شیخ ابو عبد اللہ محمد اشرف الرندیّ رحمۃاللہ علیہ
شیخ ابو عبد اللہ محمد اشرف الرندیّ ابدال میں سے تھے۔ آپؓ پہاڑوں اور ساحلوں پر پھرتے رہتے ، تیس سال سے آبادی کے قریب بھی نہ بھٹکے، مضبوط فراست والے اور ہمیشہ خاموش رہنے والے اور بہت گریہ والے میں نے ایک عرصہ آپ کے ساتھ گزارا، جب آپ کی نظر مجھ پر پڑتی تو خوش ہو جاتے۔ آپ مجھے ان چیزوں کے بارے میں بتاتے جو مجھے آپ سے بچھڑنے کے بعد پیش آنا ہوتیں اور ویسا ہی ہوتا۔ میں نے اپنے ساتھی بدر حبشی کی فرمائش پر ان کو آپ سے ملوایا اور ہم سب مل کر بہت خوش ہوئے۔ مگر آپ (ابن العربی) کے اصل شیخ طریقت، تیونس کے شیخ ابو مدین ہی تھے۔ فتوحات مکیہ میں اپنے شیخ کی تعظیم رجال غیب، ملک الملک کا قطب کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں : ایک روز شیخ ابومدین کی زندگی میں میں اپنے گھر میں بیٹھا تھا کہ میری شدید خواہش ہوئی کہ کاش میں شیخ ابومدین سے ملتا ۔ اس وقت شیخ بجایہ میں قیام پذیر تھے جو میرے گھر سے ۴۵ روز کے فاصلے پر تھا۔ جب میں مغرب پڑھ چکا اور دو مختصر نفل پڑھ کر سلام پھیرا ہی تھا کہ ایک بزرگ ہستی ابو عمران موسی یکدم حاضر ہوئے میں نے انہیں اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا کہاں سے تشریف لا رہے ہیں ؟ آپ بولے : بجایہ میں ابو مدین کے پاس سے، میں نے کہا : آپ ان سے کب ملے ؟ بولے : میں نے آج مغرب کی نماز ان کے ساتھ ہی پڑھی ہے، نماز کے بعد آپ (ابومدین) نے اپنا چہرہ مبارک میرا طرف موڑا اور کہا : محمد ابن العربی نے اشبیلیہ میں میرے بارے میں یہ یہ سوچا ہے لہذا آپ میری طرف سے ان کے پاس ابھی جائیں اور یہ یہ جواب دیں۔ پھر آپ نے میری (ابن العربی) کی شیخ ابو مدین سے خواہش کا ذکر کیا اور فرمایا : شیخ ابو مدین تمہیں فرماتے ہیں جہاں تک روحانی ملاقات کاتعلق ہے تو یہ آپ (ابن العربی) اور میرے (ابومدین) کے درمیان درست ہے اور جہاں تک جسمانی ملاقات کا تعلق ہے تو اللہ نے ایسا نہیں چاہا لہذا اپنے خیالات کو سکون دے ، تیری اور میری ملاقات (انشاء اللہ) اللہ تعالی کے ہاں اس کی رحمت کے جائے قرار میں ہو گی۔