حضرت سید الانبیاء رحمۃ اللعالمین سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
حضرت سید الانبیاء رحمۃ اللعالمین سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
سیّد الانس و الجان
خیال رہے کہ مقصد صرف دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات کو قلمبند کرنا تھا کیونکہ عام طور پر طلبائے کرام اور عوام الناس قصص الانبیاء نامی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں جس میں کئی ضعیف واقعات انبیائے کرام کی طرف منسوب کر دئیے گئے ہیں جو انبیائے کرام کی شان میں باعث تنقیص بھی ہیں اور ان کے پڑھنے سے ایمان میں تزلزل بھی آتا ہے۔ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مختصر تذکرہ صرف تبرک کے پیش نظر کرنا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے بغیر کتاب کسی طرح بھی مکمل نہیں ہوسکتی تھی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک کے واقعات اور آپ کے اوصاف کا علم حاصل کرنے کے لیے حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی مدارج النبوۃ کا مطالعہ کیا جائے جو دو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ان شاء اللہ تعالیٰ اس کتاب کے مطالعہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے بہت سے واقعات کا علم حاصل ہوگا اور سکون قلب ہوگا۔
نیز قرآن، مفکر اسلام حضرت پیر محمد کرم شاہ بھیروی قدس سرہ کی ’’ضیاء النبی‘‘ کا مطالعہ کریں تو ان شاء اللہ تعالیٰ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاۃ طیبہ کی ضیاء سے آپ کے دلوں میں نور معرفت حاصل ہوگا۔ ایمان میں پختگی حاصل ہوگی۔
خیال رہے کہ کچھ لوگوں نے ’’سیرۃ النبی‘‘ کے نام سے کتابیں لکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات کو کم کرنے کی نا پاک جسارت کی ہے ان کی کتابوں کو پڑھ کر اپنے ایمان کو ضائع نہ کریں۔
’’سیرۃ النبی‘‘ کے نام سے لکھی ہوئی کتابوں کو بھی دیکھیں اور ان کے مقابل مدارج النبوۃ اور ’’ضیاء النبی‘‘ کو بھی پڑھیں خود بخود نمایاں فرق نظر آئے گا کہ کن حضرات نے عشقِ رسول، محبت رسول میں ڈوب کر علم و عرفان کے سمندر سے موتی نکال کر پیش کیے اور کن لوگوں نے زہر پر مٹھائی چڑھا کر لوگوں کے ایمان کو قتل کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے۔
بات صرف قسمت کی ہے کسی کی قسمتیں رب تعالیٰ نے یہ عظمت عطا فرمائی ہے کہ وہ دن رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات کو تلاش کرتا رہتا ہے اسی میں اس کی عمر بیت جاتی ہے۔ اور کچھ کم بختوں کی عمر اس میں گزرجاتی ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقص تلاش کرتے رہتے ہیں۔ فضائل پر مشتمل احادیث اور اقوال علماء و صلحاء ان کی عقلوں میں انہیں ضعیف نظر آتے ہیں اور بتوں کے حق میں نازل شدہ آیات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات جو عجز و انکساری پر مشتمل ہیں وہ انہیں حقیقت نظر آتے ہیں۔ سیدھے سادے لوگوں کو اس طرح گمراہ کرتے ہیں کہ:
’’ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔ واقعہ درست نہیں‘‘ اس طرح کے گمراہ کن ہتھکنڈے ان کا وطیرہ ہے۔ الا مان والحفیظ
تخلیق اول نورِ محمدی:
’’وروی عبد الرزاق بسندہ عن جابر بن عبد اللہ قال قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بابی انت وامی اخبرنی عن اول شیء خلقہ اللہ تعالیٰ قبل الاشیاء قال یا جابر ان اللہ تعالیٰ قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ فجعل ذالک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء اللہ ولم یکن فی ذالک الوقت لوح ولا قلم ولا جنۃ ولا نار ولا منٰک ولا سماء ولا ارض ولا شمس ولا قمر ولا جنی ولا انس‘‘ (زرقانی ج ۱ ص ۴۹، الانوار المحمدیۃ ص ۱۳، موھب)
عبد الرزاق رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سند سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے یہ خبر دیجیے کہ تمام چیزوں سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کسے پیدا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جابر بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے اپنے نور سے تیرے نبی کے نور کو پیدا کیا پھر وہ نور اللہ تعالیٰ کی قدرت سے جہاں بھی اسے منظور تھا سیر کرتا رہا، اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم اور نہ جنت اور نہ دوزخ اور نہ فرشتے اور نہ آسمان اور نہ زمین اور نہ سورج اور نہ چاند اور نہ جن اور نہ انسان تھے۔
خیال رہے کہ یہ حدیث مولوی اشرف علی تھانوی صاحب دیوبندی نے اپنی کتاب ’’نشر الطیب‘‘ میں بھی نقل کی ہے۔
’’عن العرباض بن ساریۃ عن رسول اللہ ﷺ انہ قال انی عند اللہ مکتوب خاتم النبین وان آدم لمنجدل فی طینتہ‘‘ (شرح السنۃ، مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین ص ۵۱۳، مواھب مع زرقانی ص ۳۹)
حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بیشک میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس وقت خاتم النبیین تھا جبکہ آدم علیہ السلام ابھی تک اپنے خمیر میں تھے۔
مولوی اشرف تھانوی صاحب دیوبندی اپنی کتاب نشر الطیب میں بیان کرتے ہیں کہ اسے احمد، بیہقی اور حاکم نے بھی روایت کیا ہے اور مشکوۃ میں یہ حدیث شرح السنہ سے مذکور ہے۔
اس حدیث پاک کی وضاحت میں استاذ المکّرم حضرت علامہ ابوالحسنات محمد اشرف سیالوی صاحب مدظلہ العالیٰ فرماتے ہیں:
’’اس حدیث پاک سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تحقیقاً آدم علیہ السلام سے قبل نبی ہونا بھی ثابت اور خاتم النبیین کے منصب پر فائز ہونا بھی ثابت موجود ہونا بھی ثابت اور آپ کی حقیقت کا نور ہونا بھی ثابت کیونکہ بشروں کا باپ بعد میں پیدا کیا جارہا ہے اور آپ کی حقیقت پہلے ہی موجود متحقق تھی اور ان صفات کمال کے ساتھ موصوف و متصف تھی‘‘۔
اس مقام پر مولوی اشرف علی تھانوی صاحب کے بیان کردہ نکتہ اور ایک تو ہم کا ازالہ بھی ملاحظہ فرماتے جائیں:
’’اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ شائد مراد یہ ہے کہ میرا خاتم النبیین ہونا مقدر ہوچکا تھا۔ سو اس لیے آپ کے وجود کا تقدم آدم علیہ السلام پر ثابت نہ ہوا۔ جواب یہ ہے اگر یہ مراد ہوتی تو آپ کی کیا تخصیص تقدیر تمام اشیاء مخلوقہ کی ان کے وجود سے مقدم ہے پس یہ تخصیص خود دلیل ہے اس کی کہ مقدر ہونا مراد نہیں بلکہ اس صفت کا ثبوت مراد ہے اور ظاہر ہے کہ کسی صفت کا ثبوت فرع ہے مثبت لہ کے ثبوت کی پس اس سے آپ کے وجود کا تقدم ثابت ہوگیا اور چونکہ مرتبہ بدن متحقق نہیں ہوتا اس لیے نور اور روح کا مرتبہ متعین ہو گیا‘‘۔
اس سوال و جواب نے واضح کردیا کہ نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت محض علم الٰہی کے لحاظ سے نہیں تھی بلکہ خارج اور واقع میں آپ کا نور انور اور روح اقدس اور حقیقت محمدیہ اس کمال کے ساتھ موصوف و متصف تھی اور یہی ہمارا نظریہ و عقیدہ ہے کہ بشریت کے لحاظ سے اولاد آدم بھی ہیں مگر حقیقت کے لحاظ سے اصل موجودات ہیں اور آدم علیہ السلام اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی اس لحاظ سے آپ بنیاد ہیں۔
یہی تھانوی صاحب ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں سوال یہ ہے جب انبیاء موجود ہوتے تو ان کے خاتم کا موجود ہونا بھی متصور ہوسکتا تھا جب ان کا بلکہ ان کے والد اور معدن واصل کا وجود نہیں تھا تو آپ خاتم النبیین کس طرح ہوگئے تھانوی صاحب کی زبانی سوال و جواب ملاحظہ فرمائیں۔
’’اگر کسی کو شبہ ہو کہ اس وقت ختم نبوت کے ثبوت بلکہ خود نبوت ہی کے ثبوت کے کیا معنی کیونکہ نبوت آپ کو چالیس برس کی عمر میں عطا ہوئی اور چونکہ آپ سب نبیوں کے بعد مبعوث ہوئے اس لیے ختم نبوت کا حکم کیا گیا یہ وصف تو خود تاخیر کو مقتضی ہے۔ جواب یہ ہے کہ یہ تاخیر مرتبہ ظہور میں ہے مرتبہ نبوت میں نہیں جیسے کسی کو تحصیلداری کا عہدہ مل جائے تو تنخواہ بھی آج ہی سے چڑھنے لگے مگر ظہور ہوگا کسی تحصیل میں بھی بھیجے کے بعد‘‘۔
یعنی جس طرح اس تحصیلدار کے منصب کا لوگوں کو علم اس وقت ہوگا جب وہ تحصیل میں جاکر چارج سنبھالے گا اس وقت معلوم کریں گے کہ یہ ہمارے تحصیلدار صاحب ہیں حالانکہ سرکار کے نزدیک وہ اس وقت سے تحصیلدار ہے جب سے اسے نامزد کیا گیا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین کے مرتبہ پر اس وقت فائز ہوچکے تھے جب آدم علیہ السلام ہنوز عالم آب وگل میں تھے اگرچہ لوگوں کو اس وقت پتہ چلا جب آپ کا ظہور ہوا، الغرض ظہور اگرچہ بعد میں ہوا لیکن وجود پہلے تھا اور یہی ہمارا عقیدہ ہے کہ حقیقت نوریہ کے لحاظ سے آپ اصل موجودات اور بنیاد آدم علیہ السلام ہیں اگرچہ ظہور اور نشاۃ دینویہ کے لحاظ سے اولاد آدم ہیں۔ (تنویر الابصارص ۱۹)
عن ابی ھریرہ قال قالوا یا رسول اللہ متی وجبت لک النبوۃ قال و آدم بین الروح والجسد (ترمذی، مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین ص ۵۱۳، زرقانی ج ۱ ص ۳۴)
فضائل ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ آپ کے لیے نبوت کس وقت ثابت ہوچکی تھی آپ نے فرمایا جس وقت آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے یعنی ان کے جسم میں جب جان بھی نہیں آئی تھی میں اس وقت سے نبی ہوں۔
اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کو حسن کہا ہے اور ایسے ہی الفاظ سے میسرہ ضبی کی روایت ہے امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مسند میں اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تاریخ اور ابو نعیم رحمہ اللہ تعالیٰ نے حلیہ میں اسے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس کو تصریح کی ہے۔
صحابہ کرام کے پوچھنے اور سوال کرنے سے کہ آپ کب سے نبی بنے ہیں۔ پتہ چل گیا کہ جن کے گھر آپ پیدا ہوئے اور عمر شریف کے چالیس سال گزارے تھے اور اس قدر طویل عرصہ گزار نے کے بعد نبوت کا اعلان فرمایا جب وہ اس طرح کا سوال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپ کب سے نبی ہیں؟ معلوم ہوا ان کے ایمان نے گواہی دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ نبوت کا اعلان اور اظہار چالیس سال کے بعد کیا لیکن آپ نبی بنے ہوئے پہلے کے تھے انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ نے اعلان نبوت و رسالت کب فرمایا؟ بلکہ پوچھا ہے .....
’’متی وجبت لک النبوۃ یا رسول اللہ‘‘
آپ کے لیے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کس وقت سے ثابت ہے؟
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب کہ میں اس وقت سے نبی ہوں جب تمہارے باپ آدم علیہ السلام کی روح ابھی ان کے جسم میں پھونکی نہیں گئی تھی صحابہ کرام کے اس نظریہ و عقیدہ پر مہر تصدیق ہے کہ تم نے درست سمجھا واقعی میں عمر شریف کے چالیس سال گزار کر نبی نہیں بنا بلکہ اس وقت سے یہ منصب اور اعزاز مجھے حاصل ہے جب کہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے تن بدن میں جان نہیں آئی تھی۔
اس روایت کو ترمذی شریف میں نقل کیا گیا ہے اور ترمذی شریف حدیث کی وہ کتاب ہے کہ جس کے متعلق محدثین نے فرمایا جس کے گھر میں یہ کتاب موجود ہو وہ یوں سمجھے کہ رب تعالیٰ کا رسول میرے گھر میں موجود اور تشریف فرما ہے امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کو موضوع اور من گھڑت بھی نہیں کہا اور ضعیف بھی نہیں کہا بلکہ انہوں نے اس کو حسن کہا ہے اصول حدیث میں یہ واضح ہے کہ حسن حدیث حجت و دلیل اور سند ہوسکتی ہے۔
اور پھر اشرف علی تھانوی صاحب نے تصریح کردی ہے کہ میسرہ ضبی کی روایت میں بھی اسی طرح کے الفاظ آتے ہیں گویا یہ روایت دو صحابیوں سے مروی ہوئی اس طرح کل چار صحابیوں (حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری، حضرت عرباض بن ساریہ، حضرت ابوھریرہ اور حضرت میسرہ ضبی رضی اللہ عنہم) کی شہادت اور گواہی اب تک آچکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق و ایجاد سے پہلے نبوت و رسالت اور خاتم النبیین کے منصب پر فائز ہوچکے تھے۔
علاوہ ازیں اس کو امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے جو اہل سنت کے چوتھے امام ہیں اور امام ابو حنیفہ، امام ابو مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ کے بعد ان کا درجہ ہے۔
پھر امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی تاریخ میں اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کے استاد ابو نعیم نے اس کو حلیہ میں نقل کیا ہے اور حاکم جیسے محدث نے اس کی تصحیح کی ہے۔ حاکم رحمہ اللہ تعالیٰ وہ محدث ہیں جس نے بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ و مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ سے رہ جانے والی صحیح احادیث کو جمع کیا ہے اور اس کتاب کا نام مستدرک رکھا ہے۔ (تنویر الابصار ص ۲۲)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور و بشر ہونا:
قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالیٰ اسی مسئلہ پر دلیل قائم فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر بشری ہے اور باطن نوری ہے۔
’’کما قال ﷺ تنام عینی ولا ینام قلبی یعنی فیما یدل علی ان باطنہ ملکی وظاھرہ بشری‘‘
جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل جاگتا ہے۔
آپ کا ارشاد گرامی اس پر دلالت کر رہا ہے کہ آپ کا باطن ملکی (فرشتوں کی طرح نورانی) ہے اور آپ کا ظاہر بشری ہے قاضی شہاب خفاجی فرماتے ہیں:
’’وکذالک سائر الانبیاء تنام اعینھم دون قلوبھم کما ورد مصر حابہ فی حدیث البخاری‘‘
اسی طرح دوسرے تمام انبیائے کرام کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل بیدار رہتے ہیں۔ جس طرح بخاری کی حدیث میں صراحتاً ذکر ہے۔
یعنی تمام انبیائے کرام کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان کا ظاہر بشر اور باطن نور ہے۔ البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور نور من نور اللہ ہے اور تمام کائنات کے لیے اصل و بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے یعنی آپ کا نور تمام انبیائے کرام کی نورانیت کا بھی اصل ہے۔
’’وھذا دلیل علی ان ظاھرہ ﷺ بشری وباطنہ ملکی ولذا قالوا ان نومہ لا ینقض الوضوء کما صرحوا بہ ولا یقاس علیہ غیرہ من الامۃ کما توھم ونوضأ بعد نومہ استحبابا او تعلیما لغیرہ اولعروض ما یقتضیہ‘‘ (نسیم الریاض ج ۳ ص ۵۴۵)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی: کہ میری آنکھیں سوتی ہیں دل بیدار ہوتا ہے یہ دلیل ہے اس پر کہ آپ کا ظاہر بشری ہے اور باطن ملکی نورانی ہے اسی وجہ سے محدثین کرام فقہاء عظام نے اتفاقی طور پر ارشاد فرمایا کہ بے شک آپ کی نیند سے آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند پر آپ کے کسی امتی کی نیند کو قیاس نہیں کیا جاسکتا یعنی صحابہ کرام اولیائے کرام اور امت کے کسی فرد کو بھی یہ مقام حاصل نہیں اگر کسی صحابی یا ولی کے متعلق کوئی یہ کہے کہ اس کی نیند سے اس کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا یہ اس کا وہم ہوگا غلط سوچ ہو گی اس شخص کی بات کو تسلیم نہ کیا جائے۔
خیال رہے کہ علامہ شامی رحمہ اللہ تعالیٰ نے وضاحت کی ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی نیند سے ان کے وضو نہیں ٹوٹتے تھے میں نور الایضاح کے عربی حاشیہ ذیعۃ النجاح میں بفضلہٖ تعالیٰ اسے ذکر کیا ہے جبکہ ہدایہ تک تمام فقہی کتب کے محشی حضرات اسے ذکر نہ کرسکے یا دیدہ دانستہ ذکر نہیں کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جاگنے کے بعد وضو کرتے تھے آپ کا یہ وضو کرنا وجوبی طور پر نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ مستحب سمجھ کر آپ وضو کرتے یا تعلیم امت کے لیے یا آپ کو چونکہ معلوم ہوتا تھا کہ سوتے ہوئے کوئی چیز وضو کے خلاف سرزد ہوئی ہے اس لیے آپ کبھی کبھی اپنے علم کے مطابق وضو ٹوٹنے کی وجہ سے وضو کرتے ہوں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانیت کا ثبوت قرآن پاک سے:
قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌo (پ ۶ سورۃ المائدۃ آیت ۱۵)
بے شک تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں تین قول ملتے ہیں ایک عام مفسرین کا جنہوں نے نور سے مراد نبی کریم اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک لیا ہے دوسرا قول معتزلہ کا ہے جنہوں نے نور اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک لیا تیسرا قول محققین کا ہے جیسے علامہ آلوسی اورملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ انہوں نے نور اور کتاب مبین دونوں سے ہی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیے ہیں۔
علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’قد جاء کم من اللہ نور عظیم وھو نور الانوار والنبی المختارﷺ‘‘
نور سے مراد نور عظیم ہے جو سب نوروں کا نور ہے۔ یعنی تمام نوروں کا اصل ہے اور وہ نبی مختار صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
’’والی ھذا ذھب قتادہ و اختارہ الزجاج‘‘
یہی قول قتادہ کا ہے اور ز جاج نے بھی اسی قول کو مختار قرار دیا ہے۔
’’وقال ابو علی الجبائی عنی بالنور القرآن لکشفہ واظھارہ طرق الھدی والیقین واقتصر علی ذالک زمحشری وعلیہ فالعطف فی قولہ تعالیٰ وکتاب مبین لتنزیل المغایرۃ بالعنوان منزلۃ المغایرۃ بالذات‘‘
ابو علی جبائی نے کہا ہے نور سے مراد بھی قرآن ہے کیونکہ قرآن ہدایت و یقین کے راستوں کو ظاہر کرنے والا ہے اور منکشف کرنے والا ہے اس لیے اسے نور کہا گیا ہے زمحشری نے بھی اسی قول پر اقتصار کیا ہے اس قول پر بظاہر ایک اعتراض تھا کہ عطف مغائرت کے لیے آتا ہے جب معطوف اور معطوف علیہ دونوں سے مراد قرآن پاک ہے لیکن دو نام علیحدہ علیحدہ ذکر کیے گئے ہیں علیحدہ علیحدہ عنوان کی وجہ سے جو مغائرت پائی گئی ہے وہ مغائرت ذاتی کے درجے میں ہے۔
’’واما علی الاول فھو ظاھر‘‘
پہلا قول زیادہ ظاہر ہے جس میں نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کتاب مبین سے مرد قرآن پاک ہے۔
’’وقال الطیبی انہ اوفق لتکریر قولہ سبحانہ قد جاء کم بغیر عطف فعلق بہ اولا وصف الرسول والثانی وصف الکتاب‘‘
علامہ طیّبی رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی لینا زیادہ مناسب ہے کیونکہ پہلے ’’قَدْ جَاءَ کُمْ رَسُوْلُنَا‘‘ ذکر کیا گیا ہے اور پھر بغیر حرف عطف کے’’ قَدْ جَاءَ کُمْ مِنَ اللہِ نُوْرٌ‘‘ ذکر کیا گیا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دونوں سے مراد ایک ہی ذات ہے اس لیے حرف عطف ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ وہ مغائرت پر دلالت کرتا ہے۔
علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ولا یبعد عندی ان یراد بالنور والکتاب المبین النبی ﷺ والعطف علیہ کالعطف علی ماقالہ الجبائی ولا شک فی صحۃ اطلاق کل علیہ علیہ الصلوۃ والسلام‘‘
میرے نزدیک یہ کوئی بعید بات نہیں کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اگر کوئی اعتراض کرے کہ عطف مغائرت کے لیے آتا ہے معطوف اور معطوف علیہ دونوں سے مراد ایک ذات کیسے؟ تو اس کا ہم بھی وہی جواب دیں گے جو جبائی نے دیا ہے کہ عنوان کی مغائرت کو مغائرت کے درجے میں رکھ کر عطف کو صحیح قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نور اور کتاب مبین دونوں کا اطلاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے۔(از روح المعانی پ ۶)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دونوں کا اطلاق کیسے صحیح ہے؟ اس کا جواب ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے واضح ہوجاتا ہے آپ فرماتے ہیں:
’’ای مانع من ان یجعل النعتان للرسول ﷺ فانہ نور عظیم لکمال ظھورہ بین الانوار وکتاب مبین حیث انہ جامع لجمیع الاسرار ومظھر للاحکام والا حوال والا خبار‘‘ (شرح شفا ج ۱ ص ۴۲)
نور اور کتاب مبین دونوں صفتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنانے میں کون سا مانع موجود ہے؟ یعنی کوئی مانع نہیں؛ کیونکہ آپ نور عظیم ہیں اس لیے کہ سب نوروں سے آپ کا نور زیادہ ظاہر ہے۔ اور آپ کتاب مبین (روشن کتاب) ہیں کیونکہ آپ تمام اسرار کے جامع ہونے کی وجہ سے کتاب ہیں اور تمام احکام احوال اور اخبار کے ظاہر کرنے کی وجہ سے ’’مبین‘‘ ہیں۔
تنبیہ:
مذکورہ بحث سے واضح ہوا کہ آیت کریمہ میں نور سے مراد قرآن پاک جبائی اور زمحشری نے لیا ہے اور اہل علم سے مخفی نہیں کہ یہ معتزلہ کے رئیس ہیں عام اہل علم کا قول یہ ہے کہ نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک اور محققین حضرات نے دونوں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیا ہے۔
اعتراض:
سب سے پہلے تخلیق قلم کی ہے نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی کیونکہ قلم کے اول المخلوقات ہونے والی حدیث صحیح ہے۔
’’اول ما خلق اللہ القلم‘‘ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی تخلیق سب سے پہلے ہونے کی روایت ضعیف ہے صحیح کے مقابل ضعیف کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے؟
جواب: سب سے پہلے تو ہم یہ ضابطہ ہی تسلیم نہیں کرتے کہ ضعیف کو مطلقاً چھوڑ دیا جاتا ہے بلکہ قانون یہ ہے کہ دلیل قطعی اور ظنی کا جب تعارض آجائے تو ان میں تطبیق دینے کی کوشش کی جائے اگر ان میں تطبیق ثابت ہوجائے تو بہتر ورنہ ظنی کو چھوڑ دیا جائے قرآن پاک میں:
فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُo (پ ۲۹ سورۃ المزمل آیت ۲۰)
قرآن پاک جہاں سے بھی آسان ہو پڑھو۔
اس آیت سے نماز میں قرآن پاک کا مطلقاً (کسی سورت سے بھی ہو جہاں سے بھی انسان پڑھنا چاہے پڑھ لے) پڑھنا فرض ثابت ہو رہا ہے لیکن حدیث پاک میں ہے:
’’لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب‘‘
جس کا ظاہری معنی ہے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں۔
قرآن پاک کی آیت قطعی الدلالۃ ہے اور حدیث پاک جو خبر واحد ہے ظنی الدلالۃ ہے لیکن حدیث پاک کو مطلقاً چھوڑ دینے کا قول باطل ہوگا بلکہ اہل علم نے ان میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ قرآن پاک کی آیت کریمہ سے نماز میں قرات کی فرضیت ثابت ہو رہی ہے اور حدیث پاک سے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ثابت ہو رہا ہے اب حدیث پاک ’’لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب‘‘ کا صحیح ترجمہ یہ ہوگا کہ سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بغیر نماز کامل نہیں نفی کمال کی ہوگی مطلقاً وجود کی نہیں جیسے ’’لا ایمان لمن لا امانۃ لہ‘‘ کا ترجمہ بھی یہی ہوگا کہ جو شخص امانت کا پاس نہیں کرتا اس کا ایمان کامل نہیں۔
اس تمہید کے بعد جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ قلم کی تخلیق کی اولیت اضافی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی تخلیق میں اولیت حقیقی ہے۔
یہی قول اہل علم، محققین، متقین اور کامل ایمان والوں کا ہے ہاں البتہ جن کا ایمان ضعیف ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پر دلالت کرنے والی احادیث کو ضعیف کر کے رد کرتے ہی رہتے ہیں۔
مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗo (پ ۹ سورۃ الاعراف آیت ۱۸۶)
جن کے دلوں پر مہر لگا کر گمراہی کا طوق ان کے گلے میں رب تعالیٰ ڈال دے پھر انہیں ہدایت دینے کی کسے مجال ہوسکتی ہے آئیے اہل علم کے ارشادات دیکھیے۔
’’قال رسول اللہ ﷺ کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السموات والارض بخمسین الف سنۃ قال وکان عرشہ علی الماء‘‘ (رواہ مسلم، مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر)
سر ور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی مقادیر لکھوادی تھیں جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا۔
اس حدیث پاک سے صاف ظاہر ہے کہ عرش پہلے موجود تھا علاوہ ازیں قلم کو پیدا کر کے یہ حکم دیا گیا تھا ’’اکتب‘‘ لکھ اس نے عرض کیا کیا لکھوں؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اکتب القدر‘‘ تقدیر خدا وندی کو لکھ۔
’’فکتب ماکان وماھو کالن الی الابد‘‘
تو اس نے جو کچھ ہوچکا تھا وہ بھی لکھ دیا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا، وہ بھی لکھ دیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ قلم سے پہلے مخلوقات تھی، جس کو ماکان سے تعبیر کیا گیا، جب یہاں اولیت ہی اضافی ہے تو اس حدیث کی آڑ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور اقدس کی اوَلیت سے انکار کرنے کا کیا معنی؟
علامہ علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد اول ص ۱۶۶ پر فرماتے ہیں:
’’فی الازھار اول ما خلق اللہ القلم یعنی بعد العرش والماء والماء والریح لقولہ علیہ السلام کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السموات والارضین بخمسین الف سنۃ وکان عرشہ علی الماء‘‘ (رواہ مسلم)
’’وعن ابن عباس رضی اللہ عنھما عن قولہ تعالیٰ وکان عرشہ علی الماء علی ای شیء کان الماء قال علی متن الریح‘‘ (رواہ البیہقی و ذکرہ الابھری)
از ہار میں ہے کہ قلم کے اول المخلوقات ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عرش پانی اور ہوا کے بعد یہ پہلی مخلوق ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مقادیر خلائق کو لکھوادیا تھا اور اس کا عرش پانی پر تھا۔
اور حضرت عبد اللہ بن عباس سے دریافت کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا عرش پانی پر تھا تو یہ فرمائیے کہ پانی کس پر تھا؟ انہوں نے فرمایا ہوا کی پشت پر۔
’’فالا ولیۃ اضافیۃ‘‘ اس سے واضح ہوا کہ ’’اول ما خلق اللہ القلم‘‘ میں اولیت حقیقی نہیں بلکہ اضافہ ہے تو اس صورت میں حدیث نور میں اولیت حقیقی ہونے سے یہ حدیث کیونکر مانع ہوسکتی ہے اور یہی تحقیق علماء اعلام اور مقتدایان نے ذکر کی ہے۔
علامہ علی قاری نے فرمایا:
’’فالاولیۃ اضافیۃ والاول الحقیقی فھو النور المحمدی علی ما بینتہ فی المورد للمولد‘‘
نور محمدی اول تخلیق حقیقی ہے جس طرح کہ میں نے رسالہ المورد للمولد میں اس کی تحقیق بیان کی ہے اور قلم میں اولیت اضافی ہے۔
نیز علامہ علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ مرقاۃ میں علامہ ابن حجر ھیتمی مکی رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’قال ابن حجر اختلفت الروایات فی اول المخلوقات وحاصلھا کما بینتھا فی شرح شمائل الترمذی ان اول النور الذی خلق منہ علیہ الصلوۃ والسلام ثم الماء ثم العرش اول المخلوقات‘‘ (مرقاۃ جلد اول ص ۱۴۶)
ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اول المخلوقات کون سی شے ہے؟ اس میں روایات مختلف ہیں مگر ان میں تطبیق کی صورت وہ ہے جو میں نے شمائل ترمذی میں ذکر کی ہے کہ سب سے اول نور وہ ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا گیا اس کے بعد پانی اور اس کے بعد عرش۔
علامہ قسطلانی نے اس مسئلہ یعنی قلم کے اول مخلوق ہونے کی بحث کرتے ہوئے فرمایا:
’’اولیۃ القلم بالنسبۃ الی ماعدا النور المحمدی والماء والعرش وقیل الاولیۃ فی کل بالاضافۃ الی جنسہ ای اول ما خلق اللہ من الانوار نوری وکذا فی باقیھا‘‘ (مواھب لدنیہ مع زرقانی ج ۱ ص ۴۷ ۔ ۴۸)
اولیت کے بیان میں روایات مختلف ہیں ان تمام میں تطبیق اور موافقت اس طرح ہے کہ قلم کا اول الخلق ہونا نور محمدی پانی اور عرش کے ماسوا کے اعتبار سے ہے اور یہ توجیہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ہر شے کی اولیت اپنی اپنی جنس کے لحاظ سے ہے یعنی انوار میں سب سے پہلے نور محمدی کو پیدا کیا گیا اور اقلام میں سے اس قلم کو جس نے تقدیریں لکھیں اور جن اشیاء پر عرش کا لفظ بولا جاتا ہے ان میں سے عرش اعظم کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا ہے۔
تنبیہ:
نور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولیت کے بیان والی حدیث کو صرف ضعیف ایمان والوں نے ضعیف کھا ہے ورنہ امام قسطلانی علامہ ابن حجر ہیتمی ملا علی قاری، علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے کسی نے بھی ضعیف نہیں کہا۔ (ماخوذ از تنویر الابصار ص ۹۸)
عوام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف بشر نہ کہیں:
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری طور پر بشر ہیں اور باطنی طور پر نور ہیں لیکن عوام جو بشر کے معنی کمال سے بے خبر ہیں وہ لفظ بشر کے ساتھ اور الفاظ بھی ملائیں جو تعظیم پر دلالت کریں اس مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے سید الاولیاء حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس میں شک نہیں کہ اہل ایمان کے لیے ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بطریق تکریم و تعظیم واجب اور ضروری ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ لفظ بشر کے معنی میں بحسب لغت عربیہ عظمت و کمال پایا جاتا ہے یا حقارت میری ناقص رائے میں لفظ بشر مفہوماً و مصداقاً متضمن بہ کمال ہے مگر چونکہ اس کمال تک ہر کس و ناکس سوائے اہل تحقیق و عرفان کے رسائی نہیں رکھتا لہذا اطلاق لفظ بشر میں خواص بلکہ اخص الخواص کا حکم عوام سے علیحدہ ہے، خواص کے لیے جائز اور عوام کے لیے بغیر زیادت لفظ دال بر تعظیم نا جائز‘‘۔
توضیح:
آدم علی نبینا وعلیہ السلام کو بشر کس واسطے کہا گیا؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ آدم علی نبینا وعلیہ السلام کو شرف مباشرت بالیدین عطا فرمایا گیا ہے۔
مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّo (پ ۲۳ سورۃ ص آیت ۷۵)
کس چیز نے تجھے اس (آدم) کو سجدہ کرنے سے منع کیا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔
چونکہ ملائکہ کمال آدم علیہ السلام سے بے خبر تھے ایسا ہی ابلیس ’’فقالوا ما قالوا‘‘ (انہوں نے وہ کہا جو کہا) فرق اتنا ہے کہ ملائکہ جتلانے کے بعد سمجھ گئے اور معترفِ بالتصور ہوئے۔
قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاo (پ ۱ سورۃ البقرۃ آیت ۳۲)
فرشتوں نے کہا تو پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے عطا کیا ہے۔
اور ابلیس کو علاوہ قصور جہل کے غرور بھی تھا لہذا وہ
’’اَبیٰ وَاسْتَکْبَرَ‘‘ شیطان نے انکار کیا اور تکبر کیا ..... کا مصداق بنا۔
بشر ہی کو کمال استجلاء کے لیے مظہر بنایا گیا ہے اور ملائکہ بوجہ نقص مظہریت اس کمال سے محروم ٹھہرے اور مظاہر اور مرایا کمالات استجلائیہ سے از گروہ انبیاء علیہم السلام سیدنا ابو القاسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اصالۃ و ازجماعت اولیائے کرام وارث مصرع
’’وانی علی قدم النبی بدر الکمال‘‘ اور میں نبی بدر کمال کے نقش قدم پر ہوں۔ (قصیدہ غوثیہ)
سیدنا عبدالقادر وامثالہ رضی اللہ عنہم وراثتاً مظہر اکمل وا اتم لاسمہ الا عظم ٹھہرے، بشر ہی کے لیے تنزل اخیر ہونے کے باعث اس قدر اہتمام ہوا کہ ہئیت اجتماعیہ و ترکیبات اسمائیہ واتصالات و اوضاع ’’انی خمرت طینۃ آدم‘‘ سے لے کر تا ظہور جسد عنصری صلی اللہ علیہ وسلم واتباعہ من الاکمل کو متوجہ کیا گیا ہے اور خدام بنائے گئے تاکہ:
’’من رأنی فقد رأی الحق‘‘ جس نے میرا دیدار کیا اس نے خدائے تعالیٰ کا دیدار کیا (الحدیث)
کا آئینہ و چہرہ علی وجہ الکمال اور پورا حق نما ہو۔ قصہ مختصر بشر ہی ہے کہ جس کو .....
گر خواھی خدا بینی در چھرہ من بنگر
من آئینہ اویم او نیست جدا از من
(گر تو خدا کو دیکھنا چاہتا ہے تو میرے چہرہ کو دیکھ میں اس کا آئینہ ہوں وہ مجھ سے جدا نہیں ہے۔)
..... ہونے اور کہنے کا استحاق حاصل ہے۔
اس تقریر سے ثابت ہوا کہ عارف کو بشر کہنا از قبیل ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بالا سماء المعظمہ ہوا بخلاف غیر عارف کے اس کے لیے بغیر انضمام کلمات تعظیم صرف لفظ بشر ذکر کرنا جائز نہیں چنانچہ آیت کریمہ میں بشر کے بعد
’’یُوْحٰی اِلَّی‘‘ میری طرف وحی کی جاتی ہے۔
اور تشہد میں عہدہ کے بعد و رسولہ کا ذکر ہے اور کلام اہل عرفان میں ہے۔
فمبلغ العلم فیہ انہ بشر
وانہ خیر خلق اللہ کلھم
(قصیدہ بردہ)
ہمارا نہایت علم یہ ہے کہ بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں اور بے شک اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق سے بہتر ہیں۔ (فتاوٰی مھریہ ص ۴)
خلاصہ کلام:
حضرت کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اہل علم جو بشر کا معنی اور اس میں جو کمالات پائے جاتے ہیں انہیں جانتے ہیں وہ تو بشر کہہ سکتے ہیں لیکن عام لوگوں کو بشر کے ساتھ اور الفاظ بھی ذکر کرنے چاہئیں تاکہ انہیں بھی آپ کی عظمت کا پتہ ہو مثلا سید الکائنات افضل الانبیاء حبیب خدا وغیرہ الفاظ ساتھ ملائے جائیں۔
حقیقت میں بشر میں وہ کمال ہے جو فرشتوں کو بھی حاصل نہیں ہوا کیونکہ رب تعالیٰ نے اپنی ذات صفات اور اسماء کا مظہر صرف بشر کو ہی بنایا ہے اس کمال سے فرشتے محروم ہیں پھر یہ وصف کمال تمام انبیائے کرام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر کسی واسطہ کے عطا ہوا لیکن اولیائے کرام کو آپ کے واسطہ سے یہ کمال عطا کیا گیا پھر اولیائے کرام میں جلیل القدر ہستیوں یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی اور اس قسم کے اولیائے کرام کو بالواسطہ یہ کمال اعلی درجہ کا حاصل ہوا دوسرے حضرات کو کچھ کم انبیائے کرام کو بعض بعض صفات اور بعض بعض اسماء گرامی کا مظہر بنایا گیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رب تعالیٰ کی آٹھ صفات مختصہ کے بغیر تمام صفات کے مظہر ہیں۔
جب یہ بات کسی کی سمجھ میں آجائے کہ بشر اس شان والے عظیم شخص کو کہا جاتا ہے اور اس کمال میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں وہ تو سمجھ سکتا ہے کہ بشر آپ کا عظیم وصف ہے لیکن عام انسان تو بشر کا معنی یہی سمجھے گا کہ معاذ اللہ آپ بھی ہماری طرح تھے ایسا سمجھنا ہی دین سے دور ہونے کا نام ہے اور ایسے شخص کو صرف لفظ بشر کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
امتناعِ نظیر:
امتناع نظیر کا یہ مطلب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مثل پیدا کرنا رب تعالیٰ کی قدرت سے خارج ہے۔ جو چیزیں محال بالذات ممتنع بالذات ہیں وہ اگر اللہ تعالیٰ کی قدرت سے خارج ہوں تو رب تعالیٰ کی شان اور قدرت میں کوئی نقص لازم نہیں آتا کیونکہ وہ اشیاء اس قابل نہیں کہ رب تعالیٰ کی قدرت میں آسکیں۔ اس مسئلہ کو سید الاولیاء حضرت علامہ پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
مقدمات:
۱۔ ممتنعات ذاتیہ کا احاطہ قدرت سبحانہ سے خروج کمال ذاتی باری پر دھبہ نہیں لگاتا بلکہ یہ قصور راجع بجانب قابل ہے کہ ممتنع ذاتی قبولیت کا صالح نہیں۔
۲۔ انقلاب حقائق واقعہ کا خواہ معدودات سے ہوں مثل انسان، فرس، بقر، غنم، کے یا مراتب عددیہ سے ہوں مثل ایک دو تین چار یا مختلط یعنی معدود بحیثیت عروض مرتبہ عددی مثلاً زید جو اول مولود ہے بہ نسبت باقی اولاد عمر و کے ممتنع بالذات ہیں۔
۳۔ کسی چیز کی نظیر اس چیز کو کہا جاتا ہے کہ علاوہ مشارکت نوعی کے اوصاف ممّیزہ کاملہ میں اس چیز کی ہم پلہ ہو۔
۴۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحسب الحقیقۃ الروحانیۃ النوریۃ اول مخلوق ہیں:
’’اول ماخلق اللہ نوری‘‘ اور ’’اول ما خلق اللہ العفل‘‘
تصریحات محققین ازاہل کشف و شمود اس پر شاہد ہیں:
’’کما قال الشیخ الاکبر قدس اللہ سرہ الاطھر قلم یکن اقرب الیہ قبولا فی ذالک الھباء الا حقیقۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم المسماۃ بالعقل فکان مبدأ العالم باسرہ و اول ظاھر فی الوجود فکان وجود ہ من ذالک النور الالھی‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا کیا ہے یا یہ ارشاد کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا ہے ان دونوں کا مطلب ہے شیخ اکبر قدس سرہ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ وہی نور جس کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا اور حقیقت محمدیہ کہلایا اسی کا نام عقل بھی ہے جو تمام عالم کا مبدا ہے تمام جہان سے پہلے اسی نور کا وجود ہے اور وہ نور نور الٰہی سے معروض وجود میں آیا ہے۔
جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اولیت کی صفت سے متصف ہیں اسی طرح آخریت کی صفت سے بھی متصف ہیں کہ آپ آخر الانبیاء ہیں:
ارشاد خدا وندی: وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَo (پ ۲۲ سورۃ الاحزاب آیت ۴۰)
لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔
اہل بصیرت کو ان مقدمات مذکورہ پر گہری نظر ڈالنے سے ثابت ہوجاتا ہے کہ نظیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ممتنع بالذات بایں معنی ہے کہ خالق سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو ایسا بنایا ہے کہ اور ایسے کاملہ ممیّزہ مختصہ صفات کے ساتھ سنوارا ہے کہ جس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ در صورت وجود نظریر انقلاب حقیقت لازم آتا ہے کیونکہ فرض نظیر کا وجود آپ کے بعد ہی ہوگا تو لامحالہ ایسا معدوم ہوگا جس کو مرتبہ ثانیہ عددی عارض ہو اور نظیر کہلانے کا مستحق جب ہی ہوسکتا ہے کہ وصف ممیّز کامل یعنی اول مخلوقیت و ختم نبوت میں مشارک ہو تو معروض مرتبہ ثانیہ کا معروض مرتبہ اولیٰ کا ہو۔ (یہ ممتنع بالذات ہے، ایسا ہو نہیں سکتا)۔
ایسا ہی بلحاظ ختمیت فرض کیا کہ آپ مثلاً چھٹے مرتبہ میں تو نظیر آپ کی معروض ساتویں مرتبہ کی مثل ہوکر معروض مرتبہ سادسہ کی ہوگی ’’وھو خلف‘‘ (یہی حقیقت کے خلاف ہے)۔
ہاں اس میں شک نہیں کہ ممتنعات ذاتیہ میں سے دو قسم اولین اور قسم ثالث میں فرق ظاہر ہے کیونکہ قسم ثالث کا امتناع اوصاف عارضہ کے لحاظ سے ہے اس لیے کہ محل بحث امتناع یا امکان نظیر ہے نہ امتناع یا امکان مثل خلاصہ یہ کہ آئینہ احمد صلی اللہ علیہ وسلم میں خالق عز مجدہ نے جداگانہ کمال دکھایا یعنی ایسا بنایا کہ نظیرش امکان ندا رد (جس کی نظیر ممکن نہیں)۔
’’فھذا الکمال راجع الیہ سبحانہ کما ان الجمال مختص بہ من منع اللہ فسبحان من خلقہ واحسنہ واجملہ واکملہ‘‘ (فتاوی مھریہ ص ۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شان سے پیدا کرنا در حقیقت رب تعالیٰ کا ہی کمال ہے جس طرح یہ شان اور جمال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختص ہے وہ بھی در حقیقت اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہی وہ ذات پاک ہے جس نے آپ کو اس جداگانہ شان سے بنایا اور آپ کو سب زیادہ حسین اور سب سے زیادہ جمیل اور سب سے زیادہ با کمال بنایا۔
خلاصہ کلام:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رب تعالیٰ سب کائنات سے اول معرض وجود میں لایا اور آپ کو خاتم الانبیاء بنایا اگر آپ کی نظیر کوئی اور بھی بن سکے تو اسے بھی یہ دونوں وصف حاصل ہوں گے حالانکہ اول تو ایک ہی ہوتا ہے اس کے بعد آنے والے تو دوسرے درجہ میں ہوجاتے ہیں اور اسی طرح خاتم بھی ایک ہی ہوتا ہے اس کے بعد اس کی نظیر کو اگر خاتم کہا جائے گا تو پہلی ذات کا خاتم ہونا باطل ہوگا یہ دونوں صورتیں ممتنع بالذات ہیں ممتنع بالذات قدرت باری سے خارج ہیں ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ یہ رب تعالیٰ کی قدرت میں آسکیں رب تعالیٰ کی قدرت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔
حقیقت محمدیہ موجودات عالم میں جاری و ساری ہے:
مولنا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ شرح و قایہ کی شرح سعایہ میں فرماتے ہیں
’’السر فی خطاب التشھد ان الحقیقۃ المحمدیۃ کانھا ساریۃ فی کل وجود وحاضرۃ فی باطن کل عبد وانکشاف ھذہ الحالۃ علی الوجہ الاتم فی حالۃ الصلوۃ فحصل محل الخطاب وقال بعض اھل المعروفۃ ان العبد لماتشرف بشاء اللہ فکانہ فی حریم الحرام الالھی ونور البصیرہ و وجد الحبیب حاضرا فی حرم الحبیب فاقبل علیہ وقال السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘۔
تشہد میں خطاب یعنی ’’السلام علیک ایھا النبی‘‘ میں راز یہ ہے کہ حقیقت محمد یہ ہر وجود میں جاری و ساری ہے اور ہر بندے کے باطن میں موجود ہے نماز کی حالت میں اس حالت کا کامل انکشاف ہوتا ہے پس محل خطاب حاصل ہوجاتا ہے بعض اہل معرفت نے کہا ہے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کی ثناء سے مشرف ہوتا ہے تو گویا اس کو حرم حریم الٰہی میں جگہ مل گئی اور نور بصیرت اس کو حاصل ہوا۔
حبیب (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) کو دربار حبیب (اللہ تعالیٰ) میں موجود پایا تو فورا آپ کی طرف متوجہ ہوکر صیغہ خطاب سے کہا: السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اے نبی آپ پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکات ہوں۔
اشعۃ اللمعات میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’نیز آنحضرت ھمیشہ نصب العین مومناں وقرۃ العین عابداں است در جمیع احوال و اوقات خصوصا در حالت عبادت و آخر آں کہ وجود نورانیت و انکشاف دریں احوال بیشتر و قوی تراست و بعضے از عرفاء گفتہ اند کہ ایں خطاب بجھت سریان حقیقت محمدیہ است در ذرائر موجودات وافراد ممکنات پس آنحضرت درذات مصلیان موجود و حاضر است پس مصلی راباید کہ ازیں بآگاہ باشد وازیں شھود غافل نہ بو دتا بانوار قرب و اسرار معرفت منتورو فائز گرد‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کا نصب العین اور عبادت گزاروں کی آنکھوں کی ٹھندک ہیں جمیع احول اوقات میں خصوصاً حالت عبادت میں اور اس کے آخر میں نورانیت کا وجود اور انکشاف ان احوال میں زیادہ اور بہت قوی ہوتا ہے بعض عرفاء نے کہا ہے تشہد میں خطاب اسی وجہ سے ہے کہ حقیقت محمدیہ موجودات کے تمام ذرات اور ممکنات کے تمام افراد میں جاری و ساری ہے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نمازیوں کی ذاتوں میں موجود ہوتے ہیں لہذا نمازی کو چاہیے کہ اس معنی سے آگاہ رہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی سے غافل نہ رہے تاکہ انوار قرب اور اسرار معرفت سے منور اور فیضیاب ہو۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ویحتمل ان یقال علی طریق اھل العرفان ان المصلین لما استفتحوا باب الملکوت بالتحیات اذن لھم بالد خول فی حریم الخی الذی لا یموت فقرت اعینھم بالمناجات فنبھوا علی نوالک بواسطۃ نبی الرحمۃ و برکۃ متابعۃ فالتفتوا فاذا الحبیب فی حرم الحبیب حاضر فاقبلوا علیہ قائلین السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ (فتح الباری شرح بخاری ج ۲ ص ۲۵۰ (مطبوعہ مصر ))
اہل معرفت کے طریقہ پر یوں کہا جاسکتا ہے کہ بیشک نمازی جب التحیات کے ذریعے ملکوت کا دروازہ کھلوا لیتے ہیں ان کو حی لا یموت کی بارگاہ میں داخل ہونے کی اجازت مل جاتی ہے مناجات سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے ان کو اس پر متنبہ کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ تمہیں نبی رحمت اور ان کی تابعداری کی برکت کے وسیلہ سے حاصل ہے وہ فوراً توجہ کرتے ہیں تو حبیب کو حرم حبیب میں موجود پاتے ہیں یعنی بارگاہ ذوالجلال میں حبیب پاک کو جلوہ گر پاتے ہیں تو خطاب کے صیغے سے ’’السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہتے ہیں۔
حقیقت محمدیہ کیا ہے؟
جب یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ حقیقت محمدیہ جمیع موجودات عالم میں جاری و ساری ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ حقیقت محمدیہ کیا ہے؟ اس پر علامہ جلال الدین محقق دوانی رحمہ اللہ کا قول ان کی مشہور کتاب اخلاق جلالی کے ص ۲۵۶ میں ملاحظہ فرمائیں، آپ فرماتے ہیں:
’’تحقیق کلام دریں مقام آں است کہ با طباق اصحاب نظر و برھان و اتفاق ارباب شھود و عیاں تخستیں گوھر یکہ بامر کن فیکون بوسیلہ قدرت و ارادہ ہے چوں از دریائے غیب مکنون بساحل شھادت آمد جوھر بسیط نورانی بود کہ بعرف حکماء آنرا عقل اول خوانند و در بعضے اخبار تعبیر ازاں بقلم اعلی رفتہ واکابر ائمہ وکشف و تحقیق آں را حقیقت محمدیہ خوالند‘‘
اس مقام میں کلام کی تحقیق یہ ہے کہ اصحاب نظر و برھان اور ارباب شہود و عیاں کا اس پر اتفاق ہے کہ بے مثل ذات (اللہ تعالیٰ) کی قدرت اور اس کے ارادہ کے وسیلہ سے سب سے پہلے جوہر بسیط کن فیکون کے امر سے دریائے غیب مکنون سے ظہور کے ساحل پر آیا (معرض و جود میں آیا وہ جوہر بسیط نورانی تھا) جس کو حکماء کے عرف میں عقل اول کہا گیا ہے اور بعض احادیث میں اس کو قلم اعلی سے تعبیر کیا گیا ہے اس کو اکابرائمہ کرام اور اصحاب کشف و تحقیق نے حقیقت محمدیہ کہا ہے۔
جناب سید اولالیاء پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ مسئلہ حاضر و ناظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
میرے خیال میں ظہور و سریان حقیقت احمد یہ عالم و ہر مرتبہ اور ہر ذرہ ذرہ میں عندالمحققین من الصوفیہ ثابت ہے اس کو حقیقۃ الحائق کہتے ہیں اور لکھتے ہیں:
’’فھو نور محمدﷺ‘‘ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ہے۔
اولا جو بصورت تقی نقی اور جسد شریف عنصری کے ظاہر ہوا ظہور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بصورت مثالیہ شریفہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام ہر مکان و زمان میں احادیث صحیحہ سے ثابت ہے جس کا اقرار واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار اور اس کا انکار آپ کا انکار مانا گیا ہے:
’’کما فی حدیث البخاری فی کتاب الایمان‘‘
اس سے مراد وہ حدیث ہے جونکیرین کے سوال سے متعلق وارد ہوئی ہرمیت سے سوال کرتے ہیں۔
’’ماکنت تقول فی حق ھذا الرجال لمحمد‘‘
تم اس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا کہتے تھے۔
چونکہ اس حدیث میں لفظ ’’ھذا‘‘ استعمال ہوا ہے جو محسوس مبصر پر دلالت کرتا ہے جبکہ ایک وقت میں کئی حضرات کو دفن کیا جاتا ہے تو اس طرح آپ کو بصورت مثالیہ کئی جگہ پر تشریف فرما ہونا یقینی ہے اسی کو ماننا ایمان ہے اور اسی کا انکار کفر ہے۔
اہل تجربہ کو ظہور کذائی مثالی کا کراتا مراتاً (بار بار) اتفاق ہوتا رہتا ہے البتہ ظہور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بجسدہ العنصری العینی کا پتہ بعض اہل مشاہد کے ہاں سے ملتا ہے اور بلحاظ واقعہ معراج شریف و خصائص والوازم مختصہ جسد شریف علی صاحبھا الصلوۃ والسلام سے مستبعد (بعید) نہیں۔
’’ھذا ما عندی والعلم ما عند اللہ‘‘۔ (فتاوی مھریہ ص ۵)
’’انہ لما تعلقت ارادۃ الحق بایجاد خلقہ و تقدیر رزقہ ابرز الحقیقۃ المحمدیۃ‘‘ (مواھب لدنیۃ)
اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو موجود کرنے اور اس کے رزق کی تقدیر کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے حقیقت محمدیہ کو ظاہر فرمایا۔
زرقانی میں اس عبارت کی جو شرح بیان کی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ:
صاحب مواھب کے قول ’’ابرز الحقیقۃ المحمدیۃ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ذات کو بمع صفت اول کے سب سے پہلے ظاہر فرمایا جیسے تو قیف میں ذکر کیا گیا ہے اور لطائف کاشی میں اس طرح مذکور ہے کہ محقیقن حضرات حقیقت محمدیہ سے مراد وہ حقیقت لیتے ہیں کہ جس کو حقیقت الحقائق کہتے ہیں یہ حقیقت تمام حقائق میں اسی طرح جاری و ساری جیسے کلی اپنی جزئیات میں جاری و ساری ہوتی ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ حقیقت محمدیہ یہ حقیقۃ الحقائق کی صورت ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان بر زخ و واسطہ کی حیثیت رکھتی ہے اس وقت اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم و وصف غالب نہیں تھا یہی وہ واسطہ یعنی حقیقت محمدیہ ہی نور احمدی ہے جس کی طرف خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی اشارہ کررہا ہے وہ یہ کہ:
’’اول ما خلق اللہ نوری ای قدر علی اصل الوضع اللغوی وبھذا الا عتبار سمی المصطفی ﷺ بنور الا نوار وبابی الا رواح‘‘
سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا کیا اسی وجہ سے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور الانوار اور ابوالا رواح رکھا گیا ہے۔ (زرقانی ص ۲۷)
مختصر یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا ہے تمام مخلوق کو آپ کے نور سے پیدا کیا کیا تمام انبیائے کرام اپنی اپنی نبوتوں میں اصل نبی ہونے کے باوجود آپ کے تابع ہیں حقیقت محمدیہ تمام کائنات میں جاری و ساری ہے حقیقت محمدیہ کو عقل اول قلم اعلی جوہر بسیط نورانی نور الا نوار ابو الارواح یعنی روح الارواح کہا گیا ہے زیادہ وضاحت کے لیے میرے رسالہ عقیدہ حاضر و ناظر کا مطالعہ کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاک نسلوں سے تشریف لائے:
علامہ امام ابن جوزی نے کتاب الوفاء میں کعب بن احبار رضی اللہ عنہ سے روایت کو نقل کیا ہے کہ:
’’لما اراد اللہ عزوجل ان یخلق محمدا ﷺ امر جبرائیل علیہ السلام فاتاہ بالقبضۃ البیضاء التی ھی موضع قبر رسول اللہ ﷺ فعجنت بماء التسنیم فغمست فی انھار الجنۃ وطیفھا فی السموات فعرفت الملائکۃ محمدا ﷺ قبل ان یعرف آدم ثم کان نور محمد یری فی غرۃ جبھۃ آدم و قیل لہ یادم ھذا سید ولدک من المرسلین فلما حملت حواء بشیث انتقل النور من آدم الی حواء و کانت تلد فی کان بطن ولدین ولدین الاشیئا فانہ ولدتہ وجدہ کرامۃ لمحمدﷺ ثم لم یزل ینتقل من طاھر الی طاھر الی ان ولدتہ آمنۃ من عبد اللہ ابن عبد المطلب‘‘ (مرقاۃ ج ۱۱ ص ۴۴ باب فضائل سید المرسلین)
جب اللہ تعالیٰ نے محمد (رسول اللہ) صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو جبرائیل کو حکم دیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی جگہ سے سفید مٹی کی ایک مٹھی لی پھر اسے ماء تسنیم (جنت کی نہر تسنیم کے پانی) سے گوندھا گیا پھر اسے جنت کی نہروں میں ڈبویا گیا اور آسمانوں میں اسے پھرایا گیا پس فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو پہچاننے سے پہلے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا پھر نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو آدم علیہ السلام کی پیشانی میں رکھا گیا جس کی وجہ سے آپ کی پیشانی جگماتی تھی اور آپ کو بتایا گیا اے آدم یہ تمہاری اولاد سے ہوں گے اور تمام رسولوں کے سردار ہوں گے پس جب حضرت حوا کے پیٹ میں شیث آئے تو وہ نور آدم علیہ السلام کی پیشانی سے منتقل ہوکر حوا کے پاس آگیا حالانکہ حضرت حوا کے بطن مبارک سے دو دو بچے ہر حمل سے پیدا ہو رہے تھے لیکن (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو منقسم ہونے سے بچانے کے لیے) صرف شیث علیہ السلام ہی اکیلے پیدا ہوئے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کرامت کو مد نظر رکھا گیا پھر آپ کا نور ہمیشہ سے پاک ہستی سے پاک ہستی کی طرف منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ آپ کی والدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو عبد اللہ بن عبد المطلب سے جنا۔
خیال رہے کہ پاک نسلوں سے منتقل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے آباؤ اجداد بدکاری اور کفر سے پاک تھے طہارت کو صرف بدکاری کی نجاست سے پاک ہونے کے ساتھ خاص کرنا باطل ہے بلکہ زیادہ مقصود ہی کفر سے پاک ہونا ہے یہ تفصیل حضرت ابراہیم کے حالات میں دیکھی جائے وہاں میں نے وضاحت سے بیان کردیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری:
’’والا کثرون انہ ولد عام الفیل وانہ بعد الفیل بخمسین یوما وانہ فی شھرربیع الاول یوم الاثنین لثنتی عشرۃ خلت من عند طلوع الفجر‘‘ (مواھب، انوار محمدیہ ص ۲۷)
اکثر اہل علم کا قول یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سال دنیا میں تشریف لائے جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں پر سوار ہوکر کعبہ شریف کو شہید کرنے کی مذموم (حرکت) کی اور وہ تباہ و برباد ہوا اس سال کو عام الفیل کہتے ہیں یعنی آپ اس واقعہ کے پچاس دن بعد تشریف لائے یہ ربیع الاول کا مہینہ تھا اور اس کی بارہ تاریخ تھی پیر کا دن تھا صبح صادق کا وقت تھا۔
پیر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق:
آپ کی پیدائش پیر کے دن آپ کی نبوت عطا ہوئی پیر کے دن مکہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت پیر کے دن کی مدینہ طیبہ میں پہنچے پیر کے دن قریش کے نزاع کو مٹانے کے لیے حجر اسود کو اپنی چادر مبارک میں رکھ کر سب قبائل کے سرداروں کو اٹھانے کے متعلق ارشاد فرمایا اور خود حجر اسود کو اٹھاکر کعبہ شریف کی دیوار میں نصب کردیا یہ بھی پیر کا دن تھا مکہ شریف فتح فرمایا پیر کے دن سورہ مائدہ کا آپ پر نزول پیر کے دن ہوا تھا۔(مواھب، انوار محمدیہ ص ۲۷)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور منتقل ہونے کے بعد بھی اثر انداز رہا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پچاس دن پہلے ابرہہ کا واقعہ درپیش آیا اس وقت وہ نور حضرت عبد المطلب سے منتقل ہوکر حضرت عبد اللہ کی والدہ کے پاس اور ان سے حضرت عبد اللہ کے پاس اور ان سے حضرت آمنہ کے پاس آچکا تھا لیکن پھر بھی اس کے اثرات حضرت عبد المطلب کی پیشانی میں موجود تھے
’’فرکب عبد المطلب فی قریش حتی طلع جبل ثبیر فاستدار ت دارۃ غرۃ رسول اللہ علی جبھتہ کالھلال واشتد شعاعھا علی البیت الحرام مثل السراج فلما نظر عبد المطلب الی ذالک قال یا معشر قریش ارجعوا فقد کفیتم ھذا الامر فو اللہ ما استدار ھذا النور منی الا ان یکون الظفر لنا۔ (مواھب لدنیہ ج ۱ ص ۸۵)
حضرت عبد المطلب سوار ہوکر قریش کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر (ابرھہ کے لشکر کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے) شبیر پہاڑ پر چڑھے تو آپ کی پیشانی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور گول چاند کی طرح ظاہر ہوا اور اس کی شعاعیں چراغ کی طرح کعبہ شریف پر پڑیں۔ جب عبد المطلب نے یہ حال دیکھا تو آپ نے کہا: اے قریش کی جماعت واپس لوٹ چلو یہی تمہارے لیے کافی ہے۔ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی یہ نور میری پیشانی میں جو چمکا ہے یہ ہماری کامیابی کی دلیل ہے۔
آپ کے نور سے شام کے محلات روشن ہوگئے:
حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’انی عند اللہ مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینۃ و ساخبر کم باول امری دعوۃ ابراھیم و بشارۃ عیسی و رویا امی التی رات حین وضعتنی وقد خرج لھا نور اضاء لھا منہ قصور الشام‘‘ (شرح السنۃ، مسند احمد از ساخبر کم تا اخیر، مشکوۃ باب فضائل سید المرسلین ص ۵۱۳)
میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت بھی خاتم النبیین لکھا ہوا تھا کہ جب آدم علیہ السلام کیچڑ میں تھے یعنی آپ کا خمیر تیار کیا جا رہا تھا تمہیں اپنے اول امور کی خبر دے رہا ہوں کہ میں ابراہیم کی دعا ہوں اور عیسیٰ کی بشارت ہوں اور اپنی ماں کی رویا ہوں جو آپ نے اس وقت دیکھا جب مجھے جنا کہ آپ سے ایک نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔
دعوۃ ابراھیم سے اشارہ اس طرف تھا جو ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کے بعد دعا کی:
’’رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ‘‘ (پ ۱ سورۃ البقرۃ آیت ۱۲۹)
کہ اے ہمارے رب تعالیٰ ان میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان میں سے ہی ہو۔
’’بشارۃ عیسیٰ‘‘ سے مراد جو عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
’’وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ‘‘ (پ ۲۸ سورۃ الصف آیت ۶)
آپ نے بشارت دی کہ میرے بعد ایک رسول تشریف لائیں گے جن کا نام احمد ہوگا۔
رؤیا:
کیا رویا سے مراد خواب ہے یا ظاہر طور پر دیکھنا مراد ہے اس پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں:
’’ظاھر ھذا الکلام ان رویۃ نور اضاء بہ قصور الشام کانت فی المنام وقد جاءت الاخبار انھا کانت فی الیقظۃ واما الذی فی المنام فھو انھا رأت انہ اتاھا آت فقال لھا شعرت انک قد حملت بسید ھذہ الامۃ ونبیھا فینبغی ان یحمل الرؤیا علی الرؤیۃ بالعین واللہ اعلم‘‘ (لمعات)
اگرچہ ظاہر طور پر تو یہ سمجھ آتا ہے کہ آپ کا نور دیکھنا جس سے شام کے محلات روشن ہوئے خواب کا واقعہ ہو لیکن احادیث میں یہی واقعہ جاگتے ہوئے بھی درپیش آنے کا ذکر ہے خواب کا واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی والدہ نے خواب دیکھا کہ کوئی شخص میرے پاس آکر مجھے کہہ رہا ہے کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم اس امت کے سردار اور نبی سے حاملہ ہوچکی ہو، مناسب یہی ہے کہ اس حدیث میں رویا سے آنکھ سے جاگتے ہوئے دیکھنا مراد لیا جائے۔
راقم کے نزدیک اس حدیث میں خواب کا معنی لینا ہی حقیقت سے دوری کی علامت ہے اس لیے کہ ’’حین وضعتنی‘‘ ظرف ہے ’’رأت‘‘ کی (جس وقت میری والدہ نے مجھے جنا اس وقت دیکھا)۔ پیدائش کے وقت خواب کا دیکھنا ناممکن ہے اس حدیث میں ظاہری طور پر دیکھنا مراد لیا جائے تو یہ معنی ظاہری ترکیب کے بالکل مطابق ہے خواب والا معنی لینا تکلفات اور تاویلات سے خالی نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیر اور ربیع الاول کو پیدائش میں حکمت:
اگرچہ بظاہر عقل کا تقاضا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت رمضان المبارک میں ہوتی کیونکہ اس میں قرآن پاک نازل ہوا اور اس میں لیلۃ القدر بھی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا، ان چار مہینوں میں آپ کی پیدائش نہیں ہوئی جنہیں عزت والے مہینے کہا گیا ہے۔ شعبان کی پندرہویں رات کو آپ کی پیدائش نہیں ہوئی، جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو آپ کی پیدائش نہیں ہوئی، اس میں کیا حکمت ہے؟
اس میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے اس زمانے کو مشرف فرمایا جس میں آپ پیدا ہوئے یعنی ربیع الاول اور پیر کو آپ سے باکمال بنایا گیا اگر دوسرے با برکت اوقات میں آپ کی پیدائش ہوتی تو وہم ہوتا کہ آپ کو شاید کسی مہینہ یا کسی دن یا کسی وقت سے کمال ملا ہے۔
اور وجہ یہ ہے کہ ربیع موسم بہار کو کہتے ہیں جو تمام موسموں سے اعدل (معتدل) ہے اور احسن ہے آپ کو ربیع الاول میں پیدا فرما کر اشارہ کیا گیا ہے کہ آپ کی شریعت تمام شریعتوں سے معتدل ہے نہ اس میں افراط ہے اور نہ تفریط یعنی بہت سختیاں بھی نہیں جیسے موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں تھیں اور بہت نرمیاں بھی نہیں جیسے عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں تھیں۔
پیر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہونے میں یہ حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیر کو تمام درخت پیدا کیے گویا کہ انسانوں کا رزق پھل سبزیاں وغیرہ جن پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے وہ پیر کو پیدا ہوئے تو آپ کو بھی اس دن پیدا کر کے اشارہ فرمادیا کہ آپ کی ذات بھی انسانوں کی روحوں کو زندگی بخشنے کا ذریعہ ہے جس طرح رزق کے بغیر انسان کا زندہ رہنا محال ہے اسی طرح آپ کے بغیر ارواح کی بقا نہیں۔ (از حاوی للفتاویٰ ج ۱ ص ۱۹۷)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی کا اظہار:
علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرے نزدیک اصل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کا جو طریقہ رائج ہے وہ جائز ہے کیونکہ جو لوگ جمع ہوتے ہیں قرآن پاک پڑھتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت کے واقعات بیان کرتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور آمد باسعادت پر دلالت کرنے والی آیات بیان کرتے ہیں پھر دستر خوان بچھاتے ہیں اور سب لوگ مل کر کھانا کھاتے ہیں اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ کر چلے جاتے ہیں کوئی ناجائز کام نہیں کرتے یہ تمام کام بدعات حسنہ ہیں۔
’’التی یشاب علیھا صاحبھا لما فیہ من تعظیم قدر النبی ﷺ واظھار الفرح والا ستبشار بمولدہ الشریف‘‘ (الحاوی للفتاویٰ ج ۱ ص ۱۸۹)
جن کے کرنے پر انسان کو ثواب حاصل ہوتا ہے کیونکہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت کی تعظیم پائی جاتی ہے اور خوشی کا اظہار ہے اور آپ کی آمد باسعادت پر بشارت کا حصول ہے۔
محافل میلاد میں علماء و صلحاء کی شرکت:
ملک مظفر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی ہر سال قائم کی گئی محافل میں تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا اس کے دستر خوان پر پانچ ہزار بکریوں کے بھنے ہوئے سر اور دس ہزار مرغیاں ایک لاکھ مکھن کی ٹکیاں اور تین ہزار طشت مٹھائیوں کے رکھے جاتے۔
’’وکانک یحضر عندہ فی المولدا عیان العلماء والصوفیۃ‘‘
اس کے پاس میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل میں علمائے کرام اور صوفیہ عظام حاضر ہوا کرتے تھے یہ بھی خیال رہے کہ ملک مظفر الدین بن زین الدین ایک نیک عادل شخص تھا سلطان صلاح الدین بن ایوب کا بہنوئی تھا ایک دن صلاح الدین ایوبی کی بہن اور اس کی زوجہ نے ان کو کہا تم لباس قیمتی کیوں نہیں پہنچتے یہ پانچ درہم کے کھدر کے کپڑے پہن لیتے ہو یہ سن کر ملک مظفر نے جواب دیا:
’’لیسی ثوبا بخمسۃ والتصدق بالباقی خیر من ان البس ثوبا مثمنا وادع الفقیر والمسکین‘‘
میرے لیے پانچ درہم کالباس پہننا او رباقی صدقہ کردینا بہتر ہے بنسبت اس کے کہ میں قیمتی لباس پہنوں او رفقیروں مسکینوں کا خیال رکھنا چھوڑدوں۔
حافظ ابو الخطاب بن وحیہ جو مشہور علماء اور عظیم فضلاء سے تھے نے ایک کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے ذکر میں لکھی جس کا نام تھا ’’کتاب التنویر فی مولد الھشیر النذیر‘‘ اس میں ملک مظفر الدین نے انہیں ایک ہزار دینار انعام دیا ۶۲۵ھ میں بادشاہ کے پاس میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چھ مجلسوں میں اس کتاب کو پڑھا گیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی ولادت کاتذکرہ کیا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ ربیع الاول میں نسبت دوسرے مہینوں کے زیادہ عبادت نہیں کی لیکن اس کی وجہ یہ تھی:
’’وما ذاک الا لرحمتہ ﷺ بامتہ ورفقہ بھم لانہ علیہ الصلوۃ والسلام کان یترک العمل خشیۃ ان یفرض علی امتہ رحمۃ منہ بھم لکن اشار علیہ السلام الی فضیلۃ ھذا الشھر العظیم یقولہ للسائل الذی سالہ عن صوم یوم الاثنین ذاک یوم ولدت فیہ‘‘
کہ آپ نے اپنی امت پر رحمت و شفقت فرماتے ہوئے زیادہ عبادات اس مہینہ میں نہیں کیں کہ میری امت پر کہیں یہ فرض نہ کردی جائیں آپ اسی ڈر کی وجہ سے کئی عمل ہمیشہ نہیں فرماتے تھے لیکن اس مہینہ کی فضلیت کی طرف آپ نے اشارہ کردیا کیونکہ جب آپ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ پیر کے دن روزہ کیوں رکھتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ یہ میری پیدائش کا دن ہے۔
اس دن کی فضیلت کی وجہ سے سارا مہینہ ہی فضیلت والا ہے:
’’فینبغی ان نحترمہ حق الا احترام ونفضلہ بما فضل اللہ بہ الاشھر الفاضلۃ‘‘
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس مہینہ کا ایسا احترام کریں جیسا اس کا حق ہے اور ایسے ہی اس ماہ کو افضل سمجھیں جیسے دوسرے مہینے جن کی افضیلت کا ذکر رب تعالیٰ نے فرما دیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’انا سید ولد آدم ولا فخرو آدم فمن دونہ تحت لوائی‘‘
میں اولاد آدم کا سردار ہوں مجھے اس پر کوئی فخر نہیں اور فرمایا آدم علیہ السلام اور ان کے ماسوا میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے۔
کسی زمان یا مکان کو ذاتی طور پر کوئی فضیلت حاصل نہیں بلکہ جن عبادات اور فضیلت والے اسباب سے ان کا تعلق ہوتا ہے ان کی وجہ سے وہ زمان و مکان بھی افضل ہوجاتے ہیں جس مہینہ ااور دن میں سید الکائنات تشریف لائے یقیناً اسے بھی فضیلت حاصل ہے۔
’’الا تری ان صوم ھذا الیوم فیہ فضل عظیم لانہ ﷺ ولد فیہ‘‘
کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس دن (پیر کے دن) روزہ رکھنا بہت عظیم ہے کیونکہ اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔
’’اخرج البیھقی عن انس ان النبی ﷺ عق عن نفسہ بعد النبوۃ‘‘
بیہقی نے حضرت انس سے ایک روایت ذکر کی ہے کہ بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔
حالانکہ آپ کے دادا عبد المطلب آپ کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرچکے تھے اور عقیقہ دوبارہ لوٹایا بھی نہیں جاتا تو کیا وجہ تھی کہ آپ نے اپنا عقیقہ پھر کیا؟
’’ان الذی فعلہ النبی ﷺ اظھارا اللشکر علی ایجاد اللہ ایاہ رحمۃ اللعالمین وتشریح لامنہ کما کان یصلی علی نفسہ‘‘
آپ نے اپنا عقیقہ اس لیے کیا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے رحمت للعالمین بنایا تو آپ نے اس سے شکریہ کا اظہار فرمایا اور اس لیے بھی کہ آپ کی امت کے لیے بھی آپ کی ولادت کی خوشی منانا مشروع ہو جائے جیسا کہ آپ پر کوئی ضروری نہیں تھا کہ اپنے آپ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم درود پڑھیں لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات پر اسی وجہ سے درود پڑھتے تھے کہ آپ کی امت کے لیے سنت بھی بن جائے۔
اعتراض:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بارہ ربیع الاول کو علم تقویم کے حساب سے درست نہیں بنتی کیونکہ آپ کی پیدائش ۱۲۲؍اپریل ۵۷۱ء کو ہوئی اس کا حساب کیا جائے تو نو (۹) ربیع الاول بنتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر بارہ ربیع الاول پیدائش کا دن ثابت ہوجائے تو وہی وفات کا دن بھی ہے تو پھر اس دن خوشی کا اظہار کرنا کیسے ممکن ہوگا وہ دن تو غمی کا بھی ہے؟
جواب:
اعتراض کی پہلی صورت کا جواب تو یہ ہے کہ جناب محمد عرفان رضوی سابق ڈائریکڑ ایجوکیشن راولپنڈی نے اپنی ایک کتاب میں تقویم کی رو سے ہی بارہ ربیع الاول تاریخ کو دست ثابت کردیا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل اسلامی مہینوں کا کیلنڈر مستقل نہیں تھا بلکہ کفار اپنی مرضی سے اس میں تبدیلی کرتے تھے۔
اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةً وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَo (پ ۱۰ سورۃ التوبۃ آیت ۳۶)
بیشک مہینوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ ماہ ہے کتاب الہی میں جس روز سے اس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو ان میں سے چار عزت والے ہیں یہی دین قیم ہے پس نہ ظلم کرو ان مہینوں میں اپنے پر اور جنگ کرو تمام مشرکوں سے جس طرح وہ سب تم سے جنگ کرتے ہیں اور خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔
بارہ قمری مہینوں میں سال کی تقسیم کسی انسان کا فعل نہیں کہ اس میں ردو بدل کی گنجائش ہو بلکہ خالق ارض و سما نے یہ محکم نظام روز اول سے قائم فرمایا ہے اس میں کوئی اپنی خواہش اور مصلحت کے پیش نظر تبدیلی نہیں کرسکتا بارہ مہینوں سے چار ماہ جب ذیقعد، ذی الحج اور محرم حرمت والے مہینے ہیں ان میں ہر طرح فتنہ و فساد اور جنگ و قتال قطعا ممنوع ہے زمانہ جاہلیت میں بھی اہل عرب ان مہینوں کا بڑا احترام کیا کرتے تھے اور اگر اپنے باپ کا قاتل بھی انہیں مل جاتا تو اسے بھی کچھ نہ کہتے کتاب اللہ سے مراد یا تو لوح محفوظ ہے یا قرآن حکیم۔
’’ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ یہی محکم شریعت ہے یا سال کی تقسیم کا یہی حساب ہے اس سے معلوم ہوا کہ شرعی احکام کی بجا آوری میں انہیں قمری مہینوں کا اعتبار ہوگا قیم اصل میں قیوم تھا پھر سید کی طرح اس میں بھی تعلیل ہوئی احکام الہی سے سر تابی ہر وقت بری ہے، لیکن ان حرمت والے مہینوں میں نافرمانی بہت ہی قبیح ہے اس لیے خصوصی طور پر ان مہینوں میں باز رہنے کی تاکید فرمائی۔ نیز جس طرح مقدس اور مبارک اوقات میں نیکی کا زیادہ ثواب ملتا ہے اور اس کی برکات کا نزول دل پر زیادہ ہوتا ہے اسی طرح ان مقامات اور اوقات میں نافرمانی کی سزا بھی زیادہ ہوتی ہے اور طبیعت انسانی پر اس کی نحوست کا اثر بھی زیادہ ہوتا ہے۔
’’ان وقوع الطاعۃ فی ھذہ الاوقات اکثر تاثیرا فی طھارۃ النفس و وقوع المعاصی فیھا اقوی تاثیرا فی خبث النفس‘‘ (از کبیر)
اگر مشرک ان مہینوں کے احترام کو پس پشت ڈال دیں اور تم سے جنگ کرنے پر آمادہ ہوجائیں تو تم بھی متفق اور متحد ہوکر ان کے سامنے صف بستہ ہوجاؤ۔ کافۃ۔ کف کا مصدر ہے اور یہاں حال واقع ہوا ہے واحد تثنیہ اور جمع مذکر و مونث سب کے لیے یہی آتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد سے سال کے یہ چار مہینے حرمت اور عزت والے شمار ہوتے تھے اور ان میں لڑائی کرنے کی سخت ممانعت کردی گئی تھی نیز فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے ماہ ذوالحج کی تاریخیں مقرر تھیں کچھ عرصہ بعد اہل عرب پر اس حکم کی پابندی گراں گزرنے لگی ان کا پیشہ قزاقی رہزنی اور مار دھاڑ بن کر رہ گیا تھا تین ماہ تک متواتر (ذیقعد، ذی الحج، محرم) ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہنا ان کے لیے ناقابل برداشت تھا اس لیے انہوں نے یہ طریقہ اختیار کرلیا کہ ان مہینوں میں سے جس کو چاہا حلال کرلیا اور اس میں جی بھر کر قتل و غارت گری کی اور اس کی جگہ سال کے کسی دوسرے مہینے کو حرام کردیا حرمت والے مہینوں کی تعداد بھی چار ہی رہی۔ اور ان کا کام بھی بن گیا۔ نیز ’’حج‘‘ ایک عبادت کے ہونے کے علاوہ ان کے لیے ایک بہت بڑا تجارتی میلہ بھی تھا، دور و دراز سے تجارتی قافلے بھی آتے جس سے انہیں بہت نفع ہوتا لیکن حج کا فریضہ چونکہ قمری سال کے ذی الحجہ کے مہینہ میں ادا کیا جاتا تھا اس لیے یہ ایسی موسم میں بھی آجاتا جب کہ سخت سردی یا گرمی ہوتی اور موسم کی اس نا سازگاری کی وجہ سے ان کا کاروبار ماند پڑجاتا اور انہیں دل خواہ نفع نہ ہوتا اس مشکل کا حل انہوں نے یہ تجویز کیا کہ حج ہمیشہ معتدل موسم میں ادا کیا جائے اس کے لیے انہوں نے حج کی مقررہ تاریخوں کو بدل دیا اور قمری سال کے بارہ مہینوں میں کبیسہ کا ایک مہینہ بڑھا دیا اس طرح تینیس سال کے بعد صرف ایک بار حج اپنی صحیح تاریخوں نو ذی الحجہ کو ادا کیا جاتا، ان دونوں صورتوں میں چونکہ صرف اپنی ذاتی سہولتوں اور مالی منفعتوں کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے اٹل اور محکم احکام میں رد و بدل کرلیا کرتے تھے اس لیے ان کے اس فعل کو ’’زیادۃ فی الکفر‘‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا:
۱۰ھ میں جب رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے لیے مکہ تشریف لے گئے تو اس سال ان کے دستور کے مطابق بھی نو اور دس ذی الحجہ کو ادا ہونا قرار پایا تھا۔
اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ان الزمان قد استدار کھیئۃ یوم خلق اللہ السموات والارض‘‘
یعنی اس سال بھی حج انہی تاریخوں میں ادا کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی میں اس کے لیے مقرر فرمائی تھیں اس میں مسلمانوں کے لیے بھی عبرت کا درس ہے کہ وہ اپنی ذاتی مصلحتوں اور دوسرے وجوہ کے لیے احکام الہی میں رد بدل نہ کریں۔
نساء کا لغوی معنی ہے کسی چیز کو اپنے وقت سے موخر کردینا۔
’’قال الجوھری النسی فعیل بمعنی مفعول من قولک نسات الشئی فھو منسو اذا اخرتہ‘‘ (قرطبی، ضیاء القرآن)
میرا مقصد تو صرف اتنا ہی تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سال کے مہینوں میں تبدیلی کی جاتی تھی اس پر دلیل کے لیے میں نے اس آیت کریمہ کی تفسیر کو پیش کیا عوام الناس کے فائدہ کے لیے آیت کریمہ کی پوری تفسیر نقل کردی صحیح بات تو یہ ہے کہ مفکر اسلام مفسر قرآن حضرت پیر کرم شاہ صاحب قدس سرہ کی تفسیر ضیاء القرآن علمائے کرام، طلبائے عظام، وکلاء دانشوروں اور عوام الناس کے لیے یکساں مفید ہے۔ میں اپنی کتاب میں اس کے اقتباسات پیش ہی اس لیے کرتا ہوں کہ کسی کی نظر میں میری کتاب آجائے اور ابھی تک اس نے ضیاء القرآن کا مطالعہ نہ کیا ہو تو وہ ضرور مطالعہ کرے اللہ تعالیٰ اسے نور معرفت عطا فرمائے گا۔
حساب دان حضرت ان چیزوں کو مد نظر رکھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف تریسٹھ برس ہے آپ کا وصال بارہ ربیع الاول میں ہوا بلکہ بزرگان دین دو ربیع الاول کی روایت پر زیادہ عمل کرتے ہیں حجۃ الوداع آپ کے وصال سے تین ماہ قبل ہوا اس حجۃ الوداع سے تینتیس سال پہلے حج اپنی خاص تاریخوں پر آیا تھا۔
بہر حال جمہور علمائے کرام کا اجماع اسی پر ہے کہ آپ کی ولادت بارہ ربیع الاول کو ہی ہے بارہ پر اعتراض کرنے والے نو ربیع الاول کو ہی خوشی کا اظہار کردیں تو ہمیں ان پر کیا اعتراض ہے لیکن ان کے گھر تو اس دن بھی صف ماتم ہی بچھی رہتی ہے۔
اعتراض کی دوسری صورت یہ تھی کہ ایک تاریخ کو ہی اگر پیدائش بھی ہو اور وصال بھی ہو تو غم کیوں نہیں کیا جاتا صرف خوشی کا اظہار کیوں کیا جاتا ہے اس کے جواب میں علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہمارے لیے عظیم نعمت ہے اور آپ کی وفات عظیم مصیبت ہے لیکن شریعت نے نعمتوں کے شکر کا اظہار کرنے کا حکم دیا۔ اور مصیبتوں کے وقت صبر و سکون اور ان کو پوشیدہ رکھنے کا حکم دیا۔ کیونکہ شریعت نے بچے کی ولادت پر خوشی کا اظہار کرنے کے لیے عقیقہ کا حکم دیا لیکن وفات پر جانوروں کے ذبح کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی اور ایسے کاموں کا حکم ہے جو خوشی کے موقع پر کیے جاتے ہیں بلکہ نوحہ سے بھی منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ بے صبری کی علامت ہے۔
’’فدلت قواعد الشریعۃ علی انہ یحسن فی ھذا الشھر اظھار الفرح بو لادتہ ﷺ دون اظھار الحزن فیہ بوفاتہ‘‘
قوانین شریعت اس پر دلالت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی وجہ سے اس مہینہ میں خوشی کا اظہار کرنا اچھا ہے لیکن آپ کی وفات پر غم کا اظہار کرنا اچھا نہیں ہے۔
ابن رجب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب اللطائف میں رافضیوں کے یوم عاشوراء کو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی وجہ سے ماتم کرنے پر مذمت کرتے ہوئے بیان کیا:
’’لم یامر اللہ ولا رسولہ باتحاذ ایام مصائب الانبیاء وموتھم ماتما فکیف ممن ھو دونھم‘‘
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کرام پر مصائب کے دنوں اور ان کے وصال کے دنوں کو ماتم کرنے کا حکم نہیں دیا تو ان سے کم درجہ والوں پر ماتم کیوں کر کیا جائے۔ (الحاوی اللفتاویٰ ج ۱ ص ۱۹۳)
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برزخ میں دنیا کی زندگی سے اعلی زندگی گزار رہے ہیں جب آپ زندہ ہیں تو غم کرنے کا مقصد ہی کیا ہے علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’اخرج ابویعلی فی مسندہ والبیھقی فی کتاب حیاۃ الانبیاء عن انس ان النبی ﷺ قال والانبیاء احیاء فی قبور ھم یصلون‘‘ (الحاوی للفتاوی ج ۲ ص ۲۶۴)
مسند ابی یعلی اور بیہقی میں مذکور ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ نے فرمایا انبیائے کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں وہ نماز ادا کرتے ہیں۔
علامہ سیوطی رحمہ اللہ اس قسم کی کئی روایات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’فحصل من مجموع ھذہ النقول والا حادیث ان النبی ﷺ حی بجسدہ و روحہ وانہ یتصرف ویسیر حیث شاء فی اقطار الارض وفی الملکوت وھو بھیئۃ التی کان علیھا قبل وفاتہ لم یتبدل منہ شیء وانہ مغیب عن الابصار کم غیبت الملائکۃ مع کونھم احیاء باجسادھم فاذا اراد اللہ رفع الحجاب عمن اراد اکرامہ برویتہ راہ علی ھیئۃ التی ھو علیھا لا مانع من ذالک ولا داعی الی التخصیص بروئیۃ المثال‘‘ (الحاوی للفتاوی ج ۲ ص ۲۶۵)
ان تمام روایات و احادیث سے واضح ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے روح و جسم کے ساتھ زندہ ہیں زمین کے اطراف اور ملکوت میں جہاں چاہیں سیر کریں اور تصرف کریں آپ کو وصال سے پہلے جو ہیئت حاصل تھی وہی اب بھی حاصل ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں واقع ہوئی صرف آپ نظروں سے غائب ہوئے ہیں جیسے فرشتے نظروں سے غائب ہو جاتے ہیں آپ اپنے جسم کے ساتھ زندہ ہیں اللہ تعالیٰ جس کو آپ کے دیدار سے مشرف کرنا چاہتا ہے آپ سے حجاب اٹھا دیتا ہے وہ آپ کو اسی حال میں دیکھتا ہے جیسے آپ ظاہری حیات میں تھے اس میں بھی کوئی امر مانع نہیں اور یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں کہ آپ کے جسم کو کئی مثالیں عطا کر دیتا ہے اور آدمی آپ کی مثالوں کو دیکھتا ہے بلکہ آپ کو ظاہری طور پر دیکھا جاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب شریف:
آپ کا نسب مواہب لدنیہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:
محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی (بضم قاف و فتح صاد و تشدید یاء) بن کلاب (بکسر کاف) بن مرہ (بضم میم و تشدید راء) بن کعب (بفتح کاف و سکون عین) بن لوی (بضم لام و فتح ھمزہ و تشدید یاء) بن غالب بن فہر (بکسر فاء و سکون ھاء) بن مالک بن نضر (بفتح نون و سکون ضاد) بن کنانہ (بکسر کاف دو نون کے ساتھ) بن خزیمہ (بخاء معجمہ و زاء مصغر) بن مدرکہ (بضم میم و سکون دال و کسر راء) بن الیاس (بکسر ہمزہ ایک قول کے مطابق اور دوسرے قول کے مطابق بفتح ھمزہ بمعنی یا س جو رجاء (امید) کی ضد ہے اور ہمزہ وصل کے لیے صاحب مواہب کہتے ہیں کہ یہ اقوال اصح ہے) بن مضر (بضم میم و فتح ضاد) بن نزار (بکسر نون و بزاء) بن معد ( بضم میم و فتح عین اور بعض کے نزدیک بفتح میم و سکون عین، اسے صحیح کہتے ہیں) بن عدنان (بفتح عین و سکون دال)۔
یہاں تک سلسلہ نسب میں ارباب سیر اور اصحاب علم انساب سب کا اتفاق ہے اس سے اوپر میں کچھ اختلاف ہے اس میں اتفاق ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اولاد حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام آپ کے اجداد میں ہیں۔ (معارج النبوۃ ج ۲)
والدہ کا نسب:
آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی حضرت آمنہ رضی اللہ عنہما ہے ان کا نسب بھی پانچویں درجہ پر آپ کے والد گرامی کے نسب سے مل جاتا ہے آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر۔
خیال رہے کہ آپ کی والدہ کا اپنی والدہ کی جانب سے بھی نسب آپ کے والد کے نسب سے مل جاتا ہے۔
آمنہ بنت برۃ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نانی) بنت عبد العزی بن عثمان بن عبد الدار بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر۔
آپ کی والدہ کی نانی کا نسب بھی آپ کے والد کے نسب سے ملتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نانی برہ کی والدہ ام حبیب کا نسب یہ ہے ام حبیب بنت اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نانی کا نام برہ اور برہ کی نانی کا نام بھی برہ تھا آمنہ بنت برہ بنت ام حبیب بنت برہ ام حبیب کی والدہ کا نسب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کے نسب سے ملتا ہے وہ اس طرح ہے۔
برہ بنت عوف بن عبد عویج بن کعب بن لوی بن غالب وغیرہ۔
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب والد اور والدہ دونوں جانب سے بہتر تھا اور عزت کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر تھا۔ (تاریخ ابن ھشام)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکلوتے تھے:
آپ کا کوئی بھائی بہن نہیں تھے بلکہ اپنے والدین کریمین کے اکلوتے بیٹے تھے نہ ہی آپ کے باپ حضرت عبد اللہ کی کوئی اور اولاد تھی اور نہ ہی آپ کی والدہ حضرت آمنہ کی کوئی اور اولاد تھی یعنی ان دونوں کا یہ ایک ہی نکاح تھا حضرت عبد اللہ نے بھی کوئی اور شادی نہیں کی اور حضرت آمنہ نے بھی۔
آپ کے والدین کی ایک جگہ قبریں:
آپ کے والد حضرت عبد اللہ آپ کے پیدائش سے پہلے ہی وفات پاگئے حضرت عبد اللہ بسلسلہ تجارت مدینہ طیبہ گئے ہوئے تھے وہاں ہی راستہ میں بیمار ہوگئے اور بنی نجار کے پاس ٹھہر گئے اور آپ کی وہاں ہی وفات ہوگئی اور مقام ابواء میں مدفون ہوئے ابواء مدینہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے۔ (از مدارج النبوۃ ص ۲۲ ج ۲)
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھ سال ہوئی تو آپ کی والدہ آپ کو لے کر بنی عدی بن النجار کے قبیلہ میں آئیں غرض یہ تھی کہ آپ کی ملاقات آپ کے ماموؤں سے کرائیں تو وہاں سے واپسی پر مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام ابواء میں انتقال فرما گئیں۔
اسی طرح ایک مشہور قول کے مطابق آپ کے والد گرامی اور والدہ ماجدہ دونوں مقام ابواء میں مدفون ہیں ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرت عبد اللہ مدینہ طیبہ میں مقام نابغہ میں مدفون ہوئے (واللہ اعلم بالصواب) لیکن غالب خیال کچھ ایسے آتا ہے کہ کئی سال پہلے اخبار میں ذکر تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد گرامی کا جسم اطہر مقام ابواء میں صحیح سلامت ہے کسی کھدائی کے دوران یہ پتہ چلا۔
خیال رہے کہ ابن ہشام نے کہا عبد المطلب بن ہاشم کی والدہ سلمی عمر و نجار قبیلہ سے تھیں اس لیے اصل میں بنی نجار حضرت عبد اللہ کے نانھال تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نا نھال بھی کہہ دئیے جاتے ہیں ورنہ حضرت آمنہ نجاریہ نہیں تھیں۔(اللہ اعلم بالصواب) (از ابن ھشام ج ۱ ص ۱۸۹)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا:
آپ کے بارہ چچا تھے اور تیرھویں ان کے بھائی آپ کے والد حضرت عبد اللہ تھے حضرت عبد المطلب کے تیرہ بیٹوں کے نام یہ ہیں:
عبد اللہ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد گرامی)، حارث، ابو طالب ان کا نام عبد مناف، زبیر اس کی کنیت ابو الحارث، حمزہ ان کی کنیت ابو عمارہ اور ابویعلی ابولہب اس کا نام عبد العزی، غیداق، مقوم، ضرار، عباس قثم، عبد الکعبہ، حجل اس کا نام مغیرہ۔
صرف دو چچا نے اسلام کو قبول کیا:
حضرت حمزہ جن کی کنیت ابوعمار اور ابو یعلی ہے انہوں نے اسلام قبول کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’خیر اعمامی حمزہ‘‘ میرے چچاؤں میں سے بہتر حمزہ ہیں۔
بدر میں بھی شریک تھے اور احد میں بھی احد میں ہی وحشی نے آپ کو شہید کردیا تھا آپ کی عمر انسٹھ سال تھی۔
حضرت عباس کی کنیت ابو الفضل تھی آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف دو یا تین سال بڑے تھے قریش کے رئیس شمار ہوتے تھے انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ان کے اسلام لانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بہت تعظیم فرماتے تھے آپ کا ارشاد گرامی ہے:
’’العباس عمی وصنو ابی من اذاہ اذانی‘‘
عباس میرے چچا ہیں میری باپ کی مثل ہیں جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی۔
تینتیس ہجری میں حضرت عثمان کی خلافت کے دوران اٹھاسی سال کی عمر میں وصال ہوا بقیع میں دفن ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے چھوٹے چچا یہی تھے سب سے بڑا حارث تھا۔ (انوار محمدیہ ص ۱۵۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھیاں:
آپ کی چھ پھوپھیاں تھیں عاتکہ، امیمہ، بیضاء، ان کی کنیت ام حکیم، برہ، صفیہ، اروی
صفیہ جو زبیر کی والدہ ہیں ان کا اسلام لانا بالا اتفاق ثابت ہے یہ غزوہ خندق میں شریک تھیں انہوں نے ایک یہودی کو بھی قتل کردیا تھا بیس ہجری میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں تہتر سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی اور بقیع میں دفن ہوئیں عاتکہ اور اروی کے اسلام میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک انہوں نے اسلام قبول کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دادیاں:
حضرت عبد اللہ کی والدہ فاطمہ بنت عمر و مخزومیہ اور حضرت عبد المطلب کی والدہ سلمی بنت عمر و نجاریہ حضرت ہاشم کی والدہ عاتکہ بنت مرہ سلیمیہ، عبد مناف کی والدہ عاتکہ بنت فالج سلیمیہ قصی کی والدہ فاطمہ بنت سعد ازدیہ کلاب کی والدہ، نعم بنت سریر کنانیہ مرہ کی والدہ خشیہ بنت شیبان فہمیہ کعب کی والدہ سلمی بنت محارب فہمیہ، لوی کی والدہ و خشیہ بنت مدلج کنانیہ غالب کی والدہ سلمی بنت سعد ہزلیہ فہر کی والدہ جندلۃ بنت حارث جرھمیہ مالک کی والدہ ھندبنت عدوان قیسیہ نضر کی والدہ برہ بنت مرہ مریۃ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نانیاں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ آمنہ بنت وہب زھریہ رضی اللہ عنہا آمنہ رضی اللہ عنہا کی والدہ برہ بنت عبد العزی رضی اللہ عنہا حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے باپ وہب کی والدہ عاتکہ بنت اوقص سلیمیہ رضی اللہ عنہا حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی والدہ برہ کی والدہ ام حبیبہ یا ام حبیب بنت اسدام جیبہ رضی اللہ عنہا کی والدہ برہ بنت عوف رضی اللہ عنہا یہ تینوں قریشیہ ہیں اس برہ یعنی ام حبیب کی والدہ کی والدہ قلابہ بنت الحارث ھزلیہ قلابہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ھند بنت یربوع ثقنیہ رضی اللہ عنہا۔(انوار محمدیہ ص ۱۶۱)
رضاعی والدہ:
آپ کو حضرت حلیمہ بنت ابی ذؤیب سعدیہ ھواز نیہ نے دودھ پلایا اور جب رضاعت یعنی دودھ پلانے کی مدت ختم ہوئی تو آپ کو واپس اپنے والدہ کے پاس لایا گیا۔
حنین کے دن جب یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔
’’فقام الیھا وبسط رداء ہ لھا فجلست علیہ‘‘
تو آپ ان کے لیے کھڑے ہوگئے اور اپنی چادر بچھادی جس پر یہ بیٹھیں۔
ثویبہ (ثاء پر پیش، واؤ پر زبر) جو ابو لھب کی غلامہ تھیں نے بھی آپ کو دودھ پلایا وہی ثوبیہ ہے جس نے ابو لھب کو اشارہ سے جاکر بتایا کہ تمہارے بھائی عبد اللہ کا بیٹا پیدا ہوا تو اس نے خوشی سے اپنی انگلی سے اشارہ کیا کہ جا تو آزاد ہے اور میرے بھتیجے کو دودھ پلا ابو لھب کو موت کے بعد خواب میں دیکھا گیا اس کا حال پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ سخت عذاب میں مبتلا ہوں البتہ پیر کے دن عذاب سے راحت ہوتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔
سبحان اللہ کافر کو عذاب سے تحفیف حاصل ہو جبکہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر صرف بھتیجا سمجھ کر خوشی کا اظہار کیا ہو تو یقیناً مسلمان کو بلند مقام حاصل ہوگا جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مان کر سید الکائنات افضل الانبیاء سمجھ کر خوشی کا اظہار کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ سے بھی ثویبہ کی طرف کپڑے بھیجا کرتے تھے۔ (انوار محمدیہ ص ۱۶۳، الحاوی للفتاوی ج ۱ ص ۱۹۱)
پرورش کرنے والی:
ام ایمن نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کی آپ فرمایا کرتے تھے ’’ام ایمن امی بعد امی‘‘ میری ماں بعد میری ماں ام ایمن ہے شیماء بنت حلیمہ سعدیہ نے بھی اپنی ماں کے ساتھ مل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کی۔
آپ کے رضاعی بہن بھائی:
حضرت حمزہ (جو آپ کے چچا ہیں) اور ابو سلمہ بن عبد الاسد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی ہیں ان کو بھی ثویبہ نے دودھ پلایا ہے ان دونوں کو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے اپنے بیٹے مروح کے ساتھ دودھ پلایا ہے ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب جو آپ کے چچا زاد بھی ہیں اور رضاعی بھائی بھی کیونکہ ان کو بھی حضرت حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلایا ہے۔
عبد اللہ بھی آپ کے رضاعی بھائی ہیں کیونکہ یہ حلیمہ سعدیہ کے بیٹے ہیں۔
آسیہ اور حذافہ آپ کی رضاعی بہنیں ہیں کیونکہ یہ حلیمہ سعدیہ کی بیٹیاں ہیں خیال رہے کہ حذافہ کا مشہور اور عرفی نام شیماء تھا ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر نے بنی ھوازن پر حملہ کیا تو قیدیوں میں یہ شیماء بھی آگئیں انہوں نے صحابہ کرام کو بتایا کہ میں تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی (رضاعی) بہن ہوں صحابہ کرام کو آپ کے پاس لائے تو انہوں نے کہا:
’’یا محمد انا اختک‘‘ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں تمہاری بہن ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مرحبا کہا اور ان کے لیے ایک چادر بچھائی اور انہیں چادر کے اوپر بٹھایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے آپ نے فرمایا اگر تم میرے پاس رہنا چاہتی ہو تو تمہیں عزت و تکریم سے رکھا جائے گا اور اگر تم اپنی قوم کی طرف واپس لوٹنا چاہتی ہو تو تمہیں وہاں پہنچادیا جائیے گا انہوں نے کہا میں اپنی قوم کے پاس لوٹنا چاہتی ہوں انہوں نے اسی وقت اسلام قبول کیا ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایا عطا فرماکر عزت و تکریم سے ان کی قوم کی طرف واپس لوٹادیا۔ (از انوار محمدیہ ص ۱۶۲)
فائدہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی جبکہ ان کی عمر چالیس سال تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس سال کی عمر میں اعلان نبوت فرمایا اعلان نبوت کے بعد تیرہ سال مکہ مکرمہ میں اور دس سال مدینہ طیبہ میں گزارے اور تریسٹھ سال کی عمر میں وصال فرمایا۔
آپ کی ازواج مطہرات:
حضرت خدیجتہ الکبری بنت خویلد، عائشہ بنت ابی بکر، حفصہ بنت عمر فاروق، ام حبیبہ بنت ابی سفیان (امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن)، ام سلمۃ بنت ابی امیہ اور سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہن یہ چھ ازواج مطہرات تمام قریشیہ ہیں۔
زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا جو اسد بن خزیمہ کے قبیلہ سے تھیں، میمونہ بنت الحارث ھلالیہ رضی اللہ عنہا، زینب بنت خزیمہ ھلالیہ رضی اللہ عنہا جن کا لقب ام المساکین تھا، جویریہ بنت حارث مصطلقیہ رضی عنہا یہ تمام عربیہ ہیں اور ایک زوجہ مطہرہ غیر عربیہ ہیں جو نبی نضیر کے سردار حیی کی بیٹی ہیں یہ قبیلہ نبی اسرائیل سے ہیں جن کا نام صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا ہے۔
ان تمام ازواج مطہرات سے دو کا وصال آپ کی ظاہری حیات میں ہوگیا تھا ایک خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا اور دوسری زینب رضی اللہ عنہا جن کا لقب ام لمساکین ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت نو ازواج مطہرات ظاہری حیات میں موجود تھیں ازواج مطہرات کے مختصر حالات میں اپنی کتاب اسلام میں عورت کا مقام تحریر کیے ہیں وہاں دیکھے جائیں یا مدارج النبوۃ میں دیکھے جائیں جو شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ہے۔
آپ کی اولاد مطہرہ:
آپ کی چار بیٹیاں ہیں زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہن۔ میں نے اپنی کتاب ’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ میں چار بیٹیوں کا ثبوت شیعہ کی کتب سے پیش کیا ہے اور تمام کے مختصر حالات بھی تحریر کیے ہیں۔
آپ کے تین بیٹے تھے قاسم، ابراہیم اور عبد اللہ خیال رہے کہ طیب، مطیب، طاہر اور مطہر انہی کے القاب تھے یہ کوئی علیحدہ بیٹے نہیں تھے۔ قاسم کی ولادت اعلان نبوت سے پہلے ہے یہ کوئی دو سال کی عمر کو بھی نہیں پہنچے تھے کہ فوت ہوگئے اور ان کے نام سے ہی آپ کی کنبت ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا آپ کی بڑی بیٹی ہیں ان کی ولادت جب ہوئی اس وقت آپ کی عمر شریف تیس سال تھی ان کا نکاح ان کی خالہ کے بیٹے ابوالعاص لقیط بن ربیع سے ہوا انہوں نے بھی اسلام قبول کرلیا تھا حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی وفات ہجرت کے آٹھویں سال ہوئی۔ ان کا ایک بیٹا تھا جس کا نام علی تھا وہ بچپن میں فوت ہوگیا تھا یہ بچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک اونٹنی پر سوار تھا اس سے گر کر فوت ہوگیا۔
ان کی ایک بیٹی تھی جس کا نام امامہ تھا یہ حضرت فاطمۃ الزہراء کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں۔
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی جب ولادت ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف اس وقت تینتیس سال تھی یہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں انہوں نے دو ہجرتیں کیں یعنی پہلے حبشہ اور پھر مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر میں تھے تو ان کا وصال ہوگیا۔
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کیا میں تمہاری بہتر راہنمائی نہ کروں؟ یعنی تم اپنی بیٹی حفصہ کا نکاح میرے ساتھ کرلو اور میں اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح عثمان سے کردیتا ہوں۔
اس طرح حضرت حفصہ بنت عمر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوگیا اور ام کلثوم بنت النبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آگئیں ان کا نکاح ۳ھ میں ہوا اور وفات ۹ھ میں ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور شدت غم کی وجہ سے آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
حضرت فاطمۃ الزہراء کی ولادت ہوئی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف اکتالیس برس تھی، آپ کا لقب بتول ہے۔ ان کا نکاح اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا اس وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر پندرہ سال ساڑھے پانچ ماہ تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر اکیس سال پانچ ماہ تھی۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے تین بیٹے حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت محسن رضی اللہ عنہم ہوئے۔ محسن بچپن میں فوت ہوگئے۔ آپ کی دو بیٹیاں تھیں زینب اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کا سلسلہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہی چل رہا ہے یعنی امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما دونوں سے سلسلہ اولاد قائم ہے کیونکہ باقی کسی بیٹی کی اولاد کا سلسلہ آگے نہیں چل سکا حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی اولاد کا ذکر ہوچکا ہے اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی کوئی اولاد نہیں تھی یا بعض روایات کے مطابق دو بچے پیدا ہوئے لیکن بچپن میں فوت ہوگئے اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا ایک حمل ساقط ہوگیا تھا اور ایک بچہ پیدا ہوا لیکن وہ بھی دو سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔ (از انوار محمدیہ ص ۱۴۵، مدارج النبوۃ ج۲ ص ۷۸۶)
حضرت عبد اللہ ابن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں مکہ میں ہی فوت ہوگئے ان کی پیدائش اعلان نبوت سے پہلے ہوئی یا بعد میں اس میں مختلف اقوال ہیں ان کے ہی طیب و طاہر لقب ہیں۔
تنبیہ:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تمام اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہے کسی اور زوجہ مطہرہ سے آپ کی کوئی اولاد نہیں ہے حضرت ابراہیم ابن النبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی غلام (لونڈی) ماریہ قبطیہ سے ہیں ان کی پیدائش ذی الحجہ ۸ھ میں ہوئی، آپ کی پیدائش کے ساتویں دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنبے بطور عقیقہ ذبح فرمائے۔ ابوھند نے آپ رضی اللہ عنہ کے بال تراشے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دن آپ کا نام اپنے دادا کے نام پر ابراہیم رکھا اور بالوں کی مقدار چاندی صدقہ کی بال زمین میں دفن کر دئیے۔ ابراہیم مدینہ طیبہ کے اطراف میں ایک لوہار کی زوجہ کے زیر پرورش تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بیٹے کو ملنے کے لیے جاتے تھے ساتھ بعض صحابہ کرام بھی موجود ہوتے۔ آپ بچہ سے پیار و محبت کر کے واپس آجاتے۔ ستر یا اس سے کچھ زائد دن زندہ رہنے کے بعد فوت ہوگئے۔ بقیع میں دفن ہوئے، ان کی قبر پر پانی چھڑکا گیا اور ایک پتھر بطور نشان لگایا گیا آپ کی وفات پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے:
’’انا بک یا ابراہیم لمحزونون نبکی العین و یحزن القلب‘‘
اے ابراہیم ہم تمہاری موت پر غمزدہ ہیں آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں آنکھیں رو روہی ہیں اور دل غمناک ہے۔ (از انوار محمدیہ ص ۱۴۷)
محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیائے کرام سے افضل:
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍo (پ ۳ سورۃ البقرۃ آیت ۲۵۳)
یہ رسو ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ان میں سے کسی سے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس پر امت کا اجماع ہے کہ بعض انبیاء بعض پر افضل ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام پر افضل ہیں آپ کی افضلیت کئی وجوہ سے ثابت ہے۔
۱۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان میں فرمایا:
وَ مَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَo (پ ۱۷ سورۃ الانبیاء آیت ۱۰۷)
اور ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر سب جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔
’’فلما کان رحمۃ لکل العالمین لزم ان یکون افضل من کل العالمین‘‘
جب آپ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں تو یقینی طور پر آپ تمام جہانوں سے افضل ہیں۔
یعنی آپ افضل المخلوقات ہیں:
؎ بعد از خذا بزرگ توئی قصہ مختصر
خدا کے بعد آپ کا ہی مقام بلند و بالا ہے، مختصر یہی بات ہے۔
۲۔ رب تعالیٰ نے فرمایا:
وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَo (پ ۳۰ سورۃ الانشراح آیت ۴)
اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کیا۔
مالک الملک نے اپنے ذکر کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو متصل کیا کلمہ شہادت میں، اذان میں اور تشہد وغیرہ میں:
’’ولم یکن ذکر سائر الانبیاء کذالک‘‘
اور باقی تمام انبیائے کرام کا ذکر اس اس طرح نہیں لہذا اس سے ثابت ہوا کہ آپ افضل الانبیاء ہیں۔
۳۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے ساتھ ملایا اور فرمایا:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَo (پ ۵ سورۃ النساء آیت ۸۰)
جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ تعالیٰ کا حکم مانا۔
آپ کی بیعت کو رب تعالیٰ نے اپنی بیعت قرار دیا اور فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْo (پ ۲۶ سورۃ الفتح آیت ۱۰)
بیشک وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ کا دست قدرت ہے۔
اور آپ کی عزت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عزت کے ساتھ ذکر فرمایا:
وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَo (پ ۲۸ سورۃ المنٰفقون آیت ۸)
اور عزت تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے۔
اور آپ کی رضا کو رب قدوس نے اپنی رضا کے ساتھ ذکر فرمایا:
وَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُo (پ ۱۰ سورۃ التوبۃ آیت ۶۲)
اور اللہ اور اس کے رسول کا حق زائد ہے کہ انہیں راضی کریں۔
رب تعالیٰ نے آپ کے بلانے پر حاضر ہونے کو اپنے بلانے پر حاضر ہونے کے ساتھ ذکر فرمایا:
یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِo (پ ۹ سورۃ الانفال آیت ۲۴)
اے ایمان والو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بلانے پر حاضر ہو۔
یہ عظمت صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی حاصل ہے دوسرے انبیائے کرام کو حاصل نہیں۔
۴۔ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ قرآن پاک کی سورۃ سے چیلنج کریں، کون شخص ہے جو قرآن پاک کی سورۃ جیسی سورۃ بنا کر لائے ’’فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ‘‘ تو اس جیسی ایک سورۃ تو لے آؤ۔ سب سے چھوٹی سورۃ کوثر ہے جس میں تین آیتیں ہیں تو گویا اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے ہر تین آیتوں سے چیلنج کیا لیکن وہ لوگ مقابلہ کرنے سے عاجز آگئے تو جب قرآن پاک میں چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات ہیں تو ہر تین تین آیتیں جب معجزہ ہیں تو صرف قرآن پاک ہی دو ہزار بائیس معجزات پر مشتمل ہے باقی معجزات علیحدہ ہیں اور جب موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نو معجزات عطا کیے ہیں تو وہ واضح ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کثیر معجزات کی وجہ سے تمام انبیائے کرام پر افضلیت حاصل ہے۔
۵۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ یعنی قرآن پاک تمام انبیائے کرام کے معجزات سے افضل ہے لہذا ہمارے رسول پاک کا تمام انبیائے کرام سے افضل ہونا بھی ثابت ہےچونکہ قرآن پاک کو تمام کلاموں میں اولیت حاصل ہے جیسے آدم علیہ السلام کو تمام انسانوں پر اولیت حاصل ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ لباس اعلیٰ ہو تو لباس والے کو شان حاصل ہوتی ہے تو ایسا کیوں نہ ہو کہ معجزہ اعلی ہو تو صاحب معجزہ بھی اعلی ہے۔
۶۔ باقی تمام انبیائے کرام کے معجزات فانی تھے انبیائے کرام علیہم السلام جب دنیا سے تشریف لے گئے تو ان کے معجزات بھی ساتھ ہی ختم ہوگئے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرآن پاک ہمیشہ کے لیے باقی ہے۔ یقینی بات ہے کہ باقی رہنے والی چیز اعلی ہے فنا ہونے والی سے لہذا جس کو وہ معجزہ ملا جو باقی رہنے والا ہے تو اس ذات کو بھی بلند مرتبہ ماننا ضروری ہے۔
۷۔ تمام انبیائے کرام کو جو کمالات انفرادی طور پر حاصل تھے وہ تمام کے تمام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھے اس لیے آپ تمام انبیائے کرام سے افضل ہیں اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کے احوال ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْo (پ ۷ سورۃ الانعام آیت ۹۰)
یہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تو تم ان کی راہ پر چلو۔
اس آیت کریمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے انبیائے کرام کی اقتداء کا حکم دیا گیا ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ پہلے انبیائے کرام کی اصول دین میں اقتداء کریں تو یہ درست نہیں کیونکہ یہ تقلید ہے اور اصول دین میں تقلید نہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ کو پہلے انبیائے کرام کی فروغ دین میں اقتداء کا حکم دیا گیا ہے تو یہ بھی درست نہیں کیونکہ آپ کی شریعت پہلی شریعتوں کی ناسخ ہے تو اقتداء کا اور کوئی مطلب نہیں سوائے اس کے ’’فلم یبق الا ان یکون المراد محاسن الاخلاق‘‘ کہ اس سے مراد اچھے اخلاق اور کمالات ہوں۔ گویا کہ رب تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا ہم آپ کو انبیائے کرام علیہم السلام کے احوال و عادات پر مطلع کرتے ہیں آپ ان کے اچھے اور احسن اخلاق و عادات کو اپنے لیے پسند فرمالیں اور ان کی ان عادات میں اقتداء کریں۔
’’وھذہ یقتضی انہ اجتمع فیہ من الخصال المرضیۃ ما کان متفرقا فیھم فوجب ان یکون افضل منھم‘‘
اس بحث سے واضح ہوا کہ تمام اچھی عادات جو تمام انبیائے کرام کو متفرق طور پر حاصل تھیں وہ آپ کو اجتماعی طور پر حاصل ہوئیں لہذا آپ تمام انبیائے کرام سے افضل ہیں۔
۸۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا رب تعالیٰ نے فرمایا:
وَ مَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاo (پ ۲۲ سورۃ السبا آیت ۲۸)
اور اے محبوب ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا رسول بنا کر۔
جتنے زیادہ امتی ہوں اتنی ہی نبی پر مشقت زیادہ ہوتی ہے نیکوں کے کاموں میں جتنی مشقت زیادہ برداشت کی جائے اسی قدر مراتب بلند ہوتے ہیں اور خصوصاً جب انسان کو مال حاصل نہ ہو دوست یار مددگار نہ ہوں اور پھر تمام لوگوں کو کہے:
یٰٓاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَo (پ ۳۰ سورۃ الکافروں آیت ۱)
اے کافرو! یہ سن کر لوگ دشمن بن جائیں تو یہ کتنا ہی خوف کا مقام ہے جو بہت بڑی مشقت کا ذریعہ ہے اور یہ بھی خیال رہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو جب نبوت عطا کرکے بھیجا گیا تو آپ کے دشمن صرف فرعون اور فرعون کی قوم کے لوگ تھے بنی اسرائیل آپ کا ساتھ دینے والے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام لوگ ابتدائی طور پر مخالف تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیائے کرام پر فضیلت دی۔
اور خیال رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ اپنی ساری عمر رات کے طویل اوقات میں انسانوں اور جنوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچائیں اور خصوصاً ایسے حالات میں ان کی عادت کے مطابق حالات بالکل واضح تھے کہ یہ تو آپ سے دشمنی کریں گے آپ کو تکالیف پہنچائیں گے معاذ اللہ آپ کو حقیر سمجھیں گے ان حالات کے ہوتے ہوئے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے میں کوئی تاخیر نہیں کی بلکہ جلدی ہی اللہ تعالیٰ کے احکام آپ نے پہنچائے اور عظیم مشقتیں آپ نے برداشت کیں، عظیم مشقت برداشت کرنا افضلیت کا سبب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے والے صحابہ کرام کی بعد والون سے افضلیت بیان کی اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے تکالیف برداشت کیں اس وجہ سے وہ افضل ہیں۔
ارشاد باری ہے:
لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَo (پ ۲۷ سورۃ الحدید آیت ۱۰)
تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ کیا اور جہاد کیا۔
صحابہ کرام جنہوں نے زیادہ مشقتیں برداشت کیں جب وہ دوسروں سے زیادہ افضل ہیں تو یقیناً وہ نبی جنہوں نے سب انبیائے کرام سے زیادہ تکالیف اٹھائیں سب انبیائے کرام سے زیادہ فضیلت کے مالک ہیں۔
۹۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دین تمام دینوں سے افضل ہے تو آپ کا سب انبیاء سے افضل ہونا بھی ضروری ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کےدین کو دوسرے تمام دینوں کے لیے منسوخ کرنے والا بنایا تو یہ بات ظاہر ہے کہ جو دین دوسرے دینوں کو منسوخ کردے وہ افضل دین ہے اور آپ کے دین کی افضلیت آپ کے اس قول سے بھی ثابت ہے:
’’من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا واجر من عمل بھا الی یوم القیمۃ‘‘
جس شخص نے اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اس ایجاد پر اجر حاصل ہوگا اور قیامت تک جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے ان کے اعمال کے مطابق اجر بھی اسے ملے گا۔
جب آپ کے دین میں اجر و ثواب زیادہ ہے اور خصوصاً ’’کان واضعہ اکثر ثوابا من واضعی سائر الادیان‘‘ آپ کے دین میں اچھا طریقہ ایجاد کرنے والے کو زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے جو دوسرے دینوں میں اس طرح نہیں ’’فیلذم ان یکون محمد ﷺ افضل من سائر النبیاء‘‘ تو اس سے ضروری ہی ہوگیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیائے کرام پر افضلیت حاصل ہو۔
۱۰۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تمام امتوں سے افضل ہے تو یقیناً آپ کو بھی سب انبیائے کرام پر افضلیت حاصل ہے آپ کی امت کی شان کو رب تعالیٰ نے ان الفاظ مبارکہ سے بیان فرمایا:
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِo (پ ۴ سورۃ آل عمران ۱۱۰)
تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں۔
آپ کی امت کو بہتری اور فضیلت کیوں حاصل ہے؟ اس لیے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہیں اور آپ کی توبعداری کی وجہ سے ہی دوسری امتوں سے افضل اور اللہ تعالیٰ کی محبوب ہے۔
رب تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُo (پ ۲ سورۃ البقرۃ آیت ۳۱)
اے محبوب تم فرماؤ کہ لوگوں اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تعالیٰ تمہیں دوست رکھے گا۔
جب آپ کی امت کو آپ کی تابعداری کی وجہ سے افضلیت اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور دوستی حاصل ہوگئی تو آپ کی ذات کا بھی سب انبیائے کرام سے افضل ہونا ثابت ہوگیا۔
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام جنوں اور انسانوں کے نبی بن کر تشریف لائے تو آپ کو اجر و ثواب زیادہ حاصل ہوا انسان کے مدارج کی بلندی اجر و ثواب کی زیادتی پر ہے کیونکہ جتنے لوگ آپ کی دعوت کو قبول کرنے والے زیادہ ہوں گے اسی قدر آپ کے مراتب بلند ہوں گے یہ شان دوسرے انبیائے کرام کو حاصل نہیں۔
فائدہ:
’’عن ابن مسعود قال قال رسول اللہ ﷺ اولی الناس بی یوم القیامۃ اکثرھم علی صلوۃ‘‘ (ترمذی، مشکوۃ باب صلوۃ النبی)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں میں سے قیامت کے دن میرے نزدیک وہ شخص ہوگا جو مجھ پر زیادہ درود شریف پڑھنے ولا ہوگا۔
اس حدیث کی شرح میں ملا علی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اولی الناس ای اقربھم بی اواحقھم بشفاعتی یوم القیامۃ اکثرھم علی صلوۃ لان کثرۃ الصلوۃ منبئۃ عن التعظیم المقتضی للمتابعۃ الناشئۃ عن المحبۃ الکاملۃ المرتبۃ علیھا محبۃ اللہ تعالیٰ قال تعالیٰ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفر لکم ذنو بکم‘‘ (مرقاۃ ج ۲ ص ۳۴۰)
’’اولی‘‘ کا معنی ہے اقرب ایک تو اس کا ظاہری معنی ہے کہ آپ پر زیادہ درود پڑھنے والے کو بنسبت دوسرے لوگوں کے جنت میں قریب مقام حاصل ہوگا اور دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ شخص میری خصوصی شفاعت کا زیادہ مستحق ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ درود پاک وہی شخص پڑھے گا جس کے دل میں آپ کی تعظیم پائی جائے گی اور جس شخص کو آپ کی عظمت کا خیال ہوگا وہ آپ کی تابعداری بھی کرے گا آپ کی تابعداری وہی شخص کامل طور پر کرتا ہے جسے محبت کاملہ حاصل ہوتی ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کامل محبت ہوتی ہے وہی درحقیقت اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے رب تعالیٰ نے فرمایا اے محبوب آپ فرمادیں کہ لوگو اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تعالیٰ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔
سبحان اللہ نتیجہ کتنا واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے بغیر رب تعالیٰ سے محبت نہیں ہوسکتی اور نہ ہی رب تعالیٰ کو اس سے محبت ہوگی صرف نام سے توحیدی کہلانے سے کچھ نہیں بنتا اگر تونے اپنی عاقبت سنوارنی ہے توآ! سید الانبیاء کا غلام بن جا۔ تو یہ بھی کہتا رہے کہ نبی کریم کو علم غیب نہیں تھا وہ دیوار کے پیچھے کا علم نہیں رکھتے تھے ان کا مرتبہ ہمارے بڑے بھائی جیسا تھا وہ کسی اختیار کے مالک نہیں تھے وہ تو ہم جیسے بشر تھے اس قسم کے لغویات بیہودہ زبان سے نکالتا رہے اور پھر یہ بھی کہے کہ ہمیں بھی نبی کریم سے محبت ہے تیری اس بات پر کون اعتبار کرے۔
آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
کل نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
۱۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں جب آپ کے ذریعے سلسلہ نبوت ختم ہوگیا یعنی آپ کی آمد سے انبیائے کرام کی تشریف آوری منسوخ ہوگئی تو یقینی بات ہے کہ وہ دوسروں کی آمد کا ناسخ بن سکتا ہے جو سب سے افضل ہو یہ عقل کے خلاف ہے کہ کم مرتبہ والا اعلی کی آمد کو منسوخ کردے۔
۱۲۔ بعض انبیائے کرام کو بعض پر معجزات کی وجہ سے فضیلت حاصل ہے کثرت معجزات ان کی صداقت اور بزرگی پر دلالت کرتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیائے کرام سے زیادہ معجزات حاصل ہیں تو آپ کو فضیلت بھی سب سے زیادہ حاصل ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بظاہر ایک معجزہ قرآن پاک ہی تین ہزار سے زائد معجزات پر مشتمل ہے۔
’’ومنھا ما یتعلق بالقدرۃ‘‘ پھر بعض معجزات آپ کو وہ حاصل ہیں جو آپ کی قدرت پر دلالت کرتے ہیں جیسے تھوڑے طعام سے کثیر مخلوق کو سیر کردیا اور تھوڑے پانی سے کثیر لوگوں کو سیراب کردیا۔
’’ومنھا ما یتعلق بالعلوم کالاخبار عن الغیوب‘‘
اور بعض معجزات آپ کے علوم سے متعلق ہیں جیسے کہ غیبی خبریں۔
کاش کہ میری برادری کے میرے پیارے جہال کو بھی یہ سمجھ آجاتا کہ غیبی خبریں دینا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے آپ کے معجزات کا انکار تو کافر بھی نہیں کرسکتے تھے۔
’’ومنھا اختصاصہ فی ذاتہ بالفضائل‘‘
آپ کے بعض معجزات وہ ہیں جو آپ کی ذات سے متعلق ہیں تمام اشراف عرب سے آپ اعلی حسب و نسب کے مالک ہیں شجاعت، اخلاق، کریمہ، وعدہ کی وفا، فصاحت و بلاغت اور سخاوت ان تمام اوصاف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں۔
۱۳۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’انا سید ولد آدم ولا فخر‘‘
میں اولاد آدم کا سردار ہوں مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور ارشاد گرامی ہے:
’’لا ید خل الجنۃ احد من النبیین حتی ادخلھا اناولا ید خلھا احد من الامم حتی تد خلھا امتی‘‘
انبیائے کرام میں سے کوئی ایک بھی جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوگا جب تک میں نہیں داخل ہوں گا اور تمام امتوں میں سے کوئی ایک بھی اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگا جب تک میری امت داخل نہیں ہوگی۔
۱۴۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’انا اول الناس خروجا اذا بعثوا وانا خطیبھم اذا وفدوا وانا مبشرھم اذا ایسو الواء الحمد بیدی وانا اکرم ولد آدم علی ربی ولا فخر‘‘
جب لوگوں کو(قیامت کے دن) اٹھایا جائے گا سب سے پہلے میں ہی قبر سے باہر آؤں گا جب سب لوگ آئیں گے تو میں ہی ان سے خطاب کروں گا جب لوگ نا امید ہوجائیں گے تو میں ہی ان کو بشارت دوں گا لواء الحمد(خصوصی عظمت والے جھنڈے کا نام ) میرے ہاتھ میں ہوگا تمام اولاد آدم پر رب تعالیٰ کے ہاں میں ہی مکرم ہوں گا مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ صحابہ کرام میں سے کچھ لوگ بیٹھ کر تذکرہ کر رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا کلام سنا بعض نے تعجب کرتے ہوئے کہا ’’ان اللہ اتخذ ابراھیم خلیلا‘‘ بے شک اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا۔ اور بعض نے کہا ’’ماذا باعجب من کلام موسی کلمہ تکلیما‘‘۔ موسیٰ علیہ السلام کے کلام پر اور زیادہ تعجب ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے کلیم بنایا۔ کچھ اور نے کہا۔ ’’فعیسی کلمۃ اللہ وروحہ‘‘ عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں بعض اور حضرات نے کہا: ’’آدم اصطفاہ اللہ‘‘ آدم علیہ السلام صفی اللہ ہیں اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا میں نے تمہارا کلام سنا اور تمہارے دلائل سنے بیشک یہ حقیقت ہے کہ ابراہیم خلیل اللہ ہیں موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ ہیں واقعی ایسا ہے اور عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ ہیں یقیناً ایسا ہے آدم علیہ السلام صفی اللہ ہیں ہاں یہی بات ہے۔
’’الا وانا حبیب اللہ ولا فخر وانا حامل لواء الحمد یوم القیامۃ ولا فخر وانا اول شافع وانا اول مشفع یوم القیامۃ ولا فخر وانا اول من یحرک حلقۃ الجنۃ فیفتح لی فادخلھا ومعی الفقراء المومنین ولا فخر وانا اکرم الاولین والآخرین ولا فخر‘‘
خبردار میں اللہ تعالیٰ کا حبیب ہوں مجھے اس پر کوئی فخر نہیں، قیامت کے دن لواء الحمد میں ہی اٹھانے والا ہوں گا مجھے اس پر کوئی فخر نہیں، قیامت کے دن سب سے پہلے میں ہی شفاعت کرنے والا ہوں گا اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت کو قبول کیا جائے گا مجھے اس پر کوئی فخر نہیں، اور قیامت کے دن سب سے پہلے جنت کے دروازے کو میں ہی کھٹکھٹاؤں گا اور میرے لیے دروازہ کھولا جائے گا میں اس میں داخل ہوں گا اور میرے ساتھ غریب مسلمان ہوں گے مجھے اس پر کوئی فخر نہیں، تمام پہلے اور پچھلے لوگوں سے میں سے زیادہ ہی مکرم ہوں گا مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔
یہ تمام احادیث جن کو ذکر کیا گیا ہے روز روشن کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت پر دلالت کر رہی ہیں۔
۱۵۔ بیہقی نے فضائل صحابہ کی بحث میں ذکر کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ دور سے نظر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ھذا سید العرب‘‘ یہ شخص عریبوں کا سردار ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے عرض کی ’’الست انت سید العراب‘‘ کیا آپ عربیوں کے سردار نہیں؟ تو آپ نے فرمایا:
’’وانا سید العالمین وھو سید العرب‘‘ می