حضرت شیخ ابو علی فارمدی

حضرت شیخ ابو علی فارمدی حمتہ اللہ علیہ

آپ کا نام فضل بن محمد ہے۔خراسان کے شیخ الثیوخ ہیں اپنے وقت میں یکتا تھے اور طریقت میں خاص تھے۔ وعظ نصیحت میں استاد ابو القاسم قشیری کے شاگرد تھے۔ان کی نسبت تصوف میں دو طرف ہے۔ایک تو شیخ بزرگوار ابو القاسم گرگانی طوسی کی طرف دوسری شیخ بزرگوار ابو الحسن خرقانی کی طرف جو کہ مشائخ کے پیشوا اور وقت کے قطب ہیں۔شیخ ابو علی فارمدی فرماتے ہیں کہ میں شروع جوانی میں نیشاپور میں علم کی طلب میں لگا رہتا تھا میں نے سنا کہ شیخ سعیدابو الخیر منہ سے آئے ہیں اور وعظ کہتے ہیں۔میںگیا تا کہ ان کو دیکھوں جب میری آنکھ ان کے جمال پر پڑی تو میں ان کا عاشق ہوگیا اور صوفیہ کی محبت میرے دل میں بڑھ گئی۔میں ایک روز مدرسہ میں اپنے حجرہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ شیخ کہ زیارت کی آرزو میرے دل میں پیدا ہوئی لیکن یہ ہو وقت تھا کہ شیخ باہر آئیں میں نے چاہا کہ صبر کروں لیکن صبر نہ ہو سکا۔آخر اٹھا اور باہر گیا جب چوک میں پہنچا تو شیخ کو دیکھا کہ ایک بڑے انبوہ کے ساتھ جارہے ہیں۔میں بھی بے خوف ہو کر ان کے پیچھے ہو گیا۔شیخ اپنی جگہ پرپہنچ گئے اورلوگ چل دیے میں بھی گیا اور گوشہ میں جا بیٹھا۔

چنانچہ شیخ مجھ کو نہ دیکھتے تھے جب سماع میں مشغول ہوئے تو شیخ کا وقتخوش ہوا اور وجد کی حالت ہوگئی" کپڑےپھاڑ دئے۔جب سماع سے فارغ ہوئے تو شیخ نے جامہ کواتارا اور اگلہ حصہ اس کا پھاڑنے لگے۔شیخ نے ایک آستینچاقو سے جدا کیااور رکھ دی پھر آواز دی کہ اے ابو علی طوسی تم کہا ہو۔میں نے جواب نہ دیا۔میں نے دل میں کہاکہ و ہ مجھ  کو نہ دیکھتے ہیں نہ جانتے ہیں۔شاید شیخ کے مریدوں میں سے کس کا ابو علی طوسی نام ہوگا۔شیخ نے دوبارہ پکارا پھر بھی میں نے جواب نہ دیا۔سہ بارہ پکارا لوگ کہنے لگےشاید تم کو پکارتے ہیں۔آخر میں اٹھا اور شیخ کے حضور میں گیا۔شیخ نے وہ چاقو اور آستین مجھے عنایت کیا اور فرمایا کہ تم ہم کو اس آستین اور چاقو  کی طرح ہو۔میں نے وہ جامہ لیااور نہایت عزت سے رکھ کیا۔ہمیشہ کی خدمت میں حاضرہوتا تھامجھ کو شیخ کی خدمت میں بڑے  فائدے اور روشنیاں معلوم ہوئی تھیں۔

کئی قسم کے حالات ظاہر ہوتے تھے جب شیخ نیشاپور سے چلے میں استاد ابو القاسم  قشیری کی خدمت میں آیا اور جو حال مجھ ہر ظاہر ہوتا تھاان سے کہتا تھا"وہ کہا کرتے بیٹا جاؤ۔علم سیکھنے میں مشغول رہا۔یہاں تک کہ ایک دن حجرہ سے میں نے قلم نکالا تو وہ سفید نکلا۔میں اٹھا اور استاد کی خدمت میں گیا۔یہ حال ان سے کہا استاد امام نے کہا کہ جب  علم  نےتم سے علیحدگی کی ہے تو تم بھی علم سے علیحدہ ہو جاؤ۔کام کرو اور ریاضت میں مشغول ہو۔میں گیا اور مدرسہ سے اسباب اٹھا کرخانقاہ میں لے گیا اور استاد امام کی خدمت میں مشغول ہوا۔ایک دن استاد امام تنہا حمام میں گئے ہوئے تھے۔میں اٹھا اور چند پانی کے ڈول حمام میں ان پر گرائے جب ااستاد نکلے اور نماز پڑھی تو کہا یہ کون تھا جس نے حمام میں پانی گرایا تھا۔میں نے دل میں کہا میں نے بے وقوفی کی ہے۔ اس لیے خاموش ہو رہا۔دوبارہ کہا پھر بھی جواب نہ دیا۔سہ بارہ کہا پھر میں نے کہا جناب میں تھا کہا اے ابو علی جو  کچھ کہ ابو القاسم نے ستر سال میں پایا تم نے ایک ہی ڈول میں پالیا۔

پھر ایک مدت تک مجاہد کے لیے استاد امام کی خدمت کیں بیٹھا۔ایک دن مجھ پر حالت طاری ہوئی کہ اس حالت میں گم ہوگیا۔وہ واقعہ میں نے استاد امام سے کہا۔فرمایا اے ابو علی میری دوڑ یہاں سے اوپر تک نہیں ہے۔اس سے اوپر کی راہ مجھے معلوم نہیں۔میں نے دل میں کہا کہ مجھ کو ایساپیر چاہیے تھا کہ مجھے اس مقام سے آگے لے جاتا۔وہ حالت بڑھی جاتی تھی۔میں نے شیخ ابو القاسم گرگانی کا نام سنا ہوا تھا۔طوس کی طرف متوجہ ہوا ان کی جگہ مجھے معلوم نہ تھی۔لیکن میں پہنچا تو ان کی جگہ پوچھی لوگوں نے پتہ بتایا۔میں گیا دیکھا  تو وہ اپنے مریدوں کی جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے۔میں نے پہلے دوگا نہ تحیت المسجد کا پڑھا اور ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔وہ سر نیچے کیے ہوئے تھےسر اٹھایا اور فرمانے لگے۔     

          آؤابو علی آؤ کیا حال ہے میں نے سلام کہا اور بیٹھ گیااپنے واقعات  بیان کیے شیخ ابو القاسم فرمانے لگےہاں تمہاری ابتدا مبارک ہو۔ابھی درجہ تک نہیں پہنچا لیکن اگر تربیت پاؤ تو بڑے مرتبہ تک  پہنچ جاؤگے۔میں نے دل میں کہا میرا یہ پیر ہےمیں وہیں ٹھہر گیااور بعد اس کے کہ مجھ کو طرح طرحکے مجاہدے اور ریاضتوں کے لیے فرمایا ہوا تھامجھ پر توجہ کی اور مجلس قائم کی ۔اپنےفرزند کو میرے تابع کردیا خواجہ علی فارمدی یہ بھی فرماتے ہیں پہلے اس سے کہ شیخ ابوالقاسم مجلس مقرر فرمائیں۔شیخ ابوسعید منہ سے طوس میں تشریف لائے تھے۔میں ان کی خدمت میں گیا فرمانے لگے اے ابو علی تم کو جلد طوطی کی طرح بولنا سیکھائیں گے زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ شیخ ابو القاسم نے میرے لیے مجلس مقرر کی اور(اسرار)کی باتیں مجھ پر کھل گئیں۔

(نفحاتُ الاُنس)


متعلقہ

تجویزوآراء