قطب عالم حضرت شاہ عبد العزیز اخوند رحمۃ اللہ علیہ

قطب العالم حضرت شاہ عبد العزیز اخوند دہلی کےاکابر واعاظم بزرگوں میں تھے، والد کا نام مولوی حکیم الٰہی بخش، دادا کانام حافظ محمد جمیل تھا، ۱۲۱۱؁ھ میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی ۹سال کی عمر میں اخوند برہان صاحب سے قرآن پاک حفظ کیا، اخوند برہان صاحب پشاور کے رہنے والےتھے، شاہ عالم کےزمانےمیں غلام قادر کے ہمراہ دہلی کو تاخت و تاراج کرنےکےارادےسے آئے تھے، حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی کے شاگرد اور مرید تھے، کہا کرتےتھےکہ ہم غلام قادر کے ہمراہ دہلی لوٹنے آئے تھے، حضرت شاہ عبد القادر کی نظر نے ہمیں لوٹ لیا،۔ اخوند برہان صاحب نےتَمِنًّا وتَبُرّکاً حضرت کا ختم قرآن اپنے پیرو مرشد سےکرایا، ۔۔۔فارسی کی درسیات اور شاقیہ اور شرح مُلا جامی حضرت مولانا کریم اللہ دہلوی سے پڑھیں، مولانا کریم اللہ حضرت شاہ عبد العزیزی محدث کے شاگرد تھے، سہ شنبہ ۴؍ شوال المکرم ۱۲۹۰؁ھ میں اُن کا انتقال ہوا، حضڑت قطب العالم کو خبرِ وصال سُں کر کافی صدمہ ہوا، باچشم تر فرمایا، ‘‘آج مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی کا انتقال ہوا’’ حضرت قطب العالم نے مشکوٰۃ المصابیح کا درس حضرت شاہ عبد العزیزی محدث سے لیا، لوائح جامی حضرت حافظ محمد علی شاہ فخری سلیمانی خیر ﷜آبادی سے اور مثنوی مولانائے روم حضرت حقائق پناہ غلام محمد شاہ عرف فخری سلیمانی خیر آبادی سے اور مثنوی مولانائے روم حضرت حقائق پناہ غلام محمد شاہ عرف مسکین شاہ سے پڑھی،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت قدوہ ارباب کاملان شاہ محمد غوث شہید قادری کی خدمت میں شیخو پورہ بدایوں شریف میں حاضر ہوکر بیعت کا شرف ھاصل کیا رخصت کےوقت حضرت شاہ [1] محمد غوث شیخو پوری نےفرمایا،ہم نےتمہارا نام شاہ مقبول احمد رکھ کر مجاز ارشاد کیا، حضرت قطب العالم نے قدم بوسی کےبعد عذر معذرت چاہی تو حضرت پیر و مرشد نےفرمایا، ہمنےتم کو بحکم پیران عظام مجاز کیا ہے، اگر کوئی شخص بحسن عقیدت، بنظر استفادہ حاضر ہوکر بیعت کی درخواست کرے، استخارہ کےبعد اس کی دست گیری کرنا’’

حضرت قطب العالم کی قوت مکاشفہ بڑی زبردست تھی، ہزارہا مخلوق نے آپ کےنفس ذکیہ کی برکات سے جلاء قلب و نظر حاصل کی، حضرت مولانا شاہ سراج الحق حفید رشید حضرت شیخ المشائخ غوث الوقت شاہ علی حسین اشرفی کچھ چھوی، حضرت تاج العرفاء مولانا شاہ محمد عادل کانپوری حضرت شاہ سید مہدی حسن، حضرت حافظ عبداللہ قدس اسرارہم مشہور واجل خلفاء میں تھے۔

حضرت قطب العالم نےبروز شنبہ ۱۰؍محرم المکرم بوقت ظہر ۱۲۹۶؁ھ میں انتقال فرمایا مزار مبارک آپ کی مسجد محلہ فراش خانہ دہلی میں ہے، ۔۔۔۔ حضرت کے مرید خاص حضرت مولانا سید محمد بخش اللہ شاہد گور کھپوری نے ‘‘خاص خدا’’ مادۂ تاریخ کہا، جس کو حافظ غلام رسول ویراں شاگرد ذوق نے نظم کیا ؎

حافظ آگاہِ دل شیخ زماں عبدالعزیز

آں کہ او مقبول احمد بود از صدق وصفا

بہر تاریخ وصالش ثبت شد ‘‘خاص خدا’’۱۲۹۶ھ

(ریاض الابرار)



[1] ۔ حضرت شاہ محمد غوث قدس سرہٗ قصبہ زمانیہ ضلع غازی پور کے رہنے والے تھے، حضرت شیخ الشیوخ شاہ آل احمد عرف اچھے میاں کے مرید وخلیفہ تھے، شیخو پور بد ایوں میں قعہ کے باہر ایک مسجد، خانقاہ اور کنواں تعمیر کیا، اور خلق خدا کی ہدایت میں مصروف ہوئے، آپ کا گذر بسر توکل پر تھا، کسی سے فتوح ونذر قبول نہیں۔ کرتے تھے، خرچ بہت زیادہ تھا، بد ایوں تشریف لےگئے، ایک جماعت ساتھ تھی، اسی میں سےکئی شخصوں نے مل کر آپ کو زخمی کردیا، آپ نے قاتلوں سے فرمایا، تم لوگ فوراً چلے جاؤ، ایسانہ ہو کہ کوئی تم کو دیکھ لے اور گرفتار کرلے،یہ واقعہ ۵؍شعبان ۱۲۵۵؁ کو شب جمعہ میں پیش آیا،آپ کا مزار شریف پیر بودلہ اور حضرت احمد بودلہ کےمزار سےمتصل ہے، تنکا شاہ آپ کے ممتاز خلفاء میں تھے، مگر سلسلہ کا اجراءحضرت قطب العالم شاہ عبدالعزیز دہلوی قدس سرہٗ سےہوا۔

(تذکرۃ الواصلین)

تجویزوآراء