حضرت شیخ سوندھا چشتی صابری
حضرت شیخ سوندھا چشتی صابری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ حضرت شیخ داؤد چشتی گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید خلیفہ اور جانشین تھے۔ آپ نے مریدوں کی تربیت اور تکمیل میں بڑا اہم کردار کیا آپ جس پر نگاہ ڈالتے وہ اس کے قریب ہوجاتا اگر وجد اور سماع کی حالت میں کسی پر نظر پڑجاتی تو وہ بے خود اور مست ہوکر گر پڑتا آپ کے آباؤ اجداد کی نسبت حضرت ابو بکر صدیق خلیفہ اعظم سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی تھی آپ کے والد بزرگوار شیخ عبدالمومن دہلی کے بادشاہ کے جاگیردار بھی تھے اور دربار کے امیر بھی تھے ان کی جاگیر سفیدون قصبہ میں تھی اور آپ وہیں رہتے تھے وہ فوت ہوئے تو شیخ سوندہا ابھی بچے تھے چونکہ بچپن سے ہی آپ کی پیشانی پر بزرگی کے آثار نمایاں نظر آتے تھے وہ اللہ والوں سے سخت اعتقاد رکھتے تھے ایک وقت آیا کہ حضرت شیخ داؤد رحمۃ اللہ سے بیعت ہوئے تو کمالات کی منزل پر پہنچے اور صاحب کرامت اور خوارق ہوگئے۔
سواطع الانوار کے مولّف لکھتے ہیں [۱] کہ آپ کی زندگی کا ابھی ابتدائی زمانہ تھا کہ آپ قصبہ بوہر سے روانہ ہوکر خواجہ نظام الدین اولیاء اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے عرس پر جا رہے تھے اتفاقاً اسی دن بوہر کا امیر جو آپ کا عقیدت مند تھا کا اکلوتا بیٹا مرگیا باپ بیٹے کی نعش اٹھا کر آپ کی خدمت میں جا پہنچا اس مجلس میں بہت سے مشائخ اور صوفیا موجود تھے غمزدہ باپ نے جاتے ہی حضرت کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھا۔
مردان خُدا خدا نبا شند
لیکن ز خدا جدا نہ باشند
[۱۔ سواطع الانوار کے مصنف علّام حضرت شیخ محمد اکرم قدوسی رحمۃ اللہ علیہ حضرت شیخ سوندھا قدس سرہ کے مرید خاص اور خلیفہ تھے آپ اپنی اس کتاب میں حضرت شیخ سوندہا قدس سرہ کے مفصل حالات و مقامات لکھے ہیں یہ کتاب ۱۴۰۹ھ ذوالحجہ میں کیپٹن واحد بخش سیال چشتی صابری کے ترجمہ اُردو میں بزم اتحاد بین المسلمین لاہور کینٹ نے اقتباس الانوار کے نام سے شائع کی ہے۔ اس کتاب میں حضرت شیخ سوندہا کی کرامات مقامات سلوک ریاضت و مجاہدے اعیان الملک کی حاضری علماء و مشائخ کی روحانی تربیت پھر سلسلہ چشتیہ صابریہ قدوسیہ کے مشاغل اور خصوصی اوراد کو تفصیل سے لکھا ہے آپ نے آپ کی اولاد کا بھی تذکرہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ آپ کا ایک بیٹا شیخ محمد اپنی والدہ کے ساتھ ۱۱۳۰ھ (زمانہ تالیف کتاب) کو زندہ ہے ان کے تین بیٹے شیخ راجو شیخ پیر محمد اور شیخ حامد آپ کے مزار کے جوار میں سکونت پذیر ہیں اس کتاب میں آپ کے خلفا گرامی شیخ عثمان کرنا لوی۔ شیخ پیر محمد۔ شیخ محمد صدیق کتھیلی شیخ اللہ بخش براسوی قدس سرہم کے احوال و مقامات پر بھی مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔
از ر ہگذر خاک سر کوئے شما بود
ہر نافہ کہ درست نسیم سحر افتاد]
آج آپ براۂ کرم میرے بیٹے کو زندہ کردیں حضرت کو ان کے حال زار پر بڑا ترس آیا اپنی نشست سے اٹھ کر مردہ لڑکے کے سرہانے جا کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ بیٹا اس حیٰ القیوم کے حکم سے اٹھو! مردہ لڑکے نے آنکھیں کھولیں اور زندہ ہوگیا۔
ایک بار حضرت شیخ سوندہا اینٹوں کے بھٹے کی ایک بھٹی میں گر پڑے آپ اس وقت جذب و مستی کی حالت میں تھے پورا ایک پہر اس آگ کی بھٹی میں رہے مگر جب باہر آئے تو بدن کے ایک بال تک کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی تھی۔
ایک بار قصبہ کتھیلی میں محفل سماع منعقد ہوئی حضرت شیخ بھی ان میں موجود تھے مجلس میں ایک درویش نے وجد میں آکر کہہ دیا لوگو! سن لو۔ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری ہندوستان کے پیغمبر ہیں چونکہ ایک ولی کو نبی کہنا خلاف شرع ہے شہر کے قاضی نے حکم دیا کہ ایسے زندیق کو گرفتار کر لیا جائے اور اسے قتل کردیا جائے حضرت شیخ سوندہا بذات خود قاضی کے پاس گئے اور استدعا کی کہ العاشق و المجنون معذورٌ عاشق دیوانے معذور ہوتے ہیں اس درویش کو بھی چھوڑ دیں مگر قاضی نے آپ کی اس بات کو نہ مانا آپ کو قاضی پر سخت غصہ آیا آپ نے فرمایا تم عاشقوں کے قتل پر کمرہ بستہ ہو۔ انشاء اللہ تمہاری موت کتے کی طرح عو عو کرتے آئے گی قاضی کو دوسرے دن ہی سخت بخار نے آلیا اور چند روز میں ہانپتے ہانپتے مرگیا۔
ایک بار آپ شاہ جلال الدین تھانیسری رحمۃ اللہ علیہ کے عرس سے فارغ ہوکر اپنے گھر کی طرف آرہے تھے راستہ میں ایک گاؤں سے ڈاکو نکلے انہوں نے شیخ کو اور آپ کے ساتھیوں کو لوٹنا چاہا حضرت شیخ کے چہرے کے رعب سے مرعوب ہوکر حملہ نہ کرسکے مگر آپ کے قافلے کا ایک درویش جو پیچھے رہ گیا تھا ان کے قابوں میں آگیا اس کے کپڑے اتار لیے اور سامان چھین لیا درویش ننگا روتا ہوا آپ کے پاس پہنچا اور صورت حال بیان کی آپ نے فرمایا میں حیران ہوں کہ اس گاؤں کو آگ کیوں نہیں لگ جاتی آپ ادھر بات کر رہے تھے کہ وہ سارا گاؤں آگ کی لپیٹ میں آگیا شعلے نمودار ہونے لگے گاؤں والے جان بچا کر جنگل کی طرف بھاگے کچھ آپ کی خدمت میں آئے اور اپنے کیے پر نادم ہوکر معافی کے خواستگار ہوئے آپ نے معاف کیا اور گاؤں کی آگ بجھ گئی۔
آپ ایک مجلس سماع میں تشریف فرما تھے وجد و مستی میں آئے تو پہلے آپ کا سر تن سے جدا ہوگیا پھر تن بھی غائب ہوگیا چند لمحوں تک مفقود رہے پھر واپس مجلس میں آگئے اور اپنی حالت میں تشریف فرما نظر آئے مجلس ختم ہوئی تو ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ تھا فرمایا معشوق کا نور عاشق کے نور پر غالب آگیا تھا اس نے عاشق کے نور کو اپنے انوار میں چھپالیا تھا۔
وفات کا وقت آیا آپ نے قوالوں کو بلایا اور فرمایا حافظ شیرازی کا یہ شعر پڑھا ہو
صحبت غیر نخوا ہم کہ بود عین حضور
با خیال تو چچرا باد گراں پر د ازم
قوالوں نے اس بیت کو شروع کیا تو شیخ وجد میں آگئے اسی حالت میں ۲۴؍ ماہ جمادی الاوّل ۱۱۲۹ھ کو واصل بحق ہوئے۔ آپ کا مزار پُر انوار قصبہ سفیدون میں بنایا گیا شیخ محمد اکرم براسوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سواطع الانوار (اقتباس الانوار) میں آپ کے خلفائے کے اسمائے گرامی لکھے ہیں جن میں شیخ محمد علی بن شیخ اللہ بخش براسوی شیخ پیر محمد تھانوی۔ شیخ عثمان کرنالی۔ شیخ محمد صدیق کتھیلی اور شیخ محمد اکرم براسوی قدس سرہم تو خصوصی طور پر مشہور ہوئے۔
شیخ سوندہا چوں ز دنیا رخت بست
سال وصلش سرور از روئے یقین
گفت سوندہا متقی رہبر ولی
۱۱۲۹ھ
محرم مشتاق فخرالمحسنین
۱۱۲۹ھ ۱۱۲۹ھ