حضرت علامہ مولانا عبد الحق خیر آبادی
حضرت علامہ مولانا عبد الحق خیر آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
۱۲۴۴ھ میں دھلی میں پیدا ہوئے، حضرت مولانا سید شاہ مصباح الحسن پھپھوندی اپنے استاذ مولانا ہدایت اللہ خاں جون پوری کی روایت سے فرماتے تھے کہ حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی نے آپ کے عقیقہ میں ساٹھ ہزار روپے خرچ کیے تھے۔
آپ نےوالد ماجد سے کسب علوم کیا،۱۲۵۸ھ میں چودہ برد کی عمر میں فاتحہ فراغ پڑھا مشاہیر علمائے دہلی، مفتی صدر الدین وغیرہ علیہم الرحمۃ نے جلسۂ دستار بندی میں شرکت کی عرصہ تک سہانپور میں والد ماجد کے ہمراہ رہے وہاں سے الور پہونچے، وظیفہ مقرر ہوا، عمائدین میں شامل کیے گئے، یہیں تھے کہ ۱۸۵۷ھ کا ہنگامہ رونما ہوا، بغاو کے جرم میں آپ کے والد ماجد کالا پانی بھیجدئیے گئے، اس کے بعد آپ دہلی ہوتے ہوئے خیر آبا وطن چلے گئے اور والد ماجد کی رہائی کی کوشش کرتے رہے کامیاب ہوئی بھائی مولوی شمس الحق کو پروانہ رہائی دےکر کالا پانی بھیجا،مولوی شمس الحق نے کالا پانی پہونچ کر والد ماجد کو روح اور بدن دونوں سے رہا پایا، آپ نے تقریباً ۱۸۶۰ھ ۱۸۶۱ھ دو سال ریاست ٹونک سے وابستہ رہنے کے بعد گورنمنٹ بنگال کی درخواست پر مدرسہ عالیہ کلکتہ کی ملازمت کی، بڑے وضع کود دار مرد غیور تھے، یہاں وضع میں فرق آتا دیکھا تو استغفیٰ دے کر وطن چلے آئے، نواب کلب علی خاں مرحوم کو معلوم ہوا تو کمال دردانی سے رام پور بلاکر حاکم مرافعہ اور مدرسہ عالیہ کا پرنسپل بنادیا، یہ دور ۱۲۸۶ھ سے ۱۳۰۴ھ تک ممتدرہا، ۱۳۰۴ھ میں نواب کلب علیخاں کا انتقال ہوگیا، اور نواب مشتاق علی خاں تخت نشین ہوئے، حالات بدل گئے، قدردانی رخصت ہوگئی، داغ وامیر جیسے سخنور رخصت ہوکر حیدر آباد چلے گئے، آپ نے آٹھ ماہ کی رخصت لی، مگر مدت ختم ہونے پر بجائے رام پور کے داغ کی دعوت پر حیدر آباد تشریف لے گئے، دوسو۲۰۰ روپیہ وظیفہ ماہاناہ مقرر ہوا، نواب حامد علی خاں کے بااختیار ہونے پر ۲۳؍مئی ۱۸۹۱ھ میں نواب حامد علی خاں کی دعوت پر رام پور تشریف لائے، نواب نے معقول کے چند سبق پڑھے اور عہد خلد آشیاں کے مراتب واعزاز پھر سے قائم کردیئے۔
درس کی دھوم تھی، طلبہ اکناف عالم سے آپ کے دریائے علم سے اپنی پیاس بجھانے کےلیے پہونچتے تھے،طلبہ پر ہت شفیق تھے، جو طالب علم ایک سبق پڑھ لیتا پھر آپ کا درنہ چھوڑتا، آپ کو تصنیف کا بھی خاص ذوق تھا، شرح مسلم الثبوت، حاشیہ قاضی مبارک، شرح ہدایۃ الحکمۃ،حاشیہ مد اللہ شرح مسلم وغیر ہمشہور تصانیف ہیں۔۔۔۔۔۔ حضرت مولانا ظہور الحسین فاروقی رام پوری، مولانا برکات احمد ٹونکی، مولانا سید عبد العزیز سہارنپوری جیسے مامور عالم آپ کے شاگردوں میں تھے، آپ حضرت شاہ الہ بخش [1] لوسوی قدس سرہٗ کے مرید تھے، اپند وضع دست آشنا، غرباء کےہمدرد اور انگریزی وضع ومعاشرت سے تَنفُّر خصوصی اوصاف تھے،۔
آپ نے بہت گذا طبیعت پائی تھی، صوفیاء کے حالات و واقعات بہت شوق سے سنتےتھے۔ آپ کے سامنے جب بزرگان دین کے مجاہدات وریاضات اور مصائب کے واقعات بیان کیے جاتے تو بےاختیار سیلاب اشک رواں ہوجاتا، ۲۳؍شوال المکرم ۱۳۱۶ھ میں خیر آاد میں رہگزائے عالم جادوانی ہوئے، حضرت امیر مینائی نے قطعۂ تاریخ کہا ؎
شمس العلماء زظلمت دھر |
چوں تیر زابر تیرہ برجست |
|
برلوحِ مزار امیر بنویس |
‘‘آرام گہہ امام وقت است’’ |
(حسرۃ العلماءبوذاہ شمس العلماء تذکرہ علماءہند،باغی ہندوستان)
[1] ۔ خواجہ الہ بخش، والد کا نام خواجہ گل محمد المتوفی ۱۲۳۰ھ، دادا کا نام حضرت شاہ سلیمان تونسوی ذی الحجہ ۱۲۱۴ھ میں تونسہ شریف میں پیدا ہوئے، ‘‘زہے بیدار بخت’’ سے تاریخ ولادت نکلتی ہے، آپ کے دادا بزرگوار نے اپنے مرید مولانا محمد امین کو آپ کی تعلیم پر مامور فرمایا، قرآن مجید کی ناظرہ خواندگی سے حدیث تک کی آپ نے اُن سے تعلیم پائی، فراغت کے بعد جد امجد مرید ہوئے، خواجہ سلیمان تونسوی نے اپنی حیات ہی میں مریدوں کے شجروں پر دستخط اور بیعت کا کام آپ کے سپرد کردیا تھا، ۲۹؍جمادی الاولیٰ ۱۳۱۹ھ مطابق ۱۹۰۱ھ میں وفات پائی، مصرعہ تاریخ چراغ جہاں بجھ گیا ہے، حافظ محمد موسیٰ ، ھافظ احمد حافظ محمود آپ کے صاحبزادگان تھے، حافظ موسیٰ آپ کے بعد جانشین ہوئے، ۱۳۳۳ھ میں وہ فوت ہوئے، ان کے بعد حافظ محمود نے مسند سجادگی کو رونق دی، یہ جید عالم اور صاحب باطن بزرگ تھے۔(تذکرہ صوفیائے سندھ)