قبلۂ عالم حضرت خواجہ نور محمد مہاروی چشتی
قبلۂ عالم حضرت خواجہ نور محمد مہاروی چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مخزن ہدایت،منبع کرامت شیخ المشائخ قبلۂ عالم حضرت خواجہ نور محمد مہاوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ۱۴؍رمضان المبارک،۴؍اپریل (۱۱۴۲ھ؍۱۷۳۰ئ) کو موضع چوٹالہ (بہاولپور ) میں پیدا ہوئے ،آپ کے والد ماجد کا نام ہنوال تھا،والدین نے آپ کا نام بہبل رکھا تھا جسے آپ کے پیرو مرشد حضرت شاہ فخر الدین دہلوی قدس سرہ (۱۱۹۹ھ؍۱۷۸۵ئ)نے بدل کر نور محمد رکھ دیا،بعد میں آپ کے والد ماجد نے مہار (جسے حضرت خواجۂ عالم کی نسبت سے مہار شریف کہا جاتا ہے) میں رہائش اختیار کرلی تھی جب آپ کی عمر شریف پانچ برس کی ہوئی تو آپ کو حافظ محمدمسعود رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاس قرآن مجید پڑھنے کے لئے بٹھایا،انہی سے آپ نے قرآن پاک حفظ کیا ایک دن حضرت شیخ احمد دودی والہ رحمہ اللہ تعالیٰ مولوی محمد مسعود کے مدرسہ میں تشریف لائے حضرت خواجہ صاحب کو دیکھا تو فرمایا:
’’سبحان اللہ! ایک زمانہ آئے گا کہ اس بچے کے در پر بادشاہ سر رکھیں گے۔‘‘
حفظ قرآن کے بعد والد ماجد اور بھائیوں کی خواہش تھی کہ انہیںکسی کام پر لگایا جائے لیکن حضرت خواجہ کی فطرت سلیمہ نے اس بات کو پسند نہک یا بلکہ مزید دیننی تعلیم کے حصول پر زور دیا اور موضع بڈ ہیراں تشریف لے گئے۔کچھ عرصہ بعد موضع ببلانہ میں موضع شیخ احمد کھوکھر رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہو کر علم حاصل کرتے رہے،بعد ازاں غازی خاں چلے گئے اور شرح جامی تک کتابیں پڑھیں۔کچھ عرصہ بعد محکم الدین سیرانی قدس سرہ کے ساتھ لاہور تشریف لے گئے۔لاہور میںآپ کو بڑی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن علم کے ذوق و شوق میں کبھی نہ کمی آئی تکمیل علوم کے لئے دہلی تشریف لے گئے اور نواب غازی الدین خان کے مشہور مدرسہ میں داخل ہو کر حافظ بر خورد دارجی سے تعلیم حاصل کرنے لگے۔حضرت حافظ صاحب آپ پر خاص التفات فرماتے تھے۔دن میں ایک دفعہ کھانا تناول فرماتے اور حضرت خواجہ صاحب کو ساتھ کھلاتے۔آپ نے قطبی کا درس لینا شروع کیا تھا کہ استاذ محترم رخصت پر گئے اور سلسلۂ تعلیم منقطع ہو گیا۔
حضرت خواجہ کو تلیم کییوں منقطع ہو جانے کا بڑا رنج تھا۔انہی دنوںآپ کو پتہ چلا کہ حضرت خواجہ فخر الدین رحمہ اللہ تعالیٰ دکن سے دہلی تشریف لائے ہیں اور وہ بہت بڑے عالم ہیں،شوق علمی کشاں کشاں ان کے دربار میں لے گیا۔حضرت شاہ فخر قدس سرہ نے الطاف خسروانہ سے نوازا،اگر چہ آپ ایک عرسہ سے درس و تدریس کا سلسلہ منقطع فرما چکے تھے مگر اس جو ہر قابل کی تکمیل کی خاطر بہ نفس نفیس پرھانا منظور فرمالیا ۔ حضرت خواجہ صاحب قدس سرہ نے پوری محنت سے اکتساب علوم کی اور سند حدیث حاصل کی۔
حضرت خواجہ نور محمد قدس سرہ ۱۱۲۵ھ؍۱۷۵۲ء میں حضرت خواجہ فخر دین و ملت کے دست اقدس پر بیعت ہوئے،کچھ عرصہ بعد حضرت شاہ فخر قدس سرہ نے پاکپتن شریف جانے کا قصد کیا۔حضرت خواجہ صاحب بھی ان کیہمراہ روانہ ہوئے اور پاکپتن شریف پہنچ کر شیخ و مرشد کی اجازت سے والدئہ ماجدہ کی ملاقات کے لئے مہار شریف گئے اور جب تک وہاں رہے تمام دن مسجد میں مراقبہ میں مشغول رہتے۔ آٹھ دن قیام کے بعد والدین سے اجازت لے کر پیرو مرشد کی خدمت میں پاکپتن شریف پہنچ گئے حضرت شاہ فخر قدس سرہ کی خدمت میں مریدہونے کی غرض سے آتا اسے حضرت خواجہ کے پاس بھیج دیتے،اس طرح سینکڑوں آدمی آپ مرید بن گئے حضرت شاہ فخر رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بھی مزید دو مہینے یہاں قیام کا ارادہ ہے اس لئے تم اپنے والدین سے ملاقات کر آئو۔حضرت خواجہ صاحب جب دو ماہ وطن گزار کر عازم پاکپتن شریف ہوئے تو آپ کے تقدس اور تقویٰ و پرہیز گاری سے متاثر ہو کر آپ کے بھائی ملک سلطان ملک برہان اور چچا لکھمیر اور استاذ مولانا محمد مسعود بھی آپ کے ہمراہ پاکپتن شریف روانہ ہوئے تاکہ حضرت شاہ فخر الدین سے بیعت حاصل کیا جائے۔
جب حضرت شاہ فخر الدین پاکپتن شریف سے دہلی تشریف لے گئے تو قبلۂ عالم بھی ہمر کاب تھے۔کچھ عرصہ بعد حضرت فخر الدین قدس سرہ نے آپ کو خلافت عطا فرما کر مہار شریف میں قیام کرنے کا حکم دیا چنانچہ آپ شیخ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مہار شریف تشریف لے آئے اور ارشاد ہدایت کا سلسلہ جاری کردیا۔بہت جلد مخلوق خدا پروانہ وار آپ کے گرو جمع ہونے لگی،افراد آپ کے در دولت پر حاضر ہوتے اور دامن عقیدت گوہر مراد سے بھر کر واپس ہوتے،جو شخص آپ کے دست اقدس پر بیعت ہوتا اس کے ظاہر و باطن میں حیرت انگیز انقلاب برپا ہو جاتا۔آپ کے اکثر اوقات تلقین و ارشاد میں بسر ہوتے اور دیوانے حاضر ہو کر دولت فرزانگی سے بہرہ ہوتے ۔آپ کی مجلس میں امراء غرباء ہر طرح کے لوگ حاضر ہوتے مگر آپ دنیا داروں کی صحبت کو بیحد نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
حضرت خواجۂ عالم قدس سرہ تہذیب اخلاق اور اتباع شریعت پر بہت زور دیا رکرتے تھے آپ فرمایا کرتے تھے:
٭ کسی کو دوسرے پر غصے نہیں ہونا چاہئے،غصہ باطن میںایک ایسا جو ہر ہے جس کا اظہار نو معرفت کی دورمیکا سبب ہے۔
٭ اگ کسی سے شکایت پیدا ہو تو اس کی بہتر تاویل کرنی چاہئے۔
٭ ظاہر کو موافق شریعت کرنے اور باطن کو اتباع شریعت سے وابستہ کرنے کے بارے میں عوام سے پر سش ہوگی۔
حضرت قبلۂ عالم مبالغہ معرفت کے ایک سمندر تھے۔تونسہ شریف، سیال شریف،چاچڑاں شریف،جلالپور شریف اور احمد پور اسی فیض کے چشمے ہیں،یہ ایک نا قابل انکار حقیقت ہے کہ حضرت خواجہ فرید الدین گنجشکر قدس سرہ کے پنجاب میں سلسلۂ عالیہ چشتیہ کی ترویح و اشاعت میں سب سے زیادہپ حصہ حضرت قبلۂ عالم کی مساعئی جمیلہ کا ہے،دنیا کا کونسا ایسا حصہ ہے جہاں آپ کے با لواسطہ اور بلا واسطہ مریدین اور نیاز مند نہیں ہیں،آپ کے خلفاء کاملین کا حلقہ بہت وسیع ہے،چند خلفاء کے اسماء مبارکہ ہیں:۔
۱۔ حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی۔ ۵۔ مولانا محمد اکرم ڈیرہ غازی خاں
۲۔ مولانا نور محمد نارووالہ۔ ۶۔مولانا تاج محمود ساکن گڑھی
۳۔ حضرت مولانا حافظ محمد جمال الدین ملتانی۔ ۷۔شیخ جمال چشتی فیروز پوری
۴۔ حضرت خواجہ محمد عاقل (چاچڑاں شریف) ۸۔مخدوم نو بہار اوچی(رحمہم اللہ تعالیٰ)
آپ کے ہاں تین صاحبزادے شیخ نور الصمد،شیخ نور احمد،شیخ نور الحسن اور دو صاحبزادیاں پیدا ہوئے۔
۳ذوالحجہ،۲۴جولائی(۱۲۰۵ھ؍۱۷۹۲ئ) کو آپ کا وصال ہوا،مزار انور تاج سرور میں ہے،جہاں حضرت فرید الدین گنجشکر قدس سرہ کے پوتے اور شیخ بدر الدین سلیمان کے صاحبزادے حضرت تاج الدین سر کا مرقد انور ہے،ان کی نسبت سے اس جگہ کا نام ہی تاج سرور پڑگیا ہے حضرت قبلۂ عالم کو تاج سرور قدس سرہ کے مزار سے بڑی عقیدت تھی۔ہر جمعہ کو وہاں حاضری دیتے اور وہاں خانقاہ بھی قائم کرلی تھی۔
کسی نے کیا خٰوب تاریخ وصال کہی ہے:
’’حیف واویلاں جہاں بے نور گشت‘‘
حضرت خواجۂ عالم کی مہر مبارک کا سجع بہت ہی پیارا اور ولآویز تھا:
’’نور محمد جہاں روشن است[1] ‘‘
[1] خلیق احمد نظامی: تاریخ مشائخ چشت: ص۵۳۰۔۵۶۰
(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)
حضرت خواجہ نورمحمد مہاروی(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت خواجہ نورمحمدمہاروی مقتدائےاہل بصیرت ہیں۔
خاندانی حالات:
آپ کہرل قوم سےہیں۔۱؎
والدماجد:
آپ کےوالدماجدکانام ہندال ہے،۲؎انہوں نےمہارمیں سکونت اختیارکی۔
ولادت:
آپ ۱۴رمضان ۱۱۴۲ھ میں کو،چوتالہ میں پیداہوئے۔۳؎
نام:
آپ کانام "سہیل "ہے۔۴؎
لقب:
آپ کالقب "نورمحمد"ہے۔یہ لقب آپ کےپیرومرشدحضرت مولانافخرالدین رحمتہ اللہ علیہ نے عطا کیاتھا۔۵؎
تعلیم وتربیت:
آپ نےحافظ محمد مسعودمہاروی سےقرآن شریف حفظ کیا۔جب سن شعورکوپہنچےتولاہورتشریف لے گئےاوروہاں تعلیم حاصل کی۔لاہورسےدہلی آئےاورتحصیل علم ظاہری میں مشغول ہوئے۔
حضرت مولانافخرالدین رحمتہ اللہ علیہ کی دہلی میں آمدکی خبرسن کرآپ بہت خوش ہوئے۔آپ حضرت مولاناکی خدمت میں حاضرہوئےاوران سے کچھ مدت تک علم ظاہری حاصل کیا۔
بیعت و خلافت:
حضرت مولاناکی صحبت میں رہ کرآپ کو تحصیل علم باطنی کاشوق پیداہوا،چنانچہ حضرت سلطان المشائخ کےعرس کےروزآپ حضرت مولانافخرالدین فخرجہاں کےدست حق پرست پربیعت ہوئے۔۶؎سب سے پہلےدہلی میں حضرت مولاناسےبیعت کرنےکاشرف آپ ہی کوحاصل ہے۔
تحصیل وتکمیل کمالات باطنیہ کےحضرت مولانانےخرقہ خلافت سے سرفراز کیا۔
پیرومرشدکی خدمت:
آپ اپنےپیرومرشدکی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہتےتھے۔حضرت مولانانےچونتیس سال دہلی میں قیام فرمایا۔آپ چھ ماہ اپنےوطن مہارومیں اورچھ ماہ اپنےپیرومرشدکےساتھ دہلی میں رہتےتھے۔حضرت مولاناکےساتھ آپ پاک پٹن گئےتھے۔
شادی اوراولاد:
آپ کےتین لڑکےتھے،جن کےنام حسب ذیل ہیں۔۷؎
نورالصمد،نوراحمد،نورحسن۔
وفات:
آپ ۲ذی الحجہ ۱۲۰۵ھ کوجواررحمت میں داخل ہوئے۔۸؎مزارفیض آثار مہارومیں واقع ہے۔
خلفاء:
حضرت محمد عاقل صاحب کےعلاوہ آپ کے دیگرممتازخلفاء حسب ذیل ہیں۔۹؎
حضرت خواجہ محمدسلیمان،شیخ نورمحمدنارولہ،حافظ محمدجمال ملتانی،مولوی خدابخش جیو،حافظ غلام حسین جیو،مولوی محمدمسعود جیو،حافظ غلام محمد جیو۔
سیرت:
آپ جامع علوم ظاہری وباطنی ہیں۔ترک وتجریدآپ کاشعارتھا۔تحمل وبردباری،قناعت و توکل سے آراستہ تھے۔ریاضت،عبادت ومجاہدہ میں مشغول رہتےتھے۔اپنےپیرومرشدکی خدمت کواپنے لئے سرمایۂ افتخارسمجھتےتھے۔آپ کےپیرومرشدآپ پربہت مہربانی فرماتےتھے۔
چنانچہ حافظ شرف الدین کواپنامریدکرایااورفرمایا۔۱۰؎
"بیعت ایشاں بیعت من است"۔
(ان کی بیعت،میری بیعت ہے)۔
تعلیمات:
آپ کی بعض تعلیمات حسب ذیل ہیں۔
علماءاوراہل اللہ:
ایک شخص نےآپ سے سوال کیاکہ علماءکفارکی تعظیم نہیں کرتےاوراہل اللہ ہرمومن اورکافرکی تعظیم کرتےہیں،حالانکہ شریعت اورحقیقت میں اختلاف نہیں ہے،پھرایساکیوں؟
آپ نےجواب دیا۔۱۱؎
"وجہ یہ ہے کہ علماء کی نظران کےکفرپرپڑتی ہےاوراہل اللہ کی نظرمظہریت اورحقیقت پرپڑتی ہے نہ کہ کفرپر"۔
مسئلہ نفی وجود:
ایک دن مسئلہ نفی وجودپربحث ہوئی۔آپ نےسلطان باہوکےعشق کاقصہ بیان فرمایاکہ سلطان باہو ابتدائےحال میں ایک زمین دارکےلڑکےپرعاشق ہوئےاس کےمکان کےدروازےپرایک جھونپڑی میں رہنےلگےایک روزآدھی رات کےوقت سلطان باہواس لڑکےکودیکھنےکےلئے بے چین ہوئے۔لڑکااپنےگھرمیں سورہاتھا۔بظاہراس کواس وقت دیکھنےکی کوئی صورت سمجھ نہیں آئی۔ سلطان باہونےایک تدبیرسوچی کہ جھونپڑی کوآگ لگادی جائےتولوگ آپ کودیکھنےکےلئے جمع ہوجائیں گےاورممکن ہےکہ وہ لڑکابھی گھرسےباہرنکل آئے۔چنانچہ سلطان باہونےایساہی کیا۔ جب جھونپڑی میں آگ لگی تولوگ جمع ہوگئےاوروہ لڑکابھی گھرسےباہرنکل آیااورسلطان باہونے اس بہانےسےاپنےمحبوب کودیکھ لیا۔
اقوال:
۔ جس کسی کوزن وفرزندوزراعت وتمام کےتعلقات مزاحم ہوں،اس کو چاہیےکہ خطرات کو ترک کرے۔
۔ کم کھانا،کم سونا،کم بولنااورلوگوں سےکم ملناجلنااختیارکرے۔
۔ ولی کو احوال ماضی ومستقبل بشرط توجہ معلوم ہوتاہے۔
۔ انسان کامل علم کی جان ہےاوراس کی موت عالم کی فنا۔
کشف وکرامات:
ہرآنےجانےوالےکےمافی الضمیرکوآپ بتادیتےتھے۔
آپ کےایک مریدغلام حسین کاآپ سےسوکوس کےفاصلے پرانتقال ہوا۔آپ کومولوی غلام حسین کےجنازہ کےہمراہ لوگوں نےدیکھا۔
حواشی
۱؎تکملہ سیرالاولیاء(فارسی)ص۱۲۱
۲؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۵۵
۳؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۵۵
۴؎مناقب المحبوبین
۵؎تکملہ سیرالاولیاء(فارسی)ص۱۲۱
۶؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۵۵
۷؎تکملہ سیرالاولیاء(فارسی)ص۱۳۰،۱۲۹
۸؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۵۶
۹؎تکملہ سیرالاولیاء(فارسی)ص۱۲۹
۱۰؎تکملہ سیرالاولیاء(فارسی)ص۱۳۶،۱۳۱
۱۱؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۵۵
۱۲؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۵۵
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)