سیدالشہداء حضرت سیدنا امیرحمزہ
سیدالشہداء حضرت سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
[1]تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے جس نے ہمارے آقا و مولا محمد مصطفیٰﷺ کو بشیر و نذیر ، اپنے اذن سے داعی الی اللہ، اور سراج منیر بنا کر بھیجا۔
آپ کو عظیم ہیبت اور جلالت عطا فرمائی اور جسے سعادت اور عظمت کے لیے منتخب فرمایا اسے آپ کے ذریعے صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرمائی، آپ کو آسمان وجود کا بدر منیر بنایا اور کائنات کے گوشے گوشے میں آپ کا روشن اور دل ودماغ میں اتر جانے والا ذکر پھیلایا۔
آپ کو حکم دیا فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرْ (اے حبیب! تمہیں جو حکم دیا جاتا ہے اسے واشگاف بیان کرو) چنانچہ آپ نے خفیہ اور اعلانیہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی، آپ کی دعوت کو جلد قبول کرنے کی توفیق ان معزز لوگوں کو دی گئی جنہیں آسان راستے کی سہولت دی گئی اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کردیا، تو ان کے لیے اجر و ثواب ثابت ہوا اور خوشخبری۔
وہ پیکرجہاد، نیزوں کے سائے میں یوں فخر سے کھیلتے رہے جس طرح شیروں کے بچے جنگل میں کھیلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب اکرم ﷺ ، آپ کی آل پاک، صحابہ کرام اور آپ کے اداب کے حامل وارثوں پر رحمتیں نازل فرمائے جب تک جہاد کے جھنڈے اور نشانات باندھے جاتے رہیں، مجاہدین کے دستے آگے بڑھتے رہیں اور دنیائے کفر پر حملے جاری رہیں۔ حمد و ثنا اور درود پاک کے بعد! نجات دینے والے کریم کے فضل کا محتاج جعفر بن حسن بن عبد الکریم برزنجی کہتا ہے کہ یہ دلکش اور روح پرور باغ ہے جس کی باد صباحضرت سید الشہداء حمزہ ث کے احوال کی خوشبو سے معطر ہے اور اس کی جودوسخا کی بارش، حضرت سید الشہداء صکے ہمراہ جام شہادت نوش کرنے والے خوش بختوں کے موتیوں جیسے ناموں سے سیراب ہوتی ہے، ان حضرات نے دین مصطفیٰﷺ کی نصرت و حمایت میں اپنی جانوں کی بازی لگادی اور اسلام کے پھیلاؤ کا راستہ ہموار کردیا۔
میرے دل میں اس باغ کے گھنے درختوں میں داخل ہونے، اس کے حوضوں کے چشموں سے سیراب ہونے، نور کے برجوں سے موتیوں کی بارش طلب کرنے اور ان موتیوں کو مندرجہ ذیل سطور کی لڑی میں پرونے کا خیال پیدا ہوا، تاکہ انہیں حضرت سید الشہداء صکے مزار مقدس کے پاس مقرر عمل (ایصال ثواب) کے بعد پڑھا جائے، خصوصاً آپ کی خصوصی زیارت [2] کی رات جس کی روشن صبح ابر آلود نہیں ہوتی بلکہ اجلی اجلی ہوتی ہے، مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ اور باکمال بندوں کے ذکر سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی موسلادھار بارشیں حاصل کی جائیں۔
میں کہتا ہوں کہ وہ سیدنا حمزہ ابن عبد المطلب بن ہاشم، نبی اکرم ﷺ کے چچا اور رضاعی بھائی ہیں، ابو لہب کی آزاد کردہ کنیز ثوبیہ نے ان دونوں ہستیوں اور حضرت ابو سلمہ ابن عبد الاسد مخزومی (حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پہلے شوہر) کو دودھ پلایا تھا۔
حضرت حمزہ ث کی عمر نبی اکرم ﷺ سے دو سال اور ایک قول کے مطابق چار سال[3] زیادہ تھی، ان دونوں ہستیوں کو مختلف اوقات میں [4] دودھ پلایاگیا، حضرت سیدالشھداء اور حضرت صفیہ (نبی اکرم ﷺکی پھوپھی) کی والدہ، ھالہ بنت اھیب بن عبد مناف بن زہرہ، نبی اکرم ﷺکی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی چچا زاد بہن تھیں۔
آپ کی اولاد میں سے پانچ بیٹے تھے، چار کے نام یہ ہیں:
۱۔ یعلی[5] ۲۔عمارۃ[6] ۳۔عمرو … اور… ۴۔ عامر
دو بیٹیاں تھیں:
۱۔ ام الفضل[7] ۲۔امامہ[8] اس وقت حضرت سید الشھداء کی اولاد میں سے کوئی نہیں ہے[9]
اللھم ادم دیم الرضوان علیہ وامد نا بالا سرار التی اودعتھا لدیہ
اے اللہ! ان پر رحمت و رضوان کی موسلادھار بارش ہمیشہ برسا اور جو اسرار تو نے ان کے پاس امانت رکھے ہیں، ان کے ساتھ ہماری امداد فرما۔ حضرت سید الشہداء صبہادر، سخی، نرم خوش اخلاق، قریش کے دلاور جوان اور غیرت مندی میں انتہائی بلند مقام کے مالک تھے۔
بعثت کے دوسرے سال [10] اور ایک قول کے مطابق چھٹے سال[11] مشرف باسلام ہوئے، اسلام لانے کے دن انہوں نے سنا کہ ابو جہل،نبی ﷺ کی شان میں نازیبا کلمات کہہ رہا ہے تو آپ نے حرم مکہ شریف میں اس کے سر پر اس زور سے کمان ماری کہ اس کا سر کھل گیا۔[12]
حضرت حمزہ نے نبیﷺ سے گزارش کی…بھتیجے! اپنے دین کا کھل کر پرچار کیجئے !اللہ تعالیٰ کی قسم ! مجھے دنیا بھر کی دولت بھی دے دی جائے تو میں اپنی قوم کے دین پر رہنا پسند نہیں کروں گا، ان کے اسلام لانے سے رسول اللہﷺ کو تقویت حاصل ہوئی اور مشرکین آپ کی ایذا رسانی سے کسی حد تک رک گئے، بعد ازاں ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے۔
رسول اللہﷺ نے جو پہلا جھنڈا تیار کیا وہ سید الشہداء ہی کے لیے تھا [13]، جب ۲ھ ؍ ۶۲۳ء میں حضور سید عالمﷺ نے انہیں قوم جھینہ کے علاقے میں سیف البحر کی طرف (ایک دستے کے ہمراہ ) بھیجا، جیسے کہ مدائنی نے کہا ہے[14]۔
ابن ہشام نے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے یہ اشعار نقل کیے ہیں [15]۔
فما برحوا حتی انتدبت بغارۃ لھم حیث حلوا ابتغی راحتہ الفضل بامر رسول اللہ اول خافق علیہ لو لم یکن لاح من قبلی
O وہ اسلام کی دشمنی سے باز نہیں آئے، یہاں تک کہ میں ان کے ہر ٹھکانے پر حملے کے لیے آگے بڑھا، فضیلت کی راحت حاصل کرنا میرا مقصود تھا۔
O رسول اللہﷺ کے حکم پر میں پہلا تلوار چلانے والا تھاجس کے سر پر جھنڈا تھا، یہ جھنڈا مجھ سے پہلے ظاہر نہ ہوا تھا۔
حضرت سید الشہداء ث جنگ بدر میں اس حال میں شامل ہوئے کہ انہوں نے شتر مرغ[16] کا پر اپنے اوپر بطور نشان لگایا ہوا تھا ، انہوں نے اس جنگ میں زبردست جانبازی کا مظاہرہ کیا، رسول اللہﷺ کے آگے دو تلواروں [17] کے ساتھ لڑتے رہے،کفارکے سورماؤںکو بکھیر دیا اور مشرکین کو کاری زخم لگائے [18] ۔
حضرت سید الشہداء ث جنگ احد کے دن خاکستری اونٹ اور پھاڑنے والے شیر دکھائے دیتے تھے، انہوں نے اپنی تلوار سے مشرکین کو بری طرح خوف زدہ کردیا، کوئی ان کے سامنے ٹھہرتا ہی نہ تھا۔
غزوہ احد میں آپ نے اکتیس مشرکوں کو جہنم رسید کیا، جیسا کہ امام نووی رحمۃا للہ تعالیٰ علیہ نے بیان فرمایا [19]، پھر آپ کا پاؤں پھسلا تو آپ تیر اندازوں کی پہاڑی کے پاس واقع وادی میں پشت کے بل گرگئے، زرہ آپ کے پیٹ سے کھل گئی، جبیر بن مطعم کے غلام وحشی بن حرب نے کچھ فاصلے سے خنجر پھینکااور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں آپ کو مرتبہ شہادت سے سرفراز فرمایا، یہ واقعہ ہفتے کے دن نصف شوال کو ۳ھ [20] یا ۴ھ[21] (۶۲۴ء یا ۶۲۵ئ) کو پیش آیا، اس وقت آپ کی عمر ۵۷ سال تھی۔
ایک قول کے مطابق آپ کی عمر شریف ۵۹ سال[22] اور ایک دوسرے قول کے مطابق ۵۴ سال تھی۔[23]
پھر مشرکین نے آپ کے اعضاء کاٹے اور پیٹ چاک کیا ، ان کی ایک عورت نے آپ کا جگر نکال کر منہ میں ڈالا اور اسے چبایا، لیکن اسے اپنے حلق سے نیچے نہ اتار سکی، ناچا ر ا سے تھوک دیا۔[24]
جب رسول اللہ ا کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا:
اگر یہ جگر اس کے پیٹ میں چلا جاتا تو وہ عورت آگ میں داخل نہ ہوتی،[25] کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حمزہ کی اتنی عزت ہے کہ ان کے جسم کے کسی حصے کو آگ میں داخل نہیں فرمائے گا۔[26]
اللھم ادم دیم الرضوان علیہ وامد نا بالا سرار التی اودعتھا لدیہ
جب رسول اللہﷺ تشریف لائے اور آپ کے مثلہ کیے ہوئے جسم کو دیکھا، تو یہ منظر آپ کے دل اقدس کے لیے اس قدر تکلیف دہ تھا کہ اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر آپ کی نظر سے کبھی نہیں گزراتھا، اسے دیکھ کر آپ کو جلال آگیا، آپ نے فرمایا:
’’تمھارے جیسے شخص کے ساتھ ہمیں کبھی تکلیف نہ دی جائیگی، ہم کسی ایسی جگہ کھڑے نہیں ہوئے جو ہمیں اس سے زیادہ غضب دلانے والی ہو۔‘‘
اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ ولئن صبرتم لھو خیر للصابرین وما صبرک الا باللہ ولا تحزن علیھم ولا تک فی ضیق مما یمکرون ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون۔[27]
ترجمہ: اور اگر تم سزا دو تو اتنی ہی دو جتنی تمہیں تکلیف دی گیٔ اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے، آپ صبر کیجئے! اور آپ کا صبر اللہ ہی کے بھروسے پر ہے، آپ ان کے بارے میں غمگین اور تنگ دل نہ ہوں ان کے فریبوں کے سبب، بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی ہیں اور ان کے ساتھ جو نیکوکار ہیں
نبی اکرم ﷺنے عرض کیا : ’’اے رب ! بلکہ ہم صبر کریں گے۔‘‘
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ اے چچا! آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، کیونکہ آپ جب تک عمل کرتے رہے، بہت نیکی کرنے والے اور بہت صلہ رحمی کرنے والے تھے۔‘‘[28]
پھر ان کے جسد مبارک کو قبلہ کی جانب رکھا اور ان کے جنازے کے سامنے کھڑے ہوئے اور اس شدت سے روئے کہ قریب تھا کہ آپ پر غشی طاری ہوجاتی۔
نبی اکرم ﷺفرمارہے تھے:
’’ اے اللہ تعالیٰ کے رسول کے چچا! ـــــــــــ اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺکے شیر!ـــــــــــ اے حمزہ! اے نیک کام کرنے والے!ـــــــــــــ اے حمزہ! مصیبتوں کے دور کرنے والے ـــــــــــــ اے حمزہ! ــــــــــــ رسول اللہ ﷺ کا دفاع کرنے والے!‘‘ [29]
یہ بھی فرمایا: ہمارے پاس جبرائیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور ہمیں بتایا کہ حضرت حمزہ کے بارے میں ساتوں آسمانوں میں لکھا ہوا ہے:
ـ’’ حمزہ ابن عبد المطلب، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ا کے شیر ہیں ۔‘‘[30]
حاکم نیشاپوری، مستدرک میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا (یعنی رسول اللہﷺ کا فرمان) روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میںحضرت حمزہ ابن عبد المطلب شفاعت کرنے والوں کے سردار ہیں۔[31]
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
افمن وعدناہ وعدا حسنا فھو لاقیہ[32]۔
کیا جس شخص سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہے وہ اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔
سدی کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت حمزہ ث کے بارے میں نازل ہوئی۔[33]
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یاایتھا النفس المطمئنہ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ۔ [34]
ترجمہ: ’’ اے اطمینان والی جان! تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ جا کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔‘‘
سلفی کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت حمزہ ث ہیں۔[35]
نبی اکرم ﷺ نے انہیں ایسی چادر کا کفن پہنایا کہ جب اسے آپ کے سر پر پھیلاتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے اور پاؤں پر پھیلاتے تو سر ننگا ہوجاتا، چنانچہ وہ چادر آپ کے سر پر پھیلادی گئی اور پاؤں پر اذخر (خوشبودار گھاس) ڈال دی گئی۔[36]
نبی اکرم ﷺ نے آپ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، یہی زیادہ صحیح ہے[37]، یا ان کی نماز جنازہ کا نہ پڑھنا ان کی خصوصیت ہے[38]۔ انہیں ایک ٹیلے پر دفن کیا، جہاں اس وقت ان کی قبر انور مشہور ہے [39] اور اس پر عظیم گنبد ہے، یہ گنبد خلیفہ الناصر لدین اللہ احمد بن المستضئی العباسی کی والدہ نے ۵۹۰ ھ میں تعمیر کروایا۔
کہا جاتا ہے کہ قبر میں ان کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن جحش [40] اور حضرت مصعب بن عمیر[41]، بعض علماء نے کہا کہ حضرت شماس بن عثمان ہیں، آپ کے مزار شریف کے سرہانے سید حسن بن محمد بن ابی نمی کے بیٹے عقیل کی قبر ہے، مسجد کے صحن میں بعض سادات امراء کی قبریں ہیں۔
اللھم ادم دیم الرضوان علیہ وامدنا بالا سرار التی اود عتھا لدیہ
جب نبی اکرم ﷺ غزوہ احد کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لائے تو انصار کی عورتوں کو اپنے شہیدوں پر روتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا:
’’لیکن حمزہ پر کوئی رونے والیاں نہیں ہیں[42]۔‘‘
اور آپ پر گریہ طاری ہوگیا، انصار نے اپنی عورتوں کو حکم دیا کہ اپنے شہیدوں سے پہلے حضرت حمزہ پر روئیں، ایک مدت تک انصار کی خواتین کا معمول یہ رہا کہ وہ جب بھی کسی میت والے گھر جاتیں تو پہلے حضرت حمزہ پر روتیں[43]۔
حضرت کعب بن مالک انصاری اپنے قصیدے میں اظہار غم کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
ولقد ہددت لفقد حمزہ
ھدۃظلت بنات الجوف منھا ترعدولو
انہ فجعت حراء بمثلہ
لرایت راسی صخرھا یتھدد
قرم تمکن من ذؤابہ ھاشم
حیث النبوۃ والندا والسؤدد
والعاقر الکوم الجلاد اذا غدت
ریح یکاد الماء منھا یجمد
والتارک القرن الکمی مجندلا
یوم الکریھۃ والقنا یتقصد
وتراہ یرفل فی الحدید کانہ
ذو لبدۃ شثن البراثن اربد
عم النبی محمد و صفیہ
ورد الحمام فطاب ذاک المورد
وافی المنیۃ معلما فی اسرۃ
نصروا النبی ومنھم المستشھد
اللھم ادم دیم الرضوان علیہ
وامد نا بالا سرار التی اود عتھا لدیہ [44]
O حضرت حمزہ کے رحلت فرما جانے سے مجھ پر ایسا صدمہ ہوا ہے کہ میرا دل اور جگر لرز اٹھے ہیں۔
O ایسا صدمہ اگر جبل حرا کو پہنچایا جاتا تو دیکھتا کہ اس کی چٹانوں کے دونوں کنارے تھرا اٹھتے۔
O وہ ہاشمی خاندان کے معزز سردار تھے جہاں نبوت، سخاوت اور سرداری ہے۔
O وہ طاقتور جانوروں کے گلے کو ذبح کرنے والے تھے جب ٹھنڈی ہوا سے پانی جمنے کے قریب ہوتا تھا(یعنی سخت سردی کے موسم میں)
O جنگ کے دن جب نیزے ٹوٹ رہے ہوں وہ بہادر مد مقابل کو کشتہ تیغ بنادیتے تھے۔
O تو انہیں مسلح ہوکر فخر سے چلتا ہوا دیکھتا (تو کہتا کہ) وہ خاکستری رنگ والا، مضبوط پنجوں والا، عیال دار(شیر)ہے۔
O وہ نبی اکرم ﷺ کے چچا اور برگزیدہ اصحاب میں سے ہیں، انہوں نے موت کے منہ میں چھلانگ لگائی تو وہ جگہ خوشگوار ہوگئی۔
O انہوں نے اس حال میں موت سے ملاقات کی کہ ان پر(شتر مرغ کے پر کا) نشان لگا ہوا تھا، وہ مجاہدین کی ایسی جماعت میں تھے جس نے نبی اکرم ﷺکی امداد کی اور ان میں سے کچھ لوگ مرتبہ شہادت پر فائز ہوگئے۔
اللھم ادم الدیم الرضوان علیہ وایدنا بالاسرار التی اودعتھا لدیہ
ان کے علاوہ جن حضرات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس دن شہادت سے نوازے گئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے اعمال صالحہ کی اچھی خبر اور زیادہ اجر دیا گیا، ان کے ناموں کی فہرست حسب ذیل ہے۔[45]
(۲)
مہاجرین:
ثقف بن عمر و ، الحارث بن عقبہ، سعد حاطب کے مولیٰ،شماس بن عثمان،عبد اللہ بن جحش حضرت حمزہ کے بھانجے،عبد اللہ بن الھبیب، عبد الرحمٰن بن الھبیب، عقربہ بن عقربہ،مالک بن خلف…مصعب بن عمیر، نعمان بن خلف یہی ابن قابوس ہیں۔
قبیلہ اوس:
انیس بن قتادہ، ایاس بن اوس بن عتیک،ثابت بن الدحداح،ثابت بن عمرو بن زید،ثابت بن وقش،حارث بن انس بن رافع،حارث بن اوس معاذ، حارث بن عدی بن خرشۃ،حباب بن قیظی،حبیب بن زید بن تیم، حسیل بن جابر،حنظلہ بن ابی عامر، خداش بن قتادۃ ، خیثمۃ بن حارث، رافع بن یزید، رفاعہ بن عبد المنذر، رفاعہ بن وقش،زیاد بن السکن،زید بن ودیعہ،سبیع بن حاطب بن الحارث،سلمہ بن ثابت بن وقش،سھل بن رومی،سھیل بن عدی،صیفی بن قیظی بن عمرو،عامر بن یزید، عباد بن سھل،عبد اللہ بن جبیر بن نعمان،عبد اللہ بن سلمۃ،عبید بن التیہان،عمارہ ابن زیاد بن السکن، عمرو بن ثابت، عمرو بن معاذ بن النعمان،عمیر بن عدی، قرۃ بن عقبہ،قیس بن حارث،مالک بن نمیلہ،معبد بن مخرمہ،یزید بن حاطب بن امیہ، یزید بن السکن، یسار ابوالھیثم کے مولیٰ، ابو حبہ بن عمرو بن ثابت،ابو حرام عمرو بن قیس،ابو سفیان بن حارث بن قیس۔
قبیلہ خزرج:
انس بن النضر،اوس بن الارقم بن زید،اوس ثابت بن المنذر،ایاس بن عدی،ثعلبہ ابن سعد بن مالک،ثقب بن فروہ،الحارث بن ثابت بن سفیان،الحارث بن ثابت بن عبداللہ الحارث بن عمرو،خارجہ ابن زید،خلاد بن عمرو بن الجموح،ذکوان بن عبدقیس،رافع غزیہ کے مولیٰ،رافع بن مالک،رفاعہ ابن عمرو، سعد بن الرابیع،سعد عبید،سعد بن سوید بن قیس،سلمہ ابن ثابت بن وقش،سلیم بن الحارث،سلیم بن عمرو،سھل بن قیس بن ابی کعب،ضمرۃ بن عمرو،عامر بن امیہ،عامر بن مخلد،عباس بن عبادہ،عبد اللہ بن الربیع،عبد اللہ بن عمرو بن وھب،عبد اللہ بن قیس،عبدۃ بن الحسحاس،ابن المعلی بن لوذان،عتبہ ابن ربیع،عمرو بن الجموح،عمرو بن قیس بن زید،عمرو بن مطرف بن علقمہ عنترہ مولیٰ سلیم ، قیس بن عمرو،قیس بن مخلد،کیسان مولیٰ بنی النجار،مالک بن ایاس،مالک بن سنان،المجذر بن زیاد،نعمان بن عبد عمرو،نعمان بن مالک بن ثعلبہ،نوفل بن عبد اللہ،ابو ایمن مولیٰ بن الجموح،ابو ھبیرہ ابن الحارث،ابو زید(رضی اللہ تعالیٰ عنہم)
اس میں شک نہیں کہ التباس سے محفوظ،راجح قول کے مطابق شہداء احد کی تعداد ستر ہے،[46]اس تعداد میں زیادتی،تفصیل میں اختلاف کے سبب پیدا ہوئی،جیسے کہ حضرت ابن سید الناس نے بیان فرمایا: [47]
اے اللہ! ان سب سے راضی ہوا اور ہمیں بہتر نصرت و امداد عطا فرما۔
(۳)
شہداء کے بارے میں وہ فضائل وارد ہیں جن کے سننے والے کوفضیلت اور زینت حاصل ہوتی ہے،یہ وہ نفیس فضائل ہیں جن تک امنگوں اور آرزوؤں کی رسائی نہیں ہوتی۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں زخمی کیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اس حال میں اٹھائے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہوگا،جس کا رنگ خون جیسا اور خوشبو کستوری جیسی ہوگی۔[48]
نبی اکرمﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جب تمہارے بھائی احد میں شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحوں کو سبز پرندوں کے پوٹوں میں جگہ عطا فرمائی،وہ جنت کی نہروں پر اترتے ہیں،جنت کے پھل کھاتے ہیں اور عرش کے سائے میں معلق قندیلوں میں آرام کرتے ہیں،جب انہوں نے بہترین کھانے اور شاندار استقبال دیکھا تو انہوں نے کہا:
کاش ہمارے بھائی جان لیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے کیا کچھ تیار کیا ہے،تاکہ وہ جہاد سے بے رغبت نہ ہوجائیں اور جنگ سے منہ نہ موڑ لیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ـتمہاری طرف سے میں انہیں پیغام پہنچا دیتا ہوں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مکرم ﷺ پر یہ آیت نازل فرمائی۔ [49]
ولا تحسبن الذی قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون فرحین بما آتاھم اللہ من فضلہ و یستبشرون بالذین لم یلحقوا بھم من خلفھم ان لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔[50]
اور تم اللہ کے راستے میں قتل کیے جانے والوں کو مردہ ہر گز گمان نہ کرنا،بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں،رزق دیے جاتے ہیں،اس نعمت پر خوش ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کی اور خوش ہوتے ہیں ان لوگوں کے ذریعے جو ان سے لاحق نہیں ہوئے ان کے پیچھے سے،اس بات پر کہ ان پر کوئی خوف نہیں اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔[51] (یہ دنیا کی زندگی جیسی حقیقی زندگی ہے)
شہداء اکرام نماز پڑھتے ہیں،روزہ رکھتے ہیں،حج کرتے ہیں،کھاتے پیتے ہیںاس لیے نہیں کہ انہیں کھانے پینے کی حاجت ہے بلکہ محض انعام و اکرام کے طور پر[52]،وہ اپنی قبروں سے نکلتے ہیں ،دنیا اور عالم بالا میں تصرف کرتے ہیں [53] ، تمھارے لیے کافی ہے کہ انہیںایسے فضائل حاصل ہیں جن میں وہ انبیاء کرام کے ساتھ شریک ہیں۔
چالیس سال کے بعد شہداء احد کی قبریں کھولی گئیں تو ان کے جسم تروتازہ تھے،ان کے ہاتھ پائوں مڑ جاتے تھے اور ان کی قبروں سے کستوری کی خوشبو آتی تھی[54]۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پائوں پر کدال لگ گیا تو اس سے خون بہنے لگا، جیسے کہ انسان العیون میں ہے[55]۔حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کے والد ماجد(حضرت عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ) کا ہاتھ چہرے کے زخم سے ہٹایا گیا تو وہاں سے خون بہنے لگا،ہاتھ دوبارہ اسی جگہ رکھ دیا گیا تو خون بند ہو گیا۔[56]
علامہ بقاعی بلقاء کے رہنے والوں کی قابل اعتماد جمیعت سے روایت کرتے ہیں[57] کہ انہوں نے مقام موتہ(شام کی ایک جگہ جہاں غزوہ موتہ واقع ہوا) میں شہداء موتہ کواپنے گھوڑوںپر سوار ہو کر چلتے پھرتے دیکھا،دیکھنے والا جب اس جگہ پہنچا جہاں ان شہداء کو دیکھا تھا تو وہ اس جگہ سے دور کسی اور جگہ دکھائی دیے،اسی طرح وہ اس کی نظروں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے۔
نبی اکرم ﷺ نے شہداء احد کے بارے میں بیان فرمایا کہ جو شخص قیامت تک ان کی زیارت کرے گا اور ان کی خدمت میں سلام عرض کرے گا تو وہ اسے جواب دیں گے[58]۔نیک لوگوں کی ایک جماعت نے سنا کہ جس شخص نے شہداء احد کی بارگاہ میں سلام عرض کیا تو انہوں نے جواب دیا۔
نبی اکرم ﷺ ہر سال کے آخر میں شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے اور فرماتے:
سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار
تم پر سلام ہوتمہارے صبر کے سبب، دار آخرت کیا ہی اچھی دار ہے۔
اہل مدینہ رجب کے مہینے میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی زیارت کرتے ہیں،یہ حدیث اس عمل کی دلیل بن سکتی ہے،جنید مشرعی کے خاندان کے بعض افراد نے اس زیارت کو رواج دیا،انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ انہیں زیارت کا حکم دے رہے ہیں[59]۔
(۴)
اے اللہ!ان سب شہداء سے راضی ہو،اور ہمارے لیے عظیم ترین ناصر اور مددگارہو!
جب ہمارا راہوارقلم اپنا سفر طے کر چکا اور ہر صاحب عقل و خرد کے لیے شہداء کی حقیقی زندگی سے مقصود واضح ہوگیا تو ہم شہداء اکرام کے جود و سخا کے بادل سے لطف و کرم کی بارش طلب کرنے اور ان کے اخلاق عالیہ سے فیض اور بخشش کے روح پرور موتیوں کی برسات کی درخواست کرنے کے لیے انہیں یاد کرتے ہیں۔
اے شہداء کرام! اے ارجمندو! تم نے فوزوفلاح کا مقصد جلیل حاصل کرلیا اور رب کریم کی خوشنودی کے لیے تلوار کے سائے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردیا،تمہیں یہ نوید جانفزادی گئی۔
فاستبشروا ببیعکم الذی بایعتم بہ
تمہیں یہ سودا مبارک ہو جس میں تم نے (اپنی جانوں کو) بیچ دیا ہے۔ تو جنت تمہارا ٹھکانہ بن گئی اور تم نے اپنی تلواروں کے لیے مشرکوں کی کھوپڑیوں کو میان بنادیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ تم سے راضی ہوا اور تمہیں راضی کردیا۔
O تمھارے فضائل قرآن پاک نے بیان کیے ہیں، تم وہ اصحاب محبت ہو جنہیں تعظیم و تکریم کی مختلف قسموں سے نوازا گیا، تم وہ زندہ جاوید ہو جنہیں جنت میں رزق دیا جاتا ہے اور تمہارے وسیلے سے بارش کی دعا کی جاتی ہے۔
O تمہاری ذات مطلع انور ہے، تم برکت اور امان کے چمکتے ستارے ہو، تم کامیابی اور رضائے الہی کے سفیر ہو، تم نے بلند و بالا نیزوں کے درمیان جانبازیوں کی بدولت شہادت کا اعلی ترین جام نوش کیا، تم سراپا کرم سردار ہو، مقابلے کے وقت تمہارا ایک ہی مطالبہ تھا کہ اترو اور سامنے آؤ، تم ہدایت کے درخشندہ ستارے ہو، تم دشمنوں کے لیے شہاب ثاقب ہو، ہر دوست کے لیے تریاق اور ہر دشمن کے حق میں زہر ہو، تم خوفناک حادثے میں امداد فراہم کرنے والے اور ہر رسوا کن تکلیف کے وقت جائے پناہ ہو۔
O ہم آپ کی بارگاہ میں حاضر ہونے والے فقیر ہیں، آپ کے اونچے پہاڑ کے پہلو میں پناہ لینے والے کمزور ہیں، آپ کی مضبوط اور ناقابل شکست رسی کو پکڑنے والے ہیں اور آپ کے مستحکم وسیلے کو اپنانے والے ہیں جومقصد تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔
O آپ ہمارے غم دور کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، ہماری مصیبت جلد دور کیجئے! ایک لمحے کے لیے اپنی اکسیر نظر کی سعادت بخشئے! اپنی عنایت کی خوشبو کا ایک جھونکا ہمیں عنایت فرمائیں، قوت و طاقت کے ساتھ ہماری امداد فرمائیں اور ایسے عزم اور ہمت سے ہماری دستگیر ی فرمائیں کہ دشمنوں کا ہر حملہ اور مکر پسپا ہوجائے۔
O سادات کرام! اگرچہ ہم دستگیری کے لائق نہیں ہیں لیکن آپ حضرات تو لطف و عنایت اور چشم پوشی کے اہل ہیں اگر ہمارے اعمال کے راستے انتہائی ناہموار ہیں لیکن آپ کی بارگاہ تو پناہ گزینوں کے لئے پر سہولت اور کشادہ ہے۔
O اے اللہ! اے وہ ذات جس کی بارگاہ بیکس پناہ میں زمین و آسمان کی مخلوقات کی آوازیں فریاد کناں ہیں، جسے سوالات مغالطے میں نہیں ڈال سکتے، جس کے لئے زبانوں کا اختلاف اور سوالات کی کثرت کوئی مسئلہ نہیں۔
O اے وہ ذات کہ تو محتاجوں کی حاجتوں کا مالک ہے اور امید واروں کے دلوں کی باتیں جاننے والا ہے، ہم تجھ سے ارباب فضیلت کے دولہا ﷺ کہ طفیل دعا کرتے ہیں، جن کا راز بلندیوں اور پستیوں کے چہروں میں سرایت کیے ہوئے ہے، وہ آیات بیّنات کا نور اور کلمات تامّہ کے رسول، عالم بالا کی مخلوقات کے امام اعظم، میدان محشر کے کلام کرنے والے خطیب، ذات باری تعالیٰ کی مراد کے سفیر اور اسماء و صفات کی جلالت کے پاسبان ہیں اور آپ کی آل پاک کے طفیل جن کے نیکو کاروں اور خطا کاروں کے بارے میں آپ نے وصیت فرمائی اور ہر ایمان دار مرد اور عورت کو ان کی محبت کی تلقین فرمائی اور آپ کے صحابہ کرام کے طفیل جنہوں نے ازل سے مقرر کردہ سعادت کی بدولت اسلام کی قوت کو مستحکم کیا، خصوصاً وہ صحابہ کرام جنہوں نے تیری خوشنودی کے لئے جان کی بازی لگا دی اور انکا خاتمہ شہادت پر ہوا۔
O ہماری درخواست یہ ہے کہ ہماری دعا قبول فرما، اپنے فضل کے فیض سے ہمارے برتن بھر دے، ہمارے عیوب کو ڈھانپ دے، ہماری بے چینیوں کو چین عطا فرما، ہمارے مقاصد پورے فرما، ہمیں ان کاموں کی توفیق عطا فرما جو ہمیں موت کے بعد فائدہ دیں، ہمارے درجات بلند فرما، ہمیں عظیم اجر و ثواب عطا فرما، اپنی رضا سے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرما، ہمارے ذمہ حقوق اور قرضوں سے ہمیں سبکدوش فرما، ہماری اولادوں کی اصلاح فرما، ہماری برائیوں کو نیکیوں سے تبدیل فرما، ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جن کے باطن تیرے ذکر سے مسرور ہیں، جو تیرے شکر سے رطب اللسان ہیں جو تیرے احکام کے لئے سراپا اطاعت ہیں، جن کے دل تیری وعید اور خفیہ تدبیر سے لرزاں ہیں، تنہائیوں میں تجھے یاد کرنا انکا میدان ہے اور اسی میں انکا دل خوش رہتا ہے، سحری کے اوقات میں عرض نیاز سے انہیں راحت ملتی ہے اور انکا دل و دماغ معطر ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ذکر ان کے لئے باغ و بہار ہے اور قرآن پاک کی تلاوت ان کے لئے نعمتوں اور برکتوں کا خزانہ ہے۔
O اے اللہ! اس روشن انوار والی بارگاہ کے صاحب (حضرت حمزہ) کے طفیل ہماری دعا ہے کہ ہم سب کو آتش جہنم کے شعلوں سے رہائی عطا فرما، کدورتیں دور فرما، ہلاکتوںسے محفوظ فرما، بکثرت بارشیں عطا فرما، اشیاء ضرورت سستی فرما، اطراف و جوانب کو امن عطا فرما، قریب و بعید اور پڑوسیوں پر رحم فرما، ارباب حکومت اور رعایا کی اصلاح فرما، اسلامی لشکروں اپنی نصرت سے تقویت عطا فرما، اپنے دشمن کافروں میں اپنے قہر کا حکم نافذ فرما اور انہیں مسلمانوں کے لیے مال غنیمت بنا۔
O اے اللہ تعالی اور اس کے رسول ا کے شیر! ہم آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ہیں، ہم امید رکھتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص کی درخواست قبول کی جائیگی، ہم نے اپنی امیدوں کی کجاوے آپ کی بارگاہ میں اتارے ہیں، آپ کے دربار کرم میں حاضر ہیں، آپ کی شان یہ نہیں ہے کہ آپ ہمیں نظر انداز کر دیں، ہم نے آپ کی جود و سخا کے بھر پور برسنے والے بادلوں سے بارش طلب کی ہے۔
یارب قد لذنا بعم نبینا
رب المظاھر قدست اسرارہ
فا قل عثار من استجار بعمہ
او زارہ لتکفرن اوزارہ
والطف بنا فی المعضلات فاننا
بجوار من لا شک یکرم جارہ
واختم لنا باالصالحات اذ دنا
منا الحمام وانشب اظفارہ
ثم الصلاۃ علی سلالۃ ھاشم
من طاب محتدہ و طاب نجارہ
والآل والصحب الکرام اولی التقی
صید الانام ومن ھم انصارہ
ما انشدت طرباً مطوقۃ الشظی او ناح بالالحان فیہ ھزارہ
O اے رب کائنات! ہم نے مظہر نعمت و قدرت اپنے نبی ا کے چچا کی پناہ لی ہے، انکے اسرار کو تقدس عطا کیا جائے۔
O اس شخص کی لغزشوں کو معاف فرما جس نے نبی اکرم ا کے محترم چچا کی پناہ لی ہے یا گناہوں کی مغفرت کے لیے انکی زیارت کی ہے۔
O مشکلات میں ہم پر مہربانی فرما، کیونکہ ہم اس ہستی کے جوار میں ہیں جو بلا شک و شبہ اپنے پڑوسیوں کی عزت افزائی کرتی ہے۔
O جب موت ہم سے قریب ہو اور اپنے پنجے گاڑ دے تو اعمال صالحہ پر ہمارا خاتمہ فرمانا پھر صلوۃ و سلام ہو بنو ھاشم کے خلاصہ پر جنکا حسب و نسب تیب و طاہر ہے۔
O اور مخلوق کے سرداروں اور نبی اکرم ا مددگاروں، اور تقویٰ شعار آل پاک اور صحابہ کرام پر صلوٰۃ وسلام ہو۔
O جب تک کسھی دار کبوتر مسرت بھرے لہجے میں چہچہاتے رہیں یا بلبل ہزاز داستان دلکش آوازوں کے ساتھ نغمہ سرا رہے۔
سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۔وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ۔ وَالحَمدُ لِلَّہِ رَبِّ العَالِمِین
منقبتِ سید الشہداء حضرت سیدنا حمزہ ث
آپ ہیں دین کے نگہبان جناب حمزہ رضی اللہ عنہ
ہے اٹل اپنا یہ ایقان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ
ناز کرتی ہے تواریخ شجاعت پہ ُہنوز
قابل رشک ہے یہ شانِ جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ
جس جگہ نوش کیا جام شہادت بے خوف
ہے شفق زار وہ میدان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ
انتہا ہے یہ محمدﷺ سے وفاداری کی
کر گئے جان بھی قربان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ
دل میں قندیل عقیدت ہی رہیگی روشن
ہے جسے آپ کا عرفان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ
بن گئی شمع رسالت کے لئے اک فانوس
جب اُٹھا کُفر کا طوفان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ
خواب ہی میں کبھی دیدار میّسر ہو مجھے
ہے میرے دل کا یہ ارمان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ
ماری اس زور سے بو جہل کے چہرے پہ کمان
قوت کفر تھی حیران جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ
بزم ہستی میں ہمیشہ ہی رہے گا چرچا
ہے یہ الطافؔ کا ایمان جناب حمزہ رضی اللہ عنہ
[1](۱) تذکرہ کے مراجع و مآخذ :
(۱)) الزبیدی،المعجم المخصص (مخطوطہ) (۲)) الزرکلی، الاعلام، ۲؍۱۲۳ (۳) الجبرتی،عجائب الاثار ، ۱؍۴۰۳
(۴)) المرادی سلک الدرر ، ۲؍۹ (۵) اسمعیل شاہ بغدادی، ہدیۃ العارفین، ۱؍۲۵۵
(۶)) عمر رضا کحالہ، معجم المؤلفین، ۳؍۱۳۷
[2] زمانہ ماضی میں اہل مدینہ کا معمول تھا کہ ماہ رجب کی بارہویں رات حضرت سید الشہداء کی زیارت کے لیے حاضر ہوتے اور اجتماع میں آپ کی سیرت اور غزوہ احد کا تذکرہ ہوتا۔
[3] ابن عبد البر نے کہا کہ میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے، (الاستیعاب، ۱؍۲۷۱ جب کہ ابن اثیر نے اسے صحیح قرار دیاہے، (اسد الغابۃ، ۲؍۵۱)
[4] استیعاب (۱؍۲۷۱) میں ہے کہ ثوبیہ نے ان دو ہستیوں کو دو زمانوں میں دودھ پلایا، ابن سعد (طبقات ، ۱؍۸۷) میں حضرت برہ بنت ابی تجراۃ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو پہلے پہل ثوبیہ نے اپنے بیٹے مسرح کے ساتھ، حضرت حلیمہ سعدیہ کے آنے سے پہلے چند دن دودھ پلایا، آپ سے پہلے وہ حضرت حمزہ بن عبد المطلب کو دودھ پلا چکی تھیں اور آپ کے بعد ابو سلمہ ابن عبد الاسد مخزومی کو دودھ پلایا، (دیکھئے ذخائر العقبی، ص ۱۷۲)
[5] ان کی نسبت سے آپ کی کنیت ابویعلی تھی (الاستیعاب، ۱؍۲۷۱۔ الطبقات ، ۳؍۵۔) صفۃالصفوۃ، ۱؍۳۷۰)
[6] ان کی نسبت سے آپ کی کنیت ابو عمارہ تھی (الاستیعاب، ۱؍۲۷۱۔الاصابتہ، ۱؍۳۵۳۔ الطبقات، ۳؍۵۔ صفۃالصفوۃ ۱؍۳۷۰)
[7] اسد الغابۃ، ۷؍۳۷۸
[8] دیکھئے طبقات ابن سعد، ۳؍۵۔ صفۃ الصفوۃ، ۱؍۳۷۰)
[9] ابن سعد کہتے ہیں کہ امیر حمزہ بن عبدالمطلب کی اولاد اور نسل باقی نہیں رہی (الطبقات ۵؍۳)
[10] اسد الغابۃ، ۲؍۵۱۔ الاصابۃ، ۱؍۳۵۴۔ الاستیعاب، ۱؍۲۷۱
[11] الطبقات، ۳؍۶۔ الاستیعاب، ۱؍۲۷۱۔ صفۃالصفوۃ، ۱؍۳۷۰
[12] الطبقات، ۳؍۶۔ اسد الغابۃ، ۱؍۵۲۔ السیرۃ الحلبیۃ، ۱؍۲۷۹۔ المستدرک ، ۳؍۲۱۳۔ سیرۃ ابن ہشام، ۱؍۲۹۲۔ صفۃ الصفوۃ ۱؍۳۷۰
[13] اسد الغابۃ، ۱؍۵۲ ۔ الطبقات ۳؍۶۔ الاصابۃ ۳۵۴۱۔ الاستیعاب، ۱؍۲۷۱۔ عیون الاثر، ۱؍۳۵۵۔ ابن ہشام، ۱؍۵۹۵۔ دلائل النبوۃ ۳؍۸۔ مواہب اللدنیہ ۱؍۳۳۶۔ البدایۃ والنہایۃ ۳ ؍۲۴۴۔ صفوۃالصفوۃ، ۱؍۳۷۰۔ ذخائر العقبی، ص ۱۷۵۔ امتاع الاسماع، ۱؍۵۱۔ الواقدی ۱؍۹
[14] ابو الحسن علی بن محمد المدائنی ۱۳۲ھ میں پیدا ہوئے، فتوح اور مغازی کے عالم تھے، ۲۲۴ھ میں فوت ہوئے (سیر اعلام البلائ، ۱۰؍۴۰۰)
[15] ابن ہشام نے وہ قصیدہ نقل کیا جس کا پہلا مصرع ہے الا یا لقومی للتحلم والجھل۔ اس سے پہلے انہوں نے کہا کہ اکثر اہل علم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ یہ اشعار حضرت حمزہ صکے ہیں (ابن ہشام ، ۱؍۵۹۶۔ البدایۃ و النھایۃ ۳؍۲۴۴)
[16] اسد الغابۃ ، ۱؍۵۲۔ ذخائر العقبی ص ۱۷۴
[17] ایضا ، ۱؍۵۲۔ تہذیب الاسما ء واللغات ، ۱؍۱۶۸
[18] ایضا ، ۱؍ ۵۲ (۱۹)
[19] تہذیب الاسما ء واللغات ، ۱؍۱۶۹
[20] اسد الغابۃ ، ۱؍۵۲۔
[21] علامہ حلبی ، سیرت حلبیہ (۲؍۲۱۶) میں غزوہ احد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ غزوہ ماہ شوال ۳ھ میں تھا، اس پر جمہور اہل علم کا اتفاق ہے ، ۴ھ کا قول شاذہے
(اور غیر معتبر)
[22] اکثر روایات اسی قول کی تاکید کرتی ہیں (الطبقات، ۳؍۶۔ اسد الغابۃ، ۲؍۵۴۔ الاستیعاب ، ۱؍۲۷۳۔ رفع الخفاء ، ۱؍۲۱)
[23] ابن اثیر نے ان روایات اور دیگر روایات کا اختلاف بیان کیا ہے۔ (اسد الغابۃ ، ۲؍۵۴)
[24] قریش نے شہداء احد اور خصوصا حضرت حمزہ کا مثلہ کیا۔( دیکھئے ابن ہشام ، ۲؍۹۱۔ المنتظم ۳؍۱۶۹ ۔ الطبقات، ۳؍۶۔ سیر اعلام النبلاء ۱؍۱۷۹، اسد الغابۃ ۱؍۵۳،
سیرت حلبیہ ۲؍۲۴۶۔ مواہب لدنیہ، ۱؍۴۰۷۔ الطبری ۲؍۷۲۔ دلائل النبوۃ ، ۳؍۲۸۵۔ امتاع الاسماع ، ۱؍۱۵۳۔ الواقدی ۱؍۲۸۶
[25] الاستیعاب ۱؍۲۷۴۔ ذخائر العقبی ص ۱۸۲ ۔ امتاع الاسماع ۱؍۱۵۳۔ الواقدی ۱؍۲۸۶
[26] الطبقات میں ہے کہ: ’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے آگ پر حمزہ کے گوشت کے کسی بھی حصے کے چکھنے کو آگ پر ہمیشہ کے لیے کردیا ہے۔‘‘ ایک روایت ہے کہ ’’ اللہ تعالی کی
شان یہ نہیں کہ حمزہ کے کسی حصے کو آگ میں داخل فرمائے۔‘‘ (۳؍۸۔۷) البدایۃ و النھایہ میں بھی یہی روایت ہے (۴؍۴۲)، ذخائر العقبی ص ۱۸۲۔ امتاع الاسماع ۱؍۱۵۳
[27] سورۃ النحل ایت ۱۲۶
[28] دیکھئے اسد الغابۃ، ۲؍۵۳۔ سیر اعلام النبلاء ، ۱؍۱۸۰۔ الاصابۃ ۱؍۳۵۴۔ الاستیعاب، ۱؍۲۷۵۔ الطبقات، ۳؍۹۔ السیرۃ الحلبیۃ، ۲؍۲۴۶۔ الطبری، ۲؍۷۲۔ المواھب اللدنیہ، ۱؍۴۰۷۔ دلائل النبوۃ ، ۳؍۸۸۔۲۸۶۔ المستدرک ، ۳؍۲۱۶ (۴۴۸۷)۔ صفۃ الصفوۃ، ۱؍۳۷۵۔ البدایۃ والنھایہ، ۴ ؍۴۱۔ المنتظم ، ۳؍۸۳۔۱۸۲۔ سبل الھدی والرشاد، ۴؍۳۲۸۔ امتاع الاسماع ۱ ؍۱۵۴۔ الواقدی ۱؍۳۳۱۔
[29] المستدرک ، ۳؍۲۱۸ (۴۸۹۳)(۴۹۹۸)، الاصابۃ، ۱؍۳۵۴۔ ذخائر العقبی، ص ۱۸۱۔ السیرۃ الحلبیۃ، ۲؍۲۴۶۔ رفع الخفائ، ۱؍۲۲۶، سبل الھدی والرشاد، ۴؍۳۲۷
[30] ابن ہشام، ۲؍۹۶۔ذخائر العقبی، ص ۱۷۶۔السیرۃ الحلبیۃ، ۲؍۲۴۷۔ المستدرک، ۳؍۲۱۹ (۴۹۹۸)۔ البدایہ ۴؍۴۱۔ سبل الھدی والرشاد ، ۴؍۳۲۸۔ امتاع الاسماع ، ۱؍۱۵۴۔
رفع الخفائ، ۲۲۶۔ الواقدی، ۱؍۲۹۰۔ وفاء الوفاء ، ۲؍۹۳۵۔ ابن النجار ص ۳۴۷
[31] المستدرک ، ۳؍۲۲۰ (۴۹۰۰)
[32] سورۃ القصص، آیت ۶۱
[33] ذخائر العقبی، ص ۱۷۷
[34] سورۃ الفجر، آیت ۲۷
[35] ذخائر العقبی، ص ۱۷۷
[36] الطبقات، ۳؍۱۰۔ ذخائر العقبی، ص ۸۱۔۸۰۔ اسد الغابۃ ۲؍۵۵ ۔۵۴۔ سبل الھدی والرشاد، ۴؍۳۳۰۔ السیرۃالحلبیۃ، ۲؍۲۴۷۔ امتاع الاسماع ۱؍۱۶۱۔ الواقدی، ۱؍۳۱۱
[37] اس میں اختلاف ہے کہ نبی اکرم ا نے شہداء احد کی نماز جنازہ پڑھی یا نہیں ۔ بعض محدثین نے بیان کیا کہ نبی اکرم انے حضرت حمزہ کی نماز جنازہ پڑھی اور بعض نے نفی کی ہے (تفصیل دیکھئے فتح الباری ، ۳؍۲۴۸ (حدیث ۱۳۴۳)ص ۲۵۲ (حدیث ۱۳۴۷)۔ البیان والتحصیل، ۲؍۲۹۹۔ سبل الھدی والرشاد ، ۴؍۳۶۳۔۳۳۱۔ اسد الغابۃ، ۲؍۵۴۔ الطبقات ۲؍۳۳، ذخائر العقبی، ص ۱۸۱۔ المنتظم ۳؍۱۷۱۔ عیون الاثر ۲؍۳۱۔ السیرۃ الحلبیہ، ۲؍۲۴۸۔ امتاع الاسماع، ۱؍ ۱۶۱۔۱۶۰۔ البدایۃ والنھایۃ ، ۴؍۴۲، المنتظم ۳؍۱۸۲۔ التذکرۃ ص ۱۸۴۔ وفاء الوفاء ۲؍۹۳۵، سیر اعلام النبلاء ۱؍۱۸۱)
[38] طبری نے ذخائر العقبی (ص ۱۸۰) میں سیدنا حمزہ ص کی تکفین کا ذکر کرنے کے بعد بیان کیا کہ ’’ پھر نبی کریم ا آگے بڑھے اور ان پر دس مرتبہ نمازہ جنازہ پڑھی، پھر ایک
ایک شخص کو لایا جاتا رہا، حضرت حمزہ کی میت اسی جگہ رہی، یہاں تک کہ ان پر ستر مرتبہ نماز پڑھی۔ شہداء کرام کی تعدا د ستر تھی۔ ‘ ‘ پھر ص ۱۸۴ پر حضرت حمزہ کی نماز جنازہ کی فصل میں فرمایا: ’’ حضرت حمزہ کا معاملہ ان کی خصوصیت پر محمول کیا جائے گا۔ ‘‘ (مزید دیکھئے، الطبقات، ۳؍۱۱۔البدایۃ والنھایۃ، ۴؍۴۱۔ابن ہشام، ۲؍۹۷۔ اسد الغابۃ، ۲؍۵۴۔ الواقدی ۱؍۱۳۰۔ المنتظم ۳؍۱۸۲۔ سبل الھدی والرشاد، ۴؍۳۶۳۔
[39] ابن شبہ (۱؍۱۳۶)نے بیان کیا کہ نبی اکرم ا نے حکم دیا کہ ــ’’سیدنا حضرت حمزہ صکو بطن وادی سے ٹیلے کی طرف منتقل کیا جائے۔‘‘ لیکن انہیں اس خطے میں سیدنا معاویہ
کے زمانے میں دفن کیا گیا جب سیلابوں کی وجہ سے قبریں کھل گئیں، اس وقت یہ قبر یں موجودہ مقام پر منتقل کی گئیں۔ (دیکھئے وفاء الوفائ، ۲؍۹۳۸)
[40] حضرت عبد اللہ بن جحش بن ریئاب بن یعمر بن اسد بن خزیمہ (ص) کی کنیت ابو محمد ہے، رسول اللہا کے دار ارقم میں داخل ہونے سے پہلے اسلام لائے، یہ ان حضرات میں
سے تھے جنہوں نے دوسری مرتبہ حبشہ کی طرف ہجرت کی، سید حمزہ ص کے ساتھ ایک قبر میں، غزوہ احد کے بعد دفن کیے گئے۔ (الطبقات ، ۳؍۶۷ کسی قدر تصرف کے ساتھ) امتاع الاسماع ، ۱؍۱۵۵۔ رفع الخفاء ، ۱؍۲۲۶۔ وفاء الوفاء ۲؍۹۳۶)
[41] حضرت مصعب بن عمیر بن ہاشم بن عبد مناف قریشی عبدری ، کی کنیت ابو عبد اللہ ہے، ان دنوں مشرف بااسلام ہوئے جب رسول اللہا دار ارقم میں تشریف فرما تھے،
ہجرت کرکے حبشہ گئے، احد کے دن ان کے پاس رسول اللہ ا کا جھنڈا تھا، اسی دن جام شہادت نوش کیا، ( اسد الغابۃ ، ۵؍۱۸۱) کسی قدر تصرف کے ساتھ) بعض مراجع میں ہے کہ حضرت حمزہ ص کے ساتھ کسی کو دفن نہیں کیا گیا اور سیدنا عبد اللہ بن جحش اور سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہما دوسری جگہ دفن کیے گئے(دیکھئے ابن شیبہ، ۱؍۱۲۶۔ وفاء الوفاء ۲؍۹۳۶)
[42] مسند احمد ، ۲؍۲۰۷(۵۵۳۸)۔ سنن ابن ماجہ، ۱؍۵۰۷ (۱۵۹۱)۔ الاستیعاب، ۱؍۷۷۵۔ اسد الغابۃ، ۲؍۵۳۔ الطبری ۲؍۷۴۔ ابن ہشام ، ۲؍۹۹۔ الطبقات، ۳؍۱۲۔
البدایۃ والنہایۃ، ۴؍۴۸۔ دلائل النبوۃ ، ۳؍۳۰۰۔ السیرۃ الحلبیۃ، ۲؍۲۵۴۔ سبل الھدی والرشاد ، ۴؍۳۳۴۔ امتاع الاسماع ، ۱؍۱۶۳۔ سیر اعلام النبلائ، ۱؍۱۷۲۔ ابن النجار ، ص ۳۴
[43] ابن ہشام ، ۲؍۹۹۔ الطبری ، ۲؍۷۴ ۔ اسد الغابۃ، ۲؍۵۳۔ البدایۃ والنھایۃ، ۴؍۴۹۔ دلائل النبوۃ ۳؍۳۰۱۔ السیرۃ الحلبیہ، ۲؍۲۵۴۔ سبل الھدی والرشاد، ۴؍۳۵۰۔
البدایۃ والنھایۃ، ۴؍۶۰
[44] ابن ہشام ، ۲؍۱۵۷۔ سبل الھدی والرشاد، ۴؍۳۵۰۔ البدایۃ والنھایۃ، ۴؍۶۰
[45] دیکھئے…عیون الاثر، ۲؍۴۸۔۴۲۔ ابن ہشام ، ۲؍۱۲۷۔۱۲۲۔ الواقدی، ۱؍۳۰۰۔ الطبقات، ۲؍۳۳۔۳۲۔ المنتظم ، ۳؍ ۱۹۶۔۱۷۴۔ وفاء الوفائ، ۲؍۹۳۳
[46] فتح الباری، ۷؍۴۳۳ (۴۰۷۸)۔ سبل الھدی والرشاد ، ۴؍۳۷۳۔ الواقدی ۱؍۳۰۰۔ عیون الاثر، ۲؍۴۸۔ ابن ہشام ، ۲؍۱۲۷۔ دلائل النبوۃ، ۳؍۲۸۰۔۲۷۶۔ البدایۃ والنھایۃ، ۴؍۴۷۔ المنتظم ۳؍۱۷۔ وفاء الوفائ، ۲؍۹۳۳۔ ابن النجار، ص ۳۴۶ (حضرت مصنف نے ایک نظم میں شہداء احد کے اسماء بیان کیے ہیں ِ، علامہ سید محمد علوی مالکی (مکی) مدظلہ نے ان اسماء کے تلفظ کا طریقہ بیان کیا ہے اور حواشی لکھے ہیں، ان کا مطالعہ کیا جائے۔)
[47] امام علامہ محدث ، ابو الفتح محمد بن محمد بن محمد بن سید الناس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۶۷۱ھ (۱۲۷۲ئ) میں پیدا ہوئے، جلیل القدر عالم ، حافظ الحدیث،علم حدیث کے امام اور فن
حدیث کے نقاد تھے، ۷۳۴ھ (۱۳۳۳ئ) میں ان کی رحلت ہوئی (ذیل تذکرۃ الحفاظ، ص ۳۵۰، کسی قدر تصرف کے ساتھ) سیرت طیبہ کے موضوع پر ان کی کتاب عیون الاثر (۲؍۴۸) میں ہے کہ ’’بعض علماء نے شہداء کی تعداد سو سے زیادہ بیان کی ہے حالانکہ احد کے شہداء ستر بیان کیے جاتے ہیں ، بعض علماء کہتے ہیں کہ صرف انصار کے شہداء ستر تھے، پس زیادتی، تفصیل میں اختلاف کی بنیاد پر ہوئی ہے، ورنہ حقیقت زیادتی نہیں ہے۔‘‘
[48] ابن ہشام ، ۲؍۹۸۔ دلائل النبوۃ ، ج ۳۔ عیون الاثر، ۲؍۳۳۔ سبل الھدی والرشاد، ۴؍۳۳۱۔ وفاء الوفاء ، ۲؍۹۳۳
[49] سنن ابی داود، ۳؍۳۲ (۲۵۲۰)، مسند احمد، ۱؍۳۴۸ (۲۳۸۴)، المستدرک، ۲؍۹۷ (۲۴۴۴)، البدایۃ والنھایۃ، ۴؍۴۷۔ الواقدی، ۱؍۳۲۵۔ دلائل النبوۃ، ج۳۔
الترغیب والترھیب ۱؍۳۵۴۔ ابن ہشام، ۲؍۱۱۹۔ عیون الاثر ۲؍۵۶۔ الحاوی للفتاوی، ۲؍۱۷۲۔ الروح ص ۱۵۵۔ التمھید ۱۱ ؍۶۱۔ تفسیر النسفی ۱؍۱۹۴۔ مختصر تفسیر ابن کثیر
۱؍۳۳۶۔ تفسیر ابن کثیر ، ۳؍۵۱۳۔ اھوال القبور ص، ۲۱۱۔۲۱۰۔ ابن النجار، ص ۳۴۹۔
[50] سورۃ آل عمران، آیت ۱۷۱
[51] قاضی شوکانی تفسیر فتح القدیر (۱؍۳۹) میں کہتے ہیں کہ ’’ علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ اس آیت میں جن شہداء کا ذکر ہے وہ کون ہیں ؟‘‘ (۔۔۔۔۔) جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت کے معنی یہ ہے کہ شہداء حقیقی زندگی کے ساتھ زندہ ہیں ، البتہ اس سلسلے میں اختلاف ہے ( کہ وہ کس طرح زندہ ہیں ؟) بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ان کی قبروں میں روحیں ان کی طرف لوٹا دی جاتی ہیں، چنانچہ وہ نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ، جمہور کے علاوہ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ مجازی زندگی ہے ، مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں جنتی نعمتوں کے مستحق ہیں، پہلا قول صحیح ہے اور مجاز کی طرف رجوع کرنے کا کوئی باعث نہیں ہے۔
ابن قیم کتاب الروح (ص۵۱) میں لکھتے ہیں کہ ’’ شہداء کی زندگی کی دلیل یہ ہے کہ وہ قتل ہونے اور وفات کے باوجود اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ، رزق دیے جاتے ہیں، خوش اور مسرور ہیں اور یہی دنیا میں زندہ لوگو ں کی صفت ہے۔‘‘
حافظ سیوطی نے الحاوی للفتاوی (۲؍۵۲) میں شیخ تقی الدین سبکی کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ قبر میں انبیاء اور شہداء کی زندگی ایسی ہی ہے جیسی دنیا میں تھی (ــ۔۔۔۔۔) ان کی زندگی کے حقیقی زندگی ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے جسم ایسے ہی ہوں جیسے دنیا میں تھے، اسی طرح شرح الصدور (ص ۲۷۶) میں ہے۔
ابن رجب حنبلی اپنی کتاب ـ ’’اھوال القبور ‘‘ (ص ۲۷۲) میں فرماتے ہیں ’’اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شہداء زندگی میں زندوں کے ساتھ شریک ہیں۔‘‘
[52] ابن القیم نے کتاب الروح (ص ۵۷) میں حضرت ابن عباس کی وہ حدیث بیان کی جس کی مناسبت سے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ولا تحسبن الذین قتلوا(الایۃ) اس کے بعد کہتے ہیں کہ ’’ اس سے صراحتہً ثابت ہوتا ہے کہ شہداء کھاتے پیتے ہیں، حرکت کرتے ہیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں اور کلام کرتے ہیں‘‘ علامہ نسفی تفسیر (۱؍۱۹۴) میں فرماتے ہیں ’’ یرزقون شہداء کو باقی دوسرے زندوں کی طرح رزق دیا جاتا ہے، وہ کھاتے اور پیتے ہیں، یہ ان کے زندہ ہونے اور ان کے حال کا بیان ہے۔‘‘
[53] ابن القیم کتاب الروح (ص ۱۴۲۔۱۴۱) میں لکھتے ہیں کہ ’’مختلف لوگوں کی خوابوں سے تبواترو روحوں کے ایسے افعال ثابت ہیں جنہیں وہ بدن کے ساتھ متعلق ہونے کی
صورت میں انجام نہیں دے سکتیں، مثلا ایک دو یا چند افراد نے بڑے لشکروں کو شکست دے دی، کتنی دفعہ خواب میں نبی اکرم ا اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی زیارت ہوئی، ان کی ارواح مبارکہ نے کفر اور ظلم کے لشکروں کو شکست دی، وہ لشکر ساز و سامان اور تعداد کی زیادتی کے باوجود مغلوب ہوگئے حالانکہ مسلمان کمزور بھی تھے اور تعداد میں کم بھی تھے۔ یہ امر معلوم ہے کہ شہداء کرام انبیاء عظام کے ساتھ اٹھائے جائیں گے، اس جگہ ایسی احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض فضائل انبیاء اور شہداء میں مشترک ہیں، دیکھئے شرح الصدور
[54] دیکھئے، الواقدی، ۱؍۲۶۷۔ البدایۃ والنھایۃ، ۴؍۴۴۔ دلائل النبوۃ ۳؍۲۱۹۔ سبل الھدی والرشاد، ۴؍۳۶۹
[55] انسان العیون (السیرۃ الحلبیۃ)، ۲؍۲۵۰۔ ابن شبہ، ۱؍۱۳۳۔ وفاء الوفاء ۲؍۹۳۸
[56] دیکھئے سابقہ حوالے، الخصائص الکبری، ۱؍۲۱۹۔ تفسیر کبیر، ۹؍۹۳۔ تفسیر خازن، ۱؍۲۹۷۔ وفاء الوفائ، ۲؍۹۳۶
[57] برہان الدین ابراہیم بن عمر الرباط البقاعی الشافعی، محدث، مفسر اور مورخ تھے، ۸۰۹ھ (۱۴۰۶) میں پیدا ہوئے اور ۸۸۵ھ میں وفات پائی (شذرات الذھب، ۹؍۵۰۹)
[58] سبل الھدی والرشاد ، ۴؍۳۷۰، البدایۃ والنھایۃ، ۴؍۴۶۔ دلائل النبوۃ، ۳؍۳۰۷۔ شرح الصدور، ص ۲۷۴۔ تفسیر الخازن، ۱؍۲۹۷۔ ابن شبہ ۱؍۱۳۲
[59] واقدی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ا ہر سال شہداء احد کی زیارت کرتے تھے، اور سیدنا ابو بکر، سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثمان غنی اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس معاملہ میں آپ کی پیروی کی (دیکھئے ، المغازی، ۱؍۳۱۳۔ ابن شبہ، ۱؍۱۳۲۔ دلائل النبوۃ امام بہیقی، ۳؍۳۰۶۔ البدایۃ والنھایۃ ابن کثیر ۴؍۴۶۔ وفاء الوفائ، ۲؍۹۳۲۔ ) اور یہ دلیل ہے کہ اہل مدینہ اور دیگر حضرات کے لیے ہر سال شہداء احد کی زیارت کرنا سنت ہے، حضرت مصنف نے جو بیان کیا ہے کہ بعض حضرات نے خواب میں حضرت حمزہ کو زیارت کا حکم دیتے ہوئے دیکھا (تو اس میں کوئی بعد نہیں ہے) کیونکہ اصحاب قبور کی روحوں کا زندوں کی روحوں سے ملاقات کرنا ثابت ہے (دیکھئے کتاب الروح ص ۲۵۴۔ شرح الصدور ص ۳۵۱) حضرت مصنف کے بیان کردہ حضرات کے علاوہ دوسرے افراد کے ساتھ بھی یہ واقعہ پیش آیا ہے۔
سید جعفر بن حسن عبدالکریم برزنجی
مترجم
علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری (شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ، لاہور)