حضرت مولانا حافظ فتح محمد اچھروی نقشبندی
حضرت مولانا حافظ فتح محمد اچھروی نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
رہبر شریعت و طریقت حضرت مولانا حافظ ابو المشتاق فتح محمد اچھر وی جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور ابن میاں امام دین ، اچھرہ لاہور میں پیدا ہوئے ، بچپن میں آپ پر چچک کا شدید حملہ ہوا جس سے ظاہری بینائی زائل ہو گئی لیکن اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے آپ کو وہ نور بصیرت و معرفت ملا کہ مشائخ کباار نے آپ سے استفادہ کیا ،عربی ، فاسی ، طب ، تصوف اور تمام مروجہ علوم میںکامل دسترس رکھتے تھے اور ہر قسم کے طلباء کو شرح و بسط سے درس دیا کرتے تھے ۔ آپ سلسلۂ عالیہ قادریہ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ غلام محی الدین قصوری قدس سرہما سے بیعت تھے اور انہی کے مجاز تھے۔
ایک دفعہ حضرت خواجہ عبد الرسول قصوری ،اچھرہ کی ایک مسجد کے قریب سے گزرے دیکھا کہ ایک کتیا اپنے بچوں سمیت اس مسجد سے باہر آرہی ہے ۔ اس سے آپ کو بہت صدمہ ہو اکہ لوگ خانۂ خدا سے اس قدر بے پروا ہو چکے ہیں کہ مساجد حیوانات کی ااماہ جگاہ بن چکی ہیں۔ واپسی پر پھر وہیں سے گزرے تو فرمایا ’’مجھے اس جگہ نور دکھائی دیتا ہے، یہاں خدا کا نوربر سے گا‘‘ آپ کی یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ مولانا حافظ فتح محمدرحمہ اللہ تعالیٰ نے اس مسجد میںجامعہ فتحیہ جاری کیا جہاں سے بڑے بڑے فضلاء فیضیاب ہوئے اور قال اللہ اور قال الرسول کا سلسلہ جاری رہا[1]
مولانا حافظ فتح محمد تقویٰ و پرہیز گاری میں اپنی مثال آپ تھے ، اپنے گھر میں بوئی ہوئی سبزی سے آپ کا کھانا تیار ہوا کرتا تھا ۔ آپ کی اہلیہ محترمہ بھی تقدس مآب خاتون تھیں ۔ اگر کسی خادمہ کا پکایا ہوا کھانا تناول فرمالیتے تو فوراً قے ہو جاتی ۔ اس دور کے مشائخ عظام مثلاً شیر ربانی حضرت میاں شیر محمد شر قپوری اور حضرت خواجہ محبوب عالم تو کلی خلیفہ حضرت سائیں تو کل شاہ انبالوی وغیر ہماکے آپ کے ساتھ خصوصی تعلقات تھے۔ یہ حضرات اکثر ملاقات کے لئے آپ کے پاس تشریف لایا کرتے تھے ۔ حضرت ھافظ صاحب کو بزرگان دین اور مشائخ کرام سے گہری عقیدت تھی ۔ ایک مرتبہ آپ امام ربانی حضرت مجد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ کے مزار پر انور پر حاضر ہوئے۔ ایک درویش نے بحالت مراقبہ بارگاہ مجدد میں کرایہ کی درخواست کی ، ارشاد ہوا ، حافظ فتح محمد شاہ سے لے لو ، اور ان کی شکل بھی دکھادی ، مگر وہ درویش سوال نہ کر سکے ، ادھر در بار مجددی سے حافظ صاحب کو ایماء ہوا کہ فلا شخص کو کرایہدے دیا جائے چنانچہ آپ نے اپنے خادم جمال الدین کو فرمایا کہ یہ مسافر جو احاطۂ درگاہ سے باہر جا رہا ہے ، اسے اتنا کرایہ دے دو۔
حضرت حافظ صاحب کے زمانے میںمولوی عبد اللہ چکڑا لوی مسجد چنیا نوالی (لاہور ) نے فتنہ انکار حدیث کھڑا کیا تو آپ نے اس کے استیصال کے ل ئے سعی بلیغ فرمائی اور چکڑا لوی کے رد میں متعدد رسائل تصنیف فرمائے ، ان میں سے ایک رسالہ کانام صلوٰۃ القرآن بمتابعۃ حبیب الرحمن المعروف بہ رد چکڑالوی ہے۔
۲۹؍شوال المکرم (۱۳۳۵ھ؍۱۹۱۷ئ) کو حضرت حافظ فتح قدس سرہ کا وصال ہوا ، پروفیسر اصغر علی روحی نے تاریخ وفا ت کہی جو لوح مزار پر درج ہے ؎
امام حافظاں ، فتح محمد
ففاق القوم صدقاً اجمعینا
ولم یات الھوا مادام حیا
لیوم یجعل الولد شیا
صدائے ارجعی در گوشش افتاد
بصدر قرب حق شد مسند آرا
بسال عزم خلدش گفت روحیؔ
’’بجنت رفت وباحق باد مولا!‘‘
حضرت الحاج میاں محمد حسین مدفون جھگیاں ناگرہ (لاہور ) آپ کے خاص مریدین میں سے تھے[2]
نوٹ:۔ انور محی الدین کے حوالہ کے علاوہ تمام حالات جمیل سے ماخوذ ہیں ۱۲شرف قادری
[1] شبیر احمد شاہ ساجہ دہ سید : انور محی الدین ، ص ۲۰۶
[2] محمد عالم مختار حق : نقوش جمیل ، ص ۱۲ تا ۱۵
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)