حضرت ابوسلیمان دارانی

حضرت ابوسلیمان دارانی علیہ الرحمۃ

یہ بھی پہلے طبقہ میں سے ہیں۔آپکا نام عبدالرحمٰن بن احمدبن عطیہ عنسی ہے۔بعض کہتے ہیں "عبدالرحمٰن عطیہ"شام کے قدماہ مشائخ سے ہیں اور انکے رہنے والے ہیں جو دمشق کے دیہات میں سے ایک گاؤں ہے۔آپکی قبر بھی اسے گاؤں میں ہےاور یہاحمد بن ابی الحواری کے استاد ہیں۔ریحائتہ الشام یعنی عزیزو متبرک شام ۲۱۵ ہجری میں دنیا سے رخصت ہوئے ہیں ۔ابو سلیمان سے پوچھا گیا کہ مغفرت کی حقیقت کیا ہے ۔کہایہ ہےکہ"ایک کےسوادونوں جہاں میں اور کوئی مقصود مراد نہ ہو"انہوں نے یہ بھی کہاکہ میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ حق سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا"کذب من ادعی محبتی اذا جاءہ اللیل نام عنی" یعنی وہ شخص جھوٹا ہےجو میری محبت کا دعوٰی کرتا ہے اور ج رات آتی ہے تو سوتا رہتا ہے یہ بھی انہوں نے کہا کہ جب میں عراق میں تھا تو عابد تھااور اب شام میں ہوں تو عارف ہوں ۔بعض صوفیہ کہتے ہیں کہ شام میں اس لیے عارف ہوئے کہ عراق میں عابد تھے۔اگر وہاں زیادہ عابد ہوتے تو یہاں زیادہ عارف ہوئےاور یہ بھی ابو سلیمان نے کہا" ربما ینکت الحقیقۃ فی قلبی اربعین یوما فلا اذن لھا ان تدخل قلبی الا بشاھد بن من الکتاب  و السنۃ" یعنی اکثرحقیقت کی باتیں میرے دل میں چالیس دن تک آتی رہتی ہیں لیکن میں ان کو دل میں جگہ نہیں دیتاسوائے کتاب وسنت کے دو گواہوں کے ۔ یہ بھی کہا انہوں نے کہ جوچیز تجھ کو حق سبحانہ تعالیٰ سے جدا کردے وہ منہوس ہےاور جو چیز تیری عادت کو خدا سے روک دے اور اسباب دنیوی کی طرف لگادے وہ تیری دشمن ہےاور جو تیرا سانس حق سبحانہ وتعالیٰ کی یاد سے غفلت نکلے تو وہ دراصل داغ ہے۔یہ بھی انہوں نے کہا "ادخلھم الجنان قبل ان یطیعوہ و ادخلھم النار قبل ان یعصوہ "یعنی داخل کردیا انکو جنت میں انکی اطاعت سے پہلےاور داخل کیا انکو دوزخ میں  انکے گناہوں سے پہلے۔یہ بھی کہا انہوں نے"اذا بلی القلب من الفقد ضحک والروح "یعنی جب دل مطلوب کے گم ہونے سے غمناک ہوتا ہے تو روح اس کے پالینے کی وجہ سے ہنستی ہے۔احمد بن الحواری کہتے ہیں "ابوسلیمان سے میں نے کہا کہ میں نے خلوت میں نماز پڑھی تو اس سے مجھے مزہ آیا"انہوں پوچھا کہ "لذت کا سبب کیا تھا "میں نے کہا "یہ تھا کہ مجھ کو کسی نے نہ دیکھاتھا۔"کہا!الضعیف حیث خطر بقلبک ذکر الخلق" یعنی بیشک تو ضعیف المعرفت ہے کیونکہ تیرے دل میں مخلوق کا خطرہ گزرا اور یہ بھی کہا ہے "من اظھر الا نقطاع الی اللہ فقد وجب علیہ خلع ما دونہ من رقبۃ"یعنی جو شخص خدا کے لگاؤ کا اظہار کرے تو اسکو ماسوائے خدا کےبوجھ کا گردن سے اتارنا ضروری ہے۔یہ بھی کہا ہے "ابلغ الاشیاء فیما بین العبد المحاسبۃ"یعنی خدا اور بندے کے درمیان جو سب سے زیادہ پپہنچا دینے والی چیز ہے وہ نفس کا حساب لینا ہے۔

(نفحاتُ الاُنس)


متعلقہ

تجویزوآراء