پیر طریقت رہبر شریعت حضرت خواجہ احمد میروی چشتی نظامی
پیر طریقت رہبر شریعت حضرت خواجہ احمد میروی چشتی نظامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ احمد میروی کے آباء و اجداد پشت ہا پشت سے دریائے چناب کے کنارے آباد چلے آ رہے تھے لیکن سکھوں کے دور اقتدار میں ان کے مظالم سے تنگ آکر آپ کے دادا نے ترک مکانی کی اور بلوچستان کے پہاڑی علاقہ میں آباد ہو گئے وہیں ان کی بلوچی خاندان میں شادی ہوئی اور محمد برخوردار پیدا ہوئے آپ کی شادی اپنے ننھیال میں ہوئی۱۸۳۴ء میں خواجہ احمد میرویؒ پیدا ہوئے۔آپ سے چھوٹے ایک بھائی محمد یعقوب اور بہن عائشہ پیدا ہوئیں۔لیکن محمد یعقوب کا بچپن میں انتقال ہو گیاجبکہ بہن مدت تک بقید حیات رہیں۔
خواجہ محمد برخوردارحضرت سلیمان تونسوی کے مرید تھے اور اکثر و بیشتر آستانہ مرشد پر حاضری دینے جایا کرتے تھے۔ ایک بار حسب معمول تونسہ شریف سے واپس جا رہے تھے کہ منگروٹھ کے مقام پر انتقال ہو گیا اور وہیں سپرد خاک ہوئے۔
خواجہ احمد میروی اپنے والد ماجد کی زندگی میں ہی قرآن حکیم پڑھ چکے تھے۔ان کی وفات کے بعد آپ کے ماموں علی خان نے آپ کی تربیت و کفالت کا زمہ لیا،علی خان بھی خواجہ سلیمان تونسوی کے مرید تھے اس لیے خواجہ میروی کو ان کے آستانہ میں داخل کرا دیا۔آپ ۹ سال تک علوم متداولہ کی تحصیل میں مصروف رہے۔وہاں سے فارغ ہو کر ملتان تشریف لے گئے لیکن جلدی ہی کلور کوٹ تحصیل عیسیٰ خیل میں مولوی مملوک علی کے سامنے زانوئے تلمذتر کیا۔تکمیل علم کے بعد آپ سیروسیاحت کیلئے نکل گئے اور سات سال تک کشمیر اجمیر ،پاکپتن شریف،لاہور ،ملتان،دہلی، اور کلیر شریف سے ہوتے ہوئے تونسہ شریف آ گئے اور بیعت ہوتے ہی خلافت عالیہ سے مشرف ہوئے۔ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ خواجہ تونسوی کا انتقال ہو گیا ان کی وفات کے بعد آپ وہیں مقیم رہے اور خواجہ اللہ بخش تونسوی،مولانا احمد تونسوی اور خواجہ محمد فاضل شاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اکتساب فیض کرتے رہے۔کچھ ہی مدت بعد مکھڈ شریف میں مولانا محمد علی مکھڈوی کے سالانہ عرس کے موقع پر مولانا محمد فاضل شاہ نے آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا۔ اجازت و خلافت کے بعد آپ میرا شریف تشریف لے گئے اور وہاں مسجدومدرسہ کی بنیاد رکھی۔ آپ حق پرست و حق گو انسان تھے انگریزی حکومت کے زبردست دشمن تھے۔سادگی آپ کا شعار تھا۔توکل علی اللہ،بے نیازی،قناعت اور صبر ورضا مرشد سے ورثے میں ملی تھیں۔آپ کے دروازے ہر شاہ گدا کے لیے کھلے تھے۔
احمد کا در کھلا ہے چلو طالبانِ فیض
میرے شریف میں ہے وہی اک مکان ِفیض
میرے میں ضوفشاں ہے وہی ضوفشانِ فیض
اے عاشقان جلوہ روئے عنانِ فیض
جس پر پڑی نگاہ وہ اکسیر بن گیا
یہ ہے ہمارے خواجہ احمد کی شانِ فیض
۲۱/ ذی الحج ۱۳۲۹ھ کو آپ کی انگلی پر پھوڑا نکلا۔مولوی عبدالرئوف صاحب اورنگ آبادی نے علاج کیا۔کچھ افاقہ ہوا لیکن پھر تکلیف شروع ہو گئی۔بالآخر یہ مرض جان لیوا ثابت ہوا۔ ۲۷/ دسمبر ۱۹۱۱ء بمطابق ۱۳۳۰ھ آپ نے انتقال فرمایا۔مولانا فخرالدین بریلوی نے قطعہ تاریخ کہا۔
گفت ہاتف گوش می کن ایں چنیں سر نہاں
تاکہ می باشد ترا ہوش و خرد،تاب و تواں
سا ل وصلش مختصر گو ’’ افتخاراولیاء ‘‘
فخر دیں دل خستہ می خواں برروانش فاتحہ
آپ نے مجرد زندگی بسر کی۔حضرت احمد خان میروی آپ کے جانشین مقرر ہوئے ان کے علاوہ نامور خلفاء میں سید فیض اللہ،امیر احمد بسالوی،محمد فائق چشتی اور مولانا فخرالدین بریلوی قابل ذکر ہیں۔
حضرت خواجہ احمد میروی رحمۃ اللہ علیہ (وصال محرّم۔ ۱۳۳۰ھ بمُطابق ۱۹۱۲ء)حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفۂ مجاز تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا اصلی وطن بلوچستان تھا۔ تجرّد کی زندگی بسر فرمائی۔ زُہد و اتقا میں سلف صالحِین کا صحیح نمونہ اور وسیع حلقۂ ارشاد کے مالک تھے۔ خلفاءکی تعداد چالیس کے قریب بتائی جاتی ہے۔ آپ کے بعد حضرت فقیر احمد صاحب ثانی سجّادہ نشین ہوئے۔ اور موجودہ جانشین جناب فقیر عبداللہ صاحب ہیں.
حضرت خواجہ احمد صاحب میروی رحمۃ اللہ علیہ کا ہمارے حضرت پیر مہر ِعلی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ارتباط تھا۔ باہم آمد و رفت اور خط و کتابت بھی تھی۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اثنائے گفتگو میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کو بڑے پیارے انداز میں ’’لالو‘‘ کہہ کر بلاتے، جو بزبانِ پنجابی بھائی کے مترادف ہے۔ ایک دو مرتبہ گولڑہ تشریف لائے۔ قاضی عطأ الرسول صاحب سکنہ بدھو بیان کرتے ہیں کہ خواجہ صاحب بابوجی مدظلہ العالی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئےجو اس وقت کم سن تھےاور صرف کی ابتدائی کتابیں پڑھ رہے تھے۔حضرت قاری عبد الرحمن جونپوری کے درس میں بابوجی سے قرأت سن کر اس قدر متاثر ہوئے کہ انہیں بازو سے پکڑ کر حضرت قبلۂ عالم قدس سرہٗ کے پاس لے گئے اور فرمایا۔ ’’لالو توجہ فرمایئے کہ یہ کچھ ہوجائے‘‘۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ آپ دعا کریں کہ یہ کچھ نہ وہ۔ اس پر خواجہ صاحب ہاتھ ہلا ہلا کر منع کرنے لگے کہ ’’نہیں لالو نہیں۔ ایسا نہ کہیئے۔ دعا کیجئے کہ یہ بہت کچھ ہو۔ بہت اچھا ہو‘‘۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مسکرا فرمایا کہ اگر کچھ نہ ہوگا تو بہت کچھ ہوگا۔ کیونکہ اس کوچہ میں کچھ نہ ہو نا ہی سب کچھ ہونا ہے؎
تو مباش اصلا کمال این است و بس |
رَد درد گم شو وصال این است و بس |
پھر دونوں حضرات رحمۃ اللہ علیہ نے ہاتھ اٹھا کر بارگاہِ الہٰی میں ان کے حق میں دعا فرمائی جس کی قبولیت کا اثر آج ایک عالم پر آشکار ہے۔ اَللّٰھُمَّ زِدْفَزِدْ! پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ قادیانی معرکۂ لاہور کے بعد حضرت خواجہ صاحب میروی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے !کہ اگر مرزا قادیانی حضرت پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ گولڑہ شریف کے زوبرو آجاتا تو پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی کرامت کے زور سے اس خنّاس کو جو گوناگوں و ساوس کا باعث ہو رہا ہے زمین کے اندر دھنسا دیتے۔(مہر ِمنیر ص،۴۰۴)
وصال:۵،ربیع الاول، محرّم۔ ۱۳۳۰ھ بمُطابق ۱۹۱۲ء۔
نوٹ:بہت سے تقویمی کیلنڈر ز، کتب، اور ویب سایٔٹس میں آپ کا لقب"مہروی"لکھا ہوا ہے،آپکا صحیح لقب"میروی"ہے(ادارہ)