکھنے کا سبب ہے۔
۲۱۔ المرء مع من احبّ۔
ترجمہ: آدمی اُس کے ساتھ ہوگا جس سے محبّت رکھتا ہے۔
۲۲۔ ماھلک امرء عرف قدرہٗ۔
ترجمہ: وہ آدمی نہ برباد ہَوا جس نے اپنی حقیقت پہچانی۔
۲۳۔ الولد للفراش واللعاھر الحجر۔
ترجمہ: لڑکا عورت کا ہے اور مرد حرامکار کو پتھر۔
۲۴۔ الیدا لعلیا خیر من الیدا لسّفلٰے۔
ترجمہ: اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔
۲۵۔ لا یشکر اللہ من لّا یشکر النّاس۔
ترجمہ: جو بندے کا مشکور نہو وہ خدا کا مشکور نہ ہوگا۔
۲۶۔ حبّک الشّیٔی یعمی ویصمّ۔
ترجمہ: محبت کسی چیز کی تجھ کو اندھا اور بہرا کر دیتی ہے۔
۲۷۔ جبلت القلوب علٰی حبّ من احسن الیھا وبغض من اساء الیھا۔
ترجمہ: احسان کرنے والے کی محبّت پر دل مجبور ہیں اور برائی کرنے والے کی عداوت پر۔
۲۸۔ مالتّائب من الذّنب کمن لّا ذنب لہٗ۔
ترجمہ: گناہ سے توبہ کرنے والا بے گناہ کے برابر ہے۔
۲۹۔ الشّاھد یرٰی مالا یراہ الغائب۔
ترجمہ: حاضر اس چیز کو دیکھتا ہے جس کو غائب نہیں دیکھتا۔
۳۰۔ اذا جاءکم کریم قوم فاکرموہ۔
ترجمہ: جب کسی قوم کا سر دار تمہارے پاس آوے تو اس کی تعظیم کرو۔
۳۱۔ الیمین الفاجرۃ تدع الدّیا ربلاقّع۔
ترجمہ: جھوٹھی قسم ملکوں کو اجاڑ دیتی ہے۔
۳۲۔ من قتل دون مالہ فھو شہید۔
ترجمہ: جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔۔
۳۳۔ الاعمال بالنّیّۃ۔
ترجمہ: کاموں کا اعتبار نیّت پر ہے۔
۳۴۔ سیّد القوم خادمہم۔
ترجمہ: قوم کا سردار ان کا خدمت گار ہے۔
۳۵۔ خیر الا مورا وسطہا۔
ترجمہ: سب کاموں میں میانہ روی بہتر ہے۔
۳۶۔ اللّٰھمّ بارک فی امّتی فی بکورھا یوم الخمیس۔
ترجمہ: الٰہی برکت دے میری امّت کے اوّل روز کے جانے میں روز پنجشنبہ کے۔
۳۷۔ کاد الفقران یکون کفرًا۔
ترجمہ: ہوسکتا ہے کہ محتاجی کفر ہوجاوے۔
۳۸۔ السّفر قطعۃ من العذاب۔
ترجمہ: سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔
۳۹۔ المجالس بالا مانۃ۔
ترجمہ: مجلسیں امانت کے ساتھ ہوتی ہیں۔
۴۰۔ خیر الزّاد التّقوٰے۔
ترجمہ: سب سے بہتر توشہ پرہیزگاری ہے۔
ازواجِ مطہرات
آپ کے گیارہ (۱۱) حرمِ محرّم تھے، جن کے حالات کتبِ تاریخ میں اکثر ملتے ہیں۔
۱۔ حضرت خدیجۃ الکبرٰے رضی اللہ عنہا۔
کنیت ان کی اُم ہِند، اور ایّام جاہلیت میں لقب طَاہرہ تھا، والد کا نام خُوَیُلَدْ بن اَسد بن عبد العُزےٰ بن قُصَیّ بن کِلاب تھا، اور والدہ ماجدہ فاطمہ بنت زائدہ قبیلہ بنی عامر لوی سے تھیں، اِن کا پہلا نکاح ابو ہالہ بناش بن زرارہ تمیمی سے ہوا اُس سے دو لڑکے ہِند اور حارِث نام پیدا ہوئے، ابو ہالہ کے انتقال کے بعد عتیق بن عایذ مخزومی کے نکاح میں آئیں، اُس سے ایک لڑکی ہِند نام پیدا ہوئی، عتیق کی وفات کے بعد ان کا نکاح بعمر چالیس (۴۰) سال حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا، تمام عورتوں میں سے اوّل اسلام لائیں، سوائے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تمام اولاد حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی انہیں کے بطن سے ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے زندہ رہنے تک کسی دوسری عورت سے نکاح نہ کیا، [۱] [۱۔ سیرۃ النبی جلد دوم بحوالہ طبقات ابن سعد کتاب النساء ذکر خدیجہ ۱۲ شرافت] اِن کی وفات شبِ دہم (۱۰) رمضان ۱۰ نبوی میں بعمر پینسٹھ (۶۵) برس ہوئی، مکہ معظمہ کے مقبرہ حجون میں دفن ہوئیں۔[۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلدِ اوّل ۱۲]
(شریف التواریخ)