حضرت مولانا محمد ریحان رضا خاں رحمانی میاں

حضرت مولانا محمد ریحان رضا خاں رحمانی میاں علیہ الرحمۃ

سجادہ نشین خانقاہ عالیہ رضویہ بریلی شریف و مھتمم مدینۃ منظر اسلام

ولادت

حضرت مولانا محمد ریحان رضا قادری بن مفسرِ اعظم ہند حضرت مولانا محمد ابراہیم رضا خاں بن حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا خاں بن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی ۱۸؍ذی الحجہ ۱۳۲۵ھ؍ ۱۹۳۴ء کو محلہ خواجہ قطب بریلی شریف میں پیدا ہوئے۔ حضرت ریحان ملت مولانا محمد ریحان رضا علیہ الرحمۃ کی ولادت سے پورے خاندان میں کوشی کی ہر دوڑ گئی۔ خاندان کے ہر فرد کا چہرہ مسکرانے لگا۔ چونکہ نبیرۂ اعلیٰ حضرت مفسرِ اعظم ہند کے یہاں یہ پہلی ولادت تھی، کانوں میں اذان و تکبیر پڑھی گئی۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا علیہ الرحمہ نے اپنا لعابِ دہن عطا فرمایا، جو منھ میں رکھ دیا گیا، جد امجد حجۃ الاسلام علیہ الرحمۃ نے نام رکھا، بعدہٗ پکارنے کے لیے ریحان رضا تجویز فرمایا، اسی واقعہ کی طرف نشان دہی کراتے ہوئے حضرت ریحان ملت نے اپنے نعتیہ کلام میں تحریر فرمایا ہے؎

نام یہ جس نے دیا اس کو خبر تھی شاید
ان کا ریحان زمانےمیں چمکتا ہوگا

سراپا

رنگ گندمی، پیشانی کشادہ، چہرہ نورانی، قد لمبا، آنکھیں سر مگیں، حضرت ریحان ملت کے چہرے سے جلالِ دینی عیاں تھا، کافر و مرتد، مشرک وغیرہم بد مزہب و بد دین پر جلال وبارعب چہرہ دیکھ کر خوف زدہ ہوجاتے تھے۔

تعلیم وتربیت

پیدائش کے بعد ریحان ملت نے طفولیت کے ایام علم و حکمت معرفت وطریقت کے خوش گوار ماحول میں گذارے۔ بچپن ہی سے علم وادب کے دلدادہ تھے۔ اعلیٰ ذہانت و فطانت رکھتے تھے۔ ریحان ملت کی تعلیم گھر پر ہوئی حسب الحکم والد ماجد مفسر اعظم ہند علیہ الرحمۃ لائل پور پاکستان تشریف لے گئے۔ وہاں پر جامعہ رضویہ مظہر اسلام میں داخلہ لے کر محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد سردار احمد رضوی لائل پوری علیہ الرحمۃ کی خدمت میں تین سال مسلسل رہ کر معیاری کتابوں کا درس حاصل کیا، پھر وہاں سے واپسی کے بعد دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے باقاعدہ دستار بندی ہوئی، اور سندِ فراغت پائی۔

اساتذہ

حضرت ریحان ملت کے اساتذۂ کرام میں مندرجہ ذیل حضرات کے اسماءِ گرامی قابل ذکر ہیں، جنہوں نے شب وروز محبت وشفقت کے ساتھ علمِ دین پڑھایا، اور معرفت وحکمت، علوم وفنون عطا فرماکر مستند عالم بنایا:

۱۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا خاں قادری بریلوی علیہ الرحمۃ

۲۔ تاجدارِ اہلسنت حضرت مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رجا نوری بریلوی قدس سرہٗ

۳۔محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد سردار احمد رضوی لائل پوری علیہ الرحمۃ

۴۔ مفسر اعطم ہند حضرت مولانا محمد ابراہیم رضا خاں جیلانی بریلوی علیہ الرحمہ

۵۔ امام النحو حضرت مولانا سید غلام جیلانی میرٹھی علیہ الرحمۃ

۶۔ محدث منظر اسلام حضرت مولانا احسان علی رضوی علیہ الرحمۃ

۷۔ بحر العلوم حضرت مفتی سید افضل حسین رضوی مونگیری علیہ الرحمۃ

۸۔ حضرت مولانا مفتی جہانگیر خاں رضوی اعظمی مدظلہٗ [1]

درس وتدریس

حضرت ریحان ملت سند فراغت حاصل کرنے کے بعد منظر اسلام بریلی میں بحیثیت مدرس بارہ سال تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، اور زبانِ فیض ترجمان سے گوہر فشانی کرتے رہے، اس دوران ریحان ملت نے درسِ نظامی کی مختلف کتابیں پڑھائیں۔ ادب سے زیادہ دل چسپی تھی۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ دارالعلوم منظرِ اسلام کی نظامت کا بار جب ریحان ملت کے کاندھے پر آیا و ان فرائض کی انجام دہی اور سماجی، سیاسی امور میں منہمک ہونے کی وجہ سے کافی عرصہ تک درس وتدریس سے علیحدہ رہے۔ ایک طویل مدت کے بعد مدرسین کی کمی کمی کی وجہ سے دوبارہ ۱۳۸۲ھ سے لے کر ۱۳۸۵ھ تک دارالعلوم منظرِ اسلام میں شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز رہے۔ بخاری شریف، مسلم شریف اور دیگر کتابوں کا درس دیا۔ دارالعلوم منظرِ اسلام کے طلبہ حضرت ریحان ملت کی قابلیت کے معترف تھے، حالانکہ سلسلۂ درس وتدریس کافی دنوں تک موقوف تھا۔

فنِ وعظ گوئی

حضرت ریحان ملت وقت کے بہترین مقرر اور مایۂ ناز خطیب تھے۔ کبھی بھی تقریر کرنے سے قبل ذہن میں مضامین کی ترتیب نہیں دی اور نہ ہی تقریر کو لکھ کردیاد کیا بلکہ فی البدیہ تقریر فرماتے۔ ریحان ملت اپنی وعظ گوئی اور تقریر کا ابتدائی حال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

والد ماجد حضرت مفسر اعظم علیہ الرحمۃ کے وصال کے بعد جب میری دستار بندی ہوئی اور مجھے تقریر کے لیے پکارا گیا، تو میں اس وقت تقریر نہیں کیا کرتا تھا، مگر تقریر کے لیے میرا اعلان کردیا گیا۔ یہ اعلان سن کر میں دنگ رہ گیا، اور سب سے پہلے جد امجد سرکار سیدنا اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ کے مزار پر انوار پر حاضر ہوکر عرض کیا حضور اگر آج میری تقریر کامیاب نہیں ہوئی تو میں زندگی بھر کبھی تقریر نہیں کروں گا سیدنا اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ سے استعانت روحانی حاصل کی، حضور اعلیٰ حضرت کے روحانی تصرف سے یہ تقریر بہت کامیاب رہی، اس کے بعد سے معیاری تقریریں ہوتی رہیں جو لوگوں کے لیے دلپذیر ثابت ہوگئیں [2]

ریحان ملت کی زندگی کے چند اہم گوشے

دارالعلوم منظر اسلام کی تدریسی خدمات سے حضرت ریحان ملت بر بنائے معاشی پریشانی مستعفی ہوگے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۶۵ء کے درمیان دارالعلوم منظرِ اسلام پر شدید مالی کمی واضح ہوئی تھی، تمام مدرسین و ملازمین کی تنخواہیں باقی رہنے لگی تھیں، مفسر اعظم مولانا ابراہیم رضا بریلوی بہت متفکر اور پریشان حال تھے، حتیٰ کہ انہوں نے اپنی اہلسیہ محترمہ کا زیور بیچ کر مدرسین کی تنکواہیں پوری فرمائیں، عسرت وتنگی کی وجہ سے ریحان ملت دارالعلوم منظرِ اسلام سے مستعفی ہونے کے بعد ربر فیکٹری فتح گنج بریلی شریف اسٹینو گرافر کے عہدے پر بحال ہوگئے۔ یہاں پر یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ ریحان ملت جہاں دینی اور مذہبی علوم سے آراستہ وپیراستہ تھے وہیں دنیاوی علوم سے بھی آشنا تھے۔

ریحان ملت نےمروجہ تعلیم بھی حاصل کی اور امتحانات بھی دیئے تھے۔ انگلش ہندی میں کمال دسترس رکھتے تھے۔ شارٹ ہینڈ (مختصر نویسی) ایک مشکل فن ہے، ریھان ملت نے اسے بھی سیکھا تھا، جس کی بنا پر ملازمت اسٹینو گرافر کی جگہ پر ملی۔ کچھ عرصہ تک اس پوسٹ پر کام کیا لیکن رجحان قلبی اس سے متنفر تھا۔ پھر اس سے بہت جلد دستبردار ہوگئے۔ مفسر اعطم ہند مولانا محمد ابراہیم رضا بریلوی کے وصال کے بعد دارالعلوم منظر اسلام بریلی کے مہتمم بنے۔ مہتمم بننے کے بعد ریحان ملت نے دارالعلوم منظر اسلام کی طر ف اپنی تمام تر توجہ مبذول کردی، دارالعلوم کی تمام کمیوں کو دور فرمایا، اور اپنی صلاحیت و ذہانت سے چند سال کے عرصہ میں کچھ سے کچھ کردیا۔ دارالعلوم کی بوسیدہ عمارت کو مہندم کرا کے سہ منزلہ عمارت کی بنیاد ڈالی۔ اس کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد رضوی افریقی دار الاقامہ طلبہ کے ٹھہرنے کے لیے تعمیر کایا، مدرسین و ملازمین میں اضافہ کیا، رضا مسجد کی تعمیر جدید کرائی، نشرواشاعت کے لیے رضا برقی پریس لگوایا۔ اس طرح کی غیر معمولی ترقیاں ہر دن ہوتی رہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا نقشہ بدل گیا۔ ریھان ملت کے حسنِ نظامت اور قابلِ قدر کار کردگیوں سے لوگ حیرت زدہ رہ گئے [3] ۔

سیاسی گرمیاں

۱۹۷۶ء میں عوام وخواص بالخصوص علماءِ کرام کے انبوہ کثیر نے حضرت ریحان ملت کی ذہانت، فطانت، بالغ، نظری، دور اندیشی دیکھ کر بالجبر ریھانِ ملت کو میدانِ سیاست میں آزاد میدار کی حیثیت سے کھڑا کیا،کیونکہ اس وقت پارلیمنٹ اور اسمبلی میں کوئی حق بات کہنے والا نہیں تھا، کوئی نمائندہ ایسا نہیں تھا جو مسلمانوں کی صحیح قیادت کر سکے۔ انہیں حالات کے پیش نظر لوگوں کے اصرار پر راضی ہوئے، میدان سیاست میں رہ کر کارہائے نمایاں انماج دیئے جو اپنی مثال آپ ہیں۔

حضرت ریحان ملت کی کارکردگی دیکھ کر حکومت کے کارندے جناب اکبر علی خاں گورنر اتر پردیش نےجنوری ۱۹۷۵ء کو یوپی قانون ساز کونسل کا ممبر نامزد کیا۔ ریحان ملت کی نمایاں کارکردگی دیکھ کر دوبارہ ۱۹۸۱ء میں ایم۔ ایل۔ سی (M.L.C) نیز یوپی کانگرس آئی کا نائب صدر منتخب کیا۔ اس میدان میں بڑے بڑے دانشوروں کے قدم لغزش کھا جاتے ہیں، مگر ریحان ملت نے اٹھارہ سال کا طویل عرصہ میدان سیاست میں گزارا۔ کہیں بھی کسی قسم کا لوچ یا دامن پر بد نمائی کا داغ نہیں لگنے دیا، بلکہ کونسل اور اسمبلی میں ایسی بے باکی اور دلیری سے تقریریں کیں کہ خود کانگریس آئی کہ ممبروں کے دانت کھٹے ہوگئے۔

جلوس محمدی کا دوبارہ آغاز

ہندوستان کی آزادی سے پہلے جلوسِ محمدی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بریلی میں نہایت ہی تزک واحتشام کے ساتھ منایا جاتا تھا، اور لوگ شان و شوکت کے ساتھ جلوس میں شریک ہوتے تھے، لیکن ۱۹۴۷ء سے جلوس محمدی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کانکلنا بند ہوگیا تھا۔ لوگوں کے پیہم اصرار سے ریحان ملت نے بغیر سوچے سمجھے اچانک ۱۹۸۰ء میں ۱۲؍ربیع الاول شریف کے موقع پر جلوس محمدی نکالنے کا اعلان کردیا۔ پولیس والوں نے انتھک کوشش کی کہ جلوسِ محمدی (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نہ نکالا جائے لیکن ریحانِ ملت نے فرمایا:

ہر گز نہیں! جلوس ضرور نکلے گا۔ آج ہمارے رسول سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یوم ولادت ہے، ہم اس خوشی میں جلوس نکلاتے ہیں اور نکالتے رہیں گے چاہے اس کے ہمیں جیل بھی جانا پڑے [4] ۔

تبلیغی دورے

حضرت ریحان ملت نے عرب، افریقہ، ہالینڈ، برطانیہ، سربنام، امریکہ، مانچسٹر، نیوجرسی، ماریشس، سری لنکا، نیپال، پاکستان وغیرہ کے دورے بھی کیے، جنوبی افریقہ کے تبلیغی دورے میں ریحان ملت نے ردِّ وہابیت اس طرح کیا کہ وہاں لے لاگ دنگ رہ گئے، بڑے بڑے سرمایہ داروں نے ریحان ملت کو خرید نے کی کوشش کی، لاکھوں روپے کا لالچ دیا لیکن قربان جایئے ریحانِ ملت کی خود داری اور اعلیٰ ظرفی پر۔۔۔ آپ نےارشاد فرمایا کہ:

احمد رضا کا یہ نبیرہ جنوبی افریقہ میں دین اسلام بچنے نہیں آیا ہے بلکہ دین اسلام کی تبلیغ واشاعت کرنے آیا ہے، دولت دنیا لینے نہیں آیا ہے بلکہ عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے لوگوں کے قلوب جگمگانے آیا ہے۔

چنانچہ سرمایاداروں نے ریھان ملت کی بھر پور مخالفت کی لیکن آپ نے اس کی کوئی پروا نہیں کی۔ جنوبی افریقہ سے اگر چہ دولت وثروت نہیں ملی لیکن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہٗ کا نام اور مسلک اہلِ سنت وجماعت کا سکہ لوگوں کے دلوں میں رائج ہوگیا، جس کا چرچا اب تک ہورہا ہے۔

پاکستانی دورے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت علامہ مولانا محمد حسن علی رضوی میلسی ضلع ملتان (پاکستان) راقم طراز ہیں:

جب حضرت ریحان ملت فقیر کی دعوت پر پاکستان رونق افروز ہوئے تو موصوف کا لاہور میں زبردست استقبالکیا گیا، موٹروں کاروں کا بہت لمبا جلوس تھا۔ حضرت ریحان ملت نے جہاں بھی نماز ادا فرمائی لاؤڈ اسپیکر بند کرادیا گیا۔ ریحان ملت کی تشریف آوری سے قبل لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد وغیرہ کی سیکڑوں سنی انجمنوں نے اشتہارات شائع کیے، جدھر گزر جاتے جلوس بن جاتا، جہاں قیام کرتے جلسہ کی صورت بن جاتی [5] ۔

ملک ہندوستان کا کوئی صوبہ ایسا نہیں جہاں ریھان ملت نے دورہ نہ کیا ہو، ہر جگہ ہر مقام پر رشد وہدایت کی باتیں کی ہیں، اور مسلک امام احمد رضا فاضل بریلوی کی ترویج واشاعت کا خوب خوب چرچا کیا ہے۔

بیعت وخلافت

حضرت ریحان بیعت واردت حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ سے رکھتے تھے۔ ۱۳۵۷ھ؍۱۹۳۸ء کو جد امجد حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمۃ نے ماذون و مجاز فرمایا [6] ۔۔۔۔۔۱۵؍جنوری ۱۹۶۲ء؍ ۱۳۸۱ھ کو حضور مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ نے ریحان ملت اور جانشین مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد اختر رضا خاں ازہری قادری بریلوی دامت برکاتہم القدسیہ کو ساتھ ہی ساتھ خلافت واجازت عطا فرمائی، اور یہ خلافت میلاد شریف کی مبارک محفل میں عطا ہوئی۔ خلافت کے وقت شمس العلماء حضرت مولانا قاضی شمس الدین احمد رضوی جعفری جونپوری علیہ الرحمۃ بھی رونق افروز تھے [7] اور علاوہ ازیں والد ماجد مفسر اعظم ہند مولانا محمد ابراہیم رضا بریلوی علیہ الرحمۃ سے بھی اجازت حاصل تھی۔

خلفاء

حضرت ریحان ملت کے مریدن کا حلقہ بہت وسیع ہے، بہت سے علماء کو خلافت سے بھی نوازا ہے، لیکن صد حیف کہ اس کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہ ہوسکا، جس کی وجہ سے ہر ایک کا نام شمار کرنا مشکل ہے البتہ جن لوگوں لوگوں کے نام راقم السطور کو معلوم ہوسکے ان کے اسماء گرامی مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ حضرت مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری شیخ الحدیث جامعہ نظامی ہرضوی لاہور پاکستان [8]

۲۔ سیاحِ ایشیا مولانا توصیف رضا قادری بریلوی [9]

۳۔ مولانا محمد کلیم رحمانی رضوی ہزاری ترچنا پلی بہار

۴۔ مولانا عبدالرحمٰن رضوی گلشن آ﷜بادی

۵۔ مولانا سید ضیاء الحسن جیلانی پاکستان

۶۔ مولانا سید اسد علی رضوی خیر آباد

۷۔ مولانا مختار احمد رضوی بہیڑی ضلع بریلی شریف [10]

چند تلامذہ

۱۔ حضرت مولانا سید محمد عارف رضوی نانپوری شیخ الحدیث دار العلوم منظرِ اسلام بریلی

۲۔ حضرت مفتی قاضی عبدالرحیم بستوی رضوی مفتی مرکزی دارالافتاء

۳۔ مولانا راشد القادری

۴۔ مولانا برکت اللہ رضوی

۵۔ مولانا راحت علی رضوی

۶۔ مولانا نور الدین رضوی

۷۔ مولانا داؤد رضوی

۸۔ مولانا عبدالصمد رضوی

۹۔ مولانا بدر الدین

۱۰۔ مولانا مخدوم رضوی

اولادِ امجاد

حضرت ریحان ملت نے سات یادگاریں چھوڑ ی ہیں جن میں پانچ لڑکے اور دو لڑکیا ہیں۔

۱۔ حضرت مولانا الحاج محمد سبحان رضا خاں قادری دامت برکاتہم مہتمم دارالعلوم منظر اسلام بریلی

۲۔ مخدوم گرامی محمد عثمان رضا انجم قادری بریلوی ناظم اعلیٰ مکتبہ رحمانیہ رضویہ سوداگران بریلی شریف

۳۔ مخدوم گرامی محمد توقیر رضا قادری بریلوی

۴۔ مولانا الحاج توصف رضا قاری بریلوی صدر سنی جمعیۃ العوام بریلی

۵۔ مخدوم گرامی قاری محمد تسلیم رضا شیراز نوری ناطم اعلیٰ مکتبہ ریحان نوری سود گران بریلی شریف

نمونۂ کلام

ہوا یہ چل گئی کیسی جلی فصل بہار اپنی
گلستاں کا یہ عالم دیکھ کر حالت ہے، زار اپنی
ہمیں یہ سنگ دل کیوں چین سے جینے نہیں دیتے
ہوئی کس جرم میں خواری مرے پروردگار اپنی
نہ مسلوظا لمو! کلیاں چمن کی پھول مت توڑو
یہ اپنا ہی گلستاں ہے یہ ہی فصل بہار اپنی
بنامِ باغبانی پھول تم نے ذبح کر ڈالے
بڑے تم سور ماہو، روک لو اب تو کٹار اپنی
نہتّوں پر نہ دیکھو آزماکر دھار خنجر کی
یہ دنیا کی اکہے گی یوں کرو حالت نہ خوار اپنی
نہ دو الزام گلچیں کو چمن کے باغباں تم ہو
تمہارے دور میں کیسے کٹی فصل بہار اپنی
نشاں بھی اب مٹانا چاہتے ہو میرا گلشن سے
یہ میرا ظرف تھا کہ بخش دی تم کو بہار اپنی
میں گلشن میں جہاں چاہوں بناؤں آشیاں اپنا
یہ گل اپنے، کلی اپنی، چمن اپنا، بہار اپنی
ستم یہ ہے کہس ب کچھ جان کے انجان بنتے ہیں
وہ جن کے غم میں آنکھیں نم ہوئی ہیں بارہا اپنی
ستمگر بیوفا وسنگدل میں نے تجھے چاہا
خطا میری بھی ہے لیکن ادائیں کر شمار اپنی
مناسب ہے یہی ریحاںؔ عنادل فیصلہ کرلیں
کہ اب ہم خود ہی دیکھیں گے چمن اپنا بہار اپنی [11]

انتقال

حضرت ریھان ملت مولانا ریحان رضا خاں قادری بریلوی اپنی تمام تر خوبیاں اور عنائیاں لے کر رمضان المبارک کی ۱۸؍تاریخ ۱۴۰۵ھ؍۱۹۸۵ء کو اپنی جان جان افریں کے سپرد کر کے ہمیں داغِ مفارقت دے کر ہمیشہ کی نیند سوگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

حضرت ریحان م لت کا مزار شریف اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری فاضل بریلی اور حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خاں بریلوی کے مابین بنا ہوا ہے۔

مادۂ تاریخ وصال

از ملک التدریس عالم با عمل مولانا ناور علی رضوی، بہرائچی استاذ ا دارالعلوم منظر اسلام ریھان ملت برکاتی، رخصت

۔۔۔۔۔۱۴۰۵ھ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۱۴۰۵ھ۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

خطیب شجاعت، آج سرمایۂ انجمن خالی شد

۔۔۔۔۔۱۴۰۵ھ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۱۴۰۵ھ۔۔۔۔۔ [12]



[1] ۔ ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی ص ۲۸، بابت ۱۹۸۹ء؍۱۴۱۰ھ مضمون از الحاج سبحان رضا خاں قادری بریلوی

[2] ۔ ماہنامہ قاری دہلی، امام احمد رضا نمبر ص ۵۲۲ شمارہ رمضان المبارک ۱۴۰۹؍اپریل ۱۹۸۹ء مضمون الحاج سبحان رضا خاں قادری بریلوی

[3] ۔ ماہنامہ قاری دہلی کا امام احمد رضا نمبر ص ۵۲۴ شمارہ رمضان المبارک ۱۴۱۰ھ؍ اپریل ۱۹۸۹ء

[4] ۔ ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی ص ۳۳ بابت ستمبر ۱۹۸۹ء؍۱۴۱۰

[5] ۔ ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی ستمبر ۱۹۸۹ء مضمون از حضرت مولانا محمد حسن علی رضوی میلسی پاکستان

[6] ۔ ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی ص ۲۸، بابت ۱۹۸۹ء؍۱۴۱۰ھ مضمون از الحاج سبحان رضا خاں قادری بریلوی

[7] ۔ عبدلمجید رضوی، جناب: مولانا، ماہ نامہ اعلیٰ حضرت بریلی ص ۲۱جنوری ۱۹۶۲ء ؍شعبان المعظم ۱۳۸۱ھ

[8] ۔ مکتوب گرامی حضرت علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری بنام راقم

[9] ۔ مولانا توصیف رضا قادری بریلوی سے رقم کی ایک ملاقات مورخہ ربیع الاول ۱۴۱۰ھ؍ ۱۹۸۹ء ۱۲رضوی غفرلہٗ

[10] ۔ ماہنامہ قاری امام احمد رضا نمبر بابت رمضان المبارک ۱۴۰۹؍اپریل ۱۹۸۹ء

[11] ۔ ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی ص ۶، اکتوبر ۱۹۸۹ء؍ صفر، ربیع الاول ۱۴۱۰ھ شمارہ ۱۰، جلد ۲۱

[12] ۔ قلمی یاد داشت مولانا انور علی رضوی بہرائچی نزد راقم ۱۲رضوی غفرلہٗ

تجویزوآراء