تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خاں ازہری
از قلم مولانا محمد شہاب الدین رضوی بہرائچی بحوالہ خلفاء ِ مفتی اعظم ہند
جانشین مفتیِٔ اعظم آستانہ عالیہ قادریہ رضوی، سوود اگران بریلی شریف ولادت: جانشین مفتیٔ اعظم علامہ مفتی الحاج الشاہ محمد اختر رضا خاں ازہری قادری بن مولانا محمد ابراہیم رضا جیلانی بن حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا بن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی23؍نومبر1943ء کو محلہ سوداگران بریلی شریف میں پیدا ہوئے۔ تسمیہ خوانی: جانشین مفتی اعظم کی عمر شریف جب چار سال، چار ماہ، چار دن کی ہوئی تو والد ماجد مفسر اعظم ہند مولانا محمد ابراہیم رضا جیلانی نے تقریب بسم اللہ خوانی منعقد کی اور اس میں دارالعلوم منظر اسلام کے جملہ طلبہ کو دعوت دی۔ حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ نے رسم بسم اللہ ادا کرائی۔ اور محمد نام پر عقیقہ ہوا۔ پکارنے کے نام محمد اسمٰعیل رضا اور عرف محمد اختر رضا تجویز ہوا۔ حضور مفتی اعظم کی صاحبزادی یعنی جانشین مفتی اعظم کی والدہ ماجدہ نے تعلیم خاص خیال رکھا۔ چونکہ نانا جان حضور مفتی اعظم کی صحر آموز دعائیں بھی آپ ہی کے حق میں نکلتی رہیں۔ القاب: جانشین مفتی اعظم نے1986ء؍ 1404ھ سور اشڑ کا دورہ فرمایا۔ ویر اول، پور بندر، جام جودھپور، ایلٹیہ، دھوراجی، اور جیت پور ہوتے ہوئے 15؍اگست1984ء؍1404ھ کو امیریلی تشریف لے گئے ۔ وہاں ہزاروں لوگ داخل سلسلہ ہوئے۔ رات12بجے سے دو بجے تک جانشین مفتی اعظم کی تقریری ہوئی۔ اور18؍اگست کو جوناگڑھ میں بزم رضا کی جانب سے ایک جلسہ رضا مسجد میں رکھا گیا۔ جس میں امیر شریعت حاجی نور محمد رضوی مارفانی نے تاج الاسلام کا لقب دیا۔ جسکی تائید مفتی گجرات مولانا مفتی احمد میاں نے کی۔ (روزنامہ اردو ٹائمز بمبئی، موخہ 25؍اگست 1984ء؍ 1404ھ) جانشین مفتئِ اعظم کو صدر المتقین، سند المفتین، اور فقیہہ اسلام کا لقب 1984ء؍ 1404ھ میں رام پور کے مشہور عالمِ دین مفتی حضرت مولانا سید شاہد علی رضوی شیخ الحدیث الجامعۃ الاسلامیہ گنج قدیم رام پور نے دیا۔ فخر اہل سنت، فقیہہ اعظم اور شیخ المحدثین کا لقب ۱۴؍شوال المکرم 1404ھ؍1985ء کو مولانا حکیم مظفر احمد رضوی داتا گنج بدایوں نے دیا۔ اس کے علاوہ مثلاً تاج الشریعہ، مرجع العلماء والفضلاء وغیرہ، اور بہت سے القاب علماء ومشائخ نے دیئے۔ جسکی ایک طویل فہرست ہے۔ حصول علوم اسلامیہ: جانشین مفتی اعظم نے گھر پر والدہ ماجدہ سے قرآن کریم ناظرہ ختم کیا۔ اسی دوران والد ماجد سے اردو کی کتابیں پڑھیں۔ گھر پر تعلیم حاصل کرنے کے بعد والد بزرگوار نے دارالعلوم منظر اسلام میں داخل کرادیا۔ نحو میر میزان منشعب وغیرہ سے ہدایہ آخرین تک کی کتابیں دارلعلوم منظر اسلام کے کہنہ مشق اساتذہ کرام سے پڑھیں۔ تاج الشریعہ جانشین مفتئِ اعظم 1963ء میں جامعہ ازہر قاہرہ مصر تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے کلیہ اصول الدین میں داخلہ لیا۔ مسلسل تین سال تک جامعہ ازہر مصر کے فن تفسیر وحدیث کے ماہر اساتذہ سے اکتساب علم کیا۔ تاج الشریعہ بچپن ہی سے ذہانت و فطانت اور قوت حافظہ کے مالک تھے۔ اور عربی ادب کے والد وہ تھے۔ جامعہ ازہر مصر میں داخلہ کے بعد جب آپ کی جامعہ کے اساتزہ اور طلبہ سے گفتگو ہوئی تو وہ آپ کی بے تکلف فصیح وبلیغ عربی گفتگو سن کر محو حیرت ہوجاتے تھے اور کہتے تھے کہایک عجمی النسل ہندوستانی عربی النسل اہلِ علم حضرات سے گفتگو کرنے میں کوئی تکلف محسوس نہ ہوتی۔ جامعہ ازہر مصر کے شعبۂ کلیہ اصول الدین کا سالانہ امتحان اگر چہ تحریری ہوتا تھا۔ مگر معلومات عامہ (جنرل نالج) کا امتحان تقریری ہوتا تھا۔ چنانچہ جامعہ کے سالانہ امتحان کے موقع پر جب جانشین مفتیِٔ اعظم کا امتحان ہوا تو ممتحن نے آپ کی جماعت سے علم کلام کے چند سوالات کیے، پوری جماعت میں سےکوئی ایک بھی ممتحن کے سوالات کے صحیح جواب نہ دے سکا۔ ممتحن نے روئے سخن آپ کی طرف کرتےہوئے سولات کو دوہرایا۔ جانشین مفتئ اعظم نے ان سوالات کا ایسا شافی وکافی جواب دیا کہ ممتحن تعجب کی نگاہ دیکھتے ہوئے کہنے لگا کہ ۔ آپ تو حدیث واصولِ حدیث پڑھتے ہیں تب علم کلام میں کیسےجواب دیا۔ جانشین مفتی اعظم نے جواب میں کہا کہ میں نے دارالعلوم منظر اسلام بریلی میں علم کلام پڑھا تھا۔ آپ کے جواب سے مسرور ہوکر ممتحن جامعہ نے آپ کو جماعت میں پہلا مقام دیا۔ جامعہ ازہر سے فراغت، ایوارڈ اور بریلی آمد:تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا ازہری مدظلہ 1963ء میں جامعہ ازہر مصر تشریف لے گئے، اور وہاں پر تین سال مسلسل رہ کر حصول علم میں مشغول رہے۔ دوسرے سال کے سالنہ امتحان میں آپ نے شرکت کی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل عمیم سے پورے جامعہ ازہر قاہرہ میں امتحان میں اعلیٰ کامیابی عطا فرمائی۔ اس کامیابی پر ایڈیٹر ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی کو الف آستانہ رضویہ کے عنوان سے رقمطراز ہیں۔ نبیرۂ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام علیہ الرحمۃ اور حضرت مفسر اعظم کے فرزند بند مولانا اختر رضا خاں صاحب نے عربی میں بی۔اے کی سند فراغت نہایت نمایاں اور ممتاز حیثیت سے حاصل کی مولانا اختر رضا خاں صاحب نہ صرف جامعہ ازہر میں بلکہ پورے مصر میں اول نمبروں سے پاس ہوئے۔ مولیٰ تعالیٰ ان کو اس سے زیادہ بیش از بیش کامیابی عطا فرمائے۔ اور انہیں خدمات کا اہل بنائے اور وہ صحیح معنی میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت کے جانشین کہے جائیں۔ اللھم زد فرزد۔ (ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی میں32، بابت جمادی الاولیٰ 1385ھ؍ستمبر 1965ء) تاج الشریعہ 1966ء جامعہ ازہر سے بریلی شریف تشریف لائے تو اس کی کیفیت جناب امید رضوی یوں تحریر فرماتے ہیں، بعنوان آمدنت باعث۔۔۔ گلستانِ رضویت کے مہکتے پھول، چمنساتنِ اعلیٰ حضرت کے گل خوشرنگ جناب مولانا محمد اختر رضا خاں صاحب ابن حضرت مفسر اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ ایک عرصۂ دراز کے بعد جامعہ ازہر مصر سے فارغ التحصیل ہوکر ۱۷؍ نومبر 1966ء؍1386ھ کی صبح کو بہار افزائے گلشن بریلی ہوئے، بریلی کے جنکشن اسٹیشن پر متعلقین و متولسین واہل خاندان، علمائے کرام وطلباء دارالعلوم (منظر اسلام) کے علاوہ بیشمار معتقدین حضرات نے (جن میں بیرونجات خصوصاً کانپور کے احباب بھی موجود تھے)حضرت مفتی اعظم مدظلہٗ کی سر پرستی میں تیاک اور شاندار استقبال کیا اور صاحبزادہ موصوف کو خوشرنگ پھولوں کے گجروں اور ہاروں کی پیشکش سے اپنے والہانہ جذبات وخلوص اور عقیدت کا اظہار کیا۔ ادارہ مولانا اختر رضا خاں ازہری اور متوسلین کو اس کامیاب واپسی پر ہدیہ تبرک وتہنیت پیش کرتا ہے، اور دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بطفیل اپنے حبیب کریم علیہ الصلوٰاۃ والتسلیم ان کے آبائے کرام خصوصاً اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مجدد اعظمکا سچا صحیح وارث و جانشین بنائے۔ ایں دعا ازمن واز جملہ جہاں آمین باد۔ (محمد ریحان رضا، مولانا : ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی ص ۱ بابت ماہ دسمبر 1966ء؍1386ھ) اساتذہ: آپ کے اساتذہ میں قابل ذکر اساتذۂ کرام یہ ہیں۔ حضور مفتی اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ بحر العلوم حضرت مولانا مفتی سید محمد افضل حسین رضوی مونگیری مفسر اعظم ہند حضرت مولانا محمد ابراہیم رضا جیلانی رضوی بریلوی فضیلت الشیخ مولانا علامہ محمد سماحی شیخ الحدیث والتفسیر جامعہ ازہر قاہرہ حضرت علامہ مولانا محمود عبدالغفار استاذ الحدیث جامعہ ازہر قاہری ریحان ملت قائد اعظم مولانا محمد ریحان رضا رحمانی رضوی بریلوی استاذ الاساتذہ مولانا مفتی محمد احمد عرف جہانگیر خاں رضوی اعظمی درس وتدریس: تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا ازہری کو1967ء میں دارالعلوم منظر اسلام بریلی میں درس دینے کے لیےدعوت پیش کی گئی۔ آپ نے اس دعوت کو قبولیت سے سرفراز کیا1967ء سے تدریس کے مسند پر فائز ہوگئے۔ تاج الشریعہ کے برادر اکبر مولانا ریحان رضا رحمانی بریلوی نے1978ء میں صدر المدرسین کے اعلیٰ عہدہ پر تقرر کیا۔ اور اس عہدے کے ساتھ رضوی دارالافتاء کے صدر مفتی بھی رہے۔ درس وتدریس کا سلسلہ مسلسل بارہ سال تک چلتا رہا۔ ہندوستان گیر تبلیغی دورے کی وجہ سے یہ سلسلہ کچھ ایام کے لیے منقطع ہوگیا۔ مگر کچھ ہی دنوں بعد اپنے دولت کدے پر درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا۔ جس میں مظر اسلام، مظہر اسلام اور جامعہ نوریہ رضویہ کے طلبہ کثرت سے شرکت کرتے۔ 1407ھ اور 1408ھ کومدرسہ الجامعۃ الاسلامیہ گنجقدیم رام پور میں ختم بخاری شریف کرایا۔ ۱۴۰۷ھ کو جامعہ فاروقیہ بھوجپور ضلع مراد آباد میں بخاری شریف کا افتتاح کیا۔ 1409ھ کو دارالعلوم امجدیہ کراچی (پاکستان) میں بخاری شریف کا افتتاح فرمایا، اور ذی الحجہ 1409ھ کو الجامعۃ القادریہ رچھا بہیٹری ضلع بریلی شریف میں شرح وقایہ کا طویل سبق پڑھایا۔ خاندان رضا کی فتویٰ نویسی: خاندانِ امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی کی مدت فتویٰ نویسی کا مندرجہ ذیل جائزہ ایمان اور یقین کو روشن کرتا ہے۔ حضرت مولانا رضا علی خاں کی فتویٰ نویسی کا آغاز1246ھ؍1831ء انجام 1282ھ؍ 1865ء، امام احمد رضا کی فتوی نویسی کا آغاز 1286؍ 1869ء، انجام 1340ھ؍ 1921ء حجۃ الاسلام مفتی محمد حامد رضا خاں کی فتویٰ نویسی کا آغاز 1312ھ؍ 1895ء، انجام 1362ھ؍ 1942ء مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری کی فتویٰ نویسی کا آغاز 1338ھ؍ 1910ء انجام 1981ء؍ 1402ھ۔ (ماہنامہ فیض الرسول براؤں ص 28؍بابت جمادی الاولیٰ،1410ھ؍ دسمبر1989ء شمارہ جلد ۱۷ مضمون از علامہ محمد ابراہیم خوشتر صدیقی رضوی افریقی۔) بحمدہ تعالیٰ یہ سلسلۂ زرّیں جسکی مدت 1408ھ؍ 1988ء تک162 سال ہوتی ہے، اب بھی خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ سوداگران بریلی سے تاج الشریعہ1967ء سے انجام دے رہے ہیں۔ آپ حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ اور مفتی سید محمد افضل حسین رضوی مونگیری کی زیر نگرانی فتاویٰ لکھتے رہے۔ مفتی اعظم قدس سرہٗ کے پاس فتاویٰ کی کثرت کی وجہ سے کئی مفتی کام کرتے۔ مفتی اعظم نے فرمایا: ’’اختر میاں اب گھر میں بیٹھنے کا وقت نہیں۔ یہ لوگ جن کی بھیڑ لگی ہوئی ہے کبھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ اب تم اس کام کو انجام دو۔ میں تمہارے سپرد کرتا ہوں۔‘‘ لوگوں سے مخاطب ہوکر مفتی اعظم نے فرمایا: آپ لوگ اب اختر میاں سلمہ سے رجو کریں انہیں کو میرا قائم مقام اور جانشین جانیں۔ اسی دن سے لوگوں کا رجحان تاج الشریعہ کی طرف ہوگیا۔ آپ خود اپنے فتوی نویسی کی ابتداء یوں تحریر فرماتے ہیں۔ میں بچپن سے ہی حضرت (مفتی اعظم) سے داخل سلسلہ ہوگیا ہوں، جامعہ ازہر سے واپسی کے بعد میں نے اپنی دلچسپی کی بناء پر فتویٰ کا کام شروع کیا۔ شروع شروع میں مفتی سید افضل حسین صاحب علیہ الرحمۃ اور دوسرے مفتیان کرام کی نگرانی میں میں یہ کام کرتا رہا۔ اور کبھی کبھی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر فتویٰ دکھایا کرتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد اس کام میں میری دلچسپی زیادہ بڑھ گئی اور پھر میں مستقل حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے لگا۔ حضرت کی توجہ سے مختصر مدت میں اس کام میں مجھے وہ فیض حاصل ہوا کہ جو کسی کے پاس مدتوں بیٹھنے سے بھی نہ ہوتا۔ (ماہنامہ استقامت کانپور (مفتی اعظم نمبر) ص151، بابت رجب 1403ھ؍1983ء۔) تقریباً چوبیس سال سے مسلسل مفتی اعظم قدس سرہٗ کے اس منصب کو بحسن و خوبی انجان دے رہے ہیں تاج الشریعہ کے فتاویٰ اقصائے عام میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تادمِ تحریر فتاویٰ کے رجسٹروں کی تعداد اکتیس ۳۱ سے متجاوز ہوگئی ہے۔ (بروایت مکرمیمولانا عبدالوحید رضوی بریلوی ناقل فتویٰ مرکزی دار الافتاء سودا گران بریلی۔) زدواجی زندگی: جانشین مفتی اعظم کا عقد مسنون حکیم الاسلام مولانا حسنین رضا بریلوی علیہ الرحمہ کی دختر نیک اختر صالح سیرت کے ساتھ 3؍نومبر1968ء؍شعبان المعظم1388ھ بروز اتوار کو محلہ کا نکرٹولہ شہر کہنہ بریلی سے ہوا۔ جن سے فی الحال ایک صاحبزادہ مخدوم گرامی مولانا عسجد رضا قادری بریلوی اور پانچ صاحبزادیاں تولد ہوئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کی اولاد امجاد کو سلف صالحین اور خاندان رضا کا نمونہ بنائے اور صاحبزادہ گرامی کو والد بزرگوار تاج الشریعہ کا صحیح معنوں میں جانشین اور قائم مقام بنائےآمین۔ (صاحبزادہ مولانا عسجد رضا کی ولادت ۱۴؍شعبان 1390ھ میں ہوئی۔ موصوف جامعہ نوریہ بریلیل میں درس نظامیہ تعلیم میں منہمک ہیں۔12، رضوی غفرلہٗ) حج وزیارت: تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا ازہری نے پہلا حج 1403ھ؍ 4؍ستمبر1983ء دوسرا حج 1405ھ؍ 1985ء تیسرا حج ۱۴۰۶ھ؍ ۱۹۸۶ء میں ادا فرمائے۔ اور متعد بار عمرہ سے بھی فیضیاب ہوئے۔ حق گوئی وبے باکی: اللہ رب العزت نے جانشین مفتی اعظم کو جن گوناگوں صفات سے متصف کیا ہے۔ ان صفات میں ایک حق گوئی اور بے باکی ہے۔ آپ نے کبھی بھی صداقت و حقانیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا چاہے کتنے ہی مصافحت کے تقاضے کیوں نہ ہوں۔ چاہے کتنے ہی قیدو بند، مصائب وآلام اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہننا پڑیں کبھی کسی کو خوش کرنے کے لیے اسکی منشاء کے مطابق فتویٰ نہیں تحریر فرمایا۔ جب کبھی کوئی فتویٰ تحریر فرمایا تو اپنے اسلاف، اپنے آباواجداد کے قدم بقدم ہوکر تحریر فرمایا۔ جس طرح جد امجد امام احمد رضا فاضل بریلوی اور مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری نے بے خوف و خطر فتاوے تحریر فرمائے۔ اسی طرح اپنے اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جانشین مفتی اعظم نظر آتے ہیں۔ اس حق گوئی کے شواہد آج آپ کے ہزاروں فتاویٰ ہیں جو ملک اور بیرون ملک میں پھیلےہوئے ہیں۔ سعودی مظالم کی کیفیت جانشین مفتی اعظم کی زبانی: بمبئی13؍ستمبر 1986ء؍1407ھ میں ابراہیم مرچنٹ روڈ مینارہ مسجد کے قریب رضا اکیڈمی بمبئی کے زیر اہتمام جانشین مفتی اعظم کے مکہ مکرمہ بیجاگرفتاوی پر سعودی حکومت کے خلافت ایک شاندار اجلاس منعقد ہوا۔ جس کی صدارت محدث کبیر مولانا ضیاء المصطفیٰ رضوی امجدی نے فرمائی بمبئی کےعلماء ائمہ مساجد کے علاوہ باہر سے آئے ہوئے اکابر علماء نے شرکت فرمائی۔ مجمع جو تقریباً پچاس ہزار افراد پر مشتمل تھا۔ جوش احتجاج میں سعودی حکومت کے خلاف نعرے بلند کرتا رہا۔ اخیر میں جانشین مفتی اعظم نے سعودی حکومت میں اپنی گرفتاری اور زیارت مدینہ منورہ کے بغیر واپس کیےجانے سے متعلق اپنا یہ مختصر سا بیان دیا، وھوھٰذا۔ 31؍اگست 1986ء شب میں تین بجے اچانک سعودی حکومت کے سی۔ آئی۔ ڈی اور پولیس سے لوگ میری قیام گاہ پر آئے اور مجھے بیدار کر کے پاسپورٹ طلب کیا اور پھر میرے سامان کی تلاشی کا مطالبہ کیا۔ میرے ساتھ میری پردہ نشین بیوی تھیں۔ میں نے انہیں باتھ روم میں بھیجا۔ پھر سی۔ آئی۔ ڈی نے باتھ روم کو باہر سے مقفل کردیا۔ اور وہ لوگ سپاہیوں کے ساتھ میرے کمرے میں داخل ہوئے۔ مجھے ریوالور کے نشانے پر حرکت نہ کرنے کی وارننگ دی۔ میرے سامان کی تلاشی لی۔ میرے پاس حضرت مولانا سید علوی مالکی رضوی مدظلہٗ کی دی ہوئی چند کتابیں اور کچھ کتابیں اعلیٰ حضرت اور دلائل الخیراب تھی، ان تمام کتابوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ مجھ سے ٹیلیفون کی ڈائری مانگی۔ جو میرے پاس نہ تھی میرا، میری بیوی کا اور میرے ساتھیوں کے پاسپورٹ ٹکٹ اور وہ کتابیں ہمراہ لےکرمجھے سی۔ آئی۔ ڈی آفس لائے۔ اور یکے بعد دیگرے میرے رفقاء محبوب اور یعقوب کو بھی اُٹھالئے۔ مجھ سے رات میں رسمی گفتگو کے بعد پہلا سوال یہ کیا کہ آپ نے جمعہ کہاں پڑھا۔ میں نےکہا کہ میں مسافر ہوں میرے اوپر جمعہ فرض نہیں۔ لہٰذا میں نے اپنے گھر میں ظہر پڑھی۔ مجھ سے پوچھا کہ تم حرم میں نماز نہیں پڑھتے ہو؟ میں نے کہا۔ میں حرم سے دور رہتا ہوں، حرم میں طواف کے لیے جاتا ہوں اس لیے میں حرم میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔ مجھ سےکہا آپ کیوں اپنے محلہ کی مسجد میں نماز نہیں پڑھتے ہیں میں نےکہا کہ بہت سے لوگ ہیں جنہیں میں دیکھتا ہوں کہ وہ محلہ کی مسجد میں نماز نہیں پڑھتے اور بہت سے لوگوں کے متعلق مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ سرے سے نماز ہی نہیں پرھتے تو مجھ سے ہی کیوں باز پرس کرتے ہیں ۔ مجھ سے پھر بھی اصرار کیا گیا تو میں نے کہا کہ میرے مذہب میں اور آپ لوگوں کے مذہب میں اختلاف ہے، آپ حنبلی کہلاتے ہیں اور میں حنفی ہوں اور حنفی مقتدی کی رعایت غیر حنفی امام اگر نہ کرے تو حنفی کی نماز صحیح نہ ہوگی۔ اس وجہ سے میں نماز علیحدہ پڑھتا ہوں۔ مجھ سے حضرت علامہ سید علوی مالکی مدظلہ کی کتابوں کے متعلق پوچھا کہ یہ تمہیں کیسے ملیں؟ میں نے کہا کہ یہ کتابیں مجھے انہوں نے چند روز پہلے دی ہیں۔ جب میں ان سے ملنے گیا تھا۔ مجھ سے سوال کیا کہ یہ پہلی ملاقات تھی۔ میں نے کہا ہاں، یہ پہلی ملاقات تھی۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کی چند کتابیں دیکھ کر جو نعت اور مسائل حج کے متعلق تھیں پوچھا ان سے تمہارا کیا رشتہ ہے؟ میں نے کہا کہ وہ میرے دادا تھے۔ اس مختصر انکوائری کے بعد مجھے رات گزرجانے کے بعد فجر کے وقت جیل بھیجدیا گیا۔ دس بجے پھر سی آئی ڈی سے گفتگو ہوئی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ ہندوستان میں کتنے فرقے ہیں۔ میں نے شیعہ، قادیانی وغیرہ چند فرقے گنائے اور میں نےواضح کیا کہ امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی نے قادیانیوں کا رد کیا ہے اور اس کے رد میں چھ رسالے جزاء اللہ وعدہ قمر الدیان السوء العقاب وغیرہ لکھے ہیں۔ ہم پر کچھ لوگ یہ تہمت لگاتے ہیں اور آپ کو یہ بتایا ہے کہ ہم اور قادیانی ایک ہیں، یہ غلط ہے اور وہی لوگ ہمیں بریلوی کہتےہیں۔ جس سےیہ وہم ہوتا ہے کہ بریلوی کسی نئے مذہب کا نام ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ ہم اہلسنت وجماعت ہیں۔ سی۔ آئی۔ ڈی کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ امام احمد رضا فاضل بریلوی نے کسی نئے مذہب کی بنیاد نہیں ڈالی بلکہ ان کا مذہب وہی تھا جو سرکار محمد مصطفیٰ ﷺاور صحابہ وتابعین اور ہر زمانے کے صالحین کا مذہب ہے اور یہ کہ ہم اپنے آپ کو اہل سنت وجماعت کہلوانا ہی پسند کرتے ہیں۔ اور ہمیں اس مقصد سے بریلوی کہنا کہ ہم کسی نئے مذہب کے پیرو ہیں ہم پر بہتان ہے۔ سی۔آئی۔ ڈی کے پوچھنے پر میں نے وہابی اور سنی کا فرق مختصر طور پر واضح کیا۔ میں نے کہا کہ وہابی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم غیب اور ان کی شفاعت اور ان سے توسل اور استمداد اور انہیں پکارنے کے منکر ہیں ۔ اور ا ن امور کو شرک بتاتے ہیں۔ جبکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضورﷺسے توسل جائز ہے اور انہیں پکارنا بھی اور یہ کہ وہ سنتے بھی ہیں اور اللہ کے بتائے سے غیب کو بھی جانتے ہیں۔ اور اللہ نے ان کو شفاعت کا منصب عطا فرمایا، اور علم غیب پر سی آئی ڈی کے پوچھنے پر آیات قرآن سے میں نے دلیلیں قائم کیں اور یہ ثابت کیا کہ نبوت اطلاع علی الغیب ہی کا نام ہے اور نبی وہی ہے جو اللہ کے بتانے سے علم غیب کی خبردے۔ اور یہ کہ نبی کے واسطے ہر مومن غیب جانتا ہے جیسا کہ قرآن مقدس میں منصوص ہے۔ سی۔ آئی۔ ڈی کے پوچھے پر میں نے بتایا کہ سرکار ﷺ کو بعد وصال بھی غیب کی خبر ہے۔ اس لیے کہ سرکارﷺ کی نبوت باقی ہے اور نبوت غیب جاننے ہی کو کہتے ہیں۔ پھر یہ کہ آیتوں میں ایسی قوی نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ بعد وصال سرکارﷺ علم غیب نہیں جانتے ہیں۔ ایک اور نشست میں سی۔ آئی۔ ڈی کے مطالبے پر میں نے توسُّل کی دلیل میں وَابْتَغُوْ اِلَیْہِ الْوَسلیۃ آیت پڑھی اور یہ بتایا کہ سرکارﷺ سے توسل منجملہ اعمال صالحہ ہے اور یہ کہ کسی عمل کا صالح ہونا اور وسیلہ ہونا اس شرط پر موقوف ہے کہ وہ مقبول ہو اور سرکار رسالتﷺبلاشبہ مقبول بارگاہ الوہیت ہیں بلکہ سید المقبولین ہیں تو ان سے توسل بدرجہ اولیٰ جائز ہے اور توسل شرک نہیں۔ سی۔آئی۔ڈی کے کہنے پر میں نے مزید کہا کہ کسی سے اس طور مدد مانگنا کہ اللہ کے سوا اس مستقل اور فاعل سمجھے شرک ہے اور اہم اس طور پر کسی سے مدد مانگنے کے قائل نہیں ہیں۔ ہاں اللہ کی مدد کا وسیلہ جان کر کسی مقبول بارگاہ سے مدد مانگنا ہرگز شرک نہیں ہے۔ سی۔ آئی۔ ڈی کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم میں اور وہابیوں میں یہ فرق ہے کہ وہ ہمیں توسل وغیرہ امور کی بنا پر کافر و مشرک بتاتے ہیں۔ لیکن ان کو محض اس بنا پر کافر و مشرک نہیں کہتے (یعنی اس کے وجوہات اور ہیں) دوسرے دن میرے ان بیانات کی روشنی میں سی۔ آئی۔ ڈی نے میرے لیے ایک اقرار نامہ اس نے خود لکھ کر مجھے سنایا جو یوں تھا۔ ‘‘میں فلاں بن فلاں بریلوی مذہب کا مطیع ہوں’’۔ میں نے اعتراض کیا کہ بارہایہ کہہ چکا ہوں کہ بریلوی کوئی مذہب نہیں ہے۔ اور اگر کوئی نیا مذہب بنام بریلوی ہے تو اس سے بری ہوں۔ آگے اقرار نامے میں اس نے یوں لکھا کہ میں امام احمد رضا کا پیروہوں اور بریلویوں میں سے ایک ہوں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ سرکار سے توسل، استغاثہ اور ان کو پکارنا جائز ہے۔ اور سرکارﷺ غیب جانتےہیں۔ اور وہابی ان امور کو شرک بتاتے ہیں اور یہ کہ میں ان کےپیچھے اس وجہ سے نماز نہیں پڑھتا ہوں کہ ہم سنیّوں کو مشرک بتاتے ہیں۔ اقرار نامے کے آخر میں میرے مطالبے پر اس نے یہ اضافہ کیا کہ بریلویت کوئی نیا مذہب نہیں ہے اور ہم لوگ اپنے آپ کو اہلسنت وجماعت کہلوانا ہی پسند کرتے ہیں۔ پھر مختلف نشستوں میں بارہا بار وہی سوالات دہرائے بعد میں مجھ سے میرے سفر لندن کے بارے میں پوچھا اور یہ کہا کہ کیا وہاں آپ نے کسی کانفرنس میں شرکت کی ہے۔ میں نے جواب دیا کہ کانفرنس حکومت کے پیمانے پر اور سیاسی سطح پر ہوتی ہے ہم لوگ نہ سیاسی ہیں نہ کسی حکومت سے ہمارا رابطہ ہے۔ سی۔ آئی۔ ڈی کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ لندن کے اس اجلاس میں جس میں شریک تھا۔ بنام بریلویت مسائل پر مباحثہ نہ ہوا۔ بلکہ اتحاد اسلامی اور تنظیم المسلمین پر تقاریر ہوئیں اور اس جلسہ کا خرچ وہاں کے سنی مسلمانوں نے اُٹھایا اور اس میں یہ مطالبہ کیا کہ امام احمد رضا فاضل بریلوی کے پیر واہلسنت وجماعت کو رابطہ عالم اسلامی نمائندگی دی جائے۔ جس طرح ندویوں وغیرہ کو رابطہ میں نمائندگی حاصل ہے۔ سی۔ آئی۔ ڈی کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ یہ تجویز بالاتفاق رائے پاس ہوگئی تھی۔ تیسری نشست میں جب دونشستوں کی تفتیش ختم ہوچکی اور میرا اقرار نامہ خود تیار کرچکے تو مجھ سے ایک بڑے سی۔ آئی۔ ڈی آفیسر نے کہا کہ میں آپ کا آپ کے علم، عمر اور شخصیت کی وجہ سے احترام کرتا ہوں اور آپ سے مخصوص اوقات میں دعاؤں کا طالب ہوں۔ گرفتاری کا سبب میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ آپ کا کیس معمولی ہے۔ ورنہ اس وقت جب سپاہی ہتھکڑی ڈال کر آپ کو لایا تھا میں آپ کی ہتھکڑی نہ کھلواتا۔ مختصر یہ کہ مسلسل سوالات کے باوجود میرا جرم میرے بار بار پوچھنے کے بعد بھی مجھے نہ بتایا بلکہ یہی کہتے رہے کہ میرا معاملہ اہمیت نہیں رکھتا۔ لیکن اس کے باوجود میری رہائش میں تاخیر کی اور بغیر اظہار جرم مجھے مدینہ منورہ کی حاضری سے موقوف رکھا۔ اور گیارہ دنوں کے بعد جب مجھے جدہ روانہ کیا گیا تو میرے ہاتھوں جدہ ایئرپورٹ تک ہتھکڑی پہنائے رکھی، اور راستے میں نماز ظہر کےلیے موقع بھی نہ دیا گیا اس وجہ سے میری نماز ظہر قضاء ہوگئی۔ ( سعودی حکومت کی کہانی اختر رضا کی زبانی ص 3تا 8، مطبوعہ بریلی 1407ھ) حکومت سعودی عرب نے خصوصی ویزادیا: ستمبر 1982ء؍1407ھ میں دوران حج جانشین مفتی اعظم کو حکومت سعودی عرب نے مکہ مکرمہ میں بلا جرم صرف غلبۂ نجدیت کی خاطر گرفتار کر کے گیارہ دن تک قیدو بند میں رکھا۔ اور مزید ستم یہ کہ انہیں دیار حبیب پاکﷺکی حاضری سے بھی محروم کردیا۔ لیکن جانشین مفتی اعظم اپنے موقف اور مسلک پر قائم رہے اور ان کے پائے ثبات میں لغرش نہیں آئی۔ آپ کی گرفتاری سے عالم اسلام میں غم وغصہ کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ ور نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہند بیشتر اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں سواد اعظم اہلسنت کے احتجاجات کا لمبا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اخبارات ورسائل نے بھی جانشین مفتی اعظم کی اس بیجا گرفتار کی مذمت کی۔ بالآخر قربانی رنگ لائی اہلسنت کے احتجاجات نے حکومت سعودیہ کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا اور لندن میں سعودی فرماں رواں شاہ فہد کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ ‘‘حرمین شریفین میں ہر مسلک کےلوگوں کو ان کے طریقے پر عبادات کرنے کی آزادی ہوگی۔’’ ارکان ورلڈ اسلامک مشن برطانیہ نےلندن میں شاہ فہد اور ان کے بھائی ترکی ابن عبدالعزیز سے ملاقات کر کے اختلافی مسائل پر مذاکرہ کے سلسلہ میں گفتگو کی، علامہ ارشد القادری رضوی نے سعودی سفیر کو بزبان عربی ایک میمور نڈم بھی دیا۔ 21؍مئی1986ء؍1407ھ کو سعودی سفارت خانہ دہلی سے جانشین مفتی اعظم کے دولت گاہ پر ایک فون آیا اور خون سفیر سعودیہ نے آپ کو خبر دی کہ حکومت سعودی عرب نے آپ کو زیارت مدینہ منورہ اور عمرہ کے لیے ایک ماہ کا خصوصی ویزادیا ہے۔ جانشین مفتی اعظم 24؍مئی1987ء؍1407 کو سعودی فلائٹ سے وایا جدہ، مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ سعودی سفارت خانہ نے آپ کی آمد کی اطلاع بذریعہ ٹیلیکس جدہ اور مدینہ ہوائی اڈوں پر دیدی تھی۔ سعودی سفیر مسٹر فواد صادق مفتی نے اس معاملہ میں کافی دلچسپی لی۔ جانشین مفتی اعظم عمرہ اور مدینہ منورہ کی زیارت سے مشرف ہوکر سعودی میں سولہ روز ایام کے بعد وطن واپس آئے۔ دہلی ہوائی اڈہ اور بریلی جنکشن پر ہزاروں مسلمانوں نے پر جوش استقبال کیا۔ ( ماہنامہ سنی دنیا بریلی ص48، جولائی1987ء ذی قعدہ1407ھ شمارہ56، جلد5) نقویٰ شعاری: آج کل پیر فقیر اور عالموں اور عاملوں کے ارد گرد عورتوںکا ہجوم لگا رہنا عام سی بات ہے جہاں دیکھئے منہ کھولے چلتی پھرتی نظر آئیں گی۔ حیا نام کی کوئی چیز ہی باقی نہیں رہ گئی ہے مگر جانشین مفتی اعظم کا تقویٰ شعاری ملاحظہ فرمائیں۔ 1407ھ کی بات ہے کہ زنان خانےمیں عورتیں زیارت اور بیعت کے لیے حاضر ہیں۔ جب آپ زنان خانے میں تشریف لے گئے تو چند عورتوں کےنقاب الٹے اور منھ کھلےہوئے تھے۔ آپ نے فوراً اپنی آنکھیں بند کرلیں اور فرمایا ‘‘نقاب ڈالو، نقاب ڈالو، لاحول ولاقوۃ اِلَّا بِا اللہ العلیم۔’’ سب عورتوں نے نقابیں ڈال لیں پھر بیعت فرمایا، شریعت کی پاسداری ہو تو ایسی ہو۔ تصوف کی طرف رجحانات: جانشین مفتی اعظم کو بچپن ہی میں حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ نے بیعت فرمالیا تھا اور بیس سال کے بعد خود مفتی اعظم نے میلاد شریف کی محفل میں خلافت واجازت سے سرفراز فرمایا۔ جب حضور مفتی اعظم نے 15؍جنوری1962ء؍1381ھ کو خلافت عطا فرمائی اس وقت شمس العلماء مولانا قاضی شمس الدین احمد رضوی جعفری علیہ الرحمہٗ برہان الملت والدین، مفتی برہان الحق رضوی جبلپوری علیہ الرحمہ بھی تشریف فرماتھے۔ مولانا برہان الحق رضوی جبلپوری نے فرمایا کہ حضور مفتی اعظم سے میری گفتگو اس بارے میں ہوئی ہے کہ حضور مفتی اعظم نے فرمایا تھا کہ جانشین اپنے وقت پر وہی ہوگا جسے ہونا ہے۔ صدر الشریعہ مولانا امجد علی رضوی اعظمی علیہ الرحمہ نے عرس چہلم حجۃ الاسلام کے موقع پر فرمایا تھا کہ مجھ سے اعلیٰ حضرت نے حجۃ الاسلام علیہ الرحمہ کے متعلق فرمایا۔ بڑے مولانا میں نے عرض کیا۔ ان کے بعد فرمایا مصطفیٰ (حضور مفتی اعظم) عرض کیا ان کے بعد فرمایا جیلانی، بشرط علم و عمل کی قید، سنیت اعلیٰ حضرت ہے۔ جب اعلیٰ حضرت نے نبیرۂ اعلیٰ حضرت مفسر اعظم ہند علیہ الرحمہ کو مرید کیا تو شجرہ پر تحریر فرمایا، خلیفہ انشاء اللہ بشرط علم و عمل ‘‘یہی رجسٹر مریدین میں تحریر فرمایا۔ حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ نے اپنے جانشین کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ‘‘اس (علامہ محمد اختر رضا خاں ازہری) لڑکے سے بہت اُمید ہے۔ ( عبدالمجید رضوی جناب مدیر ماہنامہ اعلیٰ حضرت ص 21، 22؍جنوری 1962ء؍شعبان 1381ھ) حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ نے آخری زمانے میں ایک تحریر جانشین مفتی اعطم کو عنایت فرمائی اور اس میں اپنا جانشین اور قائم مقام بنایا تحریر عکس ملاحظہ فرمائیں۔ 14؍ 15؍نومبر 1984ء کو مارہرہ مطہرہ میں عرس قاسمی کی تقریب میں احسن العلماء مولانا مفتی سید حسن میاں برکاتی سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مدظلہٗ نے جانشین مفتی اعظم کا استقبال قائم مقام مفتی اعظم علامہ ازہری زندہ باد کے نعرہ سے کیا اور مجمع کثیر میں علماء ومشائخ اور فضلاء ودانشوروں کی موجودگی میں جانشین مفتی اعظم کو یہ کہہ کر’’فقیر آستانہ عالیہ قادریہ برکاتیہ نوریہ کے سجادہ کی حیثیت سے قائم مقام مفتی اعظم علامہ اختر رضا خاں صاحب کو سلسلۂ قادریہ برکاتیہ نوریہ کی تمام خلافت واجازت سے ماذون مجاوز کرتا ہوں پورا مجمع سن لے تمام برکاتی بھائی سن لیں اور یہ علمائے کرام (جو عرس میں موجود ہیں) اس بات کے گواہ رہیں۔‘‘ بعدہٗ احسن العلماء مولانا سید حسن برکاتی مدظلہٗ نے جانشین مفتی اعظم کی دستار بندی کی اور نذر بھی پیش کی۔ (ماہنامہ سنی دنیا بریلی ص 38،39، بابت دسمبر1984ء(ب) مکتوب حضرت مولانا ڈاکٹر سید محمد امین میاں برکاتی رضوی مارہروی بنام راقم12رضوی غفرلہٗ) سید العلماء مولانا الشاہ آل مصطفیٰ برکاتی مارہروی علیہ الرحمہ نے جمیع سلاسل کی اجازت وخلافت عطا فرمائی۔ اور خلیفہ امام احمد رضا برہان الملت حضرت مفتی برہان الحق رضوی جبلپوری علیہ الرحمہ نے بھی تمام سلسلوں کی خلافت سے نوازا۔ ( عبدالنعیم عزیزی، ادیب: تعارف ص3) والد ماجد مفسر اعظم ہند نے اپنے فرزند ارجمند کو قبل فراغت علم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کا جانشین بنایا اور ایک تحریر بھی عنایت فرمائی۔ (عبد المجید رضوی، مدیر: ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی ص 29، 30، ملخصاً بابت اکتوبر 1965ء) ریحان ملت مولانا محمد ریحان رضا بریلوی سابق مہتمم منظر اسلام نے اپنی ارادت میں شائع ہونے والے ماہنامہ اعلیٰ حضرت بعنوان ‘‘کوائف دارالعلوم’’ تحریر فرماتے ہیں۔ یہ تحریر اس زمانے کی ہے جب مفسر اعظم ہند مولانا ابراہیم رضا بریلوی قدس سرہٗ کی طبیعت بہت زیادہ علیل تھی اور سارے لوگوں کو یہ امید تھی کہ اب مولانا ابراہیم رضا جیلانی بریلوی ظاہری دنیا سے رخصت ہوجائیں گے؛ بوجہ علالت یہ توقع نہیں کہ اب زیادہ زندگی ہو، بنا بریں ضرورت تھی کہ دوسرا قائم مقام ہو۔ لہٰذا اختر رضا سلمہ کو قائم مقام وجانشین اعلیٰ حضرت بنادیا گیا، جانشین کا عمامہ باندھا گیا اور عبا پہنائی گئی۔ یہ دستار اور عبا اور طلبہ کی دستار وعبا اہل بنارس کی طرف سے ہوئی۔ (ریحان رضا، مولانا، مدیر: ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی ص 32دسمبر 1962 رجب المرجب 1382ھ سرپرست مفسر اعظم ہند علیہ الرحمہ۔) تعداد مریدین: فقیہہ اسلام علامہ مفتی محمد اختر رضا ازہری کے مریدین ہندوستان، پاکستان، مدینہ منورہ ، مکہ معظمہ، بنگلہ دیش، موریشس، سری لنکا، یوکے، ہالینڈ، لندن، جنوبی افریقہ، امریکہ، ریاج، انگلینڈ، عراق، ایران، ترکی، وغیرہ ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مریدین میں بڑے بڑے علماء مشائخ، صلحا شعرا، ادبا، مفکرین، قائدین، مصنفین، ریسرچ اسکالر، پروفیسر، ڈاکٹر اور محققین ہیں جو آپ کی غلامی پر فخر کرتے ہیں۔ مولانا مصطفی رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ نے اپنے سامنے لوگوں کو آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے حکم فرماتے، یہاں تک ہی نہیں بلکہ مفتی اعظم قدس سرہٗ نے اپنے سامنے لوگوں کی کثیر تعداد کو تاج الشریعہ کے ہاتھ پر بیعت کروایا، اور بہت سے مقامات پر اپنا جانشین اور قائم مقام بناکر روانہ کیا۔ مجمع کے مجمع نے آپ کے دست مبارک پر بیعت قبول کی۔ سلسلۂ قادریہ برکاتیہ رضویہ کی سب سے زیادہ اشاعت حضور مفتی اعظم کے بعد تاج الشریعہ ہی کر رہے ہیں۔ ان دو بزرگوں نے سلسلہ کو وسیع تر کردیا۔ (بر وایت فقیہہ العصر مولانا مفتی مطیع الرحمٰن مضطر رضوی پور نوی۔) عشق رسولﷺ: بارگاہِ الٰہی سےجانشین مفتی اعظم کو عشق نبیﷺ کا وافر حصہ عطا ہوا ہے، امام احمد رضا بریلوی نے عشق رسول علیہ السلام میں گم ہوکر حدائق بخشش کا بیش بہا تحفہ قوم و ملت کو دیا۔ انہیں حقیقی جانشین نے عشق رسول سے سرشار ہوکر سفینۂ بخشش کا وہ تحفۂ نایاب قوم کو دیا جس کے ہر شعر سے عشق رسولﷺچھلکتا ہے۔ سفینہ بخشش کے اشعار پڑھنے اور عشق رسول میں گم ہوجاتے ہیں۔ شعر و شا عری اور نمونۂ کلام: جانشین مفتی اعظم نے تینو ں زبانوں میں شعرو شاعری میں طبع آزمائی کی۔ اس کی یہاں پر قدرے وضاحت کی جاتی ہے۔ آپ کو زمانۂ طالب علمی میں ہی شعر و شاعری کا شغف ہوگیا تھا۔ مگر زیادہ رجحان اس کی طرف نہ تھا۔ ابتداء میں شاعری کی اصلاح اپنے اساتذہ اور والد ماجد سے لیتے رہے زمانۂ طالب علمی کی نعتیں، نظمیں ماہنامہ اعلیٰ حضرت میں چھپتیں رہیں۔ آستانہ رضویہ پر منعقد ہونے والے مشاعرے میں بھر پور حصہ لیتے اور اعلیٰ کامیابی ہوتی۔ تاج الشریعہ اور آپ کے برادر اکبر کی شاعری کا مواز نہ بھی ہوتا۔ سننے والوں کا کہنا ہے کہ ہر وہ شخص کے کلام میں ایک علیحدہ ہی چاشنی ہوتی آپ کو شعر گوئی کا شوق زمانۂ طالب علمی سے ہی تھا۔ انیس سال کی عمر کی ایک نعت پاک کے چند شعر ملاحظہ ہوں۔ اس طرف بھی اک نظر مہر درخشاں جمال ہم بھی رکھتے ہیں بہت مدت سے ارمان جمال اک اشارہ سے کیا شق ماہِ تاباں آپ نے مرحبا صد مرحبا صل علیٰ شانِ جمال فرش آنکھوں کو بچھاؤ رہ گزر میں عاشقوں ہر طرف دیکھیں گے ایسے جلوۂ شانِ جمال مرکے مٹی میں ملے وہ با خدا بالکل غلط مثل سابق اب بھی ہیں مرقد ہیں سلطان جمال در حقیقت مصطفیٰ پیارے ہیں سلطان جمال مارچ 1986ء؍ کو ایک حادثہ میں چوٹ اجانے کے بعد جانشین مفتی اعظم کو کئی راتیں ٹھیک سے نیند نہ آئی۔ شب10؍مارچ1986ء کو رات بھر نہ سو سکے اور اسی اضطراب کے عالم میں انہوں نے مندرجہ نعت اقدس کہی۔ چند اشعار درج ذیل ہیں:۔ تلاطم ہے یہ کیسا آنسوں کا دیدۂ تر میں یہ کسی موجیں آئی ہیں تمنا کے سمندر میں تجسس کی کروٹیں کیوں لے رہا ہے قلب مضطر مدینہ سامنے ہے بس ابھی پہنچا میں دم بھر میں نہ رکھا مجھ کو طیبہ کی قفس میں اس ستم گر نے ستم کیسا ہو بلبل پہ یہ قید ستم گر میں ستم سے اپنے مٹ جاؤ گے تم خود اے ستمگارو سنو ہمکہہ رہے ہیں بے خطر دورستم گر میں نبات جلوۂ گاہ ناز میرے دیدۂ و دل کو کبھی رہتے وہ اس گھر میں کبھی ہستے وہ اس گھر میں مدینے سے رہیں خود دور اس کو روکنے والے مدینے میں خود اختر مدینہ اختر میں جب جانشین مفتی اعظم کو گنبد خضرا کی زیارت کرے بغیر ہندوستان واپس بھیج دیا گیا تو حکومت سعودیہ کے ظلم وبربت سے متاثر ہوکر یہ نعت پاک کہی۔ اس موقع پر جب 17؍فروری1987ء کو جھریا بہار کے ایک جلسہ میں ایک شاعر نے اسی زمین میں ایک نعت پڑھی تھی۔ آپ نے برجستہ اسٹیچ پر ہی سات شعر کہے اور بقیہ اشعار ٹرین میں کہے۔ چودہ اشعار سے چند ملاحظہ ہوں؎ داغ فرقت طیبہ قلب مضمل جاتا کاش گنبد خضرا دیکھنے کو مل جاتا میرا د نکل جاتا ان کے آستانے پر ان کے آستانے کی خاک میں میں مِل جاتا موت لیکے آجاتی زندگی مدینے میں موت سے گلے مل کر زندگی میں مل جاتا دل پہ جب کرن پڑتی ان کے سبز گنبد کی اس کی سبز رنگت سے باغ بنکے کھِل جاتا فرقت مدینہ نے وہ دیئے مجھے صدمے کوہ پر اگر پڑتے کوہ بھی توہل جاتا در پہ دل جھُکا ہوتا اذن پاکے پھر بڑھتا ہر گناہ یاد آتا دل خجل خجل جاتا میرے دل میں بس جاتا جلوہ زار طیبہ کا داغ فرقت طیبہ پھول بن کھِل جاتا ان کے در پہ اخترؔ کی حسرتیں ہوئیں پوری سائل در اقدس کیسے منفعل جاتا مولانا عبد الحمید رضوی افریقی حضور مفتی اعظم کی نعت پاک تو شمع رسالت ہے عالم تیرا پروانہ تو ماہِ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ حضور مفتی اعظم کی مجلس میں پڑھ رہے تھے، جب یہ مقطع پڑھا؎ آباد اے فرما ویراں ہے دل نوری جلوے تیرے بس جائیں آباد ہو ویرانہ تو حضور مفتی اعظم نے فرمایا کہ‘‘ بحمدہِ تعالیٰ فقیر کا دل تو روشن ہے اب اس کو یوں پڑھو۔’’ آباد اسے فرما ویراں دل نجدی جلوے تیرے بس جائیں آباد ہو ویرانہ اس وقت جانشین مفتی اعظم اس مجلس میں رونق افروز تھے، اور فوراً برجستہ حضور مفتی اعظم کے سامنے عرض کیا۔ حضور مقطع کو اس طرح پڑھ لیا جائے۔ سرکار کے جلووں سے روشن ہے دلِ نوریؔ تا حشر رہے روشن نوریؔ کا یہ کاشانہ حضور مفتی قدس سرہٗ نے یہ مقطع بہت پسند فرمایا۔ (مصطفیٰ رضا بریلوی، مفتی اعظم: سامان بخشش، ص 154 (مطبوعہ رام پور 1405ھ، 1985ء) حاشیہ از الحاج قاری محمد امانت رسول نوری پیلی بھیتی۔) جانشین مفتی اعظم نے عربی زبان میں حضور مفتی اعظم کے وصال پر تاریخ وصال کہی، چند شعر ملاحظہ ہوں۔ ثوی المفتی العظام مخلدا بدارٍ فالکرم بھا من دار حوت فی عقر ھاشمس الزمان فاھست من سلھا مطلع الانوار سماۗ تہ غابت فاظلمت الدنیٰ فمن توقوف سوقف المحتار رحلیک شیخی ثلمۃ ایۗ ثلمۃ بذالدین جلت من الاطھار سئلو اختر ارخ رحلۃ سیدی فقلت ‘‘عظیم الشاف’’ لیتنا الدار نئے فرزندان اسلام کا قبول اسلام: تاج الشریعہ کے دست مقدس پر مشرف باسلام ہونے والوں کی ایک اجمالی فہرست۔ قوم قبل اسلام ریاوار نام گلاب بعدہٗ مسلم رضوی یہ رہنے والے جبلپور بھوٹا تال کے ہیں۔ بچپن کے زمانے میں گھر سے نکل گئے تھے اور سادھوؤں کی جماعت میں رہتے رہے جوانی کا عالم اسی عالم میں گزارا۔ محمد مسلم رضوی کے ساتھیوں میں ایک ساتھی لڑکا مسلما ن تھا۔ اس کے ہمراہ بچپن کے زمانے میں پڑھا کرتے تھے اور مذہب اسلام کی کتب کا تذکرہ اس نے کیا تھا۔ سادھوؤں میں رہ کر جب سکون نہیں پایا تو مذہب اسلام کی کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ دریافت کرنے پر بتایا کہ مجھے اس میں بہت سکون ملا اور میرا دل ایک دم مضطرب ہوگیا کہ مذہب اسلام قبول کرلوں فوراً بریلی شریف حاضر ہوا۔ یہاں پر چاند جیسے چہرے والے ایک شخص کو دیکھا۔ ان کے بارے میں معلوم کیا کہ یہ کون شخص ہیں۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کے جانشین ہیں۔ اس وجہ سے میرا دل اور بے قرار ہوا، میں نے عرض کیا حضور آپ کے دست اقدس پر اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں، فوراً جانشین مفتی اعظم نےکلمہ طیبہ پڑھا کر اسلام میں داخل کیا نیز سلسلۂ قادریہ کاتیہ رضویہ میں بیعت بھی فرمالیا۔ (بروایت مولوی شکیل احمد خاں رضوی خادم جانشین مفتی اعظم دامت برکاتہم القدسیہ 12رضوی غفرلہٗ) نومسلم جناب محمد احسن رضوی (سابقہ نام مسٹر جارج اسٹیفن) جو مع فیملی عیسائی سے مسلمان ہوئے ہیں۔ محمد احسن رضوی کیتھولک چرچ نرائن گڑھ ضلع انبالہ پنجاب میں ایک مبلغ اسپیکر اور ٹیچر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ اور انہیں وہاں کافی مراحات حاصل تھیں، تبلیغی وتحریری کاموں کے علاوہ ان کے ذمہ بائبل کا درس اور قرآن بائبل کا تقابلی مطالعہ کرانا نیز مسلم مذہب پر تنقید کا کام بھی سونپا ہوا تھا۔ محمد احسن رضوی اردو زبان وادب میں کافی دسترس رکھتے ہیں۔ فارسی اور عربی سے بھی واقفیت ہے۔ قرآن مجید بہت اچھی طرح سے پڑھتے ہیں اور انہیں قرآن مقدس کی بہت ساری آیتیں اور سورتیں یاد ہیں۔ نیز ان کی مذہبی معلومات بھی کافی وسیع ہیں، اور انہیں اس بات پر فخر ہے اور مسرت بھی کہ انہوں نے اسلام غوروفکر کے بعد قبول کیا ہے اور یہ کہ وہ صحیح راستے پر آگئے ہیں اور انہوں نے سچا مذہب اور دین فطرت قبول کرلیا ہے۔ 1986ء؍1406ھ میں جانشین مفتی اعظم کے ہاتھوں پر مسلمان ہوئے اور انہیں سے داخل سلسلہ بھی ہوئے، کچھ ایام تک جانشین مفتی اعظم کے دولت کرے پر قیام پذیر رہے اور دینیات روزہ، نماز، اسلامی طور طریقے سیکھے بریلی شریف کا پتہ انہیں فتاویٰ رضویہ جلد گیارہ سے معلوم ہوا۔ بریلی آکر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ وہابی، دیوبندی اور شیعہ وغیرہ مذاہب کا بھی مطالعہ کرچکے ہیں اور انہیں بریلی مسلک ہی صحیح مسلک معلوم ہوا۔ لہٰذا وہ مسلمان ہونے کے لیےجگہ سے لوٹ پھر کر بریلی آئے۔ محمد احسن رضوی نےاپنے مسلمان ہونے کے بارےمیں بتایا کہ تقریباً چھ ماہ سے بڑے ذہنی کرب میں مبتلا تھے اور اکثر سوچا کرتے تھے کہ جس بائبل کی وہ تعلیم دیتے ہیں یہ اصل انجیل نہیں ہے اور اس بائبل میں باوجود تحریف و ترمیم کے مسلمانوں کےنبی حضرت محمدﷺ کی آمد کا تذکرہ ہے ان کے آخری نبی اور ان کے رحمۃ اللعالمین ہونے کا ذکر ہے اور خود حضرت مسیح علیہ السلام ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میرے بعدہ وہ آئے گا جو کمفورٹر (رحمۃ اللعالمین) ہوگا۔ جس کا نام آسمانوں میں احمد اور زمین میں محمد ہے اور وہی نجاب و ہندہ ہے تو پھر عیسائی حضرت محمدﷺ کو کیوں نہیں مانتے اور ان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کیوں فوقیت دیتے ہیں۔ اور جب یہ کمفورٹر ہیں یہی رسول عربی آخری نبیﷺ ہیں اور خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت زمین پر اُتر کر انہیں کے دین کی پیروی کریں گے تو پھر دین تو انہیں محمد عربی ﷺ کا آخری دین اور سچا دین ہے۔ علاوہ اس کے یہ اس بات پر بھی غوروفکر کرتے تھے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام خداوند قدوس کے بیٹے ہیں تو پھر ان کا باپ جو تمام جہانوں کے مالک ہے۔ اتنا بے بس ہوگیا کہ اس نے اپنے بیٹے کو مغلوب کرادیا، اور پھر اگر وہ خدا باپ ہے تو وہ وحدہٗ لاشریک کیسے ہے، اور ادب اپنے بجائے خدایا اللہ کے (معاذ اللہ) وہ تو خود انسان ہوگیا، اور یہ ناممکن ہے لہٰذا حضرت مسیح خدا کے فرزند نہیں، وہ خدا کے بندے اور نبی ورسول ہیں۔ محمد احسن رضوی دنیا کے تمام ممالک کے سیاسی، سماجی نظام پر بھی غور کرتے تھے کہ قانون اور ہر اصول لوگوں نے نبی وضع کر رکھے ہیں لوگ جو مسلمانوں کےقرآن اور حدیث کے اصول ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اسے صحیح معنوں میں اسلامی طریقے سے برتتے نہیں اور اس پر کسی نے کیونزم کی چھاپ لگارکھی ہے کسی نے سو شلزم کی اور کسی نے اپنی نظریاتی تھیوری کا لیبل لگا رکھا ہے۔ گویا نظری تقاضوں کو جو مذہب یا جو اصول پورا کرتا ہے وہ اسلام ہی ہے یہ بات اور ہے کہ اس زمانہ کے مسلمان خود اپنے اصول سے ہٹ گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود آج بھی دیگر قوموں کے مقابلہ میں مسلمانوں میں ٪25 فیصدر برائی کم ہے۔ محمد احسن رضوی نے یہ بھی بتایا کہ دنیا کے دیگر مذاہب برائی سے بچنے کو ضرور منع کرتے ہیں۔ لیکن برائی سے بچانے کا ان کے یہاں کوئی نسخہ یا علاج نہیں ہے اور اگر یہ علاج کہیں ہے تو صرف مذہب اسلام میں، انہیں تمام باتوں کو سوچ کر قرآن مقدس کے مطالعہ نے جو ہر قوم اور ہر فرو کے لیے ہدایت ہے اس لیے یہ مسلمان ہوگئے، محمد احسن رضوی خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ بغیر کسی لالچ یا دنیوی فائدہ کے یہ مسلمان ہوئےہیں۔ اور اس عالم میں جبکہ چرچ کے بینک میں ان کا بیس ہزار روپیہ جمع ہے، جسے اب چرچ کے ذمہ داران محمد احسن رضوی کو دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ اور انہیں طرح طرح کے لالچ دے رہے ہیں۔ لیکن ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آرہی ہے۔ )ماہنامہ سنی دنیا بریلی ص 37، 38جون 1986ء شوال المکرم 1406ھ شمارہ 43جلد 4مضمون ادیب شہیر عبد النعیم عزیزی بلرام پوری۔( جناب محمد احسن رضوی کی اہلیہ اور دو لڑکے ایک لڑکی بھی 1986ء کو مسلمان ہوئیں۔ اہلیہ کا سابقہ نام سریندار مسیح تھا۔ اب نام مریم خاتون ہے۔ لڑکوں کے سابقہ نام پیٹر عمر 9سال اور موسس عمر ساڑے4 سال، اسلامی نام کنیز فاطمہ ہے۔ ان کی خوش نصیبی ہے کہ جانشین مفتی اعظم کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے اور داخل سلسلہ بھی فرمایا۔ ایک لڑکی جو اہل ہنود سے تعلق رکھتی تھی جسکی عمر تقریباً بیس یا بائیس سال کی تھی۔ اس نے از خود بریلی شریف آکر 27؍صفر المظفر بروز جمعہ 29؍ ستمبر 1410ھ؍ 1989ء کو جانشین مفتی اعظم کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہوئی۔ اور جانشین مفتی اعظم نے اسے داخل سلسلہ بھی فرمایا۔ یہ معلوم کرنے پر اس نے بتایا کہ میں خود بخود اسلام کےپاکیزہ مذہب ہونے کی وجہ سے اسلام لائی ہوں، کسی نے مجھے بہیکا یا نہیں ہے۔ قبل اسلام اس کا نام عستے تھا، جانشین مفتی اعظم نے اس کا نام کنیز فاطمہ رکھا۔ )بروایت چچا غلام رسول رضوی رام پوری ثم بریلوی۔( رائے بریلی کا رہنے والا شادی شدہ گوالہ ہندو اس نے جماد الاول 1409ھ؍1989ء کو جانشین مفتی اعظم کے ہاتھ پر شرف اسلام سے مشرف ہوا۔ اس نے اسلام لانے کا سبب یہ بتایا کہ اس کے باپ کا انتقال ہوگیا تھا۔ اور اس کے دھرم میں یہ ہے کہ جو سب سے چھوٹا بیٹا ہوگا یا سب سے بڑا بیٹا ہوگا وہ اپنے باپ کی نعش کو جلائے گا اور یہ بھی ہے کہ اپنے باپ کی نعش پر بانس سے مارے گا۔ اس لڑکے نے ایک بانس سر پر مارا اور خیال کیا کہ یہ میرا مذہب غلط ہے اور مسلمانوں کا مذہب صحیح ہے اور اس نے رات کو خواب میں دیکھا کہ ہم ایک بڑی مسجد میں بیٹھے ہیں اور اس مسجد میں ایک ضعیف حسین خوبصورت چہرے والے تشریف فرما ہیں، اور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ بیٹا کلمہ پڑھ میں نے کلمہ پڑھ لیا۔ وہ جب بریلی آیا تو اس نے جانشین مفتی اعظم کو دیکھا فوراً چیخ پڑا کہ اپنے مالک کی قسم فلاں مسجد میں میں خواب میں انہیں بزرگ کو دیکھا تھا اور انہوں نے ہی مجھے کلمہ پڑھایا تھا۔ وہ لڑکا فوراً جانشین مفتی اعظم کے دستِ پاک پر کلمہ شریف پڑھ لیتا ہے اور داخل سلسلہ ہوجاتا ہے۔ اس کا نام جانشین مفتی اعظم نے عبداللہ رکھا۔ )بروایت مولوی فیض اللہ رضوی بنگالی مقیم حال بریلی شریف۔( ایک سکھ فرید پور ضلع بریلی شریف کا رہنے والا تھا۔ اس نے جولائی 1989ء؍1410ھ جانشین مفتی اعظم کے ہاتھ پر شرف اسلام قبول کیا۔ اس نے اپنے اسلام قبول کرنے کی وجہ بتائی کہ دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے۔ جس میں مساوات واخوت کا درس دیا جاتا ہے۔ جب میں نے اپنے دھرم اور مذہب اسلام کا تقابلی جائزہ لیا تو مجھے مذہب اسلام نفیس اور پسندیدہ لگا اور مشرف باسلام ہوگیا۔ جانشین مفتی اعظم نے داخل سلسلہ فرماکر اس کا نام محمد مسلم رکھا۔ )بروایت مولوی شکیل احمد خاں رضوی بریلوی 1409ھ؍1989ء 13رضوی غفرلہ( تبلیغی وتعلیمی اداروں کی سر پرستی: ہندوستان سے باہر بھی ممالک میں درجنوں تبلیغی اور تعلیمی ادارے جانشین مفتی اعظم کی سرپرستی میں رات و دن مصروف عمل ہیں۔ غیر ممالک اداروں میں سے زیادہ تر کے نام نا معلوم ہوسکے۔ ہندوستان میں جن اداروں کی سرپرستی جانشین مفتی اعظم کرتے ہیں اس کی ایک طویل فہرست ہے۔ جس میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:۔ مرکزی دار الافتاء سودا گران بریلی شریف ماہنامہ سنی دنیا مکتبہ سنی دنیا بریلی شریف اختر رضا لائبریری صدر بازار چھاؤنی لاہور (پاکستان) مرکزی در الافتاء ڈین ہاگ ہالینڈ جامعہ مدینۃ الاسلام ڈین ہاگ ہالینڈ الجامعۃ الاسلامیہ گنج قدیم رام پور الجامعۃ النوریہ عینی قیصر گنج ضلع بہرائچ الجامعۃ الرضویہ و ماہنامہ نور مصطفیٰ مدرسہ عربیہ غوثیہ حبیبہ برہان پور، ایم۔ پی مدرسہ اہلسنت گلشن رضا بکارو اسٹیل دھنباد بہار مدرسہ غوثیہ جشن رضا پٹیلا گجرات دار العلوم قریشیہ رضویہ آسام مدرسہ رضاء العلوم گھوگاری محلہ بمبئی۳ مدرسہ تنظیم المسلمین بائسی پورنیہ بہار نیز آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء بمبئی کا صدر 1970ء میں بنایا گیا، اور ابتداء سے تادم تحریرمشہور و معروف اشاعتی ادارہ رضا اکیڈمی بمبئی کی سر پرستی بھی کر رہے ہیں۔ حضرت علامہ ارشد القادری کی تھری پر 22؍جولائی 1985ء؍1405ھ کو اشرفیہ مصباح العلومہ مبارک پور اعطم گڑھ میں اکابر اہلسنت کا دینی وعلمی اجتماع ہوا۔ افتتاحی تقریر علامہ ارشد القادری کی ہوئی کافی دیر تک بحث و تمحیض کے بعد جانشین مفتی اعظم کی قیادت میں سارے ملک سے فقہی مسائل اور علوم شریعہ میں رسوک رکھنے والے مفتیان کرام پر مشتمل شرعی بورڈ کی تشکیل عمل میں لائی گئی اور جانشین مفتی اعظم کو اس کا صدر منتخب کیا گیا۔ دسمبر 1986ء؍1406ھ کو مسلم پرسنل لارکو نسل کی ادارۂ شرعیہ اتر پردیش رائے بریلی میں تشکیل ہوئی۔ آپ کو بحیثیت صدر مفتی پیش کیا گیا۔ حجاز کا نفرنس لندن :ورلڈ اسلام مشن لندن کے زیر اہتمام ہونے والی حجاز کانفرنس میں جانشین مفتی اعظم اور علامہ ارشد القادری شرکت کے لیے 21؍ اپریل 1985ء؍1405ھ کو بذریعہ طیارہ لندن تشریف لے گئے۔ 5؍مئی کانفرنس کا انعقاد ہوا اور اس میں جانشین مفتی اعظم نے خطاب بھی فرمایا۔ تقریر بی بی۔ سی لندن سے نشر ہوئی۔ حجاز کانفرنس میں شرکت کے بعد عمرہ کےلیے حرمی شریفین تشریف لے گئے اور واپسی یکم جون 1985ء؍1405ھ کو بریلی شریف ہوئی۔ یاد رہے کہ حجاز کانفرنس کی صدارت آپ ہی نے فرمائی۔ ہمدرد سنیت، ناشر مسلک اعلیٰ حضرت، عالی مرتبت محمد سعید نوری سکریٹری رضا اکیڈمی بمبئی،3کی تحریک پر 25صفر المظفر 1410ھ؍1989ء کو رضا اکیڈمی کے زیر اہتمام ریحان ملت مولانا ریحان رضا قادری بریلوی کے دولت کدے پر ہندوستان کےمایۂ ناز علماء ومشائخ اور صحافیوں کی موجودگی میں امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہٗ کی قائم کردہ جماعتی رضائے مصطفیٰ کی شکیل نو ہوئی۔ اس کے صدر حضرت مولانا توصیف رضا بریلوی منتخب ہوئے اور سرپرستی تاج الشریعہ کے سپرد کی گئی۔ اس میں تجاویز بھی پاس کی گئیں اور ایک تجویز یہ تھی کہ تمام ہم مسلک اشاعتی وتبلیغی اداروں کا باہم رابطہ ہو اور وہ سارے روابط جماعت رضائے مصطفیٰ کے تحت ہوں۔ بحمدہٖ تعایٰ رضا اکیڈمی نے اس کام میں ایک اہم رول ادا کیا ہے اور روابط کے سلسلہ میں کوشاں ہے۔ ربیع الاول 1410ھ میں ایک تحریک چلائی کہ منتشر جماعتیں ایک سو ہوکر کام کریں تاکہ اجتماعیت اور بڑھتی جائے۔ اس میں بھی کامیابی حاصل ہوئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ رضا اکیڈمی کی خدماتِ جمیلہ کو قبول فرمائے اور مزید خلافت انجام دینے کی توفیق رفیق بخشے، اور اس کے ارکان کے بازوؤں کو مضبوط کرے۔ آمین۔ ثم آمین۔ حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کی سرپرستی میں رضوی دارالعلوم مظہر اسلام کے نام سے مسجد اسٹیشن بریلی میں ایک مدرسہ قائم کیا گیا ۔ جس کی ایک مجلس عاملہ تشکیل دی گئی اور ساتھ ہی ساتھ ایک طویل اتحادی معاہدہ بھی طے ہوا۔ یہ بات یاد رہے کہ اس سے قبل مفتی اعظم قدس سرہٗ نے تحریری صورت میں تاج الشریعہ کو مظہر اسلام کا صدر بناچکےتھےاس میں8، معاہدہے ہیں اور پانچویں معاہدے میں مفتی اعظم قدس سرہٗ کی تحریر کی توثیق کی گئی ہے، من وعن ملاحظہ ہو۔ رضوی دار العلوم مظہر اسلام سٹی بریلی شریف کا دستو ونظام حضرت مفتی اعظم کی تحریرات وخواہشات کے مطابق ہوگا۔ اور خاندانی دستوری کمیٹی وہ ہوگی جو معاہدے کے ساتھ منسلک ہے۔ کیونکہ حضرت (مفتی اعظم( کی تحریر کے مطابق اختر رضا خاں صاحب دار العلوم ہٰذا کے صدر ہیں۔ )یہ قلمی تحریر استاذ گرامی مولانا مفتی سید شاہد علی رضوی محدث رام پوری کے توسط سے راقم کو ملی، جن کا راقم تہہ دل سے ممنون ہے اہلِ حاجت دیکھ سکتے ہیں 12،رضوی غفرلہٗ( رضوی دارالعلوم مظہر اسلام بریلی کے سرپرست قائد اعظم مولانا ریحان رضا رحمانی بریلی منتخب ہوئے اور صدر ومتولی تاج الشریعہ کو بنایا گیا، نائب صدر مولانا سبطین رضا مولانا خالد علی خاں ناظم اعلیٰ مولانا منان رضا، نائب ناظم مولانا انجم رضا، محاسب علامہ تحسین رضا، خازن عبدالحبیب عرف انّوبھائی، نگراں ڈاکٹر قمر رضا (مدظلہم) ہوئے۔ اور مجلس عالمہ کےممبران میں خاص طور سے مولانا الحاج محمد توصیف رضا قادری قابلِ ذکر ہیں۔ تصانیف وتراجم: فقیہہ اسلام مفتی محمد اختر رضا ازہری بریلی نے اپی دیگر مصروفیات کے باجود تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ کثیر تعداد میں پروگراموں اور تبلیغیی اسفار کی وجہ سے یہ کام کم ہونے پاتا ہے ۔ فتاویٰ جو دار الافتاء میں مفتیان کرام حل نہیں کر پاتے ہیں ان کو جمع کردیا جاتا ہے اور جب باہر تبلیغی دورے پر تشریف لیجاتے تو وہ مسائل ساتھ ہوتے، ٹرین وغیرہ میں ان سوالات کے جوابات قلم بند کرتے۔ آج تاج الشریعہ دنیائے اسلام کے لیے مرجع علماء وفقہاء بنے ہوئے ہیں۔ آپ کی مندرجہ ذیل تصانیف وتراجم قابل ذکر ہیں۔ مطبوعات: ۱۔ امحق المبین (عربی) ۲۔ دفاع کنز الایمان ۳۔ ٹی۔ وی اور ویڈیو کا آپریشن ۴۔ مرات النجدیہ بجواب البریلویہ جلد اول (عربی) ۵۔ تصویروں کا شرعی حکم ۶۔ شرح حدیث نیت ۷۔ حضرت ابراہیم کے والد تاریخ یاآزر ۸۔ وفاع کنز الایمان (کتابچہ) ۹۔ ایک اہم فتویٰ ۱۰۔ تقدیم التجلی السلم غیر مطبوعات: ۱۱۔ مرآت النجدیہ بجواب البریلویہ (جلد دوم) عربی ۱۲۔ حاشیہ عصیدۃ الشہدہ شرح القصیدۃ البردہ (عربی) ۱۳۔ الحق المبین (اردو) ۱۴۔ دفاع کنز الایمان (حصہ دوم) ۱۵۔ کیا دین کی مہم پوری ہوچکی ۱۶۔ ترجمہ الزال الانقیٰ من سفینۃ الاتقی (عربی) ۱۷۔ اسمائے سورۂ فاتحہ کی وجہ تسمیہ ۱۸۔ جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم تقاریظ: ۱۔ دعائیہ کلمات برسامان بخشش، از مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی ۲۔ دعائیہ کلمات برجمال مصطفیٰ ہمارا میگیزن، منجانب طلبہ مجلس رضا الجامعۃ الاسلامیہ گنج قدیم رام پور ۳۔ تقریظ، بر مجدد اسلام بریلوی: از مولانا صابر القادری رضوی نسیم بستوی ۴۔ تقریظ، بر شرح مثنوی رد امثالیہ: از قاری غلام محی الدین رضوی شیری خطیب ہلدوانی۔ ۵۔ تقریظ بر مرشد حق: از حافظ افتخار ولی خاں رضوی پیلی بھیتی ۶۔ تقریظ بر تجلیات امام احمد رضا: قاری الحاج محمد امانت رسول نوری بریلوی پیلی بھیتی ۷۔ تقریظ بر تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ: از مولانا عبد المجتبی رضوی ۸۔ تقریظ بر اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں انصاریوں کا مقام: از قاری محمد امانت رسول پیلی بھیتی ۹۔ تقریظ بر پندرہویں صدی ہجری کے مجدد: از قاری محمد امانت رسول پیلی بھیتی ۱۰۔ تقریظ بر کاشفۃ التجوید: از قاری ابو الحماد حامد علی رضوی شاہپوری شیخ التجوید والقرأت منظر اسلام بریلی ۱۱۔ تقریظ، زیر نظر کتاب مفتی اعظم اور ان کے خلفاء از احقر محمد شہاب الدین رضوی بہرائچی (راقم) مشا ہیر وخلفاء: ۱۔ مولانا مفتی سید شاہد علی رضوی محمد الجامعۃ الاسلامیہ رام پور ۲۔ مولانا مفتی محمد حبیش برکاتی رضوی شیر نیپال ۳۔ مولانا الحاج محمد حنیف طیب رضوی وزیر تعمیرات پاکستان ۴۔ مولانا صغیر احمد رضوی جوگھن پوری ناظم اعلیٰ الجامعۃ القادریہ چھابہٹری ۵۔ مولانا محمد حسین صدیقی ابو الحقانی رضوی شیخ الحدیث فیض الغرباء آرا بہار ۶۔ قاری ابو الحماد حامد علی رجوی شاہپوری شیخ التجوید والقرأت دارالعلوم منظر اسلام بریلی ۷۔ حافظ شاہ لئیق احمد خاں جمالی رضوی سجادہ نشین آستانہ عالیہ جمالیہ رام پور ۸۔ مولانا سید عبدالعزیز رضوی قادری کولمبولنکا ۹۔ مفتی عزیز احسن رضوی بہاری سابق مفتی منظر اسلام بریلی ۱۰۔ مولانا سید شاہد علی رضوی نورانی نظام ادارہ معارف رضا اکرم رود لاہور۔ پاکستان ۱۱۔ ماہر اناؤنسریات مولانا علی احمد سیوانی رضوی، سیوان بہار ۱۲۔ علامہ مولانا مظہر حسن قادری رضوی، محلہ ناگران بد ایوں شریف ۱۳۔ مولانا عبدالمصطفیٰ رونق رضوی گونڈوی خطیب جامع مسجد امرناتھ مہار اشٹر ۱۴۔ مولانا عبدالحمید مکی رضوی مقیم کراچی (پاکستان) ۱۵۔ مولانا تطہیر احمد رضوی مدرس الجامعۃ القادریہ رچھا بہیڑی ۱۶۔ قاری علاؤ الدین رضوی اجملی ناظم اعلیٰ خلیل العلوم سنبھل مراد آباد ۱۷۔ مولانا سید آلِ رسول رضوی مہتمم مدرسہ قادریہ پاس کوڑا مدنا پور بنگال ۱۸۔ مولانا جمال احمد رضوی ۱۹۔ حافظ محمد اسلم رضوی کراچی (پاکستان) ۲۰۔ مولانا محمد رفیق رضوی مہیشوری بانی دارالعلوم محمدیہ چندر پور ۲۱۔ مولانا ڈاکٹر عبدا لجبار رضوی پلاموں بہار ۲۲۔ مداح رسول، زبیر مکی (پاکستان) )مذکورہ خلفاء کی فہرست کے حصول میں مولانا محمد شکیل بریلوی مولانا فیض اللہ بنگالی کا راقم شکر گزار ہے 12، رضوی غفرلہٗ( مشا ہیر تلامذہ: جانشین مفتی اعظم کی تدریسی زندگی میں بے شمار طلبہ نے اکتساب فیض کیا، تلامذہ کی تعداد دار العلوم منظر اسلام بریلی کے رجسٹر طلبہ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ تاہم چند تلامذہ یہ ہیں: ۱۔ علامہ مفتی سید شاہد علی رضوی محدث الجامعۃ الاسلامیہ رام پور ۲۔ علامہ مولانا انور علی رضوی بہرائچی، شیخ الادب دارالعلوم منظر اسلام بریلی ۳۔ مفتی ناظم علی رضوی بارہ بنکوی مرکزی دارالافتاء سوداگران بریلی ۴۔ مولانا کمال احمد رضوی نانپاروی ضلع بہرائچ ۵۔ مولانا جمیل احمد خاں نوری بستوی ریسرچ اسکالر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ۶۔ مولانا مظفر حسین رضوی بہری سابق مدرس جامعہ نوریہ رجویہ بریلی ۷۔ مولانا ذولفقار علی خاں نوری رام پوری، ایڈیٹر ماہنامہ ‘‘سنی دنیا’’ بریلی ۸۔ مفتی عبید الرحمٰن رضوی بہاری مدرس دارالعلوم مظہر اسلام بریلی ۹۔ مولانا وصی احمد رضوی خطیب برمنگھم ۱۰۔ مولانا سلیم الدین رضوی سمن پوری (بہار) ۱۱۔ مولانا شیر الدین رضوی مدرس مدرسہ محمدیہ سنگرا کچھ مغربی دنیاج پور بنگال ۱۲۔ مولانا مجیب الرحمان رضوی مدرس بہاء اسلام بجوں کٹیہار (بہار) ۱۳۔ مولانا سجاد عالم رضوی سمن پوری، بہار ۱۴۔ مولانا شرف عالم رجوی، سیتا مڑھی بہار ۱۵۔ مولانا صاحبزادہ عسجد رضا خاں قادری شہزادہ تاج الشریعہ مدظلہٗ ۱۶۔ مولانا عتیق الرحمٰن رضوی للوارہ ضلع رام پور ۱۷۔ محمد شہاب الدین رضوی بہرائچی (راقم السطور) نوٹ: جہان اختر کے نام سے راقم تاج الشریعہ کے مفصل حالات لکھ رہا ہے۔ خلفاء اور تلامذہ رابطہ قائم کریں۔ تاکہ ان کے حالات کتاب میں مندرج ہوسکیں۔ ۱۲، رضوی غفرلہٗ