حضرت امام ابو الحسن علی بن عمر محدث دار قطنی

حضرت امام ابو الحسن علی بن عمر محدث دار قطنی  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

اسم گرامی علی، کنیت ابو الحسن۔ سلسلۂ نسب یہ ہے علی بن عمر احمد بن مہدی بن مسعود بن نعمان بن دینار بن عبداللہ بغدادی دارقطنی۔ آپ کا مولد و مسکن شہر بغداد کا محلہ دار قطن ہے جس کی طرف نسب کرتے ہوئے دار قطنی کہلائے۔

چوتھی صدی ہجری کا آغاز ہوچکا تھا۔ دنیائے اسلام کی عظیم علمی شخصیتیں رخصت ہوچکی تھیں۔ علمی محفلیں بے نور ہوگئی ایسے ماحول میں قدرت نے امام دارقطنی کو پیدا فرمایا۔ آپ کی ولادت ۳۰۶ھ میں ہوئی۔

تحصیل علم:

امام دراقطنی نے دنیائے اسلام کے عظیم علمی شہر بغداد میں نشونما پائی جو عباسیوں کا پایۂ تخت اور علم و علماء کی راجدھانی تھا جہاں کے ذروں سے علم و فن کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔ آپ کا گھر بھی علم کی تجلیوں سے معمور تھا والد عمر بن احمد کا شمار محدثین میں ہوتا تھا۔ جن کی آغوش ترتیب میں دار قطنی نے پرورش پائی اور صغر سنی ہی سے طلب علم کا شوق پروان چڑھنے لاگ۔ جب آپ کی عمر نو سال کی تھی درس حدیث میں شرکت شروع کردی۔ یوسف قواس کہتے ہیں کہ ‘‘جب ہم لوگ امام بغوی کی مجلس میں شرکت کرنے جاتے تھے اس وقت امام دار قطنی ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا لیے ہوئے ہمارا پیچھے پیچھے چلتے تھے۔’’ (سیراعلام النبلاء، ج۱۶، ص۴۵۲)

نیز فرماتے ہیں کہ ‘‘ایک مرتبہ ہم لوگ ابن منیع کے یہاں جارہے تھے یہ بھی روٹی پر سالن ڈالے ہوئے پیچھے پیچھے آرہے تھے ہم نے ان کو اندر جانے نہیں دیا وہ وہیں دروازے پر بیٹھے روتے رہے۔’’ (تاریخ دمشق، ج۲۲، ص۲۴۱)

قدرت نے آپ کو بے پایاں ذوق طلب اور حفظ و ضبط کی غیر معمولی قوت عطا کی تھی چناں چہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ طلب علم کے میدان میں داخل ہوئے اور بڑے انہماک سے حدیث و فقہ تفسیر و قرأت عربیت و شعر کی تحصیل میں مدتین گزاریں آپ کی قوت حفظ کا یہ واقعہ بڑا ہی نرالا ہے۔

حافظہ:

خطیب فرماتے ہیں ازہری نے بیان کیا کہ ایک دفعہ امام دار قطنی اپنی نوعمری میں مشہور محدث اسماعیل صفار کے حلقۂ درس میں شریک ہوئے وہ املا کرار ہے تھے اور یہ بیٹھے کوئی دوسری کتاب نقل کر رہے تھے حاضرین میں سے کسی نے کہا تمہارا سماع صحیح نہیں کیوں کہ تم  توجہ سے سننے کے بجائے دوسری کتاب نقل کرنے میں مصروف ہو بولے میری سمجھ  اور آپ کی سمجھ میں فرق ہے بھلا بتلائیے اب تک شیخ نے کتنی حدیثیں املا کرائیں ہیں؟ بولے مجھے یاد نہیں ہے آپ نے فرمایا اس وقت تک ۱۸ حدیثیں املا کرا چکے ہیں۔ پہلی حدیث کے راوی فلان فلاں ہیں اور اس کا متن یوں ہے دوسری حدیث کے فلاں فلاں راوی ہیں اور اس کا متن یہ ہے اس طرح ساری حدیثیں آپ نے من و عن بیان کردیں چناں چہ لوگ آپ کا یہ حافظہ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ (تذکرۃ، الحفاظ، ج۳، ص۱۸۷)

امام دارقطنی کا شہر علم و علماء کا مرکز تھا جہاں بڑے بڑے محدثین، فقہاء، مفسرین اور ادباء کے حلقے قائم تھے مگر آپ کا شوق علم اتنا بڑھا ہوا تھا کہ بغداد کے علماء سے سیری نہ ہوئی اور دوسرے بلادو امصار کا رخ کیا۔ کوفہ، بصرہ، شام، واسط اور مصر کی خاک چھانی اور وہاں کے علماء و مشائخ سے حدیث، تفسیر، فقہ اور دوسرے مروجہ اسلامی علوم و فنون کا درس لیا اس طرح ان کے شیوخ و اساتذہ کی تعداد کافی ہے چند اہم شیوخ حدیث یہ ہیں۔

امام بغوی، ابن ابی داؤد، ابن ساعد، حضرمی، ابن درید، ابن فیروز، علی بن عبداللہ بن بشر محمد بن قاسم محاربی، ابو علی محمد بن سلیمان مالکی، ابو عمر قاضی ابو جعفر احمد بن بہلول، ابن زیاد نیشاپوری بدر بن ہشم قاضی، احمد بن قاسم فرائضی، حافظ ابو طالب۔ (تذکرۃ، الحفاظ، ج۳، ص۱۸۶) ابراہیم بن حماد، ابو سعید عدوی، ابو القاسم عبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز، احمد بن عیسیٰ بن مسکین بلدی، عبد الوہاب بن ابی حیہ، فضل بن احمد زبیدی، محمد بن نوح جند سابوری، ابو عمر محمد بن یوسف قاضی ازدی، یوسف بن یعقوب نیشاپوری۔ (کتاب الانساب ورق ۲۱۷)

فضل و کمال اور جامعیت:

یوں تو امام دار قطنی کا خاص میدان حدیث، رجال اور علوم حدیث کی معرفت تھا مگر وہ نحو، ادب تفسیر، قرأت اور فقہ میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔ ابن خلکان لکھتے ہیں:

‘‘کان عالماً حافظاً فقیھاً علی مذھب الامام الشافعی رضی اللہ عنہ اخذ الفقہ عن ابی سعید الا صطخری الاصطخری الفقیہ الشافعی وقیل بل اخذہ عن صاحب لا بی سعید واخذ القرأۃ عرضا وسماعا عن محمد بن الحسن النقاش، وعلی بن سعید القزاز و محمد الحصین الطبری ومن فی طبقتھم وسمع من ابی بکر بن مجاھد وھو صغیر وانفرد بالامامۃ فی علم الحدیث فی دھر ولم ینازعہ فی ذلک احد من نظرائہ وتصدر فی آخر ایامہ للاقراء ببغداد و کان عارفا باختلاف الفقھاء ویحفظ کثیرا من دواوین العرب منھا دیوان السید الحمیری ’’۔ (وفیات الاعیان، ج۲، ص۴۲، ۱۴۱)

وہ عال، حافظ اور فقیہ امام شافعی کے مسلک کے ماننے والے تھے انہوں نے فقہ کی تعلیم فقیہ شافعی ابو سعید اصطخری سے حاصل کی اور کہا گیا کہ انہوں نے ابو سعید کے ایک شاگرد سے حاصل کی اور فن قرأت عرضا و سماعاً محمد بن حسن نقاش، علی بن سعید قزازی، محمد بن حصین طبری اور ان کے ایک طبقہ سے حاصل کیا۔ صغر سنی ہی میں ابوبکربن مجاہد سے حدیث کا سماع کیا اور وہ اپنے زمانہ میں علم حدیث کے اندر انفرادی شان کے مالک ہوئے اور معاصرین میں کوئی ان کے برابر نہیں ہوا اور اپنے آخری زمانے میں فن قرأت میں بغداد کے اندر صف اول کے کے قاری بن گئے اور وہ اختلاف فقہاء کی معرفت رکھتے تھے اور انہوں نے کثرت سے عرب شعراء کے دواوین یاد کر رکھے تھے ان میں سید حمیر کا بھی دیوان ہے۔

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ عنہ لکھتے ہیں:

‘‘علم نحوفن تجوید میں بھی کامل مہارت رکھتے تھے۔ فن معرفت علل حدیث و اسماء الرجال میں بے نظیراور اپنے وقت کے یگانہ تھے چناں چہ خطیب اور حاکم اور اس فن کے دوسرے اماموں نے ان کی فضیلت کی شہادت دی ہے۔ نیز مذاہب فقہاء سے بھی باخبر تھے علم ادب و شعر سے بھی خوب واقفیت رکھتے تھے۔’’ (بستان المحدثین، ص۷۶)

  • ابو القاسم ازہری: ‘‘کان الدار قطنی ذکیا اذا ذکر شیئا من العلم ای نوع کان وجد عندہ منہ نصیب وافر’’ امام دار قطنی بڑے روشن دماغ اور ذہین تھے جب کبھی کسی قسم کا علمی تذکرہ چھڑتا تو آپ اس میں کافی دسترس کا ثبوت بہم پہونچاتے۔ (تذکرۃ الحفاظ، ج۳، ص۱۸۸)

حافظ ابو ذر کہتے ہیں میں نے امام حاکم سے پوچھا کیا آپ نے امام دارقطنی جیسا کوئی آدمی دیکھا ہے بولے ‘‘ھولم یر مثل نفسہ فکیف انا؟’’انہوں نے خود اپنے جیسا کوئی آدمی نہیں دیکھا میں کیسے دیکھتا۔ (ایضاً)

  • حافظ ذہبی لکھتے ہیں: ‘‘فاشھد انہ لم یخلف علی ادیم الارض مثلہ’’ میں شہادت دیتا ہوں کہ انہوں نے اپنے پیچھے روئے زمین پر اپنے جیسا کوئی آدمی نہیں چھوڑا۔ (ایضاً، ص۱۸۷)

حدیث:

یوں تو امام دارقطنی کی ذات علوم و فنون کا مجمع البحرین تھی مگر انہیں شہرت اور عظمت علم حدیث میں امتیاز کی بنا پر حاصل ہوئی۔ آپ کی کثرت حدیث، معرفت رجال و علل، تعدد طرق اور جرح و نقد حدیث کی صلاحیت کا اعتراف بڑے بڑے محدثین اور علماء فن نے کیا ہے۔

  • خطیب بغدادی: ‘‘انتھیٰ الیہ علم الاثر والمعرفۃ بعلل الحدیث واسماء الرجال واحوال الرواۃ مع الصدق والامانۃ والفقہ والعدالۃ’’ علم حدیث کی جانکاری، علل حدیث اور رجال کی معرفت احوال رواۃ کا علم، صداقت و امانت، فقہ اور عدالت کے ساتھ ساتھ آپ پر ختم ہے۔ (تاریخ بغداد، ج۱۲، ص۳۴)
  • حاکم: ‘‘صار الدار قطنی اوحد عصرہ فی الحفظ والفھم الوارع واماماً فی القرأۃ والنحویین واقمت فی سنۃ سبع وستین بغداد اربعۃ اشھر وکثر اجتماعنا فصادفتہ فوق ماوصف لی وسالتہ عن العلل والشیوخ’’ امام دارقطنی حفظ، فہم اورورع میں یکتائے روزگار تھے نیز قراء اور نحاۃ کے امام تھے میں نے ۶۷ھ میں بغداد میں چار مہینے قیام کیا اس عرصے میں ان سے اکثر ملنے کا اتفاق ہوا میں نے جیسا سنا تھا ان کو اس سے زیادہ پایا میں نے علل حدیث اور شیوخ کے متعلق ان سے بہت سے سوالات حل کیے۔ (تذکرہ، ج۳، ص۱۸۷)
  • ابوطیب طبری: ‘‘الدار قطنی امیر المومنین فی الحدیث’’ امام دارقطنی حدیث میں مسلمانوں کے امام ہیں۔ (ایضاً، ص۱۸۸)
  • ابن عماد: ‘‘آپ امام اعظم، شیخ الاسلام ہیں آپ پر حدیث اور علوم حدیث کی معرفت ختم ہے آپ کو امیر المومنین فی الحدیث کہا جاتا ہے’’۔ (شذرات الذہب، ج۳، ص۱۱۶)

امام دارقطنی کثرت اسانید کے لحاظ سے بھی امتیازی شان رکھتے تھے۔ عتیقی کا بیان ہے کہ ‘‘میں ایک دفعہ امام دارقطنی کی مجلس میں حاضر تھا۔ ابو الحسن بیضاوی ایک اجنبی آدمی کو لائے اور امام صاحب سے درخواست کی کہ اس کو چند احادیث املاء کرائیں۔ چناں چہ آپ نے اس کو مجلس میں بیس سےزیادہ حدیثیں زبانی لکھائیں ان سب کا متن یہ تھا ‘‘نعم الشئی الھدیۃ امام الحاجۃ’’ یعنی کسی کو ضرورت کے وقت ہدیہ دینا بہت اچھی چیز ہے وہ آدمی چلا گیا۔ کچھ مدت کے بعد پھر آیا اور امام کی خدمت میں کچھ ہدیہ بھی پیش کیا اس وقت آپ نے اس وقت آپ نے اس کو زبانی سترہ حدیثیں لکھائیں ان سب کا متن یہ تھا۔ ‘‘اذا جاء کم کریم قوم فاکرموہ’’  یعنی جب تمہارے پاس کسی قبیلہ کا کوئی معزز آدمی آئے تو اس کی تعظیم کرو’’۔ (تذکرہ، ج۳، ص۱۸۹)

علوم حدیث:

امام دارقطنی حدیث کی اسناد و متون کے ساتھ علم سے متعلق تمام ضروری امورمیں پوری مہارت رکھتے تھے۔ اسماء الرجال، جرح و تعدیل، علل حدیث، روایت و درایت میں وہ یکتائے روزگار تھے۔ آپ کا شمار ناقدین حدیث کے زمرہ میں کیا جاتا ہے۔ رجال کی تمام معتبرہ و متداول کتابوں میں ان کے نقدو جرح کے اقوال موجود ہیں۔ علل حدیث میں بھی ان کو کمال حاصل تھا اور وہ سندوں کی خفی علتوں سے بخوبی واقف تھے۔ ازہری کہتے ہیں: میں نے دیکھا ہے ایک دفعہ امام دارقطنی نے حدیث کی کسی علت یا راوی کے کسی نام سے متعلق ابن ابی الفوارس کے کسی اشکال کا جواب دیا پھر فرمایا اے ابو الفتح مشرق اور مغرب کے درمیان اس کا جواب میرے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (ایضاً)

ایک روز نوافل ادا کر رہے تھے اور ایک دوسرا شخص ان کے متصل بیٹھا ہوا کسی حدیث کا کوئی نسخہ پڑھ رہا تھا اس نسخہ کے راویوں کے ناموں میں ایک نام نسیر آیا جونون اور سین مہملہ اوریاء تصغیر سے ہے اس پڑھنے والے نے بشیر باء موحدہ اور شین معجمہ سے پڑھا تو دارقطنی نے اس کو اس غلطی پر متنبہ کرنے کے لیے نماز میں ہی سبحان اللہ پڑھنے والے نے دوسری مرتبہ بسیر بضم باء تحتانی پڑھا جب دارقطنی نے خیال کیا کہ صحیح لفظ پر متنبہ نہیں ہوا پھر دارقطنی نے سبحان اللہ کہا مگر وہ نہ سمجھا تو آپ نے یہ آیت پڑھی ‘‘نون والقلم ومایسطرون’’ تاکہ وہ سمجھ جائے کہ اس راوی کا نام نون کے ساتھ ہے۔ (بستان المحدثین، ص۷۷)

ممتاز محدثین اور ائمہ فن نے ان کے کمال کا اعتراف کیا ہے:

  • محمد بن طاہر مقدسی: ‘‘آپ کی مثال اپنے زمانے میں وہی تھی جو ابن معین کی اپنے دور میں تھی۔ آپ کے دور کے حفاظ حدیث نے علوم حدیث کی معرفت آپ سے حاصل کی راویوں کے بارے میں سوالات کرکے تحریر کیا ہم کو پتہ نہیں کہ کسی نے یہ علم آپ کے علاوہ کسی اور سے لیا ہو۔’’ (مقدمہ محقق، ج۱، ص۳۱)
  • عبدالغنی ازدی: ‘‘حدیث رسول پر اپنے اپنے دور میں گفتگو کرنے والے تین افراد سب سے بہتر ہیں۔ علی بن مدینی، موسیٰ بن ہارون اور امام دارقطنی’’۔ (تاریخ بغداد، ج۱۲، ص۳۴)
  • امام ذہبی: ‘‘آپ شیخ الاسلام سرخیل نقاد، علم کے بحر بیکراں اور امام وقت تھے آپ پر حفظ حدیث معرفت علل اور رجال کا خاتمہ ہے’’۔ (سیر اعلام النبلاء، ج۱۲، ص۲۵۰)
  • حافظ ابن جوزی: ‘‘امام دارقطنی کی علم حدیث اسماء الرجال اور علل حدیث میں معرفت مسلم ہے’’۔
  • حافظ ابن کثیر: ‘‘احادیث پر نظر اور علل وانتقاد کے اعتبار سے وہ نہایت عمدہ تھے اپنے دور میں فن اسماء الرجال، علل اور جرح و تعدیل کے امام اور فن درایت میں مکمل دستگاہ رکھتے تھے۔’’

حدیث و اسماء ارلرجال سے ان کی گہری واقفیت کا اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص ان کے جملوں میں معمولی غلطی بھی کرتا تو وہ فوراً اس کو تاڑ جاتے اور بروقت اس کی اصطلاح کردیتے تھے ایک مرتبہ خلال نے یہ حدیث پڑھی ‘‘اللھم انک عفو تحب العفوفعف عنی’’ اس میں انہوں نے عفو کو مخفف پڑھا تو امام صاحب نے فوراً ٹوکاکہ عفو مشددہے۔

حلقۂ درس اور تلامذہ:

امام دارقطنی کی جامع فضل و کمال ہستی کا شہرہ بہت جلد ان کے وطن سے نکل کر دوسرے مسلم شہروں اور قریوں تک پہونچا اور لوگ بڑے ذوق شو کے ساتھ آپ سے کسب فیض کے لیے جوق در جوق آنے لگے جس سے حلقۂ درس کافی وسیع ہوگیا۔ علمی کمالات کا رعب مجلس درس پر اس طرح قائم رہتا کہ کسی کو بیجالب کشائی کی جرأت نہ ہوتی۔ حلقۂ درس میں وقار اور سنجیدگی کا ماحول قائم رہتا۔ ابن شاہین محدث ایک بار مجلس درس میں حاضر ہوئے تو آپ کے رعب و جلال کی وجہ سے ایک کلمہ بھی زبان سے نہ نکال سکے کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہوجائے۔ تلامذہ آپ کو بڑی قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتے اور ہر جگہ احترام ملحوظ رکھتے۔ آپ کے تلمیذ رشید عبدالغنی جو بلند پایہ محدث تھے جن کے بارے میں برقانی نے کہا ‘‘دارقطنی کے بعد میں نے ان سے بڑا کوئی حافظ حدیث نہیں دیکھا’’ لیکن عبدالغنی جب کبھی دارقطنی کے حوالہ سے کوئی بات بیان کرتے تو قال استاذی یا سمعت استاذی وغیرہ ضرور کہتے۔ اس کا سبب دریافت کیا گیا تو نہایت فراخدلی کے ساتھ اعتراف کیا کہ ہم نے جو دوچار حروف سیکھے ہیں وہ ان ہی امام دارقطنی کا فیض ہے۔ (تذکرہ، ج۲، ص۱۸۷، تاریخ بغداد، ج۱۲، ص۳۸)

آپ سے کسب علم کرنے والوں کی کثیر تعداد ہے کچھ ممتاز تلامذہ یہ ہیں:

حاکم ابو حامد اسفرائنی، تمام الرازی، حافظ عبدالغنی ازدی، ابوبکر برقانی، ابو ذرہروی، ابو نعیم اصبہانی، ابومحمد الخلال، ابوالقاسم بن محسن، ابو طاہر بن عبدالرحیم، قاضی ابوطیب طبری، ابوبکر بن بشران، حمزہ سہمی، ابو محمد جوہری ابوالحسین بن آبنوی، عبدالصمد بن مامون، ابو الحسین بن مہتدی باللہ۔ (تذکرہ، ج۳، ص۱۸۶) ابو طالب بن عباری، ابو القاسم بن بشران، ابو القاسم ازہری، حمزہ بن محمد بن طاہر، عبدالعزیز ازجی، ابو عبدالرحمٰن محمد بن حسین سلمی۔

تصانیف اور سنن دارقطنی:

ماہر علوم و فنون امام دارقطنی نے مختلف علوم و فنون پر اہم تصانیف یاد گار چھوڑیں جن میں اکثر ناپید ہوگئیں بعض کتابوں کے نام یہ ہیں:

کتاب الرڈیت، کتاب المستجاد، کتاب معرفۃ مذاہب الفقہاء، غریب اللغۃ، الاربعین اختلالف المؤطات، غرائب مالک، کتاب الضعفاء اسماء المدلسین، اسئلۃ الحاکم، کتاب الجہر، رسالہ قرأت الرباعیات، کتاب المجتبیٰ، کتاب الاخوہ، کتاب الافراد، کتاب العلل، کتاب التصحیف، کتاب المؤتلف ولمختلف، باب القضاء بالیمین مع الشاہد، (تذکرۃ المحدثین، دوم، ص۹۷) سنن کو شہرت دوام حاصل ہوئی یہ کتاب صحاح ستہ کے بعد صحت کے لحاظ سے اہم شمار کی جاتی ہے حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دارقطنی کی یہ مشہور کتاب اس فن کی بہترین کتابوں میں ہے۔ (ایضاً، ص۱۰۱)

صاحب کشف الظنون لکھتے ہیں: ‘‘فن حدیث میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں مگر علماء سلف و خلف کا اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ صحیح اور معتبر کتاب بخاری شریف ہے پھر صحیح مسلم اور مؤطا امام مالک ہیں ۔ان کے بعد امام ابو داؤد، ترمذی، نسائی ابن ماجہ اور دارقطنی کی کتابوں اور مشہور مسانید کا درجہ ہے۔’’ (کشف الظنون، ج۱، ص۴۲۶)

اس کتاب کی چند اہم خصوصیات یہ ہیں:

  • امام دارقطنی کو کثرت و تعدد طرق میں بڑا کمال حاصل تھا سنن میں اسانید و طرق کا انہوں نے استقصاء کیا چناں چہ قلتین والی حدیث کی ۵۲ سندیں بیان کی ہیں۔
  • سنن دارقطنی نقد و جرح حدیث کے متعلق اقوال کا عمدہ ذخیرہ ہے انہوں نے اکثر طرق و اسانید بیان کرنے کے ساتھ ان پر مفصل کلام کرکے ان کی قوت و ضعف کا فیصلہ اور حدیث کے مرتبہ کی تعیین کی ہے۔
  • اس کتاب سے فقہی آراء اور اجتہادی اختلافات ائمہ کا علم بھی ہوتا ہے۔
  • رواۃ کے اسماء وکنی، بلاد و مساکن اور بعض مشکل و غریب الفاظ حدیث کی مختصر وضاحت بھی ہے۔
  • روایت کے حسن وقبح کے ضمن میں بعض واقعات اور تاریخی حالات بھی زیر بحث آگئے ہیں۔

کتاب العلل:

علل میں یہ کتاب متقدمین کی اہم کتابوں کا خلاصہ ہے اور بڑی جامع کتاب ہے۔ ابوعبداللہ حمید اندلسی کا بیان ہے کہ ‘‘فن حدیث کی تین اہم چیزوں میں ایک العلل بھی ہے اور اس میں سب سے عمدہ داقطنی کی ہے۔’’ (مقدمہ ابن صلاح، ص۱۹۰)

ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ‘‘اس میں صحیح و غلط، متصل و مرسل اور منقطع و معضل وغیرہ کی وضاحت کی گئی ہے’’ اس کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علل کے طرق کی کثرت و تعدد کو جمع کیا گیا ہے یہ مسانید کی ترتیب پر ہے۔

المؤتلف والمختلف:

امام دارقطنی کی یہ کتاب اس فن کی انتہائی اہم اور وسیع کتاب ہے۔ جس میں محدثین کرام اور اویان حدیث کے مشتبہ اسماء و کنی اور القاب کا ذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ دیگر اشخاص، فقہاء، ادباء، شعراء وغیرہ نیز اسماء قبائل و مقامات کا بھی ذکر کیا ہے حتی کی بعض لغوی کلمات جو مشتبہ ہوتے ہیں ان کو بھی کتاب میں شامل کرلیا ہے۔ (المؤتلف والمختلف، ج۱، ص۸۵ مقدمہ)

امام سخاوی اس کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں ‘‘وھو کتاب حافل’’ وہ بڑی عظیم کتاب ہے۔ (فتح المغیث، ج۴، ص۲۳۱)

اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ بعد کے مصنفین نے فن اسماء الرجال میں جوکتابیں تحریر کیں ان کی اساس یہی کتاب بنی۔ اہل علم نے اس کتاب پر پورا اعتماد کیا ہے۔

سیرت و کردار: امام صاحب علم و فضل میں جس قدر بلند مقام رکھتے تھے سیرت و کردار میں بھی اتنے ہی عظیم تھے۔ زہد و تقویٰ، عبادت و ریاضت ان کا مشغلہ تھا۔ یوں تو وہ خاموش طبع، متواضع اور انتہائی خلیق انسان تھے لیکن دین کے معاملہ میں ذرا بھی مداہنت گوار نہ تھی۔ لوگوں کی دل آزاری نہ کرتے۔ طلبہ کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کرتےتھے ان کی مالی امداد کرتے تھے۔ ان کے ورع و تقویٰ کے بارے میں حاکم بیان ہے ‘‘وہ درع و تقویٰ میں بے مثال تھے’’۔

وفات:

صحیح قول کے مطابق اس پیکر علم و عمل کا وصال ۸ ذوقعدہ ۳۸۵ھ کو ہوا۔ ابو حامد افرائنی (فقیہ) نے نماز جنازہ پڑھائی اور شیخ معروف کرخی کے مزار کے متصل باب حرب میں سپرد خاک کیے گئے۔


متعلقہ

تجویزوآراء