سیّدنا و مولانا حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
سیّدنا و مولانا حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
حضور پر نور خاتم الانبیاء، باعثِ تخلیقِ کائنات، فخرِ موجودات، رحمۃ اللعالمین، شفیع المذنبین محبوبِ کبریا محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پیدا فرمایا اور پھر اس نور کے وسیلے سے تمام جہانوں کو تخلیق کیا۔ عالمِ ارواح ہی میں آپ کے نور کو خلعتِ نبوت سے سرفراز فرماکر جملہ انبیائے کرام علیہم السلام کی روحوں سے یہ عہد لیا گیا کہ اگر وہ حجور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک کو پائیں تو اُن پر ایمان لائیں اور اُن کی مدد کریں۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَةٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ (پارہ ۳ سورۂ آل عمران رکوع۹)
ترجمہ: ’’اور یاد کرو جب لیا اللہ تعالیٰ نے انبیاء سے پختہ وعدہ کہ قسم ہے تمہیں اُس کی جودوں میں تم کو کتاب اور حکمت سے پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول جو تصدیق کرنے والا ہو ان (کتابوں) کی جو تمہارے پاس ہیں تو تم ضرور ضرور ایمان لانا اس پر اور ضرور ضرور مدد کرنا اس کی (اس کے بعد) فرمایا کیا تم نے اقرار کرلیا اور اٹھالیا تم نے اس پر میرا بھاری ذمہ؟ سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا۔ (اللہ نے) فرمایا تو گواہ رہنا اور میں (بھی) تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔‘‘
خداوندِ قدوس کے اسی ارشاد عالیہ کے مطابق تمام انبیائے کرام علیہم السلام اپنی اپنی امتوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت دیتے رہے۔
اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نورِ پاک کو اُن کی پشت مبارک میں بطور امانت رکھا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے وہ نور حضرت حواء کے رحم پاک میں منتقل ہوا۔ پھر حضرت حواء سے حضرت شیث علیہ السلام کی پشت میں منتقل ہوا، پھر اسی طرح یہ نورِ مقدس پاک پشتوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل ہوتا ہوا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی پشتِ مبارک میں منتقل ہوا اور اُن سے حضرت آمنہ کے بطن مبارک میں منتقل ہوا۔
اِسی نور کی برکت سے حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے سجدہ کیا اور اسی نور کے وسیلہ سے اُن کی توبہ قبول ہوئی، اسی نور کی برکت سے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی غرق ہونے سے بچی، اسی نور کی برکت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آتشِ نمرود گلزار ہوگئی، اسی نور کی برکت سے حضرت ایوب علیہ السلام کی مصیبت دور ہوئی اور اسینور کی برکت سے تمام انبیائے سابقین پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار عنایات و نوازشات ہوئیں، مولانا جاؔمی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:
وصلی اللہ علی نور کز و شد نورہا پیدا |
|
زمیں از حب اوساکن فلک در عشق او شیدا |
نہ ایوب از بلا راحت، نہ یوسف حشمت وجاہت
نہ عیسیٰ آں مسیحا دم نہ موسیٰ آں یدِ بیضا
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی اپنی والدہ ماجدہ کے بطن مبارک میں ہی تھے کہ آپ کے والد ماجد حضرت عبداللہ نے مدینہ میں رحلت فرمائی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ۱۲ ربیع الاول ۱ھ عام الفیل (واقعہ عام الفیل سے ۵۵ دن بعد) مطابق ۲۱؍اپریل ۵۷۱ء مطابق ۴ جیٹھ سمت ۶۲۸ بکرمی کو مکہ مکرمہ میں بعد از صبح صادق پیر کے دن ہوئی۔ ولادت شریف کے وقت آپ کے ساتھ ایسا نور نکلا کہ مکہ شریف کے رہنے والوں کو ملکِ شام کے قیصری محل (بادشاہی محلات) نظر آنے لگے، ایوانِ کسریٰ کے چودہ کنگرے گر پڑے فارس کا آتش کدہ بجھ گیا، دریائے سادہ خشک ہوگیا اور وادیٔ سماوہ کی ندی کناروں تک بہنے لگی، غرض ایسے بے شمار واقعات ظاہر ہوئے۔
سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے کئی دن دودھ پلایا، پھر آپ نے چند روز ابولہب کی آزاد کردہ لونڈی ثویبہ کا دودھ پیا، اس کے بعد حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے قبیلہ میں لے گئیں جہاں پہلی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شقِ صدر ہوا، دوسری دفعہ دس برس کی عمر میں، تیسری بار غارِ حرا میں، اور چوتھی مرتبہ شبِ معراج میں ہوا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف چھ برس کی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہ انتقال فرماگئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش اپنے ذمے لے لی، جب آٹھ سال کے ہوئے تو دادا جان بھی رحلت فرماگئے، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ پرورش کرنے لگے، بارہ سال کی عمر مبارک میں آپ حضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ملک شام کو بغرض تجارت تشریف لے گئے، اس سفر میں بحیرا راہب نے آپ کو دیکھ کر کہا یہ تو اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ہیں، چودہ سال کی عمر شریف میں آپ نے اپنے چچاؤں کے ساتھ حربِ فجار میں شرکت فرمائی۔ پچیس سال کی عمر مبارک میں حضرت خدیجہ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بسلسلہ تجارت شام کو تشریف لے گئے، اس سفر سے واپسی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوگیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر اقدس پچیس برس کی ہوئی تو قریش نے عمارتِ کعبہ کو از سرِ نو تعمیر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پیارے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنے مبارک کندھوں پر پتھر اُٹھاکر لاتے رہے۔
[۱۔ بعض محققین کے نزدیک آپ کی پرورش زبیر بن عبدالمطلب نے کی تھی، واللہ اعلم ورسولہ (قصوری)]
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف چالیس برس کی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے منصبِ نبوت سے سرفراز فرمایا چنانچہ خفیہ طور پر بعض لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت پر لبیک کہے ہوئے بہت سے مرد اور عورتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، لڑکوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، آزاد کیے ہوئے غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہیں۔
خفیہ دعوت کے تین سال بعد دعوتِ اعلانیہ کا حکم آیا تو سردارانِ قریش بہت سٹ پٹائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو اذیت دینے لگے، نبوت کے پانچویں سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایاکہ تم میں سے جو چاہیں ہجرت کرکے حبشہ چلے جائیں، چنانچہ پہلی دفعہ گیارہ مرد اور چار عورتوں نے ہجرت کی، نبوت کے چھٹے سال حضرت حمزہ مشرف بہ اسلام ہوئے اورا ُن کے تین دن بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی ایمان لے آئے، اب اسلام کی روز افزوں ترقی کو دیکھ کر قریش کی نیندیں حرام ہوگئیں اور وہ مسلمانوں کو شدت کے ساتھ ایذائیں دینے لگے، اس لیے ۸۳ مرد اور ۱۸ عورتوں نے دوسری بار حبشہ کی طرف ہجرت کی، ریش نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس اپنے سفیربھیجے کہ مہاجرین کو واپس کردو مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سفیر خاسر و نامراد واپس لوٹے، اب قریش نے جھنجھلا کر بہ اتفاق رائے یہ قرار داد پاس کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ قتل کردیا جائے، بنوہاشم و بنو مطلب سے قطع تعلقی کرلی تاکہ وہ ہراساں و پریشاں ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے حوالہ کردیں اور اس بارے میں ایک تحریری معاہدہ خانہ کعبہ کی چھت پر آویزاں کردیا، قریش نے نہایت سختی سے اس معاہدہ پر عملدرآمد کیا، تین سال بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر ارشاد فرمائی کہ اس معاہدہ کو دیمک چاٹ گئی ہے اور سوائے اللہ تعالیٰ کے نام پاک کے باقی کچھ نہیں رہا، جب معاہدہ کو دیکھا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک صحیح نکلا مگر مخالفین بجائے نادم و شرمسار ہونے کے مزید درپئے آزار ہوگئے اور طرح طرح سے زیادتیاں کرنے لگے۔ ماہ رمضان ۱۰ نبوت میں حضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا اور اس کے تین دن بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ نے بھی انتقال فرمایا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پریشانی کی حالت میں طائف کا سفر اختیار فرمایا مگر اشرافِ ثقیف نے آپ کی دعوت کا بری طرح سے جواب دیا اور آپ پر اس قدر سنگ باری کی کہ نعلین شریفین خون آلودہ ہوگئیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ تھی کہ ہر سال حج کے موسم میں تمام قبائلِ عرب کو جو مکہ اور اُس کے ارد گرد موجود ہوتے دعوتِ اسلام دیا کرتے تھے اور میلوں میں بھی اسی غرض سے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ نبوت کے گیارہویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسبِ عادت منیٰ میں قبیلہ خزرج کے چھ آدمیوں کو دعوتِ اسلام دی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے مدینہ طیبہ میں اپنے بھائیوں کو اسلام کی دعوت دی جس کے طفیل آئندہ سال بارہ مرد ایام حج میں مکہ آئے اور حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر بیعت کی سعادت سے مشرف ہوئے، مشہور قول کے مطابق اسی سال ماہ رجب کی ستائیسویں رات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ بیداری میں جسدِ اطہر کے ساتھ معراج مبارک ہوا اور پانچ نمازیں فرض ہوئیِ نبوت کے تیرھویں سال انصار میں سے ۷۳ مرد اور دو عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی اور یوں کاروانِ اسلام روز بروز شاہراہِ ترقی پر گامزن ہونے لگا۔
اسلام کی روز افزوں ترقی کی وجہ سے قریش کی ایذا رسانی بھی شدید ہوتی جا رہی تھی جس کی وجہ سے اب مسلمانوں کا مکہ میں رہنا دشوار ہوگیا، لہٰذا حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازتِ مبارکہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم متفرق طور پر چوری چھپے، ہجرت کرکے مدینہ شریف پہنچ گئے اور مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور چند علیل و ناتواں رہ گئے۔
قریش نے جب دکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار و مددگار مکہ کے علاوہ مدینہ میں بھی کافی تعداد میں ہوگئے ہیں تو اُن کی نیندیں حرام ہوگئیں کہ کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ میں نہ چلے جائیں اور وہاں سے اپنے حامیوں کی فوج ظفر موج کے ساتھ مکہ پر حملہ آور ہوں، لہٰذا انہوں نے دار الندوہ ہیں جمع ہوکر شیخ نجدی کے مشورہ سے یہ قرار دیا کہ آج رات ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیا جائے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے اس مذموم فیصلے کی خبر کردی۔ کفار نے قرارداد کے مطابق رات ہوتے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت کدہ کو گھیرے میں لے لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے بستر پر چھوڑا اور مٹھی بھر خاک لے کر سوۂ یٰسین شریف کی شروع کی آیات پڑھ کر کفار پر پھینک دی جس کی وجہ سے کفار کو کچھ نظر نہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکل کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر عازمِ مدینہ ہوگئے، تین راتیں غارِ ثور میں گزاریں، راستہ میں سراقہ بن جعشم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں آیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے اُس کا گھوڑا زمین میں دھنس گیا اور وہ معافی مانگ کر واپس چلا آیا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲؍ربیع الاول دو شنبہ (پیر) کے دن قباء میں پہنچے۔ یہی تاریخ اسلامی سال (سن ہجری) کی ابتدا ٹھہری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قباء میں مسجد قباء کی بنیاد ڈالی جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے یہاں سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف جلوہ افروز ہوئے تو مسلمانوں میں مسرّت کی جو لہر دوڑی اُسے احاطۂ تحریر میں نہیں لایا جاسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان پر قیام فرمایا۔ اس سال مسجد نبوی، ازواج مطہرات کے لیے حجرے اور مہاجرین کے لیے مکانات تعمیر کیے گئے، اذان شروع کی گئی اور صحابہ کرام میں بھائی چارہ پیدا فرمایا۔
ہجرت کے دوسرے سال بیت المقدس کے بجائے کعبہ شریف قبلۂ نماز ٹھہرا۔ رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے اور غزوات و سرایا کا آغاز ہوا۔ غزوات تعداد میں ۲۷ ہیں اور سرایا ۴۷ بڑے بڑے غزوات جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے سات ہیں۔ بدر، احد، خندق، خیبر، فتح مکہ، حنین، تبوک۔ جن غزوات میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال فرمایا وہ یہ ہیں: بدر، احد، خندق، مصطلق، خیبر، فتح مکہ، حنین، طائف۔ سب سے آخری غزوۂ تبوک ماہ رجب۹ھ میں وقوع پذیر ہوا۔
ہجرت کے ساتویں سال کے آغاز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے والیانِ ملک (قیصر و کسریٰ اور نجاشی وغیرہ) کے نام دعوتِ اسلام کے خطوط ارسال فرمائے اور ۹ھ میں غزوہ تبوک سے واپسی پر آپ نے منافقین کی مسجد ضرار (جو مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے بنائی گئی تھی) کو جلادینے کا حکم دیا، اسی سال عربوں کے کثیر التعداد وفد بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے جس کی وجہ سے اسے سالِ وفود بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وفود عام طور پر دولتِ ایمان سے مالا مال ہوکر واپس گئے۔ ۱۰ھ میں بھی وفود حاضر خدمت ہوکر نورِ ایمان سے مشرف ہوتے رہے۔ اسی سال اہلِ یمن و ملوکِ حمیرا ایمان لائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج کیا جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔
حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کے وقت پوری دنیا بالخصوص ملک عرب میں جہالت و گمراہی کا دور دورہ تھا، عربوں کی مذہبی وار اخلاقی پستی آخری حدوں کو پہنچی ہوئی تھی۔ موافق و مخالف، دوست اور دشمن اپنے اور بے گانے سب کو یہ معلوم ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم اُمی تھے امیوں ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پرورش پائی۔ کسی کے سامنے زانوے تلمذ تہہ نہ کیا اور نہ لکھنا پڑھنا سیکھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلمیذ الرحمٰن ہونے کی حیثیت سے اپنے اصحاب کرام کو وہ روحانی تعلیم دی کہ وہ معارف ربانی کے عارف اور اسرارِ فرقانی کے ماہر بن گئے۔ جس کسی نے بھی دولتِ ایمان سے سرفراز ہوکر کچھ وقت بھی آپ کے قدموں میں گزارا وہ عالمِ ربانی اور عارف یزدانی بن گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضِ صحبت سے صحابہ کرام میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نسبت خاصہ اور قوت قدسیہ عطا ہوگئی۔ القصہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم سب کو اسلام و ایمان اور احسان سے مالا مال کرکے اور سچے دین کے ظاہر و باطنی علوم سکھاکر بارہ ربیع الاوّل ۱۱ھ کو دو شنبہ (پیروار) کے دن الرفیق الاعلیٰ پکارے ہوئے عالمِ فانی سے عالم باقی کی طرف تشریف لے گئے۔ مگر حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ اللعالمین اور حیات النبی ہیں، قیامت تک حضور کی امت مرحومہ کو حضور سے وہی فیضان بواسطہ خواصِ امّت علمائے کرام و صوفیائے عظام پہنچتا رہے گا جو حضور کی ظاہری زندگی میں پہنچتا تھا۔ حضور کی امت میں وقتاً فوقتاً اولیاء و صلحاء پیدا ہوتے رہیں گے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ظاہری و باطنی علوم کے فیضان سے مالا مال کرتے رہیں گے اور ان اولیاء کرام کے ذریعے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق ہوتی رہے گی۔ چنانچہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ اپنی معرکۃ الآرا کتاب کشف المحجوب میں یوں فرماتے ہیں:
’’خداوند تعالیٰ برہانِ نبوی راتا امروز باقی گردایندہ است و اولیاء را سبب اظہارِ آں کردہ۔ تاپیوستہ آیاتِ حق و حجتِ صدق سیّدنا محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ظاہر می باسشند و مر ایشاں را والیانِ عالم گردایندہ تا محرم وے گشتہ اند وراہِ متابعتِ نفس رادر نوشتہ، از آسمان باراں برکت اقدامِ ایشاں آید۔ واز زمین نباتات ببرکات صفائی احوال ایشاں رؤید۔‘‘
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے برہانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو آج تک کے لیے باقی رکھا ہے اور اولیاء کرو اس کے اظہار کا سبب بنایا ہے تاکہ آیاتِ حق اور حجتِ صدقِ سیدنا محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہمیشہ ظاہر ہوتی رہیں اور اُن کو دنیا کے والی گردانا گیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس کے محرم ہوگئے ہیں اور انہوں نے متابعتِ نفس کو اپنا رستہ بنایا ہے آسمان سے بارش اُن کے قدموں کی برکت سے آتی ہے اور زمین سے نباتات اُن کے صفائے احوال کی بدولت اُگتے ہیں۔‘‘
حضرت سائیں توکل شاہ انبالوی رحمۃ اللہ علیہ یوں ارشاد فرماتے ہیں:
’’حقیقتِ محمدیہ کا تعلق جس طرح ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حیات میں تھا بعینہٖ وہی تعلق اب بعد وصال بھی بدن مبارک کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو کوئی نہیں بدل سکتا اور جس طرح حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں آپ کے تصرفات جاری تھے ویسے ہی اب بھی جاری ہیں۔ یہی معنی ہیں حیات النبی ہونے کے اور اسی وجہ سے قطب، غوث، ابدال، اوتاد وغیرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہوتے رہیں گے۔‘‘ (ذکرِ خیر)
بطور تبرک حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے چند بڑے بڑے واقعات کی نہایت مختصر سی فہرست پیش کردی گئی ہے۔ ان واقعات کی تفصیل اور حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلقِ عظیم، حلیہ شریف و معجزات و مناقب و خصائص اور اُمت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق وغیرہ کے بیان کے لیے حضرت مولانا نور بخش توکلی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سیرتِ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت شیخ عبدالحق محث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مدارج النبوت اور سیرت کی دیگر کتابوں کا مطالعہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔
ارشاداتِ قدسیہ:
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ قدسیہ کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ عالیہ نہ پائے جاتے ہوں۔
۱۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ قیامت کے دن خدا کے نزدیک بندوں میں سے کون سا بندہ زیادہ فضیلت والا اور زیادہ بلند مرتبہ والا ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ مرد اور وہ عورت جو ذکرِ خدا زیادہ کرتے ہیں، عرض کیا گیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا خدا کا ذکر زیادہ کرنے والے راہِ خدا میں جہاد کرنے والے سے زیادہ فضیلت والے اور زیادہ بلند مرتبے والے ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غازی اگر اپنی تلوار سے کافروں اور مشرکوں کو قتل کرے یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جائے اور وہ خون آلود ہوجائے، خدا کا ذکر کرنے والا درجہ میں اُس سے بڑھ کر ہوگا۔ (امام احمد و ترمذی)
۲۔ جب تم بہشت کی چراگاہوں میں گزرو، تو چرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ بہشت کی چراگاہیں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذکر کے حلقے۔ (ترمذی)
۳۔ اللہ تعالیٰ کے ایسے فرشتے ہیں جو گلی کوچوں میں پھرتے ہوئے اہل ذکر کی تلاش میں رہتے ہیں اور جب وہ کسی جماعت کو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو یوں پکارتے ہیں ’’اپنے مقصود کی طرف آؤ‘‘ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ فرشتے اہلِ ذکر کو اپنے بازوؤں سے پہلے آسمان تک گھیر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن فرشتوں سے پوچھتا ہے (حالانکہ وہ اُن کا حال زیادہ جانتا ہے) کہ میرے بندے کیا کہتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ تیرے بندے تجھے پاکی، بزرگی اور ثنا اور عظمت سے یاد کرتے ہیں۔ پھر اللہ پوچھتے ہیں کہ کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ نہیں، اللہ کی قسم انہوں نے تجھے نہیں دیکھا، پھر خدا تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو ان کا حال کیسا ہوتا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اگر وہ تجھے دیکھ لیتے تو وہ تیری عبادت میں اور تیری تعظیم کرنے میں سخت تر ہوتے اور تیری تسبیح زیادہ کرتے پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ وہ کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ تجھ سے بہشت مانگتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ پوچھتا ہے کہ کیا انہوں نے بہشت کو دیکھا ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ نہیں، اللہ کی قسم اے پروردگار انہوں نے بہشت کو نہیں دیکھا پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ اگر وہ بہشت کو دیکھ لیتے تو ان کا حال کیسا ہوتا؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ بہشت کو دیکھ لیتے تو اُس کی حرص اور طلب میں سخت تر ہوے اور اس کی رغبت زیادہ کرتے، پھر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں ، حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ دوزخ کی آگ سے پھر حق تعالیٰ پوچھتا ہے کہ کیا انہوں نے دوزخ کی آگ کو دیکھا ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ نہیں اللہ قسم اے پروردگار، انہوں نے نہیں دیکھا پھر حق تعالیٰ پوچھتا ہے کہ اگر وہ اُسے دیکھ لیتے تو ان کا حال کیسا ہوتا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اگر وہ دوزخ کی آگ کو دیکھ لیتے تو اس سے بھاگنے اور ڈرنے میں سخت تر ہوتے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے ’’میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اُن کو بخش دیا۔‘‘ اس پر اُن فرشتوں میں سے ایک فرشتہ عرض کرتا ہے کہ انمیں سے فلاں شخص ذکر کرنے والوں میں سے نہیں وہ تو کسی کام کے لیے آیا تھا، حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ وہ جماعت ہے کہ اُن کا ہمنشیں محروم نہیں رہتا۔ (امام بخاری)
۴۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے نزدیک ہوں وہ جو میری نسبت رکھتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے اگر وہ مجھے اپنے جی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے جی میں یاد کرتا ہوں اور اگروہ مجھے آدمیوں کی جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اُسے اس جماعت سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں۔ (بخاری و مسلم)
۵۔ قیامت برپا نہ ہوگی یہاں تک کہ زمین میں کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہے گا ۔ (مسلم)
۶۔ افضل ذکر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ہے اور افضل دعا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ہے۔ (ترمذی و ابن ماجہ)
۷۔ جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار درود بھیجتا ہے۔ (مسلم)
۸۔ جب تو نماز مغرب سے لوٹے (یعنی سلام پھیرے) تو کسی سے کلام کرنے سے پہلے سات بار کہہ لیا کرو اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ (خدایا مجھے دوزخ کی آگ سے پناہ دے) کیونکہ اگرتو یہ کہے اور پھر اُسی رات مرجائے تو تیرے لیے دوزخ کی آگ سے رہائی لکھی جاتی ہے اور جب تو نمازِ صبح ادا کرے تو ان ہی کلمات کو سات مرتبہ کہہ لیا کر، اگر تو اُسی دن مرجائے تو تیرے لیے دوزخ کی آگ سے ربائی لکھی جاتی ہے۔ (ابوداؤد)
۹۔ دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر آسان اور میزانِ اعمال میں بھاری اور خدا کے نزدیک محبوب ہیں یعنی سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ۔ (بخاری و مسلم)
۱۰۔ یہ کہنا سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ، میرے نزدیک محبوب تر ہے ہر چیز سے جس پر سورج طلوع ہوا ہے۔ (امام مسلم)
۱۱۔ کسی نے کبھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر طعام نہیں کھایا۔ حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایا کرتے تھے ۔ (امام بخاری)
۱۲۔ جو شخص صبح کے وقت یوں کہے: اَللّٰھُمَّ مَا اَصْبَحَ بِیْ مِنْ نِّعْمَۃٍ اَوْبَاَحَدٍ مِنْ خَلْقِکَ فَمِنْکَ وَحْدَکَ فَلَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُکْرُ۔ (ترجمہ: یا اللہ! صبح کو میرے پاس یا تیری خلق میں سے کسی کے پاس جو نعمت ہے وہ تجھ تنہا کی طرف سے ہے پس تیرے لیے حمد ہے اور تیرے لیے شکر ہے) اُس نے اُس دن کا شکر ادا کردیا اور جو شخص اسی طرح شام کے وقت کہے: اَللّٰھُمَّ مَا اَمْسِیْ بِیْ مِنْ نِّعْمَۃِ اس نے رات کا شکر ادا کردیا۔ (ابوداؤد)
۱۳۔ جب تم میں سے کوئی اپنے بستر پر لیٹنے لگے تو اس کو چاہیے کہ اپنے بستر کو اپنے تہ بند کے اندرونی حاشیہ کے ساتھ جھاڑے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے بعد کون سی چیز بستر پر پڑی ہے پھر یہ دعا پڑھے: بِاسْمِکَ رَبّیْ وَصَنْعَتُ جَنَبِیْ وَبِکَ اَرْفَعُہٗ اِنْ اَمْسَکْتَ نَفْسِیْ فَالحَمْتَھَا وَاِنْ اَرْسَلْتَھَا فَاحْفَطَھَا بِمَا تَحْفَظَ بِہٖ عِبَادَکَ الصَّالِحِیْنَ (ترجمہ: اے میرے پروردگار! میں نے تیرے نام سے اپنا پہلو (بستر پر) رکھا ہے اور تیرے نام سے اُسے اٹھاؤں گا، اگر تو میری روح کو قبض کرلے تو اس پر رحم کرنا اور اگر تو اُس کو چھوڑ دے تو اُسے نگاہ رکھنا جیسا کہ تو اپنے نیک بندوں کو نگاہ رکھتا ہے) اور ایک روایت میں ہے کہ بستر کو جھاڑ کر اپنے دائیں پہلو کے بل لیٹ جائے بعد ازاں یہ دعا آخر تک پڑھے۔ (بخاری و مسلم)
۱۴۔ جو شخص اپنے بستر پر لیٹتے وقت تین بار کہے (اَسْتَغْفِرُ اللہَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ۔ خدا تعالیٰ اُس کے گناہ بخش دیتا ہے اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کی مانند ہوں یا صحرا کی ریت کے ذروں کے برابر یا درختوں کے پتوں کے برابر یا دنیا کے دنوں کے برابر۔ (ترمذی)
۱۵۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال غنیمت میں غلام اور لونڈیاں آئے ہیں ۔ وہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئیں تاکہ چکی پیسنے کی مشقت سے اپنے ہاتھوں کی تکلیف کا ذکر کرکے ایک لونڈی طلب کریں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت گھر پر جلوہ افروز نہ تھے، چنانچہ انہوں نے اپنا حال ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کیا: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف فرما ہوئے، اس وقت ہم بستروں پر لیٹ چکے تھے، ہم اٹھنے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے درمیان بیٹھ گئے یہاں تک کہ میں نے حضور اقدس کے قدم مبارک کی ٹھنڈک اپنے پیٹ پر محسوس کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیامیں تم کو اس سے بہتر نہ دوں جس کا تم نے سوال کیا ہے جب تم اپنے بستر پر لیٹو تو ۳۳ بار سُبْحَانَ اللہ ۳۳ بار اَلْحَمْدُ للہ اور ۳۴ بار اَللہُ اَکْبَر پڑھ لیا کرو یہ تمہارے واسطے لونڈی سے بہتر ہے۔ (بخاری و مسلم)
۱۶۔ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ اَبُوْءُلَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُوْءُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ افضل استغفار مندرجہ بالا دعا ہے۔ جو شخص ان کلمات کو دن کے کسی حصہ میں پڑھے اور ان پر یقین کامل رکھے تو اگر وہ اسی شام سے پہلے مر جائے تو وہ اہلِ بہشت میں سے ہوگا۔ اگر رات کے کسی حصے میں پڑھے اور مکمل یقین و اعتقاد رکھتا ہو اور ہو صبح سے پہلے مر جائے تو وہ اہلِ بہشت میں سے ہے۔(امام بخاری)
۱۷۔ جب رات کا آخیر تنہائی حصہ باقی ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ پہلے آسمان کی طرف اُترتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ’’ ہے کوئی جو مجھے پکارے تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں ہے کوئی جو مجھ سے سوال کرے تاکہ میں اسے عطا کروں اور ہے کوئی جو مجھ سے بخشش طلب کرے تاکہ میں اُسے بخش دوں۔ (بخاری و مسلم)
۱۸۔ خوشی ہو اس شخص کو جس نے اپنے نامۂ اعمال میں کثرت سے استغفار پائی۔ (ابن ماجہ و نسائی)
۱۹۔ جس شخص نے کھانا کھانے کے بعد یوں کہا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنِیْ ھَذَا الطَّعَامَ وَرَزَقَنِیْہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِنِّیْ وَلَا قُوَّۃٍ۔ (ترجمہ: سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور بغیر کسی حیلہ وقوت کے یہ کھانا مجھے دیا۔) اُس کے پچھلے اور اگلے صغیرہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں اور جس شخص نے کپڑا پہن کر کہا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ ھَذَا التَّوْبَ وَرَزَقَنِیْہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِّنِّیْ وَلَا قُوَّۃٍ۔ اس کے اگلے پچھلے صغیرہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
۲۰۔ جو شخص ہر روز سو بار پڑھے: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۔ اُس کو دس غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا اور اُس کے لیے سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور سو برائیاں مٹا دی جاتی ہیں اور اُس شام تک اُسے شیطان سے پناہ مل جاتی ہے اس سے بڑھ کر کسی شخص کا افضل عمل نہیں ہے مگر جو اس سے زیادہ عمل کرے۔ (بخاری)
۲۱۔ آدمی زاد کو اِن چیزوں کے سوا اور کسی چیز میں حق نہیں (یعنی قیامت کے دن ان چیزوں کا حساب نہ ہوگا۔) مکان رہنے کے لیے، کپڑا ستر عورت کے لیے، روٹی کا ٹکڑا اور پانی۔ (ترمذی)
۲۲۔ ہر ایک آدمی کو قیامت کے دن بارگاہِ خداوندی میں کھڑا رکھا جائے گا یہاں تک کہ اُس سے پانچ چیزوں کا سوال نہ پوچھ لیا جائے۔ اُس کی عمر کی بابت کہ کس کام میں بسر کی۔ اس کی جوانی کی بابت کہ کس کام میں بوسیدہ کی۔ اس کے مال کی بابت کہ کہاں سے کمایا اور کس چیز پر اُسے خرچ کیا، اور اپنے علم پر کیا عمل کیا۔ (ترمذی)
۲۳۔ تو دنیا میں اس طرح زندگی گزار کہ گویا مسافر ہے یا راہ گیر۔ (بخاری)
۲۴۔ خدا نے اس مرد کا عذر زائل کردیا جس کی عمر لمبی کردی یہاں تک کہ اُسے ساٹھ سال تک پہنچادیا۔ (بخاری)
۲۵۔ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس مرد کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں جس نے ایک گروہ کو دوست رکھا اور وہ اُن سے ملا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر انسان قیامت کے دن اُس کے ساتھ اُٹھے گا جس کو اُس نے دوست رکھا ہے (بخاری و مسلم)
۲۶۔ اگر دنیا اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے بازو کے برابر وقعت رکھتی تو وہ کسی کافر کو اس کا ایک گھونٹ نہ پلاتا۔ (احمد و ترمذی و ابن ماجہ)
۲۷۔ حلال اور حرام دونوں ظاہر ہیں۔ ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، جس شخص نے مشتبہات سے پرہیز کیا اس نے اپنا دین اور اپنی آبرو بچالیا ور جو شخص شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں پڑ گیا اس چرواہے کی طرح جو اپنے جانور چراگاہ کے ارد گرد چراتا ہے نزدیک ہے کہ وہ چراگاہ کے اندر چرائے، آگاہ رہو کہ ہر ایک بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے اور آگاہ رہو کہ اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کے محارم میں ہے، آگاہ رہو کہ جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوجاتا ہے تو تمام جسم درست ہوجاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو تمام جسم بگڑ جاتا ہے آگاہ رہو کہ وہ گوشت کا ٹکڑا دل ہے۔ (بخاری و مسلم)
۲۸۔ مومن کی فراست سے ڈر کیونکہ وہ اللہ کے دیے ہوئے نور سے دیکھتا ہے۔ (ترمذی)
۲۹۔ جب انسان مرجاتا ہے تو اُسے سے اُس کے عمل کا فائدہ منقطع ہوجاتا ہے مگر تین چیزوں کا فائدہ منقطع نہیں ہوتا،صدقہ جاریہ، علم جس سے فائدہ اُٹھایا جائے اور نیک فرزند جو اس کے لیے دعاکرے۔ (مسلم)
۳۰۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جو شخص نیک عمل کرتا ہے اُس کے لیے دس گناہ ثواب ہے اور میں اُس سے زیادہ بھی دیتا ہوں اور جو شخص بدی کرتا ہے اس کا بدلہ ویسی ہی بدی ہے یا میں معاف کردیتا ہوں اور جو شخص مجھ سے ایک بالشت پر نزدیکی ڈھونڈتا ہے میں اُس سے ایک ہاتھ بھر نزدیکی ڈھونڈتا ہوں اور جو شخص میرے پاس چل کر آتا ہے میں اُس کے پاس دوڑ کر آتا ہوں اور جو شخص بمقدار زمین گناہ لے کر مجھ سے ملتا ہے میں اُس کی مثل مغفرت کے ساتھ اُس سے ملتا ہوں۔ (مسلم)
۳۱۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھتا ہے میں اُسے لڑائی کی خبر دیتا ہوں (یعنی وہ شخص مجھے لڑائی کا چیلنج دیتا ہے) اور میرے جس بندے نے میرے نزدیک ہونے کے لیے فرائض سے زیادہ کسی اور چیز کو محبوب نہیں رکھا اور نوافل کی ادائیگی کے ساتھ میری نزدیکی کو تلاش کیا ہے میں اُس کو دوست رکھتا ہوں اور جب میں اس کو دوست رکھتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اُس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ کسی چیز کو پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا (سوال پورا) کردیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو میں اس کو پناہ دیتا ہوں اور میں کسی چیز یا کام جس کو میں کرنے والا ہوں ایسا تردد و توقف نہیں کرتا جیسا کہ مومن کی جان قبض کرنے میں توقف کرتا ہوں جو موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اسے غمناک کرنے کو ناپسند کرتا ہوں۔ (بخاری)
۳۲۔ جو شخص کسی کو مصیبت میں گرفتار دیکھے اور کہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلَاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا وہ مصیبت اُس کو نہ پہنچے گی خواہ وہ کوئی مصیبت ہو (ترمذی)
۳۳۔ کلمہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ ننانوے بیماریوں کی دوا ہے جن میں سب سےآسان غم ہے ۔ (بیہقی در دعوت کبیر)
۳۴۔ میں نے بہشت کو غور سے دیکھا تو اس کے اہل میں سے بیشتر فقیروں کو دیکھا اور دوزخ کی آگ کو غور سے دیکھا تو اُس کے اہل میں سے اکثر عورتیں دیکھیں۔ (بخاری و مسلم)
۳۵۔ تم میری رضا اُن ضعیفوں اور فقیروں کی رضا میں ڈھونڈو جو تم میں ہیں، کیونکہ تم کو صرف ان ضعیفوں کی برکت سے رزق یا مدد ملتی ہے۔ (ابوداؤد)
۳۶۔ فقراء تونگروں (امیروں) سے پانچ سو سال پہلے بہشت میں داخل ہوں گے (ترمذی)
۳۷۔ جس دن اللہ تعالیٰ کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا سات شخص ایسے ہیں جن کو اللہ اپنے سایہ میں رکھے گا۔ امام عادل، جوان جس نے اپنے پروردگار کی عبادت میں نشوونما پائی۔ وہ مرد جس کا دل مسجدوں سے معلق ہے (یعنی جس کا دل مسجد میں ہی لگتا ہے) وہ مرد جن کی آپس میں محبت صرف اللہ کے واسطے ہے وہ تمام زندگی اُسی پر اکٹھے رہے اور اُسی پر ہی جدا (فوت) ہوئے۔ وہ مرد جسے ایک خاندانی اور خوبصورت عورت نے دعوتِ گناہ دی مگر اس نے کہا کہ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں وہ مرد جس نے چھپا کر صدقہ دیا یہاں تک کہ اس کا بایاں ہاتھ نہیں جانتا کہ دایاں کیا خرچ کر رہا ہے، وہ مرد جو تنہائی میں اللہ کا ذکر کرے تو اس کی آنکھوں سے آنسو زار زار ٹپکنے لگیں (بخاری)
۳۸۔ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو دوست رکھتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے فلاں بندے کو دوست رکھتا ہے تو بھی اس کو دوست رکھ، بس جبرئیل اس کو دوست رکھتے ہیں پھر جبرائیل آسمان میں پکارتے ہیں کہ اللہ نے فلاں بندے کو دوست رکھا ہے تم بھی اُس کو دوست رکھو، پس آسمان والے اُس کو دوست رکھتے ہیں اور زمین والوں میں بھی اس کی قبولیت پیدا ہوجاتی ہے۔ (بخاری)
۳۹۔ ایک غلام مکاتب (وہ غلام جس سے کچھ معاوضہ لے کر آزاد کیا جائے) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا کہنے لگا کہ میں اپنے زرِ کتابت سے عاجز ہوں آپ میری مدد فرمائیں، حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ارشاد کیا کہ میں تجھے وہ کلمات نہ سکھاؤں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھائے اگر تجھ پر پہاڑ جتنا بھی قرض ہو، اللہ تعالیٰ اُسے تجھ سے ادا کردے گا تو یہ پڑھا کر: اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاک۔ (ترمذی و بیہقی)
۴۰۔ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو، زندگی کو موت سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، فراغتِ وقت کو مشاغلِ دنیا میں مبتلا ہونے سے پہلے، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے اور تونگری (امیری) کو فقر (غربت) سے پہلے۔ (حاکم و بیہقی)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَاَصْحَابِ سَیّدنَا وَّمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاَھْلِ بَیْتِ سَیِّدنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدِ وَّاَزْوَاجِ سَیّدنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّذُرِیَّۃ سَیِّدنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاتَباعِ سَیِّدنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ.
(تاریخِ مشائخ نقشبند)