امام ابو یوسف

یعقوب بن۱ابراہیم بن حبیب بن خنیس بن سعد بن عتبہ انصاری صحابی : کوفہ میں عہد ہشام بن عبد الملک میں ۱۱۳ھ؁ میں پیدا ہوئے ۔ابو یوسف کنیت تھی ۔ امام اجل ، فقیہ اکمل،عالم ماہر ، فاضل متجر ،حافظ سنن ،صاحب حدیث ،ثقہ ،مجتہدفی المذہب اور امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں سب سے متقدم تھے۔آپ ہی نے پہلے پہل امام ابو حنیفہ کے مذہب پر کتابیں لکھیں اور مسائل کو املاء و نشر کیا اور ان کے مذہب کو اقطار عالم میں پھیلایا،آپ ہی سب سے پہلے قاضی القضاۃ اور افقہ العلماء وسید العلماء کے لقب سے ملقب ہوئے اور آپ نے ہی اس ہئیت کا لباس علماء کا جو آج کل مروج ہے ، یجاد کیا۔

طلٗحٰہ بن محمد کہتے ہیں کہ آپ مشہور الامر ظاہر الفضل اپنے زمانے کے افقہ تھے،کوئی آپ کے زمانہ میں آپ سے متقدم نہ تھا اور علم و حکم دریاست و قدر میں نہایت سرآمد تھے،حدیث کو امام ابو حنیفہ وابا اسحٰق شیبابی و سلیمان تیمی ویحٰی بن سعد و سلیمان اعمش و ہشام بن عروہ و عبید اللہ بن عمر عمری وعطاء بن سائب و محد بن اسحٰق بن یسار ولیث بن سعد وغیر ہم سے سماعت کیا اور فقہ کو پہلے ابن لیلیٰ پھر امام ابو حنیفہ سے اخذ کیا ۔ آپ سے امام محمد بن حسن شیبانی اور بشرین ولید کندی اور امام احمد بن حنبل ار یحیٰ بن معین و احمد بن منیع وعلی بن جعدہ وغیرہ نے روایت کی ۔ امام احمد بن ضیل ویحیٰ بن معین اور علی بن مدینی نے آپ کی ثقاہت نقل فی الحدیث میں کچھ اختلاف نہیں کیا بلکہ امام غزالی نے کہا ہے کہ حدیث میں آپ کی متابعت سب سے اولیٰ ہے ۔ آپ کے تلامذہ میں سے محمد بن سماعہ ،معلی بن منصور ، بشرین ولید کندی بشیر بن غیاث مریسی ،خلف بن ایوب ،عصام بن یوسف، ہشام بن عبد اللہ :حسن بن ابی مالک ،ابو علی رازی ، بالل رازیعلی بن جعد وغیر ہم ہیں ۔

آپ کا قول ہے کہ میں امام ابو حنیفہ کی خدمت میں ۲۹ سال جاتا رہا او میری صبح کی نماز فوت نہیں ہوئی۔آپ بغداد میں ساکن ہوئے اور وہاں کی قضا خلفائے ثلاثہ مہدی اور اس کے بیٹے ہاوی اور ہارون رشید کے زمانے میں آپ کے سپرد ہوئی ۔ ہارون رشید آپ کی بڑی عزت و تو قیر کرناتھا۔ ابن عبد البرنے کتاب الانتہائ فی فضائل ثلاثۃ الخلفائ میں لکھا ہے کہ ابو یوسف ھاف احادیث تھے اور محدث کے پاس جاکر اور پینسٹھ احادیث روز یاد کر کے لوگوں سے املاء کراتے تھے کہتے ہیں کہ امام ایوسف کو چایس ہزار احادیث موضوعہ یاد تھیں ، پس یہاں سے قیاس کرنا چاہئے کہ احادیث صحیحہ کس قدر یاد ہوں گی ۔

عمار ابن ابی مالک کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں آپ جیسا کوئی نہ تھا ہلال بن یحٰی کہتے ہیں کہ آپ تفسیر و مغازی اور ایام عرب کے حافظ تھے اور اجل علوم آپ کا فقہ تھی ،آپ کا قول ہے کہ اعمش نے ایک مسئلہ مجھ سے پوچھا ، میں نے اس کا جواب دے دیا،اس پر انہوں نے مجھ سے استفسار کیا کہ یہ مسئلہ تم نے کہاں سے نکالا ؟ میں نے کہا اس فلاں حدیث سے جو تم نےمیرے آگے بیان کی تھی ، انہوں نے کہاکہ وہ حدیث تو مجھ کو اس وقت سے یاد ہے کہ ابھی تمہارے والدین مجتمع نہ ہوئے تھے مگر اس کا مطلب اب معلوم ہوا۔

کہتے ہیں کہ جب آپ کلام کرتے تو لوگ آپ کے دقیق کلام سے متحیر ہو جاتے تھے۔ امام ابو حنیفہ نے آپ کے حق میں کہا ہے کہ آپ دانا تر ہیں ۔ حماد بن امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ ایک دن امام ابو حنیفہ یاروں میں بیٹھے ہوئےتھے جن کے دائیں امام ابو یوسف اور بائیں امام زفر بیٹھے ہوئے ایک مسئلہ میں بحث کر رہےتھے کہ اتنے میں بانگ نماز ہوئی، اس وقت امام ابو حنیفہ نے امام زفر کے زانو پر ہاتھ مار کراور امام ابو یوسف کی رائے کو ترجیح دے کر فرمایا کہ تم اس شہر کی ریاست کی طمع نہ کرو جس کے ابو یوسف حاکم ہوں۔

کہتے یں کہ ایک دن آپ کا ماموں ابو طالب نامی ابو حنیفہ کے حلقہ میں آیا،کیا دیکھتا ہے کہ امام ابو یوسف مذارکہ میں اونچے بول رہے ہیں ،یہ چپکا کھڑا رہا ، امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ آپ کیوں کھڑے ہیں ، آگے آئیے! اس نے کہ اکہ میں مذاکرہ میں ابو یوسف کی بلند آواز سے تعجب کر رہا ہوں کہ آج تین روز سے انہوں نے اور ان کے عیال و اطفال نے کچھ نہیں کھایا۔ایک دفعہ خلیفہ ہارون اور ایک یہودی کا مقدمہ آپ کے پاس آیا اور یہودی خلیفہ سے ذراپیچھے ہٹ کر آپ کے سامنے بیٹھا ۔آپ نے اس کو فرمایا کہ ورے آکر خلیفہ کے برابر بیٹھ ،عدالت میں کسی کو تقدم نہیں ، یہان شاہ وگدا برابر ہیں۔

آپ نے کتاب الخراج ، کتاب الامالی کتاب النوار تصنیف فرمائیں۔وفات آپ کی بغداد میں بحالت عہدہ قضاپنجشنبہ کے روز ۵ ؍ماہ ربیع الآ خر ۱۸۱؁ھ یا ۱۸۲ھ؁ کو واقع ہوئی ۔ تاریخ خلکان میں لکھا ہے کہ جب موت آپ کو حاضر ہوئی تو آپ نے مناجات کی ، الٰہی تو جانتا ہے کہ میں نے ہر ایک حادثہ واقعہ میں تیری بھی نہیں پایا تو حضرت کے صحابہ کے اقوال و افعال کو دیکھا ہے ،اگر ان میں بھی جواب نہیں ملا تو میں نے اپنے اور تیرے درمیان امام ابو حنیفہ کو پل گردانا ہے اور تو جانتا ہے کہ کسی قوی یا ضعیف کا مخاصمہ میرے پاس نہیں آیا کہ جس میں میں نے عدالت و برابری نہ کی ہو اور میرا دل قومی کی طرف مائل نہیں ہوا ،اگر ایسا ہوا تو مجھے بخش دے۔

کہتے ہیں کہ آپ کے دشمنوں میں سے ایک شخص کو آپ کی وفات کے دوسرے روزنہایت غمگین پایا گیا ،لوگوں نے اس کا سبب پوچھا ، اس نے کہا کہ میں نے کل رات خواب میں امام ابو یوسد کو بڑی زینت و تجمل کے ساتھ خلد بریں میں دیکھا ہے،جب میں نے دربانوں سے پوچھا کہ انہوں ایسا کو نسا کا م کیا ہے کہ جس سے یہ اس درجے کے مستحق ہوئے ہیں تو یہ جواب ملا کہ ہے کہ آپ کی وفات کے روز شیخ معروف کرخی نے ایک آدمی کو آپ کے گھر میں آپ کے جنازہ کی خبر لانے کے لئے بھیجا ،جب وہ آپ کے گھر میں پہنچا تو وہاں ایک شور عظیم برپا تھا اور جنازہ لے گئے ہوئے تھے اس لئے وہ جلدی واپس نہ ہو سکا اور نماز جنازہ لے گئے ہوئے تھے اس لئے وہ ج لدی واپس نہ ہو سکا اور نماز جنازہ ادا کرلی گئی ۔جب شیخ کو خبر پہنچی تو انہوں نے نہایت افسوس کیا ۔ اس پر لوگوں نے کہاکہ کیا آپ اس شخص کے جنازے کی نماز کے فوت ہوئے سے افسوس کرتے ہیں جو بادشاہ کے اصحاب میں سے تھا اور دنیا کی طرف رغبت کر کے قاضی بنا تھا ۔شیخ نے فرمایا کہ میں نے رات کو خواب میں دیکھا ہےکہ بہشت کے دروازنے کھلے ہوئے ہیں اور اس کے اندر ایک نہایت عمدہ بارگاہ آراستہ ہوا ہے؟ انہوں نے کہا کہ کل امام ابو یوسف قاضی اس جگہ آئیں گے۔ میں نے ان سے استفار کیا کہ یہ مرتبہ ان کو کس سبب سے حاصل ہوا ہے؟

مناقب ضمیری میں لکھا ہے کہ امام ابو یوسف کہا کرتے تھےکہ ہمارے جدا اعلیٰ سعد بن عتبہ کو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے غزوۂ خندق میں دیکھا کہ باوجود حداثت سن کے بڑی سر گرمی سے جنگ میں مشغول ہیں ،آپ نے ان کو بلاکر پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟انہوں نے عرض کیا کہ سعد بن عتبہ !آپ نے ان کے حق میں دعا کی کہ خدا تمہاری کوشش اسعد کرے! پھر ان کے سراور پیشانی پر ہاتھ پھیرا جس مسح کا اثر قیامت تک ہمارے خاندان میں رہے گا،چنانچہ امام ابویوسف کا یہ حال تھا کہ جب کبھی کوئی شخص آپ کے چہرہ کی طرف دیکھتا تو آپ کی پیشانی ایسی لامع دکھائی دینی کہ گویا تیل ملا ہو اہے ۔ خطیب بغدادی وغیرہ نے حسب فحوائے ہر کہ فاضل تر محسود تر آپ کے حق میں بھی سخت و سست باتیں لکھی ہیں مگر اس میں شک نہیں کہ آپ کی توصیف و تعظیم میں بہت سے علماء و فضلاء نے اکثار کیا ہے اورآپ کے ذکر خیر سے کتب معتبرہ مملو ہیں۔تاریخ وفات آپ کی یہ ہے ؎

ابو یوسف آں زیب علم عمل

 

فقیہ معظم امام اجل

سعید اشل بود بیشک

 

شدہ سال فو تش’’سعید ازل ‘‘

(۱۸۲)

 

 

 

۱ اودی ۲ سعد بن عیۃ ’’جواہر مضیہ (مرتب)

(حدائق الحنفیہ)


متعلقہ

تجویزوآراء