یخ نور محمد چشتی پنجابی (چشتیاں شریف) قدس سرہ

آپ حضرت مولانا فخر الدین فخر عالم رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اعظم تھے حضرت مولانا نے جو انعامات اور الطاف آپ کو عنایت فرمائیں اپنے کسی دوسرے خلیفہ کو نہیں دیے  مناقب فخریہ میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ نُور محمد حضرت شاہ فخر عالم کے شب و روز کے جلیس مجلس اور خادم خدمت تھے ابتدائی دَور میں آپ نے ایک دن حضرت خواجہ نور محمد کو فرمایا تھا کہ نور محمد۔ اللہ کی مخلوق ایک دن تجھ سے بہت کچھ حاصل کرے گی آپ کو دل میں خیال آیا کہ میں تو ایک مسکین اور کمترین درویش ہوں خطۂ پنجاب کا رہنے والا ہوں جس مقام کا حضرت اشارہ کر رہے ہیں مجھے کب نصیب ہوسکتا ہے لیکن ایک وقت آیا کہ ہزاروں طالبان حق آپ کے دروازے پر کھڑے رہتے تھے اور سینکڑوں انسان آپ کی وساطت سے خدا رسیدہ ہوگئے آپ کی کرامات کا حد و شمار نہیں آپ کے پاس جو شخص جاتا اس کے دل میں کچھ ہوتا آپ خود بیان فرما دیا کرتے تھے پھر اس کا جواب بھی عنایت کرتے تھے آپ کے ارادت مندوں سے ایک شخص مولوی غلام حسین تھے جو آپ کے گھر سے ایک سو میل دُور رہتے تھے فوت ہوگئے تو لوگوں نے دیکھا کہ حضرت خواجہ نُور محمد ان کے جنازے میں شریک ہیں۔

ایک شخص دہلی کا بہت بڑا سردار تھا۔ وہ دل سے مخالف تھا مگر ایک دن وہ مولانا فخر جہاں کی مجلس میں چلا گیا اور مجلس سماع میں شریک ہوگیا اور آہستہ آہستہ آپ سے بیعت بھی کرلی وہ منافقانہ آپ کی مجالس میں چلا آتا تھا جس وقت حضرت فخر الدین کی مجالس میں لوگ وجد و رقت میں آکر تڑپتے اور بے خود ہوتے تو یہ دل ہی دل میں مذاق کرتا اور ہنستا اس کی اس حرکت سے لوگ واقف ہوئے تو انہوں نے حضرت فخر جہاں سے شکایت کی مگر آپ ہمیشہ نظر انداز فرماتے اور فقراء کی اس عادت کا ثبوت دیتے جو ان کے ہاں صبر و تحمل نے پیدا کردی ہوئی ہے ایک دن حضرت سلطان المشائخ کے عرس پر مجلس سماع برپا تھی میر سید بدیع الدین جو آپ کے اخص الخاص غلام تھے اس کی اس عادتِ بد سے آگاہ ہوئے آپ نے حضرت فخر جہان کی خدمت میں گذارش کی حضور ایک بے کار آدمی کی وجہ سے تمام اہل دل کا کام خراب ہوتا ہے اسے نکال دیں یا اس بدمزاج کا علاج کرنا چاہیے یہ بات سنتے ہی حضرت مولانا فخر الدین مجلس سے اُٹھے اور باہر وضو کرنے تشریف لے گئے اور حضرت خواجہ نور محمد پنجابی کوحکم دیا کہ آپ اس نادان کی خبر گیری کریں تاکہ پھر اس کا دل منافقت سے دُور ہوجائے حضرت شیخ نور محمد پوشیدہ نگاہی سے دو تین بار اس نابکار کی حرکات کو دیکھتے رہے مگر ایک بار تیز نگاہ سے دیکھا وہ بے ہوش ہوکر مجلس میں ہی گِر پڑا کپڑے پھاڑنے لگا رقص کرنے لگا اور زمین پر لیٹنے لگا تمام اہل مجلس کے دل اس کی حرکات سے زخمی تھے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہ ہوا۔ وہ تڑپتا رہا اور فرش کی اینٹوں سے سر پھوڑتا رہا وہ اس قدر زخمی ہوا کہ تڑپ تڑپ کر ٹھنڈا ہوگیا سانس رک گئی حکیم میر حسین مجلس میں ہی تھے نبض دیکھ کر کہنے لگے یہ شخص تو مرگیا ہے یہ خبر سنتے ہی لوگ باہر حضرت فخر جہاں کی خدمت میں گئے اور آپ کو بتایا کہ وہ شخص جو مذاق کیا کرتا تھا تڑپ تڑپ کر مرگیا ہے آپ اندر آئے اس کے چہرے پر پانی چھڑکا عرق گلاب منہ میں ڈالا بید مشک کا عرق چھڑکا۔ وہ ہوش میں آیا عرض کرنے لگے حضور آپ نے یہ کیا کردیا مجھے آپ نے مہلت نہ دی کہ میں شہید عشق ہوجاتا بدیع الدین نے فرمایا تم اپنے اعمال بد اور حرکات شنیعہ کی وجہ سے اس لائق نہیں تھے کہ اس دولت سرمدی سے بہرور ہوتے القصہ اس دن کے بعد وہ صدق دل اور نیت سے حلقۂِ احباب میں شامل ہوگیا اور اپنی حرکات سے رک گیا۔

شجرۃ الانوار کے مولّف نے لکھا ہے کہ خواجہ محمد مہاروی قدس سرہ پنجاب سے چل کر دہلی پہنچے ان کی خواہش تھی کہ قرآن پاک حفظ کر لوں وہ دہلی کے مختلف علماء کرام کی خدمت میں حاضر ہوئے قرآن پڑھا کتابیں پڑھیں مگر ایک وقت آیا کہ حضرت مولانا فخر الدین کے مدرسہ میں داخل ہوئے اور تمام علوم مروجہ میں تکمیل کی۔ آپ نے اس عالم دین کو ۱۱۵۰ھ میں اپنا مرید بنالیا۔ اور کچھ باطنی اسرار سے بھی نوازا پھر پوری روحانی تربیت کر کے خرقۂ خلافت عطا فرمایا آپ حضرت فخر جہان قدس سرہ کے ارشاد پر اپنے وطن مالوف پنجاب آئے اور ریاست بہاول پور میں قصبہ مہاراں میں فرد کش ہوئے یہ مقام پاک پتن سے چالیس میل دُور مغرب کی طرف ہے آپ کے اردگرد مریدوں کی ایک خاصی تعداد جمع ہوگئی جنہیں آپ نے قلبی طور پر مطمئن کردیا۔ اس سے آپ کی شہرت دُور دور تک پھیل گئی آپ نے بڑے بڑے جلیل القدر صوفیاء کو تربیت دی ان میں سے بعض اتنے معروف مشائخ ہوئے جنہوں نے مخلوق خدا کی ہدایت پر بڑا کام کیا آپ کے خلفاء میں سے خواجہ نور محمد ثانی بڑے عالم فاضل تھے آپ کو خلیفہ کا خصوصی لقب دیا گیا تھا آپ حضرت خواجہ مہاروی رحمۃ اللہ علیہ کی خاص توجہ کے مالک تھے آپ کا مزار حاجی پورہ میں ہے مولانا قاضی محمد عاقل قدس سرہ آپ کے خاص مرید تھے آپ کوٹ مٹھن میں آرام فرما ہیں۔ آپ کے علم و فضل سے پنجاب بھر کے طلباء مستفیض ہوئے خواجہ محمد جمال  ملتانی قدس سرہ جن کا مزار ملتان میں ہے آپ کے خاص شاگرد تھے۔ خواجہ محمد جمال رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں کا ایک وسیع حلقہ پنجاب میں پھیلا ہوا تھا  (جن میں محقق شہیر محدث کبیرحضرت عبد العزیز پرھاروی  رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں ) حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ کے سر برآوادہ خلفاء میں سے تھے خانوادہ چشتیہ کا فیضان آپ کی وساطت سے دُور دُور تک پھیلا اور آپ کا لقب خاتم الخلفاء تھا۔[۱]

 

شیخ نور محمد مہاروی چشتی قدس سرہ کا وصال تاج سرور (مہاراں سے تین کوس کے فاصلہ پر) ۱۲۰۵ھ میں ہوا تھا۔ وہاں ہی آپ کا مزار پُر انوار ہے۔

شیخ دین نُور محمد مقتدا
گشت زد روشن جہاں نزدیک و دور
نور حق مشتاق گو تر حیل او
۱۲۰۵ھ

ہم ولی مجتبیٰ مہتاب نور
۱۲۰۵ھ

تجویزوآراء