حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی
حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
شیخ التفسیر حضرت مولانا مفتی احمد یار خان ابن مولانا محمد یار خان بد ایونی ( قدس سرہما ) شوال ۱۳۲۵/۱۹۰۶ء میں محلہ قلعہ کھڑہ اوجیانی ( ضلع بدایوں ) کے دندار گھرانے میں پیدا ہوئے[1]
آپ کے والد ماجد فارسی درسیات پر عبور رکھتے تھے ، انہوں نے جامع مسجد میں ایک مکتطب جاری کیا تھا جس میں طلباء کو تعلیم دیتے تھے، غالباً حضرت شاہ علی حسین اشرفی میاں کچھو چھوی قدس سرہ کے مرید تھے [2]
مولانا مفتی احمد یار خاں رحمہ اللہ تعالیٰ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی ، پھر مدرسہ شمس العلوم، بدایوں میں داخل ہو کر تین سال تک (۱۹۱۶ء تا ۱۹۱۹ئ) مولانا قدیر بخش بد ایونی رحمہ اللہ عالیٰ اور دیگر اساتذہ سے اکتساب فیض کیا [3]
اسی زمانے میں بریلی شریف جاکر حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ ابتدائی کتب محنت و جا نفشانی سے پڑھیں ، امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کئے ، مولانا حافظ بخش بد ایونی رحمہ اللہ تعالیٰ (ممتحن) نے خاص طور پر ان کی تعریف کی اور انہیں انعام کا مستحق قرار دیا ، ماہنا مہ شمس العلوم ، بدایوں میں یہ کیفیفشائع ہوئی [4]
مدرسہ شمس العلوم ، بد ایوں کے بد مدرسہ اسلامیہ ، میڈھو (ضلع علی گڑھ )میں داخل ہوئے اور کچھ عرصہ پڑھا ، چونکہ اس مدرسہ کا تعلق دار العلوم دیو بند سے تھا اس لئے وہاں سے تعلیم ترک کر کے مراد آباد چلے گئے ، اس واقعہ کا ذکر مفتی صاھب نے اپنے مجموعہ کلام دیوان سالک کے ایک حاشیہ میں بھی کیا ہے[5]
جامعہ نعیمیہ ، مراد آباد یں داخلا ہوئے ، حضر ت صدرالا فاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ کی مردم شناس نگاہوں نے جوہر قابل کو پہچان لیا اور خود پڑھا نا شروع کیا ، پھر بے پناہ مصروفیا کی نا پر حضرت مولانا علامہ مشتاق احمد کانپوری ابن استاذ من مولانا احمد حسن کانپوری قدس سرہ کو مراد آباد بلا کر مفتی صاحب کی تعلیم ان کے سپر دکر دی ۔ ایک سال بعد مولانا احمد حسن کانپوری میرٹھ تشریف لے گئے، مفتی صاحب بھی استاذ گرامی کے ساتھ رہے اور ۱۳۴۴/۱۹۲۵ ء میں درس نظامی سے فراغت حاصل کرلی ، اس وقت آپ کی عمر بیس سال تھی [6]
حضرت مفتی صاحب قدس سرہ نے تکمیل کے بعد عملی زندگی کا آغاز جامعہ نعیمیہ ، مراد آباد سے کیا جہاں تدریس کے علاوہ فتویٰ نویسی کا کام بھی کرتے رہے ۔ بعد ازاں مدرسہ مسکینیہ دھوراجی ، کاٹیا واڑ میں نو سال تک تدریس اور خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے ، اس کے بعد اک سال جامعہ نعیمیہ ، مراد آباد اور قریبا تین سال کچھو چھہ شریف رہے ، پھر مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا سید ابو البرکات دامت بر کاتہم العالیہ کے بلا نے پر پاکستان تشریف لائے اور بارہ تیر ہ برس دار العلوم خدام الصوفیہ ، گجرات اور دس برس انجمن خادام الرسول میں فرائض تدریس انجام دیتے رہے ، وصال سے چھ برس قبل جامعہ غوثیہ نعیمیہ میں تصنیف ، افتاء اور تدریس کا کام جاری رکھا [7]
۱۹۴۶ء میں جب مرکزی انتخابات ہوئے تو ہر طرف مسلم لیگ اور پاکستان کا نعر تھا علاقہ روہی کھنڈ خاص طور پر بریلی اور بد ایوں میں صرف مسلم لیگ کا شہرہ تھا ، بد ایوں کے علماء و عمائد مولانا عبد الحامد بد ایونی ، خواجہ غلام نظام الدین ، ملا عبد الصمد مقتدری وغیرہ نے بڑا کام کیا ، قصبہ اوجیانی میں چودھری حاجی شمس الدین ، مولوی ابو الحسن ،منثی شمس الدین ، سید شید اعلیٰ، شیخ شوکت حسین ، ریاض الدین اور شیخ عبد الرحیم وغیرہ مسلم لیگ کے سر گرم کارکن تھے۔ قصبہ اوجھیانی میں مسلمانوں کے غالباً سترہ ووٹ تھے جن میں سے پندرہ ووٹ مسلم لیگ کو ملے ،ڈاکٹر محمد اسحق نے ووٹ نہیں ڈالا ، آخڑی ووٹ حضرت مفتی احمد یار خاں رحمہ اللہ تعالیٰ کا تھا ۔ پولنگ کا آخڑی وقت ۵ بجے تھا ، مفتی صاحب ساڑھے چار بجے کاڑی سے اوجھیانی پہنچے اور سٹیشن سے سیدھے پولنگ سٹیشن ( میونسپلیورڈ آفس ) جاکر مسلم لیگ کو ووٹ دیا ، مسلمان اس با پر بہت خوش ہوئے کہ مفتی صاحب محض ووٹ ڈالنے کے لئے گجرات ( پنجاب ) سے سفر کرکے اوجھیانی پہنچے تھے چنانچہ بصورت جلوس آپ کو گھر لایا گیا [8]
حضرت مفتی صاحب اگر چہ درس و تدریس اور تبلیغ کے یدان کے آدمی تھے تاہم مختلف مواقع پر ملی اور سیاسی تحریکوں میں خدمات انجام دیتے رہے۔تحریک پاکستان کے سلسلے میں صدر الا فاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی نے قرار داد پاکستان کی تائید کے لئے جو کششیں کیں ، مفتی صاحب ان میں شریک رہے ۔ ۱۳۶۵ھ/۱۹۴۶ء میں نظریۂ پاکستان کی تائید کے لئے بنارس مں آل انڈیا یا سنی کانفرنس منعقد ہوئی تو مفتی صاحب پنجا ب کے علماء مشائخ کے عظیم و فد میں شامل تھے [9]
غالباً آل انڈیا کانفرنس کے انعقاد کے بعد بعض با اثر حضرات نے سنی کانفرنس کے فیصلوں کی مخالف کی اور ا پنے حلقۂ اثر میں اس کا تذکرہ بھی کیا ۔ مسلم لیگ کے بہی خواہ اس بنا پر متفکر تھے کہ صوبائی الیکشن قریب ہے ، اگر صور ت حال یہی رہی تو نہ معلوم نتیجہ کیا ہو؟ تجویز کیا جارہا تھا کہ بد ایوں کے علماء کو بلا کر جلسہ کرنا چاہیے ، اتنے میں مفتی صاحب اوجھیانی پہنچ گئے، ان کی دو تین تقریروںفضا کو ساز گار بنا دیا اور صوبائی الیکشن میں مسلم لیگ کا میاب ہوگئی [10]
ضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نہایت خوش اخلاق اور خندہ رو شخصیت تھے، سلام ہنے میں پہل کرتے ، معمولات اور وقت کے اتنے پابند تھے کہ جب آپ جمعہ کے روز مبنر پر بیٹھتے تو لوگ اپنی گھڑیوں کا ٹائم ٹھیک کر لیتے تھے، پانچ دفعہ حج و زیارت سے شرف ہوئے ، ہر وقت درود شریف پڑھتے رہتے تھے ۔ حضرت مفتی صاحب نے تقریباً ۴۶ سال کا عرصہ خدمت دین میں صرف کیا ، سیکڑوں علماء کو فیض یاب فرمانیکے ساتھ ساتھ تصانیف کا معتدبہ یاد گار چھوڑ ا جس سے سے مسلک اہل سن و جماعت کو نہایت تقویت ملی۔
تصانیف کے نام درج ذیل ہیں :۔
۱۔ تفسیر نعمی : گیارہویں پارے کے ربع آخر تک لکھی گئی ۔
۲۔ نعیم الباری فی انشراح البخاری : نجاری شریف کا عربی حاشیہ
۳۔ مرآۃ شرح مشکوٰ ۃ اردو ، آٹھ جلدوں میں ۔
۴۔ نور العرفان فی حاشیۃ القرآن : اعلیٰ حضر ت مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ کے ترجمہ پر تسیری حواشی ۔
۵۔ جا ء الحق ، دو جلد
۶۔ شان حبیب الرحمن آیات القرآن
۷۔ اسلامی زندگی
۸۔ سلطنت مصطفی
۹۔ دیوان سالک
۱۰۔ دیوان سالک
۱۱۔ علم القرآن
۱۳۔ رسالۂ نور
۱۴۔ رحمت خدا بوسیلۂ اولیاء
۱۵۔ مواعظ نعیمیہ
وغیرہ وغیرہ
نعیم الباری اور تفسیر نعیمی کے دو تین پاروں کے علاوہ باقی تمام کتابیں چھپ چکی ہیں ۔
حضرت مفتی احمد یار خاں قدس سرہ کے دو ساجزادے یاد گار ہیں :۔
۱۔ مشہور خطیب مولانا مفتی مختار احمد
۲۔ مولانا مفتی اقتدا راحمد
خدا کرے کہ دونوں حضرات مفتی صاحب کی امانت عظیمہ کو ملت اسلامیہ تک پہنچانے تو زیادہ زیادہ سے کامیاب ہوں ۔
جن دنوں حضرت مفتی صاحب ، میو ہسپتال میں تھے ، راقم الحروف اور مولانا غلام رسول سعید مد ظلہ مزاج پرسی کیلئے حاضر ہوئے ، حضرت مفتی صاحب نے دوران گفتگو فرمایا ’’ میں جامعہ نعیمیہ ، مراد آباد میں مدرس تھا ، میں اور مولانا مفتی امین الدین بد ایونی رحمہ اللہ تعالیٰ بڑے شوق سے قوالی سنا کرتے تھے ، ایک دن قوال نے یہ شعر پڑھا ؎
کچھ پاس نہیں ہے میرے ، کیا نذر کروں میں تیرے
اک ٹوٹا ہوا دل ہے اور گوشۂ تنہائی
یہ شعر سننا تھا کہ مفتی امین الدین صاحب نے جو کچھ پاس تھا ، قوال کو پیش کردیا،حضرت صدر الا فاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ نے بلا کر باز پرس کی اور فرمایا : یا تدریس ہوگی یا قوالی ، حضرت کے اس ارشاد پر میں نے عرض نے کی: میں تدریس چھوڑ سکتا ہوں ، قوالی نہیں چھوڑ سکتا ، یہ سنتے ہی حضرت صدر الا فاضل جلال میں آگئے اور فر مایا :۔
’’احمد یار خاں ! میں تمہیں حکماً کہتا ہوں کہ قوالی سننا چھوڑ دو‘‘۔
چناچنہ اس کے بعد آج تک میں نیکبھی قوالی نہیں سنی ۔
اللہ اللہ ! احترام استاذ کی ایسی مثالیں آج کہاں ملیں گی۔
حکیم الامت حضرت مولانا مفتی احمد یار خاں نعیمی قدس سرہ کا وصال ۳رمضان المبارک ۲۴اکتوبر ۱۳۹۱ھ/۱۹۷۱ء ) کو ہوا ، نماز جنازہ مفتی اعظم پاکستا ن حضرت مولانا ابو البرکات سید احمد دامت بر کاتہم العالیہ نے پڑھائی ، مفتی صاحب کی آخری آرام گاہ گجرات ( پنجاب ) میں ہے، جنازہ میں شرکت کے لئے رقم الحروف گجرات گیا، حضرت مفتی صاحب کی زیارت کی ، چہرہ پھول کی طرح کھلا ہوا تھا ، اس وقت یہ تصور کرنا مشکل تھا کرنا مشکل تھا ان پر موت کی کیفیت طاری ہو چکی ہے۔
سید ابو الکما برق نوشاہی نے قطعۂ تاریخ کہا ؎
فدائے ملت مختار عالم
حکیم امت سر کار عالم
وحید العصر درتحریر و تقریر
خطیب اہل سنت شیخ تفسیر
حیاتس بودو عالم کرامت
وفاتش از علامات قیامت
چوں یکتا بود او اند ر شرافت ،
وفاتش برقؔ ! گو’’ شمع شرافت ‘‘
مولانا سید شریف حمد شرافت نو شاہی نے سن عیسوی کا استخراج کیا ؎
فتا شرع،احمد یار خاں
ذاکر اسم خداشام و پگاہ
در حدیث دفقہ کس مثلث نبود
صوفیان اہل حق رابود شاہ
از شرافت سال تر حلیش شنو !
فخزن انواز ، شد مستور آہ[11]
[1] عبد النبی کوکب ، قاضی : سیرت سالک ، طبع اول دسمبر ۱۹۷۱ء : ص ۱۳ غلام مہر علی مولانا :
ایواقیت المہریہ ،ص ۳۹
[2] محمد ایوب قادری ، پرفیسر : قلمی یا دراشت۔
[3] عبد النبی کوکب ، قاضی : سیرت سالک ، ص ۲۳تا ۲۷
[4] محمد ایوب قادری ، پروفیسر، قلمی یا دادشت
[5] محمد ایوب قادری ، پروفیسر، قلمی یادداشت
[6] عبد النبی کوکب ، قاضی : سیرت سالک ، ص۲۸تا ۳۲
[7] ایضاً ، ص ۳۷ تا ۴۲۔
[8] محمد ایوب قادری ، پروفیسر : قلمی یادادشت
[9] عبد النبی کوکب ، قاضی : سیرت سالک ، ص ۱۳
[10] محمد ایوب قادری ، پروفیسر : قلمی یادادشت ۔
[11] عبد النبی کوکب ،قاضی:سیرت سالک،ص ۱۳۹،۱۴۰
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)