حضرت ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ+

حضرت ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

ان کا نام ہند تھا۔ والد کا نام امیہ سہیل بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمرو بن مخزوم بن لقیظہ بن مُرہ بن کعب تھا۔ والدہ ماجدہ کا نام عاتکہ بنت عبد المطلب تھا، یعنی حضور علیہ الصلوٰٰۃ والسلام کی پھوپھی زاد تھیں، پہلے ابو سلمہ عبد اللہ بن عبد الاسد کے نکاح میں تھیں، ان سے عمرو، سلمہ، زینب، دَرّہ پیدا ہوئے، جب ابو سلمہ غزوۂ اُحد میں مجروح ہوکر فوت ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہِ شوال ۴ھ میں ان سے نکاح کیا، کتبِ حدیث میں ان کی مرویات تین سو چوہتر (۳۷۴) ہیں، انہوں نے شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام کے بعد ۶۲ھ میں بعمر چوراسی (۸۴) سال انتقال فرمایا، نمازِ جنازہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی، جنّت البقیع میں مدفون ہوئیں۔

(شریف التواریخ)

نام نامی ہند ابی امیہ تھا، ماہ شوال ۴ھ میں حضور کے نکاح میں آئیں، آپ کا مہر دس درہم رکھا گیا حضور کے ازواج مطہرات میں سے سب سے آخرین آپ کی وفات ہوئی تھی، آپ سوم ربیع الاوّل ۶۳ھ یا ۶۶ھ میں فوت ہوئیں، حضرت ابوہریرہ نے نماز جنازہ پڑھائی، وصال کے وقت آپ کی عمر ۸۴ سال تھی، جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔

اُم سلمہ ولیہ مقبول
ارتحالش زمہد یہ جستم

زوج پاک نبی ہر دو جہاں
نیز محبوبہ آمد ست عیاں

(حدائق الاصفیاء)

 

ام سلمہ دختر ابوامیہ بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم قرشیہ مخزومیہ،جو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ تھیں،ان کا نام ہند تھا،اور ان کے والد کا عرف زادالرکب تھا،اور حضورِ اکرم سے پہلے وہ ابو سلمہ بن عبدالاسد کی زوجیت میں تھیں،وہاں ان کے بطن سے سلمہ ،عمر،درہ اور زینب پیدا ہوئیں،جب ام سلمہ فوت ہوگئے،تو حضور نے ان سے نکاح کرلیا،انہوں نے حبشہ اور مدینہ کو ہجرت کی۔

ابوجعفر نے باسنادہ یونس سے،انہوں نے ابن اسحاق سے،انہوں نے اپنے والد اسحاق بن یسار سے، انہوں نے سلمہ بن عبداللہ بن عمر بن ابوسلمہ سے،انہوں نے اپنی دادی ام سلمہ سے روایت کی کہ جب ابوسلمہ نے ہجرت مدینہ کی تیاری کی،تو اپنے لئے ایک اُونٹ کا بندوبست کیا،اور مجھے اور میرے بیٹے سلمہ کو اس پر سوار کر کے مہار پکڑلی اور مدینے کو نکل کھڑاہوا،جب اسے میرے قبیلے کے لوگوں نے دیکھا،تو انہوں نے اسے روکا،یہ تیری خواہش ہے،جس نے تجھے ہجرت پر مجبور کیا ہے، رہا معاملہ تیری زوجہ کا،وہ کیوں گھر کو چھوڑے اور تو اسے شہروں میں لئے پھرے،اس پر انہوں نے اُونٹ کی مہار اس کے ہاتھ سے چھین لی اور مجھے پکڑ لیا،اس صورتِ حال سے بنوعبدالاسد بپھر گئے، اور سلمہ کا رُخ کیا،اور کہنے لگے کہ ہم اپنے بیٹے کو اس کی ماں کے پاس نہیں رہنے دیں گے،جب تم نے اس کی بیوی کو شوہر سے چھین لیا ہے،چنانچہ ابو سلمہ کے اہل قبیلہ نے میرے بیٹے سلمہ کا ہاتھ پکڑ لیا،اور اسے اپنے ساتھ لے گئے،مجھے میرے قبیلے والوں نے قابو کرلیا،اور میراشوہر ابو سلمہ مجھے چھوڑ کر خود مدینے چلا گیا،اور اسی طرح ہم تینوں ایک دوسرے سے جُدا ہوگئے۔

اب میری یہ حالت تھی کہ میں روزانہ صبح اُٹھ کر ابطح کے مقام پر آجاتی اور شام تک وہاں بیٹھی روتی رہتی، کم و بیش ایک سال اسی حالت میں گزر گیا،تا آنکہ ایک دن ایک شخص جس کا تعلق میرے بنوعم(بنومغیرہ )سے تھا،وہاں سے گزرا،اور اسے میری حالت پر رحم آگیا،اس نے میرے قبیلے سے کہا،کیاتم اس بے بس عورت کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہو تم نے اسے خاوند اور بیٹے ہر دو سے جدا کردیا، چنانچہ میر اہلِ قبیلہ نے اجازت دے دی،اور کہا کہ اگر تم چاہتی ہو،تو اپنے شوہر کے پاس جا سکتی ہو،اسی دوران میں بنوعبدالاسد نے میرا بیٹابھی مجھے لوٹادیا،میں نے اونٹ کا بندوبست کیا،بیٹے کو گود میں لیا،اور اپنے شوہر کے تعاقب میں چل دی،میں بالکل اکیلی تھی اور کوئی رفیق سفر نہ تھا،میں نے دل میں کہا،خدا کرے مجھے کوئی رفیق سفر مل جائے،تاآنکہ اپنے شوہر تک پہنچ جاؤں۔

جب میں تنعیم میں پہنچی،تو اتفاق سے میر ی ملاقات عثمان بن طلحہ سے ہوگئی،جو بنو عبدالدار کا بھائی تھا،انہوں نے کہا،اے ابوامیہ کی بیٹی کہاں جارہی ہو،میں نے کہا ،اپنے شوہر کے پاس مدینے جا رہی ہوں،پوچھا ،کیاتمہارا کو ئی رفیق ِسفر ہے میں نے کہا،سوائے اللہ اوراس بچے کے اور کوئی نہیں، کہا، پھر تو تمہاری کوئی منزل نہیں،اس نے اونٹ کی مہا ر پکڑلی،اورمجھے لے کر روانہ ہو پڑا،بخدا میں نے عرب بھر میں ایسا شریف النفس کو ئی انسان نہیں دیکھا تھا،جب منزل پر پہنچتا،تو اونٹ کو بٹھاتا اور خود ایک طرف ہوکر درخت کے نیچے جا کر لیٹ جاتا،پھر جب کوچ کا وقت آتا تو اُونٹ کے پاس آکر کجاوہ رکھتا،ہٹ کر ایک طرف کو کھڑاہوجاتااور مجھے کہتا،کہ سوار ہوجاؤ،جب میں سوار ہوچکتی اور اُونٹ پر جم کربیٹھ جاتی،عثمان بن طلحہ آتا،اونٹ کی مہا پکڑکر چل پڑتا،اور جب منزل آتی ٹھہر جاتا، وہ اسی طریقے سے چلتا آیا،تا آنکہ ہم مدینے پہنچ گئے،جب قبا میں اس نے عمروبن عوف کی بستی دیکھی ،تو کہنے لگا،تیرا خاوند یہیں ٹھہرا ہوگا،اور فی الواقع ابوسلمہ وہیں ٹھہراہوا تھا،چنانچہ خدا کا نام لے کر میں اس بستی میں اُتر پڑی اور عثمان بن طلحہ وہاں سے مکے کولوٹ گیا،وہ اکثرکہا کرتا،کہ میں نے کوئی ایسا خاندان نہیں دیکھا،جس قبولِ اسلام کے بعد اتنی تکالیف پیش آئی ہوں،جتنی کہ ابو سلمہ کے خاندان کو پیش آئیں اور خود میں نے بھی عثمان بن طلحہ جیسا کریم النفس رفیقِ سفر نہیں دیکھا،ایک روایت کے مطابق ام سلمہ وہ پہلی خاتون ہیں جو ہجرت کر کے مدینے آئیں،واللہ اعلم، اور ابوسلمہ کے بعد حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا۔

یعیش بن صدقہ فقیہہ نے باسنادہ احمد بن شعیب سے،انہوں نے محمد بن اسماعیل بن ابراہیم سے، انہوں نے یزیدسے،انہوں نے حماد بن سلمہ سے،انہوں نے ثابت البنانی سے،انہوں نے ابنِ عمر بن ابی سلمہ سے،انہوں نے اپنے والد سے،انہوں نے ام سلمہ سے روایت کی،کہ جب ان کی عدت گزرگئی،تو ابوبکر نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا،مگر انہوں نے انکار کردیا،اس کے بعد حضورِ اکرم نے حضرت عمر کو نکاح کا پیغام دے کر بھیجا،اس کے جواب میں جناب ام سلمہ نے گزارش کی،کہ اول تو میں غیرت مند عورت ہوں،دوم یہ کہ میں صاحب ِ اولادہوں اور سوم یہ کہ میرے خاندان میں کوئی ایسا آدمی نہیں،جو میر ا وکیل یا کفیل ہو،آپ نے حضرت عمر کو کہا،کہ ام سلمہ کو میر ی طرف سے جاکر کہو کہ سوکنوں سے غیرت کے بارے میں،جناب باری میں التجا کروں گا،کہ یہ جذبہ تیرے دل سے نکال دے،اسی طرح تیری اولاد کی کفالت کروں گا اور تیرے خاندان میں کوئی شاہد و غائب نہیں تو یہ اچھی بات ہے کہ کوئی بھی تیرے معاملات میں دخل انداز نہیں ہوگا،اس پر جناب ام سلمہ نے اپنے بیٹے عمر سے کہا،اٹھو اور تم حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح کردو،چنانچہ یہ مہم اختصار سے انجام پذیر ہوئی۔

ارسلان بن یغان ابو محمد صوفی نے ابوالفضل بن طاہر بن سعید بن ابوسعید میہنی صوفی سے،انہوں نے ابوالعباس محمد بن یعقوب اصم سے،انہوں نے حسن بن مکرم سے،انہوں نے عثمان بن عمر سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار سے،انہوں نے شریک بن ابی نمر سے ،انہوں نے عطاء بن یسار سے،انہوں نے ام سلمہ سے روایت کی،کہ حضورِ اکرم میرے حجر ے میں قیام فرماتھے،کہ آیت تطہیر نازل ہوئی،(اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیَذْھَبَ عَنْکمْ الرِّ جْسَ اَھْل الْبَیْتِ) آپ نے خاتونِ جنت،حضرت علی،حضرت حسن اور حضرت حسین رضوان اللہ اجمعین کو بلوا بھیجا اور فرمایا،یہ میرے اہل بیت ہیں،جناب ام سلمہ نے کہا یا رسول اللہ! کیا میں اہل بیت میں شامل نہیں ہوں، آپ نے فرمایا،انشاءاللہ ضرور شامل ہو،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔

تجویزوآراء