جامع ظاہر و باطن حضرت علامہ غلام نبی للہی
جامع ظاہر و باطن حضرت علامہ غلام نبی للہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
جامع ظاہر و باطن حضرت مولانا غلام نبی للّٰہی ابن حضرت مولاقنا قاضی غلا حسین ۱۲۳۴ھ؍۹۔۱۸۱۸ء میں للہ شریف ضلع جہلم میں پیدا ہوئے۔صرف نحو کی کتب کے علاوہمیر قطبی ، شرح وقایہ اور خیالی وغیرہ اپنے والد ماجد اور بعض دیگر علماء سے پڑھیں، بعد ازاں علامۃ العصر حضرت مولانا محمد احسن المعروف بہ حافظ دراز رحمہ اللہ تعالیٰ سے پشاور میں تحصیل و تکمیل کی اور وطن واپس آکر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا ۔ اسی دوران اچانک شوق الٰہی کا ایسا غلبہ ہواکہ آپ مرشدع کی تلاش میں گھر سے چل کھڑے ہوئے ۔ اتفاقاً شاہ پور میں حضرت مولانا خواجہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری تشریف فرماتھے،استخارہ کے بعد ان کے دست اقدس پر بیعت ہو گئے ۔ حضرت خواجہ قصوری نے توجہ فرما کر مختصر سے عرصہ میں مقامات مجددیہ طے کرادئے اور خلعت خلافت سے سر فراز فرمایا ،اثناء سلوک میں آپ نے چھ ماہ میں قرآن مجید حفظ کر کے تراویح میں سنادیا[1]
حضرت خواجہ قصوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے وصال کے بعد آپ نے للہ شریف میں خلق خد اکی اصلاح و ہدایت اور علم ظاہری و باطنی کی اشات شروع کی۔ آپ کی کی خدمت میں ۷۰،۸۰ طلبہ حاضر رہا کرتے تھے، آپ مبتدی اور منتہی طلبہ کو یکساں توجہ والتفات پڑھاتے تھے جو کتاب بھی زیر درسن ہوتی اس کے شروح بھی سامنے رکھ لیتے اور انہیں ملاحظہ فرماتے جاتے تھے حتی کہ سکندر نامہ اور زلیخا کیشرح بھی سامنے رکھ لیا کرتے تھے ۔ طلبہ کے طعام،کتب اور دیگر ضروریا تکا آپ خود انتظام فرماتے ، پہلے طلبہ کے لئے گھر سے کھانا بھجواتے اور خود بعد میں کھایا کرتے تھے ۔ اپنے تمام اور ادو وظائف پابندی اور اطمینان سے ادا کرتے ، باقی اوقات طلبہ کو درس دینے اور مستر شیدن پر توجہ دینے میں صرف کرتے تھے[2]۔(۲)
(۲) محمد حسن نقشبندی ، مولانا : حالات مشائخ نقشبندیہ مجددیہ ص ۱۔۳۷۰
آپ کے مزاج اقدس میںکبر غرور نام کو نہا تھا ، حد درجہ منکدر المزاج تھے۔ ایک دفعہ کیس جگہ تشریف لے گئے ، لوگ استقبال کے لئے حاضر ہوئے اور پیچھے پیچھے چلنے لگے،آپنے فرمایا ایسے ہجوم پر فخر نہیں کرنا چاہئے ، اگر کوئی بند ریا یچھ والا کسی گائوں میں آنا ہے تولوگ اس کے پیچھے بھی ہوجاتے ہیں
اللہ اللہ ! بے نفسی اور فروتنی !
اللہ تعالیٰ نے آپ کو روشن ضمیری کا وہ مقام بخشا ہوا تھا کہ ایک شخص نے صاف پانی پینے کیلئے پیش کیا۔آپ نے فرمایا یہ مکدر ہے کوئی اور شخص پانی لے آئے۔ اس شخص سے وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا راستے میں میری نظر محرم عورت پر پرگئی تھی[3]اسے کہتے ہیں مومنا فراست، مشفقنہ تنبیہ اور پرداری!
تصلب اور دینداری کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آپ نے غیر مقلدوں کے بعض مسائل پر فتوے دیا۔ انہوں نے آپ خلاف مقدمہ دائر کردیا ڈپٹی اور تحصیلدار آپ کے خیر خواہ تھے،انہوں نے کوشش کی کہ فریقین میں مصالحت ہو جائے ، کہیں قید نہ ہو جائے ۔ جب آپ سے عرض کیا گیا تو آپ نے فرمایا کوئی مضائفہ نہیں بشر طیکہ دین میں فرق نہ آئے اور جو فتویٰ دیا ہیاس سے انحراف نہیںہو سکتا خواہ قید ہی کیوں نہ ہو جائے ، آخر آپ کو کامیابی ہوئی[4]
حضرت مولانا للّٰہی رحمہ اللہ تعالیٰ سے بکثرت کرامات کا ظہور ہو ا۔آپ کیسب سے بری کرامت یہ تھی کہ آپ نے سینکڑوں افاد کو اپنی باطنی تو جہات سے درجۂ کمال تک پہنچا دیا آپ کے ملفوظات دانش و حکمت کے بہترین جواہر پارے ہیں جن میںچشم حق بیںکے لئے راہنمائی کے زریں اصول پنہاں ہیں ،فرماتے ہیں :۔
٭ معرفت الٰہی نہایت نہیں ہے ، تھوڑے سے ذوق و شوق پر قانع نہیں ہونا چاہئے۔
٭ ہر گاہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’’رب زدنی علما‘‘ فرمایا تو دوسروں کا کیا ذکر ہے ؟
٭ بڑا کام یہ ہے کہ شریعت پر استقامت رکھے۔
٭ جس قدر طالب مین شکست دعا جزی زیادہ ہوتی ہے اسی قدر اس پر فیض ٍٍٍٍزیاد ہ درارد ہوتا ہے۔
٭ سالک کو چاہئے کہ نیچی نظر کر کے چلا کرے ؎
خوئے سگان اسب بہ ہر سو نگاہ
شیر سرافگندہ فوع سوئے راہ
٭ سالک کو نام مھرم کی طرف نظر کرنے سے احتیاط کرنی چاہئے ، نا محرم پر اتفاقی نظر بھی ضرور سے خالی نہیں ہوتی ؎
بہ نا محرم نظر دل راکندا کور
ز دولت خانۂ قرب افگنددور
٭ وظیفہ ’’یا شیخ عبد القادر جیلانی شیاً للہ ‘‘ دو طرح سے پڑھنے کا معمول ہے ایک یہ کہ حضرت شیخ کو وسیلہ سمجھے اور دوسرے یہ کہان کلمات میں اثر و برکت سمجھے۔
٭ بری صحبت سے استعداد باطنی خراب ہو جاتی ہے۔
٭ وہابیوں کی صحبت دیوانہ کتے کی مانند ہے کہ اپنا کر لیتی ہے[5]
٭ اصل چیز اعقتاد ہے اگر اعتقاد درس ہے تو سب چیزیں درست ہیں اور اگر اعتقاد میں فرق ہے تو سب اعمال بیکار ہیں[6]
وصال سے قبل آپ کے ارشادات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اپنے سفر آکرت سے بخوبی مطلع تھے ، ۲۹؍رمضان المبارک ، ۲۹؍مئی (۱۳۰۶ھ؍ ۱۸۸۹ء) کو حضرت صاحبزادہ میاںگل محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کا انتقال ہو گیا۔ لوگ تعززیت کے لیے حاضر ہوتے تو آ پ فرماتے کہ کیاہم یہاں بیٹھے رہیں گے؟ ہم بھی چلنے کو تیار ہیں، رنچ کس بات کا کریں! آخر بروز یکشنبہ ۲۱؍ربیع الاول شرفی ۲۵ ؍نومبر (۱۳۰۷ھ؍ ۱۸۸۹ء) مؤذن کو اذان کہنے کا حکم دیا، آپ اذان کا جواب دیتے رہے،جب مؤذن نے کہا’’اشہد ان لا الہ الا اللہ ‘ ‘ اس وقت آپ کی روح قس عنصری سے پرواز کر گئی[7]
آپ نے متعدد حضرات کو خلافت و اجازت سے نوزا، چند اسماء یہ ہیں:۔
۱۔ حضرت مولانا حافظ دوست محمد ، فرزند اجمند (م۱۳۱۸ھ)
۲۔ مولانا حافظ فضل محمد۔
۳۔ مولانا غلام حسن (ساکن ڈھڈیاں)
۴۔ مولانا امام الدین (ساکن جموں) وغیر ہم رحمہم اللہ تعالیٰ
ان دنوں حضرت صاحبزادہ مطلوب الرسول مدظلہ،دربار عالیہ للہ شرف کے سجادہ نشین ہیں، اپنے آباء واجداد کے طریق پر قائم ،پاکیزہ خصائل اور اخلاق حمیدہ کے مالک ہیں ۔حضرت خواجہ غلام نبی للّٰہی قدس سرہ کے مرید صادق مولانا محمد حسن نقشبندی (ساکن کوٹلہ کیرت پور ۔ بجنور ) مؤلف ھالات مشائخ نقشبندیہ مجددیہ (مطبوعہ اللہ والے کی قومی دکان،لاہور ) نے یکم محرم سے ۱۵؍رجب (۱۳۰۰ھ) تک کے ملفوظات مرتب کئے ہیں جو شائع ہو چکے ہیں۔
[1] شبیر احمد، سید : انوار محی الدین ، ص۲۔ ۲۳۱
[2] محمد حسن نقشبندی ، مولانا : حالات مشائخ نقشبندیہ مجددیہ ص ۱۔۳۷۳
[3] ایضاً : ص ۳۷۳
[4] ایضاً : ص ۳۷۴
[5] محمد حسن نقشبندی ، مولانا : حالات مشائخ نقشبندیہ مجددیہ ص ۲۔۳۸۰
[6] محمد حسن نقشبندی ، مولانا :ملفوظات حضرت غلام نبی صاحب ، ص ۸۔
[7] محمد حسن نقشبندی ، مولانا : حالات مشائخ نقشبندیہ مجددیہ ص ۵۔۳۸۴
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)