الشیخ لاکبر محی الدین ابن العربی

 

نام و نسب:
الشیخ الامام العارف العالم الشیخ لاکبر والکبریت الاحمر ابوعبداللہ محی الدین محمد ابن علی ابن العربی اور شیخ الاکبر کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا نام محمد ابن العربی، کنیت ابو بکر اورلقب محی الدین ہے۔ آپ تصوف اور راہ طریقت میں شیخ اکبر یعنی “سب سے بڑے شیخ” کے نام سے مشہور ہیں۔ صوفیا میں کسی نے آج تک اس لقب کو کسی دوسرے شیخ کے لیے استعمال نہیں کیاگیا۔ آپ کا تعلق عرب کے مشہور قبیلے طے سے تھا۔ شیخ اکبر کے جد اعلی حاتم طائی عرب قبیلہ بنو طے کے سردار اور اپنی سخاوت کے باعث صرف عرب ممالک میں ہی نہیں پوری دنیا میں مشہور تھے ان کی نسل سے آپ کا خاندان تقوی عزت اور دولت میں اہم مقام رکھتا تھا۔ آپ کے ماموں ابو مسلم الخولانی ،جو ساری ساری رات عبادت میں گذارتے تھے اور جب ان کی ٹانگیں تھک جاتی تھیں، تو انہیں جھڑیوں سے مارتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہیں مارنا بہتر ہے اپنی سواری کے جانور کو مارنے سے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کیا رسول اللہ ﷺکے صحابہ سمجھتے ہیں کہ حضور ﷺصرف ان کے لیے ہیں ۔ اللہ کی قسم ہم ان پر اس طرح ہجوم کر کے آپ کی طرف بڑھیں گے کہ انہیں پتا چل جائے گا کہ انہوں نے اپنے پیچھے مردوں کو چھوڑا ہے ، جو آپ کے مستحق ہیں۔

ولادت:
آپ 17 رمضان المبارک سن 560 ہجری کو اندلس کے شہر مرسیہ میں پیدا ہوئے۔ مرسیہ میں ان دنوں ابن مردینش کی حکومت تھی جیسے کہ شیخ اکبر خود اپنی کتاب محاضرات الابرار و مسامراۃ الاخیار میں فرماتے ہیں: اسی خلیفہ کے زمانے میں (مراد مستنجد باللہ) میری پیدائش مرسیہ میں مملکت سلطان ابو عبد اللہ محمد بن مردینش کے دور میں ہوئی۔

ابتدائی تعلیم:
آپ کے والد مرسیہ کے ہسپانوی الاصل حاکم محمد بن سعید مردنیش کے سرکاری ملازم تھے۔ ابن العربی ابھی آٹھ برس کے تھے کہ مرسیہ پر مؤحدون کے قبضہ کرلینے کے نتیجہ میں آپ کے خاندان کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ مرسیہ میں ابن العربی کا قیام صرف 8برس رہا۔ ابتدائی تعلیمی مراحل تو آپ مرسیہ اور لشبونہ (لزبن) میں طے کر چکے تھے اس کے بعد آپ اشبیلیہ آئے جہاں آپ 598ھ تک یعنی تقریباً تیس سال رہے۔ اس عرصے کے دوران آپ حصول علم میں ہمہ تن مصروف رہے اور تمام علوم متداولہ مثلاً قرات، تفسیر، حدیث، فقہ، صرف و نحو، ریاضی، فلسفہ، نجوم، حکمت، اور دیگر علوم عقلیہ میں کامل دسترس حاصل کی۔ آپ نے اپنے دور کے نامور اور اعلی مقام اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔ آپ کے مشائخ اور اساتذہ کی تعداد 70 تک پہنچتی ہے۔

فوجی ملازمت:
آپ نے ڈیڑھ دو سال کا عرصہ سرکاری ملازمت کی جس میں آپ بطور فوجی (عربی =الجندی) فوج میں بھرتی ہوئے، لیکن پھر آپ کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا کہ آپ نے ملازمت سے ہاتھ اٹھا لیا اور طریقہ کے دوسرے لوگوں کی طرح فقر کو اپنا شعار بنایا۔
اسفار ِشیخ الاکبر:

شیخ اکبر نے اپنی زندگی کے پہلے 36 سال مغرب میں اور دوسرے36 سال مشرق کی سیاحت اور اسفار میں گزارے۔ ابن العربی نے پہلی بار اندلس کی سر زمین سے باہر کا سفر کیا ۔ آپ نے تیونس میں ابوالقاسم بن قسی ۔جومغرب (مراکش) میں المراودون کے خلاف اٹھنے والے صوفیوں کے بانی قرار دیئے جاتے ہیں ۔ان کی کتاب خلع النعلین کا درس لیا۔ بعد میں آپ نے اس کتاب کی شرح پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا ۔ اسی سفر کے دوران آپ کی ملاقات ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ساتھ ہوئی۔ اشبیلیہ سے آپ سب سے پہلے مورور گئے۔ جہاں آپ کی ملاقات مشہور صوفی عبداللہ بن استاد موروری سے ہوئی۔ اُن کی فرمائش پر اپنی کتاب ’’التدبیرات الالھیۃ فی اصلاح المملکۃ الانسانیۃ ‘‘ تحریر کی ۔

586ھہی میں قرطبہ گئے جہاں ملاقاتوں کے علاوہ گزشتہ امتوں کے تمام اقطابوں کو عالم برزخ میں دیکھا اور اُن کے اسماء سے آگاہ ہوئے۔ اسی سال الہامات کی شکل میں کتاب تدبیرات الہیہ کی ابتدا ہوئی۔
589ھمیں سبتہ گئے۔
590ھمیں حاکم شہر کے بلانے پر تیونس گئے اور وہیں ابو القاسم ابن قسی کی کتاب ’’خلع النعلین‘‘ پڑھی اور اس کی شرح لکھی۔ اسی دوران تین مرتبہ آپ کی حضرت حضر علیہ السلام سے ملاقاتوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔
591ھمیں فاس کا سفر کیا جہاں آپ نے علم جفر کے حساب سے موحدین کے لشکر کی نصاری کی فوج پر فتح کی بشارت دی۔
592ھمیں دوبارہ اشبیلیہ لوٹے اس سال انہیں عبدالرحمن بن علی القسطلانی نے خرقہ عطا کیا۔
593ھمیں دوبارہ فاس آئے اور مقام تجلی پر فائز ہوئے۔ فاس میں انہیں بہت سے راز عطا کئے گئے۔
594ھمیں دوبارہ واپس مرسیہ کی طرف روانہ ہوئے اور غرناطہ میں بھی قیام کیا۔ وہیں ابن رشد کی تجہیز و تکفین و تدفین میں بھی حصہ لیا۔
595ھمیں مرسیہ پہنچے اور کتاب مواقع النجوم الہام کے نتیجے کے طور پر تصنیف کی۔
597ھمیںمراکش گئے ۔ خواب میں عرش الہی کی تجلی دیکھی، دیکھا نور ہی نور ہے اس کے نیچے ایک خزانہ ہے اور دیکھا خوبصورت پرندے اڑ رہے ہیں ان میں سے ایک پرندے نے ابن العربی کو سلام کیا اور کہا کہ شہر فاس جائیں۔ وہاں محمد حصار سے ملاقات کریں اور مشرق کے علاقوں کی جانب سفر کریں۔ فوراً بیدار ہو کر فاس کی راہ لی اور محمد حصار کے ساتھ مشرق کا سفر شروع کیا۔ مصر پہنچے تھے کہ محمد حصار کا انتقال ہو گیا۔
598ھمیں مشرق کا سفر کرنے کی بجائے دوبارہ تیونس میں سکونت اختیار کر لی ۔ وہاں صوفی ابو محمد عبدالعزیز کی فرمائش پر کتاب انشاء الدوائر تالیف کی۔ اسی سال بیت المقدس کی زیارت کی اور پھر مکہ المکرمہ پہنچے۔ وہاں پر صالحین ، مشائخ، عابد اور زاہدوں سے مصابحت رکھی۔مکہ میں آپ نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔
599ھمیں مکہ میں ہی خاتم الولایۃ کے منصب پر فائز ہونے کا خواب دیکھا۔ مکہ میں اپنے قیام کے دوران آپ نے فتوحات مکیہ لکھنے کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ رسالہ حلیۃالابدال اورآپ نے اندلس کے صوفیا کے تذکروں پر مشتمل اپنی کتاب روح القدس (اصلاح نفس کا آئینہ حق) لکھی۔
601ھمیں مشرقی ممالک کے 12سالہ طویل سفر پر روانہ ہوئے۔ بغداد گئے جہاں شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے رفقاء سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے بعد موصل گئے وہاں "تنزلات الموصلیۃ" نامی کتاب لکھی۔ اس کے علاوہ کتاب جلال و جمال بھی تصنیف کی۔ اس کے بعدبدر حبشی اور مجد الدین اسحاق بن محمد رومی کے ہمراہ ملطیہ پہنچے۔ پھر سلطان کیکاؤس اوّل کی دعوت پر قونیہ کا سفر کیا۔ قونیہ میں ’’رسالۃ الانوار‘‘ نامی کتاب لکھی۔
602ھمیں دوبارہ ملطیہ لوٹے اور پھر بیت المقدس کا سفر کیا جہاں وہ ہبرون گے اور وہاں حضرت ابراہیم کے روضہ مبارک پر ’’کتاب الیقین‘‘ لکھی۔ اس کے بعد قاہرہ روانہ ہوئے۔ قاہرہ میں ایک اور مرید ابن سودکین نے شاندار خدمات سر انجام دیں۔ حلب میں انکا گھر آئیندہ40برس تک ابن العربی کی تصانیف کی تدریس کے لئے مخصوص رہا۔
608ھمیں دوبارہ بغداد کاسفر کیا۔ اسی دوران بغداد میں معروف صوفی صاحب عوارف المعارف شہاب الدین ابو حفص عمر سہروردی سے ملاقات کی جو خلیفہ الناصر کے ذاتی استاد بھی تھے۔
شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃاللہ علیہ سے ملاقات:
مکہ میں آپ کی ملاقات شیخ شہاب الدین عمر بن محمدالسہروردی رسے ہوئی ۔ دونوں دیر تک بغیر کچھ کہنے کے ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے رہے ۔ پھر جدا ہو گئے ۔ جب بعد میں شیخ شہاب الدین سے پوچھا گیا کہ آپ نے شیخ محی الدین کو کیسا پایا ، تو انہوں نے کہا ۔" میں نے انہیں ایک سمندر کی طرح پایا ، جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے " ۔ ابن عربی کی رائے شیخ شہاب الدین کے بارہ میں یہ تھی۔ " میں نے انہیں ایک عبد صالح پایا "
اگلے برسوں میں ابن عربی نے متعدد سفر کئے ۔ ۶۱۲ھ میں آپ مکہ میں تھے ۔ اس دوران آپ کے تعلقات صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الملک الظاہر کے ساتھ ، جو حلب کا حاکم تھا ، دوستانہ تھے ۔ ایک واقعہ سے ، جس میں آپ اسے ایک شخص کی سزائے موت کو معاف کرنے کی سفارش کرتے ہیں ، پتہ چلتا ہے کہ وہ آپ کی کس قدر عزت کرتا تھا ۔
611ھمیں دوبارہ مکہ گئے اور قیام مکہ کے دوران اپنی شاعری کا دیوان ترجمان الاشواق ترتیب دیا۔ جس کی وجہ سے انہیں سخت تنقید اور تہمتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ اپنے دوست بدرحبشی اور مرید اسماعیل بن سودکین کے کہنے پر ترجمان الاشواق کی شرح ذخائر الاعلاق کے نام سے لکھی۔
613ھمیں دوبارہ ملطیہ اور قونیہ کا سفر کیا جس میں جلال الدین رومی کے والد بہاؤالدین ولد سے ملاقات ہوئی۔ مولانا رومی اس وقت 8,9 برس کے تھے اور والد کے ساتھ تھے۔
618ھکا سال آپ کے لئے غم کا سال ثابت ہوا ماور آپ کے نہایت قریبی دوست مجد الدین اسحاق وفات پا گئے جن کا بیٹا صدرالدین اس وقت صرف 7,8برس کا تھا۔ آپ نے اس کی پرورش کی اور بیوہ سے نکاح بھی کیا۔ اسی سال ایک اور ساتھی بدرحبشی بھی وفات پا گئے۔
620ھمیں آخر کار تمام دنیا کا سفر کرنے کے بعد اور گراں قدر کتب تصنیف کرنے کے بعد 60برس کی عمر میں دمشق میں اقامت پذیر ہوئے اور آخر عمر تک اسی شہر میں رہے۔ دمشق میں آپ کا اعزاز و اکرام علماء اور سلاطین کی طرز پر ہوا۔ دمشق کے عمال اورحکام میں سے ملک مظفر بھی ان کا مرید ہوا اور شیخ اکبر نے انہیں روایت حدیث اور اپنی تصانیف کی اجازت لکھ کر دی۔
628ھمیں اسی شہر دمشق میں ایک مرتبہ انہیں ھویت الہی کے ظاہر اور باطن کا مشاہدہ ہوا، لکھتے ہیں‘‘اس واقعے سے پہلے میں نے کبھی ایسی صورت نہ دیکھی تھی نہ کبھی ایسا گمان ہوا اور نہ دل میں خیال گزرا‘‘

مکہ میں قیام:
مکہ میں ابن عربی کا پہلا قیام دو برس کا تھا ، جس کے دوران وہاں کے علمی اور مذہبی حلقوں میں آپ کی وجہ سے ایک غیر معمولی ہلچل پیدا ہوئی۔ مغرب آپ جیسے عبقری انسان کے لیے بہت محدود تھا ۔ اور آپ کو نظر آ رہا تھا کہ جب تک آپکی پذیرائی مشرق میں نہیں ہو گی ، اس وقت تک آپکا مشن دنیائے اسلام کے اندر نہ پھیل سکے گا۔597ھ کے ماہ رمضان میں ابن عربی اپنے ساتھی محمد الحصار کی معیت میں بجایہ میں داخل ہوئے ۔ اسی سال آپ کے شیخ ابو النجاءالمعروف بہ ابن مدین نے ، جو اس شہر کے باسی تھے ، وفات پائی

بجایہ سے آپ 598ھ کو تونس پہنچے، جہاں پر آپ اپنے دوست ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ہاں ٹہرے۔ وہاں پر آپ نے آٹھ سال پہلے اپنے قیام کے دوران دوست کی فرمائش پر اپنی کتاب روح القدس رقم کی تھی ۔ اس دفعہ بھی آپ نے وہاں پر ایک کتاب انشاءالدوایرلکھنی شروع کی ، جو آگے سفر پر روانہ ہو جانے کے سبب مکمل نہ کی جا سکی۔

اس کی تکمیل بعد میں مکہ میں ہوئی تيونس سے آپ اپنے ساتھی محمد الحصار سمیت مصر پہنچے ، جو وہاں پر وفات پا گئے ۔ آپ کی منزل مکہ تھی،جہاں پر آپ القدس (یروشلم) سے ہوتے ہوئے وارد ہوئے ۔ مکہ آپ کے نزدیک عالم الغیب اور عالم الشہود کا مقام اتصال ہے اور یہیں پر آپ نے اپنی کتاب فتوحات مکیہ کی تصنیف کی بنیاد ۵۹۹ھ میں رکھی ، جس کی تکمیل ۶۲۷ھ میں جا کر ہوئی ۔ بلکہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے بعد بھی ۶۳۵ھ تک اس میں اضافہ کیا جاتا رہا ، جب ابن عربی نے اس کی دوسری نوشت اپنے ہاتھ سے تیار کی ۔ یہاں پر یہ امر ملحوظ رہے کہ لفظ فتح کے عربی زبان میں کئی معانی ہیں ۔ اردو میں عام طور سے اس لفظ سے جيت مراد لیا جاتا ہے ، جب کہ عربی میں فتح کے معنی کھولنے اور راز افشا کرنے کے بھی ہیں ۔

فتوحات مکیہ، جس کا پورا عنوان فتوحات مکیہ فی معرفۃ الاسرار المالکیہ و الملکیہ ہے ، سے مراد مکہ کو فتح کرنا نہیں ہے ، بلکہ مکہ کے سر بستہ رازوں پر سے پردہ اٹھانا ہے اور اس کے روحانٰ خزائن تک رسائی حاصل کرنا ہے ۔ اس کا تذکرہ اپنی کتاب روح القدس میں علیحدہ طور پر بھی کیا ہے ۔ عبد الوہاب الشعرانی (المتوفی973ھ) نے فتوحات مکیہ کا خلاصہ لواقع الانوار القدسیہ المنقاۃ من الفتوحات المکیہ کیا۔ پھر اس خلاصہ کو خلاصہ بعنوان الکبریت الاحمر من علوم الشیخ الاکبر پیش کیا ۔

آپ کی تصنیفی سرگرمیوں کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے اس دوران میں اپنی کتاب روح القدس کے مسودے کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ تین دوسری کتب ( مشکوٰۃ الانوار، حلیۃ الابدال اور تاج الرسائل) تحریر کیں۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ آپ نے فتوحات مکیہ پر کام شروع کیا ، جس کے ۵۶۰ ابواب کی فہرست ابتدائییے کار میں ہی تیار کر لی گئی تھی۔ مصنف کو اندازہ تھا کہ یہ کام ایک پوری عمر کا متقاضی تھا ۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ آپ کے لکھنے کی رفتار فی روز تین جزو تھی۔ جس میں آپ سفر یا حضر میں کبھی ناغہ نہ کرتے تھے ۔ آپ نے اپنی مصنفات کی تعداد ۲۵۱ دی ہے ، جب کہ عثمان یحییٰ کی ببلیوگرافی میں آپ کی ۸۴۶ کتب کے عنوان درج کئے گئے ہیں ۔
سلاسلِ طریقت:

شیخ اکبر نے اپنے رسالہ نسب الخرقہ میں اپنے پانچ مختلف سلاسل سے بیعت کا تذکرہ کیا ہے۔ جن میں دو سلسلوں میں حضرت خضر علیہ السلام، ایک واسطے سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکے سلسلہ قادریہ میں بیعت ہیں جبکہ ایک سلسلے میں وہ اویس قرنی کے واسطے سے حضرت علیؓ اور حضرت محمد ﷺ تک پہنچتے ہیں۔

مفتی غلام سرور لاہوری رحمۃاللہ علیہ اپنی کتاب خزینۃالاصفیاءمیں لکھتے ہیں !

آپ کو خرقہ کی نسبت ابو محمد یونس قصار ہاشمی کے ذریعے سے بہ یک واسطہ حضرت غوث الاعظم سے حاصل ہے۔ بعض روایتوں کے مطابق آپ حضرت غوثیہ سے ارادت بلا واسطہ حاصل ہے۔

خرقۂ خلافت میں دوسری نسبت انہیں بلاواسطہ حضرت خضر﷤ سے حاصل ہے۔ اصطلاحاتِ کاشی میں لکھا ہے کہ شیخ محی الدین ابن العربی ﷫نے اپنی کتاب ‘‘الملابس’’ میں لکھا ہے کہ میں نے خرقۂ تصوّف ابوالحسن بن عبداللہ بن جامع سے پہنا ہے اور انہوں نے حضرت خضر﷤ سے حاصل کیا ہے۔ کتابِِ مناقبِ غوثیہ میں شیخ محمد صادق شیبانی قادری لکھتے ہیں کہ علی بن محمد پدرِشیخ محی الدین ابن عربی محض لاولد تھے۔ حتّٰی کہ ان کی عمر پچاس سال کی ہوگئی۔ ان کے والد حضرت غوث الاعظم﷜ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اولاد عطا فرمائے۔ حضرت غوثیہ نے حضورِ حق میں دعا فرمائی۔ ہاتفِ غیب نے آواز دی کہ اس شخص کی قسمت میں کوئی اولاد نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی دوسرا اپنی اولاد کا حصّہ اسے عطا کردے۔ حضرت غوث الاعظم﷜ نے اپنی پشت علی بن محمد کی پشت کے ساتھ مس کی اور فرمایا ابھی میرے صلب میں ایک فرزند باقی تھا۔ وُہ ہم نے تمہیں دیا۔ وُہ تیرے گھر پیدا ہوگا۔ ہم نے اس کا نام محمد اور لقب محی الدین رکھا ہے۔ یہ بچّہ اولیاء میں درجۂ عظیم اور رتبۂ عالی پائے گا۔ چنانچہ حضرت غوثیہ کی بشارت کے مطابق نو ماہ کے بعد علی بن محمد کے گھر لڑکا پیدا ہوا وہ اسے حضرت کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے۔ آپ نے نگاہِ لطف و کرم سے بچّہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: یہ میرا بیٹا ہے ان شاء اللہ قطبِ زمانہ ہوگا۔ اسرارِ توحید جو آج تک کسی موحد نے بیان نہیں کیے۔ یہ لڑکا ان اسرار و رموز کو واشگاف طور پربیان کرے گا(کتاب خزینۃالاصفیاء قادریہ ،ص،۱۸۶)(مہر منیر ،ص، ۴۷۲)

معاصرین مشائخ:
شیخ شہاب الدبن سہروردي رحمۃاللہ علیہ
شیخ أبي الحسن الشاذلي رحمۃاللہ علیہ
شیخ جلال الدين الرومى رحمۃاللہ علیہ
علامہ ابن رشد رحمۃاللہ علیہ
امام فخر الدين الرازي رحمۃاللہ علیہ
شیخ صدر الدين القونوي رحمۃاللہ علیہ
شیخ الاسلام عز بن عبدالسلام رحمۃاللہ علیہ
شیخ فريد الدين عطار رحمۃاللہ علیہ

شاعری:
آپ بلند پایہ شاعر بھی تھے ۔ مکہ میں آپ کی شاعری اپنے نقطہءعروج پر پہنچی ، جہاں پر آپ کا دوستانہ تعلق ابو شجاع ظاہر بن رستم بن ابو رجا الاصفحانی اور ان کے خاندان کے ساتھ تھا، ۔ خود آپ نے اپنے دیوان ترجمان الاشواق میں نظام کا ذکر تعریفی رنگ میں کیا ہے ۔ مگر بعد میں جب آپ پر مخالفوں نے عاشقانہ شاعری کرنے کا الزام لگایا ، تو آپ نے اس کو رد کرنے کے لیے اس دیوان کی شرح (ذخائر الاعلاق) لکھی ، جس میں ثابت کیا کہ آپ کے اشعار تصوف کے مروجہ طریق سے ذرہ بھر ہٹ کر نہیں ہیں۔

منہج التصانیف:
تصانیف اور تالیفات کی کثرت کے اعتبار سے ابن العربی عالم اسلام کی ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت ہیں جن کی ہمسری کا دعوی نہ کسی نے آج تک کیا اور نہ ہی مستقبل میں اس کے کوئی آثار نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ہماری اسلامی تہذیب کا یہ خاصہ رہا ہے کہ کتاب اور معلم کے درمیان ہمیشہ سے نہ ختم ہونے والا سلسلہ رہا ہے۔ بہت بڑے بڑے نام اپنی علمی تحریروں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ عثمان اسماعیل یحییٰ کے بقول شیخ اکبر ابن العربی سے 846 کتابیں اور رسائل منسوب ہیں۔ ان میں سے آدھے تقریبا 400 کے قریب آپ کی ذاتی تصنیفات ہیں جن میں کسی دوسری کتاب کا حوالہ اور جمع کیا گیا مواد بہت کم ہے، بعنی جتنا بھی لکھا خود سے لکھا یااُن سے لکھوایا گیا۔
اپنی کتاب ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ میں اذان کے بارے میں کلام کرتے ہوئے فرمایا: ’’جان لو کہ بحمد اللہ میں نے اپنی اس کتاب میں اور باقی کتب میں غیر مشروع امر کی تقریر نہیں کی اور اپنی تمام کتابوں میں قرآن و سنت سے باہر نہیں نکلا‘‘
ایک اور جگہ (366باب فتوحات) میں فرماتے ہیں: ’’میں جو کچھ اپنی کتابوں میں لکھتا ہوں وہ فکر اور روایت سے نہیں وہ تو القاء ہے جو میرے دل میں الہام کیا جاتا ہے‘‘ابن العربی پر جو علم بھی الہام ہوا، آپ نے اس کو ویسے کا ویسے اپنی کتب میں لکھ دیا۔ یہ علم ذوق اور تجلی الٰہی سے ہی ہے اور ایسے الہام کا نتیجہ ہے جو املاء کروایا جاتا ہے۔ اسی لئے شیخ اکبر کے علوم زیادہ تر خلقت کیلئے نئے نئے سے ہیں۔ان میں وہ معارف ہیں جن کی طرف پہلے سے حائل شدہ پردے نہیں اٹھے۔ اپنے انہی علوم پر عوام کے انکار کی وجہ بھی شیخ اکبر کو پتہ تھی۔ اسی وجہ سے تو پہلے ہی کہہ دیا: ’’جو لوگ ان علوم کاانکار کرتے ہیں وہ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ارباب علم کے پاس یہ علوم اجنبی اور غیر متعارف طریقوں سے آئے ہیں اور وہ کشف کے طریقے ہیں۔ جبکہ لوگوں نے صرف فکری راستوں سے آنے والے علوم کا ہی اقرار کیا ہے‘‘ اب جبکہ علوم دو راستوں پر تقسیم ہو گئے تو اگلی بحث یہ ہے کہ ان دونوں راستوں میں سے حق پر کون سا راستہ ہے ۔ کیا فکری علوم راہ راست پر ہیں یا کشفی علوم۔ حضور ﷺکی مشہور حدیث ہے :’’کل باطن یخالف الظاہر فھو باطل‘‘ یعنی ہر وہ باطن جو ظاہر کا مخالف ہے وہ باطل ہے۔ ابن العربی بھی اسی اصول کو لے کر چلتے ہیں۔ فتوحات کے 246باب میں فرماتے ہیں:’’میزان شرع کو اپنے ہاتھ سے چھوڑنے سے بچ بلکہ شرع کے ہر حکم پر جلدی کر‘‘ فرماتے ہیں: ’’ہمارے نزدیک کشف کو نص پر مقدم کرنا نہیں ہے کیونکہ اہل کشف کو بھی اشتباہ ہو جاتا ہے جبکہ صحیح کشف ہمیشہ ظاہر شریعت کے موافق ہی ہوتا ہے جس نے کشف کو نص پر مقدم کیا وہ اہل اللہ سے خارج ہو گیا اور نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہو گیا‘‘ علوم کشف ہوں یا علوم فکر دونوں ہی شرع کے تابع ہیں اور متبوع کبھی تابع سے آگے نہیں نکل سکتا۔ اسی طرح میزان ، شریعت ہے نہ کہ اہل عقل کی عقل اور نہ اہل کشف کا کشف، جو اس بات کو سمجھ گیا وہ اہل اللہ کہنے کا حقدار ہے۔

تصانیف:
تعداد کتب و رسائل ابن العربی

ابن العربی کی علمی کثرت کا اندازہ لگانے میں سب سے بڑا مسئلہ ان کی کتب کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا ہے۔ بہت پہلے سے ہی علماء نے اس پر کام شروع کر دیا بلکہ شیخ اکبر نے خود ایک کتاب ’’فہرست المولفات‘‘ کے نام سے لکھی جس میں250 کتب اور رسائل کا ذکر کیا۔ تاہم بعد میں 632ھ میں دمشق کے ایوبی سلطان (سلطان ملک اشرف المظفر) کو دی گئی ایک علمی سند اور اجازت میں اپنی 290کتب اور رسائل کا تذکرہ کیا۔ بعد میں محققین نے شیخ کی وفات کے بعد اُن کی چھوڑی گئی علمی میراث کو ضبط احاطہ میں لانے کی کوشش کی۔ جن میں سے کچھ نام اور اُن کا کام درج ذیل ہے:

مولانا عبدالرحمن جامی نے انکی تصانیف کی تعداد500بتائی ہے۔
محمد رجب حلمی نے (قاہرہ1326ھ) میں تعداد284گنوائی۔
اسماعیل پاشا بغدادی نے475کتابوں اور رسائل کے نام لکھے۔
کورکیس عواد نے چھان بین کرکے527کتابوں تک دسترس پائی ہے۔
ڈاکٹر محسن جہانگیری نے اپنی کتاب ’’محی الدین ابن العربی، حیات و آثار‘‘ میں 511کتابوں کو شامل کیا ہے۔
عثمان یحیی نے اپنی کتاب: مؤلفات ابن العربی تاریخہا و تصنیفہا جو کہ فرانسیسی زبان میں لکھی گئی ہے، میں846 کتب اور رسائل کے نام گنوائے ہیں اور ہر کتاب اور رسالے کو ایک نمبر دیا ہے۔ چونکہ یہ ابھی تک ہونے والی سب سے جامع تحقیق ہے اس لئے ابن العربی سوسائٹی نے اسے ابن العربی کیٹلاگ کے طور پر استعمال کرنے کافیصلہ کیا اور ہر نمبر کوRG# نمبر کہہ کر پکارا جاتا ہے۔

کتب ابنِ عربی:
الفتوحات المكية في معرفة أسرار المالكية والملكية
عنقاء مغرب في معرفة ختم الأولياء وشمس المغرب
كتاب العقائد
العقد المنظوم والسر المختوم
محاضرة الأبرار ومسامرة الأخيار
مشاهد الاسرار القدسية ومطالع الأنوار الإلهية
ترجمان الاشواق في غزل والنسيب
جامع الاحكام في معرفة الحلال والحرام
تنزل الاملاك في حركات الأفلاك
الدرة الباضعة من الجفر الجامعة
كتاب مواقع النجوم ومطالع أهلة الأسرار والعلوم
فصوص الحكم

رسائل ابنِ عربی:
مشكاة العقول المقتبسة من نور المنقول
حرف الكلمات وحرف
رسالة الأزل
رسالة الأنوار
رسالة الحجب
رسالة روح القدس
الرسالة الغوثية
الرسالة القدسية
رسالة القسم الإلهي
رسالة كنه مما لا بد منه
رسالة الميم والواو والنون
كتاب الياء وهو كتاب الهو الخ
رسالة انشاء الدوائر
رسالة الأنوار فيما يفتح على صاحب الخلوة من الاسرار
قصيدة عظيمة للشيخ محي الدين بن عربي
حلية الأبدال
رسالة الحجب
السبحة السوداء
شجون المسجون
الأمر المحكم المربوط فيما يلزم أهل طريق الله تعالى من الشروط
كتاب الفناء في المشاهدة
كتاب بلغة الغواص في الأكوان إلى معدن الإخلاص (تحت الطبع، بتحقيق الشيخ محسن الطهراني)
كتاب الجلال والجمال
كتاب الألف و هو كتاب الأحدية
كتاب الجلالة و هو كلمة الله
كتاب القربة
كتاب الشأن
كتاب الشاهد
كتاب التراجم
كتاب منزل القطب و مقامه و حاله
رسالة الانتصار
كتاب الكتب
كتاب المسائل
كتاب التجليات
كتاب الإسفار عن نتائج الأسفار
كتاب الوصايا
كتاب نقش الفصوص
كتاب الوصية
كتاب اصطلاح الصوفية
الاسرا إلى المقام الاسرى

اردو تراجم كتب ابن عربی:
ابن عربی كى مندرجہ ذيل كتابوں كا اردو ترجمہ موجود ہے۔

فصوص الحكم
فصوص الحكم ترجمہ عبد الغفور دوستى (1889 حيدرآباد دكن)۔
فصوص الحكم ترجمہ سيد مبارك علی (1894 كانپور)۔
فصوص الحكم ترجمہ مولوى عبد القدير صديقی يہ كتاب پنجاب يونيورسٹى كے نصاب ميں شامل ہے۔
مولانا پیر مہر على شاهصاحب كى كتاب تحقيق الحق فی كلمۃ الحق اور ملفوظات مہريہ ابن عربی كے دفاع ميں اپنى مثال آپ ہے۔
ابرار احمد شاہی،

فتوحات مكيہ
فتوحات مکیہ ترجمہ مولوی فضل خان مرحوم ( وفات 1938) جس ميں پہلے 30 فصول كا ترجمہ كيا گیا تھا۔
فتوحات مکیہ ترجمہ سليم چشتی 1987 تك ترجمے کی چار جلدیں شائع ہوئيں۔
فتوحات مکیہ ترجمہ فاروق القادرى پہلی 2 فصول كا ترجمہ 2004 ميں شائع ہوا ہم اميد كرتے ہيں کے یہ عمل پایہ تكمیل كو پہنچے گا۔

رسائل ابن عربی

ابن عربی كي جار رسائل
شجرة الكون
الكبريت الاحمر
الامر المحكم والمربوط
كتاب الاخلاق و الامر

رسائل ابن العربى (جلد اول)

شیخ ِاکبر کی سیرت پر کتب:
هكذا تكلم ابن عربي،نصر حامد أبو زيد.
ابن عربي ومولد لغة جديدة، د. سعاد الحكيم.
محيي الدين ابن عربي - حياته، مذهبه، زهده - جزء - 49، سلسلة أعلام الفلاسفة،فاروق عبد المعطي.
قرة أهل الحظ الأوفر في ترجمة الشيخ الأكبر للشيخحامد العمادي (دار الكتب مجاميع 3445
جامع كرامات الأولياء للشيخيوسف النبهاني 1/ 198،
رسالة صفي الدين بن أبي المنصورفي سير الأولياء الذين لقيهم (ط. المعهد الفرنسي بدمشق)
نفح الطيب للإمام للمقري وهو من أحسنها (2 / 361، 384)
سير أعلام النبلاء للذهبي (23/ 48،49)
البداية والنهاية لابن كثير (13/ 156)
التكملة لوفيات النقلة للمنذري (3/555)
شذرات الذهبلابن عماد الحنبلي (3/190، 203).)
العبر في خبر من غبر للذهبي (5/ 158، 159)
عنوان الدراية للغريني (158 / 160)
لسان الميزانلابن حجر العسقلاني (5/310، 313).)
ميزان الاعتدال للذهبي (659 / 660)
النجوم الزاهرةلابن تغري بردي (6 / 339).
الوافي بالوفيات للصفدي (4 / 972، 179)
الأعلام للزركلي (6 / 281)

شیخ ِاکبر کے دفاع میں تحریر کی گئی کتب:
تنبيه الغبي في تبرئة ابن العربي، تأليف: جلال الدين السيوطيالمتوفى سنة 911 هـ.
الاغتباط بمعالجة ابن الخياط، تأليف: الفيروزآباديالمتوفي سنة 817 هـ، يرد فيه على ابن الخياط ما اتّهم به الشيخ ابن عربي في عقيدته.
الرد على المعترضين على الشيخ محيي الدين، تأليف: الفيروزآبادي، موجود فيمعهد المخطوطات العربية 201 تصوف.
الرد المتين على منتقص العارف محيى الدين، تأليف: عبد الغني النابلسي.
تنبيه الأغبياء على قطرة من بحر علوم الأولياء، تأليف: عبد الوهّاب الشعراني، وهو مفقود.
الكبريت الأحمر في بيان علوم الشيخ الأكبر، تأليف: عبد الوهّاب الشعراني، وهو مطبوع.
القول المبين في الرد عن الشيخ محيي الدين، تأليف: عبد الوهّاب الشعراني، وهو مطبوع.
الفتح المبين في رد المعترض على الشيخ محيي الدين، تأليف: عمر حفيد شهاب الدين العطار، وقد طبع قديماً.
مفتاح الوجود الأشهر في توجيه كلام الشيخ الأكبر، تأليف: عبد الله الصلاحي، وهو موجود في دار الكتب 195 تصوف، وذيله 199 تصوف.
الفتح المبين في رد اعتراض المعترضين، تأليف: عمر حفيد الشهاب الشيخ أحمد العطار، أحد علماء الشام.
ميزان الحق في اختيار الأحق، تأليف: كاتب حلبي أحد أكابر العلماء العثمانية.
الجانب الغربي في حل مشكلات ابن العربي، تأليف: مكي، ألفه بأمر السلطان سليم.
قرة أهل الحظ الأوفر في ترجمة الشيخ الأكبر، تأليف: حامد العمادي، وهو موجود في دار الكتب مجاميع 3445.
الانتصار للشيخ محيي الدين، تأليف: علي بن ميمون المغربي، وهو موجود في برلين 2851، ونسخة بدار الكتب.

كشف الغطاء عن أسرار كلام الشيخ محيي الدين، تأليف: سراج الدين المخزومي.

ملفوظاتِ مہریہ :الشیخ مہرِعلی شاہ جشتی

تحقيق الحق فی كلمۃ الحق: الشیخ مہرعلی شاہ جشتی

وفات:

۶۲۰ھ میں آپ نے دمشق کو اپنا وطن بنایا ، جہاں کے حاکم الملک العادل نے آپ کو وہاں پر آ کر رہنے کی دعوت دی تھی ۔ وہاں پر آپ نے۲۲ربیع ا لآخر ۶۳۸ھ مطابق ء۱۲۴۰کو وفات پائی اورجبل قاسیون کے پہلو میں دفن کئے گئے ، جو آج تک مرجع خواص و عوام ہے۔

 

الشیخ الاکبر محی الدین ابن العربی علیہ الرحمۃ

نام و نسب:

الشیخ الامام العارف العالم الشیخ لاکبر والکبریت الاحمر ابوعبداللہ محی الدین محمد ابن علی ابن العربی اور شیخ الاکبر کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا نام محمد ابن العربی، کنیت ابو بکر اورلقب محی الدین ہے۔ آپ تصوف اور راہ طریقت میں شیخ اکبر یعنی “سب سے بڑے شیخ” کے نام سے مشہور ہیں۔ صوفیا میں کسی نے آج تک اس لقب کو کسی دوسرے شیخ کے لیے استعمال نہیں کیاگیا۔ آپ کا تعلق عرب کے مشہور قبیلے طے سے تھا۔ شیخ اکبر کے جد اعلی حاتم طائی عرب قبیلہ بنو طے کے سردار اور اپنی سخاوت کے باعث صرف عرب ممالک میں ہی نہیں پوری دنیا میں مشہور تھے ان کی نسل سے آپ کا خاندان تقوی عزت اور دولت میں اہم مقام رکھتا تھا۔ آپ کے ماموں ابو مسلم الخولانی ،جو ساری ساری رات عبادت میں گذارتے تھے اور جب ان کی ٹانگیں تھک جاتی تھیں، تو انہیں جھڑیوں سے مارتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہیں مارنا بہتر ہے اپنی سواری کے جانور کو مارنے سے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کیا رسول اللہ ﷺکے صحابہ سمجھتے ہیں کہ حضور ﷺصرف ان کے لیے ہیں ۔ اللہ کی قسم ہم ان پر اس طرح ہجوم کر کے آپ کی طرف بڑھیں گے کہ انہیں پتا چل جائے گا کہ انہوں نے اپنے پیچھے مردوں کو چھوڑا ہے ، جو آپ کے مستحق ہیں۔

ولادت:

آپ 17 رمضان المبارک سن 560 ہجری کو اندلس کے شہر مرسیہ میں پیدا ہوئے۔ مرسیہ میں ان دنوں ابن مردینش کی حکومت تھی جیسے کہ شیخ اکبر خود اپنی کتاب محاضرات الابرار و مسامراۃ الاخیار میں فرماتے ہیں: اسی خلیفہ کے زمانے میں (مراد مستنجد باللہ) میری پیدائش مرسیہ میں مملکت سلطان ابو عبد اللہ محمد بن مردینش کے دور میں ہوئی۔

ابتدائی تعلیم:

آپ کے والد مرسیہ کے ہسپانوی الاصل حاکم محمد بن سعید مردنیش کے سرکاری ملازم تھے۔ ابن العربی ابھی آٹھ برس کے تھے کہ مرسیہ پر مؤحدون کے قبضہ کرلینے کے نتیجہ میں آپ کے خاندان کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ مرسیہ میں ابن العربی کا قیام صرف 8برس رہا۔ ابتدائی تعلیمی مراحل تو آپ مرسیہ اور لشبونہ (لزبن) میں طے کر چکے تھے اس کے بعد آپ اشبیلیہ آئے جہاں آپ 598ھ تک یعنی تقریباً تیس سال رہے۔ اس عرصے کے دوران آپ حصول علم میں ہمہ تن مصروف رہے اور تمام علوم متداولہ مثلاً قرات، تفسیر، حدیث، فقہ، صرف و نحو، ریاضی، فلسفہ، نجوم، حکمت، اور دیگر علوم عقلیہ میں کامل دسترس حاصل کی۔ آپ نے اپنے دور کے نامور اور اعلی مقام اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔ آپ کے مشائخ اور اساتذہ کی تعداد 70 تک پہنچتی ہے۔

مشائخ ِابن ِعربی:

شیخ ابو جعفر العریبی رحمۃاللہ علیہ

رسالہ القدس میں فرماتے ہیں کہ طریق اللہ میں میری سب سے پہلی ملاقات شیخ ابو العباس ابو جعفر العریبی سے ہوئی۔ آپؓ ہمارے شہر اشبیلیہ تشریف لائے، میں ان چند لوگوں میں سے تھا جو پہلے پہل آپ کی طرف لپکے میں نے آپ کے پاس آنا جانا شروع کیا تو میں نے آپ کو ذکر پر فریفتہ شخص پایا۔ جب میں نے آپ کو آپ کے نام سے پکارا تو آپ بغیر میرے بتائے ہی میرے دل کا حال جان گئے فرمانے لگے: ’’کیا تو نے اللہ کے راستے پر چلنے کا پکا ارادہ کرلیا ہے‘‘ میں نے عرض کی: ’’بندہ ارادہ ہی کر سکتا ہے اور ثبات دینے والی ذات خدا کی ہے‘‘ یہ سن کر بولے :’’سد الباب واقطع الاسباب و جالس الوہاب یکلمک اللّٰہ من دون حجاب‘‘ سب دروازے بند کر دے اور اسباب سے منہ موڑ لے اور وہاب کی صحبت اختیار کر، اللہ تجھ سے بغیر حجاب کے خطاب کرے گا۔ میں نے اس نصیحت پر عمل کیا یہاں تک کہ مجھ پر معاملہ کھل گیا۔ اس کے بعد آپ شیخ کی زیر نگرانی رہے اور روحانی تجربے کے بعد آپ نے ملازمت سے ہاتھ اٹھا لیا اور فقر کو اپنا شعار بنایا۔

اشبیلیہ میں قیام کے دوران شیخ اکبر نے متعدد شیوخ و عارفین سے ملاقاتیں شروع کیں اور فیض حاصل کیا، آپ اِن سب کو اپنا شیخ کہتے ہیں۔

شیخ یوسف الکومی رحمۃاللہ علیہ

شیخ یوسف الکومی کے بارے میں فرماتے ہیں: جب میں آپؓ یا اپنے دیگر شیوخ کے سامنے بیٹھتا تو میں تیز آندھی میں رکھے ورق کی طرح پھڑپھڑاتا میرا بولنا تبدیل ہو جاتا میرے اعضاء سن ہو جاتے یہانتکہ یہ سب میری حالت سے عیاں ہوتا۔ آگے فرماتے ہیں کہ میرا آپ (یوسف الکومیؓ) کی صحبت میں اتنا صدق تھا کہ جب میں رات کو کسی ایسے مسئلے کے لئے جو میرے ذہن میں وارد ہوتا آپ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کرتا تو آپؓ کو اپنے سامنے پاتا، آپ سے وہ پوچھتا اور آپ مجھے بتانے کے بعد چلے جاتے اور صبح صبح میں آپ کو یہ رات کا واقعہ بتاتا۔

شیخ ابو عبد اللہ الشرفی رحمۃاللہ علیہ

شیخ ابو عبد اللہ الشرفی کے بارے میں شیخ اکبر فرماتے ہیں کہ آپ نہایت جلال والے بزرگ تھے کسی میں اتنی ہمت نہ ہوتی تھی کہ آپ سے دعا کے لئے کہہ دے ۔ جو شخص آپ کی دعا سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا وہ آپ کے مسجد آنے کا انتظار کرتا پھر آپ کے ساتھ ہی نماز میں کھڑا ہوتا او رنماز سے فراغت پر اونچی آواز سے دعا مانگتا جس پر شیخ آمین کہا کرتے تھے اس سے اس کی حاجت پوری ہو جاتی۔ میں نے آپؓ کو دعا کے لئے کہا تو آپ نے مجھ سے ہی دعا شروع کی، اللہ کا شکر ہے! آپ میرے بات کرنے سے پہلے مجھ سے بات کرتے اور میں نے آپ سے بہت فائدہ حاصل کیا۔ شیخ عبد اللہ محمد بن قسوم کے بارے میں فرماتے ہیں: آپ مالکی فقہ پر تعلیم دیتے۔ علم کے شرف اور مرتبت کے قائل تھے، میں نے آپ کے ساتھ وقت گزارا اور وہ کچھ پڑھا جس سے میں نے اپنی طہارت اور نماز کو درست کیا۔ (اس عبارت سے پتا چلتا ہے کہ شیخ اکبر فقہ مالکی پر پروان چڑھے تھے)۔ میں نے آپ سے قرآن پاک کی تلاوت سے بہت سے علوم اخذ کئے جو اللہ نے آپؓ کو سکھائے تھے۔

شیخ ابو عمران موسی المیرتلیّ رحمۃاللہ علیہ

شیخ ابو عمران موسی المیرتلیّ کے بارے میں فرماتے ہیں: آپؓ اپنے نفس کو اذیتیں دینے والوں میں سے تھے ساٹھ سال گھر میں رہے باہر نہ نکلے، آپ حارث بن اسد المحاسبی کے راستے پر تھے۔ میں نے آپ کو خواب میں دیکھا جو آپ کے مقام سے بلند مقام میں آپ کا جانا بتاتا تھا، میں نے یہ خوشخبری آپ کو دی تو آپ نے فرمایا تو نے مجھے خوشخبری دی ہے اللہ تجھے جنت کی خوشخبری دے۔ کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ آپ نے وہ مقام حاصل کر لیا میں اگلے ہی دن آپ کے پاس گیا آپ کے چہرے پر خوشی تھی ، میرے لئے کھڑے ہوئے اور مجھے گلے لگایا۔ میں نے کہا آپ نے تو یہ مقام حاصل کر لیا میرے وعدے کا کیا ہوا فرمایا انشاء اللہ ایسا جلد ہو گا چناچہ ایک مہینہ بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ اللہ نے مجھے اپنے پاس سے خاص نشانی ایجاد کر کے جنت کی بشارت دی لہذا اب میں قطعاً اپنے جنتی ہونے کا یقین رکھتا ہوں اور اس میں ذرا برابر بھی شک نہیں کرتا کہ میں اہل جنت میں سے ہوں بالکل ویسے ہی جیسے کہ میں حضور ﷺ کے بارے میں شک نہیں کرتا، ہاں پر میں یہ نہیں جانتا کہ مجھے آگ چھوئے گی یا نہیں، اللہ مجھے اور آپ سب کو اس آگ سے بچائے؛ آمین۔

شیخ موروری رحمۃاللہ علیہ

شیخ موروریؓ کے بارے میں فرماتے ہیں : ایک رات اللہ نے مجھے مقامات پر مطلع کیا اور مجھے ان پر چلایا یہاتکہ میں مقام توکل تک پہنچا، میں نے اپنے شیخ الموروری کو اس مقام کے عین درمیان میں دیکھا یہ مقام آپ کے گرد ویسے گھوم رہا تھا جیسے کہ چکی اپنے مرکز کے گرد گھومتی ہے اور آپ بلا حرکت ٹھہرے ہوئے ہیں لہذا میں نے یہ مقام آپ کے لئے لکھ لیا۔

شیخ ابو عبد اللہ الباغی الشکاز رحمۃاللہ علیہ

شیخ ابو عبد اللہ الباغی الشکاز کے بارے میں فرماتے ہیں: آپ کی رات قیام میں گزرتی اور دن روزے میں گزرتا کوئی مرید آپ کی صحبت کی طاقت نہیں رکھتا تھا کیونکہ آپ اس سے اور محنت کرنا مانگتے جس سے وہ بھاگ جاتا، آپ کے پاس اپنے نفس کے لئے کوئی رحمت نہ تھی۔ آپ غرناطہ میں رہائش پذیر تھے۔ میں اپنے دوست بدرحبشی کے ساتھ آپ سے ملنے آپ کے گھر گیا، میری عادت تھی کہ جب کسی شیخ یا فقیر کے ہاں جاتا تو اپنے پاس موجود تمام درہم انہیں دے دیتا اور اپنے پاس کچھ نہ رکھتا، اُس روز میرے پاس صرف ایک درہم تھا جو میں نے آپ کو دے دیا۔

شیخ ابو عبد اللہ محمد اشرف الرندی رحمۃاللہ علیہ

شیخ ابو عبد اللہ محمد اشرف الرندی ابدال میں سے تھے۔ آپ پہاڑوں اور ساحلوں پر پھرتے رہتے ، تیس سال سے آبادی کے قریب بھی نہ بھٹکے، مضبوط فراست والے اور ہمیشہ خاموش رہنے والے اور بہت گریہ والے میں نے ایک عرصہ آپ کے ساتھ گزارا، جب آپ کی نظر مجھ پر پڑتی تو خوش ہو جاتے۔ آپ مجھے ان چیزوں کے بارے میں بتاتے جو مجھے آپ سے بچھڑنے کے بعد پیش آنا ہوتیں اور ویسا ہی ہوتا۔ میں نے اپنے ساتھی بدر حبشی کی فرمائش پر ان کو آپ سے ملوایا اور ہم سب مل کر بہت خوش ہوئے۔ مگر آپ (ابن العربی) کے اصل شیخ طریقت، تیونس کے شیخ ابو مدین ہی تھے۔ فتوحات مکیہ میں اپنے شیخ کی تعظیم رجال غیب، ملک الملک کا قطب کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں : ایک روز شیخ ابومدین کی زندگی میں میں اپنے گھر میں بیٹھا تھا کہ میری شدید خواہش ہوئی کہ کاش میں شیخ ابومدین سے ملتا ۔ اس وقت شیخ بجایہ میں قیام پذیر تھے جو میرے گھر سے ۴۵ روز کے فاصلے پر تھا۔ جب میں مغرب پڑھ چکا اور دو مختصر نفل پڑھ کر سلام پھیرا ہی تھا کہ ایک بزرگ ہستی ابو عمران موسی یکدم حاضر ہوئے میں نے انہیں اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا کہاں سے تشریف لا رہے ہیں ؟ آپ بولے : بجایہ میں ابو مدین کے پاس سے، میں نے کہا : آپ ان سے کب ملے ؟ بولے : میں نے آج مغرب کی نماز ان کے ساتھ ہی پڑھی ہے، نماز کے بعد آپ (ابومدین) نے اپنا چہرہ مبارک میرا طرف موڑا اور کہا : محمد ابن العربی نے اشبیلیہ میں میرے بارے میں یہ یہ سوچا ہے لہذا آپ میری طرف سے ان کے پاس ابھی جائیں اور یہ یہ جواب دیں۔ پھر آپ نے میری (ابن العربی) کی شیخ ابو مدین سے خواہش کا ذکر کیا اور فرمایا : شیخ ابو مدین تمہیں فرماتے ہیں جہاں تک روحانی ملاقات کاتعلق ہے تو یہ آپ (ابن العربی) اور میرے (ابومدین) کے درمیان درست ہے اور جہاں تک جسمانی ملاقات کا تعلق ہے تو اللہ نے ایسا نہیں چاہا لہذا اپنے خیالات کو سکون دے ، تیری اور میری ملاقات (انشاء اللہ) اللہ تعالی کے ہاں اس کی رحمت کے جائے قرار میں ہو گی۔

 

فوجی ملازمت:

آپ نے ڈیڑھ دو سال کا عرصہ سرکاری ملازمت کی جس میں آپ بطور فوجی (عربی =الجندی) فوج میں بھرتی ہوئے، لیکن پھر آپ کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا کہ آپ نے ملازمت سے ہاتھ اٹھا لیا اور طریقہ کے دوسرے لوگوں کی طرح فقر کو اپنا شعار بنایا۔

اسفار ِشیخ الاکبر:

شیخ اکبر نے اپنی زندگی کے پہلے 36 سال مغرب میں اور دوسرے36 سال مشرق کی سیاحت اور اسفار میں گزارے۔ ابن العربی نے پہلی بار اندلس کی سر زمین سے باہر کا سفر کیا ۔ آپ نے تیونس میں ابوالقاسم بن قسی ۔جومغرب (مراکش) میں المراودون کے خلاف اٹھنے والے صوفیوں کے بانی قرار دیئے جاتے ہیں ۔ان کی کتاب خلع النعلین کا درس لیا۔ بعد میں آپ نے اس کتاب کی شرح پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا ۔ اسی سفر کے دوران آپ کی ملاقات ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ساتھ ہوئی۔ اشبیلیہ سے آپ سب سے پہلے مورور گئے۔ جہاں آپ کی ملاقات مشہور صوفی عبداللہ بن استاد موروری سے ہوئی۔ اُن کی فرمائش پر اپنی کتاب ’’التدبیرات الالھیۃ فی اصلاح المملکۃ الانسانیۃ ‘‘ تحریر کی ۔

586ھہی میں قرطبہ گئے جہاں ملاقاتوں کے علاوہ گزشتہ امتوں کے تمام اقطابوں کو عالم برزخ میں دیکھا اور اُن کے اسماء سے آگاہ ہوئے۔ اسی سال الہامات کی شکل میں کتاب تدبیرات الہیہ کی ابتدا ہوئی۔
589ھمیں سبتہ گئے۔
590ھمیں حاکم شہر کے بلانے پر تیونس گئے اور وہیں ابو القاسم ابن قسی کی کتاب ’’خلع النعلین‘‘ پڑھی اور اس کی شرح لکھی۔ اسی دوران تین مرتبہ آپ کی حضرت حضر علیہ السلام سے ملاقاتوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔
591ھمیں فاس کا سفر کیا جہاں آپ نے علم جفر کے حساب سے موحدین کے لشکر کی نصاری کی فوج پر فتح کی بشارت دی۔
592ھمیں دوبارہ اشبیلیہ لوٹے اس سال انہیں عبدالرحمن بن علی القسطلانی نے خرقہ عطا کیا۔
593ھمیں دوبارہ فاس آئے اور مقام تجلی پر فائز ہوئے۔ فاس میں انہیں بہت سے راز عطا کئے گئے۔
594ھمیں دوبارہ واپس مرسیہ کی طرف روانہ ہوئے اور غرناطہ میں بھی قیام کیا۔ وہیں ابن رشد کی تجہیز و تکفین و تدفین میں بھی حصہ لیا۔
595ھمیں مرسیہ پہنچے اور کتاب مواقع النجوم الہام کے نتیجے کے طور پر تصنیف کی۔
597ھمیںمراکش گئے ۔ خواب میں عرش الہی کی تجلی دیکھی، دیکھا نور ہی نور ہے اس کے نیچے ایک خزانہ ہے اور دیکھا خوبصورت پرندے اڑ رہے ہیں ان میں سے ایک پرندے نے ابن العربی کو سلام کیا اور کہا کہ شہر فاس جائیں۔ وہاں محمد حصار سے ملاقات کریں اور مشرق کے علاقوں کی جانب سفر کریں۔ فوراً بیدار ہو کر فاس کی راہ لی اور محمد حصار کے ساتھ مشرق کا سفر شروع کیا۔ مصر پہنچے تھے کہ محمد حصار کا انتقال ہو گیا۔
598ھمیں مشرق کا سفر کرنے کی بجائے دوبارہ تیونس میں سکونت اختیار کر لی ۔ وہاں صوفی ابو محمد عبدالعزیز کی فرمائش پر کتاب انشاء الدوائر تالیف کی۔ اسی سال بیت المقدس کی زیارت کی اور پھر مکہ المکرمہ پہنچے۔ وہاں پر صالحین ، مشائخ، عابد اور زاہدوں سے مصابحت رکھی۔مکہ میں آپ نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔
599ھمیں مکہ میں ہی خاتم الولایۃ کے منصب پر فائز ہونے کا خواب دیکھا۔ مکہ میں اپنے قیام کے دوران آپ نے فتوحات مکیہ لکھنے کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ رسالہ حلیۃالابدال اورآپ نے اندلس کے صوفیا کے تذکروں پر مشتمل اپنی کتاب روح القدس (اصلاح نفس کا آئینہ حق) لکھی۔
601ھمیں مشرقی ممالک کے 12سالہ طویل سفر پر روانہ ہوئے۔ بغداد گئے جہاں شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے رفقاء سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے بعد موصل گئے وہاں "تنزلات الموصلیۃ" نامی کتاب لکھی۔ اس کے علاوہ کتاب جلال و جمال بھی تصنیف کی۔ اس کے بعدبدر حبشی اور مجد الدین اسحاق بن محمد رومی کے ہمراہ ملطیہ پہنچے۔ پھر سلطان کیکاؤس اوّل کی دعوت پر قونیہ کا سفر کیا۔ قونیہ میں ’’رسالۃ الانوار‘‘ نامی کتاب لکھی۔
602ھمیں دوبارہ ملطیہ لوٹے اور پھر بیت المقدس کا سفر کیا جہاں وہ ہبرون گے اور وہاں حضرت ابراہیم کے روضہ مبارک پر ’’کتاب الیقین‘‘ لکھی۔ اس کے بعد قاہرہ روانہ ہوئے۔ قاہرہ میں ایک اور مرید ابن سودکین نے شاندار خدمات سر انجام دیں۔ حلب میں انکا گھر آئیندہ40برس تک ابن العربی کی تصانیف کی تدریس کے لئے مخصوص رہا۔
608ھمیں دوبارہ بغداد کاسفر کیا۔ اسی دوران بغداد میں معروف صوفی صاحب عوارف المعارف شہاب الدین ابو حفص عمر سہروردی سے ملاقات کی جو خلیفہ الناصر کے ذاتی استاد بھی تھے۔
شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃاللہ علیہ سے ملاقات:
مکہ میں آپ کی ملاقات شیخ شہاب الدین عمر بن محمدالسہروردی رسے ہوئی ۔ دونوں دیر تک بغیر کچھ کہنے کے ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے رہے ۔ پھر جدا ہو گئے ۔ جب بعد میں شیخ شہاب الدین سے پوچھا گیا کہ آپ نے شیخ محی الدین کو کیسا پایا ، تو انہوں نے کہا ۔" میں نے انہیں ایک سمندر کی طرح پایا ، جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے " ۔ ابن عربی کی رائے شیخ شہاب الدین کے بارہ میں یہ تھی۔ " میں نے انہیں ایک عبد صالح پایا "
اگلے برسوں میں ابن عربی نے متعدد سفر کئے ۔ ۶۱۲ھ میں آپ مکہ میں تھے ۔ اس دوران آپ کے تعلقات صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الملک الظاہر کے ساتھ ، جو حلب کا حاکم تھا ، دوستانہ تھے ۔ ایک واقعہ سے ، جس میں آپ اسے ایک شخص کی سزائے موت کو معاف کرنے کی سفارش کرتے ہیں ، پتہ چلتا ہے کہ وہ آپ کی کس قدر عزت کرتا تھا ۔
611ھمیں دوبارہ مکہ گئے اور قیام مکہ کے دوران اپنی شاعری کا دیوان ترجمان الاشواق ترتیب دیا۔ جس کی وجہ سے انہیں سخت تنقید اور تہمتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ اپنے دوست بدرحبشی اور مرید اسماعیل بن سودکین کے کہنے پر ترجمان الاشواق کی شرح ذخائر الاعلاق کے نام سے لکھی۔
613ھمیں دوبارہ ملطیہ اور قونیہ کا سفر کیا جس میں جلال الدین رومی کے والد بہاؤالدین ولد سے ملاقات ہوئی۔ مولانا رومی اس وقت 8,9 برس کے تھے اور والد کے ساتھ تھے۔
618ھکا سال آپ کے لئے غم کا سال ثابت ہوا ماور آپ کے نہایت قریبی دوست مجد الدین اسحاق وفات پا گئے جن کا بیٹا صدرالدین اس وقت صرف 7,8برس کا تھا۔ آپ نے اس کی پرورش کی اور بیوہ سے نکاح بھی کیا۔ اسی سال ایک اور ساتھی بدرحبشی بھی وفات پا گئے۔
620ھمیں آخر کار تمام دنیا کا سفر کرنے کے بعد اور گراں قدر کتب تصنیف کرنے کے بعد 60برس کی عمر میں دمشق میں اقامت پذیر ہوئے اور آخر عمر تک اسی شہر میں رہے۔ دمشق میں آپ کا اعزاز و اکرام علماء اور سلاطین کی طرز پر ہوا۔ دمشق کے عمال اورحکام میں سے ملک مظفر بھی ان کا مرید ہوا اور شیخ اکبر نے انہیں روایت حدیث اور اپنی تصانیف کی اجازت لکھ کر دی۔
628ھمیں اسی شہر دمشق میں ایک مرتبہ انہیں ھویت الہی کے ظاہر اور باطن کا مشاہدہ ہوا، لکھتے ہیں‘‘اس واقعے سے پہلے میں نے کبھی ایسی صورت نہ دیکھی تھی نہ کبھی ایسا گمان ہوا اور نہ دل میں خیال گزرا‘‘
مکہ میں قیام:

مکہ میں ابن عربی کا پہلا قیام دو برس کا تھا ، جس کے دوران وہاں کے علمی اور مذہبی حلقوں میں آپ کی وجہ سے ایک غیر معمولی ہلچل پیدا ہوئی۔ مغرب آپ جیسے عبقری انسان کے لیے بہت محدود تھا ۔ اور آپ کو نظر آ رہا تھا کہ جب تک آپکی پذیرائی مشرق میں نہیں ہو گی ، اس وقت تک آپکا مشن دنیائے اسلام کے اندر نہ پھیل سکے گا۔597ھ کے ماہ رمضان میں ابن عربی اپنے ساتھی محمد الحصار کی معیت میں بجایہ میں داخل ہوئے ۔ اسی سال آپ کے شیخ ابو النجاءالمعروف بہ ابن مدین نے ، جو اس شہر کے باسی تھے ، وفات پائی

بجایہ سے آپ 598ھ کو تونس پہنچے، جہاں پر آپ اپنے دوست ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ہاں ٹہرے۔ وہاں پر آپ نے آٹھ سال پہلے اپنے قیام کے دوران دوست کی فرمائش پر اپنی کتاب روح القدس رقم کی تھی ۔ اس دفعہ بھی آپ نے وہاں پر ایک کتاب انشاءالدوایرلکھنی شروع کی ، جو آگے سفر پر روانہ ہو جانے کے سبب مکمل نہ کی جا سکی۔

اس کی تکمیل بعد میں مکہ میں ہوئی تيونس سے آپ اپنے ساتھی محمد الحصار سمیت مصر پہنچے ، جو وہاں پر وفات پا گئے ۔ آپ کی منزل مکہ تھی،جہاں پر آپ القدس (یروشلم) سے ہوتے ہوئے وارد ہوئے ۔ مکہ آپ کے نزدیک عالم الغیب اور عالم الشہود کا مقام اتصال ہے اور یہیں پر آپ نے اپنی کتاب فتوحات مکیہ کی تصنیف کی بنیاد ۵۹۹ھ میں رکھی ، جس کی تکمیل ۶۲۷ھ میں جا کر ہوئی ۔ بلکہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے بعد بھی ۶۳۵ھ تک اس میں اضافہ کیا جاتا رہا ، جب ابن عربی نے اس کی دوسری نوشت اپنے ہاتھ سے تیار کی ۔ یہاں پر یہ امر ملحوظ رہے کہ لفظ فتح کے عربی زبان میں کئی معانی ہیں ۔ اردو میں عام طور سے اس لفظ سے جيت مراد لیا جاتا ہے ، جب کہ عربی میں فتح کے معنی کھولنے اور راز افشا کرنے کے بھی ہیں ۔

فتوحات مکیہ، جس کا پورا عنوان فتوحات مکیہ فی معرفۃ الاسرار المالکیہ و الملکیہ ہے ، سے مراد مکہ کو فتح کرنا نہیں ہے ، بلکہ مکہ کے سر بستہ رازوں پر سے پردہ اٹھانا ہے اور اس کے روحانٰ خزائن تک رسائی حاصل کرنا ہے ۔ اس کا تذکرہ اپنی کتاب روح القدس میں علیحدہ طور پر بھی کیا ہے ۔ عبد الوہاب الشعرانی (المتوفی973ھ) نے فتوحات مکیہ کا خلاصہ لواقع الانوار القدسیہ المنقاۃ من الفتوحات المکیہ کیا۔ پھر اس خلاصہ کو خلاصہ بعنوان الکبریت الاحمر من علوم الشیخ الاکبر پیش کیا ۔

آپ کی تصنیفی سرگرمیوں کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے اس دوران میں اپنی کتاب روح القدس کے مسودے کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ تین دوسری کتب ( مشکوٰۃ الانوار، حلیۃ الابدال اور تاج الرسائل) تحریر کیں۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ آپ نے فتوحات مکیہ پر کام شروع کیا ، جس کے ۵۶۰ ابواب کی فہرست ابتدائییے کار میں ہی تیار کر لی گئی تھی۔ مصنف کو اندازہ تھا کہ یہ کام ایک پوری عمر کا متقاضی تھا ۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ آپ کے لکھنے کی رفتار فی روز تین جزو تھی۔ جس میں آپ سفر یا حضر میں کبھی ناغہ نہ کرتے تھے ۔ آپ نے اپنی مصنفات کی تعداد ۲۵۱ دی ہے ، جب کہ عثمان یحییٰ کی ببلیوگرافی میں آپ کی ۸۴۶ کتب کے عنوان درج کئے گئے ہیں ۔

سلاسلِ طریقت:

شیخ اکبر نے اپنے رسالہ نسب الخرقہ میں اپنے پانچ مختلف سلاسل سے بیعت کا تذکرہ کیا ہے۔ جن میں دو سلسلوں میں حضرت خضر علیہ السلام، ایک واسطے سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے سلسلہ قادریہ میں بیعت ہیں جبکہ ایک سلسلے میں وہ اویس قرنی کے واسطے سے حضرت علیؓ اور حضرت محمد ﷺ تک پہنچتے ہیں۔

مفتی غلام سرور لاہوری رحمۃاللہ علیہ اپنی کتاب خزینۃالاصفیاءمیں لکھتے ہیں !

آپ کو خرقہ کی نسبت ابو محمد یونس قصار ہاشمی کے ذریعے سے بہ یک واسطہ حضرت غوث الاعظم سے حاصل ہے۔ بعض روایتوں کے مطابق آپ حضرت غوثیہ سے ارادت بلا واسطہ حاصل ہے۔

خرقۂ خلافت میں دوسری نسبت انہیں بلاواسطہ حضرت خضر﷤ سے حاصل ہے۔ اصطلاحاتِ کاشی میں لکھا ہے کہ شیخ محی الدین ابن العربی ﷫نے اپنی کتاب ‘‘الملابس’’ میں لکھا ہے کہ میں نے خرقۂ تصوّف ابوالحسن بن عبداللہ بن جامع سے پہنا ہے اور انہوں نے حضرت خضر﷤ سے حاصل کیا ہے۔

بشارتِ غوث الاعظم:

کتابِِ مناقبِ غوثیہ میں شیخ محمد صادق شیبانی قادری لکھتے ہیں کہ علی بن محمد پدرِشیخ محی الدین ابن عربی محض لاولد تھے۔ حتّٰی کہ ان کی عمر پچاس سال کی ہوگئی۔ ان کے والد حضرت غوث الاعظم﷜ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اولاد عطا فرمائے۔ حضرت غوثیہ نے حضورِ حق میں دعا فرمائی۔ ہاتفِ غیب نے آواز دی کہ اس شخص کی قسمت میں کوئی اولاد نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی دوسرا اپنی اولاد کا حصّہ اسے عطا کردے۔ حضرت غوث الاعظم﷜ نے اپنی پشت علی بن محمد کی پشت کے ساتھ مس کی اور فرمایا ابھی میرے صلب میں ایک فرزند باقی تھا۔ وُہ ہم نے تمہیں دیا۔ وُہ تیرے گھر پیدا ہوگا۔ ہم نے اس کا نام محمد اور لقب محی الدین رکھا ہے۔ یہ بچّہ اولیاء میں درجۂ عظیم اور رتبۂ عالی پائے گا۔ چنانچہ حضرت غوثیہ کی بشارت کے مطابق نو ماہ کے بعد علی بن محمد کے گھر لڑکا پیدا ہوا وہ اسے حضرت کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے۔ آپ نے نگاہِ لطف و کرم سے بچّہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: یہ میرا بیٹا ہے ان شاء اللہ قطبِ زمانہ ہوگا۔ اسرارِ توحید جو آج تک کسی موحد نے بیان نہیں کیے۔ یہ لڑکا ان اسرار و رموز کو واشگاف طور پربیان کرے گا۔(کتاب خزینۃالاصفیاء قادریہ ،ص،۱۸۶)(مہر منیر ،ص، ۴۷۲)

معاصرین مشائخ:

شیخ شہاب الدبن سہروردي رحمۃاللہ علیہ

شیخ أبي الحسن الشاذلي رحمۃاللہ علیہ

شیخ جلال الدين الرومى رحمۃاللہ علیہ

علامہ ابن رشد رحمۃاللہ علیہ

امام فخر الدين الرازي رحمۃاللہ علیہ

شیخ صدر الدين القونوي رحمۃاللہ علیہ

شیخ الاسلام عز بن عبدالسلام رحمۃاللہ علیہ

شیخ فريد الدين عطار رحمۃاللہ علیہ

شاعری:

آپ بلند پایہ شاعر بھی تھے ۔ مکہ میں آپ کی شاعری اپنے نقطہءعروج پر پہنچی ، جہاں پر آپ کا دوستانہ تعلق ابو شجاع ظاہر بن رستم بن ابو رجا الاصفحانی اور ان کے خاندان کے ساتھ تھا، ۔ خود آپ نے اپنے دیوان ترجمان الاشواق میں نظام کا ذکر تعریفی رنگ میں کیا ہے ۔ مگر بعد میں جب آپ پر مخالفوں نے عاشقانہ شاعری کرنے کا الزام لگایا ، تو آپ نے اس کو رد کرنے کے لیے اس دیوان کی شرح (ذخائر الاعلاق) لکھی ، جس میں ثابت کیا کہ آپ کے اشعار تصوف کے مروجہ طریق سے ذرہ بھر ہٹ کر نہیں ہیں۔

منہج التصانیف:

تصانیف اور تالیفات کی کثرت کے اعتبار سے ابن العربی عالم اسلام کی ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت ہیں جن کی ہمسری کا دعوی نہ کسی نے آج تک کیا اور نہ ہی مستقبل میں اس کے کوئی آثار نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ہماری اسلامی تہذیب کا یہ خاصہ رہا ہے کہ کتاب اور معلم کے درمیان ہمیشہ سے نہ ختم ہونے والا سلسلہ رہا ہے۔ بہت بڑے بڑے نام اپنی علمی تحریروں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ عثمان اسماعیل یحییٰ کے بقول شیخ اکبر ابن العربی سے 846 کتابیں اور رسائل منسوب ہیں۔ ان میں سے آدھے تقریبا 400 کے قریب آپ کی ذاتی تصنیفات ہیں جن میں کسی دوسری کتاب کا حوالہ اور جمع کیا گیا مواد بہت کم ہے، بعنی جتنا بھی لکھا خود سے لکھا یااُن سے لکھوایاگیا۔

اپنی کتاب ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ میں اذان کے بارے میں کلام کرتے ہوئے فرمایا: ’’جان لو کہ بحمد اللہ میں نے اپنی اس کتاب میں اور باقی کتب میں غیر مشروع امر کی تقریر نہیں کی اور اپنی تمام کتابوں میں قرآن و سنت سے باہر نہیں نکلا‘‘

ایک اور جگہ (366باب فتوحات) میں فرماتے ہیں: ’’میں جو کچھ اپنی کتابوں میں لکھتا ہوں وہ فکر اور روایت سے نہیں وہ تو القاء ہے جو میرے دل میں الہام کیا جاتا ہے‘‘ابن العربی پر جو علم بھی الہام ہوا، آپ نے اس کو ویسے کا ویسے اپنی کتب میں لکھ دیا۔ یہ علم ذوق اور تجلی الٰہی سے ہی ہے اور ایسے الہام کا نتیجہ ہے جو املاء کروایا جاتا ہے۔ اسی لئے شیخ اکبر کے علوم زیادہ تر خلقت کیلئے نئے نئے سے ہیں۔ان میں وہ معارف ہیں جن کی طرف پہلے سے حائل شدہ پردے نہیں اٹھے۔ اپنے انہی علوم پر عوام کے انکار کی وجہ بھی شیخ اکبر کو پتہ تھی۔ اسی وجہ سے تو پہلے ہی کہہ دیا: ’’جو لوگ ان علوم کاانکار کرتے ہیں وہ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ارباب علم کے پاس یہ علوم اجنبی اور غیر متعارف طریقوں سے آئے ہیں اور وہ کشف کے طریقے ہیں۔ جبکہ لوگوں نے صرف فکری راستوں سے آنے والے علوم کا ہی اقرار کیا ہے‘‘ اب جبکہ علوم دو راستوں پر تقسیم ہو گئے تو اگلی بحث یہ ہے کہ ان دونوں راستوں میں سے حق پر کون سا راستہ ہے ۔ کیا فکری علوم راہ راست پر ہیں یا کشفی علوم۔ حضور ﷺکی مشہور حدیث ہے :’’کل باطن یخالف الظاہر فھو باطل‘‘ یعنی ہر وہ باطن جو ظاہر کا مخالف ہے وہ باطل ہے۔ ابن العربی بھی اسی اصول کو لے کر چلتے ہیں۔ فتوحات کے 246باب میں فرماتے ہیں:’’میزان شرع کو اپنے ہاتھ سے چھوڑنے سے بچ بلکہ شرع کے ہر حکم پر جلدی کر‘‘ فرماتے ہیں: ’’ہمارے نزدیک کشف کو نص پر مقدم کرنا نہیں ہے کیونکہ اہل کشف کو بھی اشتباہ ہو جاتا ہے جبکہ صحیح کشف ہمیشہ ظاہر شریعت کے موافق ہی ہوتا ہے جس نے کشف کو نص پر مقدم کیا وہ اہل اللہ سے خارج ہو گیا اور نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہو گیا‘‘ علوم کشف ہوں یا علوم فکر دونوں ہی شرع کے تابع ہیں اور متبوع کبھی تابع سے آگے نہیں نکل سکتا۔ اسی طرح میزان ، شریعت ہے نہ کہ اہل عقل کی عقل اور نہ اہل کشف کا کشف، جو اس بات کو سمجھ گیا وہ اہل اللہ کہنے کا حقدار ہے۔

تصانیف:

تعداد کتب و رسائل ابن العربی

ابن العربی کی علمی کثرت کا اندازہ لگانے میں سب سے بڑا مسئلہ ان کی کتب کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا ہے۔ بہت پہلے سے ہی علماء نے اس پر کام شروع کر دیا بلکہ شیخ اکبر نے خود ایک کتاب ’’فہرست المولفات‘‘ کے نام سے لکھی جس میں250 کتب اور رسائل کا ذکر کیا۔ تاہم بعد میں 632ھ میں دمشق کے ایوبی سلطان (سلطان ملک اشرف المظفر) کو دی گئی ایک علمی سند اور اجازت میں اپنی 290کتب اور رسائل کا تذکرہ کیا۔ بعد میں محققین نے شیخ کی وفات کے بعد اُن کی چھوڑی گئی علمی میراث کو ضبط احاطہ میں لانے کی کوشش کی۔ جن میں سے کچھ نام اور اُن کا کام درج ذیل ہے:

مولانا عبدالرحمن جامی نے انکی تصانیف کی تعداد500بتائی ہے۔
محمد رجب حلمی نے (قاہرہ1326ھ) میں تعداد284گنوائی۔
اسماعیل پاشا بغدادی نے475کتابوں اور رسائل کے نام لکھے۔
کورکیس عواد نے چھان بین کرکے527کتابوں تک دسترس پائی ہے۔
ڈاکٹر محسن جہانگیری نے اپنی کتاب ’’محی الدین ابن العربی، حیات و آثار‘‘ میں 511کتابوں کو شامل کیا ہے۔
عثمان یحیی نے اپنی کتاب: مؤلفات ابن العربی تاریخہا و تصنیفہا جو کہ فرانسیسی زبان میں لکھی گئی ہے، میں846 کتب اور رسائل کے نام گنوائے ہیں اور ہر کتاب اور رسالے کو ایک نمبر دیا ہے۔ چونکہ یہ ابھی تک ہونے والی سب سے جامع تحقیق ہے اور ہر نمبر کوRG# نمبر کہہ کر پکارا جاتا ہے۔
کتب ابنِ عربی:
الفتوحات المكية في معرفة أسرار المالكية والملكية
عنقاء مغرب في معرفة ختم الأولياء وشمس المغرب
كتاب العقائد
العقد المنظوم والسر المختوم
محاضرة الأبرار ومسامرة الأخيار
مشاهد الاسرار القدسية ومطالع الأنوار الإلهية
ترجمان الاشواق في غزل والنسيب
جامع الاحكام في معرفة الحلال والحرام
تنزل الاملاك في حركات الأفلاك
الدرة الباضعة من الجفر الجامعة
كتاب مواقع النجوم ومطالع أهلة الأسرار والعلوم
فصوص الحكم
رسائل ابنِ عربی:

مشكاة العقول المقتبسة من نور المنقول
حرف الكلمات وحرف
رسالة الأزل
رسالة الأنوار
رسالة الحجب
رسالة روح القدس
الرسالة الغوثية
الرسالة القدسية
رسالة القسم الإلهي
رسالة كنه مما لا بد منه
رسالة الميم والواو والنون
كتاب الياء وهو كتاب الهو الخ
رسالة انشاء الدوائر
رسالة الأنوار فيما يفتح على صاحب الخلوة من الاسرار
قصيدة عظيمة للشيخ محي الدين بن عربي
حلية الأبدال
رسالة الحجب
السبحة السوداء
شجون المسجون
الأمر المحكم المربوط فيما يلزم أهل طريق الله تعالى من الشروط
كتاب الفناء في المشاهدة
كتاب بلغة الغواص في الأكوان إلى معدن الإخلاص (تحت الطبع، بتحقيق الشيخ محسن الطهراني)
كتاب الجلال والجمال
كتاب الألف و هو كتاب الأحدية
كتاب الجلالة و هو كلمة الله
كتاب القربة
كتاب الشأن
كتاب الشاهد
كتاب التراجم
كتاب منزل القطب و مقامه و حاله
رسالة الانتصار
كتاب الكتب
كتاب المسائل
كتاب التجليات
كتاب الإسفار عن نتائج الأسفار
كتاب الوصايا
كتاب نقش الفصوص
كتاب الوصية
كتاب اصطلاح الصوفية
الاسرا إلى المقام الاسرى
اردو تراجم كتب ابن عربی:

ابن عربی كى مندرجہ ذيل كتابوں كا اردو ترجمہ موجود ہے۔

فصوص الحكم

فصوص الحكم ترجمہ عبد الغفور دوستى (1889 حيدرآباد دكن)۔
فصوص الحكم ترجمہ سيد مبارك علی (1894 كانپور)۔
فصوص الحكم ترجمہ مولوى عبد القدير صديقی يہ كتاب پنجاب يونيورسٹى كے نصاب ميں شامل ہے۔
پیر مہر على شاه صاحب كى كتاب تحقيق الحق فی كلمۃ الحق اور ملفوظات مہريہ ابن عربی كے دفاع ميں اپنى مثال آپ ہے۔
شرح فصوص الحکم:شاہ فضل رسول بدایونی رحمۃ اللہ علیہ
فتوحات مكيہ

فتوحات مکیہ ترجمہ مولوی فضل خان مرحوم ( وفات 1938) جس ميں پہلے 30 فصول كا ترجمہ كيا گیا تھا۔
فتوحات مکیہ ترجمہ سليم چشتی 1987 تك ترجمے کی چار جلدیں شائع ہوئيں۔
فتوحات مکیہ ترجمہ فاروق القادرى پہلی 2 فصول كا ترجمہ 2004 ميں شائع ہوا ہم اميد كرتے ہيں کے یہ عمل پایہ تكمیل كو پہنچے گا۔
رسائل ابن عربی

ابن عربی كےچار رسائل
شجرة الكون
الكبريت الاحمر
الامر المحكم والمربوط
كتاب الاخلاق و الامر
رسائل ابن العربى (جلد اول)

شیخ ِاکبر کی سیرت پر کتب:

هكذا تكلم ابن عربي،نصر حامد أبو زيد.
ابن عربي ومولد لغة جديدة، د. سعاد الحكيم.
محيي الدين ابن عربي - حياته، مذهبه، زهده - جزء - 49، سلسلة أعلام الفلاسفة،فاروق عبد المعطي.
قرة أهل الحظ الأوفر في ترجمة الشيخ الأكبر للشيخحامد العمادي (دار الكتب مجاميع 3445
جامع كرامات الأولياء للشيخيوسف النبهاني 1/ 198،
رسالة صفي الدين بن أبي المنصورفي سير الأولياء الذين لقيهم (ط. المعهد الفرنسي بدمشق)
نفح الطيب للإمام للمقري وهو من أحسنها (2 / 361، 384)
سير أعلام النبلاء للذهبي (23/ 48،49)
البداية والنهاية لابن كثير (13/ 156)
التكملة لوفيات النقلة للمنذري (3/555)
شذرات الذهبلابن عماد الحنبلي (3/190، 203).)
العبر في خبر من غبر للذهبي (5/ 158، 159)
عنوان الدراية للغريني (158 / 160)
لسان الميزانلابن حجر العسقلاني (5/310، 313).)
ميزان الاعتدال للذهبي (659 / 660)
النجوم الزاهرةلابن تغري بردي (6 / 339).
الوافي بالوفيات للصفدي (4 / 972، 179)
الأعلام للزركلي (6 / 281)
شیخ ِاکبر کے دفاع میں تحریر کی گئی کتب:

تنبيه الغبي في تبرئة ابن العربي، تأليف: جلال الدين السيوطيالمتوفى سنة 911 هـ.
الاغتباط بمعالجة ابن الخياط، تأليف: الفيروزآباديالمتوفي سنة 817 هـ، يرد فيه على ابن الخياط ما اتّهم به الشيخ ابن عربي في عقيدته.
الرد على المعترضين على الشيخ محيي الدين، تأليف: الفيروزآبادي، موجود فيمعهد المخطوطات العربية 201 تصوف.
الرد المتين على منتقص العارف محيى الدين، تأليف: عبد الغني النابلسي.
تنبيه الأغبياء على قطرة من بحر علوم الأولياء، تأليف: عبد الوهّاب الشعراني، وهو مفقود.
الكبريت الأحمر في بيان علوم الشيخ الأكبر، تأليف: عبد الوهّاب الشعراني، وهو مطبوع.
القول المبين في الرد عن الشيخ محيي الدين، تأليف: عبد الوهّاب الشعراني، وهو مطبوع.
الفتح المبين في رد المعترض على الشيخ محيي الدين، تأليف: عمر حفيد شهاب الدين العطار، وقد طبع قديماً.
مفتاح الوجود الأشهر في توجيه كلام الشيخ الأكبر، تأليف: عبد الله الصلاحي، وهو موجود في دار الكتب 195 تصوف، وذيله 199 تصوف.
الفتح المبين في رد اعتراض المعترضين، تأليف: عمر حفيد الشهاب الشيخ أحمد العطار، أحد علماء الشام.
ميزان الحق في اختيار الأحق، تأليف: كاتب حلبي أحد أكابر العلماء العثمانية.
الجانب الغربي في حل مشكلات ابن العربي، تأليف: مكي، ألفه بأمر السلطان سليم.
قرة أهل الحظ الأوفر في ترجمة الشيخ الأكبر، تأليف: حامد العمادي، وهو موجود في دار الكتب مجاميع 3445.
الانتصار للشيخ محيي الدين، تأليف: علي بن ميمون المغربي، وهو موجود في برلين 2851، ونسخة بدار الكتب.
كشف الغطاء عن أسرار كلام الشيخ محيي الدين، تأليف: سراج الدين المخزومي.

ملفوظاتِ مہریہ :الشیخ مہرِعلی شاہ جشتی

تحقيق الحق فی كلمۃ الحق: الشیخ مہرعلی شاہ جشتی

وفات:

۶۲۰ھ میں آپ نے دمشق کو اپنا وطن بنایا ، جہاں کے حاکم الملک العادل نے آپ کو وہاں پر آ کر رہنے کی دعوت دی تھی ۔ وہاں پر آپ نے۲۲ربیع ا لآخر ۶۳۸ھ مطابق ء۱۲۴۰کو وفات پائی اورجبل قاسیون کے پہلو میں دفن کئے گئے ، جو آج تک مرجع خواص و عوام ہے

ماخذومراجع:

خزینۃ الاصفیاء

محی الدین ابن عربی

جامع کرامات الاولیاء

سیر اعلام النبلاء

اردو دائرہ معارف الاسلامیہ

مہر ِمنیر

ملفوظاتِ مہریہ

 

 

تجویزوآراء