حضرت شہاب الدین سہروردی

حضرت شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمۃ

          امام یافعیؒ آپ کے القاب میں ایسا لکھتے ہیں،استاد زمانہ،فرید آدانہ ،مطلع الانوار،منبع الاسرار،دلیل الطریقہ ،ترجمان الحقیقت ،استاد الشیوخ،بین علم الباطن و الظاہر،قدوۃ العارفین وعمدۃ الساکین لکین العالم الربانی،شہاب الدین ابو حفص عمر بن البکری اسہروردی علیہ الرحمۃ یعنی آپ زمانہ کے فرد،انوار کے مطلع،اسرار کے سرچشمہ،طریقہ کے رہنما،حقیقت کے ترجمان،بڑے بڑے شیوخ کے استاد ،علم باطن و ظاہر کے جامع،عارفوں کے پیشوا،سالکوں میں عمدہ عالم ربانی شہاب الدین ابوحفص  عمر بن محمد بکری سہروردی خدا ان کے سر کو پاک کرے۔آپ ابو بکر حضرت صدیقؓ کی اولاد میں سے ہیں اور تصوف میں آپکا نسب اپنے چچا ابو النجیب سہروردی سے ملتا ہے اور شیخ عبدالقادر گیلانیؒ کی صحبت میں رہے ہیں۔ان کے سوا اور بہت سے مشائخ کو ملے ہیں۔کہتے ہیں،مدت تک بعض ابدال کے ساتھ عبادان کے جزیرہ میں رہے ہیں۔خضر علیہ السلام سے بھی ملے ہیں۔شیخ عبدالقادر ؒ نے آپ کو کہا ہے،انت اخر المشھورین بالعراق یعنی تم ان بزرگوں کے آخر میں ہو۔جو عراق میں مشہور ہوں گے۔آپ کی تعینات ہیں۔جیسے "عوارف"،"اشف النصائح"،"اعلام الہدی"،وغیرہ وغیرہ۔"عوارف" کو تو مکہ معظمہ میں تصنیف کیا ہے۔جب آپ پر کوئی مسئلہ مشکل ہوجاتاتو خدائے تعالی کی طرف توجہ کرتے اور بیت اللہ کا طواف تو اشکال رفع ہوتا اور حق امر ظاہر ہوتا۔اپے وقت میں بغداد کے شیخ الشیوخ تھے۔اہل طریقت چور نزدیک شہروں سے آپ سے مسائل فتوی پوچھا کرتے۔کتب الیہ بعضھم یا سیدی ان ترکت العمل اخلدت الی البطالۃ وان عملت دخلنی العجب فکتب فی جوابہ اعمل واستغفر اللہ من العجب یعنی ایک شخص نے آپ کو لکھا،اے میرے سردار اگر میں عمل چھوڑتا ہوں تو بے ہودہ پن کی طرف جاتا ہوں اور اگر عمل کرتا ہوں تو مجھ میں غرور آجاتا ہے۔اس کے جواب میں آپ نے یہ لکھا کہ عمل کر اور تکبر سے توبہ کر۔رسالہ اقبالیہ میں ہے کہ شیخ رکن الدین علاؤاالدولہ نے کہا ہے کہ لوگوں نے شیخ سعد الدین حموی سے پوچھا کہ شیخ محی الدین عربی کو تم نے کیسے پایا؟ کہا،بحر مواج لانھا یۃ یعنیایک موجزن سمندر تھے۔۔جس کی انتہانہیں۔پھر پوچھا کہ شیخ شہاب الدین سہروردی  کو کیسے پایا؟کہا،نور متابعہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی جبین السھروردی شئی اخر یعنی سہروردی کی پیشانی میں نبیﷺ کی متابعت کا نور ایک اور ہی قسم کا ہے۔آپ کی ولادت ماہ رجب ۵۳۹ء ہجری میں اور وفات ۶۳۲ء ہجری میں ہوئی ہے۔

(نفحاتُ الاُنس)


متعلقہ

تجویزوآراء