صوفی راشد برہان پوری
صوفی راشد برہان پوری علیہ الرحمۃ
سندھ میں سمہ حکمرانوں کے شاندار دو رمیں جب کہ ہر طرف خوشحالی اور ترقی کا دور دورہ تھا ارغونوں کے روپ میں بر تپاں گری اور ہر طرف تباہی و بربادی کے بھیانک اندھیرے چھاگئے۔ علمی بساط بھی الٹ گئی اہل علم و فضل اپنی دولت علم کے تحفط کیلئے آمادہ بہ نقل مکانی ہوئے اور ممالک اسلامیہ میں پھیل گئے۔ ضلع دادو سندھ کے قریب قصبہ پاٹ شریف مرکز علم و فضل تھا ہو بھی متاثرہوئے بغیرنہ رہ سکا اور یہاں کے سر بر آوردہ صدیقی علماء کا خاندان بھی ٹھٹھہ، گجرات، مالوہ اور دکن ہوتا ہو اخاندیش کے دارلحکومت برہان پور پہنچا۔ یہ ۹۵۰ہجری کا زمانہ ہے ، یہاں فاروقی سلاطین حکمران تھے۔
پاٹ شریف کے اس خانوادے کے دو افراد شیخ محمد طاہر محدث سندھی (مصنف تفسیر قرآن عربی مجمع البحار قلمی) ار بابا قاسم تھے جو علم و فضل اور فقرو تصوف کے آفتاب اور ماہتاب تھے۔ بادشاہ برہان پور نے ان کی زبردست پزیرائی کی رہائش و درس تدریس کیلئے شاہی محل کی عمارت دے دی ۔ وظائف اور جاگیریں عطا کرکے فکر معاش سے آزاد کردیا اور انہوں نے یکسوئی کے ساتھ ترویج و اشاعت علم پر توجہ مبذول کردی۔ حضرت شیخ قاسم بوجوہ ایلچپور(برار) میں مقیم رہے اور وہیں بعد اس وصال پیوند خاک ہوئے جب کہ شیخ محمد طاہر محدچ برہان پوری، برہان پور میں رہے۔ حضرت شیخ قاسم کے تین فرزندوں میں حضرت مسیح الاولیاء شیخ عیسی جند اللہ سندھی قدس سرہ العزیز (۱۰۳۱ھ کو برہان پو رمیں وصال کیا آپ کی ملفوظات شریف کشف الحقائق (فارسی) کے نام سے موسوم ہے) ہی وہ بزرگ ہیں جن کے طفیل آج بھی برہان پور اور اطراف و جوانب می نعلوم دینیہ اور روحانی فیوض جاری ہیں۔
(تفصیل حالات کیلئے: برہان پور کے سندھی اولیاء ملاحظہ کیجئے)
اسی خاندان کی ایک خاتون کے بطن سے ۱۸۹۵ء کو سید مطیع اللہ راشد برہان پوری کتم عدم سے عالم رنگ و بو میں جلودہ گر ہوئے ، یوں ننھال کی طرف سے آپ کو ’’سندھی نژاد‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ جب کہ اجداد سادات کے عظیم خانوادے کے چشم و چراغ ہیں یعنی حضرت شیخ محمد بن فضل اللہ جو ’’نائب رسول اللہ ‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں اور دسویں صدی ہجری میں گجرات میں پیدا ہوئے، برہان پو رمیں رہے اور یہیں آپ کا مزار ہے۔
وہ خود لکھتے ہیں ’’راقم الحروم راشد، شیخ محمد فضل اللہ نائب رسول اللہ کی اولاد نرینہ سے شجرہ نسب مربوط رکھتا ہے اور حضرت مسیح الاولیاء کے اخلاف میں ننھال ہے اور سسرال بھی ‘‘ (حواشی ص۴۵)
تعلیم و تربیت:
راشد برہان پوری نے اسکول سے تعلیم حاصل کی جب کہ ان دنوں تعلیم عربی فارسی ہی رائج تھی، اردو فارسی اور ہندی زبانوں پر آپ کو عبور حاصل رہا ہے۔ نہ صر فیہ بلکہ آپ نہایت کوشخط اور نہایت نفیس طرز تحریر کے حامل بھی رہے ہیں۔
درس و تدریس:
برہان پور مین اسکولوں میں شعبہ تدریس سے وابستہ رہے۔
شاعری:
نہ صرف نثر نگاری پر عبور تھا بلکہ شاعری سے بھی کما حقہ، شغفف رکھتے تھے۔ حمد، مناجات، نعت، مناقب اورشہدائے کربلا اور اہل بیت کرام کے حضور میں سلام کے نذرانے بھی چار حصوں میں پیش کئے ہیں۔ نیز غزل، قصیدہ، ربای وغیرہ تمام مروجہ اصناف سخن پر دسترس حاصل تھی۔
آپ نے اصلاح سخن کیلئے حضرت فخر الدین حاذق برہان پوری سے شرف تلمذ حاصل کیا ۔ آپ کے کلام میں ناسخ لکھنوی کا رنگ نمایاں ہے کیوں کہ آپ کے استاد حضرت حاذق ، عشاد لکھونی سے شرف تلمذ رکھتے تھے اور وہ حضرت ناسخ لکھنوی کے شاگرد رشید اور جانشین تھے۔
آپ کی ایک نظم ’’عورت کے درجات‘‘ کو بھی مقبولیت حاصل ہوئی جس میں بچپن ، لڑکپن ، جوانی ، ادھیڑ عمر اور پختہ عمری کے درجات میں اس کی زندگی کے مختلف ادوار بیان فرمائے ہیں۔
انتخاب کلام:
یہ شرف نصیب ہوا ہمیں یہ عطائے رب انام ہے
کیا اس رسول کا امتی جو پیمبروں کا امام ہے
مرا سر مزار رسول سے نہ ہٹائو دیکھو مجاورو!
مری آرزوئیں نہ قتل ہوں کہ حرم می خون حرام ہے
٭٭٭
مصیبتوں میں بھی ’’راشد‘‘ یہ تھا حسین کا ظرف
نہ دل میں غم، نہ طبیعت پہ اشتعال آیا
٭٭٭
ذکر شہداء درس ہے سن کر نہ اڑا دو
شرباز بنو نفس کی زنجیر تڑا دو
تصنیف و تالیف:
جناب راشد برہان پوری ادیب ، شاعر، محقق، مورخ اور صوفی تھے۔ تاریخ و سوانح اور تصوف سے خاص طبعی میلان رکھتے تھے۔ ان کی تخلیقات کا تعارف دج ذیل ہے۔
٭ برہان پور کے سندھی اولیاء (اردو) مطبوعہ سندھی ادبی بورڈ جام شورو، طبع اول ۱۹۵۷ء
آپ نے برہان پور کو از سو رنو تحقیق اور جستجو کے بعد مرتب فرمایا، لیکن افسوس کہ وہ مناسب ہاتھوں تک پہنچنے سے پہلے ہی تلف ہوگئی۔ البتہ اسی کا ایک حصہ برہان پو رکے سندھی اولیاء المعروف تذکرہ اولیائے سندھ ہے۔ اس کی تکمیل نہایت نا مساعد حالات میں ہوئی ، صحت بالکل ختم ہوچکی تھی، ضعف کمزوری اور بیماری کا غلبہ تھا۔ اس تذکرے کے محرک ، محسن سندھ سید حسام الدین راشدی مرحوم کے الفاظ ملاحطہ فرمایئے:
’’حضرت راشد برہان پوری نے سندھ کی تاریخ کے گمشدہ اوراق کو میری گزارش پر نہایت محنت اور جانفشانی سے مرتب کرکے سندھ کی تاریخ کے اس باب کو مکمل کیا ہے جس کے بغیر سندھ کے صوفیائے کرام کی تاریخ میں ایک بڑا خلاء محسوس ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنی خرابی صحت کے واجود جب کہ ان کو دیکھ کر ان کے وجود پر عدم کا گمان ہوتا ہے اس تذکرے کی ترتیب میں جو محنت شاقہ برداشت کی ہے اہل نظر اس کے مطالعے سے اس کا بخوبی اندازہ کرسکیں گے۔‘‘
(برہان پور کے سندھی اولیائ: پیش لفظ دیوان عطا (فارسی) عبدالحکیم ٹھٹھوی، مطبوعہ سندھی ادبی بورڈ جامشورو)
بارہویں صدی ہجری کے سندھی نژاد فارسی گو شاعر گزرے ہیں ۔ ان کا صرف یہی ایک مجموعہ کلام نہایت شکستہ اور خستہ حالت میں موجود تھا جس مین جا بجا الفاظ مٹ چکے تھے یا پڑھے نہیں جا سکتے تھے۔ لیکن یہ بھی علامہ راشد برہان پوری کا کمال علم اور ذوق سخن کا شاہکار ہے کہ نہایت عرق ریزی کے ساتھ اس کی تصحیح فرمائی، بلکہ ۴۶۱ صفحات پر مشتمل فارسی دیوان پر ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ایک جامع اور مبسوط مقدمہ لکھ کر اس دیوان کی علمی اور شعری خوبیوں کو بھر پور طریقہ سے اجاگر کردیا۔ اس کارنامے کے محرک بھی سید حسام الدین راشدی مرحوم ہی تھے۔
٭ تذکرہ حضرت شاہ بھکاری برہان پوری( اردو) صفحات ۳۲۔ مطبوعہ سلطانی پریس بھنڈی بازار بمبئی نمر۳۔
حضرت باب افرید الدین مسعود گنج شکر قدس رہ (پاک پتن شریف) کی پانچویں پشت کے ایک بزرگ حضرت شیخ نظام الدین شاہ بھکاری علیہ الرحمۃ کے ملفوظات و تعلیمات پر مشتمل فارسی مخطوطے کو شستہ اور رواں اردو میں متقل کیا۔
٭ التحفۃ المرسلہ الی النبی ﷺ صفحات ۱۲۰، مطبوعہ انجمن پریس کراچی ۱۹۵۷ء
حضرت عارف کامل سید محمد بن فضل اللہ العروف نائب رسول اللہ ﷺ برہان پوری جب حج کرنے گئے تو دوران حج مکہ معظمہ میں انڈونیشی علماء کا وحدت الوجود کے مسئلہ پر اختلاف پایا۔ آپ نے اس مسئلہ پر عربی میں مقالہ تحریر کی اور پھر دربار نبوی ﷺ میں پیش فرما کر قبولیت کی درخواست کی، چنانچہ اس کا نام ’’التحفۃ المرسلہ‘‘ تجویز فرمایا، پھر جاوا اور سماٹرہ تشریف لے گئے اور وہاں کے علماء کو پیش کیا، جس پر سب نے اتفاق کیا اور باہم شیر و شکر ہوگئے۔ کیا جذبہ تھا؟ کہ اختلاف مٹانے کی غرض اور صحیح فیصلہ سنانے کی غرض سے اس قدر طویل سفر اختیار کیا جس کا دنیوی کوئی فائدہ نہیں تھا۔ سبحان اللہ!
مولانا عبدالغفور بن عبدالملک برہان پوری نے فارسی ترجمہ لکھا اور حضرت راشد نے اصل عربی متن اور فارسی ترجمہ کے بین اردو کا ترجمہ کی ااور اشاعت کا اہتمام فرمایا۔ اور شروع مین اپنے مورث اعلیٰ حضرت سید محمد علیہ الرحمۃ کا تفصیلی تعارف تحریر کیا ہے۔
٭ حضرت شیخ محمد طاہر برہان پوری اور تفسیر مجمع البحار
(ماہنامہ معارف، اعظم گڑھ ، مارچ ۱۹۵۵ئ، مجلہ ’’تحقیق‘‘ شمارہ خاص، ۱۹۹۷ء سندھ یونیورسٹی جامشورو)
٭ وحدت الوجود
حضرت سیدنا امام جعفر صادق علیہ رضی اللہ عنہٗ کا ایک طویل خطبہ عربی میں وحدت الوجود کے متعلق ’’فصول الحکم‘‘ (تصنیف : سید المکاشفین شیخ اکبر محی الدین ابن عربی قدس سرہ الاقدس ۶۳۸ھ) میں موجود ہے انہی کی پیروی میں حضرت راشدی نے وحدت الوجود پر اردو میں جامع و مبسوط نظم لکھی۔
٭ عورت کے درجات: آپ نے اس نظم میں عورت کے درجات بیان کئے ۔
ہنگام ولادت سے ایام رضاعت تک
ننھا سا کھلونا ہے گھر بھر کیلئے بے شک
سب پیار سے آنکھوںکی پتلی اسے کہتے ہیں
چھ سال کی ہونے تک تمہید شرارت ہے
اس کیلئے کل دنیا گڑیوں سے عبارت ہے
معصوم فرشتہ ہے ننھی اسے کہتے ہیں
ریاض الشہداء (مجموعہ ہائے مناقب اہل بیت) حصہ اول تا چہارم مطبوعہ برہان پور ۱۹۴۶ء
بیعت:
اس سلسلہ مین کوئی یادداشت/روایت نہیں مل سکی۔
شادی و الاد:
آپ نے پہلی شادی نوجوانی میںکی جن سے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں تولد ہوئیں۔ بڑے بیٹے سید محمد شفیع اللہ نوجوانی میں ہی ایک حادثہ میں وفات پا گئے۔ ان کے بعد بڑی بیٹی شاداں بھی فوت ہوگئیں ایک بیٹے سید محمد حفیظ اللہ پچاس سال کی عمر میں وفات پاگئے یہ بھی غیر شادی شدہ تھے۔ اب دو بیٹیاں ہیں سب میں بڑی سیدہ مہر النساء جو راشد مرحوم کے بھتیجے سید محمد حبیب اللہ کی بیوی اور دوسری بیٹی سیدہ قمر النساء قمر ہیں جو راشد مرحوم کے ہمشیر زادے سید کفیل علی مرحوم کی بیوہ ہیں۔
راشد نے برہان پور میں ہی پہلی اہلیہ کے انتقال کے بعد دوسرا نکاح کیا جو ان کے استاد فخر الدین حاذق برہان پوری کی پوتی تھیں۔ ان سے دو بیٹیاں تولد ہوئیں (۱) سیدہ تنویر النساء مرحومہ (۲) سیدہ حبیب النساء ہے۔
تحریک پاکستان:
آپ برہان پور میں مسلم لیگ کے سر گرم کارکن تھے۔ آپ کا مکان تحریک پاکستان کا مرزک تھا۔ جذبہ آزدی کو اجاگر کرنے کیلئے ملی نظمیںلکھتے تھے جنہیں سن کر عوام الناس جذبہ حریت بیدار ہوتا اور تحریک پاکستان کیلئے مسلم لیگ میں شامل ہو کر شانے سے شانہ ملا کر شب و روز کام کرتے تھے۔
جب پاکستان بن گیا تو وہ انڈین حکومت کی نظر میں کھٹک رہے تھے لہذا احباب کے مشورے پر برہان پور سے نقل مکانی کرکے حیدرآباد دکن ریاست چلے گئے لیکن پھر سقوط حیدرآباد کے بعد پاکستان کراچی سمندری راستہ سے آگئے ان حوادث و عوامل کی وجہ سے آپ کا کتب خانہ تباہ ہوگیا۔ بہت قیمتی علمی سرمایہ تلف اور قلمی نوادرات ضائع ہوگئے۔
وصال:
حضرت راشد برہان پوری نے ۱۹ شوال المکرم ۱۳۷۹ھ بمطابق ۱۶، اپریل ۱۹۶۰ء کو ۶۵ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ آپ کی رہائش نمائز (نورانی چورنگی) نزد ختم نبوت مسجد کے پاس تھی اسلئے وہیں نماز جنازہ ہوئی اس وقت یہ مسجد شریف اہل سنت و جماعت کی تھی بہت بعد میں اس پر وہابیوں نے قبضہ کیا۔
شاہ فیصل کالونی گیٹ کے متصل قبرستان میں تدفین ہوئی جہاں آپ کی آخری آرام گاہ ہے ۔ حضرت صابری براری مدظلہ العالی نے قطعہ تاریخ لکھا۔:
چل بے آہ حضرت راشد
تھے وہ سی پی برار کی عظمت
ذکر تاریخ گوئی کا کیا ہے
جملہ صنف سخن پہ تھی قدرت
ہیں تصانیف ان کی سب شاہد
کی ہے اردو زباں کی خدمت
میں تھا ان کی وفات پر غمگیں
فکر تھی ہو رقم سن رحلت
آئی آواز غیب سے صابر
کہئے ’’راشد ہیں رونق جنت‘‘
۱۳۷۹ھ
[حوالہ جات کے علاوہ تمام مواد راشد کے نواسہ محترم پروفیسر سید عابد میر برہان پوری، لیاقت آباد کراچی، نے مرحمت فرمایا۔ فقیر نہایت مشکور ہے۔]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)