ابوسفیان صخربن حرب
ابوسفیان صخربن حرب رضی اللہ عنہ
ابوسفیان صخربن حرب بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف قرشی اموی،یزید اورمعاویہ کے والد تھے سالِ فِیل سے دس برس پیشترپیداہوئے،سردارانِ قریش سے تھےاورتجارت پیشہ تھے،ہر سال قریش کا مال تجارت لے کر شام اور قرب وجوار کے ممالک میں جاتے تھے،اورسردارانِ قریش کاجھنڈاعقاب ان کی تحویل میں تھا،جب بھی جنگ کی تیاری ہوتی،توقریش اکٹھے ہوتے،اورعَلم سردار لشکرکے ہاتھ میں دے دیتے،قریش میں تین آدمیوں (عتبہ،ابوجہل اورابوسفیان)کوصاحب الرائے سمجھاجاتاتھا،لیکن جب اسلام آیاتوصاحب الرائے ابوسفیان نے پیٹھ پھیرلی،اوریہی سردارد تھا،جواحد کے معرکے میں تمام قریش کو اپنے ساتھ کھینچ لایا(حالانکہ اس سے پیشتر سوائے معرکۂ ذات نکیف،جوبنوکنانہ کے خلاف لڑاگیاتھا)اورجس کی قیادت عبدالمطلب نے کی تھی،قریش کبھی فردواحد کی کمان کے تحت نہیں لڑے تھے،یہ ابواحمد عسکری کا قول ہے۔
ابوسفیان،حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دوست تھے،اور فتح مکہ کی رات کو ایمان لائے تھے،غزوۂ حنین میں موجودتھے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان اور ان کے دوبیٹوں یزیداورمعاویہ کوایک ایک سواونٹ اور چالیس چالیس اوقیہ چاندی عطافرمائی تھی،نیزطائف کے محاصرے میں بھی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجودتھے،اس موقعہ پر ان کی ایک آنکھ اندھی ہوگئی تھی اوردوسری جنگ یرموک میں اندھی ہوگئی تھی جس کی کمان،ان کے بیٹے یزید کے ہاتھ میں تھی،وہ اس جنگ میں مصروف پیکارتھے اورزورزورسے کہہ رہے تھے،اے اللہ کی مدد ہمارے قریب آ، ہمارے قریب آ،سواروں کے بڑے بڑے جتھوں کے سامنے کھڑے ہوکرانہیں اُکساتے اور کہتے، اللہ اللہ تم عرب ہو،اوراسلام کے مددگارہو،اورتمہارے دشمن رومی ہیں اور کفر کے مددگارہیں، اے اللہ،آج کا دن تیرے دنوں میں سے ہے،اے اللہ تو اپنے بندوں پر اپنی فتح نازل فرما۔
مروی ہے،کہ جب ابوسفیان ایمان لائے اورمسلمانوں کے بڑے بڑےہجوم دیکھے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگےکہ تمہارابھتیجا عظیم بادشاہ بن گیا ہے،حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا،یہ بادشاہی نہیں بلکہ نبوت ہے،ابوسفیان نے کہاپھرتواس کے کیا کہنے۔
ابنِ زبیر سے مروی ہے،کہ معرکۂ یرموک میں جب ابوسفیان رومیوں کودیکھتے توکہتے،اے رومیو! بس کرو،اورجب مسلمان سامنے آتے توکہتے:
"یہ زرد رنگ والے،روم کے حاکم ہیں،ان کا نام بھی باقی نہیں رہے گا"،اس طرح کی اور کئی باتیں ان سے مذکورہیں،لیکن بلاثبوت،چونکہ یرموک کی جنگ میں ان کی دوسری آنکھ بھی ضائع ہوگئی تھی،اگروہ دشمن سے دور ہوتے توان کی آنکھ نہ ضائع ہوتی۔
وہ موثقہ القلوب میں سے تھے،لیکن اسلام کی خوب خدمت کی اورخلافت عثمان کے دوران۳۱یا ۳۲یا۳۳یا۳۴ہجری میں فوت ہوئے،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی،اور ایک روایت میں ہے،کہ امیرمعاویہ نے پڑھائی ان کی عمر۸۸ برس،یا۹۳برس یا کم وبیش تھی، ابوعمر، ابونعیم اورابوموسیٰ نے ان کا ذکرکیا ہے۔