رہبر شریعت و طریقت حضرت خواجہ احمد میروی چشتی نظامی
رہبر شریعت و طریقت حضرت خواجہ احمد میروی چشتی نظامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
عارف کامل ، مرشد اکمل حضرت خواجہ احمد بن بر خور دار کے جد امجد علاقہ دریائے چناب کے رہنے والے تھے ، سکھوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر کو ہستانی علاقہ میں چلے گئے، وہیں آپ نے بلوچ خاندان کی ایک عفیفہ سے نکاح کیا جن سے آپ کے والد ماجد پیدا ہوئے،انہوں نے بھی اسی قبیلہ میں نکاح کیا جس سے دو فزند حضرت خواجہ احمد یعقوب اور ایک صاجزادی پیدا ہوئی ، آپ کے والد ماجد حضرت پیر پٹان شاہ محمد سلیمان تونسوی کے مرید وار خدا دوست بزرگ تھے اپنے و ظائف لے کر جنگل میں چلے جاتے اور یا خدا میں مصروف رہتے ۔
ایک دفعہ حضرت خواجہ صاحب کی مو جودگی میں ان پر وحد طاری ہوگیا ، حضرت خواجہ صاحب ابھی بچے ہی تھے ، والد گرامی ک اس کیفیت کو دیکھ کر ان کی چیخیں نکل گئیں، اس کے بعد انہوں نے معمول بنا لیا کہ آنکھ بچا کر تہنا ہی تشریف لے جاتے ، آخڑی دفعہ شاہ شاہاں حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی قدس سرہٗ کی زیارت سے مشرف ہو کر واپس آرہے تھے کہ موضع منگروٹ( تونسہ شریف سے مغربی جانب دو کوس پر واقع ہے )پہنچے تھے کہ ان کا وصال ہو گیا ، مسجد بلوچ خاں میں مزار بنا ، والد ماجد کی وفات کے بعد آپ کی کفالت آپ کے موموں لی خاں نے کی۔
چار پانچ سال کی عمر میں گھر سے چار کوس کے فاصلے پر ایک مولوی صاحب کے پاس قرآن شریف پڑھنے کے لئے بٹائے گئے ، اس دوران آپ نے سخت ریاضت بر داشت کی ، صبح سبق پڑھ کر استاد گرامی کے مویشی چرانے جاتے ، سردیوں کے موسم میں استاد صاحب نے اونٹ کی اون کا ایک کمبل دیا ہوا تھا جسے اوڑھ کر پہاڑ کی غار میں سو رہتے۔ اس حالت میں والد ماجد نے ایک سال تک خبر نہ لی لیکن حضرت خواجہ صاحب تعلیم قرآن کے لئے تکالیف بر داشت کرتے رہے اور اس وقت واپس لوٹے قرآن پاک ختم کر چکے تھے ، مزید دینی تعلیم کیلئے منبع علوم و معارف تونسہ شریف پہچنے ، ایک عرصہ تک وہاں ظاہری علوم اور باطنی فیوض سے مستفیض ہوتے رہے ، پھر کچھ عرصہ ملتان میں اکتساب علوم کیا لیکن جلدی تونسہ شریف واپس آگئے اور کسب کمال کیا ۔
بچپن ہی سے تو کل اور استغناء آپ کے مزاج میں بدر جۂ اتم موجود تھا چناچہ جن دنوں آپ تونسہ شریف میں تحصیل علم میں مصروف تھے ، نواب بہاولپور کے وزیر احمد خان نے طلباء کا ماہانہ وظیفہ مقر ر کیا تو طلباء ک فہر ست میں آپ کا نام نامی بھ شامل تھا ، لیکن آپ نے وظیفہ لینے سے صاف انکار کر دیا اور کہا میں یہاں محبت الٰہی کا درس لینے آیا ہوں ، احمد خاں کا دست نگر نہیں بننا چاہتا، میں اللہ تعالیٰ اور خواجگان چشت کی رضا پر راضی ہوں‘‘
ذرا اندازہ کیجئے جس کا بچپن میںیہ عالم تھا وہ بعد میں کس مقام تک پہنچا ہوگا؟اسکیعلاوہ عیسٰی خیل میں مولانا مملوک علی سے بھی استفادہ کیا ۔
والد ماجد کی طرح آپ کے ماموں بھی حضرت شاہ محمد سلیمنا تونسوی قدس سرہٗ سے بیعت تھے ۔ ایک دفعہ جب ماموں صاحب حضرت پیر پٹھان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت خواجہ صاحب ان کے ہمراہ حاضر ہوئے ، تمام حاضرین ادب و احترام سے بیٹے ہوئے تھیاسر حضرت شاہ محمد سلیمان آرام فر ما تھے ، یہ حضرات عرض سلام کے بعد بیٹھ گئے ، حضرت خواجہ صاحب فرط اد ب سے نگاہیں جھکائے بیٹھے تھے کہ کسی شخص نے کہا کہ حضرت تمہاری جانب ملاقات کے لئے ہاتھ پھیلا رہے ہیں اور تم یونہی بیٹھے ہو ! حضرت خواجہ صاحب کی خوشی کی انتہا نہ رہی ، اٹھے اور دوبارہ دست بوسی کی ۔ اتنے میں ایک خراسانی پٹھان نے چار شیب لا کر نذر کئے ، قبلۂ عالم نے کاٹ کر آدگا حضرت خواجہ احمد میروی کو دیا اور باقی حاضرین میں تقسیم کر دیئے ۔ یہ پہلی زیارت تھی جس سے حضرت خواجہ تونسوی قدس سرہٗ کی محبت دل میں اس طرح جاگزیں ہوئی ک پھر اس میں اضافہ ہی ہوا رہا ۔ بیعت ہونے کے بعد چار دفعہ پھر سراپا اشتیاق بن کر حاضر ہوئے اور دولت دیدار سے شرف ہوئے ، پانچویں دفعہ جب حاضری کے لئے تونسہ شریف جا رہے تھے تو راستہ میں حضرت خواجہ تونسوی کے وصال کی خبر ملی ، اس خبرو حشت اثر نے دل و دماغ پر اس قدر اثر ڈالا کہ آپ بیہوش ہوگئے۔
تکمیل علوم کے بعد میرا شریف ( تحصیل پنڈی گھیپ ضلع کیمبلپور) میں قیام کیا ، یہ جگہ ایک پسماندہ ضلع کا دور افتادہ مقام ہے لیکن حضرت خواجہ صاحب نے جب یہاں علم و عرفان کی شمع روشن کی تو خدا پر وانہ دار حاضر ہونے لگی۔ آپ نے یہاں ایک مدرسہ قائم کیا جس میں دیگر مدرسین کے علاوہ آپ خود بھی درس دیا کرتے تھے ۔ آپ نے کئی ایک علماء کو تبلیغ کے لئے مقرر کی اتھا جو مختلف مقامات پر مسلک اہل سنت کی تبلیغ کیر کرتے تھے۔ آپ بزگان دین کے مزارات مقدسہ پر حاضر ہوتے اور کسب فیض کرتے۔
ایک دفعہ آپ حضرت مولانا محمد علی قدس سرہٗ ( خلیفۂ حضرت شاہ محمد سلیمان تونسوی قدس سرہٗ) کے عرس پر مکھڈ شریف گئے ، وہاں حضرت فاضل شاہ رحمہ لل تعالی ساکن گڑھی شریف (خلیفۂ حضرت پیر پٹھان قدس سرہٗ) نے خلوت میں آپ سے فرمایا ’’ وقت اخیر ہے ، مناسب ہے تم بیعت کیا کرو ، نہ صرف میری طرف سے بلکہ تمام مشائخ عظام کی طرف سے اجازت ہے ۔ آپ نے بیعت کرنا شروع کر دیا لیکن تونسہ شریف میں بپاس ادب کسی کو بیعت نہ کرتے حتٰی کہ حضرت خوجہ بخش تونسوی قدس سرہٗ نے آپ کو تاکید ی حکم دیا کہ ضرور بیعت کیا کرو۔
حضرت پیر مہر علی شاہ گوڑوی قدس سرہٗ سے آپ کے گہرے مراسم تھے ، باہم خط وکتابت اور آمد ورفت بھی تھی ، آپ انہیں محبت سے لالُو ( بھائی ) کہہ کر پکارتے تھے [1]
حضرت خواجہ احمد میروی کی شخصیت مرجع انام تھی۔ان گنت افراد شرف بیعت سے مشرف ہوئے اور کثیر التعداد حضرات صاحب کمال بنے اور خرقۂ خلافت سے مشرف ہوئے چند خلفاء کے نام یہ ہیں:۔
۱۔ حضرت حاجی فضل کریم مہتمم مدرسہ اسلامیہ اشاعت العلوم چکوال ۔
۲۔ مولانا نور محمد چکڑالہ
۳۔ حضرت العلامہ مولانا محمد اکبر علی (میا نوالی)
۴۔ الحاج میاں مہر ( پشاور)
۵۔ جناب احمد دین ( بمبئی)
۶ ۔ شاہ محمد حسین (جھنگ)
۷ ۔ مولانا محبوب الرحمن ( ملتان)
۸۔ مولانا غلام جیلانی (میا نوالی)
۹۔ سید محمود شہا ( کراچی)
نیز فاضل اجل مولانا میاں عبد الحق غوغشتوی دام ظلہ ، بھی آپ کے مریدن سے ہیں۔
حضرت خواجہ احمد میر وی قدس سرہٗ عبادت دریاضت میں یگانہ گار تھے ہمیشہ نماز با جماعت ادا کرتے حتی ک شدید کے ایام میں مریدین چارپائی مسجد میں لاتے اور آپ نماز با جماعت ادا کرتے آپ نے کئی مساجد تعمیر کرائیں، حلم کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ ایک چور نے آپ کا جوتا اٹھا لیا۔ مریدین نے اسے پکڑلیا تو آپ نے مسکرا کر فر مایا ! اچھا تو تمہیں اتنی سخت ضرورت تھی کہ اتنی سردی میں پاپوش اٹھا کر چل دیئے تم نے جب انہیں دیکھا تھا تو پاپوش کسی گڑھے میں کیوں نہ پھینک دیئے؟ اب تم یقینا چور بن چکے ہو،میں تمہیں ایسی سزا دوں گا کہ یاد رکھو گے ، خادم کو فر مایا کہ اسے جوتے کیلئے حافظ بدر الدین سے ایک روپیہ لادو ؎
بدی رابدی سہل باشد جزا اگر مردی احسن الی من اساء
۵ محرم الحرام ۲۷ دسمبر (۱۳۳۰/۱۹۱۱ئ)بروز بدھ آپ کا وصال ہوا ، مزار شریف میرا شریف میں مر جع انام ہے ۔آپ کے بعد آپ کے مرید اور خلیفۂ خاص حضرت مولانا نور احمد خاں قدس سرہٗ سجاد نشین ہوئے اور ان کے بعد ان کے بھتیجے حضرت فقیر عبد اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ صاحب سجادہ ہوئے [2]،
حضرت خواجہ احمد میروی قدس سرہٗ کا قطعۂ تاریخ وصال درج ذیل ہے ؎؎
دریغا!شیخ عالم،چشمہ جود
شہ ملک سلیمان فیض آمود
فرید دہز فخر اہل عرفاں
وجود او مجسم نور معبود
دریغا!ظل اواز فرق عالم
زچشماں عیاں ہیں گشت منفقود
بہ پنجم از محرم،چار شنبہ
بہ ملک جاوداں گردید پدرود
نداء ارجعی آمد چو در گوش
ز دار بے بقار حلت بہ فر مود
بگفتا ہا تفم از بہر تاریخ
بگو عبدی زہے خاص خدا بود ‘‘[3]
[1] فیض احمد مولانا : مہر منیر ، ص : ۴۰۴۔
[2] حضرت فقیر عبد اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ ۲ صفر ، ۱۴ فروری (۱۳۹۵ھ/۱۹۷۵)بروز جمہ وصال فر ماگئے
: انا للہ وانا الیہ راجعون۔
[3] کرم حسین شاہ سید حکیم:ذکر ولی (دوسرا ایڈیشن) تمام حالات اسی کتاب سے ماخوذ ہیں۔
(تذکرہ اکابر اہلسنت)