حضرت ابو عبدالرحمٰن حاتم اصم

حضرت حاتم اصم کا تقویٰ
حضرت سیدنا حاتم اصم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ایک شخص نے دعوتِ طعام دی لیکن آپ نے انکار فرمادیا ۔ جب اس شخص نے بے حد اصرار کیا تو فرمایا ،""اگر تمہیں میری تین شرطیں قبول ہوں توآؤں گا ۔پہلی : میں جہاں چاہوں گا بیٹھوں گا،۔۔۔۔۔۔دوسری : جو چاہوں گا کھاؤں گا،۔۔۔۔۔۔تیسری : جو میں کہوں گا وہ تمہیں کرنا ہوگا ۔""اس مالدار نے یہ تینوں شرائط منظور کر لیں ۔ دعوت والے دن اس نے پرتکلف کھانے کا اہتمام کیا ۔ اللہ کے ولی کی زیارت کے لئے بہت سے لوگ بھی جمع ہوگئے ۔ وقتِ مقررہ پر حضرتِ سیدنا حاتم اصم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی تشریف لے آئے اور آتے ہی جوتے اتارنے کی جگہ پر بیٹھ گئے ۔ میزبان چونکہ یہ شرط مان چکا تھا کہ"" حضرت جہاں چاہیں گے بیٹھیں گے، ""لہذا بے بس ہو کر رہ گیا ۔ کچھ دیر بعد کھانا شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تو لوگوں نے طرح طرح کے لذیذ کھانوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا لیکن اللہ عزوجل کے ولی نے اپنی جھولی میں ہاتھ ڈال کر سوکھی روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اورتناول فرمانے لگے ۔ میزبان اس مقام پر بھی کچھ نہ کر سکا ۔

جب کھانے کا سلسلہ اختتام کو پہنچا تو آپ نے میزبان سے فرمایا ،""دہکتی ہوئی انگیٹھی (یعنی چولہا)لاؤ اور اس پر ایک توا رکھو۔"" آپ کے حکم کی تعمیل کی گئی ۔ جب وہ توا آگ کی تپش سے سرخ ہو گیا تو آپ اس پر ننگے پاؤں کھڑے ہوگئے اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ،""میں نے آج ایک سوکھی روٹی کھائی ہے۔"" اورتوے سے نیچے تشریف لے آئے ۔پھر حاضرین سے فرمایا،"" (تیسری شرط کے مطابق )اب آپ حضرات باری باری اس توے پر کھڑے ہوکر اپنے کھانے کا حساب دیجئے۔ ""یہ سن کر لوگوں کی چیخیں نکل گئیں اور سب بیک زبان بول اٹھے ،""حضور! آپ تو اللہ لکے ولی ہیں اور اس گرم توے پر کھڑا ہونا آپ کی کرامت ہے ، ہم گناہ گاروں میں اتنی طاقت کہاں کہ اس پر کھڑے ہوسکیں ؟""  آپ رضي الله تعالي عنه نے دعوتِ محاسبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ،""اے لوگو! وہ وقت یاد کرو جب سورج جو آج کروڑوں میل دور ہے ،صرف سوا میل دور ہوگا ۔۔۔۔۔۔ آج اس کی پشت ہماری جانب ہے ، اس دن اس کا اگلا حصہ ہماری طرف ہوگا ۔۔۔۔۔۔ زمین تانبے کی ہوگی ۔۔۔۔۔۔ اس دہکتی ہوئی زمین کا تصور کرو اور اس گرم توے کو دیکھو کہ یہ تو دنیا کی آگ سے گرم ہوا ہے ، اس کی تپش تو انگارے کی مانند دہکتی ہوئی تانبے کی زمین کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔""پھر آپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت کی ،"" ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْم (ترجمہ کنزالایمان: پھر بے شک ضرور اس دن تم سے نعمتوں کی پرسش(پوچھ گچھ) ہو گی ۔ (پ۳۰.التکاثر:۸) یہ سن کر لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے ۔(تذکرۃ الاولیاء ، ج۱ ، ص ۲۲۲)


متعلقہ

تجویزوآراء