صدر الشریعۃ حضرت مفتی امجد علی اعظمی
صدر الشریعۃ حضرت مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
صدر الشریعہ مولانا محمد امجد علی قدس سرہ بمقام گھوسی ضلع اعظم گڑھ (بھارت) کے ایک علمی گھرانے میں ۱۲۹۶ھ؍ ۱۸۸۲ء میں پیدا ہوئے[1]۔
والد ماجد کا اسم گرامی مولانا حکیم جمال الدین مولانا خدا بخش بن مولانا خیر الدین قدست اسرارھم ہے۔ ابتدائی کتابیں اپنے جد امجد مولانا خدا بخش اور رشتہ کے بڑے بھائی مولانا محمد صدیق سے پڑھیں۔ پھر انہی کے مشورہ سے مدرسہ حنفیہ جون پور (بھارت) میں استاذا لاساتذہ حضرت مولانا ہدایت اللہ خاں رامپوری (م۱۳۲۶ھ؍ ۱۹۰۸ء) سے بلاواسطہ استفادہ کیا۔ مولانا ہدایت اللہ خاں امام الحکماء، مجاہد ملت، شہید تحریک آزادی (م ۱۲۷۸ھ؍ ۱۸۵۷) حضرت مولانا محمد فضل حق خیر آبادی کے اجلہ تلامذہ سے ہیں۔ جون پور میں صدرالشریعہ اپنے استاد گرامی سے شرف تلمذ کے ساتھ ساتھ شرفِ خدمت سے بھی بہرہ ور ہوئے۔ رات کی خدمت کے دوران استاد محترم دن بھر کے آموختہ کا جائزہ لے کر اعادہ کرادیتے۔ یہ طریقہ استعداد کی پختگی کا باعث و معاون بنا۔ علوم و فنون کی تکمیل کے بعد حجۃ العصر مولانا وصی احمد محدث سورتی قدس سرہ (م۱۳۳۴ھ؍ ۱۹۱۶ء) سے مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت (یوپی) حاضر ہوکر درس حدیث لیا اور سند فراغت درجہ اختصاص میں حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی میں ہی آپ کی علمی صلاحیت و حسن لیاقت کا شہرہ ہوچکا تھا۔ بعد ازاں خارق الملک حکیم عبدالولی جھوائی لکھنؤ سے ۱۳۲۳ھ؍ ۱۹۰۵ء میں علم طب حاصل کیا۔ ۱۳۲۴ھ سے ۱۳۲۷ھ (۱۹۰۶ء سے ۱۹۰۹ء) تک حضرت محدث سورتی کے مدرسہ میں درس دیا۔ پھر ایک سال پٹنہ میں مطب کرتے رہے۔
اسی اثناء میں امام احمد رضا فاضل بریلوی (م۱۳۴۰ھ؍ ۱۹۲۱ء) کو دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی کے ذی استعداد استاذ کی ضرورت پیش آئی۔ حضرت محدث سورتی نے آپ کا نام بطور صدر المدرسین پیش کیا۔ امام احمد رضا کی طلب پر پٹنہ سے مطب چھوڑ کر منظر اسلام بریلی میں تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ بالفاظ دیگر۔اب طب جسمانی سے طب روحانی کے مطب میں کام شروع کیا۔ جلد ہی اپنی استعداد، قابلیت خداداد حسن سلیقہ اور سعادت مندی سے مجدد ملت امام احمد رضا کی نظر میں مقبول اور موردِ الطاف خاص بن گئے۔ ابتداء میں درس و تدریس کا کام سپرد تھا۔ بعد ازاں مطبع اہلِ سنت بریلی کا انتظام اور جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کے شعبہ علمیہ کی صدارت کے فرائض بھی آپ کے سپرد کردیے گئے[2]۔
افتاء کی مصروفیا ت اس کے علاوہ تھیں۔ امام احمد رضا اور دیگر اکابر علماء فتاوی کے سلسلہ میں آپ پر اعتماد فرماتے تھے۔
امام احمد رضا کی عشقِ رسالت میں ڈوبی ہوئی اور ورع و تقویٰ سے شاداب ودرخشندہ زندگی کی مسلسل دید کے بعد آپ نے روحانی رہنمانی کے لیے سلسلہ عالیہ قادریہ میں ان سے بیعت ہوئے اور جلد ہی تمام سلاسل میں خلافت سے نوازے گئے[3]۔
صدر الشریعہ نے ابتداء شباب سے ہی تدریس کا کام شروع کیا اور آخر حیات تک جاری رکھا۔ آپ کے تلامذہ میں ایسے نابغہ روزگار افراد شامل ہیں جن پر علم و فضل کو بھی ناز ہے۔ مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت اور پٹنہ کے بعد ۱۳۲۹ھ سے ۱۳۴۳ھ (۱۹۱۱ء سے ۱۹۲۵ء) تک منظرِ اسلام بریلی میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے۔ ۱۳۴۳ھ؍ ۱۹۲۵ء میں مولانا سید سلیمان اشرف (م۱۳۵۲ھ؍۳۴ھ۔ ۱۹۳۳ء) علیہ الرحمہ صدر شعبہ علوم اسلامیہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ دارالعلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف میں صدر المدرسین کے لیے مدرسہ مہتمم و متولی جناب میر نثار احمد کا دعوت نامہ لےکر بریلی آئے۔ لیکن آپ نے اپنے شیخ کا آستانہ اور منظرِ اسلام کی تدریس چھوڑ کر جانے سے معذرت کردی۔ مولانا سید سلیمان اشرف نے امام احمد رضا کے خلف اکبر و خلیفہ حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا (م۱۳۲۶ھ؍ ۱۳۴۳ء) سے رجوع کیا۔ آپ ان کی اجازت و حکم سے دارالخیر اجمیر حاضر ہوئے اور بے مثال تدریس کے ذریعہ مرجع علماء و طلباء بنے[4]۔
اجمیر مقدس میں ۱۳۵۱ھ؍ ۱۹۳۳ء تک تدریس فرمائی۔ مہتمم و متولی مدرسہ میر نثار احمد سے بعض امور میں اختلاف کے سبب مدرسہ معینیہ عثمانیہ کی تدریس سے علیحدگی اختیار فرمالی۔ علماءکی ایک کثیر تعداد، جو حلقہ تلمذ سے وابستہ تھی۔ ہمراہ لے کر دوبارہ بریلی آگئے اور منظر اسلام میں تدریس شروع کردی۔ تین سال میں مولانا سید مصباح الحسن پھپھوندوی قدس سرہ کی رہنمائی میں نواب حاجی غلام محمد خاں شروانی رئیس ریاست دادوں ضلع علی گڑھ کی دعوت پر دارالعلوم حافظیہ سعیدیہ دادوں میں بحیثیت صدرمدرس تدریس کا کام کیا۔ سات سال تک بہ کمال حسن و خوبی یہاں درس دیا۔ مولانا حبیب الرحمٰن شروانی سابق صدر امور مذہبی حیدرآباد دکن نے ۱۳۵۶ھ؍ ۱۹۳۷ء سالانہ جلسہ امتحان کے موقعہ پر اپنی تقریر میں حضرت صدر الشریعہ کی مہارت درس اور تبحر علمی کا بہ کمال اعتراف کیا اور کہا۔
‘‘مولانا امجد علی صاحب پورے ملک میں ان چار پانچ مدرسین میں ایک ہیں جنہیں میں منتخب جانتا ہوں’’[5]
بعد ازاں کچھ عرصہ بہار اور بنارس میں بھی تدریسی فرائض سرانجام دیے۔ منظر اسلام بریلی اور مظہر اسلام بریلی کے مدرسین جب کبھی بیماری یا اتفاقیہ رخصت کی بنا پر اپنے طلبہ کو سبق نہ پڑھا سکتے تو اس عرصہ میں عموماً صدر الشریعہ بریلی میں طلبہ کو سبق پڑھاتے[6]۔
حضرت صدر الشریعہ ایک فکر ساز مدرس، ماہر تعلیم اور عظیم فقیہ و متکلم تھے۔ برصغیر پاک و ہند کی اکثر درسگاہیں آپ کے تلامذہ یا تلامذہ کے تلامذہ سے آباد ہیں۔
صاحبِ فکر، فعال و متحرک اساتذہ آپ ہی کے حلقہ تدریس کے خوشہ چین ہیں۔ آپ اپنے دور میں علماء ساز اداروں کے صدر الصدور کی حیثیت رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی نصاب کمیٹی میں آپ کو شامل کیا گیا تھا۔۔۔ آپ کے مشورہ سے ایک شاندار نصاب مدون ہوا تھا[7]۔
امام احمد رضا کی آپ کی علمی ثقاہت اور فقاہت پر کس قدر اعتماد تھا، انہی کے الفاظ ملاحظہ ہوں۔
‘‘آپ یہاں کے موجودین میں تفقہ جس کا نام ہے وہ امجد علی صاحب میں زیادہ پائے گا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ استفتاء سنایا کرتے ہیں۔ اور جو جواب دیتا ہوں، لکھتے ہیں۔ طبیعت اخّاذ ہے، طرز سے واقفیت ہوچکی ہے[8]۔
ایک بار امام احمد رضا نے بعض علماء اعلام کی موجودگی میں آپ کو اور حضرت مفتی اعظم مولانا محمد مصطفیٰ رضا کو منصب افتاء و قضا پر مامور فرماتےہوئے ارشاد فرمایا۔
‘‘اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ نے جو اختیار مجھے عطا فرمایا، اس کی بنا پر ان دونوں کو نہ صرف مفتی بلکہ شرع کی جانب سے ان دونوں کو قاضی مقرر کرتا ہوں کہ ان کے فیصلے کی وہی حیثیت ہوگی جو ایک قاضی اسلام کی ہوتی ہے[9]’’
پھر اپنے سامنے تخت پر بٹھا کر قلم دوات وغیرہ سپرد کیا۔
حضرت صدر الشریعہ، امام احمد رضا کے زمانہ حیات ظاہری میں بھی حسب ضرورت افتاء کا کام سرانجام دیتے رہے۔ ان کےو صال کے بعد ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
‘‘اس کے بعد بلاتکلف میں اس خدمت افتاء وغیرہ کو انجام دیتا رہا اور سمجھ لیا کہ جس طرح اعلیٰ حضرت نے اپنی حیات میں لوگوں کے سامنے اس کام کو تفویض فرمایا تھا، اب بھی اس کام کو مجھ سے لینا چاہتے ہیں، اور جو کچھ دشواریاں ہوں گی اس میں وہ خود مددگار ہوں گے۔ چناں چہ کبھی باوجود اپنی کم بضاعتی کے اس سلسلے میں دشواری پیش نہیں آئیفَلِلّٰہِ الْحَمْدُ[10]’’
آپ کی ذات مرجع علماء تھی۔ اس دور کے اجلہ علماء فتاویٰ میں آپ کی طرف رجوع فرماتے، مولانا ضیا ء الدین پیلی بھیتی اپنے ایک مکتوب محررہ ۷؍محرم الحرام ۱۳۵۷ھ/ مارچ ۱۹۳۸ء میں مال وقف سے متعلق ایک سوال کے بارے میں لکھتے ہیں۔
"باوجود ورق گردانی کتاب الوقف کے وہ صورت مجھے نہ سوجھی۔ پس آپ کی طرف رجوع کی ضرورت پیش آئی[11]"
اسی طرح سراج الفقہا، مولانا سراج احمد لکھن پوری نےبھی حضرت صدر الشریعہ سے کئی فتاویٰ حاصل کیے۔ فتاویٰ امجدیہ میں ان کے نقول محفوظ ہے[12]۔
حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ کو دیگر علوم و فنون کے علاوہ فقہ پر ایسا کمال حاصل تھا کہ فقہ کے جمیع ابواب کی تمام جزئیات مع ان کے تفصیلی دلائل کے مستحضر تھیں انہی خصوصیات کی بنا پر امام احمد رضا نے آپ کو ‘‘صدر الشریعہ’’ کا خطاب دیا تھا۔ قوتِ حافظہ کا یہ عالم تھا کہ یاد رکھنے کی نیت سے کسی کتاب کو تین مرتبہ دیکھ لینا کافی ہوتا تھا[13]۔
صدر الشریعہ نہ صرف علوم میں کام دسترس رکھتے تھے بلکہ طریقت کے بحر بے کنار سمندر کے ماہر شناوربھی تھے۔ اجلّہ علماء کرام و مشائخ عظام نے بارہا اس کا عملی اعتراف کیا۔ امام احمد رضا کے خلف اصغر و خلیفہ مفتی اعظم مولانا محمد مصطفیٰ رضا بریلوی جب ۱۳۶۴ھ/ ۱۹۴۵ء میں عازم حرمین شریفین ہوئے تو آپ نے مرکز علم وعرفان بریلی سے اپنی عارضی غیر حاضری میں حضرت صدر الشریعہ کو اپنے نائب و قائم مقرر فرمایا۔ رضوی سلسلہ کے علماء میں آپ کا یہ انتخاب اس امر کا بین ثبوت ہے کہ علماء حقّا نین میں آپ بلند مرتبہ پر فائز تھے۔ مفتی اعظم نے بریلی سے الوداع ہوتے وقت جو پندرہ نصائح اور وصایا ارشاد فرمائے اس کا ایک حصہ ملاحظہ ہو۔
‘‘آستانہ عالیہ رضویہ بریلی سے شرعی احکام پہنچانے کی خدمت فقیر اپنے برادر طریقت صدر الشریعہ حضرت مولانا مولوی امجد علی صاحب اعظمی زید کرمہ، کے سپرد کرتا ہے۔ موصوف آستانہ عالیہ مقدسہ پر ہی قیام فرمارہیں گے۔ آپ کی ذات گرامی محتاج تعریف نہیں۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے ارشد تلامذہ و اکابر خلفاء میں سے ہیں۔ ۲۰، ۲۲ سال تک اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی صحبت میں رہ کر علم و معرفت سے فیضیاب ہوتے رہے ہیں۔ موصوف مدرسہ اہلِ سنت مظہرِ اسلام مسجد بی بی صاحبہ کے صدر المدرسین کی حیثیت سے ہر طرح کی سرپرستی فرمائیں گے اور جملہ اختیارات جو اس آستانےکے عقیدت کیشاں کی جانب سے اس فقیر کو حاصل ہیں وہ سب فقیر اپنی طرف سے صدر الشریعہ کو تفویض کرتا ہے[14]’’
صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ نے تصانیف کی طرف بھی توجہ کی۔ اس وقت آپ کی تین اہم تصانیف کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
(۱) بہار شریعت
سترہ حصوں میں اردو زبان میں فقہ کے جمیع ابواب پر مشتمل ہے۔ محققانہ مسائل اور ترجیحی جزئیات سے پورا برصغیر پاک و ہند استفادہ کررہا ہے۔ مفتیان کرام کے لیے حوالہ تلاش کرنے، فتویٰ دینے اور کتب فقہ کی تتبع کا بہترین ذریعہ ہے۔ قیام بریلی کے عرصہ ۱۳۳۴ھ/ ۱۹۱۶ء میں اس کی تحریر کا آغاز ہوا، امام احمد رضا کی حیات میں اس کے قریباً چھ حصے مکمل ہوگئے تھے۔ ان حصوں پر امام احمد رضا کی تقریظ موجود ہے۔ ۱۳۶۳ھ/ ۱۹۴۴ء کو سترھواں حصہ مکمل ہوا۔ یہ کتاب اپنی افادیت کی بنا پر بارہا چھپ چکی ہے۔
علوم اسلامیہ کی عربی درس گاہوں میں عموماً رمضان المبارک کو تعطیلات ہوتی ہیں، انہی ایام میں دیگر مصروفیات سے وقت نکال کر آپ نے بہار شریعت کی تصنیف فرمائی۔ آخری سالوں میں متعدد پیہم حوادثات پیش آئے۔ تھوڑے عرصہ میں گیارہ اعزاء و اقارب کی وفات نے اس کام کو مزید جاری رکھے نہ دیا[15]۔
۲۔ فتاویٰ امجدیہ
حضرت صدر الشریعہ سے مختلف زبانوں میں مختلف اوقات میں مختلف لوگوں نے فقہی سوالات کیے اور فتوے پوچھے۔ آپ نے سفر میں، حضر میں ہر جگہ تحریراً و تقریباً بے شمار فتاویٰ عطا فرمائے۔ ان میں سے بعض اہم فتاویٰ دستبرد زمانہ سے محفوظ نہ رہے۔ امام احمد رضا قدس سرہ کی حیات میں، تدریسی، مطبع اہل سنت کی نگرانی اور دیگر اشاعتی مصروفیات کی وجہ سے آپ کے فتاویٰ کا ریکارڈ محفوظ نہ ہوسکا۔ جنگ عظیم دوم کے دوران کاغذ ناپید ہورہا تھا۔ اس لیے بھی نقول کا کام کما حقہ نہ ہوسکا۔ تام ۸؍ ۳۶x ۳۰ کے سولہ سو صفحات پر فتاویٰ امجدیہ کا مسودہ موجود ہے[16]۔
علاوہ ازیں کچھ متفرق اوراق بھی موجود ہیں۔ پہلا فتویٰ ۷؍ ربیع الاول ۱۳۴۰ھ اور سب سے آخری فتویٰ وفات سے چوبیس روز قبل ۸؍ شوال ۱۳۶۷ھ / ۱۴ اگست ۱۹۴۸ء کا تحریر کردہ دستیاب ہوا ہے۔ فتاویٰ کی نقول کا اکثر حصہ (بالخصوص دور اجمیر) آپ کے ارشد تلمیذ حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ کے قلم سے ہے۔ مجموعہ فتاویٰ میں سے ایک حصہ چار سو پچیس ۴۲۵ صفحات ۱۹۸۰ء کو کراچی سے شائع ہوچکا ہے[17]۔
۳۔ تحشیہ شرح معانی الآثار
محرم ۱۳۲۶ھ/ جنوری ۱۹۴۳ء قیام دادوں کے زمانہ میں اپنے بعض تلامذہ کے اصرار پر امام ابو جعفر طحاوی علیہ الرحمہ (۳۲۱ھ/ ۹۳۳) کی کتاب شرح معانی الآثار معروف بہ طحاوی شریف پر حواشی لکھنے شروع کیے۔ فقہ الحدیث کی یہ معرکۃ الآراء کتاب حواشی سے خالی تھی۔ مولانا وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمۃ (م ۱۳۳۴ھ/۱۹۱۶ء) نے اس پر کہیں کہیں تعلیقات تحریر فرمائے تھے۔ حضرت صدر الشریعہ نے سات ماہ میں اس کے نصف اول پر حاشیہ مکمل کردیا ۔ یہ حواشی باریک قلم سے چھتیس سطری چار سو پچاس صفات پر مشتمل ہیں[18]۔
یہ علمی سرمایہ تاہنوز غیر مطبوعہ ہے۔ کاش کوئی ناشر ان کی طباعت کا انتظام کرکے اہلِ علم سے خراج تحسین اور دعائیں وصول کرے۔ فی الواقع یہ ایک گراں مایہ تحفہ ہوگا۔
صدر الشریعہ نے قیام بریلی کے زمانہ میں ۱۳۳۷ھ/ ۱۹۱۹ء میں پہلی بار حج و زیارت کی سعادت حاصل کی۔ ۱۳۶۷ھ/ ۱۹۴۸ء میں دوسری بار حرمین شریفین کی زیارت و حج کے ارادے سے مفتی اعظم مولانا محمد مصطفٰی رضا قدس سرہ (م۱۴۰۲ھ/ ۱۹۸۶ء کی معیت میں بریلی سے بمبئی تشریف فرماہوئے کہ راستہ میں بیمار ہوگئے۔ ۲؍ ذی قعدہ ۱۳۶۷ھ / ۷ ستمبر ۱۹۴۸ء کو یہ عازم حرمین اپنے مولا سے جاملا۔
اِنَّا لِلہِ وَانَآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
مدینہ کا مسافر ہند سے پہنچا مدینے میں
قدم اٹھنے کا بھی نوبت نہ آئی تھی سفینے میں
آیت کریمہ۔ ‘‘اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ’’ تاریخ وصال ہے۔
مولانا محمد شریف الحق شیخ الحدیث دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور (بھارت) نے اس آخری سفر حج اور وصال کی کیفیات کو اپنے مفصل مضمون ‘‘شوق معراج’’ میں لکھا ہے۔ یہ مضمون دبدبہ سکندری، رامپور کے پانچ شماروں میں قسط وار شائع ہوا[19]۔
حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ نے علم و فضل سے ممتاز اولاد کے علاوہ بے شمار تلامذہ چھوڑے۔ جو اپنے طور پر غیرتِ علم و فضل ثابت ہوئے۔ چند ایک اسماء گرامی یہ ہیں۔
۱۔ محدث اعظم مولانا محمد سردار احمد شیخ الحدیث فیصل آباد
۲۔ امین شریعت مولانا رفاقت حسین شیخ الحدیث کانپور
۳۔ استاد العلماء مولانا حافظ عبدالعزیز شیخ الحدیث مبارک پور
۴۔ مجاہدِ ملت مولانا حبیب الرحمٰن صدر المدرسین الہ آباد
۵۔ شیخ الجامعہ مولانا قاضی شمس الدین جونپوری
۶۔ شیر بیشہ اہلِ سنت مولانا حشمت علی لکھنوی
۷۔ فخر العلماء مولانا غلام جیلانی اعظمی
۸۔ زینت العلم مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری شیخ الحدیث جامعہ امجدیہ کراچی
۹۔ فاضل جلیل مولانا غلام جیلانی میرٹھی
۱۰۔ شیخ الحدیث مولانا غلام یزدانی
۱۱۔ شیخ الحدیث مولانا محمد شریف الحق امجدی
)تذکرہ محدث اعظم پاکستان جلد اول، از: مولانا محمد جلال الدین قادری)
[1] الیواقیت المہریہ۔ ص ۷۹، بحوالہ فقیہ اسلام مصنفہ ڈاکٹر حسن رضا اعظمی۔ ناشر ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی۔ ص ۲۸۰
[2] تحریک خلافت کے دورمیں جمیعت علماء ہند کے لیڈروں کے غیر شرعی اقوال اور سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے نقصان دہ افعال کی بنا پر ۱۳۳۹ھ/۱۹۲۰ء میں علماء اہلِ سنت نے ابوالکلام آزاد سے جمعیت علماء ہند کے سالانہ اجلاس منعقدہ بریلی میں انہی اقوال و افعال پر گرفت فرمائی اور کامیاب مناظرہ کیا۔ اس اجلاس میں بحیثیت صدر شعبہ علمیہ جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی، مولانا امجد علی کے مرتب کردہ ستر سوالات بنام ‘‘اتمام حجت تامہ’’ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یہ سوالات تحریک خلافت والوں کے لیے اس وقت بھی لاجواب تھے اور آج بھی۔۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔
۱۔دوامع الحمیر، مطبوعہ جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی (۱۳۴۰ھ)
۲۔ ابوالکلام آزاد کی تاریخی شکست، مولفہ محمد جلال الدین قادری، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، لاہور (۱۹۸۰)
[3] ماہنامہ الرضا بریلی،مندرجہ معارف رضا، مرتبہ سید محمد ریاست علی قادری، مطبوعہ کراچی ۱۹۸۳ء
[4] شیخ الحدیث مولانا محمد سردار احمد نے اسی عرصہ میں آپ سے اکتساب فیض کیا۔ تا آنکہ آپ معیار علم و فضل بنے۔ فقیر قادری عفی عنہ
[5] تذکرہ علماء اہلِ سنت، مؤلفہ محمود احمد قادری، مطبوعہ پٹکاپور، کانپور، ص ۵۳
[6] مولانا سید محمد جلال الدین شیخ الحدیث دارالعلوم محمدیہ رضویہ بھیکھی (منڈی بہاؤ الدین) نے اپنے ایک بیان میں ۲۱ ریبع الاول ۱۴۰۴ھ کو اس فقیر غفرلہ سے فرمایا کہ میرے بریلی کے دورِ طلب علمی میں ۱۳۶۶ھ/ ۱۹۴۶، ۱۹۴۷ء میں مظہر اسلام بریلی کے شیخ مولانا محمد سردار احمد بیمار ہوگئے۔ تین ماہ تک صدر الشریعہ نے اس دوران ہمیں درس حدیث دیا۔ فقیر قادری عفی عنہ
[7] مقدمہ فتاویٰ امجدیہ، جلد اول ، مطبوعہ کراچی (۱۹۸۰ء)
[8] الملفوظ، مرتبہ مولانا محمد مصطفیٰ رضا بریلی
[9] سوانح خود نوشت صدر الشریعہ، بحوالہ مقدمہ فتاویٰ امجدیہ جلد اول
[10] سوانح خود نوشت، بحوالہ مقدمہ فتاویٰ امجدیہ، جلد اول، مطبوعہ کراچی ۱۹۸۰ء
[11] ایضاً
[12] ایضاً
[13] مقدمہ فتاویٰ امجدیہ، جلد اول مطبوعہ کراچی ۱۹۸۰ء
[14] ہفت روزہ الفیقہ، امر تسر، ۲۱ تا ۲۸ اکتوبر ۱۹۴۵ء ص ۱۰
[15] تفصیل ملاحظہ ہو۔ بہار شریعت (حصہ ہفدہم) ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ص ۱۰۱
[16] مقدمہ فتاویٰ امجدیہ، حصہ اول، مطبوعہ کراچی
[17] صدر الشریعہ کے بعض فتاوی اس دور کے رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہے۔ چند محققانہ فتاویٰ دبدبہ سکندری، رامپور کے درج ذیل شماروں میں شائع ہوئے ہیں۔
۲۴ ربیع النور ۱۳۶۷ھ/ ۶ فروری ۱۹۴۸ء ۵ ربیع الآخر ۱۳۶۷ھ/ ۱۶ فروری ۱۹۴۸ء
۵ جمادی الاولیٰ ۱۳۶۷ھ/ ۱۷ مارچ ۱۹۴۸ء ۱۷ جمادی الاولیٰ ۱۳۶۷ھ/ ۲۹ مارچ ۱۹۴۸ء
۲۹ رمضان المبارک ۱۳۶۷ھ/ ۶ اگست ۱۹۴۸ء
[18] تذکرہ علماء اہلِ سنت، مطبوعہ بہار ۱۳۹۱ھ
[19] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔
دبدبہ سکندری رامپور مجریہ ۲۷ ستمبر ۱۹۴۸ دبدبہ سکندری رامپور ۱۱ اکتوبر ۱۹۴۸
دبدبہ سکندری رامپور ۲۵ اکتوبر ۱۹۴۸ دبدبہ سکندری رامپور مجریہ یکم نومبر ۱۹۴۸
دبدبہ سکندری رامپور مجریہ ۱۱ نومبر ۱۹۴۸