حضرت فاضل یگانہ علامہ عبدالمصطفےٰ الازہری

حضرت فاضل یگانہ علامہ عبدالمصطفےٰ الازہری، کراچی علیہ الرحمۃ 

 

فاضلِ اجل حضرت علامہ عبدالمصطفےٰ محمد[۱] الازہری مدظلہ، بن صدرالشریعہ علامہ مولانا امجد علی بن علامہ جمال الدین بن مولانا خدا بخش (رحمہم اللہ) ۱۳۷۷ھ/ ۱۹۱۸ء میں بریلی شریف[۲] (ہندوستان) میں تولد ہوئے۔

[۱۔ آپ کی ولادت پر اعلیٰ حضرت بریلی قدس سرہ العزیز سے آپ کے تاریخی نام کے بارے میں پوچھا گیا، تو فرمایا تاریخی نام کی ضرورت نہیں، میں اس بچے کو اپنا محبوب نام عبدالمصطفےٰ عطا کرتا ہوں، چنانچہ یہ نام بارگاہِ نبی میں بہت مقبول ہوا۔ (الیواقیت المہریہ)]

[۲۔ آپ کا اصلی وطن قصبہ غوسی (اعظم گڑھ) ہے اور آپ کی پیدائش بریلی شریف میں ہوئی۔ (الیواقیت المہریہ)]

آپ کے والد مکرم حضرت صدرالشریعۃ مولانا امجد علی علیہ الرحمۃ (متوفی ۱۳۶۷ھ/ ۱۹۴۸ء) بہت بڑے فقیہہ تھے۔ فقہ کی جامع اُردو کتاب ’’بہارِ شریعت‘‘ آپ ہی کی تصنیف ہے۔

ابتدائی تعلیم:

آپ نے قرآن مجید اپنے مولد شریف کے دارالعلوم منظرِ اسلام میں مولانا احسان علی مظفر پوری سے پڑھا[۱]۔ پھر والد ماجد علیہ الرحمۃ کے جامعہ عثمانیہ اجمیر شریف میں مدرس مقرر ہونے پر آپ نے اپنے آبائی وطن قصبہ غوسی (اعظم گڑھ) میں محلہ کریم الدین کے مکتب میں اردو سیکھی۔

[۱۔ محمود احمد قادری، مولانا: تذکرہ علماء اہل سنت، ص۱۶۰]

علومِ اسلامیہ کی تعلیم:

۱۹۲۶ء میں آپ کو والد مکرم نے جامعہ عثمانیہ (اجمیر شریف) بلالیا، جہاں آپ نے کتبِ فارسی مولانا عارف بدایونی سے پڑھیں، ابتدائی تعلیم، علوم عربیہ اسی مدرسہ میں مولانا حکیم عبدالمجید، مفتی امتیاز احمد اور مولانا عبدالحئی سواتی سے حاصل کی اور اکثر علوم و فنون ابتدا سے انتہا تک اپنے والد مکرم سے پڑھے۔

جامعہ ازہر میں:

جب حضرت صدرالشریعۃ علیہ الرحمۃ دوبارہ بریلی شریف جانے لگے، تو آپ کو اعلیٰ  تعلیم کے لیے جامعہ ازہر قاہرہ (مصر) بھیج دیا۔ چنانچہ حج کی ادائیگی اور زیارت روضۂ رسول علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے فراغت کے بعد جامعہ ازہر تشریف لے گئے اور تین سال جامعہ ازہر میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے جامعہ کی طرف سے دو سندیں ’’شہادۃ الاہلیۃ‘‘ و ’’شہادۃ العالمیہ‘‘ حاصل کیں۔

کتبِ احادیث کی تکرار:

جب آپ جامعہ ازہر سے واپس ہوئے، تو حضرت صدرالشریعۃ علیہ الرحمۃ علی گڑھ کے مضافات میں دادوں کے مقام پر نواب ابوبکر کے مدرسہ میں مدرس تھے؛ چنانچہ علامہ ازہری نے دوبارہ والد ماجد علیہ الرحمۃ سے حدیث کا دور ہ کیا۔

تدریس:

فراغت کے بعد دادوں میں ہی اپنے والد ماجد کی نگرانی میں تدریس شروع کی۔

۱۹۳۹ء میں دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف میں مسندِ تدریس پر فائز ہوئے۔

۱۹۴۴ء میں دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پورہ (اعظم گڑھ ہند) میں بحیثیت صدر مدرس و شیخ الحدیث کام کرنا شروع کیا اور تقسیمِ ملک تک اسی مدرسہ سے منسلک رہے۔

تقسیم ملک کے بعد ۱۹۴۸ء میں جب پاکستان تشریف لائے، تو جامعہ محمدی شریف ضلع جھنگ میں شیخ الحدیث مقرر ہوئے۔ ۱۹۵۳ء  میں جامع مسجد ہارون آباد (بہاول نگر) میں خطابت کے فرائض منصبی انجام دینے شروع کیے۔ دریں اثنا آپ نے ایک عظیم دارالعلوم منظرِ اسلام کی بنیاد رکھی اور اس کے لیے نہایت عالی شان عمارت تعمیر کرائی۔

جب بعض جاہل اور شرپسند لوگوں نے دارالعلوم کی عمارت کو قبضہ میں لے کر اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی، تو حالات کے ناسازگار ہونے کی بنا پر آپ کراچی تشریف لے گئے، جہاں جامعہ امجدیہ کراچی کے شیخ الحدیث کی حیثیت سے حدیثِ رسول کا فیضان جاری کیا، جو آج تک جاری ہے۔

سیاسی کردار:

آپ جمعیت علماء پاکستان صوبہ سندھ کے صدر کی حیثیت سے قائدِ اہل سنّت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کے دست راست و معاون ہیں۔

۱۹۷۰ء کے انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ قومی اسمبلی میں آپ نے صحیح نمائندگی کا حق ادا کیا۔ آئین کی تدوین کے وقت جب آئین کی تعریف میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے کا مرحلہ آیا تو علامہ شاہ احمد نورانی کی تحریک کے جواب میں حکومتی ممبر اسمبلی کوثر نیازی نے کہا کہ تمام مکاتبِ فکر کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ہیں، تو علامہ عبدالمصطفےٰ الازہری نے ایک متفقہ تعریف مرتب کی جو تمام مکاتبِ فکر کے اراکینِ اسمبلی کے دستخطوں سے اسمبلی میں پیش کی گئی۔

۱۹۷۷ء کی تحریک نظامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں جب علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو گرفتار کرکے ملک کے گرم ترین  علاقے گڑھی خیرو (سندھ) میں جیل کی کوٹھڑیوں میں بند کردیا گیا، تو علامہ ازہری نے حقِ نیابت ادا کیا اور جمعیت کے قائم مقام صدر کے فرائض سر انجام دیے۔

بیعت:

آپ نے امام اہل سنت اعلیٰ حضرت بریلوی قدس سرہ العزیز کے دستِ حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا اور مفتیٔ اعظم ہند مولانا شاہ مصطفےٰ رضا خان کی طرف سے سلسلہ قادریہ میں خلافت و اجازت حاصل کی۔

تصانیف:

آپ نے قرآن پاک کی تفسیر (تفسیر ازہری) پانچ جز (مطبوعہ) اور تاریخ الانبیاء تحریر فرمائیں۔[۱]

[۱۔ مولانا غلام مہر علی، الیواقیت المہریہ، ص۸۱۔ ۸۳]

تلامذہ:

آپ سے جن تلامذہ نے اکتسابِ فیض کیا، ان میں سے چند مشہور فضلاء کے اسماء گرامی یہ ہیں:

۱۔       مولانا خلیل اشرف، بانی مدرسہ فیض رضا، ضلع بہاول نگر

۲۔       مولانا غلام یٰسین، بانی دارالعلوم قادریہ ملیر

۳۔      مولانا فضل سبحان، مہتمم دارالعلوم قادریہ، بغداد مردان

۴۔      مولانا غلام نبی، دارالعلوم حامدیہ رضویہ کراچی

۵۔       مولانا محمد طفیل، دارالعلوم شمس العلوم جامعہ رضویہ کراچی

۶۔       مولانا منیب الرحمان، ایم اے

۷۔      مولانا محمد طارق ، ایم اے

۸۔      مولانا محمد اسحاق ایم اے

۹۔       مولانا محمد رفیق ضیاء، ایم اے

۱۰۔      مولانا قاری حافظ عبدالباری، ٹھٹّھہ کے شاہی قاضی[۱]

[۱۔ محمود احمد قادری، مولانا: تذکرہ اہل سنّت ص۱۶۱]

(تعارف علماءِ اہلسنت)

تجویزوآراء