حضرت شیخ الادب مولانا شمس بریلوی

حضرت شیخ الادب مولانا شمس بریلوی علیہ الرحمۃ

حضرت مولانا شمس الحسن صدیقی المعروف شمس بریلوی بن مولوی ابوالحسن صدیقی عاصی بریلوی (۱۹۳۷ء )بن مولانا حکیم محمد ابراہیم بدایونی نیا شہر بریلی کے محلہ ذخیرہ کے اس مکان میں ۱۳۳۷ ھ ؍ ۱۹۱۹ء میں پیدا ہوئے جس مکان میں عالم اسلام کی ایک عظیم ہستی امام احمد رضا خان محدث بریلوی (۱۳۴۰ھ؍۱۹۲۱ئ) انقلاب سے ایک سال قبل ۱۲۷۲ھ؍۱۸۵۶ء میںپیدا ہوئے تھے ۔ یہ مکان دراصل امام احمد رضا کے جدامجد کی ملکیت تھا جس کو بعد میں حضرت شمس کے والد ماجد نے خرید لیا تھا ۔ شمس بریلوی خود بھی ایک علمی خانوادہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ کے والد ، دادا ، پردادا کے علاوہ آپ کے تایا مولوی ریاض الدین صدیقی بریلوی (۱۹۳۳ء ) صاحب تصانیف بزرگ گذرے ہیں اور روہیل کھنڈ بریلی کے مشاہیر علماء شعراء اور ادباء میں ان حضرات کا شمار کیا جاتاہے ۔

تعلیم و تربیت :

شمس بریلوی نے رسم بسم اللہ کے بعد بریلی شریف کے دارالعلو م منظر اسلا م میںجس کی بنیاد خود اعلی حضرت احمد رضا نے ۱۳۲۲ھ ؍۱۹۰۴ء میں رکھی تھی ، اعلی حضرت کے خلفاء اور دیگر مقتدر علماء سے تعلیم حاصل کی ۔ آپ کے بعض اساتذہ کرام کے نام ملا حظہ کریں۔مفتی حامد رضا خان بریلوی ، حافظ عبدالکریم چتور گڑھی، مولانا رحم الہی منگلوری (۱۳۶۳ھ )مولانا احسان علی مونگیری ، مولانا قاسم علی خواہان بریلوی ، مولانا رونق علی بریلوی وغیرہ۔

اس مدرسہ کے علاوہ آپ نے الہ آبا د بورڈ سے فارسی زبان کے امتحانات ، منشی کامل اور ادیب کامل کے امتحانات امتیازی نمبروں اے پاس کئے ۔ شاعری میں آپ نے مولانا سید قاسم علی خواہاں بریلوی سے اصلاح لی اور بعد میں ان کے بیٹے شایان بریلوی کی اصلاح کی ۔

بیعت :

آپ آخری عمر میں کراچی میںچمنستان رضویہ کے سر سید پھول استاد العلماء علامہ تقدس علی خان بریلوی ؒکے ہاتھ پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے ۔

(بروایت سید وجاہت رسول قادری )

درس و تدریس :

آپ نے تدریس کا آغاز صرف ۱۷ سال کی عمر میں مدرسہ منظر اسلام میں ۱۹۳۵ء سے شعبہ فارسی میں بحیثیت استاد کیا اور ۱۹۴۵ء تک یہ خدمت انجام دیتے رہے اور جب آپ نے مدرسہ منظر اسلام چھوڑ ا اس وقت آپ شعبہ فارسی کے صدر مدرس تھے ۔ ۱۹۴۵ء تا ۱۹۵۴ء آپ بریلی کے اسلامیہ کالج میں استاد کی حیثیت سے خدمت انجام دیتے رہے ۔ آپ ۱۹۵۶ء میں پاکستان تشریف لے آئے اور گورنمنٹ اسکول ایئر پورٹ میں ملازمت اختیار کی اور ۱۹۷۵ء میں اس ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔

تصنیف و تالیف :

آپ کی قلمی خدمات کی تفصیل درج ذیل ہے:

٭     ۱۹۴۲ء میںمیر حسن کی مثنوی ’’سحرالبیان ‘‘پر مقدمہ لکھا ۔

٭     ۱۹۴۶ء میںنول کشور پریس سے دوسراایڈیشن ہوا ۔

٭     ’’تنقیدی شہ پارے ‘‘ اور ینٹل بک ڈپو بریلی سے شائع ہوئی ۔

        ۱۹۴۶ء تا ۱۹۵۲ء آپ ایجوکیشن بک ڈپو علی گڑھ سے وابستہ رہے اور کئی کتابیں تصنیف فرمائیں

ان میں چند نام قابل ذکر ہیں ۔مثلا:

٭     تہذیب خانہ داری                                

٭     بچوں کی تربیت

پاکستان آمد کے بعد۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۶ء آپ ایجوکیشنل پریس سے وابستہ ہوئے اور ادارہ ایچ ایم سعید اینڈ کمپنی سے آپ کی مندرجہ ذیل کتابیں شائع ہوئیں ۔

٭     ترجمہ گلستان سعدی مع حواشی                       ٭ترجمہ بوستان سعدی مع حواشی

٭     شرح دیوان حافظ شیرازی مع حواشی         ٭ترجمہ مدارج النبوت جلد دوم

٭     سعیدی اردو کمپوزیشن حصہ اول و دوم

        اس دوران دیگر اداروں نے بھی آپ کی مندرجہ ذیل مطبوعات شائع کیں ۔

٭     ارمغان سیفی پر تنقید               ناشر سلطان احمد نقوی

٭     تکان مرگ کا تر جمہ موت کا جھٹکا     ناشر مکتبہ رشید یہ کراچی

٭     معلم الدین کا ترجمہ                         مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کراچی

٭     نفسیات کے زاویے                مطبوعہ محراب ادب کراچی

٭     لمعات خواجہ کا ترجمہ معہ سوانح و تبصرہ مطبوعہ ادارہ معین الادب کراچی

٭     ترجمہ لطائف اشرفی

٭     مقدمہ مقامات صوفیہ              مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور

٭     مقدمہ ماثر الکرام                  مطبوعہ دائرۃالمصنفین کراچی

۱۹۶۶ء تا ۱۹۹۵ء مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی سے وابستہ رہے اس دوران آپ کی کئی معرکۃالآرا تصنیفات و تالیفات و تراجم مع مقدمات شائع ہوئیں ۔

٭     سرور کونین ﷺ کی فصاحت              

٭      نظام مصطفی ﷺ

٭     مقدمہ ارشادات رسول اکرمﷺ        

٭     مقدمہ ، کشف المحجوب ، داتا گنج بخش علی ہجویری قدس سرہ مترجم مفتی غلام معین الدین نعیمی مرحوم

٭     مقدمہ ، مکاشفۃالقلوب، امام غزالی قدس سرہ مترجم مفتی تقدس علی خان بریلوی مطبوعہ نو ریہ رضویہ سکھر

٭     مقدمہ ، مدارج النبوت ، شیخ عبدالحق محدث دہلوی مترجم مفتی غلام معین الدین نعیمی

٭     مقدمہ ، فوائد الفوائد ، خواجہ نظام الدین اولیاء قدس سرہ

٭     مقدمہ ، خصائص الکبریٰ، علامہ جلال الدین سیوطی مترجم مفتی غلام معین الدین نعیمی

٭     مقدمہ و ترجمہ، تاریخ الخلفاء ، علامہ جلال الدین سیوطی قدس سرہ

٭     مقدمہ و ترجمہ غنیۃالطالبین ، شیخ شہاب الدین سہروردی قدس سرہ

٭     مقدمہ و ترجمہ نفحات الانس مولانا عبدالرحمن جامی قدس سرہ

٭     مقدمہ ترجمہ اورنگ زیب خطوط کے آئینے میں۔ سلطان اور نگ زیب عالمیگر

٭     کلام رضا کا تحقیقی و ادبی جائزہ

٭     مقدمہ و ترتیب کلام ذوق نعت ، مولانا حسن رضا بریلوی

۱۹۸۰ء تا وصال آپ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی کی سر پرستی فرماتے رہے ہیں ۔ آپ کا شمار ادارہ کے بانیوں میںہوتا ہے اس دوران آپ کے کئی مقالات اور کتابیں ادارہ سے شائع ہوئیں اور کئی زیر طبع ہیں۔

٭     امام احمد رضا کی حاشیہ نگاری جلد اول مطبوعہ۱۹۸۴ء

٭     امام احمد رضا کی حاشیہ نگاری جلد دوم مطبوعہ ۱۹۸۶ء

٭     فتاویٰ رضویہ اور فتاویٰ عالمگیر یہ

٭     آفتاب افکار رضا۔ مثنوی کی بحر میںامام احمد رضا کے علوم و فنون کا ۵ ہزار اشعار میں تعارف و سوانح (غیر مطبوعہ )

٭     تاریخ نعت

٭     لمعات شمس ۔شمس بریلوی کی مختصر سوانح وتعارف ۱۹۸۶ء

٭     جہان شمس ۔ شمس بریلوی کے حالات و افکار اور قلمی و ادبی کام ، تعارف و تبصرہ ۔ اسماعیل رضا ذبیح ترمذی مطبوعہ ۱۹۹۲ء

شاعری :

معارف رضا کے مختلف سالانہ شماروں میں مقالات شائع ہوتے رہے ۔

آپ اردو، عربی ، فارسی کے علاوہ انگریزی زبان میںبھی اشعار کہتے تھے افسوس کہ آپ کا دیوان تلف ہوگیا ۔ آپ نے سبز واری پبلشرز کے بانی حافظ عبدالکریم قادری رضوی کی فرمائش پر ان کی کتاب ’’بستر مرگ سے قبر تک‘‘ طبع ثانی ضیا ء الدین پبلشرز ۱۹۹۶ء پر ایک شاندار نظم ’’زادراہ ‘‘کے عنوان سے تحریر فرمائی یہ نظم ا س مضمون کے اختتام پر قارئین کرام کے ذوق کو دوبالا کرے گی ۔ انشاء اللہ تعالیٰ

عادات و خصائل :

آپ سچے پکے سنی حنفی بریلوی مسلمان ، رواداری کے پابند ، سچے اور کھرے مخلص اور وفادار ، وقت اور وعد ے کے پابند ، زبان و قلم میں محتاط ، انتہائی حساس ، مہمان نوازدوستوں سے اچھی توقعات رکھتے اور گوشہ نشین تھے ۔

اولاد :

حضرت شمس بریلوی کی اہلیہ سکندر بیگم بنت حافظ عبدالسعید خان کا ۱۹۹۳ء میں انتقال ہوا ۔ چھ بیٹیا ں اور تین بیٹے شادی شدہ ہیں ۔۱۔ جاوید شمس صدیقی ۲۔ فرید شمس ۳۔ سعید شمس

سفر حرمین شریفین :

آپ نے ۱۹۷۹ء میںحج بیت اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادے حاصل کی ۔

وصال :

حضرت شمس بریلوی ۱۲، مارچ ۱۹۹۷ء بمطابق ۲، ذیقعدہ ۱۴۱۷ھ بروز بدھ بعد نماز عشاء رات ۹بجے (s.n.p )شفا ہاسپیٹل کراچی میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ کراچی کے سخی حسن قبرستان (نارتھ ناظم آباد )میں تدفین ہوئی۔

وہ جو اک مقدمہ نگار تھا ، وہ جو اک ادیب شہیر تھا

جسے کہتے تھے شمس بریلوی یہ اس کی لوح مزار ہے

 (ماخوذ: ذاتی معلومات کے علاوہ لمعات شمس و جاہن شمس وغیرہ )    

زادراہ

اثر خامہ:علامہشمس الحسن شمس بریلوی ؒ (ستارہ امتیاز حکومت پاکستان )

یاالہی ! ہم کو وہ توفیق دے

نفس ترے حکم کا ، تابع رہے

ہم سے سرزد ہوں نہ ایسی حرکتیں

جو تجھے نارض اور ناخوش کریں

اتباع احمد مرسل کریں

گامزن ہم ان کے رستے پر رہیں

مہربانم ! اے عزیز محترم

زندگی میں شرط ہے عقبی کا غم

بج رہا ہے دم بدم کوس رحیل

گوش برآواز ہو! مرد نبیل

کر تہیہ کچھ تو ’’ زادراہ ‘‘ کا

ہے بہت دشوار۔۔۔۔۔۔۔۔تیرا راستہ

ساتھ کب دیں گے ترا ، فرزند وزن

کام آئیں گے بس !اعمال حسن

تو کہ ہے مست شراب زندگی

ہے فقط دھوکہ سراب زندگی

زندگی کے جس قدر لمحات ہیں

دلکش و رنگیں وہ سب آنات ہیں

ہے مگر ان کا، ہی رنگ ظاہری

کچھ خبر بھی ہے تجھے۔۔۔۔۔۔۔انجام کی

صبح عشرت اور شام کیف زا

اور شب کی راحتیں اس کے سوا

غور کر ان کی حقیقت پر ذرا

ان کے رخ سے ظاہری پردہ اٹھا

تب کھلے گا زندگی کا اصل حال

اور نجظر آ جائے گا تجھ کو۔۔۔۔۔۔مآل

موت ! صبح زندگی کی شام ہے

زندگانی کا یہی۔۔۔۔۔۔۔انجام ہے

زندگی اور بعد مردن اے فہیم !

سامنے ہیں سات (۷) دریائے عظیم

نفس سر کش اور شیطان لعین

لوٹتے ہیں راہ تیری بالیقیں

نزع جاں اور تیرہ تاریک گور

چل نہیں سکتا یہاں کچھ ترا زور

اور اس کے بعد ہنگام نشور

نامہ اعمال اور پل سے عبور

ہیں یہ سب دریا نہایت خوفناک

غرق کرنے میں نہیں کرتے یہ باک

اے رہین عیش کر فکر غور

تجھ کو ان سے تو گزرنا ہے ضرور

کر فراہم سات (۷) ایسی کشتیاں

جو لگا دیں پار تجھ کو بے گماں

یہ سفینے ہیں بہت تیرے قریں

سعی کر مل جائیں گے یہ بالیقیں

استقامت دین پر ہو بالیقیں

ہوں ادا باراستی احکام دیں

یاد حق کی اور ذکر مصطفی

اتباع حضرت خیر الوریٰ

پیشواوٗں کا رہے پاس وقار

اور ہو حسن عمل تیرا شعار

فضل حق ، لطف نبی درکار ہے

گریہ ساماں ہو تو بیڑا پار ہے

بار الہا! آرزو ہے بس یہی

یاد میں تیری نہ آئے کچھ کمی

شمس کا جب آئے وقت آخری

اور ہو ہنگام نزع و جاں کنی

دل ہو جلوہ گاہٗ حضرت مصطفی

اور لب پر نام اقدس ہو تیرا

(تذکرہِ اولیاء سندھ پاکستان)

تجویزوآراء