حضرت ابوالبرکات سید احمد قادری
حضرت ابوالبرکات سید احمد قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
۱۳۱۶ھ میں بمقام محلہ نواب پورہ الور میں ولادت ہوئی،حافظ عبد الحکیم،حافظ قادر علی سے قرآن پاک ختم کیا،آٹھ برس کی عمر میں مولانا سید ظہوراللہ الوری سے صرف ونحو کی ابتدا کی،اکثر کتابیں والد ماجد سے پڑھنے کے بعد استاذ العلماء علامہ حکیم محمد نعیم الدین فاضل مراد آبادی کی خدمت میں پہونچے اور شرح سلم،حمداللہ،افق المبین،شرح ہدایۃ الحکمۃ،شمس بازغہ،شرح عقائد مع خیالی اور صحاح ستہ اور طب کا درس لیا،۱۳۳۷ھ میں امام اہل سنّت،ہمام العصر،بخاری عصر شاہ احمد رضا کی زیارت کےلیے بریلی حاضر ہوئے،اور اجازت مطلقہ کی سند حاصل کی،کچھوچھہ شریف میں امام الواصلین،قدوۃ العارفین، قطب المشائخ مخدوم شاہ علی حسین اشرفی سجادہ نشین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیعت کا شرف حاص کیا، ایک عرصہ تک والد ماجد کے ساتھ آگرہ میں مقیم رہ کر درس و تدریس میں مصروف رہے اور بعد میں انہیں کے ہمراہ لاہور پہونچے،اور تدریس و تعلیم میں مشغول ہوئے،۱۳۵۴ھ میں والد ماجد کی وفات کے بعد دار العلوم حزب الاحناف کے رئیس اور شیخ الحدیث مقرر ہوئے،علوم متداولہ میں مہارت تامہ آپ کو ابتداہی سے حاصل تھی،اور اب آپ کی غزارت علی کی دور دور شہرت ہوئی،دور دراز شہروں سے باذوق طلباء نے ہجوم در ہجوم آکر آپ سے اخذ علوم کیا،اس وقت پاکستان کے اکثر علماء آپ کے سلسلۂ تلمذ سے وابستہ ہیں، آپ کی ذات قدسی صفات مرجع علماء وفضلاء اور پاکستان میں اسلام کا مستحکم ستون ہے
درس وتدریس کے علاوہ خطبات میں بھی آپ کو کمال حاصل ہے، ترویج واشاعت مذہب اہل سنّت اور ادیان باطلہ وہابیوں،دیوبندیوں،مرزائیوں کی تردید وظیفۂ زندگی ہے،سعودی فتنۂ انہدامات مقابر مقدسہ کے زمانہ نجدی نظریات وعقائد پر آپ تنقید فرمارہے تھے،کہ ایک نجدی العقیدہ شخص نے خنجر جفا سے آپ پر حملہ کردیا،مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا،
آپ کے تلامذہ میں شیخ الحدیث مولانا نور اللہ نعیمی اشرفی جامعہ فریدیہ بصیر پور ضلع ساہیوال،سلطان الواعظین مولانا محمد بشیر ایڈیٹر ماہنامہ ‘‘ماہ طیبہ’’ خطیب پاکستان مولانا غلام دین مرحوم،فاضل جلیل مولانا مہر الدین مؤلف تسہیل المبانی شرح مختصر المعانی،مولانا محمود احمد رضوی شارح بخاری(فرزند اجمند) مولانا عبد القیوم ناظم جامعہ نظامیہ لوہاری دروازہ لاہور،صاحبزادہ محمد طیب الرحمٰن مدظلہ ناظم اعلیٰ دار العلوم اسلامیہ رحمانیہ ہری پور ہزارہ،مولانا غلام مہر علی مؤلف ‘‘الیواقیت المہریہ’’ وغیرہ مشہور اور خادمان دین ہیں۔
(الیواقیت المہریہ)