حضرت امام محمد بن حسن شیبانی

حضرت امام محمد بن حسن شیبانی رضی اللہ تعالٰی عنہ

۱۳۲؁ھ  ۱۸۹؁ھ

 

اسم گرامی محمدکنیت ابو عبداللہ سلسلۂ نسب یہ ہے محمد بن حسن بن فرقد شیبانی، قبیلہ شیبان کی طرف نسبت ولاء کی وجہ سے منسوب ہوئے۔ حسن دمشق کے قریب حرسانامی گاؤں میں رہتے تھے جو شامی فوج میں سپاہی تھے لشکری ضرورت سے" واسط "آئے اور اسے اپنا مسکن بنا لیا جہاں ۱۳۲؁ھ میں امام محمد کی ولادت ہوئی۔ پھر والدین نے کوفہ کو وطن بنایا جہاں آپ کی پرورش و پرداخت ہوئی۔

حضرت امام محمد بن حسن شیبانی رضی اللہ تعالٰی عنہ

۱۳۲؁ھ  ۱۸۹؁ھ

 

اسم گرامی محمدکنیت ابو عبداللہ سلسلۂ نسب یہ ہے محمد بن حسن بن فرقد شیبانی، قبیلہ شیبان کی طرف نسبت ولاء کی وجہ سے منسوب ہوئے۔ حسن دمشق کے قریب حرسانامی گاؤں میں رہتے تھے جو شامی فوج میں سپاہی تھے لشکری ضرورت سے" واسط "آئے اور اسے اپنا مسکن بنا لیا جہاں ۱۳۲؁ھ میں امام محمد کی ولادت ہوئی۔ پھر والدین نے کوفہ کو وطن بنایا جہاں آپ کی پرورش و پرداخت ہوئی۔

تعلیم و تربیت:

کوفہ اس وقت علم و فضل کا گہوارہ تھا یہیں امام محمد کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوا۔ اولاً قرآن، ادب، لغت کی تحصیل کی پھرشیوخ کوفہ کے حلقہ ہائ درس میں شریک ہوئے فطری صلاحیت اور ذوق علم نے صغر سنی ہی میں جوہر قابل بنا دیا۔ چودہ سال کی عمر میں امام اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور امام صاحب کی زندگی میں کسی اور کے سامنے زانوئے تلمذتہہ نہ کیا امام صاحب کی وفات کے بعد امام ابو یوسف سے فقہ کی تکمیل کی۔

فقہ و تفسیر کے علاوہ حدیث کا ذوق بھی امام محمد شیخین کی خدمت میں پیدا ہوچکا تھا مگر اس حلقۂ درس کی بنیادی خصوصیت فقہ و قرآن تھی اس لیے انہیں کسی ایسے شیخ کی ضرورت تھی جو خالص حدیث کا امام ہو۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے انہوں نے مدینہ منورہ کا سفر کیا اور امام مالک کی خدمت میں حاضر ہوکر شرف تلمذ  حاصل کیا امام محمد تین برس تک مدینہ میں مقیم رہے اور بالالتزام امام دارالہجرت سے سماع حدیث کرتے رہے اور سات سو حدیثیں سنیں۔

امام محمد کے اہم شیوخ و اساتذہ یہ ہیں:

امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، اسماعیل بن ابی خالد احمسی، سفیان ثوری، مسعر بن کدام، مالک بن مغول، قیس بن ربیع، عمر بن زر، بکیر بن عام، ابو بکر نہثلی، عبداللہ بن قطاف، محل بن محرز الصبنی، یحییٰ بن مہلت، عبدالرحمٰن بن ن عبداللہ بن عتبہ، اسرائیل بن یونس، بدر بن عثمان، ابو الاحوص، سلام بن سلیم، سلام بن سلیمان، ابو معاویہ ضریر، محمد بن حازم، امام زفر، اسماعیل بن ابراہیم بجلی، فضیل بن غزوان، حسن بن عمارہ، یونس بن اسحاق سبیعی، عبدالجبار بن عباس، محمد بن ابان صالح قرشی، سعید بن عبید طائی، عروہ بن حارث، علاء بن زہیر، امام مالک، ابراہیم بن محمد بن ابی یحییٰ، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عمر بن حفص، خارجہ بن عبداللہ بن ابی سلیمان، محمد بن صلال، ضحاک بن عثمان، اسمٰعیل بن رافع، عطاف بن خالد، اسحاق بن حازم، ہشام بن سعید، اسامہ بن زید لیثی، داؤد بن قیس فراء، عیسیٰ بن ابی عیسیٰ خیاط، عبدالرحمٰن بن ابی زناد، محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی ذئب، حشم بن عراک، سفیان بن عیینہ، زمعہ بن صالح، اسماعیل بن عبدالملک، طلحہ بن عمرو، سیف بن سلیمان، ابراہیم بن یزید اموی، زکریا بن اسحاق، عبداللہ بن عبدالرحمٰن ثقفی، عبدالعزیز بن ربیع بصری، ہشام بن ابی عبداللہ ربیع بن ضمی، ابو جرہ واصل بن عبدالرحمٰن، سعید بن ابی عروبہ، اسمعیل بن ابراہیم بصری، مبارک بن فضالہ عباد بن عوام، شعبہ بن حجاج، ابو مالک عبدالملک، ابو عمرو عبدالرحمٰن اوزاعی، محمد بن راشد مکحولی، اسماعیل بن عیاش حمصی، ثور بن یزید مشقی، عبدالملک بن مبارک ایوب بن عتبہ۔

قوت حفظ اور ذہن رسا:

امام محمد کو خداوند تعالیٰ نے حفظ و ضبط کی بے مثال قوت عطا فرمائی تھی۔ ذہانت و فطانت کے جوہر سے مالا مال تھے۔ وہ تحقیق و جستجو کا فطری ذوق رکھتے تھے۔ امام اعظم کی بارگاہ میں تقریب کا سبب بھی ایک دقیق مسئلہ کا استفسار تھا۔ ابھی تیرہ سال کا سن تھا کہ امام اعظم کی بارگاہ میں اس مسئلہ کو دریافت کرنے کی غرض سے حاضر ہوئے کہ اگر کوئی نابالغ عشاء کی نماز پڑھ کر سوجائے  اور رات ہی میں بالغ ہوجائے تو عشاء کی نماز دہرائے گا یا نہیں؟ امام اعظم نے فرمایا دہرائے گا امام محمد نے اسی وقت اٹھ کر ایک گوشہ نماز پڑھی امام اعظم نے یہ دیکھ کر بے ساختہ فرمایا۔ انشاء اللہ یہ لڑکا رجل رشید ثابت ہوگا اس واقعہ کے بعد امام محمد امام اعظم کی درسگاہ میں گاہ بگاہ حاضر ہونے لگے اور تحصیل علم کا ذوق پروان چڑھنے لگا۔ چناں چہ باضابطہ طور پر مجلس درس میں حاضر ہونے لگے اور تحصیل علم کا ذوق پروان چڑھنے لگا۔ چناں چہ باضابطہ طور پر مجلس درس میں حاضری کی درخواست کی۔ امام صاحب نے فرمایا ‘‘پہلے تم قرآن مجید حفظ کرو پھر حلقہ درس میں شریک ہونا’’ ایک ہفتہ کے بعد حاضر ہوئے تو امام صاحب نے فرمایا میں نے تم سے کہا تھا قرآن مجید حفظ کرکے آنا۔ آپ نے عرض کیا میں نے قرآن مجید حفظ کرلیا ہے۔ امام صاحب نے انہیں حلقۂ درس میں شامل کرلیا۔ (مناقب کردری، ج۲، ص۱۵۵)

یہ دونوں واقعات امام صاحب کی دقیقہ رسی اور بے مثال قوت حافظہ کی دلیل ہیں۔

ایک مرتبہ ہارون رشید نے آپ سے کہا میں نے زبیدہ  سے کہا کہ میں امام عادل ہوں اور امام عادل جنت میں ہوتا ہے۔ زبیدہ نے پلٹ کر کہا نہیں تم ظالم اور فاجر ہو اور جنت کے اہل نہیں ہو۔ آپ نے یہ سن کر ہارون رشید سے فرمایا کبھی گناہ کے وقت یا گناہ کے بعد خدا کا خوف لاحق ہوا؟ ہارون نے کہا خدا کی قسم مجھے گناہ کے بعد اللہ تعالیٰ کا بیحد خوف ہوتا ہے فرمایا پھر تم دو جنتوں کے وارث ہو کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ‘‘ولمن خاف مقام ربہ جنتان’’ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو دو جنتیں عطا فرماتا ہے۔ (مناقب کردری، ج۲، ص۱۵۵)

امام محمد کی خوش بختی تھی کہ انہیں کوفہ جیسی معارف پرور فضا میں پروان چڑھنے کا موقع ملا اور تحصیل فقہ کے لیے امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کے بعد قاضی ابو یوسف کی صحبت نصیب ہوئی۔ اور تحصیل حدیث کے لیے امام دارلہجرت مالک بن انس کی مجلس درس نصیب ہوئی۔ حدیث و فقہ کے علاوہ امام محمد نے سیرو مغازی، عربیت میں بھی کمال پیدا کرلیاتھا۔ بخت کی یاوری سے انہیں رحلت و سفر کے لیے کسی کا محتاج نہ ہونا پڑا۔ کسب معاش سے بے نیاز ہوکر انہوں نے عمر عزیز کا بہت بڑا حصہ علوم و فنون کی تحصیل میں گذار دیا  انہیں ترکہ میں تیس ہزار درہم ملے تھے جن کو طلب علم کی راہ میں خرچ کر ڈالا۔ وہ خود کہتے ہیں: مجھے اپنے والد سے تیس ہزار درہم ترکہ میں ملے ‘‘وحکی عنہ قال مات ابی و ترک ثلاثین الف دراھم فانفقت خمسہ عشر الفا علی النحو والشعر و خمسۃ عشر الفا علی الحدیث والفقہ’’جن میں سے نصف مین نے لغت، نحو اور شعر کی تحصیل میں صرف کئے اور پندرہ ہزار فقہ و حدیث کی طلب میں خرچ کردئیے۔ (کتاب الانساب سمعانی)

فضل وکمال:

امام محمد نے فقہ و حدیث اور دیگر علوم و فنون میں درجۂ امامت حاصل کرلیا تھا۔ ان کے وفورعلم قوت استدلال و استنباط، دقیقہ سنجی، اور حذاقت فی العلم کا اعتراف ملت بیضاءکے اکابر ائمہ اور شیوخ نے کیا ہے۔

m               ابو عبید: ‘‘ما رأیت اعلم کتاب اللہ من محمد بن حسن’’ میں نے محمد بن حسن سے زیادہ کتاب اللہ کا جاننے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ (الفوائد البہیہ، ص۶۶)

m               امام شافعی: ‘‘مارأیت افصح منہ وکنت اظن اذ رأیتہ یقرأ القرآن کان القرأن نزل بلغتہ’’ میں نے ان سے زیادہ فصیح اللسان کسی نہیں دیکھا جب وہ قرآن پڑھتے تھے تو معلوم ہوتا تھا گویا ان ہی کی لغت میں نازل ہوا ہے۔ (کتاب الانساب للسمعانی)

m               ‘‘اعانتی اللہ برجلین بابن عیینہ فی الحدیث ولمحمد فی الفقہ’’ اللہ نے دو شخصوں کےذریعہ میری معاونت فرمائی ابن عیینہ کے ذریعہ حدیث میں اور امام محمد کے ذریعہ فقہ میں۔ (ایضاً)

m               ‘‘انہ کان اذا اخذ فی المسئلۃ کانہ قرآن ینزل لا یقدم حرفاً ولا یوخرہ عنہ’’ امام محمد جب کسی مسئلہ کو بیان کرنا شروع کرتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ قرآن مجید نازل ہورہا ہے۔ کسی حرف میں تقدیم وما تأخیر نہ کرتے تھے اور ایسا منظم کلام کرتے کہ جس میں ایک حرف بھی مقدم و موخر کرنے کی گنجائش نہ ہوتی۔ (ملخصا مقدمہ، تعلیق الممجد)

m               ابن عماد حنبلی: امام محمد بن حسن سے زیاد حلال وحرام، علل حدیث، ناسخ ومنسوخ کا جاننے والا میرے علم میں کوئی دوسرا شخص نہیں۔ اگر لوگوں میں انصاف ہوتا تو وہ یقین کرتے کہ امام محمد جیسا کوئی شخص انہوں نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ (شذرات الذہب)

m               امام نووی: ‘‘طلب الحدیث وسمع  سمعاعاً کثیراً وجالس ابا حنیفۃ و سمع منہ ونظر  فی الرای فغلب علیہ و عرف بہ وتقدم فیہ’’ امام محمد حدیث کی طلب میں مشغول ہوئے اور بہت زیادہ حدیثیں سنیں امام ابو حنیفہ کی ہم نشینی اختیار کی ان سے بھی احادیث سنیں اور مسائل کا استنباط کیا یہ فن ان پر غالب آگیا اس میں دوسروں سے گوئے سبقت لے گئے اسی میں معروف و مشہور ہوگئے۔ (تہذیب الاسماء واللغات)

m               عبدالحی فرنگی محلی: ‘‘کان اعلم بکتاب اللہ ماھراً فی العربیہ والنحو والحساب’’ کتاب اللہ کے بہت جاننے والے تھے عربیت، نحو اور حساب میں ماہر تھے۔ (الفوائد البہیہ، ص۶۶)

m               مزنی: ‘‘مرحبا بمن یملا الآذان سمعاً والقلب فھما’’ مرحبا اس شخص جو کان کو سماع اور قلب کو فہم سے بھردیتا تھا۔ (تاریخ بغداد)

m               ربیع بن سلیمان: ‘‘میں نے محمد بن حسن سے زیادہ کوئی صاحب عقل نہیں دیکھا’’۔

m               امام شافعی: ‘‘مارأیت اعقل ولا فقہ ولا ازھد ولا اورع ولا احسن نطقاولا ایرادا من محمد ن الحسن’’ مین نے امام محمد جیسا عاقل، فقیہ، زاہد متقی خوش گفتار اور بحث و نقد کرنے والا نہیں دیکھا۔ (تہذیب الا سماء نووی)

حلقۂ درس و تلامذہ:

امام محمد نے اپنے عہد کے سب سے بڑے فقیہ اور محدث کے علاوہ بڑے بڑےعلماء علم و فن سے علوم متداولہ میں غیر معمولی کمال پیدا کرلیا تھا۔ ان کی شان علم کا اندازہ اوپر کے اقوال سے کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے شیوخ علم و فن کی دولت کو عام کرنے کے لیے جامع کوفہ میں حلقۂ درس کیا۔ امام اعظم ابو حنیفہ کے پوتے اسماعیل بن حماد کہتے ہیں۔

‘‘کان محمد یجلس فی مسجد الکوفۃ وھو ابن عشرین سنۃ’’ امام محمد نے کوفہ مسجد میں بیس برس میں تدریس شروع کردی تھی۔

امام شافعی کہتے ہیں: ‘‘کان اذا حد ثھم عن مالک امتلأ منزلہ و کثر الناس حتی یضیق علیہ الموضع’’ امام محمد جب مؤطا  کا درس دیتے تھے تو ان کا مکان بھر جاتا لوگ کثرت سے آتے کہ راستے بند ہوجاتے۔ (تہذیب الاسماء و للغات)

امام محمد نے کوفہ کے علاوہ بغداد، رے اور دوسرے مقامات میں بھی جہاں وہ گئے مجلس درس قائم کی اور ان کی فیض رساں باگاہ سے لوگوں نے خوب خوب کسب علم کیا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ‘‘میں نے امام محمد سے اونٹ کے بوجھ کے برابر علم حاصل کیا اگر وہ نہ ہوتے تو مجھ پر وہ علم نہ کھلتا جو کھلا ہے۔ (شذرات الذہب)

آپ کے نام تلامذہ یہ ہیں:

ابو حفص کبیر، امام شافعی، یحییٰ بن معین، موسیٰ بن سلیمان، جوزجانی، ابو عبید قاسم بن سلام، علی سعید، اسد بن فرات، ہشام بن عبداللہ، اسماعیل بن توبہ، علی بن مسلم طوسی (تذکرۃ المحدثین سعیدی ص۱۴۲)

خدمت حدیث:

امام محمد نے اپنے دور کے اساطین حدیث سے اس علم میں کمال پیدا کیا تھا وہ اپنی قوت حفظ و ضبط اور ذکاوت کی بناء پر حدیث نبوی کے بہت بڑے ذخیرے کے حامل بن گئے تھے۔ خصوصیت کے ساتھ امام مالک کی روایتوں کے وہ بہترین حافظ و امین سمجھے جاتے تھے۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں۔ ‘‘کان محمد بن حسن من بحور العلم والفقہ قویا فی مالک’’ امام محمد علم و فقہ کے سمندر تھے اور امام مالک کی مرویات میں قوی تھے۔ (میزان)

وہ درس حدیث کے لیے جامع کوفہ میں مجلس کا انعقاد بھی فرمایا کرتے تھے علم حدیث کے باب میں آپ کی دواہم کتابیں مؤطا امام محمد اور کتاب الآثار محتاج بیان نہیں۔ مؤطا امام مالک کے سولہ نسخے ہیں جن میں یحییٰ بن یحییٰ مصمووی کا نسخہ سب سے زیادہ معتبر خیال کیا جاتا ہے لیکن بعض وجوہ سے امام محمد کا روایت کردہ نسخہ اس سے کہیں زیادہ وقیع اور حامل افادیت ہے یحییٰ کے نسخۂ مؤطا میں کثرت سے مسائل فقہیہ اور امام مالک کے اجتہادات منقول ہیں بہت سے ابواب ایسے ہیں جن کے تحت کوئی حدیث نہیں ہے لیکن مؤطا امام محمد کی خصوصیت یہ ہے کہ کوئی ترجمۃ الباب ایسا نہیں جس کے تحت کوئی مرفوع یا موقوف روایت نہ ہوظاہر ہے کہ جس کتاب حدیث میں رائے و اجتہاد کا شمول ہوگا اس کے مقابلہ میں حدیث کی وہ کتاب جو نفس حدیث پر مشتمل ہوگی اسے فضیلت حاصل ہوگی۔

یحییٰ کے نسخے میں صرف امام مالک کی مرویات ہیں لیکن امام محمد کے نسخہ میں دوسرے شیوخ حدیث کی روایتیں بھی شامل ہیں ظاہر ہے کہ اس اضافہ میں افادیت زیادہ ہوگی۔

مؤطا امام محمد کی چند خصوصیات یہ ہیں۔

اس کتاب میں امام محمد ترجمۃ الباب کے بعد سب سے پہلے  اخبرنا مالک سے امام مالک کی روایت نقل کرتے ہیں اگر مسلک حنفی اس روایت کے مطابق ہوتو اس کے بعد ہذاناخذ فرماتے ہیں اور اگر اس روایت کا ظاہر مسلک حنفی کے خلاف ہوتو اس کی توجیہ ذکر کرکے مسلک حنفی کی تائید میں احادیث وآثار ذکر کرتے ہیں اور بسا اوقات دوسرے ائمہ کے اقوال بھی بیان کرتے ہیں۔

مؤطا امام محمد میں کل ۱۱۸۰؍احادیث ہیں جن میں دس سو پانچ حدیثیں امام مالک سے مروی ہیں اور ایک سو پچھتر دوسرے شیوخ سے مروی ہیں۔

حدیث میں امام محمد کی دوسری تصنیف کتاب الآثار ہے اس کتاب میں امام محمد نے احادیث سے زیادہ آثار کو جمع کیا ہے غالبا اسی وجہ سے ان کی یہ کتاب کتاب الآثار کے نام سےمشہور ہوئی اس کتاب میں ایک کتاب میں سو چھ احادیث ۷۱۸؍آثار ہیں ان کے علاوہ امام اعظم کے اقوال بھی شامل ہیں۔

یہ کتاب درحقیقت امام اعظم کی تصنیف ہے جس کے بارے میں امام محمد بن شجاع نے تصریح کی ہے امام صاحب نے چالیس ہزار احادیث و آثار سے کتاب الآثار کا انتخاب فرمایا ہے اور ان کے تلامذہ نے اس کی روایت کرکے اپنی طرف سے اضافہ و ترمیم کیا ہے جس کی وجہ سے بعد میں یہ نسخے مرتبین کے نام سے مشہور و معروف ہوئے اس طرح امام محمد، امام ابو یوسف، امام حماد، امام زفر، امام حفص بن غیاث کی کتاب الآثار امام ابو حنیفہ کی ہی کتاب الآثار ہے۔ (معارف ومأثر، ص۱۹۸)

کتاب الآثار:

امام محمد کی چند خصوصیات یہ ہیں:

اس کتاب میں بالخصوص صحابہ و تابعین  کے آثار کو فقہی ابواب پر جمع کیا گیا ہے اسی لیے اس میں احادیث مرفوعہ کے مقابلہ میں آثار موقوفہ بہت زیادہ ہیں اس کتاب کا مقصد صحاب و تابعین کے آثار کو یکجا کر کے یہ دکھانا ہے کہ جن احادیث کی آثار سے موافقت ہوتی ہے وہ معمول  بہاہیں گویا صحابہ و تابعین کے آثار احادیث رسول کے لیے شواہد و دلائل ہیں کیوں کہ مختلف فیہ احادیث کے بارے میں کبار صحابہ و تابعین کا تعامل، معیار وحکم کی حیثیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ ائمہ مجتہدین نے صحابہ و تابعین کے آثار کو خاص اہمیت دی جس کی ایک سنہری کڑی کتاب الآثار امام محمد کتاب میں اکابر و اعیان صحابہ کے اقوال و افعال اور فیصلے  مروی ہیں جو جماعت صحابہ میں مرجع و حجت تھے کتاب الآثار میں امام محمدکی تحقیق بصیرت اور اجتہاد کا جگہ جگہ اثر ظاہر ہوتا ہے۔

فقہ و فتاویٰ:

امام محمد کی علمی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو علم فقہ ہے اور وہ اپنے عہد میں فقہ کے تاجدار تھے ان کی فقہی بصیرت و اجتہاد کے دوسرے مجتہدین صرف معترف ہی نہیں بلکہ ان کی صحبت کے تربیت یافتہ یا ان کی فقہی تصانیف کے خوشہ چیں ہیں۔

امام احمد بن حنبل  کا بیان ہے فقہ کے تمام دقیق مسائل میں نے امام محمد سے اخذ کیے ہیں امام مزنی کہتے ہیں امام ابو حنیفہ اہل عراق کے سردار ہیں ابو یوسف ان سب سے زیادہ متبع سنت ہیں امام محمد نے سب سے زیادہ تفریع کی ہے۔

m               حافظ ذہبی کہتے ہیں: ‘‘انتھت  الیہ ریاسۃ الفقہ بالعراق بعد ابی یوسف وتفقہ بہ الائمۃ’’ عراق میں امام ابو یوسف کےبعد فقہ کی ریاست امام محمد پر ختم ہوگئی اور ان سے ائمہ نے تفقہ حاصل کیا۔ (میزان ترجمہ امام محمد)

امام شافعی کہا کرتے تھے میں فقہ میں امام محمد کا سب سے زیادہ ممنون احسان ہوں۔

امام محمد نے ایک لاکھ سے زیادہ مسائل مستنبط کیے استنباط و استخراج مسائل کے لحاظ سے ان کو اجتہاد کا درجہ حاصل تھا خلیفہ ہارون رشید نے آپ کی فقہی بصیرت سے متأثر ہوکر قاضی بنایا۔ امام محمد جب تک اس عہدہ پر فائز رہے بلاخوف و خطر عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے صادر فرماتے رہے انہوں نے کبھی اپنے فیصلوں میں خلیفۂ وقت یا ارکان دولت کی پرواہ نہ کی چناں چہ جب امام یحییٰ بن عبداللہ کے خلاف عہد شکنی کا مسئلہ پیش ہوا تو امام محمد نے خلیفہ ہارون رشید کی مرضی کے خلاف فیصلہ دیا تو آپ عتاب شاہی میں مبتلا ہوئے منصب قضاء و افتاء سے معزول کرکے آپ کو قید کردیا گیا اس طرح آپ نے قیدو بند کی صعوبتیں جھیلیں کچھ دنوں بعد آپ کی قید سے نکال کر اعزاز و اکرام کے ساتھ قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز کیا گیا۔ (مناقب کردری، ص۱۶۵)

تدوین فقہ کے باب میں امام محمد کا مرتبہ ان کے تمام معاصرین میں سب سے بلند ہے انہوں نے امام اعظم کے مجتہدات دوسرے ائمہ کے اقوال نیز اپنے استنباطات و تفریعات کو مبسوط، جامع کبیر، جامع صغیر، سیر صغیر، سیر کبیر اور زیادات میں جمع کرکے صرف احناف ہی نہیں بلکہ دیگر مکاتب فقہ کے فقہاء کے لیے اجتہاد و استنباط مسائل کی راہ کھول دی بلاشبہ دنیائے اسلام پر امام محمد کا یہ احسان عظیم ہے۔

تصانیف:

امام محمد امت اسلام کے عظیم مصنف تھے انہوں نے تقریباً ایک ہزار کتابیں تصنیف فرمائیں جو بڑی کارآمد اور مفید عام ہیں دوسرے مصنفین کی کتابوں کی طرح آپ کی اکثر کتابیں اب ناپید ہیں مگر جو کتابیں دستیاب ہیں وہ حنفیت کی ام الفقہ ہیں۔

مبسوط:

علم فقہ میں یہ امام محمد کی سب سے ضخیم تصنیف ہے یہ کتاب چھ جلدوں میں تین ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں دس ہزار سے زائد مسائل مذکور ہیں اس کتاب کے متعدد نسخے ہیں مشہور نسخہ وہ ہے جو ابو سلیمان جوزجانی سے مروی ہے۔ ایک غیر مسلم اہل کتاب اس کو پڑھ کر مسلمان ہوگیا اور کہنے لگا کہ جب محمد اصغر کی کتاب ایسی ہے تو محمد اکبر کی کتاب کی کیا شان ہوگی۔ (کشف الظنون، ج۲، ص۱۰۸۱)

الجامع الکبیر:

اس میں امام صاحب کے اقوال کے ساتھ امام ابو یوسف  اور امام زفر کے اقوال بھی موجود ہیں۔ ہر مسئلہ کو دلیل کے ساتھ لکھتے ہیں۔ بعد کے فقہاء نے اصول فقہ کے مسائل زیادہ تر اسی سے اخذ کیے ہیں بڑے بڑے نامور فقہاء نے اس کی شرحیں لکھیں۔

الجامع الصغیر:

اس کتاب میں امام محمد نے امام ابو یوسف کی روایت سے اماما اعظم کے اقوال لکھے ہیں۔

ان کے علاوہ فقہ میں امام محمد کی مندرجہ ذیل کتابیں مشہور ہیں:

السیر الصغیر، السیر الکبیر، زیادات، کتاب الحج، کتاب النوادر، الاحتجاج علی مالک، لاکتساب فی الرزاق المستطاب، الجرجانیات، الرقیات فی المسائل، عقائد الشیبانیہ، کتاب الاصل فی الفروع، کتاب الاکراہ، کتاب الحیل، کتاب السجلات، کتاب الشروط، کتاب الکسب، الکیسانیات، مناسک الحج، انوار الصیام، الہارونیات وغیرہم۔

اخلاق و کردار:

امام محمد اپنے علم و فضل کی طرح اخلاق و کردار میں بھی امتیازی شان کے مالک تھے وہ نہایت شائستہ مہذب، متواضع، خلیق، صالح، عابد و زاہد انسان تھے کسی کی ایذا رسانی نہ کرتے۔ دوسروں کی امداد  و مدارات آپ کا شیوہ تھا۔ فیاضی و سخاوت حلم و بردباری، جرأت و حق گوئی، خوف آخرت آپ کا شعار حیات تھا امام شافعی فرماتے ہیں:

‘‘مارأیت اعقل ولا افقہ ولا ازھد ولا اورع ولا احسن نطقاً وایراداً من محمد بن الحسن’’ میں نے امام محمد جیسا عاقل فقیہ زاہد و متقی تقریر اور بحث و نقد کرنے والا نہیں دیکھا۔ (تہذیب الاسماء)

امام محمد بڑے عابد و زاہد تھے وہ رات کے تین حصے کرتے ایک حصہ میں درس و تدریس دوسرے حصہ میں آرام فرماتے اور تیسرے حصہ میں عبادت کرتے روزانہ ایک ثلث قرآن کی تلاوت کرتے۔ کبھی کبھی وہ پوری رات بیدار رہتے۔ ایک دفعہ امام محمد اور امام شافعی نے ایک ہی رات گذاری اور بعض کتابوں میں ہے کہ امام محمد امام شافعی کے مہمان ہوئے، امام شافعی تو رات بھر نفلیں پڑھتے رہے لیکن امام محمد ساری رات لیٹے رہے امام شافعی کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی۔ صبح کی نماز کے لیے اپنے استاذ کے وضو کے واسطے پانی رکھا۔ امام محمد نے بغیر جدید وضو کے نماز جو پڑھی تو مزید تعجب ہوا پھر سبب پوچھا امام محمد نے فرمایا تم نے تو اپنی ذاتی نفع کے واسطے ساری رات عبادت کی مگر میں نے پوری امت محمدیہ کے لیے ساری رات جاگ کر کتاب اللہ سے ایک ہزار مسائل نکالے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہ سن کر میں اپنی ساری رات کی عبادات اور شب بیداری کو بھول گیا کیوں کہ عبادت کرتے ہوئے جاگنا اتنا دشوار نہیں جتنا لیٹ کر جاگنا۔ (کردری، ج۲، ص۱۵۹)

وفات:

خلیفہ ہارون رشید آپ کو اپنے ساتھ رے (قم) لے گیا جہاں ۵۸؍سال کی عمر پاکر پیکر علم و دانش نے ۱۸۹؁ھ میں اس دارفانی کو خیر آباد کہا۔ اسی دن مشہور امام النحو کسائی نے بھی وہیں وفات پائی۔ ہارون رشید کو بہت رنج ہوا اور افسوس کے ساتھ کہا آج میں فقہ اور نحو دونوں کو ‘‘رے میں دفن کردیا’’۔

رَے کےمشہور قلعہ حیل طبرک میں سپرد خاک کاگیا۔

کوفہ اس وقت علم و فضل کا گہوارہ تھا یہیں امام محمد کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوا۔ اولاً قرآن، ادب، لغت کی تحصیل کی پھرشیوخ کوفہ کے حلقہ ہائ درس میں شریک ہوئے فطری صلاحیت اور ذوق علم نے صغر سنی ہی میں جوہر قابل بنا دیا۔ چودہ سال کی عمر میں امام اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور امام صاحب کی زندگی میں کسی اور کے سامنے زانوئے تلمذتہہ نہ کیا امام صاحب کی وفات کے بعد امام ابو یوسف سے فقہ کی تکمیل کی۔

فقہ و تفسیر کے علاوہ حدیث کا ذوق بھی امام محمد شیخین کی خدمت میں پیدا ہوچکا تھا مگر اس حلقۂ درس کی بنیادی خصوصیت فقہ و قرآن تھی اس لیے انہیں کسی ایسے شیخ کی ضرورت تھی جو خالص حدیث کا امام ہو۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے انہوں نے مدینہ منورہ کا سفر کیا اور امام مالک کی خدمت میں حاضر ہوکر شرف تلمذ  حاصل کیا امام محمد تین برس تک مدینہ میں مقیم رہے اور بالالتزام امام دارالہجرت سے سماع حدیث کرتے رہے اور سات سو حدیثیں سنیں۔

امام محمد کے اہم شیوخ و اساتذہ یہ ہیں:

امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، اسماعیل بن ابی خالد احمسی، سفیان ثوری، مسعر بن کدام، مالک بن مغول، قیس بن ربیع، عمر بن زر، بکیر بن عام، ابو بکر نہثلی، عبداللہ بن قطاف، محل بن محرز الصبنی، یحییٰ بن مہلت، عبدالرحمٰن بن ن عبداللہ بن عتبہ، اسرائیل بن یونس، بدر بن عثمان، ابو الاحوص، سلام بن سلیم، سلام بن سلیمان، ابو معاویہ ضریر، محمد بن حازم، امام زفر، اسماعیل بن ابراہیم بجلی، فضیل بن غزوان، حسن بن عمارہ، یونس بن اسحاق سبیعی، عبدالجبار بن عباس، محمد بن ابان صالح قرشی، سعید بن عبید طائی، عروہ بن حارث، علاء بن زہیر، امام مالک، ابراہیم بن محمد بن ابی یحییٰ، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عمر بن حفص، خارجہ بن عبداللہ بن ابی سلیمان، محمد بن صلال، ضحاک بن عثمان، اسمٰعیل بن رافع، عطاف بن خالد، اسحاق بن حازم، ہشام بن سعید، اسامہ بن زید لیثی، داؤد بن قیس فراء، عیسیٰ بن ابی عیسیٰ خیاط، عبدالرحمٰن بن ابی زناد، محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی ذئب، حشم بن عراک، سفیان بن عیینہ، زمعہ بن صالح، اسماعیل بن عبدالملک، طلحہ بن عمرو، سیف بن سلیمان، ابراہیم بن یزید اموی، زکریا بن اسحاق، عبداللہ بن عبدالرحمٰن ثقفی، عبدالعزیز بن ربیع بصری، ہشام بن ابی عبداللہ ربیع بن ضمی، ابو جرہ واصل بن عبدالرحمٰن، سعید بن ابی عروبہ، اسمعیل بن ابراہیم بصری، مبارک بن فضالہ عباد بن عوام، شعبہ بن حجاج، ابو مالک عبدالملک، ابو عمرو عبدالرحمٰن اوزاعی، محمد بن راشد مکحولی، اسماعیل بن عیاش حمصی، ثور بن یزید مشقی، عبدالملک بن مبارک ایوب بن عتبہ۔

قوت حفظ اور ذہن رسا:

امام محمد کو خداوند تعالیٰ نے حفظ و ضبط کی بے مثال قوت عطا فرمائی تھی۔ ذہانت و فطانت کے جوہر سے مالا مال تھے۔ وہ تحقیق و جستجو کا فطری ذوق رکھتے تھے۔ امام اعظم کی بارگاہ میں تقریب کا سبب بھی ایک دقیق مسئلہ کا استفسار تھا۔ ابھی تیرہ سال کا سن تھا کہ امام اعظم کی بارگاہ میں اس مسئلہ کو دریافت کرنے کی غرض سے حاضر ہوئے کہ اگر کوئی نابالغ عشاء کی نماز پڑھ کر سوجائے  اور رات ہی میں بالغ ہوجائے تو عشاء کی نماز دہرائے گا یا نہیں؟ امام اعظم نے فرمایا دہرائے گا امام محمد نے اسی وقت اٹھ کر ایک گوشہ نماز پڑھی امام اعظم نے یہ دیکھ کر بے ساختہ فرمایا۔ انشاء اللہ یہ لڑکا رجل رشید ثابت ہوگا اس واقعہ کے بعد امام محمد امام اعظم کی درسگاہ میں گاہ بگاہ حاضر ہونے لگے اور تحصیل علم کا ذوق پروان چڑھنے لگا۔ چناں چہ باضابطہ طور پر مجلس درس میں حاضر ہونے لگے اور تحصیل علم کا ذوق پروان چڑھنے لگا۔ چناں چہ باضابطہ طور پر مجلس درس میں حاضری کی درخواست کی۔ امام صاحب نے فرمایا ‘‘پہلے تم قرآن مجید حفظ کرو پھر حلقہ درس میں شریک ہونا’’ ایک ہفتہ کے بعد حاضر ہوئے تو امام صاحب نے فرمایا میں نے تم سے کہا تھا قرآن مجید حفظ کرکے آنا۔ آپ نے عرض کیا میں نے قرآن مجید حفظ کرلیا ہے۔ امام صاحب نے انہیں حلقۂ درس میں شامل کرلیا۔ (مناقب کردری، ج۲، ص۱۵۵)

یہ دونوں واقعات امام صاحب کی دقیقہ رسی اور بے مثال قوت حافظہ کی دلیل ہیں۔

ایک مرتبہ ہارون رشید نے آپ سے کہا میں نے زبیدہ  سے کہا کہ میں امام عادل ہوں اور امام عادل جنت میں ہوتا ہے۔ زبیدہ نے پلٹ کر کہا نہیں تم ظالم اور فاجر ہو اور جنت کے اہل نہیں ہو۔ آپ نے یہ سن کر ہارون رشید سے فرمایا کبھی گناہ کے وقت یا گناہ کے بعد خدا کا خوف لاحق ہوا؟ ہارون نے کہا خدا کی قسم مجھے گناہ کے بعد اللہ تعالیٰ کا بیحد خوف ہوتا ہے فرمایا پھر تم دو جنتوں کے وارث ہو کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ‘‘ولمن خاف مقام ربہ جنتان’’ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو دو جنتیں عطا فرماتا ہے۔ (مناقب کردری، ج۲، ص۱۵۵)

امام محمد کی خوش بختی تھی کہ انہیں کوفہ جیسی معارف پرور فضا میں پروان چڑھنے کا موقع ملا اور تحصیل فقہ کے لیے امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کے بعد قاضی ابو یوسف کی صحبت نصیب ہوئی۔ اور تحصیل حدیث کے لیے امام دارلہجرت مالک بن انس کی مجلس درس نصیب ہوئی۔ حدیث و فقہ کے علاوہ امام محمد نے سیرو مغازی، عربیت میں بھی کمال پیدا کرلیاتھا۔ بخت کی یاوری سے انہیں رحلت و سفر کے لیے کسی کا محتاج نہ ہونا پڑا۔ کسب معاش سے بے نیاز ہوکر انہوں نے عمر عزیز کا بہت بڑا حصہ علوم و فنون کی تحصیل میں گذار دیا  انہیں ترکہ میں تیس ہزار درہم ملے تھے جن کو طلب علم کی راہ میں خرچ کر ڈالا۔ وہ خود کہتے ہیں: مجھے اپنے والد سے تیس ہزار درہم ترکہ میں ملے ‘‘وحکی عنہ قال مات ابی و ترک ثلاثین الف دراھم فانفقت خمسہ عشر الفا علی النحو والشعر و خمسۃ عشر الفا علی الحدیث والفقہ’’جن میں سے نصف مین نے لغت، نحو اور شعر کی تحصیل میں صرف کئے اور پندرہ ہزار فقہ و حدیث کی طلب میں خرچ کردئیے۔ (کتاب الانساب سمعانی)

فضل وکمال:

امام محمد نے فقہ و حدیث اور دیگر علوم و فنون میں درجۂ امامت حاصل کرلیا تھا۔ ان کے وفورعلم قوت استدلال و استنباط، دقیقہ سنجی، اور حذاقت فی العلم کا اعتراف ملت بیضاءکے اکابر ائمہ اور شیوخ نے کیا ہے۔

m               ابو عبید: ‘‘ما رأیت اعلم کتاب اللہ من محمد بن حسن’’ میں نے محمد بن حسن سے زیادہ کتاب اللہ کا جاننے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ (الفوائد البہیہ، ص۶۶)

m               امام شافعی: ‘‘مارأیت افصح منہ وکنت اظن اذ رأیتہ یقرأ القرآن کان القرأن نزل بلغتہ’’ میں نے ان سے زیادہ فصیح اللسان کسی نہیں دیکھا جب وہ قرآن پڑھتے تھے تو معلوم ہوتا تھا گویا ان ہی کی لغت میں نازل ہوا ہے۔ (کتاب الانساب للسمعانی)

m               ‘‘اعانتی اللہ برجلین بابن عیینہ فی الحدیث ولمحمد فی الفقہ’’ اللہ نے دو شخصوں کےذریعہ میری معاونت فرمائی ابن عیینہ کے ذریعہ حدیث میں اور امام محمد کے ذریعہ فقہ میں۔ (ایضاً)

m               ‘‘انہ کان اذا اخذ فی المسئلۃ کانہ قرآن ینزل لا یقدم حرفاً ولا یوخرہ عنہ’’ امام محمد جب کسی مسئلہ کو بیان کرنا شروع کرتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ قرآن مجید نازل ہورہا ہے۔ کسی حرف میں تقدیم وما تأخیر نہ کرتے تھے اور ایسا منظم کلام کرتے کہ جس میں ایک حرف بھی مقدم و موخر کرنے کی گنجائش نہ ہوتی۔ (ملخصا مقدمہ، تعلیق الممجد)

m               ابن عماد حنبلی: امام محمد بن حسن سے زیاد حلال وحرام، علل حدیث، ناسخ ومنسوخ کا جاننے والا میرے علم میں کوئی دوسرا شخص نہیں۔ اگر لوگوں میں انصاف ہوتا تو وہ یقین کرتے کہ امام محمد جیسا کوئی شخص انہوں نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ (شذرات الذہب)

m               امام نووی: ‘‘طلب الحدیث وسمع  سمعاعاً کثیراً وجالس ابا حنیفۃ و سمع منہ ونظر  فی الرای فغلب علیہ و عرف بہ وتقدم فیہ’’ امام محمد حدیث کی طلب میں مشغول ہوئے اور بہت زیادہ حدیثیں سنیں امام ابو حنیفہ کی ہم نشینی اختیار کی ان سے بھی احادیث سنیں اور مسائل کا استنباط کیا یہ فن ان پر غالب آگیا اس میں دوسروں سے گوئے سبقت لے گئے اسی میں معروف و مشہور ہوگئے۔ (تہذیب الاسماء واللغات)

m               عبدالحی فرنگی محلی: ‘‘کان اعلم بکتاب اللہ ماھراً فی العربیہ والنحو والحساب’’ کتاب اللہ کے بہت جاننے والے تھے عربیت، نحو اور حساب میں ماہر تھے۔ (الفوائد البہیہ، ص۶۶)

m               مزنی: ‘‘مرحبا بمن یملا الآذان سمعاً والقلب فھما’’ مرحبا اس شخص جو کان کو سماع اور قلب کو فہم سے بھردیتا تھا۔ (تاریخ بغداد)

m               ربیع بن سلیمان: ‘‘میں نے محمد بن حسن سے زیادہ کوئی صاحب عقل نہیں دیکھا’’۔

m               امام شافعی: ‘‘مارأیت اعقل ولا فقہ ولا ازھد ولا اورع ولا احسن نطقاولا ایرادا من محمد ن الحسن’’ مین نے امام محمد جیسا عاقل، فقیہ، زاہد متقی خوش گفتار اور بحث و نقد کرنے والا نہیں دیکھا۔ (تہذیب الا سماء نووی)

حلقۂ درس و تلامذہ:

امام محمد نے اپنے عہد کے سب سے بڑے فقیہ اور محدث کے علاوہ بڑے بڑےعلماء علم و فن سے علوم متداولہ میں غیر معمولی کمال پیدا کرلیا تھا۔ ان کی شان علم کا اندازہ اوپر کے اقوال سے کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے شیوخ علم و فن کی دولت کو عام کرنے کے لیے جامع کوفہ میں حلقۂ درس کیا۔ امام اعظم ابو حنیفہ کے پوتے اسماعیل بن حماد کہتے ہیں۔

‘‘کان محمد یجلس فی مسجد الکوفۃ وھو ابن عشرین سنۃ’’ امام محمد نے کوفہ مسجد میں بیس برس میں تدریس شروع کردی تھی۔

امام شافعی کہتے ہیں: ‘‘کان اذا حد ثھم عن مالک امتلأ منزلہ و کثر الناس حتی یضیق علیہ الموضع’’ امام محمد جب مؤطا  کا درس دیتے تھے تو ان کا مکان بھر جاتا لوگ کثرت سے آتے کہ راستے بند ہوجاتے۔ (تہذیب الاسماء و للغات)

امام محمد نے کوفہ کے علاوہ بغداد، رے اور دوسرے مقامات میں بھی جہاں وہ گئے مجلس درس قائم کی اور ان کی فیض رساں باگاہ سے لوگوں نے خوب خوب کسب علم کیا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ‘‘میں نے امام محمد سے اونٹ کے بوجھ کے برابر علم حاصل کیا اگر وہ نہ ہوتے تو مجھ پر وہ علم نہ کھلتا جو کھلا ہے۔ (شذرات الذہب)

آپ کے نام تلامذہ یہ ہیں:

ابو حفص کبیر، امام شافعی، یحییٰ بن معین، موسیٰ بن سلیمان، جوزجانی، ابو عبید قاسم بن سلام، علی سعید، اسد بن فرات، ہشام بن عبداللہ، اسماعیل بن توبہ، علی بن مسلم طوسی (تذکرۃ المحدثین سعیدی ص۱۴۲)

خدمت حدیث:

امام محمد نے اپنے دور کے اساطین حدیث سے اس علم میں کمال پیدا کیا تھا وہ اپنی قوت حفظ و ضبط اور ذکاوت کی بناء پر حدیث نبوی کے بہت بڑے ذخیرے کے حامل بن گئے تھے۔ خصوصیت کے ساتھ امام مالک کی روایتوں کے وہ بہترین حافظ و امین سمجھے جاتے تھے۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں۔ ‘‘کان محمد بن حسن من بحور العلم والفقہ قویا فی مالک’’ امام محمد علم و فقہ کے سمندر تھے اور امام مالک کی مرویات میں قوی تھے۔ (میزان)

وہ درس حدیث کے لیے جامع کوفہ میں مجلس کا انعقاد بھی فرمایا کرتے تھے علم حدیث کے باب میں آپ کی دواہم کتابیں مؤطا امام محمد اور کتاب الآثار محتاج بیان نہیں۔ مؤطا امام مالک کے سولہ نسخے ہیں جن میں یحییٰ بن یحییٰ مصمووی کا نسخہ سب سے زیادہ معتبر خیال کیا جاتا ہے لیکن بعض وجوہ سے امام محمد کا روایت کردہ نسخہ اس سے کہیں زیادہ وقیع اور حامل افادیت ہے یحییٰ کے نسخۂ مؤطا میں کثرت سے مسائل فقہیہ اور امام مالک کے اجتہادات منقول ہیں بہت سے ابواب ایسے ہیں جن کے تحت کوئی حدیث نہیں ہے لیکن مؤطا امام محمد کی خصوصیت یہ ہے کہ کوئی ترجمۃ الباب ایسا نہیں جس کے تحت کوئی مرفوع یا موقوف روایت نہ ہوظاہر ہے کہ جس کتاب حدیث میں رائے و اجتہاد کا شمول ہوگا اس کے مقابلہ میں حدیث کی وہ کتاب جو نفس حدیث پر مشتمل ہوگی اسے فضیلت حاصل ہوگی۔

یحییٰ کے نسخے میں صرف امام مالک کی مرویات ہیں لیکن امام محمد کے نسخہ میں دوسرے شیوخ حدیث کی روایتیں بھی شامل ہیں ظاہر ہے کہ اس اضافہ میں افادیت زیادہ ہوگی۔

مؤطا امام محمد کی چند خصوصیات یہ ہیں۔

اس کتاب میں امام محمد ترجمۃ الباب کے بعد سب سے پہلے  اخبرنا مالک سے امام مالک کی روایت نقل کرتے ہیں اگر مسلک حنفی اس روایت کے مطابق ہوتو اس کے بعد ہذاناخذ فرماتے ہیں اور اگر اس روایت کا ظاہر مسلک حنفی کے خلاف ہوتو اس کی توجیہ ذکر کرکے مسلک حنفی کی تائید میں احادیث وآثار ذکر کرتے ہیں اور بسا اوقات دوسرے ائمہ کے اقوال بھی بیان کرتے ہیں۔

مؤطا امام محمد میں کل ۱۱۸۰؍احادیث ہیں جن میں دس سو پانچ حدیثیں امام مالک سے مروی ہیں اور ایک سو پچھتر دوسرے شیوخ سے مروی ہیں۔

حدیث میں امام محمد کی دوسری تصنیف کتاب الآثار ہے اس کتاب میں امام محمد نے احادیث سے زیادہ آثار کو جمع کیا ہے غالبا اسی وجہ سے ان کی یہ کتاب کتاب الآثار کے نام سےمشہور ہوئی اس کتاب میں ایک کتاب میں سو چھ احادیث ۷۱۸؍آثار ہیں ان کے علاوہ امام اعظم کے اقوال بھی شامل ہیں۔

یہ کتاب درحقیقت امام اعظم کی تصنیف ہے جس کے بارے میں امام محمد بن شجاع نے تصریح کی ہے امام صاحب نے چالیس ہزار احادیث و آثار سے کتاب الآثار کا انتخاب فرمایا ہے اور ان کے تلامذہ نے اس کی روایت کرکے اپنی طرف سے اضافہ و ترمیم کیا ہے جس کی وجہ سے بعد میں یہ نسخے مرتبین کے نام سے مشہور و معروف ہوئے اس طرح امام محمد، امام ابو یوسف، امام حماد، امام زفر، امام حفص بن غیاث کی کتاب الآثار امام ابو حنیفہ کی ہی کتاب الآثار ہے۔ (معارف ومأثر، ص۱۹۸)

کتاب الآثار:

امام محمد کی چند خصوصیات یہ ہیں:

اس کتاب میں بالخصوص صحابہ و تابعین  کے آثار کو فقہی ابواب پر جمع کیا گیا ہے اسی لیے اس میں احادیث مرفوعہ کے مقابلہ میں آثار موقوفہ بہت زیادہ ہیں اس کتاب کا مقصد صحاب و تابعین کے آثار کو یکجا کر کے یہ دکھانا ہے کہ جن احادیث کی آثار سے موافقت ہوتی ہے وہ معمول  بہاہیں گویا صحابہ و تابعین کے آثار احادیث رسول کے لیے شواہد و دلائل ہیں کیوں کہ مختلف فیہ احادیث کے بارے میں کبار صحابہ و تابعین کا تعامل، معیار وحکم کی حیثیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ ائمہ مجتہدین نے صحابہ و تابعین کے آثار کو خاص اہمیت دی جس کی ایک سنہری کڑی کتاب الآثار امام محمد کتاب میں اکابر و اعیان صحابہ کے اقوال و افعال اور فیصلے  مروی ہیں جو جماعت صحابہ میں مرجع و حجت تھے کتاب الآثار میں امام محمدکی تحقیق بصیرت اور اجتہاد کا جگہ جگہ اثر ظاہر ہوتا ہے۔

فقہ و فتاویٰ:

امام محمد کی علمی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو علم فقہ ہے اور وہ اپنے عہد میں فقہ کے تاجدار تھے ان کی فقہی بصیرت و اجتہاد کے دوسرے مجتہدین صرف معترف ہی نہیں بلکہ ان کی صحبت کے تربیت یافتہ یا ان کی فقہی تصانیف کے خوشہ چیں ہیں۔

امام احمد بن حنبل  کا بیان ہے فقہ کے تمام دقیق مسائل میں نے امام محمد سے اخذ کیے ہیں امام مزنی کہتے ہیں امام ابو حنیفہ اہل عراق کے سردار ہیں ابو یوسف ان سب سے زیادہ متبع سنت ہیں امام محمد نے سب سے زیادہ تفریع کی ہے۔

m               حافظ ذہبی کہتے ہیں: ‘‘انتھت  الیہ ریاسۃ الفقہ بالعراق بعد ابی یوسف وتفقہ بہ الائمۃ’’ عراق میں امام ابو یوسف کےبعد فقہ کی ریاست امام محمد پر ختم ہوگئی اور ان سے ائمہ نے تفقہ حاصل کیا۔ (میزان ترجمہ امام محمد)

امام شافعی کہا کرتے تھے میں فقہ میں امام محمد کا سب سے زیادہ ممنون احسان ہوں۔

امام محمد نے ایک لاکھ سے زیادہ مسائل مستنبط کیے استنباط و استخراج مسائل کے لحاظ سے ان کو اجتہاد کا درجہ حاصل تھا خلیفہ ہارون رشید نے آپ کی فقہی بصیرت سے متأثر ہوکر قاضی بنایا۔ امام محمد جب تک اس عہدہ پر فائز رہے بلاخوف و خطر عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے صادر فرماتے رہے انہوں نے کبھی اپنے فیصلوں میں خلیفۂ وقت یا ارکان دولت کی پرواہ نہ کی چناں چہ جب امام یحییٰ بن عبداللہ کے خلاف عہد شکنی کا مسئلہ پیش ہوا تو امام محمد نے خلیفہ ہارون رشید کی مرضی کے خلاف فیصلہ دیا تو آپ عتاب شاہی میں مبتلا ہوئے منصب قضاء و افتاء سے معزول کرکے آپ کو قید کردیا گیا اس طرح آپ نے قیدو بند کی صعوبتیں جھیلیں کچھ دنوں بعد آپ کی قید سے نکال کر اعزاز و اکرام کے ساتھ قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز کیا گیا۔ (مناقب کردری، ص۱۶۵)

تدوین فقہ کے باب میں امام محمد کا مرتبہ ان کے تمام معاصرین میں سب سے بلند ہے انہوں نے امام اعظم کے مجتہدات دوسرے ائمہ کے اقوال نیز اپنے استنباطات و تفریعات کو مبسوط، جامع کبیر، جامع صغیر، سیر صغیر، سیر کبیر اور زیادات میں جمع کرکے صرف احناف ہی نہیں بلکہ دیگر مکاتب فقہ کے فقہاء کے لیے اجتہاد و استنباط مسائل کی راہ کھول دی بلاشبہ دنیائے اسلام پر امام محمد کا یہ احسان عظیم ہے۔

تصانیف:

امام محمد امت اسلام کے عظیم مصنف تھے انہوں نے تقریباً ایک ہزار کتابیں تصنیف فرمائیں جو بڑی کارآمد اور مفید عام ہیں دوسرے مصنفین کی کتابوں کی طرح آپ کی اکثر کتابیں اب ناپید ہیں مگر جو کتابیں دستیاب ہیں وہ حنفیت کی ام الفقہ ہیں۔

مبسوط:

علم فقہ میں یہ امام محمد کی سب سے ضخیم تصنیف ہے یہ کتاب چھ جلدوں میں تین ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں دس ہزار سے زائد مسائل مذکور ہیں اس کتاب کے متعدد نسخے ہیں مشہور نسخہ وہ ہے جو ابو سلیمان جوزجانی سے مروی ہے۔ ایک غیر مسلم اہل کتاب اس کو پڑھ کر مسلمان ہوگیا اور کہنے لگا کہ جب محمد اصغر کی کتاب ایسی ہے تو محمد اکبر کی کتاب کی کیا شان ہوگی۔ (کشف الظنون، ج۲، ص۱۰۸۱)

الجامع الکبیر:

اس میں امام صاحب کے اقوال کے ساتھ امام ابو یوسف  اور امام زفر کے اقوال بھی موجود ہیں۔ ہر مسئلہ کو دلیل کے ساتھ لکھتے ہیں۔ بعد کے فقہاء نے اصول فقہ کے مسائل زیادہ تر اسی سے اخذ کیے ہیں بڑے بڑے نامور فقہاء نے اس کی شرحیں لکھیں۔

الجامع الصغیر:

اس کتاب میں امام محمد نے امام ابو یوسف کی روایت سے اماما اعظم کے اقوال لکھے ہیں۔

ان کے علاوہ فقہ میں امام محمد کی مندرجہ ذیل کتابیں مشہور ہیں:

السیر الصغیر، السیر الکبیر، زیادات، کتاب الحج، کتاب النوادر، الاحتجاج علی مالک، لاکتساب فی الرزاق المستطاب، الجرجانیات، الرقیات فی المسائل، عقائد الشیبانیہ، کتاب الاصل فی الفروع، کتاب الاکراہ، کتاب الحیل، کتاب السجلات، کتاب الشروط، کتاب الکسب، الکیسانیات، مناسک الحج، انوار الصیام، الہارونیات وغیرہم۔

اخلاق و کردار:

امام محمد اپنے علم و فضل کی طرح اخلاق و کردار میں بھی امتیازی شان کے مالک تھے وہ نہایت شائستہ مہذب، متواضع، خلیق، صالح، عابد و زاہد انسان تھے کسی کی ایذا رسانی نہ کرتے۔ دوسروں کی امداد  و مدارات آپ کا شیوہ تھا۔ فیاضی و سخاوت حلم و بردباری، جرأت و حق گوئی، خوف آخرت آپ کا شعار حیات تھا امام شافعی فرماتے ہیں:

‘‘مارأیت اعقل ولا افقہ ولا ازھد ولا اورع ولا احسن نطقاً وایراداً من محمد بن الحسن’’ میں نے امام محمد جیسا عاقل فقیہ زاہد و متقی تقریر اور بحث و نقد کرنے والا نہیں دیکھا۔ (تہذیب الاسماء)

امام محمد بڑے عابد و زاہد تھے وہ رات کے تین حصے کرتے ایک حصہ میں درس و تدریس دوسرے حصہ میں آرام فرماتے اور تیسرے حصہ میں عبادت کرتے روزانہ ایک ثلث قرآن کی تلاوت کرتے۔ کبھی کبھی وہ پوری رات بیدار رہتے۔ ایک دفعہ امام محمد اور امام شافعی نے ایک ہی رات گذاری اور بعض کتابوں میں ہے کہ امام محمد امام شافعی کے مہمان ہوئے، امام شافعی تو رات بھر نفلیں پڑھتے رہے لیکن امام محمد ساری رات لیٹے رہے امام شافعی کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی۔ صبح کی نماز کے لیے اپنے استاذ کے وضو کے واسطے پانی رکھا۔ امام محمد نے بغیر جدید وضو کے نماز جو پڑھی تو مزید تعجب ہوا پھر سبب پوچھا امام محمد نے فرمایا تم نے تو اپنی ذاتی نفع کے واسطے ساری رات عبادت کی مگر میں نے پوری امت محمدیہ کے لیے ساری رات جاگ کر کتاب اللہ سے ایک ہزار مسائل نکالے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہ سن کر میں اپنی ساری رات کی عبادات اور شب بیداری کو بھول گیا کیوں کہ عبادت کرتے ہوئے جاگنا اتنا دشوار نہیں جتنا لیٹ کر جاگنا۔ (کردری، ج۲، ص۱۵۹)

وفات:

خلیفہ ہارون رشید آپ کو اپنے ساتھ رے (قم) لے گیا جہاں ۵۸؍سال کی عمر پاکر پیکر علم و دانش نے ۱۸۹؁ھ میں اس دارفانی کو خیر آباد کہا۔ اسی دن مشہور امام النحو کسائی نے بھی وہیں وفات پائی۔ ہارون رشید کو بہت رنج ہوا اور افسوس کے ساتھ کہا آج میں فقہ اور نحو دونوں کو ‘‘رے میں دفن کردیا’’۔

رَے کےمشہور قلعہ حیل طبرک میں سپرد خاک کاگیا۔


متعلقہ

تجویزوآراء