حضرت شفیق بن ابراھیم بلخی

حضرت شفیق بن ابراھیم بلخی علیہ الرحمۃ

          آپ پہلے طبقہ کے ہیں اور آپکی کنیت ابو موسیٰ ہے پہلے یہ صاح الرائے تھے پھر اہل حدیث ہوئے اور سنی پاکیزہ ہیں ۔امام زفر کے شاگردوں میں سےہیں بلخ کے متقدمین مشائخ میں سے ہیں ،حاتم اصم کے استاذ ہیں ،ابراھیم کے ہم صحبت ہیں اور انکے امثال میں سے ہیں اور زہد و فتوت میں ان سے بڑھ کر ہیں ،توکل پر چلتے تھے ۔ایک دفعہ ابراھیم بن ادھم سے کہنے لگے کہ تم گزارا کیسے کرتے ہو ابراھیم بن ادھم نے کہا کہ جب ہم کھانے کو پاتے تو شکریہ ادا کرتے ہیں اور نہیں پاتے تو  صبر کرتے ہیں ۔شفیق کہنے لگے کہ خراسان کے کتے بھی ایسا ہی کرتے ہیں ۔ابراھیم نے کہ کہ تم کیسے کرتے ہو کہا کہ جب ہم پاتے ہیں تو اوروں کو دی ڈالتے ہیں اور جب نہیں پاتے تو شکر کرتے ہیں ۔ ابراھیم بن ادھم نے انکے سر پر بوسہ دیا اور کہا کہ آپ استاذ ہیں اور کتاب سیر السلف میں اس حکایت کو اسکے برعکس لکھا ہے جو بات یہاں پر شفیق کی نسبت کی گئی ہے وہ بات وہاں پر ابرھیم بن ادھم کی نسبت بیان کی گئی ہے۔"واللہ اعلم "۔شفیق کہتے ہیں کہ میں قاضی ابو یوسف کے ساتھ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوا کرتا تھا ۔ایک مدت تک ہم میں جدائی رہی ۔ جب میں بغداد آیا تو ابو یوسف کو دیکھا کہ قضا کی مجلس میں ہیں اور لوگ انکے گرد جمع ہو رہے ہیں ۔انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ تم نے اپنا  لباس کیوں بدل لیا ہے۔میں نے کہا کہ جو کچھ تم نے طلب کیا وہ تم نے پالیا اور جو میں نے طلب کیا وہ نہ پایا اس لیے ماتم زدہ سوگوار ہوکر نیلا لباس پہن لیا ہے،امام ابو یوسف رضی اللہ عنہ رونے لگےانہوں نے کہاکہ میں ناکردہ گناہ سے بہ نسبت گناہ کیے ہوئے کہ زیادہ ڈرتا ہوں ۔یعنی گناہ کردہ کو تو جانتا ہوں کہ یہ کیا ہے لیکن آئیندہ نہیں جانتا کہ کیا کرونگا ۔یہ بھی کہتے ہیں کہ توکل  یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے جوکچھ تجھے وعدہ دیا اس سے آرام پائےاور یہ بھی کہاکہ "اصحب الناس کما تصحب النارخذ منفعتہا واحذر ان یحرک  "یعنی لوگوں سے ایسا مل جیسےآگ سے ملتاہے۔اسکا نفع لےلےکر اور اس سے ڈر کہ تجھے جلادے ۔بلخ کی بعض تواریخ میں ہے کہ شفیق کو ۱۷۴ ہجری میں ولایت ختلان میں شہید کردیا گیا آپکی قبرانوربھی وہیں ہے۔  

(نفحاتُ الاُنس)

تجویزوآراء