خواجہ خواجگان حضرت خواجہ سید بہاء الدین محمد نقشبند
خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ سیّد بہاء الدین محمد نقشبندی علیہ الرحمۃ
قصرِ عارفاں (۷۲۸ھ/ ۱۳۲۸ء۔۔۔۷۹۱ھ/۱۳۸۹ء) قصرِ عارفاں، بخارا
قطعۂ تاریخ وصال
چھپ گئے ہیں چشم عالم سے بظاہر وہ مگر
سالِ رحلت حضرتِ سیّد بہاء الدین کا
رکھتے ہیں عالم میں آب و تاب خواجہ نقشبند
کہیے اے صاؔبر ’’درِّ نایاب خواجہ نقشبند‘‘
۱۳۸۹ء
(صاؔبر براری، کراچی)
سکہ کہ در یثرت و بطحا زدند
از خطِ آں سکہ نشد بہرہ مند
تاج بہا برسر دین او نہاد
نوبت آخر بہ بخارا ز دند
جز دل بی نقش شہِ نقشبند
قفلِ ہوا از درِ دین او گشاد
مولانا جاؔمی
آپ کی ولادت۷۲۸ھ میں قصرِ عارفاں (بخارا سے تین میل دور) میں ہوئی، آپ کے پیدائش سے پہلے حضرت بابا محمد سماسی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی ولادت کی بشارت دی تھی۔ تولد سے تیسرے روز آپ کے جد امجد آپ کو حضرت بابا قدس سرہ کی خدمت میں لے گئے۔ حضرت بابا نے آپ کو اپنی فرزندی میں قبول فرمایا اور اپنے خلیفۂ اعظم سیّد امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ سے آپ کی تربیت کے بارے میں عہد لیا جیسا کہ گزشتہ اوراق میں ذکر ہوچکا ہے۔
بچپن ہی سے آثارِ ولایت اور انورِ کرامت و ہدایت آپ کی پیشانی سے ظاہر و آشکارا تھے چنانچہ آپ کی والدہ ماجدہ کا بیان ہے کہ میرا فرزند بہاء الدین چار سال ایک ماہ کا تھا۔ میرے پاس ایک گائے تھی جو حاملہ تھی، ایک روز میرے فرزند نے اُس کی طرف متوجہ ہوکر ہوکر کہا کہ یہ گائے گو سالہ سفید پیشانی والا جنے گی، چنانچہ چند ماہ کے بعد قدرتِ حق تعالیٰ سے اس گائے نے ویسا ہی گو سالہ جنا۔ جنھوں نے میرے فرزند کی بات سنی وہ حیران ہوئے اور حضرت محمد بابا سماسی رحمۃ اللہ علیہ کے نفسِ مبارک کا اثر ثابت ہوگیا۔
آپ کو اگرچہ آدابِ طریقت کی ظاہری تعلیم سیّد امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ سے ہے مگر حقیقت میں آپ اویسی ہیں کیونکہ آپ کی تربیت حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ کی روحانیت سے ہوئی ہے چنانچہ خود فرماتے ہیں کہ اوائلِ احوال اور غلبات، جذبات و بیقراری میں راتوں کو میں نواحیِ بخارا میں پھرا کرتا تھا اور ہر مزار پر جاتا تھا۔ ایک رات میں تین مزاروں پر گیا، جس مزار پر پہنچتا ایک چراغ ٹمٹماتا نظر آتا، چراغ میں پورا تیل اور بتی ہوتی مگر بتی کو ذرا اُکسانے کی ضرورت تھی تاکہ تیل سے باہر آجائے اور بخوبی جلے، شروع رات میں خواجہ محمد واسع رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر پہنچا، وہاں اشارہ ہوا کہ خواجہ محمود فغنوی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر جانا چاہیے جب میں اُس مزار پر پہنچا تو دو شخص آئے اور انہوں نے دو تلواریں میری کمر پر باندھیں اور گھوڑٗ پر سوار کرکے اس کی باگ مزارِ مزداخں کی طرف پھیردی، جب وہاں پہنچا تو فتیلہ اور چراغ اُسی حالت میں تھا، میں رو بقبلہ بیٹھ گیا اور اسی توجہ میں غیبت طاری ہوگئی، کیا دیکھتا ہوں کہ قبلہ کی جانب سے دیوار شق ہوگئی ہے اور ایک بڑا تخت ظاہر ہوا جس پر ایک بزرگ بیٹھا ہوا ہے اور اس کے آگے ایک سبز پردہ لٹکا ہوا ہے، اُس تخت کے گرد ایک جماعت حاضر ہے، میں نے اُس جماعت میں خواجہ محمد بابا کو دیکھا اور جان گیا کہ جماعت گزشتہ بزرگوں کی ہے مگر دل میں آیا کہ وہ بزرگ اس جماعت میں کون ہے، اسی اثناء میں اس جماعت میں سے ایک نے کہا کہ وہ حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی ہیں اور یہ جماعت اُن کے خلیفے ہیں، خلفوں کے نام گن گن کر اُس نے ہر ایک طرف اشارہ کیا کہ یہ خواجہ احمد صدیق ہیں، یہ خواجہ اولیائے کلاں ہیں، یہ خواجہ عارف ریوگری، یہ خواجہ محمود الخیر فغنوی اور خواجہ علی رامتینی ہی، جب خواجہ محمد بابا سماسی تک پہنچا تو اشارہ کرکے کہا کہ ان کو تم نے حالتِ حیات میں دیکھا ہے یہ تیرے شیخ ہیں انہوں نے تجھے کلاہ دی ہے کیا تو ان کو پہچانتا ہے، میں نے کہا، میں ان کو پہچانتا ہوں، کلاہ کا قصہ بہت دنوں کا ہے مجھے یاد نہیں رہا، اُس نے کہا وہ کلاہ تیرے گھر میں ہے اور تجھے یہ کرامت عطا ہوئی ہے کہ جو بلا (دکھ) مصیبت نازل ہو وہ تیری برکت سے دور ہوجائے گی، اُس وقت اُس جماعت نے کہا کہ کان لگا کر سنو، حضرت خواجہ بزرگ (خواجہ عبدالخالق غجدوانی) ارشادات فرمائیں گے جو تجھے راہِ حق کے سلوک میں کام آئیں گے، میں نے اُس جماعت سے درخواست کی کہ میں حضرت خواجہ کو سلام کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے وہ پردہ آگے سے اٹھادیا اور میں نے حضرت خواجہ کو سلام کیا، حضرت نے جواب دیا اور ارشادات فرمائے جو سلوک کے ابتداء وسط اور انتہا سے تعلق رکھتے ہیں، اُن میں سے ایک یہ تھا کہ جو چراغ تجھے اس حالت میں دکھائے گئے تیرے لیے بشارت ہیں اور اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ تجھ میں اس شے کی استعداد و قابلیت ہے مگر استعداد کی بتی کو اُکسنا چاہیے تاکہ روشن ہوجائے اور اسرار ظاہر ہوں اور قابلیت کے مطابق عمل کرنا چاہیے تاکہ مقصد حاصل ہو، دوسرا ارشاد جس کی آپ نے تاکید فرمائی، یہ تھا کہ ہر حال میں جادۂ شریعت و استقامت پر قدم رکھنا چاہیے اور عزیمت و سنت پر عمل کرنا اور رخصت و بدعت سے دور رہنا چاہیے اور ہمیشہ احادیثِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا پیشوا بنانا اور اخبارِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آثارِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تلاش میں رہنا چاہیے، ان ارشادات کے ختم ہونے پر حضرت خواجہ کے خلیفوں نے مجھ سے کہا کہ تیرے حال کی صداقت کا شاہد ایک یہ ہے کہ تم مولانا شمس الدین ابکنوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جاکر کہنا کہ فلاں ترک نے ایک شخص سقا نام پر دعویٰ کیا ہے حق اُس ترک کی طرف ہے اور تم سقا کی رعایت کرتے ہو، اگر سقا مدعی کی جانب کی حقیقت کا منکر ہو تو اس سے کہنا کہ ’’اے سقائے تشنہ‘‘ وہ اس بات کو جانتا ہے، دوسرا شاہد یہ ہے کہ سقانے ایک عورت سے زنا کیا ہے جب وہ حاملہ ہوگئی تو حمل کو اسقاط کرکے بچہ کو فلاں جگہ پر انگور کے نیچے دفن کردیا ہے پھر ان خلیفوں نے فرمایا کہ جب تو یہ پیغام مولانا شمس الدین کو پہنچا دے تو دوسرے روز صبح کے وقت فوراً تین عدد مویز (سوکھے ہوئے انگور، منقا) لینا او رریگ مردہ کے راستے نسف کی طرف حضرت سید امری کلال رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں روانہ ہوجانا جب تو جنگل میں پہنچے گا تو ایک بوڑھا ملے گا جو تجھے ایک گرم روٹی دے گا وہ روٹی لے لینا مگر اس سے بات نہ کرنا، آگے بڑھ کر تجھے ایک قافلہ ملے گا قافلہ سے گزر کر ایک سوار آگے آئے گا جسے تو نصیحت کرے گا اور وہ تیرے ہاتھ پر توبہ کرے گا حضرت عزیزاں رحمۃ اللہ علیہ کی کلاہ جو تیرے پاس ہے اُسے اپنے ساتھ حضرت سید امیر کلال کی خدمت میں لے جانا۔
بعد ازاں اُس جماعت نے مجھے ہلادیا اور میں ہوش میں آگیا، صبح کو میں فوراً اپنے مکان پر گیا اور متعلقین سے کلاہ کا قصہ دریافت کیا، انہوں نے بتایا کہ مدت ہوئی وہ کلاہ فلاں جگہ رکھا تھا۔ جب میں نے حضرت عزیزاں کی کلاہ دیکھی تو میری حالت بہت دگر گوں ہوگئی اور میں بہت رویا، اسی وقت میں ابکنہ پہنچا اور نمازِ فجر مولانا شمس الدین کی مسجد میں پڑھی، نماز سے فارغ ہوکر میں نے مولانا سے وہ قصہ بیان کیا ، سقا حاضر تھا۔ وہ مدعی کے دعویٰ کا منکر ہوگیا، میں نے سقا سے کہا کہ میرا ایک گواہ یہ ہے کہ سقائے تشنہ ہے، تجھے عالم معنی سے کوئی حصہ نہیں، وہ خاموش ہوگیا، پھر میں نے کہا کہ میرا دوسرا گواہ یہ ہے کہ تو نے ایک عورت سے زنا کیا، وہ حاملہ ہوگئی اور تیرے حکم سے اسقاطِ حمل کیا گیا اور بچہ کو تو نے فلاں جگہ پر انگور کے نیچے دفن کیا، سقا نے اس سے بھی انکار کیا، مولانا اور مسجد کے لوگ اس جگہ پہنچے اور تلاش کی تو وہاں مدفون بچہ پایا، سقا نے معافی مانگی، مولانا اور مسجد کے لوگ رو پڑے اور عجیب حالات رونما ہوئے، جب وہ دن گزر گیا تو میں دوسرے روز آفتاب طلوع ہونے پر تین عدد مویز لے کر ریگ مردہ کے راستے نسف کی طرف روانہ ہونے لگا، جب مولانا کو مریی ر وانگی کی خبر ہوئی تو مجھے بلایا اور مجھ پر بڑی عنایت کی اور فرمایا کہ تجھ میں دردِ طلب پیدا ہوگیا ہے، اس درد کی دوا ہمارے پاس ہے اگر تو ہمارے پاس ٹھہر جائے تو ہم تمہار ی تربیت کریں گے۔ میں نے عرض کیا کہ میں دوسروں کا فرزند ہوں، اگر آپ پستانِ تربیت میرے منہ میں دیں تو مجھے لینا نہ چاہیے، یہ سن کرمولانا خاموش ہوگئے اور مجھے اجازت دے دی، میں نے اُسی وقت کمرِ ہمت باندھی اور چل پڑا، جب جنگل میں پہنچا تو ایک بوڑھا مجھ سے ملا جس نے مجھے ایک گرم گرم روٹی دی، میں نے روٹی تو لے لی مگر اُس سے کوئی بات نہ کی آگے بڑھ کر ایک قافلہ پر سے گزر ہوا، قافلہ والوں نے مجھ سے پوچھا کہ تو کہاں سے آ رہا ہے، میں نے کہا ابکنہ سے، وہ بولے کہ وہاں سے تو کب روانہ ہوا، میں نے طلوعِ آفتاب کے وقت۔ جب قافل ہوالوں سے بات ہو رہی تھی تو چاشت کا وقت تھا، وہ حیران ہوئے کہ ابکنہ یہاں سے بارہ میل کا فاصلہ ہے ہم اول شب وہاں سے روانہ ہوئے تھے اور تم طلوع آفتاب پر وہاں سے چلے اور یہاں ایک ساتھ ہی پہنچ گئے۔
قافلہ والوں سے فارغ ہوکر آگے بڑھا تو وہ سوار ملا۔ میں نے سلام کیا تو اس نے کہا، تو کون ہے؟میں تجھ سے ڈرتا ہوں، میں نے کہا کہ میں وہ ہوں جس کے ہاتھ پر تجھے توبہ کرنی ہے۔ وہ جلدی سے گھوڑے سے اُتر، بہت گریہ زاری کی اور تائب ہوا، اُس کے پاس بہت ہی شراب تھی اس نے وہ سب پھینک دی، اُس سے آگے بڑھ کر نسف کی حد میں پہنچا تو وہاں حضرت سیّد امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ جلوہ افروز تھے، میں اُن کی ملاقات سے مشرف ہوا اور حضرت عزیزاں کی کلاہ اُن کے آگے رکھ دی، حضرت امیر رحمۃ اللہ علیہ ایک لخطہ تو خاموش رہے اور پھر فرمایا کہ یہ کلاہ تو حضرت عزیزاں رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ میں نے کہا: ہاں، اس پر انہوں نے فرمایا کہ اس کے بارے میں اشارہ یوں ہوا ہے کہ اس کو دو پردوں کے درمیان محفوظ رکھو، میں نے قبول کیا اور کلاہ مبارک لے لی، پھر حضرت امیر رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے تلقینِ ذکر کی اور بطریقِ خفیہ نفی و اثبات میں مشغول کیا، میں ایک عرصہ تک اس سبق میں مشغول رہا جیسا کہ واقعہ میں مامور تھا۔ میں نے عزیمت (عزم، ارادہ) پر عمل کیا اور ذکر جہر نہ کیا، چونکہ مجھے اخبار و آثارِ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی تفحص (جستجو، تلاش) کا حکم تھا بدیں وجہ حضرات علمائے کرام کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا اور احادیث پڑھا کرتا تھا، آثارِ صحابہ معلوم کیا کرتا تھا۔ ہر ایک پر عمل کرتا اور اس کا نتیجہ اپنے باطن میں مشاہدہ کرتا تھا۔
حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اوائلِ احوال میں ایک دفعہ نو ماہ تک دروازۂ فیض مجھ پر بند رہا جس کی وجہ سے میں کمزور اور بے چین ہوگیا، میں نے چاہا کہ مخلوق کی خدمت و ملازمت میں مشغول ہوجاؤں، اس حالت میں میرا گزر ایک مسجد پر ہوا جس پر یہ شعر لکھا ہوا تھا ؎
اے دوست بیا کہ ماترائیم
بیگانہ مشو کہ آشنائم [۱]
[۱۔اے دوست آکہ ہم تیرے ہیں، بیگانہ نہ بن کہ ہم تجھ سے آشنا ہیں۔ (قصوری)]
میں نے جب یہ شعر پڑھا تو مجھ پر رقت طاری ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کی عنایت سے وہ دروازہ مجھ پر کھل گیا۔
آپ فرماتے ہیں مبادیٔ احوال میں ایک رات میں مسجد زیورتوں میں ایک ستون کے پیچھے روبقبلہ بیٹھا تھا، ناگاہ غیبت و فناہ کا اثر ظاہر ہونے لگا اور میں رفتہ رفتہ بے خود ہوگیا اور اسی حالت میں ارشاد ہوا کہ ہوشیار ہوجاؤ، جو مطلوب و مقصود ہے تمہیں مل گیا ہے۔ کچھ دیر کے بعد میں ہوش میں آگیا، فرماتے ہیں کہا س قصہ کے بعد ایک روز میں اُس باغ میں تھا جس میں آپ کا مزار مقدس واقع ہے متعلقین کی ایک جماعت میرے ساتھ تھی، ناگاہ عنایتِ الٰہی کے جذبات کا اثر ظاہر ہونے لگا۔ اضطراب و بے قراری پیدا ہوئی، میں اُٹھ کر رو بقبلہ ہو بیٹھا۔ اچانک غیبت واقع ہوئی۔ اور وہ غیبت فنائے حقیقی تک پہنچ گئی۔ میں اس فنا میں کیا دیکھتا ہوں کہ میری روح کو آسمانوں کے ملکوت سے آگے لے گئے اور اس مقام پر پہنچا کہ میری روح ستارہ کی شکل میں نورِ بے نہایت کے دریا میں محو ونا پدید ہوگئی اور میرے قالب میں حیات ظاہری کا کچھ نشان نہ رہا میرے گھر والے اور متعلقین اُس حالت میں گریہ زاری کرتے تھے یہاں تک کہ میں آہستہ آہستہ وجود بشریت میں آگیا، وہ غیبت و فناہ کم و بیش چھ گھنٹے رہی تھی۔
سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے خواجگان حضرت خواجہ محمود الخیر فغنوی رحمۃ اللہ علیہ کے وقت سے حضرت سید امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے تک ذکرِ خفیہ کو ذکر علانیہ کے ساتھ جمع کیا کرتے تھے مگر حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ ذکرِ خفیہ کیا کرتے تھے ذکرِاعلانیہ سے پرہیز کیا کرتے تھے جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان ہوچکا ہے۔ جب حضرت سید امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ کے اصحاب و مریدین میں ذکرِ علانیہ کرتے تو خواجہ نقشبند مجلس سے اُٹھ جایا کرتے۔ حضرت امیر رحمۃ اللہ علیہ کے اصحاب کو یہ بات بہت ناگوار اور شاق گزرتی مگر خواجہ نقشبند، حضرت امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت و ملازمت میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کرتے اور ہمیشہ سرِ تسلیم خم کرتے اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ بھی روز بروز خواجہ نقشبند کی طرف زیادہ توجہ و التفات فرماتے۔ یہاں تک کہ ایک روز تمام اصحاب نے حضرت امیر کی خدمت میں تنہائی میں شکایت کی مگر حضرت امیر رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی جواب نہ دیا مگر بعد ازاں ایک دن حضرت امیر رحمۃ اللہ علیہ کے تمام اصحاب بتعداد پانچ صد سُوخار میں مسجد، جماعت خانہ اور دیگر مکانات کی تعمیر کے لیے جمع تھے اور ہر ایک کام میں لگا ہوا تھا۔ جب مٹی کا کام ختم ہوگیا تو آپ نے اُ س مجمع سے مخاطب ہوکر شکایت کرنے والوں سے فرمایا کہ تم میرے فرزند بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں بدگمانی کرتے ہو اور غلطی سے اُس کے بعض احوال کو قصور پر محمول کرتے ہو، تم لوگوں نے اُسے نہیں پہچانا، اللہ تعالیٰ کی نظرِ خاص ہمیشہ اُس کے شاملِ حال ہےا ور بندگانِ حق تعالیٰ کی نظر اللہ تعالیٰ کی نظر کے تابع ہے۔ اُس کے حق میں مزید التفات کے بارے میں میرا کچھ اختیار نہیں پھر حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ جو اینٹیں اٹھاکر لا رہے تھے،طلب کرکے فرمایا:
’’اے فرزند بہاء الدین رحمۃ اللہ علیہ! حضرت خواجہ محمد بابا سماسی رحمۃ اللہ علیہ نے تمہارے حق میں جو وصیت کی تھی، میں اُسے اپنی ہمت و بساط کے مطابق بجالایا، انہوں نے مجھے ارشاد کیا تھا کہ جس طرح میں نے تمہاری تربیت کی بالکل اسی طرح میرے فرزند بہاء الدین رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت کرنا۔ مقامِ شکر ہے کہ میں نے ویسا ہی کیا پھر اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، میں نے یہ پستان تمہارے واسطے خشک کیے اور تمہاری روحانیت کا مرغ بشریت کے بیضہ (انڈا) سے نکل آیا ہے اور تمہاری ہمت کا مرغ بہت بلند واقع ہوا ہے۔ ترک و تاجیک یا جس جگہ سے بھی کوئی خوشبو تمہارے دماغ میں پہنچے طلب کرو اور اپنی ہمت کے مطابق طلب میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرو‘‘۔
اس ارشاد کی تعمیل کے لیے حضرت خواجہ نقشبند سات سال تک مولانا عارف دیک کرانی رحمۃ اللہ علیہ [۱]کی خدمت میں رہے اور ان کی متابعت، تعظیم اور آداب بجالاے رہے چنانچہ وضو کے وقت نہر کے کنارے جب مولانا بیٹھتے تو خواجہ نقشبند نیچے کی طرف بیٹھ کر وضو کرنے کے لیے بیٹھتے اور چلتے وقت مولانا کے قدم قدم نہ رکھتے، بعد ازاں قثم شیخ کی خدمت میں دو تین مہینے رہے۔ جب پہلی بار شیخ کی خدمت میں پہنچے تو شیخ اُس وقت خربوزہ کھا رہے تھے۔ شیخ نے چھلکا آپ کی طرف پھینک دیا جسے آپ نے بطور تبرک کھالیا، اسی مجلس میں دو تین بار ایسا ہی وقوع پذیر ہوا۔ دریں اثناء شیخ کے خادم نے آکر اطلاع دی کہ تین اونٹ اور چار گھوڑے گم ہوگئے ہیں۔ شیخ نے حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اشارہ کیا، حضرت خواجہ مراقب ہوکر متوجہ ہوگئے، نماز مغرب کے بعد خادم نے اطلاع دی کہ اونٹ اور گھوڑے خود بخود آگئے ہیں۔ اس کے بعد حضرت خواجہ نقشبند بار سال حضرت اتا رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہے چنانچہ خود فرماتے ہیں کہ
[۱۔ ] دیک کراں ایک گاؤں ہے جو بخارا سے ۲۷ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ مولانا عارف کا مزار مبارک گاؤں سے باہر قصبہ ہزارہ کو جانے والے راستہ پر واقع ہے۔ (قصوری)]
’’اوائلِ حال میں ایک روز میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت حکیم اتا قدس سرہ جو کہ اکابر مشائخِ ترک میں سے تھے، مجھ سے ایک درویش کی سفارش فرماتے ہیں جب میں بیدار ہوا تو اُس درویش کی صورت میرے ذہن میں تھی، میں نے اپنی دادی سے جو صالحہ تھیں اس خواب کا ذکر کیا، انہوں نے فرمایا کہ بیٹا! تجھے مشائخ ترک سے کچھ فیض پہنچے گا۔ میں ہمیشہ اُس درویش کی ملاقات کا طالب رہا، ایک روز بخارا کے بازار میں اُس سے میری ملاقات ہوگئی، میں نے اُس کو پہچان لیا، اُس کا نام خلیل اتا تھا۔ اُس وقت تو اس کی صحبت میسر نہ ہوئی۔ جب میں گھر پہنچا تو شام کے وقت ایک قاصد آیا کہ درویش خلیل آپ کو یاد کرتے ہیں میں نے کچھ تحفہ لیا اور بڑے نیاز و شوق سے اُن کی خدمت میں گیا، میں نے چاہا کہ وہ خواب اُن سے بیان کروں مگر انہوں نے خود ترکی زبان میں مجھ سے فرمایا کہ جو کچھ تمہارے دل میں ہے وہ ہمارے سامنے عیاں ہے، بیان کی ضرورت نہیں، یہ سن کر میرا حال دگر گوں ہوگیا، اور میرا میلانِ خاطر اُن کی طرف زیادہ ہوگیا، اُن کی صحبت میں عجیب حالات دیکھنے میں آتے تھے۔ اتفاقاً کچھ مدت بعد اُن کو ماوراء النہر کی بادشاہی مل گئی۔ ایک دفعہ ایام سلطنت میں ایک کام کے لیے میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے مجھے اپنی ملازمت و خدمت کی عزت بخشی، بادشاہت کے زمانے میں بھی اُن سے بڑے بڑے حالات ظہور میں آے اور میرا میلانِ خاطر اُن کی طرف اور زیادہ ہوتا گیا وہ مجھ پر بڑی شفقت فرماتے تھے اور کبھی مہربانی اور کبھی غصہ سے مجھے آدابِ خدمت سکھاتے جس سے مجھے بہت سے فائد ے پہنچتے، اُن آداب کی تعلیم اس راہ کی سیر و سلوک میں بہت کارآمد ثابت ہوئی، میں اُن کے عہدِ سلطنت میں چھ سال اس طریقہ سے اُن کی خدمت میں رہا کہ مجلسِ عام میں آداب سلطنت بجالاتا اور تنہائی میں اُن کا محرمِ خاص تھا۔ اپنے خواصِ بارگاہ کے سامنے وہ اکثر یوں فرمایا کرتے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے میری خدمت کرے گا وہ خلق میں بزرگ ہوجائے گا مجھے معلوم تھا کہ اُن کا مقصود کون اور کیا ہے؟ اس سے اُن کا اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ بادشاہوں کا اعزاز و اکرام اُن کی عظمت کی وجہ سے نہ کرنا چاہیے بلکہ اس واسطے کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کو اپنے جلال و بزرگی کا مظہر بنایا ہے۔ کچھ مدت بعد جب اُن کی سلطنت کو زوال آیا تو ایک دم میں وہ خدم و حشم و ملک اڑتی ہوئی خاک ہوگئے۔ یہ دیکھ کر دنیا کا ہر کام، ہر چیز میری نظروں میں ہیچ ہوگئی۔ میں بخارا چلا آیا اور زیورتوں جو بخارا کے نواح میں ایک گاؤں ہے، ساکن ہوگیا۔
حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ منازل و مقامات کے طے کرنے میں حضرت حسین بن منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ کی صفت دو مرتبہ میرے وجود میں ظاہر ہوئی، نزدیک تھا کہ وہ آواز جو اُن سے ظہور میں آئی تھی مجھ سے بھی ظاہر ہوجائے، بخارا میں ایک سولی تھی، میں دونوں دفعہ اپنے آپ کو اُس سولی کے نیچے لے گیا اور کہا کہ تیری جگہ یہی سولی ہے، عنایت الٰہی سے میں اُس مشکل مقام کو عبور کرگیا۔
فرمایا کہ حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کی روحانیت کا اثر علائق ظاہری و باطنی سے تجرد کلی اور انقطاعِ تمام ہے اور امام محمد علی حکیم ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی روحانیت کا اثر بے صفتی محض ہے۔
فرمایا کہ میں نے حضرت بایزید بسطامی، شیخ جنید بغدادی، شیخ شبلی اور ابنِ منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہم کے مقامات کی سیر کی، جہاں وہ پہنچے تھے میں بھی وہاں پہنچا، یہاں تک کہ صفاتِ انبیاء کی سیر میں ایسی جگہ پہنچا کہ جس سے بڑی کوئی بارگاہ نہ تھی، میں نے جان لیا کہ بارگاہِ محمدی ہے علیہ الصلوٰۃ والسلام، سلطان العارفین با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ جب اُس بارگاہ تک پہنچے تھے تو انہوں نے چاہا کہ سیر کرنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مماثلت کریں لیکن اُن کو روک دیا گیا مگر میں نے ایسی گستاخی نہ کی بلکہ نیاز و تعظیم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آستانہ اقدس پر کیا۔
فرمایا کہ غلباتِ طلب میں ایک روز میں بخارا سے نسف کی طرف جا رہا تھا تاکہ حضرت سیّد امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت کا شرف حاصل کروں۔ جب رباط جغراتی میں پہنچا تو ایک سوار ملا وہ چرواہوں کی طرح ایک بڑی لکڑی ہاتھ میں لیے اور نمدہ پہنے میرے پاس آیا او را س لکڑی سے مجھے مارا اور ترکی زبان میں کہا کہ کیا تو نے گھوڑے دیکھے ہیں، میں نے اس سے کوئی بات نہ کی، اُس نے کئی بار میرا راستہ روکا اور لکڑی ماری، میں نے اُس کو کہا کہ میں آپ کو پہچانتا ہوں، وہ کافی دور تک میرے پیچھے آیا اور مجھ سے کہا کہ آؤ کچھ دیر بات چیت کریں مگر میں نے توجہ نہ کی جب میں حضرت سیّد میر کلال رحمۃ اللہ علیہ کے قدموں میں حاضر ہوا تو انہوں نے ارشاد کیا کہ تم نے حضرت خضر علیہ السلام کی طرف توجہ نہیں، میں نے عرض کی کہ ہاں، میں آپ کی محبت میں مستغرق تھا اس لیے اُدھر متوجہ نہ ہوسکا۔
حضرت خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے مرشد حضرت خواجہ نقشبند کی نظرِ عنایت کی برکتوں سے طالبوں کا یہ حال تھا کہ قدمِ اوّل میں سب کے سب سعادتِ مراقبہ سے مشرف ہوجاتے تھے۔ جب نظرِ عنایت زیادہ ہوتی تو درجۂ عدم کو پہنچ جاتے، جب اس سے بھی زیادہ نظر عنایت ہوتی تو مقامِ فنا کو پہنچ جاتے اور فانی از خود اور باقی بحق ہوجاتے۔ اس حال میں حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ یوں فرمایا کرتے کہ ہم تو دولت وصال کے واسط ہیں۔ ہم سے منقطع ہوکر مقصودِ حقیقی سے ملنا چاہیے اور اربابِ تکمیل و ایصال کا طریقہ یہ ہے کہ اس راستے کے بچوں کو طریقت کے گہوارے میں لٹاتے ہیں اور تربیت کے پستان سے دودھ پلاتے ہیں، یہاں تک کہ حد فصال کو پہنچ جاتے ہیں، اس کے بعد اُن کا دودھ چھڑاتے ہیں اور بارگاہِ احدیت کا محرم بناتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ سے بلا واسطہ فیض حاصل کرسکیں۔
حضرت خواجہ فقیر تھے اور ہمیشہ فقر کی تائید فرمایا کرتے تھے، فرماتے تھے کہ ہم نے جو کچھ پایا ہے محبتِ فقر سے پایا ہے، آپ کے دولت خانہ میں موسمِ سرما میں خاشاکِ مسجد ہوا کرتا اور گرما میں پرانا بوریا، ہر چیز بالخصوص طعام میں حلال کی رعایت اور شبہات سے اجتناب میں نہایت احتیاط فرمایا کرتے تھے، اپنی مجلس میں ہمیشہ اس حدیث نبوی کو بیان فرمایاکرتے تھے۔
ان العبادۃ عشرہ اجزأ تسعۃ منھا طلب الحلال وجزء واحد منھا سائر العبادات.
’’عبادت دس اجزاء ہیں جن میں سے نو طلب حلال ہیں اور اُن میں سے ایک باقی عبادات ہیں‘‘۔
باوجود کمالِ فقر کے آپ میں ایثار اعلیٰ درجہ کا تھا۔ جو شخص آپ کی خدمت میں ہدیہ لاتا اتباعِ سنت کے طور پر آپ اُسی قدر یا زیادہ اُس کے ساتھ احسان کرتے، اگر کوئی دوست یا مہمان آپ کے درِ دولت پر حاضری دیتا تو پُرتکلف کھانا کھلاتے، آپ کی بسر اوقات زراعت سے تھی، ہر سال کچھ جَو اور کچھ ماش کاشت کرتے، تیاری زمین، انتخابِ بیج اور بیلوں کام لینے میں بڑی احتیاط فرماتے، اکابر علماء و مشائخ جو حاضر خدمت ہوتے آپ کا طعام بطورِ تبرک کھاتے تھے آپ کا کوئی مکان ملکیتی نہ تھا، بطور عاریت رہا کرتے، آپ کے ہاں کوئی خادم یا خادمہ نہ تھی، جب وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا: ’’بندگی با خواجگی راست نمے آید‘‘، آپ فرماتے تھے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مبارک حجروں میں جَو کا آٹا چھلنی سے نہ چھانا جاتا تھا۔ (صحیح بخاری، کتاب الاطمعہ) اس لیے چند روز ہمارے گھر میں جَو کا آٹا بغیر چھانے پکتا رہا، تمام متعلقین و فرزندان بیمار ہوگئے، مجھے معلوم ہوا کہ اس کا باعث یہ تھا کہ اہلبیت رسالت کے ساتھ بے ادبی کی گئی ہے کیونکہ اس کھانے میں صورتِ مساوات کی تشبیہ پیدا ہوگئی ہے، بے شک متابعت بہت کوشش کرنی چاہیے مگر حقیقت میں اپنے آپ کو ہر امر میں مقصر (قصوروار) خیال کرنا چاہیے۔ بعد ازاں جَو کا آٹا نہ پکایا گیا۔ تمام تندرست ہوگئے ؎
ہر کہ پے درپے رسول نہاد
از ہمہ رہرداں بہ پیش افتاد
حضرت خواجہ اکثر و بیشتر کھانا پکاتے اور دستر خوان کی خدمت خود انجام دیتے تھے، درویشوں کو بالخصوص طعام کھانے کے وقت وقوف و حضور (شعور و تمیز اور حاضری کی پابندی اور نگہداشت) کا حکم دیتے اور تاکید فرماتے،اگرچہ دستر خوان پر بڑا اجتماع ہوتا مگر جب اُن میں کوئی غفلت سے لقمہ کھاتا تو آپ براہ لطف و کرم اُسے آگاہ فرماتے اور لقمہ کھانے نہ دیتے اگر کھانا غصّہ اور کراہت سے پکا ہوتا تو آپ اُسے نہ کھاتے اور نہ ہی درویشوں کو کھانے دیتے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت خواجہ، غدیوت میں تشریف فرما تھے، ایک درویش آپ کی خدمت میں کھانا لایا، آپ نے فرمایا کہ ہمیں یہ کھانا نہ چاہیے کیونکہ غصّہ کی حالت میں پکایا گیا ہے۔ آٹا چھاننے، خمیر کرنے اور پکانے کے وقت کسی میں غصہ رہا ہے۔
اگر کوئی شخص کفگیر (چمچہ) کوغصے یا کراہت کی حالت میں دیگ میں مارتا تو آپ اُس کھانے کو نہ کھاتے اور فرماتے جو کام غضب و غفلت یا کراہت و دشواری سے کیا جائے، اس میں خیر و برکت نہیں، کیونکہ اس میں نفس و شیطان کا دخل ہوجاتا ہے۔ اُس سے اچھا نتیجہ کب پیدا ہوسکتا ہے، اعمالِ صالحہ اور افعالِ حسنہ کے صدور کی بنا پر طعام حلال ہے جو وقوف و آگاہی سے کھایا جائے، تمام اوقات بالخصوص نماز میں حضور اسی سے حاصل ہوتا ہے۔
ایک دن ایک شخص مچھلی پکاکر آپ کی خدمت میں لایا، اس وقت درویشوں کی جماعت بھی موجود تھی جن میں ایک جوان عابد و زاہد و روزہ دار تھا، آپ نے فرمایا کہ آؤ ہمارے ساتھ شریک ہوجاؤ، اس نے انکار کیا تین بار فرمایا لیکن وہ انکار کرتا رہا، آپ نے فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو کہ دور افتادہ ہے بالآخر وہ جوان بوجہ بے ادبی سخت ذلیل و خوار ہوکر مرا، حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ نے کیسی خوبصورت بات کہی ہے ؎
بمئے سجادہ رنگیں کن گرت پیرِ مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نبود زِ راہ و رسم منزلہا
کسی پنجابی شاعر نے اس شعر کا کیسا عارفانہ ترجمہ کیا ہے ؎
وچ شرابیں رنگ مصلی جویں ہادی فرماوے
کہ سالک واقف راہ و رسم تھیں پل وچ پار لنگھاوے
روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ کی خدمت میں ہریسہ (ایک قسم کا کھانا جو گندم کے آٹے، گوشت کی یخنی اور دودھ سے پکاتے ہیں) پیش کیا گیا۔ آپ نے تناول فرمایا، اتنے میں ایک درویش حاضر ہوا، آپ نے فرمایا: آؤ کھاؤ! اُس نے نفلی روزہ رکھا تھا، عذر کیا، آپ نے فرمایا: ’’مارا از در فضل در آدرند و وظیفۂ ما وائے فرض و واجب و سنت است۔ درویش بے متابعت دریا بندہ نسبتِ مانیست‘‘۔ اس طریقہ کو حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس قدر مناسبتِ تامہ ہے کہ عارفِ جامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ؎
سکہ کہ در یثرب و بطحا زدند
نوبت آخر بہ بخارا زدند
آپ فرماتے ہیں کہ مجھے غائبانہ طریق سے کہا گیا کہ تو کس طرز اور روش سے آنا چاہتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اُس روش سے کہ جو میں چاہوں، پھر ندا آئی کہ جو ہم چاہیں گے وہ کرنا ہوگا، میں نے کہا کہ یہ مجھ میں طاقت نہیں کہ آپ جو فرماؤ بجالاسکوں، اگر میری حسبِ منشا ہوتا رہا تو قدم اس راہ پر رکھ سکتا ہوں ورنہ مجھ میں وہ طاقت نہیں، اس گفتگو کے بعد ۱۵ روز تک کچھ جواب نہ آیا، آخرکار حکم آیا اچھا آؤ جیسا تم چاہو گے ویسا ہی ہوگا ؎
آنرا کہ در پذیر معبود لا معلمہ
او راچہ حاجت آید رنجِ چہار چلہ
پھر آپ نے فرمایا:
ہر کہ در سلسلۂ ما قدم نہد تا بمقصود نرسد از دنیا نرود
دہر کہ از سلسلۂ ما روئے تابد از دنیا بے ایمان روو
یعنی جو کوئی ہمارے سلسلہ میں قدم رکھے گا جب تک مقصد کو نہیں پہنچے گا اس دنیا سے نہیں جائے گا اور جو کوئی ہمارے سلسلہ سے تحقیراً و تخفیفا منہ پھیرے وہ دنیا سے ایمان کے بغیر ہی جائے گا۔
سبحان اللہ! اس ارشادِ گرامی سے ثابت ہوگیا کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے محبوبیت و معشوقیت کا درجہ عطا کیا ہے اور جو لوگ طریقہ نقشبندیہ سے سرکش اور روگرداں ہیں اور اس طریقہ کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں وہ مرتد اور منافقِ ابدی ہیں۔ چنانچہ خود حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ فرماتے ہیں ؎
امروز منم بزورِ بازو مغرور
من ہمچو زمردم عدو چوں افعی
پر زورئے ما بہ کل عالم مشہور
کنہ دیدنِ من دیدۂ او گرد دکور
دیگر
من صرفہ کنم کہ بر رخم اعدا زد
ما تیغ برہنہ ایم در دستِ قضا
مشتِ خاشاک بطمع بردرپازد
شد کشتہ ہر آنکہ خویش را برمازد
اوائل زندگی میں ایک دن آپ کا گزر ایک قمار خانہ سے ہوا دیکھا کہ اس مجلس میں دو شخص ایسے محوو مستغرق ہیں کہ تمام نقد و جنس جو کچھ اُن کے پاس تھا سب ہار چکے تھے اور تعجب یہ کہ جس قد روہ زک ہار کھاتے اُسی قدر عربی گھوڑے کی طرح اور بھی تیز و تند ہوجاتے اور ان کا ذوق و شوق لحظہ بہ لحظہ ترقی پکڑتا، اُن کی یہ حالت دیکھ کر آپ کا دل بھی چمکا اور آتشِ عشق بھڑکی اور اُمیدِ وصال بڑھتی گئی یعنی آپ نے نفس کو غیرت دلائی کہ اس کو کہتے ہیں استقلال تو نے اگر خد اکو پاناہے تو ان قمار بازوں سے سبق سیکھ۔
آپ فرماتے ہیں کہ جن ایام میں مجھے کششِ عشق میں خدا تعالیٰ نے سخت مضطرب کر رکھا تھا میں حضرت امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر تھا ایک دن اچانک حضرت امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ چونکہ تم مجھے نہیں چاہتے لہٰذا یہاں سے چلے جاؤ، آپ پر یہ بات ناگوار گزری، چل دیے راستے میں خیال آیا کہ حضرت امیر رحمۃ اللہ علیہ کے ایک بار ایسا کہنے سے کیوں چلاجاؤں؟ واپس آگئے، حضرت امیر نے فرمایا: یہاں تیرا کوئی کام نہیں، کوئی دوسرا دروازہ تلاش کر، آپ نے کہا: اب جاتا ہوں پھر نہ پلٹوں گا، چنانچہ چل دیے اور شہر بخارا میں آگئے ایک قمار خانے کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ دو قمار باز کھیل رہے ہیں، ایک سب کچھ ہار چکا تھا لیکن پھر بھی دوسرے سے قرض مانگتا اور کھیل جاری رکھنے پر اصرار کر رہا تھا، دوسرے نے کہا: اب چلے جاؤ،تمہارے پاس کھیلنے کے لیے اب رہ ہی کیا گیا ہے؟ اُس نے کہا: اب جان کی بازی لگاؤں گا ؎
ای دادہ رخِ تو ماہِ زیبائی
در خدمتِ تو جان و دل و دیدہ دتن
خاکِ قدمِ تو دیدہ را بینائی
می در بازم اگر قبول فرمائی
آپ یہ جواب سن کر بے قرار ہوگئے اور ماہیِ بے آب کی طرح تڑپنے لگے، اپنے آپ کو مخاطب کرکے کہنے لگے: ’’بہاء الدین‘‘ تم قمار باز سے بھی گئے گزرے ہو، تم اتنی جلدی کیوں میدان چھوڑ گئے، تم فوراً امیر رحمۃ اللہ علیہ کے آستانے پر لوٹ جاؤ ؎
تا جان دارم در غمت آویزم
چوں صبح قیامت بد ما عشقت
تا اشک بود برسرِ کویت ریزم
از خاکِ ورت نعرہ زناں بر خیزم
چنانچہ آپ واپس لوٹ آئے، آپ کا معمول تھا کہ حضرت امیر رحمۃ اللہ علیہ کے وضو اور طہارت کے لیے پانی کا اہتمام فرماتے تھے، آپ اُسی طرح پانی کا آفتابہ بغل میں لیے آئے اور رات کو وہاں پہنچے رات بے حد سرد تھی اور برف گر رہی تھی۔ آپ پانی لیے دروازہ میں پڑے رہے اور برف گرتے گرتے آپ کا سارا جسم برف میں دوب گیا۔ صبح کو جب حضرت امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ باہر تشریف لائے تو اُن کا پاؤں مبارک آپ کے سر پر پڑا، حضرت امیر رحمۃ اللہ علیہ نے بکمال شفقت تمام برف اور خس و خاشاک دور کرکے آپ کے سر کو اُٹھایا اور فرمایا: بیٹے بہاء الدین! اُٹھ جا کہ جس طرح ہمارا قدم تمہارے سر پر پڑا ہے تمہارا قدم لوگوں کی بڑی تعداد پر آئے گا اور یہ خلعتِ سعادت تیرے ہی قد مبارک کو موزوں تھا، پھر نظرِ عنایت فرمائی اور آپ درجۂ کمال کو پہنچ گئے ؎
ہزار عمر فدائے دمے کہ من از شوق
بخاک و خوخ تپم دگوئی از برائے من است
آپ کا جامہ اوفی، عمامہ سفید، پاپوش پرانا اور کبھی کلاہ بھی پہنا کرتے، درویشوں کی نہایت تعظیم کرتے، ہر ایک دوست کے ساتھ بتواضع پیش آتے آپ قطبِ عالم تھے اکثر فرمایا کرتے تھے:
’’طریقۂ ما از نوادر است و عروۃ الوثقیٰ است مارا از فضل آوردہ اند
دریں طریقہ باندک عمل فتوح بسیا راست اما رعایتِ سنت کارے بزرگ تراست‘‘
کسی نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کو کہاں اور کس طرح حاصل کروں، فرمایا: اتباعِ سنّت سے، اور فرمایا جو شخص میرے طریقہ سے منہ پھیرے اُس کو دینی خطرہ ہے اور فرماتے کہ میرا مرید خواہ دور ہو یا نزدیک مجھے ہر روز اُس کی خبر اور اطلاع ہے۔ فرماتے کہ
’’آئینۂ ہر یک مشائخ راد و جہت است و آئینۂ ماراشش جہت است‘‘۔
اور اپنے مخلصین سے فرمایا کرتے:
’’ہر گاہ ترا مہمے پیش آید توجہ بمانمائے‘‘۔
آپ کو مریدوں کی سخت غیرت ہے جو شخص طریقۂ نقشبندیہ کا مخالف ہو وہ فوراً تباہ و برباد ہوجاتا ہے چنانچہ آپ کی یہ تین رباعیاں شاہد ہیں ؎
۱۔
رو در صفِ دوستاں ما باش و مترس
گز جملہ جہاں قصدِ وجود تو کنند
خاکِ رہِ آستانِ ماباش و مترس
دل فارغ دار ازاں، باماباش و مترس
۲۔
در ویشانیم نشستہ برکوہ ودرہ
پیرانِ قوی دا ریم و مردانِ سرہ
کانجا کہ پلنگ و شیر و اژدر گذرہ
ہر کس کہ بماکج نگر دو جاں نبرہ
۳۔
سن دوش و عا کردم و باد آمینا
گر چشم ترا چشم بد اندیش رسید
تابہ شود آں دو چشم باد آمینا
در چشم بد اندیشم باد آمینا
آپ اکثر و بیشتر فرماتے تھے:
’’مقصودِ ما آنست کہ سلوکِ ما بر جادۂ مصطفویہ و متابعتِ سنّت باشد و حق از باطل متمیز گردد‘‘۔
اور بعض دفعہ فرماتے:
’’بنائے طریقۂ ما بر تتبعِ احادیث و آثار است‘‘
یہی وجہ ہے کہ طریقۂ نقشبندیہ کا نام طریقۂ رسولیہ صدیقیہ مشہور ہے۔ طریقۂ نقشبندیہ میں غیرت، جوش ، شجاعت اور تصرف بہت زیادہ ہے۔ آپ امامِ وقت ہیں۔ حضرت کواجہ فریدالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
’’جس قدر خواجہ نقشبند علیہ الرحمۃ عالمِ پیروی میں مجاہدہ و ریاضت اور ذکر و مراقبہ کرتے تھے ہم سے تو جوانی میں اُس قدر نہ ہوسکا اور بے نفس اس قدر تھے کہ اپنے گاؤں میں جو مسجد تیار کرائی تو اپنے سر پر مٹی کی ٹوکری اُٹھاتے اور زبانِ مبارک سے یہ شعر یاد فرماتے ؎
بجان و دل کارِ تو چرانہ کنم
بسر ودیدہ کشم بارِ تو چرانہ کشم
حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ نے اسی لیے تو ان الفاظ میں آپ کی بارگاہ میں ہدیۂ تحسین پیش کیا ہے ؎
ابو الوقت دو عالم قطبِ ارشاد
زہستی در جنیدا فگند آشوب
پے تسکینِ مشتاقان دیدار
دراں آئینہ می یا بم محقق
فنا فی اللہ خواجہ بس بلند ست
خلیفہ بود حق را در زمانہ
بہاء الدین کہ دین شد ازوے آباد
بہ جذبہ با یزیدش آسماں روب
جمالِ مصطفےٰ را آئینہ دار
سوا ومن رانی قد رائی الحق
مکن تاویل خواجہ نقشبند است
نمودش بر زخے داں درمیانہ
جب آپ حج سےواپس آتے ہوئے طوس پہنچے تو شاہ معزن الدین حسینی والئی ہرات کا قاصد مکتوب لے کر آیا کہ میں آپ کی ملاقات سے مشرف ہونا چاہتا ہوں لیکن حاضر ہونا بہت مشکل ہے اس پر بموجب (واما السائل فلا تنھر (قرآن) اور واذا طلبا فکن لاء خادما ہرات کی جانب روانہ ہوئے۔ بادشاہ سے ملاقات ہوئی اور بعد ادائے مراسمِ توقیرِ فقرأ مجلس منعقد ہوئی۔ بادشاہ نے دریافت کیا، آپ کو شیخیت اپنے اباؤاجداد سے بطریقِ وراثت پہنچی ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، پھر پوچھا، آپ سماع اور ذکر جہر کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، بادشاہ نے کہا: انہی باتوں کو درویشی کہتے ہیں، وہی تم میں نہیں ہیں، آپ نے فرمایا: جذبہ عنایت الٰہی مجھ پر پہنچا اور بلا مسابقت ریاضت قبول فرمایا ور بادشاہِ حقانی حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی حمۃ اللہ علیہ کے خلفاء سے بیعت ہوا، ان کے ہاں ان چیزوں میں سے کچھ نہ تھا، بادشاہ نے دریافت کیا، پھر ان کے یہاں کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ظاہر با خلق و باطن با حق، بادشاہ نے کہا: کیا ایسا ہوجاتا ہے آپ نے فرمایا: ہاں ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: رجال لا تلھیم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ (سورہ نور) اور خلوت میں شہرت ہے اور شہرت میں آفت۔
ہمارے خواجگان کا اُصول ہے ہوش دردم، نظر برقدم، سفر در وطن، خلوت در انجمن، یاد کرد، بازگشت، نگاہِ داشت، یاد داشت، وقوفِ عددی، وقوفِ زمانی، وقوفِ قلبی، پھر اس کی مختصر تشریح بیان کی اور کہا کہ جو حضورِ ذوق، ذکر، جہر و سماع سے ہوتا ہے اس کو قیام و استقلال نہیں اگر کوئی وقوفِ قلبی پر مداومت کرے تو جذبہ پیدا ہوتا ہے اور جذبہ سے کام تمام ہوجاتا ہے۔ حقیقتِ ذکرِ خفیہ وقوفِ قلبی سے حاصل ہوتی ہے اور ایسا ہوجاتا ہے کہ دل کو خبر نہیں ہوتی کہ ذکر میں مشغول ہے کیونکہ بزرگوں کا قول ہے کہ ان علم القلب انہ ذاکر فاعلم انہ غافل یعنی اگر قلب کو معلوم ہوجائے کہ وہ ذاکر ہے، تو جان لو کہ وہ غافل ہے، اور آیہ واذکر ربک فی نفسک تضرعا وخفیہ، قال الحسن رحمۃ اللہ علیہ لا تظھر ذکرک لنفسک فتطلب لہ عوضا اور بعض بزرگوں کا مقولہ ہے، ذکر اللسان ھذیان وذکر القلب وسوسۃ اور یہ بیت پڑھا ؎
دل را گفتم بیادِ اوشاد کنم، گفت
چوں من ہمہ او شدم کرایاد کنم
وفات:
حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ فرمایاکرتے تھے کہ جب میرا وقت آخر آئے گا تو سب کو مرنا سکھاؤں گا حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ جب آپ کا وقتِ آخر آیا تو ہم سورہ یس پڑح رہے تھے جب نصف سورت پڑھی گئی تو انوار ظاہر ہونے لگے، ہم کلمہ پڑھنے لگے، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ دعا کے واسطے اٹھائےا ور دیر تک دعا مانگتے رہے، جب بعد دعا ہاتھ منہ پر پھیرے تو تارِ نفس ٹوٹ گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ واقعہ ۲؍ربیع الاوّل ۷۹۱ھ/ ۱۳۸۹ء بروز دو شنبہ (پیروار) کا ہے۔ مزارِ مقدس قصر عارفاں میں ہے۔ کسی نے یہ قطعۂ تاریخِ وفات کہا ؎
رفت شاہِ نقشبنداں خواجۂ دنیا و دیں
مسکن و ماوائے او چوں بود قصرِ عارفاں
آنکہ بودے شاہراہِ دین و دولت ملتش
’’قصر عرفاں‘‘ زیں سبب آمد حسابِ رحلتش
۷۹۱ھ
آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے جنازہ کے آگے کلمۂ شہادت اور قرآن شریف نہ پڑھیں کیونکہ بے ادبی ہے، بلکہ یہ رباعی پڑھیں ؎
مفلسا نیم آمدہ در کوئے تو
دستِ بکشا جانبِ زنبیل مسا
شیئا للہ از جمالِ روئے تو
آفریں بر ہمتِ بازوئے تو
کرامات:
۱۔ ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کرامت طلب کی تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ یہی کرامت ہے کہ باوجود اس قدر گنہ گار ہونے کے نہ تو مجھے زمین نگل لیتی ہے اور نہ آسمان سے کوئی عذاب نازل ہوتا ہے بلکہ میں زمین پر چلتا پھرتا رہتا ہوں۔
۲۔ آپ کے ایک مخلص عقیدت مند کا بیان ہے کہ جس زمانے میں دشتِ قبچاق کی طرف سے ایک لشکر نے بخارا پر حملہ کرکے بہت سی مخلوق کو ہلاک کردیا اور بے شمار لوگوں کو قیدی بنالیا تو میرا بھائی بھی قید ہونے والوں میں شامل تھا، میرے والد بیٹے کے غم میں بہت پریشان تھے اور مجھے ہر وقت یہی کہا کرتے کہ اگر تو میری رضا مندی چاہتا ہے تو دشتِ قبچاق کی طرف جاکر اپنے بھائی کو تلاش کر مجھے چونکہ حضرت خواجہ نقشبند سے بڑی عقیدت تھی اور تمام مہمات میں انہی کی طرف ہی رجوع کیا کرتا تھا لہٰذا میں نے یہ قصہ بھی اُن سے عرض کیا، آپ نے فرمایا: جلدی جا اور باپ کی رضا مندی حاصل کر، میں نے ایک درہم بطورِ نذر آپ کی خدمت میں پیش کیا جسے آپ نے قبول فرمایا مگر پھر مجھے واپس کردیا ور فرمایا کہ اسے اپنے پاس رکھنا، اس میں بڑی برکتیں ہوں گی، جس وقت دوران سفر تم کو کوئی مہم پیش آئے تو ہماری طرف متوجہ ہونا، میں حسبِ ارشاد روانہ ہوگی اور دورانِ سفر تھوڑی سی تجارت سے مجھے بہت زیادہ نفع ہوا اور بغیر کسی دشواری کے اپنے بھائی کو خوارزم میں پالیا، ہم قیدیوں کی ایک جماعت کے ساتھ کشتی میں سوار ہوکر بخارا کی طرف روانہ ہوگئے، کشتی میں بہت سے لوگ تھے، ناگاہ بادِ مخالف چلنے لگی اور کشتی کے غرق ہوجانے کا خطرہ لاحق ہوگیا، لوگوں نے فریاد شروع کی، اُس پریشانی کی حالت میں میرے کان میں کسی کی آواز آئی جو حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کو یاد کر رہا تھا، اُسی وقت مجھے بھی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا وہ ارشاد یاد آگیا کہ ’’جس وقت تم کو کوئی مہم پیش آئے تو میری طرف متوجہ ہونا‘‘۔ چنانچہ میں نے حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف توجہ کی تو اُسی وقت حضرت دکھائی دیے، میں نے سلام عرض کیا، اُن کی برکت سے ایک لمحہ میں ہوا رک گئی اور دریا کی لہر موقوف ہوگئی، پھر اس کے بعد ہم دونوں بھائی بخارا میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کرکے قدم بوسی کی حضرت نے مسکرا کر فرمایا کہ جس وقت تو نے کشتی میں ہمیں سلام کیا تھا،ہم نے سلام کا جواب دیا تھا مگر تم نے نہ سنا تھا۔
۳۔ آپ کے ایک درویش کا بیان ہے کہ میرے پچیس دینار (ایک دینار برابر ہے اڑھائی روپے کے) گم ہوگئے، آپ سے یہ قصہ بیان کیا گیا، آپ نے فرمایا کہ ان دیناروں کو اس گھر کی لونڈی لے گئی ہے اور لونڈی کو حکم دیا کہ دینار واپس کردو، اُس نے کہا کہ میں نے فلاں جگہ زمین میں دفن کردیے ہیں، آپ نے فرمایا کہ زمین میں تو صرف تین دینار مدفون ہیں، حاضرین متعجب ہوئے جب دیکھا گیا تو زمین میں تین ہی دینار تھے۔
۴۔ ایک روز حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے ایک درویش کو کسی کام کے لیے کہیں روانہ کیا اور حسبِ عادت اُس کو بغل میں لے کر نظرِ عنایت ڈالی، اتفاقاً اخی محمد در آہنی رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے درویشوں میں سے تھا، اُس درویش کے آگے آگے جاتا تھا، ایک ساعت کے بعد وہ درویش گر پڑا اور اس کی روح قالب سے نکل گئی، جب اخی محمد رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حال دیکھا تو وہ جلدی جلدی حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور تمام داستان عرض کی، حضرت اقدس رحمۃ اللہ علیہ فوراً اُس درویش کے پاس تشریف لے گئے اور اپنا قدم مبارک اُس کےسینے پر رکھا وہ ہلنے لگا، اور اُس کی روح قالب میں آگئی۔ بعد ازاں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے اس کی روح چوتھے آسمان میں پائی اور وہاں سے واپس کرلی۔
۵۔ ایک نجیب الطرفین سیّد جو حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے عقیدت و محبت رکھتا تھا، نے یہ حکایت بیان کی کہ ایک دفعہ آپ بیت اللہ شریف کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے تھے، جس روز حاجی قربانیاں دے رہے تھے، آپ نے فرمایا کہ ہم بھی قربانی دیتے ہیں، ہمارا ایک لڑکا ہے، اُسی کو قربان کردیتے ہیں، جو درویش اُس سفر میں آپ کے ساتھ تھے، انہوں نے یہ بات لکھ لی، جب بخارا میں واپس آئے تو معلوم ہو اکہ جس روز کعبہ میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی زبان مبارک پر وہ الفاظ جاری ہوئے تھے، اُسی دن بخارا میں آپ کا وہ لڑکا فوت ہوا تھا۔
۶۔ حضرت خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی جماعت کے ساتھ شہر بخارا میں دروازہ کلاباد میں ایک درویش کے مکان پر تشریف رکھتے تھے، اتفاقاً وہ درویش حضرتِ اقدس کے لیے کلاہِ نور و زی (ایسی ٹوپی جسے صرف امراء و حکام ہی پہنا کرتے تھے) سی رہا تھا، آپ اُس وقت حالتِ بسط میں تھے اور آپ کی اس حالت سے درویشوں میں بڑا ذوق پیدا ہو رہا تھا، اسی حالت میں حضرت خواجہ کے سر پر درویشوں نے وہ کلاہِ نوروزی رکھ دی، آپ نے ارشاد فرمایا کہ چونکہ ہم نے سلاطین کی ٹوپی سر پر رکھی ہے چاہیے کہ سلطنت میں تصرف بھی کریں، بتاؤ کہ سلاطین میں سے پہلے کس پر زد کریں، ایک محمود نامی درویش پہلوان نے حاکمِ ماسوراء النہر کا نام لیا، آپ نے فرمایا کہ ہم نے اس پر زد کی، حاضرین مجلس نے وہ تاریخ لکھ لی، آپ نے اُسی وقت ایک امیر بخاری کی طرف خط لکھا جو حاکمِ ماوراء النہر سے تنگ آکر بھاگ کر کابل چلا آیا تھا کہ ایسا واقعہ وقوع پذیر ہوگیا ہے لہٰذا تمہیں چاہیے کہ پانچ سو دینار بطور نذرانہ حامل خط ہذا کے ہاتھ درویشوں کی خدمت میں روانہ کردو۔
چند روز کے بعد خبر آئی کہ حاکم ماوراء النہر قتل ہوگیا ہے، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ اُسی تاریخ کو قتل ہوا تھا، یہ سن کر سب تعجب کرنے لگے اور کہنے لگے کہ حق تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کو ایسے تصرفات عطا فرمائے ہیں، اس پر آپ نے ارشاد فرمایا، دوستو! جس وقت ہم سے ایسا امر ظہور میں آتا ہے تو ہم درمیان نہیں ہوتے، باوجود کمالِ قرب کے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب ہوتا ہے وَما رمیت اذ ر میت ولکن اللہ رمی پس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُمت کے بیچاروں کا کیا حال ہوگا، جو کچھ درویشوں سے صادر ہوتا ہے، اس میں اُن کا کچھ اختیار نہیں ہوتا، طالبوں کی رہنمائی کے لیے ایسا ہوتا ہے۔
۷۔ ایک درویش نے بیان کیا کہ ایک روز حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ ایک حوض کے کنارے کھڑے تھے جو شہر بخارا سے قبلہ کی طرف ہے اُسی دوران ایک درویش جو لوگوں میں ارشاد و تربیت کی وجہ سے بہت مشہور تھا، حاضر خدمت ہوا، آپ نے اُس سے فرمایا کہ ہم نے سنا ہے کہ تمہارا ارادہ خوارزم جانے کا ہے؟ اُس نے عرض کیا کہ ہاں، آپ نے فرمایا کہ ہم تمہیں خوارزم نہ جانے دیں گے، اُس نے کہا: ایسا نہ کہیے کیونکہ آپ کو اس بات کی قدرت نہیں، اتفاقاً اسی اثناء میں مولانا حمید الدین شاشی رحمۃ اللہ علیہ ایک جماعتِ کثیر کے ساتھ آپ کی ملاقات کے لیے آئے آپ نے وہ قصہ مولانا سے ذکر کرکے فرمایا کہ آپ گواہ رہیں، ہم اس درویش کو خوارزم نہ جانے دیں گے، مولانا نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے اس کے بعد وہ درویش خوارزم کی طرف روانہ ہوا لیکن وہ جب اقشیہ (بخارا کے نواح قافلہ کے اترنے کی جگہ) میں پہنچا تو بادشاہِ وقت کے سپاہیوں نے آکر خوارزم کا راستہ بن کردیا، اس درویش نے اہل قافلہ کے ساتھ تدبیر کرکے دوسرے راستہ سے خوارزم جانے کی کوشش کی مگر سپاہی وہاں بھی آپہنچے اور اس درویش کو مع قافلہ گرفتار کرکے بخارا لے آئے، اس درویش نے شیخ سلیف الدین باخرزی قدس سرہ کے نواسہ خواجہ داؤد رحمۃ اللہ علیہ سے التجا کی اور کچھ سال دے کر سپاہیوں سے رہائی پائی، جب یہ خبر مولانا حمید الدین کو پہنچی تو بہت متعجب ہوئے اور فرمایا کہ خواص بندگانِ الٰہی نے اس طرح تصرف کیا ہے، عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ نے کیسی سچی بات کہی ہے ؎
گفتۂ او گفتۂ اللہ بود
گرچہ ز حلقوم عبداللہ بود
۸۔ ایک مرتبہ آپ غدیوت میں قیام فرما تھے، ایک جماعت اناروں کا نذرانہ لے کر حاضر ہوئی اُس جماعت میں ایک درویش محمد زاہد بھی تھا، آپ نے انار تقسیم فرماکر ارشاد کیا کہ کھاؤ محمد زاہد نے عرض کیا کہ میرا غلام بھاگ گیا ہے، بدیں وجہ مجھے سخت پریشانی لاحق ہے، آپ نے فرمایاوہ کسی طرف نہیں جاسکتاتم دو دن اور دو رات ہمارے پاس ٹھہرو، تیسرے روز اپنے مکان زیور تون میں چلے جانا تم کو خبر مل جائے گی، محمد زاہد نے ایسا ہی کیا، تیسرے روز جب وہ اپنے مکان میں پہنچا تو پیشتر اس کے کہ وہ اپنے اہل خانہ سے آپ کی بشارت کا ذکر کرے، غلام دروازے سے داخل ہوا، محمد زاہد اور اس کے گھر والوں نے تعجب کیا اور غلام سے تفصیل دریافت کی، اُس نے بتایا کہ جب میں بخارا سے نکلا تو میں نے نسف کی طرف جانے کا قصد کیا، میں نے کچھ راستہ طے کیا تھا کہ میرے پاؤں میں ایک بیٹری ظاہر ہوئی جس کی وجہ سے میں چل نہ سکتا اور گھنٹی کی آواز آتی تھی جس سے مجھے وہم پیدا ہوا کہ یہ آواز بخارا تک پہنچتی ہے، جب میں زیورتوں کی طرف لوٹتا تو بیٹری کھل جاتی اور گھنٹی کی آواز نہ آتی، تین دن یہی حال رہا، میں سمجھ گیا کہ یہ کیفیت دوسری جگہ سے ہے۔ میں لوٹ کر آپ کی خدمت میں آگیا، مجھے معاف فرمائیے۔
۹۔ ایک روز آپ قصرِ عارفاں میں جلوہ افروز تھے، غدیوت سے شیخ شادی رحمۃ اللہ علیہ حاضر خدمت تھے اور اپنے ایک قصور کے لیے جواُن سے سرزد ہوگیا تھا، عذر خواہی کر رہے تھے، آپ نے فرمایا کہ نذرانہ چاہیے، انہوں نے عرض کیا کہ ایک بیل لاتا ہوں، آپ نے فرمایا کہ نذرانہ میں بیل قبول نہیں اڑتالیس دینار عدلی جو غدیوت میں تم نے ایک مدت سے دیوار کے سوراخ میں چھپائے ہوئے ہیں اور دھوئیں نے وہ جگہ سیاہ کردی ہے، نذرانہ میں لانے چاہییں، یہ سن کر شیخ شادی رحمۃ اللہ علیہ کا حال دگر گوں ہوگیا کہ سوراخ میں چھپانے کے وقت کسی کو اطلاع نہ تھی، وہ جلدی غدیوت میں گئے اور وہ دینار لاکر آپ کی خدمت میں پیش کردیے، آپ نے اُن میں سے ایک دینار شیخ شادی رحمۃ اللہ علیہ کو واپس کردیا اور فرمایا کہ یہ حرام ہے، تجھے یہ کہاں سے ملا؟ پھر شیخ شادی کو فرمایا کہ ایک بیل اور خرید کر کاشتکاری کر اور بندگانِ خدا کی خدمت میں صرف کر، اس کے بعد لوگوں نے شیخ شادی رحمۃ اللہ علیہ سے اُس کے ایک دینار کا حال دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کا مرید بننے سے پہلے میں ایک مدت تک قمار بازی کرتا رہا، وہ دینار قمار سے حاصل ہوا تھا۔
۱۰۔ حضرت خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ درویشوں کی ایک جماعت کے ساتھ ایک درویش کے حجرے میں جلوہ فگن تھے، اس جماعت میں سے بعض لوگ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے اشارے سے دسترخوان کے لیے سامان لینے نکلے اور دو گروہوں میں بٹ گئے، ایک فریق بازار صرافاں کی طرف روانہ ہوا، انہوں نے حضرت خواجہ کو بازار میں دیکھا اور خیال کیا کہ آپ حجرے سے نکل آئے ہیں، دوسرا فریق چوک کی طرف گیا اور انہوں نے حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کو چوک میں دیکھا اور وہی خیال کیا جو پہلے گروہ نے خیال کیا تھا، بعد ازاں وہ اخی محمد در اہنی سے بازار میں ملے اور اپنا قصہ اُس سے بیان کیا، اس نے کہا کہ میں نے ابھی حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کو فلاں جگہ دیکھا ہے کہ ایک طرف کو چلے جا رہے ہیں یہ سن کر درویش حیران ہوئے کہ حضرت خواجہ سے کہاں جاکر ملیں، ابھی اسی فکر میں تھے کہ ایک درویش آیا اور اس نے کہا کہ حضرت خواجہ فرماتے ہیں کہ اتنی دیر کیوں لگادی ہے جلدی واپس آؤ، درویشوں نے سارا قصہ بیان کیا تو اس درویش نے کہا کہ جس وقت تم حجرے سے نکلے ہو صاحبِ حجرہ اور میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہے ہیں، آپ رحمۃ اللہ علیہ حجرے سے بالکل باہر نہیں نکلے، اس وقت آپ نے مجھے تمہارے پیچھے بھیجا ہے، تمام درویش حیران ہوئے اور فوراً حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر قدم بوس ہوئے اور تمام ماجرا عرض کیا، آپ نے تبسم فرمایا اور صاحبِ حجرہ بہت رویا، حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ایک دفعہ ماہِ رمضان کی شام کو حضرت عزیزاں رحمۃ اللہ علیہ کی تیرہ جگہ دعوت ہوئی جو آپ نے قبول فرمائی، راوی کا بیان ہے کہ میں ان دعوتوں میں سے ایک میں حاضر تھا، میں نے دوسری جگہوں سے جو دریافت کیا تو یہی سنا کہ حضرت عزیزاں تمام جگہوں میں حاضر تھے[۱]۔
[۱۔اولیائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے یہ قوت بخشی ہے کہ بعض دفعہ وہ ایک ہی وقت میں متعدد جگہ حاضر ہوتے ہیں اور ان سے اعمالِ مختلفہ صادر ہوتے ہیں، بقول حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ النورانی، اس صورت میں وہ تو اپنی جگہ میں ہوتے ہیں مگر اُن کے لطائفِ مختلف بعساد سے متجسد اور مختلف اشکال سے متشکل ہوکر ایک ہی آن میں متعدد جگہوں میں اعمال عجیبہ وقوع میں لاتے ہیں، بعض اوقات اس تشکل کی اُن کو خبر تک نہیں ہوتی، یہ تجسد و تشکل کبھی عالمِ شہادت میں ہوتا ہے اور کبھی عالمِ مثال میں پایا جاتا ہے۔ (مکتوبات شریف، دفتر دوم مکتوب ۵۸)]
۱۱۔ ایک درویش کا بیان ہے کہ ایک روز حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ شمس الدین کلال رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت سیّد امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ اس ندی کے کنارے بیٹھے تھے جو شیخ سیف الدین اور شیخ حسن بلغاری رحمہا اللہ کے مزار کے سامنے ہے اور آپس میں باتیں کر رہے تھے، اسی اثنا میں مچھلی کے قصہ کا ذکر آیا جو ایک دفعہ شیخ سیف الدین اور شیخ حسن کے درمیان گزرا تھا، شیخ شمس الدین کلال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ بے شک اولیاء اللہ کے ایسے تصرفات ہوئے ہیں، کیا اس زمانے میں بھی کوئی ایسا بزرگ ہے جس سے ایسے حالات ظہور میں آتے ہیں، حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں یہ نہیں چاہتا بلکہ ایسے بزرگ بھی ہوتے ہیں کہ اگر مثلاً اس ندی کی طرف اشارہ کردیں کہ اُلٹی بہے تو اُلٹی بہنے لگے، حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ یہ فرما ہی رہے تھے کہ وہ ندی اُلٹی بہنے لگی، حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں یہ نہیں چاہتا، اس پر وہ ندی بدستور بہنے لگی، بہت سے لوگوں نے اس کرامت کا مشاہدہ کیا اور حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی کمالِ ولایت کا اعتراف بھی۔
۱۲۔ حضرت خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حکایت بیان کی کہ ایک روز موسمِ سرما میں حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے درویش امیر حسین سے فرمایا کہ ایندھن بہت سا جمع کرلینا چاہیے، جب حسب الارشاد بہت سا ایندھن جمع ہوگیا تو دوسرے دن برف گرنے لگی اور چالیس دن تک گرتی رہی، اسی حال میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ شیخ شادی کو ساتھ لے کر خوارزم کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب حرام کام ندی کے کنارے پر پہنچے تو آپ نے شیخ شادی رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ پانی پر قدم رکھ کر گزر جاؤ، شیخ نے توقف کیا، آپ نے دوبارہ ہیبت سے شیخ کی طرف نگاہ کی تو شیخ بے ہوش ہوگئے، جب ہوش میں آئے تو قدم پانی پر رکھ کر روانہ ہوئے، حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ بھی اُن کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے، جب پانی سے گزر گئے تو حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ سے فرمایا کہ اپنے موزہ (جوتہ) کو دیکھو کہ کسی جگہ سے بھیگا ہے یا نہیں؟ شیخ شادی نے دیکھا کہ قدرت الٰہی سے موزہ کی کوئی جگہ نہ بھیگی تھی۔
اسی طرح ایک دفعہ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ ایک طرف جا رہے تھے۔ شیخ امیر حسین اور چند درویش ساتھ تھے، ایک نالہ کے پل پر پہنچے تو آپ نے شیخ سے فرمایا کہ پانی سے گزر جا، حسبِ ارشاد شیخ پانی میں کود پڑے اور حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ پل پر سے گزر گئے، کچھ دیر کے بعد فرمایا، امیر حسین! پانی سے نکل آ شیخ پانی سے نکل آئے اور اُن کے کپڑے خشک تھے، حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ جس وقت تم پانی میں کودے، تمہارا کیا حال تھا؟ عرض کی کہ میرا حال اچھا تھا، میں ایک نہایت صاف مکان میں تھا، کچھ دیر کے بعد ایک دروازہ ظاہر ہوا، آپ کی آواز مبارک سن کر میں اس دروازے سے نکل آیا۔
حضرت خواجہ حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ نے سچ کہا ہے ؎
بمے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نبود زراہ و رسم منزلہا
۱۳۔ ایک درویش کا بیان ہے کہ ایک روز حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ میرے غریب خانہ پر تشریف فرما ہوئے، مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ گھر میں آٹا نہ تھا، میں آٹے کی بوری لے آیا، حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس آٹے کو خرچ کرتے رہو مگر اس کی کمی بیشی کا حال کسی سے ذکر نہ کرنا، حضرت خواجہ دو مہینے غریب خانہ میں رہے، ہر روز درویش اور دوست آپ کی زیارت کو آتے تھے۔ اسی آٹے سے کھانا تیار ہوتا رہا مگر وہ آٹا بدستوررہا، جب حضرت خواجہ تشریف لے گئے تو مدتوں بعد بھی اسی بوری سے پکتا رہا، بعد ازاں میں نے حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ قصّہ اپنے اہل و عیال سے ذکر کردیا لہٰذا پھر وہ برکت نہ رہی اور آٹا ختم ہوگیا۔
۱۴۔ حضرت سیّد امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے صاحبزادے امیر برہان الدین رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ ایک روز حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سوخار میں ہمارے مکان میں فروکش تھے، میں نے عرض کی کہ مجھے مولانا عارف رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کا اشتیاق ہے اور وہ اس وقت نسف میں ہیں، آپ توجہ فرمائیں کہ وہ جلدی آجائیں، حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم اُن کو جلدی بلا لیتے ہیں، بعد ازاں حضرت اقدس، امیر برہان الدین رحمۃ اللہ علیہ کو ساتھ لے کر خانقاہ کی چھت پر چڑھ گئے اور تین دفعہ مولانا عارف کو آواز دی، پھر فرمایا کہ مولانا عارف رحمۃ اللہ علیہ نے ہماری آواز سن لی ہے اور اس طرف چل پڑے ہیں، مولانا عارف رحمۃ اللہ علیہ نسف سے بخارا اور بخارا سے سوخار میں آئے تو اُن سے حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے بلانے کا قصہ دریافت کیا گیا۔ مولانا عارف رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ فلاں روز فلاں وقت ہم اپنے یاروں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی آواز آئی کہ چلے آؤ، میں جلدی جلدی نف سے بخارا کی طرف روانہ ہوگیا۔
۱۵۔ حضرت خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک روز شام کے وقت حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ درویشوں کی ایک جماعت کے ساتھ درویش عطا کے بالا خانے میں تھے، پڑوس میں بخارا کے ایک امیر کا محل تھا جس میں قوالوں کی ایک جماعت گا رہی تھی اور صوفیہ کا ایک گروہ رقص کر رہا تھا اور نہایت شور و شغب برپا تھا، حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جو کچھ ہو رہا ہے از قبیل ملاہی (کھیل کود) ہے اس کا سننا جائز نہیں۔ تدبیر کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لیں، حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کا فرمانا تھا کہ سب کا حال متغیر ہوگیا اور وہ آوازیں کسی کو سنائی نہ دیں، صبح کو پڑوسیوں نے رات کے حالات درویشوں سے بیان کرکے دریافت کیا کہ آپ کی رات کیونکر گزری، درویشوں نے جواب دیا کہ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی عنایت سے وہ آوازیں ہمیں سنائی نہ دیں، یہ سن کر پڑوسیوں نے بہت تعجب کیا۔
۱۶۔ خواجہ علاء الدین عطار ناقل ہیں کہ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک درویش ایک روز سیب لایا آپ نے فرمایا کہ ٹھہرو، اس سیب کو ابھی نہ کھاؤ، یہ تسبیح پڑھتا ہے۔ حضرت خواجہ کا ارشاد درست تھا، حاضرین میں سے بعض لوگ اس سیب کی تسبیح سن رہے تھے۔
۱۷۔ ایک روز قصرِ عارفاں میں حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے حکم سے درویش مٹی کا چھکڑا کھینچ رہے تھے۔ اسی اثناء میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مرید محمد خرکوشی زیور تون سے آیا۔ وہ آپ کی زیارت کے لیے بے قرار ہو رہا تھا،ا س نے درویشوں سے آپ کا پتہ پوچھا، انہوں نے بتایا کہ دولت خانہ کو تشریف لے گئے ہیں، یہ سن کر محمد خرکوشی رحمۃ اللہ علیہ فوراً آپ کے درِ دولت کی طرف روانہ ہوا اور بے قراری میں پرندے کی طرح اڑتا جا رہا تھا، چنانچہ آپ کے کاشانۂ اقدس تک دو دفعہ اڑا۔ درویشوں نے جب یہ حال دیکھا تو اس کے پیچھے روانہ ہوئے۔ جب اس کے پاس پہنچے تو آپ اپنے دولت خانہ سے باہر جلوہ گر ہوئے اور اُن سے یوں ارشاد فرمایا کہ تم اس فقیر بے سروپا سے کیا چاہتے ہو؟ اس صفت سے کچھ حاصل نہیں، اس حالت پر کچھ اعتماد نہ کرنا چاہیے، بہت سے بیگانے ایسے ہوتے ہیں جو پرندے کی طرح ہوا میں اڑتے ہیں۔ حق طلبی اور ہی چیز ہے۔ درویش یہ سن کر بہت ڈرے، اُس حال میں حضرت خواجہ نے اُن سے کہا کہ جا کر چھکڑے میں مٹی بھردو۔ پھر آپ نے چھکڑے کی طرف اشارہ کیا، چھکڑا خود بخود چلتا تھا اور مٹی گراکر واپس آجاتا تھا، حاضرین یہ دیکھ کر اپنے فعل سے بہت پشیمان ہوئے۔
۱۸۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نسف میں قیام فرما تھے، سردی کا موسم تھا۔ آپ کو ایک ضروری کام کے لیے بخارا آنا تھا۔ خواجہ محمد پارسا رحمۃ اللہ علیہ جو مولانا حافظ الدین کبیر بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادوں سے تھے، آپ کے ہمراہ تھے، اُس روز مطلع ابر آلود تھا۔ نسف کے لوگوں نے حضرت خواجہ کی خدمت میں درخواست کی کہ رک جائیے مگر آپ نے نہ رکے، درویشوں کی ایک بہت بڑی جماعت آپ کے ہمرکاب تھی، مینہ برسنے لگا اور لحظہ بہ لحظہ شدت اختیار کرگیا، حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے خواجہ محمد پارسا رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اشارہ کیا کہ مینہ سے کہدو، ٹھہر جا، خواجہ محمد پارسا رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی موجودگی میں ایسی گستاخی نہ کی، آپ نے فرمایا کہ میں تجھ سے کہتا ہوں کہ یوں کہہ دے، ’’اے مینہ! ٹھہر جا‘‘۔ پس خواجہ محمد پارسا نے ایسے ہی کہا پس مینہ ٹھہر گیا، مطلع صاف ہوگیا اور سورج نکل آیا۔
۱۹۔ ایک درویش کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ غدیوت میں درویش اسحاق کے مکان میں کھانا تیار کر رہے تھے، تنور میں آگ شعلہ زن تھی، اسی حالت میں آپ نے اپنا دست مبارک اس تنور میں ڈال دیا اور کچھ دیر تک رکھا بعد ازاں نکال لیا، عنایت الٰہی سے دستِ مبارک کا بال تک نہ جلا ؎
آج بھی ہو جو براہیم کا ایمان پیدا
خلیل اللہ با آتش ہمے گفت
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
اگر موئے زمن با قیست مے سوز
۲۰۔ ایک درویش کا بیان ہے کہ میں اور ایک اور درویش (اُس باغ میں جہاں اب حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مقدس ہے) آپ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ تکیہ لگائے بیٹھے تھے، ایک ساعت کے بعد آپ میں ایک ہیبت ناک حالت پیدا ہوئی اور وہ درویش بے ہوش ہوکر گر پڑا، حضرت خواجہ اُٹھ کر حوض کے گرد پھرنے لگے کچھ دیر کے بعد آپ نے ایک سیب کا درخت اپنی کولی (آغوش، دو بازوؤں کا حلقہ) میں لے لیا، ایک لحظہ میں آپ کا وجود مبارک اتنا بڑا ہوگیا کہ تمام باغ اُ س سے پُر ہوگیا، جہاں میری نگاہ پڑتی تھی، آپ کا وجود مبارک ہی دکھائی دیتا تھا، بعد ازاں میں نے پھر نگاہ اٹھائی تو آپ کا وجود چھوٹا ہونے لگا، یہاں تک کہ اُس کا نشان تک نہ رہا، میں نے پھر جو دیکھا تو آپ کے وجود مبارک کا اثر ظاہر ہوا، یہاں تک اصلی حالت پر آگیا، اور آپ وہی سیب کا درخت اپنی کَولی میں لیے نظر آئے، میں نہایت حیران ہوا کہ یہ کیا حالتیں ہیں، اُسی وقت حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایسے احوال حضرت عزیزاں علیہ الرحمۃ کی نسبت بھی منقول ہیں۔
۲۱۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص رات کو اپنے محبوب کے بوس و کنار میں مشغول رہا، صبح کو آپ کے پاس آکر اشتیاقِ صحبتِ درویشاں کیا، آپ نے فرمایا کہ رات کو تو یہ یہ کام کرو اور دن کو ہم سے یوں کہو، وہ شخص از حد شرمندہ ہوا۔
۲۲۔ نقل ہے کہ ملک خوارزم کے لوگ کسی جہاز پر سوار ہوئے، اتفاقاً بادِ مخالف چلی، جہاز ڈوبنے کو تیار تھا، اتنے میں کسی کے منہ سے نکلا ’’یا شاہِ نقشبند المدد‘‘ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت خواجہ قدس سرہ فوراً تشریف لائے۔ آپ کی تشریف آوری سے فوراً ہی جہاز پار لگ گیا، جب وہ لوگ بخارا تشریف لائے توحضرت خواجہ قدس سرہ کو دیکھتے ہی پہچان لیا حالانکہ اُن کی آپ سے پہلے ملاقات نہ ہوئی تھی، اُن لوگوں نے خواجہ صاحب کو سلام کیا، آپ نے تبسم فرمایا اور ارشاد کیا کہ جب تم نے جہاز میں مجھے سلام کیا تھا میں نے تم کو جواب تو دے دیا تھا مگر تم نے سلام کا جواب نہیں سنا۔
۲۳۔ مولانا عارف رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز ہم قصرِ عارفاں جا رہے تھے۔ ہمارا ایک ساتھی حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کی غیبت کرنے لگا، ہم نے روکا اور کہا کہ یہ بات ہرگز جائز نہیں کہ اولیاء اللہ کی شان میں بے ادبی کی جائے لیکن وہ نہ مانا، اچانک ایک بھڑ آئی اور اُس کے منہ میں گھس گئی جب اُسے کاٹا تو وہ چلانے لگا، میں نے کہا کہ حضرت خواجہ قدس سرہ کی بے ادبی کی سزا ہے۔ پھر اُس نے توبہ کی تو اُسی وقت اچھا ہوگیا۔
۲۴۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کے ایک مرید سیّد محمود سمنانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیعت ہونے کا واقعہ بیان فرمایا کہ ایک رات مجھے حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نہایت خوبصورت مکان میں جلوہ افروز تھے اور آپ کی خدمت میں ایک بڑے با رعب شخص بھی بیٹھے ہوئے تھے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے آپ کی صحبتِ مبارک نصیب ہوئی، اب میں کیا کروں؟ ارشاد ہوا کہ اگر ہماری برکت حاصل کرنا چاہتے ہو تو شیخ بہاء الدین کی پیروی کرو، اور پھر اس با رعب شخص کی طرف اشارہ فرمایا، جب میں بیدار ہوا تو میں نے آپ کا نام مبارک حلیہ شریف اور وہ تاریخ ایک کتاب کی پشت پر لکھ لی، اس واقعہ کو سات سال گزر گئے ایک دن میں ایک بزا ز کی دکان پر بیٹھا تھا، ایک بہت نورانی صورت بزرگ تشریف لائے۔ جنہیں دیکھ کر مجھے فوراً وہ خواب یاد آگیا اور میری حالت عجیب ہوگئی، پھر میں نے عرض کیا کہ غریب خانہ کو مشرف فرمائیں، آپ نے میری استدعا کو قبول فرمالیا، پھر آپ آگے آگے چل رہے تھے اور میں پیچھے پیچھے۔ آپ سیدھے میرے غریب خانہ پر جاکر رُکے اور پھر جب اندر داخل ہوئے تو بغیر میرے عرض کیے اُس حجرے میں تشریف لے گئے جہاں میری کتابیں رکھی ہوئی تھیں اور ایک کتاب اٹھاکر مجھے دی اور فرمایا کہ تم نے اس کی پشت پر کیا لکھا ہوا ہے، میں نے دیکھا تو وہی کتاب تھی جس پر میں نے آپ کا نام اور حلیہ مبارک اور تاریخ لکھی ہوئی تھی۔
۲۵۔ شیخ معبداللہ خجندی رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں جب آتشِ عشق بھڑکی تو حکیم امام محمد علی ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر حاضر ہوئے اور دعا کی کہ مجھے پیر کامل مل جائے، خواب میں حضرت خضر علیہ السلام اور حکیم ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی، فرمایا کہ تم بارہ سال بعد قطبِ زمانہ حضرت شیخ بہاء الدین نقشبند قدس سرہ کے ہاتھ پر مراد کو پہنچو گے، یہ اپنے گھر آگئے، جب یہ مدت پوری ہونے کو آئی تو پھر دل میں جوش اٹھا، بے اختیار ہوکر بخارا شریف حاضر ہوئے، جب حضرت خواجہ قدس سرہ کی نظر مبارک پڑی تو دیکھتے ہی فرمایا ’’اے عبداللہ! بارہ سال میں ابھی تین دن باقی ہیں۔‘‘ حاضرین تو کچھ نہ سمجھ سکے مگر اُن پر وجد طاری ہوگئی، جب انہوں نے لوگوں کو سب داستان سنائی تو وہ بہت خوش ہوئے۔
۲۶۔ شیخ قطب الدین خراسانی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں چھوٹا سا تھا، حضرت خواجہ قدس سرہ نے مجھے حکم دیا کہ فلاں جگہ سے چند کبوتر لے آؤ، میں کبوتر لے آیا لیکن ایک کبوتر چھپالیا، پھر دستر خوان بچھا لیا گیا، میں بھی حاضر تھا، سب حاضرین کو ایک ایک بھنا ہوا کبوتر عطا فرمایا لیکن مجھے نہ دیا اور فرمایا کہ اس نے اپنا حصہ پہلے ہی لے لیا ہے۔
۲۷۔ روایت ہے کہ آپ کی ایک مرید عورت کسی امیر آدمی کے ہاں ملازمہ تھی، عورت حسین و جمیل تھی، امیر آدمی اُس پر فریفتہ ہوگیا اور ایک دن زبردستی چو بارے پر اُس سے زنا کرنے کی سعیِ مذموم کی، وہ عورت چونکہ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ سے عقیدت و محبت کی وجہ سے پاکدامن تھی لہٰذا اُس نے انکار کرکے اُس رئیس کو دھتکار دیا مگر وہ شیطان صفت امیر پوری قوت کے ساتھ از سر نو کمر بستہ ہوکر دست درازی کرنے لگا، عورت نے ہر ممکن مدافعت کی، لیکن کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی تو اپنی عزت کی حفاظت کے لیے چوبارے سے نیچے چھلانگ لگا دی اور اُس کے منہ سے نکلا ’’المدد یا شاہِ نقشبند‘‘ حضرت خواجہ قدس سرہ فوراً تشریف لائے اور قبل اس کے کہ وہ عورت زمین پر گرے آپ نے اُسے تھام لیا، اس عورت نے پوچھا کہ آپ اتنی جلدی کہاں سے تشریف لے آئے، اس پر فرمایا کہ ’’تو از چوبارا آمدی دمن از بخارا آمدم‘‘۔
۲۸۔ ایک روز حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کا ایک درویش نیک روز نامی سوخار سے آپ کی خدمت میں آیا، وہ بہت دلگیر تھا، حضرت نے سبب پوچھا، اس نے عرض کیا کہ سوخار میں ایک شخص حسین نام نے مجھے بہت برا بھلا کہا مگر مجھے رنج نہ ہوا لیکن جب اُس نے آپ کی شان میں بے ادبی کی تو مجھے نہایت رنج ہوا، آپ نے فرمایا گھبراؤ نہیں، وہ جلدی دنیا و آخرت میں رسوا ہوگا، نیک روز کا بیان ہے کہ جب حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فرمایا تو نمازِ عصر کا وقت تھا، میں آپ کے قدموں سے رخصت ہوکر نمازِ مغرب کے وقت سوخار پہنچا تو میں نے دیکھا کہ حسین (بے ادبی کرنے والا شخص اپنے نوکر کے لیے کھانا لے کر کھیتوں میں جا رہا ہے، جب نوکر کھانا کھانے لگا تو حسین اپنے نوکر کی جگہ کام کرنے لگا۔ اُسی وقت ایک بھیڑیا آیا جس نے لپک کر حسین کی ناک اور ہونٹ نوچ لیے اور اس کی شکل نہایت بھونڈی ہوگئی۔ وہ لوگوں میں ذلیل و خوار ہوگیا، ذلت و رسوائی اس کا مقدر ٹھہری اور ’’حسین گرگ گرفتہ‘‘ اس کا لقب ہوگیا۔
۲۹۔ ایک مرتبہ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت فرمایا کہ ظہر کی نماز کا وقت ہوا ہے یا نہیں؟ مطلع ابر آلود تھا، انہوں نے عرض کیا کہ نہیں، آپ نے ارشاد کیا کہ آسمان کی طرف دیکھو، انہوں نے دیکھا تو سب حجاب دور ہوگئے اور دیکھا کہ فرشتے آسمان پر نماز ظہر میں مشغول و مصروف ہیں، اس پر خواجہ عطار رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ تم تو کہتے تھے کہ ابھی ظہر کا وقت نہیں ہوا۔
ارشاداتِ قدسیہ:
۱۔ اس راستے میں وجود کی نفی، نیستی اور اپنے تئیں کم سمجھنا بڑا کام ہے۔ مقصدِ حقیقی کی دولت کا حاصل ہونا قبولیت پر موقوف ہے۔ میں نے اس معاملہ میں موجودات کے طبقوں میں سے ہر طبقہ کی سیر کی اور اپنے آپ کا ذرّوں میں سے ہر ذرّے کے ساتھ مقابلہ کیا اور اپنے آپ سے سب کو بہتر دیکھا۔ یہاں تک کہ میں نے فضلات کے طبقہ کی بھی سیر کی اور اُن میں فائدہ دیکھا مگر اپنے آپ میں کوئی فائدہ نہ پایا، کتے کے فضلہ تک پہنچا اور خیال کیا کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ایک مدّت تک میں نے اپنے آپ کو اس خیال پر برقرار رکھا، آخرکار معلوم ہوا کہ اس میں بھی کوئی فائدہ ہے، غرض مجھے تحقیق سے معلوم ہوگیا کہ مجھ میں کسی طرح کا کوئی فائدہ نہیں ہے جیسا کہ کسی نے کہا ہے ؎
از ہیچکسیٔ خویشتن بے خبرم
ہر چند بحالِ خویش مے نگرم
از ہیچ سگے بہ نیم الا بترم
یک حبہ یزر و ز قدم تا بسرم
’’میں اپنی ناقدری سے بے خبر ہوں۔
میں کسی کتے سے اچھا نہیں بلکہ بدتر ہوں۔
میں ہر چند اپنے حال پر غور کرتا ہوں۔
میں سر سے قدم تک ایک پائی (معمولی) بھی قدر و قیمت نہیں رکھتا‘‘۔
۲۔ ایک دن ایک لڑکا اپنے گھر سے نکلا۔ قرآن شریف اُس کے پاس تھا، اُ س نے حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کو سلام کیا، جب آپ نے قرآن مجید کھولا تو یہ آیت نکلی۔
وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیْدِ (سورۃ کہف، آیت ۱۸)
’’اور ان کا کتا اپنے دونوں ہاتھ چوکھٹ پر پھیلا رہا ہے‘‘۔
حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اُمید ہے کہ ہم وہ ہوں گے۔
۳۔ کبارِ اہلِ حقیقت کا قول ہے کہ اس راستے کا سالک اگر اپنے نفس کو سو بار فرعون کے نفس سے بدتر نہیں جانتا وہ اس راستے میں نہیں ہے۔
۴۔ جن دنوں حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ، شہر خرکس میں جلوہ افروز تھے، ملک حسین شاہِ ہرات کے قاصد شاہی فرمان لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، فرمان میں لکھا تھا کہ ہمیں درویشوں کی صحبت کا اشتیاق ہے، آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں، اگرچہ آپ کو ملوک و سلاطین سے ملاقات پسند نہ تھی مگر اس خیال سے کہ اگر ملک حسین، سرخس کی طرف آیا تو عوام کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی، لہٰذا بذاتِ خود ہرات تشریف لے گئے جب بادشاہ کی مجلس میں پہنچے تو وہاں بڑا ہجوم تھا اور سلطنت کے اربابِ بست و کشاد اور ملازمین کی ایک بڑی جماعت حاضر تھی، بادشاہ نے حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ آپ کی درویشی موروثی ہے؟ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ نہیں، بحکم جذبۃ من جذبات الحق تواذی عمل الثقلین (جذبات حق میں ایک جذبہ جن و انس کے عمل کے برابر ہے) ایک جذبہ پہنچا اور میں اس سعادت سے مشرف ہوگیا۔ بادشاہ نے پوچھا، کیا آپ کے طریقہ ذکر جہر اور سماع و خلوت ہے۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ نہیں، بادشاہ نے پوچھا کہ پھر تمہارا طریقہ کیا ہے؟ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ کا قول ہے کہ خلوت در انجمن چاہیے۔ بادشاہ نے پوچھا کہ خلوت در انجمن کیا ہے؟ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ ظاہر میں خلق کے ساتھ اور باطن میں حق کے ساتھ ہونا ؎
ازدروں شو آشنا و زبرون بیگانہ وش
اینچنیں زیبا روش کم می بود اندر جہاں[۱]
[۱۔ باطن کے ساتھ حق کی آگاہی اور بظاہر بے گانگی ، ایسی روش اور ایسا طریقہ دنیا میں بہت ہی کم دیکھنے میں آتا ہے۔ (قصوری)]
بادشاہ نے کہا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللہ۔ (سورہ نور، ع ۵)
’’وہ مرد کہ غافل نہیں ہوتے سودا کرنے میں نہ بیچنے میں اللہ کی یاد سے‘‘۔
کچھ دیر کے بعد بادشاہ نے سوال کیا کہ بعض مشائخ نے کہا ہے کہ ولایت نبوت سے افضل ہے۔ وہ کون سی ولایت ہے جو نبوت سے افضل ہے۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’اسی نبی کی ولایت افضل ہے اُس کی نبوت سے‘‘۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے بعض مشائخ کے قول کی یہ تاویل بیان فرمائی ہے لیکن مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس قول کی ذرا تشریح کردی جائے۔ امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ النورانی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بعض رسائل میں ثابت کیا ہے کہ نبوت، ولایت سے افضل ہے خواہ اُسی نبی کی ولایت ہو اور حق بھی یہی ہے۔ جن مشائخ نے اس کے خلاف کہا ہے اُن کا قول مقامِ نبوّت کے کمالات کی بے علمی کے سبب سے ہے‘‘۔ (مکتوبات شریف،دفتر اوّل مکتوب، ۲۵)
(مذکورہ بالا واقعہ گزشتہ اوراق میں بھی آچکا ہے لیکن افادیت کے پیش نظر اسے ایک اور مختلف روایت کے مطابق درج کردیا گیا ہے تاکہ قارئین کرام ہر دو روایتوں سے استفادہ کرکے روحانی تشنگی بجھا سکیں۔ قصوری)
۵۔ اگرچہ نماز روزہ اور ریاضت و مجاہدہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا طریقہ ہے مگر ہمارے نزدیک وجود کی نفی سب طریقوں سے اقرب (بہت زیادہ قریب) ہے اور یہ ترکِ اختیار اور دیدِ قصور کے سوا حاصل نہیں ہوتی۔
۶۔ ایک روز حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی زبانِ مقدس سے نکلا کہ اس راستے کے سالکوں کے لیے ماسوا کے ساتھ تعلق نہایت بڑا حجاب ہے۔
یہ سن کر خواجہ صالح بن مبارک بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں خیال آیا کہ اس صورت میں ایمان و اسلام کے ساتھ تعلق بھی مضر ہونا چاہیے۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کیا تو نے ابن منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بیت[۱] نہیں سنی ؎
[۱۔ ابن منصور سے یہ قول مقامِ جمع میں صادر ہوا ہے کہ جس میں حق و باطل کی تمیز اٹھ جاتی ہے اس مقام والاسب کو صراط مستقیم پر سمجھتا ہے اور کبھی خلق کو عین حق خیال کرتا ہے واضح رہے کہ ابن منصور کافرِ طریقت تھا جس مستحقِ درجات ہے نہ کہ کافرِ شریعت جو مستحق عذاب ہے۔ اس کا بیان حضرت مجدّد الف ثانی قدس سرہ کے حالات میں آ رہا ہے۔]
کفرت بین اللہ والکفر واجب لدی وعند المسلمین قبیح.
’’میں اللہ کے دین سے کافر ہوا اور یہ کفر میرے نزدیک واجب ہے، اور مسلمانوں کے نزدیک برا ہے‘‘۔
پھر فرمایا کہ ایمان و اسلام حقیقی درکار ہے اور اہل حقیقت نے ایمان کی تعریف یوں کی ہے:
الایمان عقد القلب بنفی جمیع ما تولھت القلوب الیہ من المضار والمنا فع سری اللہ عزوجل.
’’ایمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا وہ تمام مضار و منافع جن پر دل شیدا ہیں۔ اُن کی نفی کا اعتقادِ جازم رکھے‘‘۔
۷۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے۔ یہ ارشاد نماز حقیقی کے درجات کی طرف اشارہ ہے۔ بدیں طور کہ نماز میں تکبیر تحریمہ کے وقت چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی اکبریت نمازی کے وجود میں حال ہوجائے اور اس میں خشوع و خضوع پیدا ہوجائے یہاں تک کہ استغراق کی حالت طاری ہوجائے۔ اس صفت کا کمال جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا۔ چنانچہ حدیث میں وارد ہے کہ نماز میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک سے تانبے کی دیگ کے جوش کی مانند آواز آیا کرتی تھی۔ (شمائل ترمذی)
۸۔ بخارا کے علماء میں سے ایک عالم نے حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ نماز میں حضور کس چیز سے حاصل ہوتا ہے؟ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ طعام حلال سے جو وقوف و آگاہی سے کھایا جائے، نماز سے خارج اوقات میں اور وضو اور تکبیر تحریمہ کے وقت بھی وقوف کی رعایت چاہیے۔
۹۔ حدیث قدسی میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ میرے واسطے ہے یہ صومِ حقیقی کی طرف اشارہ ہے جو ماسوائے حق سے امساکِ کلّی (مکمل دوری) کا نام ہے۔
۱۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آتشِ دوزخ سے میری اُمّت کا نصیب ایسا ہے جیسا کہ آتشِ نمرود سے حضرتِ ابراہیم کا نصیب تھا اور نیز ارشاد ہے کہ میری امت گمراہی پر متفق نہ ہوگی۔ ان حدیثوں سے اُمّت سے مراد اُمّت متابعت ہے۔ اُمّت تین قسم کی ہے ایک اُمّتِ دعوت جس میں سب شامل ہیں۔ دوسرے اُمّت اجابت جو ایمان لائے ہیں تیسرے اُمّت متابعت جو ایمان لاکر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں۔
۱۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میرے لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک وقت ہے کہ مجھ میں اُس وقت میں کوئی مقرب فرشتہ نہیں سماتا اور نہ نبی مرسل۔ اس ارشاد کے معنی ایک تو یہ ہیں کہ میرا ایک حال ایسا ہوتا ہے کہ اس حال میں کوئی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل ملحوظ نہیں ہوتا۔ یہ حال مبتدی کا بھی بعض اوقات میں ہوا کرتا ہے۔ دوسرے معنی یہ کہ میرا ایک حال ایسا ہوتا ہے کہ وہ حال مقرب فرشتہ اور مرسل کے حال سے اعلیٰ و اشرف ہوتا ہے۔
۱۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، ایک کم ایک سو، جو شخص ان کا شمار کرے وہ بہشت میں داخل ہوگا۔ اس ارشاد مبارک میں شمار کرنے کے ایک معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کا ورد کرے اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ ان ناموں کو جانے۔ اور ایک معنی یہ ہیں کہ ہر نام کے مقتضا (مناسبت) کے موافق عمل کرے۔ مثلاً جب رزاق کہے تو روزی کا غم اُس کے دل پر بالکل نہ گزرے اور جب متکبر کہے تو عظمت و کبریائی و بادشاہی کو خدا ہی ملک سمجھے۔
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ جب ننانوے کا ذکر کیا گیا تو ایک کم سو کہنے کی کیا ضرورت تھی، آپ نے فرمایا کہ بطور تاکید کے اس واسطے ذکر کیا گیا کہ عرب کو حساب میں کچھ مہارت نہ تھی اور نہ اُن کو اس طرف توجہ تھی۔ اسی سبب سے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینہ کے دنوں کی تعداد ب یان کرنے کے لیے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اُٹھا کر اشارہ فرمایا کہ مہینہ ایسا ہوتا ہے، ایسا ہوتا ہے، ایسا ہوتا ہے اور تیسری بار نو انگلیاں اٹھائیں اور محسوس کرادیا کہ مہینہ ۲۹ دن کا ہوتا ہے اور زبان مبارک سے نہ فرمایا۔
۱۳۔ تیرا حجاب تیرا وجود ہے۔ دع نفسک وتعال یعنی اپنے نفس کو دروازے پر چھوڑ اور اندر جا‘‘۔
از تو تا دوست رہ بسے نیست توئی
در رہِ تو خاشاک و خسے نیست توئی
صحیح حدیث میں جو اماطۃ الاذی عن الطریق[۱] (راستے سے آزاردہ چیز کا دورکرنا) آیا ہے۔ اس سے وجودِ بشریت کی نفی کی طرف اشارہ ہے اور حدیثِ قدسی میں جو وارد ہے کہ
[۱۔ صحیحین میں بروایت حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کے ستر سے چند اوپر شعبے ہیں جن میں سب سے افضل لَا اِلٰہَ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ اماطۃ الاذی عن الطریق ہے (مشکوٰۃ شریف، کتاب الایمان)۔]
نفسک مطیتک فارفق بھا
’’تیرا نفس تیری سواری ہے، تو اس کے ساتھ نرمی کر‘‘۔
یہ نفسِ مطمئنہ (حکم الٰہی پر چلنے والا) کی طرف اشارہ ہے الا مارحم[۱] ربی کی خلعت سے مشرف ہوگیا ہے۔
[۱۔ وَمَا اُبَرِّئُ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَارَۃٌ بِالسُّوْءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (پارہ۱۳ شروع) ’’اور میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتا۔ تحقیق نفس البتہ برائی کا حکم کرنے والا ہے مگر جو میرا رب رحم کرے بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔]
۱۴۔ ولایت ایک نعمت ہے۔ ولی کو چاہیے کہ جانے کہ میں ولی ہوں تاکہ اس نعمت کا شکر ادا کرے۔ عنایت الٰہی ولی کے شامل حال ہوتی ہے اُس کو بحالِ خود نہیں چھوڑا جاتا بلکہ اس کو بشریت کی آفتوں سے بچایا جاتا ہے۔ خوارقِ عادات اور احوال و کرامات کے ظہور کا کچھ اعتبار نہیں۔ افعال و اقوال میں استقامت درکار ہے۔ شیخ عبدالرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب حقائق التفسیر میں آیت فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ کی تفسیر میں ارباب حقیقت میں سے ایک سے نقل کیا ہے کہ تو استقامت کا طالب بن اور کرامت کا طالب نہ بن۔ کیونکہ تیرا رب تجھ سے استقامت طلب کرتا ہے اور تیرا نفس تجھ سے کرامت طلب کرتا ہے۔
صوفیۂ کرام کے اقوال میں سے ہے کہ اگر ولی باغ میں آئے اور درختوں کے ہر پتے سے یہ آواز آئے، یا ولی اللہ! تو چاہیے کہ ظاہر و باطن میں اُسے اُس آواز کی طرف کچھ التفات نہ ہو بلکہ بندگی و تضرع میں اُس کی کوشش ہر لحظہ زیادہ ہو۔ اس مقام کا کمال حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا کہ خدا کا احسان و اکرام و انعام آپ پر جس قدر زیادہ ہوتا اسی قدر آپ کی بندگی اور نیاز مندی اور مسکنت زیادہ ہوتی۔ اسی وجہ سے آپ فرماتے کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘؟
۱۵۔ گروہِ صوفیہ کی تین قسمیں ہیں: مقلد، کامل، کامل مکمل۔ مقلد، اُس پر عمل کرتا ہے جو اپنے شیخ سے سنتا ہے۔ کامل، فیض رسانی میں اپنی ذات سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ کامل مکمل کے سوا کوئی دوسروں کی تربیت نہیں کرتا اور نہیں کرسکتا۔
۱۶۔ ہمارا طریق نوادر سے ہے اور محکم دست آویز (سند جس سے اپنا مطلب و مدعا ثابت کرسکیں) ہے اور سنتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو پکڑنا اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار کی پیروی کرنا۔ اس راہ میں ہمیں بفضلِ الٰہی[۱] لایا گیا ہے۔ اوّل سے آخر تک ہم نے یہی فضلِ الٰہی مشاہدہ کیا ہے نہ کہ اپنا عمل۔ اس طریقہ میں تھوڑے سے عمل سے بہت فتوح حاصل ہوتی ہیں مگر سنت کی متابعت کی رعایت بڑا کام ہے۔
[۱۔ یہ محض فضلِ الٰہی ہے کہ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ کی درخواست پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا طریقہ عطا کیا کہ دوسروں کی نہایت (انتہا) اس کی بدایت (ابتدا) میں درج ہے۔ اسی واسطے آپ فرمایا کرتے تھے ما فضلیا نیم (ہم اللہ کے فضل والے لوگ ہیں) (مکتوب امام ربانی دفتر اول مکتوب ۲۶۔ ۳۰۲)]
۱۷۔ ہمارا طریق صحبت[۱] ہے کیونکہ خلوت میں شہرت ہے اور شہرت میں آفت ہے۔
[۱۔ صحبت سے مراد موافقانِ طریقت کی صحبت ہے نہ کہ مخالفانِ طریق کی۔ کیونکہ ایک دوسرے میں نفی ہونا صحبت کی شرط ہے اور وہ نفی بغیر موافقت کے حاصل نہیں ہوتی۔ (مکتوبِ امامِ ربانی دفتر اول مکتوب ۲۶۵)]
۱۸۔ خیریت جمعیت میں ہے اور جمعیت صحبت میں ہے بشرطیکہ ایک دوسرے میں نفی ہوجائیں۔
۱۹۔ مرشد کو چاہیے کہ طالب کے تینوں حال (ماضی، حال اور مستقبل) سے باخبر ہو تاکہ اُس کی تربیت کرسکے۔ طالب کی شرطوں میں سے ایک یہ ہے کہ جس وقت خدا تعالیٰ کے دوستوں میں سے کسی دوست کی صحبت میں ہو، اپنے حال سے واقف ہو اور صحبت کے زمانہ کا گزشتہ زمانہ سے مقابلہ کرے پس اگر وہ نقصان سے کمال کی طرف کچھ تفاوت دیکھے تو بحکم اصبت ما لزم (تو نے پالیا۔ پس لازم پکڑ) اُس بزرگ کی صحبت کو اپنے اوپر فرض جانے۔
۲۰۔ ہمارا طریقہ سب ادب ہی ادب ہے، طلبِ راہ کی ایک شرط ادب ہے۔ ایک ادب اللہ تعالیٰ کی نسبت ہے اور ایک ادب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ہے اور ایک ادب مشائخِ طریقت کی نسبت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نسبت ِ ادب یہ ہے کہ ظاہر و باطن میں بشرطِ کمال بندگی اُس کے احکام بجا لائے اور ماسوا سے بالکل منہ پھیرلے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبتِ ادب یہ ہے کہ اپنے آپ کو ہمہ تن اُن کی اتباع و پیروی کے مقام میں رکھے اور تمام حالات میں آپ کی واجب خدمت کا نگاہ رکھے او رآپ کو تمام موجودات اور اللہ تعالیٰ کے درمیان واسطہ سمجھے۔ جو کوئی ہے اور جو کچھ بھی ہے سب کا سر آپ کے آستانِ عزت پر ہے۔ جو ادب مشائخ کے لیے طالبوں پر لازم و واجب ہے وہ اس طرح ہے کہ مشائخ کرام سنتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی و اتباع کے سبب سے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائیں، پس درویش کو چاہیے کہ غیبت و حضور (موجودگی اور عدم موجودگی) میں اُن کا ادب ملحوظ رکھے۔
۲۱۔ ذکر کی تعلیم کسی کامل سے مکمل ہونی چاہیے تاکہ مؤثر ہو اور اُس کا نتیجہ ظہور میں آئے۔ تیر بادشاہ کی ترکش سے لینا چاہیے تاکہ شایانِ حمایت ہو۔
۲۲۔ وقوفِ عددی علم لدنی[۱] کا اوّل مرتبہ اور درجہ ہے۔
۲۳۔ لا الہ نفی آلۂ طبیعت ہے اور الا اللہ اثباتِ معبود بحق۔ اور مقصود ذکر سے یہ ہے کہ ذاکر کلمۂ توحید کی حقیقت کو پہنچ جائے۔ بہت دفعہ کہنا شرط نہیں اور کلمۂ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ اس کلمہ کے کہنے سے ماسوا بلکل نفی ہوجائے۔
[۱۔علم لدنی وہ علم ہے جو اہلِ قرب کو تعلیم الٰہی اور تفہیمِ ربانی سے معلوم و مفہوم ہوتا ہے نہ کہ دلائل عقلی و شواہدِ نقلی سے۔ چنانچہ قرآن مجید میں حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں آیا ہے وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا ترجمہ: ’’اور ہم نے سکھایا تھا اُس کو اپنے پاس سے ایک علم (سورہ کہف ع۹)]
۲۴۔ وقوفِ زمانی جو سالک کا کار گزار (مستعد) ہے یہ ہے کہ سالک اپنے احوال سے واقف رہے کہ ہر زمانہ میں اُس کا حال کیسا ہے۔ موجب شکر ہے یا موجبِ عذر خواہی۔
۲۵۔ سالکین خواطرِ شیطانی[۱] و نفسانی کے دور کرنے میں متفاوت ہیں۔ بعضے ایسے ہیں کہ پیشتر اس کے نفس و شیطان سے کوئی خطرہ دل میں آئے، اُسے دیکھ لیتے ہیں اور وہیں سے اس کو دور کردیتے ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ خطرہ کو قرار پکڑنے کے بعد دفع کرتے ہیں مگر یہ چنداں مفید نہیں۔ ہاں اگر اس کے منشا اور اُس کے انتقالات کے سبب کو معلوم کرلیں تو فائدہ سے خالی نہیں۔
[۱۔ خواطر جمع ہے خاطر کی۔ خاطر وہ کلام و خطاب ہے جو دل پر وارد ہوتا ہے یا وہ وارد ہے جس میں بندے کے قصہ و عمل کو دخل نہ ہو۔ خاطر جو خطاب ہو۔ اس کی چار قسمیں ہیں: اوّل ربانی جو اللہ کی طرف سے دل میں القاء ہوتا ہے۔ دوم ملکی جو فرشتہ کے القاء سے ہو، اُسے الہام کہتے ہیں۔ سوم، نفسانی، جو نفس کی طرف سے ہو، اُسے حاجس (دل میں آنے والا خیال) کہتے ہیں۔ جس کی جمع حواجس ہوتی ہے۔ چہارم، شیطانی۔ جو شیطان کے القاء سے ہو۔ اُسے وسواس کہتے ہیں (رسالہ قشیریہ وغیرہ)]
۲۶۔ راہ کہ جس کے ذریعے عارف مقصودِ حقیقی کو پالیتے ہیں اور دوسرے محروم رہ جاتے ہیں، تین ہیں، مراقبہ، مشاہدہ، محاسبہ۔ خالق کی طرف دوام نظر اور مخلوق کی رویت کا نسیان (یعنی مخلوق کے خیال و لحاظ کا بھول جانا) مراقبہ کہلاتا ہے، یعنی سالک کو چاہیے کہ ہر وقت جناب باری تعالیٰ کی طرف نظر رکھے اور تمام مخلوقات کی ہستی کی پیشانی پر نیستی و فنا و نسیان کا خط (لکیر) کھینچ دے۔ مراقبہ کا دوام نادر چیز ہے۔ اس گروہ میں سے کم ہیں جنہوں نے یہ بات حاصل کی ہم نے اس کے حصول کا طریق معلوم کرلیا ہے اور وہ نفس کی مخالفت ہے۔ مشاہدہ سے مراد اُن وارداتِ غیبیہ کا معائنہ ہے جو دل پر نازل ہوتے ہیں، چونکہ وارد جلدی گزرنے والا ہے اور قرار نہیں پکڑتا، تاہم اُس وارد کا ادراک نہیں کرسکے۔ مگر صفتِ بسط و قبص (دل کے خدا کی طرف متوجہ ہونے اور کبھی نہ ہونے کی صفت) جو ہم میں پیدا ہوتی ہے اُسے معلوم کرلیتے ہیں ۔ قبض میں صفتِ جلال کا مشاہدہ کرتے ہیں اور بسط میں صفتِ جمال کا۔ محاسبہ یہ ہے کہ ہر ساعت جو کچھ ہم پر گزرے اُس کا حساب کریں کہ اُس میں غفلت کیا اور حضور کیا ہے اگر دیکھیں کہ سراسر نقصان ہے، تو بازگشت کریں اور عمل کو ازسرِ نو کریں۔ چونکہ راستہ ازن تین میں منحصر ہے اور دوسرے لوگ اس کا غیر طلب کرتے ہیں۔ اس لیے محروم رہ جاتے ہیں۔
۲۷۔ جس شخص[۱] نے اللہ کو پہچان لیا۔ اُس پر کوئی شے پوشیدہ نہیں رہتی۔ حضرت خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کلمہ قدسیہ سے حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی مراد یہ ہے کہ عارف پر اشیاء کا ظاہر ہونا اس کی توجہ پر موقوف ہے۔
[۱۔ شیخ ابراہیم خواص رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۲۹۱ھ) کا بیان ہے کہ میں کوہِ لکام واقع ملک شام میں تھا۔ ایک انار کا درخت نظر آیا میرے نفس میں خواہش پیدا ہوئی۔ میں نے ایک انار توڑ لیا، اُس کو جو پھارا تو تُرش نکلا پس میں نے بغرض تا دیبِ نفس اُسے وہیں چھوڑا اور آگے چل دیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص لیٹا ہوا ہے اور اُس پر بھڑیں بیٹھی ہیں۔ میں نے اُسے کہا السلام علیک۔ اس نے جواب دیا وعلیک السلام یا ابراہیم، یہ سُن کر میں نے اُس سے پوچھا کہ تو نے مجھے کس طرح پہچان لیا۔ اُس نے جواب دیا کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کو پہچان لیا، اُس پر کوئی شے پوشیدہ نہیں رہتی، میں نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ تیر اایک حال دیکھتا ہوں۔ کاش تو اُس سے سوال کرتا کہ وہ تجھے ان بھڑوں کی اذیت سے بچاتا، یہ سن کر اُس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ تیرا ایک حال دیکھتا ہوں، کاش تو اس سے سوال کرتا کہ وہ تجھے انار کی شہوت و خواہش سے بچاتا کیونکہ انار کے ڈنگ کی تکلیف انسان آخرت میں پائے گا۔ اور بھڑوں کے ڈنگ کی تکلیف اس دنیا میں پاتا ہے پس میں اُسے وہیں چھوڑ کر آگے بڑھا۔ (رسالہ قشیریہ)]
۲۸۔ مشائخ میں سے ہر ایک کے آئینہ کی دو جہت ہیں جبکہ ہمارے آئینہ کی چھ جہت ہیں۔ حضرت مجدّد الف ثانی قدس سرہ اس کلمہ قدسیہ کی شرح میں فرماتے ہیں کہ آئینہ سے مراد عارف کا قلب ہے جو روح و نفس کے درمیان واسطہ اور ذریعہ ہے۔ دو جہت سے مراد جہتِ روح اور جہتِ نفس ہے دوسرے طریقوں کے مشائخ جب مقامِ قلب پر پہنچتے ہیں تو قلب کی دونوں جہت منکشف ہوجاتی ہیں۔ اور دونوں مقاموں کے علوم و معارف جو مناسبِ قلب ہیں، فائض ہوتے ہیں بخلاف حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے طریق کے کہ اُس میں آئینۂ قلب کے لیے چھ جہت پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس کا بیان یوں ہے کہ اس طریقہ علیہ کے اکابر پر یہ بات منکشف ہوگئی ہے کہ لطائفِ ستہ (نفس، قلب، روح، سرّ، خفی، اخفی) جو کلیۃ افرادِ انسانی میں ثابت ہیں وہ تنہا قلب میں بھی مستحق ہیں۔ چھ جہت سے حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی مراد لطائف ستہ قلب ہیں۔ پس باقی مشائخ کی سیر ظاہر قلب پر ہے اور مشائخِ نقشبندیہ کی سیرِ باطن قلب میں ہے اور وہ اس سیر سے قلوب کے، بطن بطون (بہت گہرائی) میں پہنچ جاتے ہیں اور مقامِ قلب میں اُن پر اُن چھ لطیفوں کے علوم و معارف جو اس مقام کے مناسب ہیں، منکشف ہوجاتے ہیں (رسالہ مبدأ و معاد)
۲۹۔ چالیس سال سے ہم آئینہ داری کرتے ہیں، ہمارے آئینہ نے کبھی غلطی نہیں کی۔ اس ارشاد گرامی میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اولیاء اللہ جو کچھ دیکھتے ہیں، نورِ فراست سے دیکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کو عطا کیا ہے۔ جو کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، وہ بے شک صواب و درست ہوتا ہے۔
شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی سیر آسمان و زمین کے تمام طبقات میں جاری تھی۔
۳۰۔ حضرت عزیزاں علیہ رحمۃ الرحمٰن کا ارشاد ہے کہ اس گروہ کی نظر میں زمین دسترخوان کی طرح ہےا ور ہم کہتے ہیں کہ روئے ناخن کی طرح ہے۔ کوئی چیز ان کی نظر سے غائب نہیں، منقول ہے کہ ارشاد مذکور کے وقت حضرت عزیزاں رحمۃ اللہ علیہ دستر خوان پر تھے۔ اُسی کے مناسب یہ فرمادیا اور حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہفت دائرہ ولایت کی نسبت سے فرمایا ہے ورنہ عارف کے دل کی بزرگی کی شرح نہیں ہوسکتی۔
۳۱۔ اگر درویش کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے تو اُسے پہچاننا چاہیے کہ یہ کہاں سے ہے۔
۳۲۔ حدیث میں ہے اَلْکَاسِبُ حَبِیْبُ اللہ یعنی کسب کرنے والا اللہ تعالیٰ کا حبیب ہے اس حدیث میں کسب رضا کی طرف اشارہ ہے نہ کہ کسبِ دنیا کی طرف۔
۳۳۔ متوکل کو چاہیے کہ اپنے آپ کو متوکل خیال نہ کرے اور اپنے توکل کو کسب میں چھپائے۔
۳۴۔ جو شخص اپنے آپ کو بکلیتِ خود اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے، اُس کا غیر خدا سے التجا کرنا شرک ہے۔ یہ شرک عام لوگوں کے لیے معارف ہے مگر خواص کے لیے معاف نہیں۔
۳۵۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیا کی خرابی کے لیے موجود کیا ہے مگر لوگ مجھ سے دنیا کی عمارت طلب کرتے ہیں۔
۳۶۔ اگر اس وجود سے خراب کوئی اور وجود ہوتا تو فقر کے اس خزانہ کو وہاں رکھتے۔ کیونکہ خزانہ ہمیشہ ویرانہ میں پوشیدہ رکھتے ہیں۔
۳۷۔ اہل اللہ بارِ خلق(لوگوں کا بوجھ) اس لیے اٹھاتے ہیں کہ اُن کے اخلاق کی اصلاح ہوجائے۔ یا کسی ولی سے ملاقات ہوجائے اس لیے کہ کوئی ولی ایسا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نظرِ عنایت اس پر نہ ہو، خواہ ولی اس سے واقف ہو یا نہ ہو۔ پس جو شخص اُس ولی سے ملے گا، اُس نظرِ الٰہی سے اُسے فیض ملے گا۔
۳۸۔ تو شمع کی طرح بن اور تو شمع کی طرح نہ بن۔ شمع کی طرح بن کے معنی یہ ہیں کہ تو دوسروں کو روشنی پہنچائے اورشمع کی طرح نہ بن کے معنی یہ ہیں کہ تو اپنے آپ کو تاریکی میں رکھے۔
۳۹۔ اس راستے (راہِ سلوک) میں صاحبِ پندار و تکبر (مغرور) کا کام نہایت مشکل ہے۔
۴۰۔ جس شخص نے کسی روز ہمارا جوتا بھی سیدھا کیا ہم اس کی شفاعت کریں گے۔
۴۱۔ درویش کو چاہیے کہ جو کچھ کہے حال سے کہے، مشائخ طریقت کا قول ہے کہ جو شخص ایسے حال سے کلام کرتا ہے جو اُس میں نہیں۔ حق تعالیٰ کبھی اُس کو اُس حال کی سعادت نہ بخشے گا۔
۴۲۔ یہ ضروری نہیں کہ جو دوڑے وہ گیند لے جائے مگر ملتی اسی کو ہے جو دوڑتا ہے۔ یہ اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ اس راہ میں ہمیشہ کوشش کرتا رہے۔
۴۳۔ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے مسخ صورت اس اُمّت سے مرتفع (دور کردی گئی) ہے۔ مگر مسخ باطن[۱] باقی ہے۔
[۱۔ خواجہ عبیداللہ احرار فرماتے ہیں کہ مسخِ باطن کی علامت یہ ہے کہ صاحب کبیرہ کا باطن کبیرہ گناہ سے دردمند و متاثر نہ ہو برائی اور گناہوں میں نہایت اصرار کے سبب سے اُس کا یہ حال ہوجائے کہ جب اُس سے کبیرہ گناہ صادر ہو تو اُس کے بعد اس کے باطن میں کوئی ندامت و ملامت پیدا و واقع نہ ہو اور اس کا دل ایسا سخت و سیاہ ہو کہ اگر اُسے تنبیہ کی جائے تو وہ آگاہ و متاثر نہ ہو۔ (قصوری)]
اندریں امت نبا شد مسخ تن
لیک مسخ دل بود اے ذوالفظن
۴۴۔ اولیاء کو اسرار پر آگاہی ہے اور آگاہی دی جاتی ہے لیکن وہ بغیر اجازت کے اُن کو ظاہر نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ جس کے پاس جو کچھ ہے اُسے چھپاتا ہے اور جس کے پاس کچھ نہیں وہ شور مچاتا ہے۔ اسرار کا چھپانا ابرار کا کام ہے۔
۴۵۔ ہم سے جو کچھ خواطر اور اعمال و افعالِ خلق کے اظہار کی نسبت صادر ہوتا ہے اُس میں ہم درمیان نہیں، یاد تو الہام سے ہمیں آگاہ کردیتے ہیں یا کسی کے واسطہ سے ہم تک پہنچا دیتے ہیں۔
۴۶۔ درویشی کیا ہے؟ باہر بے رنگ اور اندر بے جنگ ؎
تادریں خرقہ ایم از کس ما
ہم نرنجیم و ہم نر نجانیم
۴۷۔ میں نے اکابرِ دین میں سے ایک سے پوچھا کہ درویشی کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ زبونی و خواری (یعنی بے عزتی، ذلت و خواری)
۴۸۔ درویش کو تحمل و برداشت کے مقام میں ڈھول کی طرح رہنا چاہیے کہ ہر چند طمانچہ کھائے مگر صدائے مخالف اُس سے ظاہر نہ ہو۔
۴۹۔ درویش اہلِ نقد ہیں۔ آئندہ پر نہیں چھوڑتے ؎
امروز بیں بدیدۂ باطن جمالِ دوست
اے بے خبر حوالہ بفرداچہ مے کنی
الصوفی ابن الوقت (وہ صوفی جو وقت اور حالات کا تابع ہو اور حالات کو بدلنے کی طاقت نہ رکھتا ہو) کا اشارہ اسی صفت کی طرف ہے ؎
خرد مند ز آنکس تبرا کند
کہ اوکارِ امروز فردا کند
۵۰۔ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی علمِ منطق پڑھے تو کس نیت سے پڑھے؟ فرمایا کہ حق و باطل کے امتیاز کی نیت سے۔
۵۱۔ جس شخص کی قابلیت کا بیضہ مختلف صحبتوں کے سبب سے فاسد ہوگیا، اُس کا معاملہ دشوار ہے۔ سوائے اہلِ تدبیر (اولیاء اللہ) کی صحبت کے (جو سرخ گندھک کی طرح کمیاب ہے) درست نہیں ہوسکتا ؎
جز صحبتِ عاشقاں مستاں مپسند
ہر طائفہ ات بجائے خویش کشند
دل در ہوسِ قوم فرو مایہ مبند
چغدت سوئے ویرانہ و طوطی سوئے قند
۵۲۔ خواجہ مسافر خوارزمی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں حضرت خواجۂ خواجگان خواجہ بہاء الدین نقشبند قدس سرہ کی صحبتِ مقدسہ میں بہت رہا کرتا تھا اور اُن کی خدمت کیا کرتا تھا مگر سماع (راگ) کی طرف میرا بہت میلان تھا۔ ایک روز میں نے آپ کے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ اتفاق کیا کہ قوال دوفاف کو بلاکر حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ مجلس میں سماع میں مشغول ہوجائیں اور پھر دیکھیں کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا ارشاد فرماتےہیں چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا اور گانے بجانے والوں کو لے آئے۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ اُس مجلس میں بیٹھے اور کسی طرح سے بھی منع نہ فرمایا۔ اخیر میں آپ نے فرمایا کہ ہم یہ کام نہیں کرتے اور انکار بھی نہیں کرتے[۱]۔
[۱۔ حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کام ہمارے طریقِ خاص کے منافی ہے، اس لیے نہیں کرتے اور چونکہ دیگر مشائخ نے کیا ہے اس لیے اس پر انکار بھی نہیں کرتے (مکتوبات شریف دفتر اول مکتوب ۲۷۳)۔]
۵۳۔ بندہ کے اختیار ثابت کرنے میں بہت سعادت ہے تاکہ اگر کوئی عمل رضائے حق تعالیٰ کے خلاف اس سے سرزد ہوجائے اور وہ اپنا اختیار سمجھے تو اس کی توفیق کا شکر ادا کرے۔
۵۴۔ مشائخ کا قول ہے:
المجاز قنطرۃ الحقیقۃ
’’مجاز حقیقت کا پل ہے‘‘۔
اس سے مراد یہ ہے کہ تمام عباداتِ ظاہری خواہ قولی ہوں یا فعلی، مجاز ہیں۔ جب تک سالک اُن سے نہ گزرے گا۔ حقیقت کو نہ پہنچے گا۔[۱]
[۱۔ مزید تشریح کے لیے مکتوبات امام ربانی، دفتر سوم مکتوب ۶۶ ملاحظہ فرمائیے۔]
۵۵۔ اگر طالب کو اپنے شیخ مقتدا کے معاملہ میں کوئی مشکل پیش آئے تو چاہیے کہ حقی المقدور صبر کرے اور بے اعتقاد نہ ہوجائے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کی حکمت اُس پر ظاہر ہوجائے اور اگر صبر کی طاقت نہیں اور مبتدی ہو تو شیخ سے دریافت کرے کیونکہ اُس کے لیے سوال جائز ہے اور اگر طالب متوسط الحال ہو تو سوال نہ کرے۔
۵۶۔ ماوراء النہر کے بڑے بڑے اہل اللہ میں سے ایک نے حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ سیر و سلوک سے مقصود کیا ہے؟ حضرت خواجہ نے ارشاد فرمایا کہ مقصود معرفتِ تفصیلی ہے۔ اس بزرگوار نے پھر دریافت کیا کہ معرفتِ تفصیلی کسے کہتے ہیں؟ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد کیا کہ معرفتِ تفصیلی سے مراد یہ ہے کہ حضرت سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ بطریقِ اجمال قبول کیا گیا ہے اُسے بطریقِ تفصیل پہچانا جائے اور دلیل و برہان کے مرتبے سے کشف و عیاں کے مرتبہ تک رسائی ہوجائے۔
۵۷۔ حضرت خواجہ قدس سرہ سے دریافت کیا گیا کہ بلا اور بلوٰے میں کیا فرق ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ بلا بہ نسبت ظاہر ہے اور بلویٰ بہ نسبتِ باطن۔
۵۸۔ آپ سے دریافت کیا گیا کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کسی درویش سے کوئی حال واپس کر لے تو وہ کیا کرے، آپ نے ارشاد کیا کہ اگر اُس حال کا کچھ بقیہ باقی ہے تو وہ اس امر کی دلیل ہے کہ اُس سے تضرع و نیاز مطلوب ہے، پس وہ اللہ تعالیٰ سے اُس کا سوال کرے اور اگر کچھ بھی باقی نہیں رہا تو وہ اس امر کی دلیل ہے کہ اُس سے صبر و رضامطلوب ہے۔
۵۹۔ خدا طلبی بلا طلبی ہے۔ احادیث قدسیہ میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
جس نے مجھے دوست رکھا، میں نے اُسے ابتلاء میں ڈالا‘‘۔
یہ بات ظاہر ہے کہ محبت کے لیے وظیفہ لازم اور ضروری ہے کہ محب، محبوب کا متلاشی ہو، محبوب جس قدر زیادہ عزیز ہوتا ہے اُس کی طلب کی راہ میں بلا (دکھ، مصیبت) زیادہ ہوتی جاتی ہے اور احادیث میں وارد ہے کہ ایک شخص نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا۔ یارسول اللہ! میں آپ کو دوست رکھتا ہوں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو فقر[۱] کے لیے تیار رہ، ایک اور شخص نے عرض کیا کہ میں خدا کو دوست رکھتا ہوں، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلا کے لیے تیار رہ۔
۶۰۔ حضرت خواجہ قدس سرہ سے سوال کیا گیا کہ کرامات کے بارے میں درویش کیا کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ کرامتوں کا کیا ذکر۔ جو کچھ بھی ہے کلمۂ توحید کی حقیقت کے مقابلے میں نفی ہے۔ اصحابِ کرامت سب کے سب محجوب ہیں اور عارف کرامت کی طرف نظر کرنے سے دور رکھے گئے ہیں۔
[۱۔ترمذی شریف میں حدیث عبداللہ بن مغفل میں مذکور ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تین بار یوں کہا خدا کی قسم! میں آپ کو دوست رکھتا ہوں، اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا پس تو فقر کے لیے پاکھر (گھوڑوں کو بچانے والی زرّہ) تیار رکھ۔ کیونکہ فقر میرے محب کی طرف زیادہ جلدی پہنچ جاتا ہےروکے پانی سے جو اپنے منتہا جو جلدی پہنچ جاتا ہے مطلوب یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محب کو محنت فقر اٹھانا پڑتی ہے جس کے لیے پاکھر کی ضرورت ہے یہاں پاکھر کنایہ صبر سے ہے یعنی جس طرح پاکھر گھوڑے کو میدانِ جنگ میں ضرر سے بچاتی ہے بالکل اسی طرح صبر، انسان کو فقر و فاقہ کی آفت سے بچاتا ہے اور جزع و فزع کے ورطہ میں گرنے نہیں دیتا یعنی گریہ و زاری کے ہلا ک کردینے والے مقام کی طرف نہیں گرنے دیتا۔ (مشکوٰۃ شریف باب فضل الفقراء)]
۶۱۔ حضرت خواجہ قدس سرہ سے پوچھا گیا کہ اہل اللہ کو جو لوگوں کے خطرات و احوال و اعمال کی بصیرت و شناخت ہوتی ہے، وہ کہاں سے ہے؟ فرمایا کہ اُس نور کی فراست[۱] سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُن کو عطا فرمایا ہے چنانچہ حدیث میں آیا ہے تم مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
[۱۔ فراست کے معنی لغت میں دانائی، سمجھ داری اور عقلمندی کے ہیں مگر اہل حقیقت کی اصطلاح میں اس سے مراد مکاشفۂ یقین اور معائنہ غیب ہے۔]
۶۲۔ لوگوں نے آپ سے کرامت طلب کی تو آپ نے فرمایا کہ ہماری کرامت ظاہر ہے کہ باوجود اتنے گناہوں کے ہم زمین پر چل سکتے ہیں بلکہ چل پھر رہے ہیں۔
۶۳۔ مرید سے احوال کا ظاہر ہونا، شیخ کی کرامت ہے۔
۶۴۔ حضرت شیخ ابوسعید ابوالخیر قدس سرہ سے لوگوں نے پوچھا کہ ہم آپ کے جنازہ کے آگے کون سی آیت پڑھیں، شیخ نے فرمایا کہ یہ بیت پڑھنا ؎
چیست ازیں خوبتر در ہمہ آفاق کار
دوست رسد نزدِ دوست یار نزدیک یار
حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ پڑھنا بڑا کام ہے۔ تم ہمارے جنازہ کے آگے یہ بیت پڑھنا۔ ؎
مفلسا نیم آمدہ در کوئے تو
شیئا للہ از جمالِ روئے تو
۶۵۔ حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ میں نے مکہ معظّمہ میں زاد اللہ تعالیٰ شرفا و کرامۃ دو شخصوں کو دیکھا، ایک نہایت بلند ہمت اور دوسرا نہایت پست ہمت۔ پست ہمت وہ تھا جسے میں نے طواف میں دیکھا کہ خانہ کعبہ کے دروازے کے حلقہ پر ہاتھ رکھا ہوا ہے اور ایسی متبرک جگہ اور ایسے عزیز و مقدس وقت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ اور مانگ رہا ہے۔ بلند ہمت وہ جوان تھا جسے میں نے بازارِ منیٰ میں دیکھا کہ کم و بیش پچاس ہزار دینار کا سودا خرید و فروخت کیا اور اس عرصہ میں اُس کا دل ایک لمحہ بھی یادِ الٰہی سے غافل نہ ہوا۔
۶۶۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ سے پوچھا گیا کہ صوفیۂ کرام کا قول ہے کہ فقیر اللہ تعالیٰ کا محتاج نہیں۔ اس قول سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ سوال کرنے کی حاجت کی نفی ہے۔ حسبی[۱] من سوالی علمہ بحالی اسی مقام کی طرف اشارہ ہے۔
[۱۔نمرود علیہ اللعنۃ نے آگ روشن کی اور حضرت ابراہیم صلوات اللہ علیہ کو منجبیق کے پلہ میں رکھا، جبریل نے آکر عرض کیا، کیا تجھے کوئی حاجت ہے؟ حضرت نے فرمایا، تجھ سے کوئی حاجت نہیں ، جبرئیل نے کہا پس خدا تعالیٰ سے مانگیے، حضرت نے فرمایا حسبی من سوالی علمہ بحالی (بجائے لسان قال کے لسان حال سے سوال کرنا میرے واسطے کافی ہے) یعنی میرا حال اللہ تعالیٰ میری نسبت بہتر جانتا ہے۔ اُسے خوب معلوم ہے کہ میری فلاح و بہبودی کس چیز میں ہے پس مجھے سوال کرنے کی ضرورت نہیں (کشف المحجوب)]
۶۷۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ سے سوال کیا گیا کہ بعضے مشائخ کا ارشاد ہے کہ الصوفی غیر مخلوق (صوفی غیر مخلوق ہے) اس کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا کہ بعض اوقات صوفی کے لیے ایک وصف و حال ہوتا ہےکہ وہ نابود ہوتا ہے۔ مشائخ کا یہ قول اُسی وقت کی نسبت ہے ورنہ صوفی مخلوق ہیں۔
۶۸۔ حضرت خواجہ قدس سرہ سے دریافت کیا گیا کہ اذا تم الفقر فھو اللہ[۱] کے کیا معنی ہیں، آپ نے فرمایا کہ یہ بندہ کی ہستی اور اُس کی صفات کے باقی رہنے کی طرف اشارہ ہے۔
[۱۔یعنی جب فخر کمال کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ ہی باقی رہ جاتا ہے، انتہیٰ، حضرت مجدد الف ثانی قد سرہ فرماتے ہیں کہ اس عبارت سے صوفیہ کرام کی مراد یہ ہے کہ جب فقر کامل ہوجاتاہے اور نیستی محض حاصل ہوجاتی ہے تو باقی اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ نہیں رہتا لیکن یہ مراد نہیں کہ وہ فقیر خدا کے ساتھ متحد ہوجاتا ہے اور خد ابن جاتا ہے کیونکہ یہ تو کفر اور بے دینی ہے (مکتوبات شریف دفتر اول مکتوب ۲۶۶)]
۶۹۔ یہ جو مشائخ کا قول ہے کہ عارف کی معرفت صحیح نہیں ہوتی جس وقت وہ خدا سے تضرع کرتا ہے، یہ بندہ کی ہستی اور اس کی صفات کے باقی رہنے کی طرف اشارہ ہے۔
۷۰۔ ایک شخص نے حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کی خدمت میں عرض کیا کہ فلاں شخص بیمار ہے اور آپ کے دل مبارک کی توجہ کا طالب ہے، آپ نے فرمایا پہلے خستہ دل کی حاجت پھر اس کے بعد شکستہ دل کی توجہ [۱]۔
[۱۔ مطلب یہ کہ پہلے شکستہ دل اپنی حاجت کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے بعد اہل اللہ اُس کی حاجت برآری کی طرف توجہ فرماتے ہیں پس طالب کو مشائخ کی خدمت میں خالی جانا چاہیے تاکہ پر ہو کہ واپس آئے اور اپنے افلاس کو ظاہر کرنا چاہیے تاکہ اُن کو اس پر شفقت آئے اور فیض رسائی کریں۔ (مکتوبات شریفدفتر اول مکتوب ۱۵۷)]
۷۱۔ ہمارا روزہ ماسوا[۱] کی نفی اور ہماری نماز مقامِ[۲] مشاہدہ ہے۔ یہ رباعی آپ کی[۳] ہے ؎
تا روئے تو دیدہ ام من اے شمع طراز
وربے تو بوم نمازِ من جملہ فجار
نے کار کنم نہ روزہ دارم نہ نماز
چوں با تو بوم فجارِ من جملہ نماز
[۱۔ حضرت خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نفی ماسوا سے حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی مراد نہ صرف ماسوائے تعلق کی نفی اور ماسوا کی مقصودیت کی نفی ہے بلکہ ماسوا کے شعور و شہود کی بھی نفی ہے جو فناہ و توحید شہودی کا حاصل ہے (مکتوبات معصومیہ ، دفتر اول مکتوب ۱۵۲)۔
۲۔ حدیث جبریل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام و ایمان کے بعد احسان کو بدیں الفاظ بیان فرمایا۔ ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک یعنی حقیقتِ احسان یہ ہے کہ تو خدا کی عبادت کرے۔ اس طرح کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر تو اس حال میں نہیں کہ گویا اُسے دیکھ رہا ہے۔ تو اُس کی عبادت کر اس طرح کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ انتہیٰ اس ارشاد میں پہلی حالت مقام مشاہدہ اور دوسری مراقبہ ہے۔
۳۔اس رباعی کو نقل کرکے مولانا یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ مقصود پر پہنچنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ایسی طاعت نہیں کرسکتے جو خدا تعالیٰ کے لائق ہو۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے: وما قدروا اللہ حق قدرہ یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی تعظیم نہیں کی جیسا کہ حق ہے (رسالہ اُنسیہ)]
۷۲۔ بیس سال سے بفضلِ خدا ہم مقام بے صفتی[۱] سے مشرف ہیں۔
[۱۔ بے صفتی سے اشارہ کشفِ ذاتی کی طرف ہے جو بہت بلند مقام اور بہت شریف درجہ ہے۔ اس درجۂ بے صفتی کا کمال حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے اور مقام محمود اس مرتبہ کمال کی طرف اشارہ ہے۔ دیگر انبیاء و اولیاء بحسبِ مراتب آپ ہی کے خوشہ چین ہیں۔ مزید تشریح کے رسالہ ’’قدسیہ‘‘ مؤلفہ خواجہ محمد پارسا رحمۃ اللہ علیہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ (قصوری)]
۷۳۔ حقیقتِ اخلاص فنا کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ جب تک بشریت غالب ہوتی ہے حاصل نہیں ہوتی ؎
ساقی قدمے کہ نہم مستیم
مارا تو بما مماں کہ تاما!!
مخمور صہبائی الستیم
باخویشتنیم بت پرستیم
۷۴۔ ہم فضلی ہیں، ہم دو سو آدمی تھے جنہوں نے طلب کے کوچہ میں قدم رکھا مگر فضلِ الٰہی مجھ پر ہوا۔
۷۵۔ جو کچھ دیکھا گیا اور سنا گیا اور سمجھا گیا وہ سب غیر ہے اور حجاب ہے۔ حقیقتِ کلمہ لا سے اُس کی نفی کرنی چاہیے۔ حضرت مجدّد الف ثانی قدس سرہ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے آخیر کلمہ قدسیہ کو نقل کرکے یوں تحریر فرماتے ہیں۔
پس کثرت میں وحدت کا شہود بھی شایانِ نفی ہوا اور جو کچھ شایانِ نفی ہے وہ اُس جنابِ قدس سے منتفی (فناہ ہونے والا) ہے۔ حضرت خواجہ کے اس کلام نے مجھے اس شہود سے نکالا ہے اور مشاہدہ و معائنہ کی گرفتاریوں سے نجات بخشی ہے اور لباس کو علم سے جہل کی طرف اور معرفت سے حیرت کی طرف لے گیا ہے۔ جَزَاہُ اللہُ سُبْحَانَہٗ عنّی خَیْرَ الْجَزَآءِ [۱] میں اس ایک بات سے حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کا مرید ہوں اور اُن کا غلام ہوں۔ حق یہ ہے کہ اولیاء میں سے کم ہی کسی نے ایسی عبارت کے ساتھ کلام کیا ہے اور تمام مشاہدات و معائنات کو اس طریق پر نفی کیا ہے۔ اس مقام پر حضرت خواجہ کے اس ارشاد (خدا کی معرفت بہاء الدین پر حرام اگر اس کی ابتداء بایزید کی انتہا نہ ہو) کی حقیقت تلاش کرنی چاہیے کیونکہ بایزید رحمۃ اللہ علیہ باوجود اُس بزرگی کے شہود و مشاہدہ سے آگے نہیں بڑھے اور انہوں نے سبحانی کے کوچہ سے قدم باہر نہیں رکھا مگر حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کلمہ لا سے بایزید رحمۃ اللہ علیہ کے تمام مشاہدات کی نفی کردی اور سب کو غیر حق جل سلطانہ قرار دیا۔ حضرت بایزید کی تنزیہ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تشبیہ ہے اور اُن کا بے چوں حضرت خواجہ کے نزدیک چوں اور ان کا کمال حضرت خواجہ کے نزدیک نقص ہے۔ اس لیے حضرت بایزید رحمۃ اللہ علیہ کی انتہا جو تشبیہ سے آگے نہیں بڑھی ہے حضرت خواجہ نقشبند کی ابتدا ہوگی کیونکہ ہدایت تشبیہ سے ہے اور انتہا تنزیہ پر ہے۔ شاید آخر مار میں حضرت بایزید رحمۃ اللہ علیہ کو اس نقص کی اطلاع دی گئی کہ وہ آخری وقت فرماتے تھے:
[۱۔ اللہ تعالیٰ اُن کو میری طرف سے جزائے خیر دے۔]
مَاذَکَرْتُکَ اِلَّا عَنْ غَفْلَۃٍ وَمَا خَدَمْتُکَ اِلَّا عَنْ فَتْرَۃٍ۔
’’میں نے تجھے یاد نہیں کیا مگر غفلت سے اور میں نے تیری خدمت نہیں کی مگر سستی سے‘‘۔
وجہ یہ کہ انہوں نے حضورِ سابق کو غفلت جانا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کا حضور نہ تھا بلکہ ظلال میں میں سے ایک ظل (سایہ) کا اور ظہورات میں سے ایک ظہور کا حضور تھا۔ پس ناچار وہ اللہ تعالیٰ سے غافل ٹھہرے کیونکہ اللہ تعالیٰ وراء الوراء (دور سے دور) ہے۔ ظلال و ظہورات تمام مبادی و مقدمات اور معارج و معدات سے ہیں اور وہ جو حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ہم نہایت کو بدایت میں درج کرتے ہیں، مطابقِ واقع ہے۔ کیونکہ ابتداء سے اُن کی توجہ احدیتِ صرف کی طرف ہوتی ہے اور اسم و صفت سے بجز ذات اُن کی مراد نہیں ہوتی۔ اس طریقہ عالیہ کے مبتدیوں کو یہ دولت بطریق انعکاس شیخ متقدا سے جو اس کمال سے مشرف ہو، حاصل ہوتی ہے خواہ وہ مبتدی جانیں یا نہ جانیں۔ پس ناچار دوسرے طریقوں کے کامل مشائخ کی نہایت ان بزرگوں کی ہدایت میں مندرج ہوگی۔ (مکتوبات شریف، دفتر اوّل مکتوب ۲۷۳)
۷۶۔ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت خواجہ امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ درویشوں کی ایک جماعت کے ساتھ جا رہے تھے۔ اچانک راستہ میں حضرت امیر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شکل دار خط کھینچ کر فرمایا کہ اس پر سے کوئی نہیں گزر سکتا۔ امداد الٰہی نے میری دستگیری کی اور جب حضرت امیر اس پر سے گزرے تو میں بھی ساتھ ہی گزر گیا۔ حضرت امیر رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھاتو خوش ہوکر فرمایا کہ ’’بہت اچھا کیا، مجھ سے کوئی خط پیچھے نہ رہا‘‘۔
۷۷۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ بعض حضرات اہل اللہ نے فرمایا ہے کہ ولایت ہم پر ختم ہوچکی ہے۔ اس کا کیا مقصد ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ایشاں ختمِ ولایتِ زمانِ خود بودہ اند‘‘۔ یعنی وہ اپنے زمانے کی ولایت کے ختم کرنے والے ہیں۔
۷۸۔ آپ کی بے شمار رباعیات ہیں مگر بہ اختصار چند ایک درج ذیل ہیں تاکہ مردہ دلوں کے اندر تازہ روح پڑ جائے ؎
از خونِ دلم دو چشم پُر نم بہتر
یک لحظہ حضورِ دل بدرگاہِ خدا
یا رب بکشا بردلم از توبہ دری
در باقیِ عمرم چناں بگزار
یا رب تو درختِ عمرِ ما پست مکن
یا رب بہ کرم جملہ جوانمرداں را
یا رب چہ کنم کہ ہیچکس پارم نیست
سر تار سر آفاق بہ ہیچم نخرند
اے فضلِ تو دستگیر من دستم گیر
تا چند کم توبہ وتا کی شکنم!
در وقتِ سپیدہ دم خروسِ سحری
در آئینہ صبح نمودند اُورا
شب خیز کہ عاشقاں بشب زار کنند
ہر جا کہ درے بود بشب بربندند
روزے کہ چراغِ خاموش شود
بابید روں مکن خدایا حشرم
پر درر زنا ز و نعمش دوست مرا
تن خرقہ و جانِ من چوں صوفی
پیوستۂ رضائے دوست میدارم دوست
گرجاں طلبند چگونہ تقصیر کنم
بدخواہِ کساں بہ ہیچ مقصد نرسد
من نیک تو خواہم و تو خواہی بدمن
ہر بادہ کہ از حضرت اللہ دہند
خواہی کہ کمال معرفت دریابی
خودرا بشکن کہ بت شکستن ایں است
در گوشۂ خاطرِ عزیزاں جساکن
در عیش و نشقاط دلِ پُر غم بہتر
از سلطنتِ تمام عالم بہتر
بی منّت مخلوق رساں ماحضری
کزمن نرسد بہ ہیچکس درد سری
مارا ز شرابِ نیستی مست مکن
دل تنگ، پریشاں، تہیدست مکن
از شرمِ گنہ زبان گفتارم نیست
یا رب چہ متاعم کہ خریدارم نیست
حیران شدہ ام ز خویشتن دستم گیر
ای توبہ وہ توبہ شکن را دستم گیر
دانی کہ چراہمے کند نوحہ گری
از عمر شبے گذشت و تو بیخبری
گردِ درد بامِ دوست پرواز کنند
الا کہ در دوست زاں شب تازکنند
بر بسترِ مرگ عقل مدہوش شود
ترسم کہ بچشم فرماموش شود!
برد وخت مرقعہ از رگ و پوست مرا
عالم ہمہ خانقاہ شیخ اوست مرا
اندوہ بلائے دوست میدارم دوست
من جان، برائے دوست میدارم دوست
یک بد نکند تا بخودش صد نرسد
تو نک نہ بینی و بمن بد نرسد
بے منت شافی سحرگاہ د ہند
از خود بگذر تا بخودت دہند
در خود بگسل کہ ز قیدرستن ایں است
در مذہبِ ماگوشہ نشستن ایں است
راقم الحروف محمد صادق قصوری نے آپ کی رباعیات کی شرح و تشریح کرکے ’’رباعیاتِ خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کے نام سے ۱۹۹۷ء میں کتابی صورت میں چھپوا دیا ہے۔ تاکہ عوام و خواص روحانی استفادہ کرسکیں۔
حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کا شجرۂ نسب یوں ہے:
خواجہ بہاء الدین محمد ابن سیّد محمد بخاری ابن امیر سیّد جلال الدین ابن امیر سیّد برہان الدین ابن امیر سیّد عبداللہ ابن امیر سید زین العابدین ابن امیر سید محمد قاسم ابن امیر سید شعبان ابن امیر سید برہان الدین قلیج ابن امیر سید محمود رومی ابن امیر سید بلاق بن امیر سید نقی صوفی ابن امیر سید فخرالدین ابن امیر سید محمود علی اکبر ابن امام حسن عسکری ابن امام علی نقی ابن امام تقی ابن امام علی موسیٰ رضا ابن امام موسیٰ کاظم ابن امام جعفر صادق ابن امام محمد باقر ابن امام زین العابدین بن امام حسین ابن امیرالمومنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
مندرجہ ذیل کتابیں آپ کی یادگار ہیں۔
۱۔ دلیل العاشقین ۲۔ حیات نامہ