امام المسلمین حضرت امام موسی کاظم
آں مقتدائے جمیع امم، امام ابو الحسن موسیٰ کاظم بن جعفر الکاظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئمہ اہل بیت میں سے ساتویں امام۔ ہیں۔ آپ کا اسم گرامی موسیٰ کنیت ابو الحسن ابو ابراہیم اور ابو علی ہے۔ آپ کے القاب بوجہ عنایت حلم، صبر، کاظم، صالح، صابر، اور امین تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی ام ولد حمیدہ تھا۔ آپ کی ولادت بروز یکشنبہ سات ماہ صفر ۱۲۸ھ بمقام منزل ابوا جو م کہ و مدینہ منورہ کے مابین ہے واقعہ ہوئی۔ اپنے والد ماجد کے وصال کےوقت آپ کی عمر بیس سال تھی کہ جب مسند امامت پر متمکن ہوئے۔
کمالات و کرامات
مراۃ الاسرار میں کتاب حبیب السیر سے روایت ہے کہ ایک دن امام موصوف کی خدمت میں ایک شخص نےحاضر ہوکر طیور کی زبان میں باتیں کرنا شروع کیں اور امام صاحب بھی اسی زبان میں ج واب دیتے رہے۔ جب وہ چلا گیا تو کسی نے آپ سے دریافت کیا کہ کونسی زبان تھی ہم نے تو اس قسم کی زبان نہیں سنی۔ آپ نےفرمایا کہ یہ جنات کی ایک قوم زبان ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حق تعالیٰ نے آپ کو تمام مخلوقات کی زبانوں کا علم عطا فرمایا تھا۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وعلم آدم الاسماء کلہا (اور عطا کیا آدم کو تمام اسماء وصفات کا علم)
کتاب شواہد النبوت یں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ شفیق بلخی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں سفر حجاز کے دوران قاسیہ کے مقام پر پہنچا۔ وہاں میں نے ایک خوبصورت نوجوان جو پشمنیہ پہنے جائے نماز کندھے پر رکھے، جوتا پہنے ہوئے تنہا صحرا کے گوش میں بیٹھا تھا۔ میں نے دل میں کہا کہ یہ جوان صوفیاء میں سے معلوم ہوتا ہے اور مسلمانوں کی گردن پو بوجھ بنا ہوا ہے۔ میں جاؤں اور اس کو ہدایت کرؤن کہ یہ کام ترک کرے۔ جونہی میں اس کے قریب پہنچا ابھی منہ سے ایک لفظ نہیں نکالا تھا کہ انہوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا یا شفیق اجتنبو اکثیر من الظن انّ بعض الظن اثمہ (اے شفیق زیادہ وہ بدگمانی سے پرہیز کرو۔ بعض بدگمانی گناہ ہے) یہ کہہ کر وہ اٹھے اور چلے گئے۔ میں نے دل میں کہا کہ یہ کوئی مردِ صالح معلوم ہوتا ہے کہ جس کو میرا امام اور میرے دل کی بات معلوم ہوگئی۔ مجھے انکے پاس جاکر فیض صحبت حاصل کرنا چاہئے لیکن میں نے جس قدر کوشش کی ان تک رسائی نہ ہوئی۔ دوسری منزل پر میں نے دیکھا کہ وہ کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس حالت میں ان کے جسم پر لرزہ تھا اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ میں ذار ٹھہر گیا تاکہ وہ نماز سے فارغ ہوجائیں۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا اے شفیق یہ پڑھو وَاِ نِّی نغفار لمن تاب وآمن وعمل صالحا ثم اھتدےٰ (اور اس کے گناہ معاف کرتا ہوں جس نے توبہ کی، ایمان لایا اور نیک عمل کیے اور وہ ہدایت پاگیا) یہ کہہ کر وہ چلے گئے میں نے خیال کیا کہ یہ ابدال میں سے ہیں جنہوں نے دو دفعہ میرے دل کی بات معلوم کرلی ہے۔ دوسری منزل پر میں نے ان کو دیکھا کہ کوزہ ہاتھ میں لیے کوئیں پر پانی لینے کی خاطر کھڑے تھے۔ جب میں نے کنویں کی طرف نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ پانی اوپر آگیا ہے انہوں نے ہاتھ بڑھا کر کوزہ بھرلیا اور وضو کر کے چار رکعت نماز ادا کی۔ اس کے بعد وہ ایک ریت کےتیلے کی طرف گئے اور کوزے میں ریت ڈال کر اسے ہلاتے تھے اور پھر کھارہے تھے۔ میں نے انکے پاس جاکر سلام کیا جس کا انہوں نے جواب دیا۔ میں عرض کیا جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مرحمت فرمایا ہے مجھے بھی عنایت فرمادیں۔ انہوں نے فرمایا اے شفیق نعمت الٰہی ہمیں ہمیشہ ظاہری اور باطنی طور پر ملتی ہے۔ تم بھی عطا کنندہ کے حق میں نیک گمان رکھو اس کے بعد انہوں نے کوزہ میرے حوالہ کیا جب میں نے اس میں سے کھایا تو معلوم ہوا کہ شدا شکر ہے کہ جس سے زیادہ خوب تر اور لذیز تر میں نے کوئی چیز نہیں کھائی تھی نہ میں نے خوب پیٹ بھر کر کھایا اور کئی روز مجھے کھانے پینے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی اسکے بعد میں نے ان کو پھر کبھی نہ دیکھا۔ جب میں مکہ معظمہ پہنچا تو دیکھا کہ آدھی رات کے وقت کمال خشوع اور گریہ وزاری کے ساتھ وہ نماز میں مشغول تھے۔ اور صبح تک نماز پڑھتے رہے اور طواف کرتے رہے۔ جب وہ باہر گئے تو میں بھی ان کے پیچھے چلا گیا لیکن سفر کی حالت کے بخلاف اس وقت آپ کے گرد بہت نوکر اور غلام جمع تھے اور آداب بجالارہے تھے میں نے حیران ہوکر ایک آدمی سے پوچھا کہ یہ کون ہیں اس نے کہا یہ امام موسیٰ بن امام جعفر صادق ہیں تب میں نے دل میں کہا کہ اس قسم کے عجائب وغرائب جو میں ان سے دیکھتا چلا آیا ہوں ان سے بعید نہیں۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دفعہ خلیفہ ہارون الرشید نے علی بن یقطین کو قیمتی پار چات بطور تحفہ عطا کیے ان میں سے ایک نہایت ہی قیمتی زرر بفت کپڑا تھا اس نے نہایت محبت کی وجہ سے جو اس کو حضرت امام موسیٰ کاظم کے ساتھ تھی ان تحائف کا کچھ حصہ امام صاحب کی خدمت میں پیش کردیا۔ آپ کے تمام تحائف قبول کرلیے لیکن وہ زربغت کپڑا یہ کہہ کر واپس کردیا کہ ایک دن یہ تمہارے کام آئے گا۔ چند ایام کے بعد علی بن یقطین کے ایک ملازم نے اس سے ناراض ہوکر خلیفہ ہارونالرشید کو بتادیا کہ علی بن یقطین امام موسیٰ کاظم کا معتقد ہے اور آپ کے عطا کردہ تمام تحائف ان کو دے دیئے ہیں یہ خبرسن کر بادشاہ غضب ناک ہوا اور علی بن یقطین کو بلاکر پوچھا کہ وہ زربقت کپڑا جو میں نے تجھے دیا تھا کہاں ہے اس نے جواب دیا کہ میرے پاس موجود ہے۔ باشاہ نے کہا میرے پاس لے آؤ۔ اس نے نوکر بھیج کر وہ منگوالیا۔ بادشاہ نے دیکھ کر کہا کہ اچھا ٹھیک ہے میں آئندا چغل خور نوکروں کی باتوں کا اعتبار نہیں کروں گا۔
شواہد النبوت میں لکھا ہے کہ ایک شخص کا بیان ہے کہ میں مدینہ طیّبہ میں مقیم تھا اور مکان کرایہ پر لیا ہوا تھا۔ م یں رات دن حضرت امام کاظم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ ایک دن سخت بارش ہوئی یہ دیکھ کر میں امام صاحب کی خدمت میں چلا گیا تاکہ تکلیف کی حالت میں خدمت بجا لاؤں۔ مجھے دیکھتے ہی آپ نے فرمایا کہ تم گھر چلے جاؤ۔ تیرا گھر گر گیا ہے۔ جب میں گھر پہنچا تو دیکھا کہ واقعی بارش میں میرا گھر گر چکا تھا۔ میں نے لوگوں کو بلاکرسامان باہر نکلوایا ہر چیز صحیح وسلامت ملی صرف ایک لوٹا نہیں مل رہا تھا۔ جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے دریافت فرمایا کہ سناؤ خیریت رہی۔ میں نے عرض کیا کہ باقی تماما سامان صحیح و سلامت ہے لیکن ایک لوٹا نہیں مل رہا آپ نے تھوڑی دیر کے لیے سرنگوں ہونے کے بعد فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ لوٹا فلاںجگہ پر بھول آئے ہو۔ میںنے وہاں جاکر معلوم کیا تو لوٹا مل گیا۔ غرضیکہ آپ کے کمالات اس قدر ہیں کہ اس مختصر کتاب میں بیان نہیں ہوسکتے۔
وصال پُر ملال
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ امام موسیٰ کاظم بتاریخ پچیس ماہ رجب ۱۸۲ھ ہارون الرشید کے عہد سلطنت میں اس جہان فانی سے رخصت فرماگئے آپ کی عمر پچپن ۵۵برس اور مدت امامت پینتیس سال تھی۔ اکثر کتب تاریخ میں لکھا ہے کہ امام معصوم کو خلیفہ ہارون الرشید نے زہر دیا تھا۔ آپ کا مدفن بغداد ہے جس روز آپ کوزہر دیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ آج مجھے زہر دیا گیا ہے۔ کل میرا جسم زرد ہوجائے گا۔ اس کے بعد سرخ ہوجائے گا۔ جب جس سیاہ ہوجائے گا تو میں مرجاؤں گا۔ چنانچہ اسی طرح ہوا۔
اولاد امجاد
آپ کے اکتیس بیٹے اور اٹھائیس بیٹیاں تھیں۔ دوسری روایت کے مطابق آپ کے بیس بیٹے اور سترہ بیٹیاں تھیں۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہم صلی علی محمد والہ واصحابہ اجمعین۔
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد
(اقتباس الانوار)