حضرت حافظ قاری ممتاز احمد رحمانی
حضرت حافظ قاری ممتاز احمد رحمانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت الحاج حافظ قاری ممتاز احمد بن سراج الدین بن صلاح الدین محلہ پہاڑ گنج دہلی ( بھارت ) میں ۱۷، رمضان المبارک ۱۳۴۵ھ بمطابق ۲۵ ، فروری ۱۹۲۹ء بوقت فجر بروز پیر تولد ہوئے۔ آپ کے آباوٗ اجداد عرب شریف سے نقل مکانی کر کے ہندوستان شریف لائے اور دہلی میں سکونت اختیار کی۔ آپ کا ددھیال قریشی اور ننھیال صدیقی ہے۔
تعلیم و تربیت :
حکیم حافظ افتخار احمد نقشبندی سے ۹ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ مسجد فتح پوری دہلی کے مدرسہ میں قاری حامد حسین دہلوی سے قراٗت و تجوید کی تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی عربی فارسی اور چند درس نظامی کی کتب حضرت مولانا قاضی زین العابدین دہلوی سے پڑھیں ۔
پاکستان آمد :
جب دہلی شہر میں ہنگا مے پھوٹ پڑے اور ہندووٗں اور سکھوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا تو فوج نے ان کو روکنے کے بجائے مسلمانوں پر گولیاں برسانی شروع کر دیں ۔ آپ کے والد ماجد ہندو مسلم فسادات میں شہید ہوگئے لہذا آپ اپنے خاندان دادا جان ، ماں ، تین بھائی ایک بہن کے ہمراہ اپنے استادمحترم حضرت قاضی زین العابدین کی قیادت میں پاکستان تشریف لائے، پہلے لاہور قیام کیا گذرا وقات کے لئے مختلف کام کئے ۱۹۴۸ء کو اپنے اہل خانہ کو لے کر کراچی تشریف لے آئے اور اپنے ماموں کے پاس زرگری کا کام صرافہ بازار کھارادر میں کرنے لگے ۔
شادی و اولاد:
۱۶، مئی ۱۹۴۹ء کو آپ کی شادی جناب ذکر الرحمن کی بیٹی محترمہ حیات النفیس سے ہوئی ۔ شادی کے وقت آپ کی عمر انیس (۱۹) سال تھی اور آپ کی رہائش رنچھور لائن میں الفاروق ہوٹل کے قریب ڈاکخانہ والی گلی میں تھی ۔ آپ کا نکاح صابری مسجد رنچھور لائن میں آپ کے استاد محترم حضرت قاضی زین العابدین نے پڑھایا اور حضرت پیر محمد فاروق رحمانی لڑکی کی طرف سے وکیل تھے اور وہ آپ کی اہلیہ کے پھوپھا بھی تھے۔
ایک بیٹا حافظ محمود اقبال اور ایک بیٹی آصفہ زرین تولد ہوئی ۔ صاحبزادہ نے جوانی میں ایک حادثہ میں شدید زخمی ہو کر فوت ہو گئے ، اسی لئے آپ کے وصال کے بعد آپ کے نواسہ قاری محمد فرحان ممتازی رحمانی سجادہ نشین مقرر ہوئے۔
بیعت و خلافت :
حضرت بابا ولایت علی چشتی فریدی ؒ ( آستانہ عالیہ مندر اسٹاپ ملیر سٹی ) کی خدمت میں ایک عرصہ تک رہے ان کے وصال کے بعد حضرت حافظ غلام رسول قادری ( سولجر بازار) سے صحبت اختیار کی اور شیخ طریقت حضرت محمد فاروق رحمانی ( آستانہ فاروقیہ جہانگیر روڈ ) سے سلسلہ عالیہ چشتیہ صابر یہ رحمانیہ میں بیعت ہوئے اور بعد میں ۱۹۶۲ء کو خلافت سے نواز ے گئے ۔ جو کہ آپ کی اہلیہ کے پھوپھا بھی تھے اور حضرت پیر فاروق صاحب ، سلسلہ رحمانیہ کے بانی حضرت انعام الرحمن قدوسی سہارنپوری ؒ سے فیضیاب تھے۔
امامت و خطابت :
ککری گراوٗنڈ ( لی مارکیٹ ) میں دو سال تراویح میں محراب سنائی اس کے بعد بابا ولایت علی کے آستانہ کے پاس محراب سناتے رہے ۔ شروع میں حضرت فاروق رحمانی کی رہائش صابری مسجد رنچھوڑ لائن کے قریب تھی لہذا وہاں پارک میں بھی محراب سنائی۔ اس کے بعد حضرت نے رحمانی جہانگیر روڈ پر آستانہ قائم کیا تو وہاں بھی آپ تراویح میں قرآن پاک سناتے رہے۔ بابا ولایت علی شاہ کے وصال کے بعد آپ نے بابا صاحب کے آستانہ کے قریب اہل خانہ کے ہمراہ قیام کیا اور گھر میں مدرسہ انوار القرآن قائم کیا، قرآن پاک وحفظ و ناظرہ کا سلسلہ جاری رکھا۔
مدینہ مسجد میں آمد :
۱۹۵۹ء سے قبل مدینہ مسجد بی ایریا ملیر میں صوفی احمد حسین امامت کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ اس کے بعد حافظ ممتاز احمد کو مقرر کیا گیا۔ آپ مندر اسٹاپ ملیر سٹی سے ملی ر بی ایریا مدینہ مسجد سائیکل پر آتے جاتے تھے۔
مدینہ مسجد کو آپ نے مرکزی حیثیت عطا کی، صبح کو حفظ و ناظرہ کا مدرسہ ’’مکتب رحمانی ‘‘ خود پڑھاتے، ظہر تا شام تک سائلین کو دم درود و تعویذ دیتے تھے اور رات میں حلقہ ذکر مراقبہ محفل نعت وغیرہ برپا کرتے،آپ کے سارے کام فی سبیل اللہ ہوتے تھے اور شب و روز مسجد شریف میں دین اسلام اور دکھی انسانیت کی خدمت میں بسر ہوتے ۔
مسجد کے متصل مدرسہ ، لائبریری اور اس کے علاوہ اسکاوٗٹ گروپ وغیرہ آپ کی یاد گار ہیں ۔ جمعہ کے رو ز خود وعظ کیا کرتے تھے۔ وسیع حلقہ آپ سے ارادت و عقیدت رکھتا ہے۔ آپ کے مدرسہ کی شاخیں ملیر میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ ’’اشاعت قرآن ‘‘ کی خوب خدمت سر انجام دیں ۔ آپ قرآن پاک کی جب قراٗت کرتے تو اجتماع پر سکوت طاری ہو جاتا۔ سوزو گداز سے بھری ہوئی ۔ آواز سے مسلمانوں کے قلوب دھل جاتے تھے۔
سفر حرمین شریفین :
۱۹۵۲ء کو حضرت بابا ولایت علی آپ کو اپنے ساتھ لے کر حج کیلئے حجاز مقدس روانہ ہوئے ۔ یہ آپ کا پہلا حج تھا اس کے بعد ۱۹۸۶ء کو دوسری بار حرمین کا سفر اختیار کیا۔ ۱۹۸۷ء کو تیسری بار ۱۹۹۰ء کو چوتھی بار مدینہ طیبہ میں روضہ نبوی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام پر حاضری دی ۔
وصال :
حضرت قاری ممتاز احمد رحمانی نے ۱۷، ذوالقعدہ ۱۴۱۰ھ بمطابق ۱۱، جون ۱۹۹۰ء بروز پیر ، بوقت عشاء ۶۳ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ دوسرے روز بعد نماز ظہر مفتی غلام قادر کشمیری صابری ( امام و خطیب مدینہ مسجد ماڈل کالونی ) کی امامت میں نماز جنازہ اد ا کی گئی اور آپ کا آخری آرامگاہ مدینہ مسجد کے متصل بنا جہاں مریدین نے عالیشان گنبد تعمیر کروایا ہے۔ آپ کا سالانہ عرس ۱۵، ۱۶، ۱۷ ذوالقعدہ کو نہایت عقیدت سے منایا جاتا ہے۔
[فیوضات قلندریہ سوانح حیات قاری ممتاز احمد رحمانی ، تصنیف : حسین الدین ممتازی، مطبوعہ آستانہ ممتازیہ رحمانیہ مدینہ مسجد ممتاز نگربی ایریا ملیر کراچی ۲۰۰۲ء سے مضمون کی تیاری میں استفادہ کیا گیا۔]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)