حضرت ام المؤمنین سیدہ میمونہ
حضرت امُ المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
میمونہ دختر حارث بن حزن ہلالیہ،ہم ان کا نسب،ان کی ہمشیرہ لبابہ کے ترجمے میں لِکھ آئے ہیں جناب میمونہ ازواجِ مطہرات میں شامل تھیں،ہم ان کی بہنوں لبابتہ الکبری لِبابتہ الصغری اور اَسماء دخترانِ عمیس کا ذکر پہلے کرچکے ہیں،میمونہ کا برہ تھا،جسے حضورِاکرم نے بدل دیا تھا،کریب نے اسے ابنِ عباس سے روایت کیا ہے،جناب میمونہ کریب اور خالد بن ولید کی خالہ تھیں،حضورِ اکرم سے پہلے وہ ابورہم بن عبدالعزیٰ بن عبدود بن مالک بن حسل بن عامر بن لوئی کے پاس تھیں،ایک روایت میں سنجرہ بن ابورہم،ایک دوسری مین حویطب بن عبدالعزیٰ اورایک اور روایت میں فروہ بن عبدالعزیٰ سدی اسد بن خزیمہ کا نام مذکور ہے،یہ قتاوہ کا قول ہے۔
رسولِ کریم نے عمرہ قضا کے دوران میں ساتویں سال ہجری میں جناب میمونہ سے نکاح کیا،آپ نے حضرت جعفر کو نکاح کا پیغام دے کر ان کے پاس بھیجا،میمونہ نے کہا،عباس میرے کفیل ہیں،ان سے پوچھ لو،بلکہ ایک روایت میں یوں آیا ہے،کہ خود حضرت عباس نے آپ سے ذکر کیا ،کہ میمونہ دخترِ حارث بیوہ ہو گئی ہے،آپ نکاح کرلیں،چنانچہ حضورِ اکرم نے نکاح کرلیا۔
ابوجعفر نے باسنادہ یونس سے انہوں نے ابن اسحاق سے روایت کی،کہ حضور نبیِ کریم رحمتہً اللعالمین نے صفیہ سے نکاح کے بعد میمونہ سے نکاح کیا،جو ابورہم کی بہن تھیں۔
یونس نے جعفر بن برقان سے ،انہوں نے میمون بن مہران سے،انہوں نے یزید بن اصم سے روایت کی کہ آپ نے میمونہ سے نکاح کیا،جب آپ نے احرام کھول دیا تھا،یہ نکاح میمونہ کے ایک بالاخانہ میں ہواتھااور بعد وفات وہ اسی میں دفن ہوئی تھیں،اور یزید میمونہ کا بھتیجاتھا،ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم نے بحالت احرام نکاح کیا تھا۔
کئی راویوں نے باسنادہم محمد بن عیسیٰ سے، انہوں نے حمید بن مسعدہ سے ،انہوں نے سفیان بن حبیب سے ،انہوں نے ہشام بن حسان سے،انہوں نے عکرمہ سے،انہوں نے ابن عباس سے روایت کی کہ حضور اکرم نے میمونہ سے بحالتِ احرام نکاح کیا ۔
اسی اختلاف روایت کی بناء پر فقہا میں اختلاف ہے کہ آیا بحالت احرام نکاح جائز ہے یا نہیں،بعض فقہا کا کہنا ہے کہ جب آپ نے نکاح کیا،تو احرام نہیں تھا،جب لوگوں کو نکاح کا علم ہوا،تو آپ نے احرام باندھاہواتھا،بعد میں جب ان سے بہ مقام سرف مجامعت کی،تو احرام کھول دیا تھا۔
جب حضورعمر ے سے فارغ ہوئے تو آپ نے مکے میں تین دن قیام فرمایا،انقضائے مدت کے بعد اہل مکہ کی طرف سے سہیل بن عمرو چند آدمیوں کے ساتھ آیا،کہ آپ کی میعاد اقامت ہو گئی ہے، اس لئے آپ حسب شرائط مکے سے نکل جائیں،آپ نے فرمایا،مجھے شب زفاف کا موقع دو،پھر میں تمہیں دعوتِ ولیمہ کھلاؤں گا،سہیل نے کہا،ہمیں اس کی ضرورت نہیں،چنانچہ آپ نے مکے سے کوچ فرمایا،اور رات بہ مقام سرف بسر کی۔
ابن شہاب اور قتادہ کہتے ہیں کہ میمونہ وہی خاتون ہیں،جنہوں نے اپنا نفس حضورِ اکرم کو ہبہ کردیا تھا، لیکن صحیح روایت ہم پہلے بیان کرآئے ہیں۔
ابومنصور بن مکارم بن احمد نے باسنادہ معافی بن عمران سے،انہوں نے ہشام بن سعد سے،انہوں نے زید بن اسلم سے،انہوں نے عطاء بن یسار سے،انہوں نے میمونہ سے دربارہ ٔ پنیر دریافت کیا،انہوں نے جواب دیا،چھری سے کاٹ لو،اورخداکانام لے کرکھالو۔
جناب میمونہ کی وفات اکاون سال ہجری میں ہوئی اور ایک دوسری روایت کے مطابق تریسٹھ سال ہجری میں(سال حرہ) میں ہوئی،ابنِ عباس نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی،اور یزید بن اصم اور عبداللہ بن شداد نے جو ان کے بھانجے تھے اور عبیداللہ خولانی نے انہیں قبر میں اتارا،آخر الذکر ان کی گود میں پَل کر جواں ہوئے تھے،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔
---------------------------
والد کا نام حارث بن خرن اور والدہ کا نام ہند بنت عوف بن زبیر بن حرب ہے، ہجرت کے ساتویں سال حضور کے نکاح میں آئیں، آپ ساٹھ یا اکاسٹھ میں فوت ہوئیں، مزار پر انوار جنت البقیع میں ہے۔
چونکہ میمونہ صاحب عصمت |
|
در جناں گشت با نبی ہمدم |
(حدائق الاصفیاء)
---------------------------
ان کا نام بَرّہ تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میمونہ رکھا، [۱] [۱۔مسالک السّالکین جلدِ اوّل ۱۲] والد کا نام حارث بن خزن بن بجیر بن ھرم بن رویبہ بن عبد اللہ بن ہلال بن عامر بن صعصعہ بن معاویہ بن بکر بن ہوازن بن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس بن عیلان بن مضر بن نزار تھا، [۱] [۱۔رحمۃ للعالمین جلد دوم ۱۲] والدہ کا نام ہند بنت عوف تھا، [۱] [۱۔مسالک السّالکین جلدِ اوّل ۱۲] اِن کا پہلا نکاح مسعود بن عمرو بن عُمیر الثقفی سے ہوا اس نے طلاق دے دی تو ابو رہم بن عبد العزٰے سے نکاح کیا، [۱] [۱۔سیرۃ النبی جلد دوم ۱۲] اُس کی وفات کے بعد ماہِ ذیقعدہ ۷ ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں آئیں، ان کی مرویّات سے چھہتر (۷۶) حدیثیں ہیں،[۱] [۱۔مسالک السّالکین جلدِ اوّل ۱۲ / سیرۃ النبی جلد دوم ۱۲] انہوں نے ۵۱ھ میں وفات پائی، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی، اور مقام سرف میں مدفون ہوئیں جو مکہ معظمہ سے دس میل کے فاصلہ پر ہے۔[۱] [۱۔مسالک السّالکین جلدِ اوّل ۱۲ شرافت۔]
فائدہ: ان گیارہ بیبیوں کے علاوہ حضرت ماریہ بنت شمعون قبطیہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہ اور حضرت جمیلہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہ آپ کی کنیزیں تھیں۔[۱] [۱۔مسالک السّالکین جلدِ اوّل ۱۲]
(شریف التواریخ)
---------------------------
مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جاتے ہوئے تنعیم کے مقام سے تقریبا بارہ کلومیٹر آگے نواریہ کے مقام پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مزار پرُانوار واقع ہے۔
’’نواریہ‘‘جس کا قدیم نام ’’سَرِف‘‘ ہے۔ یہاں ام المؤمنین سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا آرام فرمارہی ہیں۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے آخری زوجہ محترمہ ہیں۔ آپ کے بعد رسول اکرم نورمجسم ہادیٔ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے نکاح نہیں فرمایا۔ سیّدہ میمونہ سلام اللہ علیھا کا نام ’’بَرّہ‘‘ تھا، مگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’میمونہ ‘‘ نام رکھا۔ ’’میمونہ‘‘ یَمَنْ سے مشتق ہے اور اس کے معنی ہیں ’’برکت‘‘اور ’’میمون‘‘ یا ’’میمونہ ‘‘ کے معنی ہیں : مبارک۔
ام المومنین سیدہ میمونہ سلام اللہ علیھا کی ولادت مقام ’’سرف‘‘ متصل مکۃ المکرمہ میں ہوئی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد(نکاح) بھی اسی مقام پر ہوا، آپ کا وصال مبارک بھی یہیں ہوا اور تدفین بھی اسی مقام پر عمل میں آئی۔
سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح مسعود بن عمرو بن عمیر ثقفی رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا،انہوں نے کسی وجہ سے طلاق دے دی تھی، پھر سیّدہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا نکاح ابورہم بن عبدالعزیٰ سے ہوا۔۷ ؍ ہجری میں سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوگئیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے بہنوئی تھے، چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سیّدہ میمونہ سے نکاح کے لیے ترغیب دی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ یعنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چچی حضرت لبابۃ الکبریٰ جن کی کنیت ام الفضل تھی انہوں نے اپنی ہمشیرہ سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے نکاح پر آمادہ کیا۔ جب ۷ ؍ ہجری میں سیّد المرسلین خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے وقت کا قضا کیا ہوا عمرہ ادا کرنے کے لیے مکۃ المکرمہ تشریف لائے۔ اسی موقع پر یہ نکاح منعقد ہوا۔اسی’’نواریہ یا سَرِف‘‘ کے مقام پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام احرام کی حالت میں تھے، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بھی معتمر اور مُحرِم تھے۔ عم رسول حضرت سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ بھی حالت احرام میں تھے اور آپ ہی اپنی خواہر نسبتی سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے وکیل نکاح بنے اور آپ ہی نے خطبۂ نکاح پڑھا۔
سیّدہ المؤمنین سے حضور کا نکاح ذوالقعدہ ۷ ؍ ہجری میں ہوا اور ان کا وصال ۵۱ ؍ ہجری میں بعمر ۸۰ سال اسی مقام سرف پر ہوا۔
ام المؤمنین سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ماجدہ ہند بنت عوف کو سسرال کے لحاظ سے ’’اکرم الناس‘‘ کہا جاتا ہے۔ ابن قتیبہ نے ’’معارف‘‘ میں لکھا ہے کہ پوری روئے زمین میں ہند بنت عوف سے زیادہ کوئی عورت اپنے دامادوں کے لحاظ سے بزرگ اور خوش قسمت نہیں ہے۔
۱۔ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دامادہیں۔
۲۔ سیّد الشہداء حضرت سیّدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما داماد ہیں۔
۳۔ سیّدنا حضرت عباس رضی اللہ عنہ داماد ہیں۔
۴۔ سیّدنا حضرت جعفر طیّار رضی اللہ عنہ داماد ہیں۔
۵۔ سیّدنا حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ داماد ہیں۔
۶۔ حضرت سیّدنا شدّاد ابن الہادرضی اللہ عنہ داماد ہیں۔
یہ حضرت شدّاد رضی اللہ عنہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے حضور کے اس طویل سجدے کو ملاحظہ کیا تھا۔ جس میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہاپنے نانا جان کی پشت پر دوران سجدہ بیٹھ گئے تھے۔
ھند بنت عوف کی دوسری خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کی دوبیٹیاں یکے بعد دیگرے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے عقد میں رہیں۔
ام المؤمنین سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے ۷۶ ؍ احادیث مروی ہیں۔