حضرت ابو اسماعیل عبد اللہ بن ابی منصور محمد انصاری ہروی

حضرت ابو اسمٰعیل عبد اللہ بن ابی منصور محمد انصاری ہروی علیہ الرحمۃ

          آپکا لقب شیخ الاسلام ہے۔شیخ الاسلام سے جو اس کتاب میں متعلق واقع ہو یہی حضرت مراد ہیں۔چنانچہ شروع کتاب میں ہم نے اس کا اشارہ کردیا ہے۔آپ ابومنصور امۃ الانصاری کی اولاد میں سے ہیں جو ابو ایوب انصار کے صاحبزادہ ہیں جو کہ رسولﷺ کے ساتھ صاحب کجاوہ ہیں ۔ایسے وقت میں کہ مدینہ شریف میں آپ نے ہجرت فرمائی تھی۔ امۃالانصاری امیر المؤمنین عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں احنف بن قیس کے ساتھ خراسان میں آئے تھےاور ہرات میں مقیم ہو گئے تھے۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ میرے والد ابومنصور بلخ میں شریفہمزہ عقیلی کے ساتھ رہے ہیں ۔ ایک دفعہ ایک عورت نے شریف سے کہا ۔

          ابو منصور سے کہو کہ میرے ساتھ نکاح کرلے۔میرے باپ نے کہا کہ میں ہر گز نکاح نہ کرونگااور اسکو رد کردیا۔ شریف نے کہا کہ آخر بیوی کروگےتمہارے گھر لڑکا پیدا ہوا اور کیسا بیٹا ۔جب ہرات میں آئےاور نکاح کیا تو میں زمین پر آیا ۔شریف نے بلخ میں کہا کہ ہمارے ابو منصور کا ہرات میں بیٹا پیدا ہوا ہے۔ایسا بزرگ ہے کہ جامع مقامات ہیں۔ شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ یہ کلمہ تعریف کا ہے کیونکہ تمام نیکیاں اسی کے ضمن میں ہے۔یعنی ایسے ہے کہ جس کی بوجہ خوبی کے تعریف نہیں کرسکتے ۔ شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ میں مقندذ میں پیدا ہوا تھا اور وہیں بڑا ہوا تھا ۔ میری پیدائش جمعہ کی ہے غروب آفتاب کے وقت ۲ شعبان ۳۵۹ ھ کو ۔و ہ یہ بھی کہتے ہیں میں ربیعی ہوں بہار کے وقت پیدا ہوا ہوں۔ بہار کو بہت دوست رکھتا ہوں آفتاب برج ثور کے ا۷ درجہ پر تھا جب میں پیدا ہوا تھا ۔ جب آفتاب وہاں پہنچتاہے تو میری سالگر ہوتی ہےاور وہ موسم بہار کا درمیانہ حصہ ہوتا ہے۔پھول ریحان کا وقت ہوتا ہے۔آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ ابو عاصم  میرے پیر اور رشتہ دار ہیں۔ میں لڑکپن میں ان کے پاس جایا کرتا تھا ۔ ایک دفعہ میں ان کے پاس گیا ۔روٹی اور آب کامہ (ایک قسم کا ترش پانی ہوتا ہے)میرے سامنے رکھا ۔

          مجھے قوالی سنائی اور کچھ پڑھا انکی بیوی جو بڑھیا تھیں وہ بزرگ اوربا حشمت تھیں کہنے لگیں کہ میرے پیر یعنی خضر علیہ السلام نے عبداللہ کو دیکھا اور پوچھا کہ وہ کون ہے۔میں نے کہا فلاں شخص ہے۔اس نے کہا کہ مشرق سے لے کر مغرب تک اس سے جہاں بھر جائے گا یعنی اسکی شہرت سے۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ یہ انکا پوچھنا ا نکی ایک عادت ہے۔ورنہ وہ خود جانتے تھے لیکن پوچھ لیتے ہیں بانو عالیہ ایک عورت با حشمت تھیں پوسنگ میں رہتی تھیں۔جب شیخ الاسلام پیدا ہوئے تو خضر ﷤ نے ان سے کہا کیا تم نے اس لڑکے کو ہرات میں دیکھا ہے۔مشرق سے لیکر مغرب تک اس سے بھر جائے گا اور بانو نے یہ بھی کہا ہے کہ میرےیعنی خضر ﷤نہ کہا ہے کہ تمہارے شہر میں ایک بچہ سترہ سال کا ہے ۔ اسکا والد نہ اسکی والدہ اور نہ وہ خود جانتا ہے کہ کون ہے۔

          لیکن یہ حال ہوگا کہ تمام روئے زمین میں کوئی اس سے بہتر نہ ہوگا یہ یوں کہا کہ مشرق سے لیکر مغرب تک اس سے بھر جائے گا۔اس بانو عالیہ کا یہ حال تھا کہ اس کی ایک لڑکی دیڑھ سال کی تھی پھر اس نےخدائے سبحانہ وتعالیٰ کوچاہا لڑکی کو چھوڑ کر حج کو چلی گئی ۔ شیخ ابو اسامہ جو کہ حرم کے شیخ تھے انہوں نے انکو خاطر سے رکھا کیونکہ اس کےچچا تھےاور یہ بانو عالیہ ایک کاغذ رکھتی تھی۔اسکو پیروں کے سامنے لے جاتی تھی کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے اس کاغذ پر لکھ دو۔

          شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ اول مجھ کو مکتب میں بٹھایا تو چار سالہ تھا پھر جب نو سال کا ہوگا تو قاضی ابو المنصور جا روذی سے ملا یعنی حدیث لکھنے لگا۔چودہ سال کا تھا جب مجھے مجلس میں بٹھلا دیا یعنی وعظ کہنے لگا اور مکتب خانہ میں چھوٹی عمر میں شاعر بن گیا ۔شعر کہا کرتا تھا ۔چنانچہ اور لوگ حسد کیا کرتے تھے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک چھوٹا لڑکا خواجہ یحیٰ عمار کے رشتہ داروں میں سے مکتب میں تھا ۔میں فی البدیع عربی شعر کہا کرتا تھا اور جو بچے مجھ سے کہ فلاں مطلب کا شعر کہ دو میں وہی کہ دیتا تھا ۔بلکہ اس سے بڑھ کر ایک دفعہ اس لڑکے نے اپنے باپ سے کہا کہ وہ جس مطلب میں تم چاہو شعر لکھتا ہے اسکا باپ فاضل تھا اس نے کہا جب تم مکتب میں جاؤ تو اس سے کہو کہ اس بیت کو عربی میں کہدے۔

روزے کہ بشادی گزرد  روز  آنست      واں روز دگر روز  بد اندیشانست

میں نے سن کر اسی وقت کہہدیا۔

ویوم الفتا ما عاشہ فی مسیرۃ    دسایئرہ یوم الشفا ء عصیب

رم الوصل مادمت السعادہ فالدجی  بتنغیض عیش الا کرمین رقیب

 

یعنی جو ان کا وہ دن ہے کہ جو خوشی میں گزرجائےکیونکہ باقی دن تو سختی میں گزرتے ہیں جب تو سعادت کو چاہتاہے وصل کا قصد کر کیونکر(فراق)کا اندھیرامعززلوگوں کیعیش کی بدمزہ کرنے کے لیےتیار ہے اور یہ مصرع بھی مجھ سے کہا گیا۔عربی میں بنا دو۔مصرعہ

                             آپ آیا بازدرجوئےکہ روزے رفتہ بود

میں نے کہا

          عھدنا الماء فی نھر و نرجو                           کماز عمو ار جوع الماء فیہ

یعنی پچھلے دنوں پانی کو ہم نے نہر میں پایا تھااور امید رکھتے ہیں جیسا کہ ان کا گمان ہے کہ پانی اس میں لوٹ آئے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مکتب میں ایک لڑکاخوبصورت تھا،جس کا نام ابو حامد تھا۔اس نے کہا کہ میرے لیے کوئی شعر کہو۔

میں نے کہا۔

          لابی احمدوجہ قمر اللیل غلامہولہ لحظہ غزال زشق القلب سھامہ

 

یعنی جو احمد کا ایسا چہرہ خوبصورت ہے کہ رات کا چاند اس کا غلام ہے اور اس کی آنکھیں ہرن کی ہیں کہ بس کہ تیرنےدل کو تیر ڈالا ہے۔وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ میرے عربی شعر چھ ہزار سے زائد ہے۔کہ درست وزن پر لوگوں کے ہاتھوں اور میرے اجزاء میں لکھے ہوئے ہیں۔آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے قیاس کیا کہ کس قدر شعر مجھے یاد ہوں گے جو عرب کے اشعار میں سے ہو تو ستر ہزار سے زائد یاد نکلے ایک اور وقت میں کہا ہے کہ میں ایک لاکھ عرب کہ اشعارمتقدمین متاخرین کے یاد رکھتا ہوں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ صبح کے وقت میں قاری صاحب کے پاس جاتا اور قرآن پڑھتا۔جب وہان سے لوٹتا تو چھ ورک لکھ ڈالتا اور یاد کر لیتا جب درس سے فارغ ہوتا تو دس بجے ادیب کے پاس جاتا اور تمام دن لکھتا۔ اپنے وقت کو میں نے تقسیم کیا ہواتھا۔

          چنانچہ مجھ کو فرصت نہ ہوتی اور میرا وقت پورا نہ ہوتابلکہ ابھی اور مجھ کو ضرورت رہتی۔اکژ ایسا ہوتا تھا کہ عشاء کی نماز کہ بعد تک کچھ نہ کھایا ہوتاوہ یہ بھی کہتے ہیں کہ رات کہ وقت چراغ کے سامنے حدیث لکھا کرتا تھا۔روٹی کھانے کی مجھ کو فرصت نہ ملتی تھی۔میری والدہ روٹی کے لقمہ بناتی اور میرے منہ میں ڈالتی اور میں لکھتا رہتا تھا۔آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ حق تعالی نے مجھے ایسا حافظہ دیا تھا کہ جو میرے قلم کےنیچے سے گزر جاتا وہ مجھے حفظ ہو جاتا ۔آپ یہ بھی کہتے مجھے تیس ہزار حدیثیں بھی یاد ہیں۔ہزار ہزار اسناد کے ساتھ۔آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو کچھ محنت میں نے حدیث مصطفیٰﷺ کی طلب میں کی ہے۔ہز گز کسی نے نہ کی ہوگی۔ایک منزل نیشاپور سے وزباد تک کہ بارش پڑتی تھی۔میں رکوع کی حالت میں چلتا تھا۔ حدیث کی جزیں شکم پر رکھی ہوئی تھیں تاکہ تر نہ ہوجائیں۔

          وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ مجھ کو وہی نیت کافی ہے کہ مجھ کو علم سیکھنے سے پہلے تھی یعنی دنیا کے لیےنہ ہو بلکہ خدا کے لیےاور سنت مصطفیٰﷺکی مدد کے لیے ہو۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ میرے زمانہ میں کسی نے مجھ جیسا کام نہیں کیا،اگر اپنے بدن پر ہاتھ رکھتا اور لوگ کہتے یہ کیا ہےتو اس کے لیے حدیث سند رکھتا تھا۔آپ یہ بھی فرماتی ہیں کہ میں نے تین ہزار اسناد سے حدیث لکھی ہے جو تمام سنی المذہب صاحب حدیث تھے۔ان میں بدعتی کوئی نہ تھا،نہ صاحب رائے اور کسی کو یہ بات میسر نہ ہوئی۔آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے بہت سی عالی سندیں چھوڑدیں ہیں اور نہیں لکھیں کیونکہ وہ مرد صاحب رائے تھایا اہل کلام سے کیونکہ محمد بن سیرین فرماتے ہیں۔ان ھذا العلم دین فانظر واعمن تاخذونہیہ علم ایک دین ہے۔

        پس غور کرو کہ کس سے یہ دین سیکھتے ہو۔نیشاپور میں قاضی ابو بکر عالم کو میں نے دیکھااور اس سے میں نے حدیث نہیں لکھی۔ کیونکہ وہ اہل کلام تھے۔اگرچہ اس کی اسنادیں بلند تھیں۔آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں وعظ و تفسیر قرآن میں خواجہ امام یحییٰ عمارکا شاگرد ہو۔اگر میں ان کو نہ دیکھتا تو منہ نہ کھول سکتا۔یعنی وعظ و تفسیر کرنے میں چودہ سال کا تھا اور خواجہ یحییٰ نے قہند زیان سے کہا کہ عبداللہ کو تم ناز سے رکھو۔اس سے امامت کی خوشبو آتی ہے۔

(نفحاتُ الاُنس)


متعلقہ

تجویزوآراء