حجۃ الاسلام مولانا محمد ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں

نبیرۂ اکبر امام احمد رضا صاجزادۂ اکبر حجۃ الاسلام مولانا محمد ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں علیہ الرحمۃ

دس ربیع الآخر ۱۳۳۵ھ کا دن نہ صرف خانوادۂ امام احمد رضا بلکہ تمام متوسلین کے لئے بڑا یادگار دن تھا۔ جس میں نبیرۂ اکبر امام احمد رضا صاجزادۂ اکبر حجۃ الاسلام مولانا محمد ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں کی ولادت با سعادت ہوئی۔ اس جشن مسرت میں امام احمد رضا بنفس نفیس شریک تھے۔ منظر اسلام کے طلبہ کے لئے ان کی خواہش کے مطابق خصوصی دعوت کا اہتمام کیا گیا۔

          اس جشن مسرت میں شریک مولانا ظفرالدین فاضل بہاری قمطراز ہیں

          ’’حضرت حجۃا لاسلام مولانا شاہ محمد حامد رضا خاں صاحب کے برابر لڑکیاں ہی پیدا ہوتیں اس لئے سب لوگوں کی دل تمنا تھی کہ کوئی لڑکا پیدا ہوتا۔ تاکہ اس کے ذریعے اعلیٰ حضرت کے حسب و نسب و فضل و کمال کا سلسلہ جاری رہتا۔ خداوند عالم کی شان کہ ۱۳۲۵ھ میں مولوی محمد ابراہیم رضا خاں صاحب قبلہ کی ولادت ہوئی۔ نہ صرف والدین اور اعلیٰ حضرت بلکہ جملہ متوسلین کو ازحد خوشی ہوئی۔ اس خوشی میں منجملہ اور باتوں کے اعلیٰ حضرت نے جملہ طلبائے مدرسہ اہلِ سنّت و جماعت منظر اسلام کی ان کی خواہش کے مطابق دعوت فرمائی۔ بنگالی طلباء سے فرمایا آپ لوگ کیا کھانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا ’’مچھلی بھات‘‘ چنانچہ روہو مچھلی بہت وافر طریقے پر منگائی گئی۔ اور ان لوگوں کی حسبِ خواہش دعوت ہوئی۔ بہاری طلباسے فرمایا آپ لوگوں کی کیا خواہش ہے؟ ہم لوگوں نے کہا ’’بریانی زردہ فیرنی کباب میٹھا ٹکرا وغیرہ‘‘۔ بہاریوں کے لئے پر تکلف کھانا تیار کرایا گیا۔ پنجاب اور ولایتی طلبا کی خواہش ہوئی ’’دنبہ کا خوب چرب گوشت اور تنور کی پکی گرم گرم روٹیاں‘‘ غرض ان لوگوں کے لئے وافر طور پر اسی کا انتظام ہوا۔ اس وقت خاص عزیزوں مریدوں کے لئے جوڑا بھی تیار کیا گیا تھا۔ نہایت ہی مسرّت سے لکھتا ہوں کہ میں بھی انہیں خاص لوگوں سے ہوں جن کے لئے جوڑا بھی تیار کرایا گیا تھا‘‘۔        (مولانا ظفرالدین، حیاتِ اعلیٰ حضرت ص، ۴۷ / ۴۸)

          استاد زمن حضرت مولانا حسن رضا خاں حسن بریلوی اس جشن مسرت میں شریک تھے اس موقعہ پر آپ نے بڑے یادگار اشعار کہے۔ ان میں یہ مصرعہ ’’علم و عمر اقبال و طالع دے خدا‘‘ تو اتنا برجستہ تھا کہ تاریخ ولادت ۱۳۲۵ھ قرار پایا۔

          حضرت جیلانی میاں کو یہ طرّۂ امتیاز بھی حاصل رہا کہ امام احمد رضا نے خاندان اور بریلی کے معززین کی موجودگی میں ۱۴ / شعبان المعظم بروز چہار شنبہ ۱۳۲۹ھ کو آپ کی بسم اللہ خوانی کرائی ’’بیعت لی اور خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا۔     (مفتی عبدالواجد قادری، حیات مفسرِ اعظم ہند ص ۱۳)

          صرف یہ ہی نہیں بلکہ یہ فرما کر ’’میرا پوتا میری زبان ہوگا‘‘ جیلانی میاں کے جذبۂ احقاق حق والبطال باطل کی عظیم بشارت بھی دیدی۔ اور دین و ملت کی خدمات سے بھرپور شاندار مستقبل کی نشاند ہی فرما دی۔

          علماء و مشائخ نے اس بشارت کا مظاہرہ منظر اسلام کے درجاتِ حدیث و تفسیر ہندوستان کے طول و عرض میں آپکی تقاریر اور مسلک اہلِ سنّت و جماعت کی ہندوستان گیر خدمت و اشاعت میں بچشم خود ملاحظہ فرمایا۔ آپ کی ذات ’’لسان رضا‘‘ کی بشات کا مصداق ٹھہری اور مفسر اعظم کا لقب تو اتنا مشہور ہوا کہ علم قرار پایا۔

          آپ کی ذات یوں بھی نجیب الطرفین ٹھہری کہ امام احمد رضا نے اپنی پوتی (مفتی اعظم کی بڑی صاجزادی) اور اپنے پوتے جیلانی میاں (حجۃ الاسلام کے بڑے صاجزادے) کو اپنی گود میں بٹھا کر اپنے دونوں صاجزادوں کی موجودگی میں فرمایا۔ میں تم دونوں کا وکیل ہوں اور اپنی وکالت میں ان دونوں کا نکاح کرتا ہوں۔   (راقم الحروف سے بزرگوں کی روایات)

          امام احمد رضا کے ہاتھوں کا لگا یا ہوا یہی حسب و نسب کا وہ پودا ہے جو ریحان رضا کی صورت بڑھا اور سبحان رضا کی صورت حامدی باغ میں لہلہا رہا ہے۔ اور حَامِد مِنِّی اَنَا مِنْ حَامِدْ‘‘ کی بشارت کا ظہور ہو رہا ہے۔

          حضرت مفسرِ اعظم ہند جیلانی میاں کی زندگی کے یہ تین بڑے روشن نقوش تھے ____ (۱) منظر اسلام ان کے آ﷜اد اجداد کا شجر سدا بہار تھا۔ اس کی آبیاری اور گل و غنچہ وجڑ دپتی و شاک کے سنوارنے میں زندگی بھر مصروف رہے۔ اس راہ میں بڑے صبر آزما مصائب سے آپکو گذرنا پڑا تا آں مدرسین کی بروقت  تنخواہ کے لے گھر کے زیورات تک رہن رکھ دیئے جاتے۔ یہ تھا وہ ایثار جس نے دارالعلوم منظر اسلام کو منظر اسلام بنائے رکھا۔ حضرت مفتی سیّد محمد افضل حسین صاحب (جو اس دور میں منظر اسلام کی خدمت تدریس سے وابستہ رہے) نے صحیح ارشاد فرمایا کہ ایسا زالا مہتمم میری نگاہوں نے نہیں دیکھا۔‘‘

          اگر صرف مکتب کی کرامت ہوتی تو ختم ہو جاتی مگر یہاں فیضان نظر بھی تھا جو ہر دور میں اپنا کام کرتا رہا۔ اغیار، حسادگی کار فرمائیاں، اپنوں کی چشم پوشیاں اور لیل و نہار کی تبدیلیاں آپ کے آڑے نہ آسکیں۔ آپکا کاروانِ علم و عمل شاہراہِ رضا پرواں دواں رہا۔

          (۳) درس و تدریس میں انہماک کا یہ عالم تھا کہ مسلم شریف و شفا شریف پڑھاتے ہوئے ان کی شروح پیش نظر ہوتیں۔ اور ایسا معلوم ہوتا کہ صاحب مسلم، امام مسلم بن المجاج قشیری اور صاحبِ شفا قاضی عیاض کی روحانیت جلوہ گر ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا ہوتا کہ الفاظ سے گذر کر معانی میں پہنچ جاتے اور قال کو چھوڑ کر سراپا حال ہوجاتے۔ اپنے اسلاف کرام کی طرح برکۃ المصطفیٰ فی الہند شیخ محقق محدث دہلوی سے خاصا شغف رکھتے۔ معتقدات میں ان کی تصانیف ازبر ہوتیں مسلک کے اثبات میں دلائل کے انبار لگا دیتے۔ ان کی عبارتیں جھوم جھوم کر پڑھتے یہاں تک کہ ان کے مزار سے سبھی استفادہ کرتے۔         (مفتی عبدالواجد قادری، حیات مفسرِ اعظم ہند ص ۱۳)

(۳) مسلک اہلِ سنّت کی اشاعت میں مسلسل کوشش فرماتے۔ خود ہندوستان گیر دورہ فرماتے اپنے تلامذہ و مریدین کو دور دراز مقامات میں روانہ کرتے۔ صوبہ بہار (جو حامدی صوبہ ہے) کے شہرون اور گاؤؤں میں تشریف لے جاتے۔ نیپال کے اتار چڑھاؤ میں بھی آپکا سفر وسیلۂ ظفر جاری رہتا۔ آپ جہاں بھی جاتے رضا کی زبان ہوتے، حق آپ کا ہمر کاب اور بطال سرنگوں اور خراب ہوتا۔

          مفسرِ اعظم ہند حضرت جیلانی میاں اپنی آنے والی نسلوں اور سنیوں کے لئے علمیٰ عملی، مسلکی، خانقاہی شاہرہ عمل اور طریقۂ کار متعیّن کر کے ۱۱ / صفر المظفر بروز ہفتہ ۱۳۸۵ھ ۱۲ / جون ۱۹۶۵ء علی الصباح ۷ / بجے اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔ وصال پر ملال کی خبر سے زیارت اور نماز جنازہ میں شرکت کے لئے پورا شہر ٹوٹ پڑا۔ رات کو ۱۰ / بجے غسل دیا گیا۔ دوسرے دن اسلامیہ کالج بریلی کے وسیع میدان میں مولانا مفتی سیّد محمد فضل حسین شاہ صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور ۳۰ / ۹ بجے نبیرۂ امام احمد رضا کو انہیں کے وائیں جانب آرام سے لٹا دیا گیا۔

(تذکرہ علماء اہلسنت)


متعلقہ

تجویزوآراء